November 15, 2015

CIVIL & MILITARY BAD RELATIONSHIP

 


اسلام آباد(نیوز ڈیسک) سول ملٹری تعلقات میں سرد مہری کی اصل وجوہات سامنے آگئیں جس کے مطابق سول ملٹری تعلقات میں کشیدگی کی وجہ صرف نیشنل ایکشن پلان میں سست پیش رفت نہیں، بلکہ اس کی دیگر وجوہات بھی ہیں۔ڈان کے ساتھ پس منظر بات چیت میں ملٹری حکام اور عوامی رہنما سول ملٹری تعلقات میں حالیہ کشیدگی کی وجوہات کے حوالے سے اپنی ہی تشریحات پیش کرتے رہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر سست پیش رفت کے علاوہ اور بھی کئی وجوہات ہیں جو سول ملٹری تعلقات کو غیر متوازن کرنے کا سبب بنیں.رواں ماہ 10 نومبر کو کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد اپنی پریس ریلیز میں ملٹری قیادت نے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے حکومتی کوششوں پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔پریس ریلیز جاری ہونے کے اگلے ہی دن وزیر اعظم ہاو ¿س سے جاری بیان میں کہا گیا کہ نیشنل ایکشن پلان پر قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے موثر عمل درآمد، تمام قومی اداروں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے قریبی ایک سینیئر عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ وزیر اعظم نواز شریف، آرمی چیف جنرل راحیل کے مختلف ممالک، خاص طور پر ان کے نومبر کے پہلے ہفتے میں دورہ سعودی عرب اور اب امریکا کے دورے سے بالکل خوش نہیں ہیں۔جہاں تک آرمی چیف کے دورہ سعودی عرب کی بات ہے تو، حکومتی حلقوں میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ جنرل راحیل شریف کو دیگر ممالک کے دوروں پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ شریف برادران کے سعودی عرب کے شاہی خاندان سے پہلے ہی ذاتی مراسم ہیں، جبکہ اگر امریکا کی بات کی جائے تو وزیر اعظم گزشتہ ماہ ہی امریکا کا دورہ کرکے آئے ہیں، جہاں انہوں نے امریکی قیادت سے مختلف معاملات پر تفصیلی بات چیت کی۔حکمراں جماعت کے ایک رکن اسمبلی کا کہنا تھا کہ دیگر ممالک میں آرمی چیف کے دورے کچھ زیادہ معنی نہیں رکھتے، لیکن پاکستان میں صورتحال مختلف ہے۔پاکستان کی خارجہ اور دفاعی پالیسیوں میں فوج کا اہم کردار ہے اور اگر حکومت و فوج ایک ہی پیج پر ہیں، تو یہ بات کسی کے لیے بھی باعث تعجب ہوسکتی ہے کہ وزیر اعظم کے بعد آرمی چیف کے فوری دورہ امریکا کی کیا وجہ ہے۔تاہم وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کا اصرار تھا کہ آرمی چیف کے دورہ امریکا میں کوئی غیر معمولی بات نہیں اور نہ سول ملٹری قیادت کے درمیان کوئی کشیدگی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کر رہا ہے اور چونکہ امریکا، افغانستان میں براہ راست ملوث ہے اس لیے سکیورٹی اداروں کے سربراہان کے اس سے وقتاً فوقتاً مذاکرات ضروری ہیں۔تاہم ایک سینیئر سیکیورٹی عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ سول ملٹری تعلقات میں حالیہ کشیدگی کی، نیشنل ایکشن پلان پر سست پیش رفت کے علاوہ اور بھی کئی وجوہات ہیں۔عہدیدار کا کہنا تھا کہ عسکری قیادت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے ساتھ حکومت کے نرم رویے سے خوش نہیں، کراچی میں پولیس اور رینجرز کے آپریشن کے دوران متعدد کارکنوں کی گرفتاری پر ایم کیو ایم نے فوج کو عوامی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا، لیکن حکومت نے اس تنقید کا جواب دینے کے بجائے ’شکایت ازالہ کمیٹی‘ بنادی۔کمیٹی کے قیام کے نتیجے میں کارکنوں کی گرفتاری پر شور مچانے اور ایوانوں سے استعفے دے کر جانے والی ایم کیو ایم دوبارہ واپس آگئی، جبکہ کرپشن میں ملوث مخصوص افراد کے خلاف کارروائی بھی دونوں اداروں میں دوریوں کا سبب بنی۔عہدیدار نے کہا کہ ماڈل ایان علی کے خلاف کرنسی اسمگلنگ کے کیس میں درجنوں سماعتوں کے باوجود بھی حکومت عدالت میں کوئی ٹھوس شواہد پیش نہیں کرسکی، جس سے ظاہر ہوتا ہے حکومت پس پردہ رہ کر کسی کا تحفظ کر رہی ہے۔اس کے علاوہ کراچی ایئر پورٹ حملہ، یوحنا آباد چرچ حملہ اور سابق وزیر داخلہ پنجاب کرنل (ر) شجاع خانزادہ پر حملے سمیت دیگر کیسز کی تحقیقات کے لیے قائم جے آئی ٹیز پر کام نہ ہونا بھی حکومت اور فوجی قیادت کے درمیان ناراضی کا سبب ہے.سیکیورٹی عہدار کا مزید کہنا تھا کہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ وفاقی حکومت کرپشن کے کیسز کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے ساتھ نرمی سے پیش آرہی ہے اور صوبہ پنجاب میں کرپٹ عناصر کے خلاف ایکشن لینے میں ناکام رہی ہے۔عہدیدار نے کہا فوجی قیادت حکومت پنجاب سے خاص طور پر، صوبے میں موجود کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کوئی ایکشن نہ لینے پر ناخوش ہے۔ان وجوہات کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئر عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ حکومت تنگ گلی میں چلی گئی ہے اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے بار بار چیلنج کیے جانے سے، حکومت کو اس وقت پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے خلاف محاذ آرا ہونے میں مشکلات درپیش ہیں۔

No comments:

Post a Comment

Total Pageviews