یہ دہشت گردی کی جنگ
یہ جنگ بنیادی طور پر دو جرنیلوں کی مہربانی تھی اور اس مہربانی میں
سیاستدانوں کی نالائقی‘ مفاد پرستی‘ لالچ اور کم علمی آگ پر تیل ثابت ہوئی‘
یہ 35 برس پرانی دو ایکٹ پرمبنی کہانی ہے‘ کہانی کا پہلا ایکٹ 1980ءمیں
لکھا گیا‘ جنرل ضیاءالحق ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے کر ملک کے سیاہ و
سفید کے مالک بن چکے تھے‘میںآگے بڑھنے سے قبل آپ کو آمروں کی ایک نفسیاتی
مجبوری بتاتا چلوں‘ دنیا بھر کے آمر ناجائز بچے کی طرح ہوتے ہیں‘ یہ پوری
زندگی باپ تلاش کرتے رہتے ہیں اور جنگیں آمروں کا آسان ترین باپ ہوتی ہیں‘
آپ تاریخ کو اس زاویئے سے پڑھئے‘ آپ حیران رہ جائیں گے‘ دنیا کی تمام بڑی
جنگیں آمروں نے چھیڑیں اور آمروں ہی نے لڑیں‘ جنگیں عوام اور عالمی برادری
کی توجہ بٹانے کا شاندار ترین طریقہ ہوتی ہیں اور آمر ہمیشہ یہ طریقہ
استعمال کرتے ہیں‘ پاکستان نے چار بڑی جنگیں لڑیں‘ 1965ءاور 1971ءکی پاک
بھارت جنگیں‘ 1980ءسے 1988ءتک افغان جہاد اور 2001 سے 2010ءتک دہشت گردی کی
عالمی جنگ‘ یہ چاروں جنگیں پاکستان کے آمرانہ ادوار میں لڑی گئیں‘ کیا یہ
حسن اتفاق تھا؟ نہیں‘ یہ جنگیں آمریت کو قانونی بنانے کی قدیم ترین تکنیک
تھیں‘ آج بھی اگر ملک میں مارشل لاءلگ جائے تو پاکستان پانچویں بڑی جنگ لڑے
گا اور یہ جنگ سیکولر اور مذہبی طبقوں کے درمیان ہو گی‘ ہمارا اگلا چیف
مارشل لاءایڈمنسٹریٹر اتاترک بن کرمساجد اور مدارس پر پل پڑے گا اور پوری
دنیا اس کار خیر میں اسے اسی طرح سپورٹ کرے گی جس طرح اس نے جنرل
پرویزمشرف‘جنرل ضیاءالحق‘ جنرل یحییٰ خان اور جنرل ایوب خان کی مدد کی تھی‘
آمر دنیا میں ہمیشہ چار بڑے کام کرتے ہیں‘ یہ کوئی نہ کوئی بڑی جنگ چھیڑتے
ہیں‘ یہ عالمی طاقتوں کو کوئی نہ کوئی ایسی بڑی ”فیور“ دیتے ہیں جو جمہوری
لیڈر نہیں دے سکتے‘ یہ اپنی سیاسی جماعت بناتے ہیں‘ اس شاہی جماعت میں ملک
کے ان تمام طبقوں کو شامل کر لیتے ہیں جو آمر کے اقتدار کو چیلنج کر سکتے
ہیں اور چار یہ عوام کو آٹے‘ گھی اور دال سے لے کر بجلی‘ گیس اور پٹرول میں
بے تحاشہ سبسڈیز دیتے ہیں‘یہ نوازش ملکی قرضوں میں اضافہ کر دیتی ہے اور
آمر جب رخصت ہوتے ہیں تو نئی حکومت کےلئے یہ سبسڈیز جاری رکھنا ممکن نہیں
ہوتا‘ چیزیں اصل قیمت پر آ جاتی ہیں‘ مفت خوری کے عادی لوگ بلبلا اٹھتے ہیں
اور بآواز بلند کہتے ہیں ”آمریت اس جمہوریت سے لاکھ درجے بہتر تھی“ آپ اس
تھیسس کو سامنے رکھئے اور پاکستان کے آمرانہ ادوارکا جائزہ لیجئے‘ہم واپس
1980ءمیں آتے ہیں‘ جنرل ضیاءالحق اقتدار پر قابض بھی ہو چکے تھے اور جمہوری
لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود پھانسی بھی دے
چکے تھے‘ وہ ملک اور بیرون ملک بری طرح غیر مقبول تھے‘ جنرل صاحب کو اس غیر
مقبولیت کو مقبولیت میں تبدیل کرنے کےلئے ایک ایسی جنگ چاہیے تھی جو پوری
دنیا کی توجہ کھینچ لے‘ قدرت نے جنرل صاحب کی مدد کی‘ سوویت یونین دسمبر
1979 میں افغانستان پر قابض ہو گیا‘ امریکا نے روس سے نبٹنے کےلئے ایران کو
تیار کر رکھا تھامگر ایران میں انقلاب آ گیا اور ”مولوی“ اقتدار پر قابض
ہو گئے‘ امریکا نے ویتنام میں تازہ تازہ ہزیمت اٹھائی تھی‘ اس کےلئے
افغانستان میں فوجیں اتارنا مشکل تھا‘ جنرل ضیاءالحق زیرک انسان تھے‘ وہ
امریکا اور یورپ کی پوزیشن سمجھتے تھے چنانچہ انہوں نے چارلی ولسن کے ذریعے
امریکی حکومت کو ایک عجیب پیش کش کی‘ انہوں نے امریکا سے کہا ”آپ ہمیں صرف
رقم اور اسلحہ دے دیں‘ آپ کی جنگ ہم لڑیں گے“ امریکا کےلئے یہ آفر انتہائی
مناسب تھی‘ امریکا مان گیایوں جنرل ضیاءالحق پاکستان سمیت افغان روس جنگ
میں کود پڑے‘ ڈالر اور اسلحہ امریکا دیتا رہا اور جنگ میں شہید مدارس کے
طلبائ‘ مذہبی سیاسی جماعتوں کے کارکن اور عام غریب پاکستانی ہوتے رہے‘ یہ
جنگ امریکا اور روس کی جنگ تھی مگر اس جنگ میں امریکا کا ایک بھی سپاہی
نہیں مرا ‘دنیا کی اس عظیم جنگ پر امریکا کے صرف تین ارب ڈالر خرچ ہوئے اور
دنیا کی دوسری سپر پاور ماضی کا حصہ بن گئی‘ اس جنگ کے بدلے جنرل ضیاءکو
کیا ملا؟ امریکا نے انہیں یونیفارم میں صدر تسلیم کر لیا‘ امریکا میں ان کا
فقید المثال استقبال ہوتا‘ ہمیں سٹینگر میزائل اور ایف 16 طیارے ملے اور
ہم سینہ کھول کر دوسری سپر پاور کے سامنے کھڑے ہو گئے‘ جنرل صاحب اس جنگ
میں صرف امریکا اور یورپ تک محدود نہ رہے بلکہ انہوں نے بھٹو صاحب کی
پھانسی کی وجہ سے ناراض عربوں کو خوش کرنے کےلئے اپنا ملک عرب باغیوں کےلئے
بھی کھول دیا‘ عرب باغی جہاد کےلئے یہاں آئے اور ہمیشہ کےلئے یہاں آباد ہو
گئے۔
جنرل ضیاءالحق ملک کے امیر المومنین بن گئے‘ یہ ملک کے تامرگ حکمران بھی تسلیم کر لئے گئے لیکن ملک کو ان کی امارت کی کڑی سزا بھگتنا پڑی‘ یہ معتدل ملک مذہبی شدت پسندی کا شکار ہو گیا‘ ملک میںعسکری تربیت کے کیمپ بنے‘ جہاد کے فتوئے جاری ہوئے‘ مساجد منافرت کےلئے استعمال ہونے لگیں‘ ملک شیعہ اور سنی میں تقسیم ہوا اور دونوں فرقوں نے رائفلیں اٹھا لیں‘ جہاد کےلئے اسلحہ آیا‘ یہ اسلحہ عام لوگوں تک پہنچا اور افغان متحارب گروہوں کی فنڈنگ کےلئے منشیات کی سمگلنگ شروع ہوگئی‘ یہ سلسلہ 1988ءتک جاری رہا‘ روس فروری 1989ءمیں افغانستان سے نکلا تو ملک میں ایک لاکھ ٹرینڈ مسلح لوگ موجود تھے‘ ان مسلح افرادکے حامی مدارس بھی تھے اور مساجد بھی۔جنرل ضیاءالحق اس وقت تک جہادی سیاستدانوں کی ایک فوج بھی تیار کر چکے تھے‘ یہ سیاستدان افغان وار کو جہاد بھی سمجھتے تھے اور مجاہدین اور ان کی مدد کرنے والے سمگلروں کے ہاتھ بھی چومتے تھے لیکن معاشرہ اس وقت تک تباہ ہو چکا تھا‘ ہم اندھے کنوئیں میں گر چکے تھے‘ افغان وار کے بعد لاکھوں ٹرینڈ سپاہیوں کے پاس کوئی کام نہیں تھا‘ یہ ریاست کےلئے کھلم کھلا چیلنج تھے‘ جنرل ضیاءالحق کے بعد فوج کی نئی قیادت نے ان میں سے کچھ کو کشمیر میں کھپا دیا اور جوباقی بچ گئے انہیں جنرل نصیر اللہ بابر نے طالبان کے ظہور کے بعد افغانستان بھجوا دیا‘ یہ تکنیک جلے پر برف ثابت ہوئی‘ درد عارضی طور پر ختم ہو گیا لیکن بیماری متعدی بن گئی‘ یہ جنگ کا پہلا ایکٹ تھا‘ یہ ایکٹ صرف ایک جرنیل کے اقتدار کےلئے تحریر کیا گیا اور اس ایکٹ نے نہ صرف معتدل معاشرے کو شدت پسند بنا دیا بلکہ ملک کو دہشت گردی‘ مذہبی شدت پسندی‘ فرقہ واریت‘ ہیروئن اور گولے بارود کا کھیت بھی بنا دیا۔
جنگ کا دوسرا ایکٹ 2001ءمیں لکھا گیا‘ جنرل پرویز مشرف میاں نواز شریف کو فارغ کر کے اقتدار پر قابض ہو چکے تھے‘ یہ بھی آمر تھے اور انہیں بھی اپنے اقتدار کو ملک اور بیرون ملک قابل قبول بنانے کےلئے کسی بڑی جنگ کی ضرورت تھی‘قدرت نے ان پر بھی نوازش کی اور 2001ءمیں نائین الیون ہوگیا ‘ وہ جرنیل آج بھی زندہ ہیں جنہوں نے ٹوئن ٹاورز گرنے کے بعد جنرل پرویز مشرف کو مبارکباد کے فون کئے تھے‘ امریکا کو جس طرح جنرل ضیاءالحق کے دور میں روسیوں کی گولیوں کےلئے پاکستانی سینے درکار تھے‘بالکل اسی طرح جنرل مشرف کے دور میں ایک بار پھر طالبان کی گولیوں کےلئے ہمارے جسم چاہئے تھے۔ جنرل مشرف نے فوراً ہاں کر دی‘ اس ہاں کے نتیجے میں جنرل پرویز مشرف پوری دنیا کےلئے یونیفارم میں قابل قبول ہو گئے مگر ملک کا رہا سہا جنازہ بھی نکل گیااور ہم ان مجاہدین کے دشمن بھی ڈکلیئر ہو گئے جنہیں ہم نے اسی کی دہائی میں خود بنایا تھا‘ ہم ان طالبان کے بھی دشمن نمبر ون ہو گئے جنہیں ہم نے 1994ءمیں افغانستان میں سیٹل کیا تھا اور ہم ان پاکستانی مجاہدین کےلئے بھی کافروں کے دوست اور قابل گردن زنی ہو گئے جن کی جیب میں پاکستان کا شناختی کارڈ تھا اور ہم نے جنہیں پاکستان سے بھرتی کر کے ٹریننگ دی تھی‘ جنرل مشرف اس کے بعد غلطیاں کرتے رہے اور افغانستان کی جنگ پاکستان میں داخل ہوتی رہی‘ یہ جنگ جنرل مشرف کی مہربانی سے بلوچستان میں بھی آئی‘ جنوبی وزیرستان بھی پہنچی‘ سوات بھی آئی اور شمالی وزیرستان بھی گئی ‘ ہمیں جب اپنی غلطی کا اندازہ ہوا تو اس وقت تک ہمارے 55 ہزار لوگ شہید ہو چکے تھے‘ ملکی معیشت کا بھٹہ بیٹھ چکا تھا‘ ریاستی ادارے تباہ ہو چکے تھے‘ فوجی اداروں اور عمارتوں پر حملے ہو چکے تھے‘ قوم نفسیاتی مریض بن چکی تھی‘ پاکستان دنیا کےلئے خطرناک ترین ملک ڈکلیئر ہو چکا تھا اور وہ امریکا اور یورپ جن کےلئے ہم 35سال سے لڑے رہے تھے وہ ہم پر درجنوں پابندیاں لگا چکے تھے‘ ہم بری طرح پھنس چکے تھے۔
ہم اب آگے چلنے سے قبل یہ فیصلہ کرتے ہیں ہم نے ان 35 برسوں میں کیا پایا‘ ہمیں صرف دو فائدے ہوئے‘ ایک دنیا نے جنرل ضیاءالحق کو تامرگ حکمران تسلیم کر لیا‘ دو‘ جنرل پرویز مشرف 2008ءتک بلاشرکت غیرے پاکستان کے حکمران رہے اور بس۔ ہم نے نقصان کیا اٹھائے؟ ہم نے معاشرے کا توازن کھو دیا‘ دنیااکیسویںصدی میں مذہب سے سیکولر ہو گئی‘ سعودی عرب نے بزنس امیگریشن کھول دی‘ خواتین کو ملازمت اور ڈرائیونگ کی اجازت دے دی‘ اسرائیل عیسائیوں اور مسلمانوں کو شہریت دینے لگا‘ مسجدوں اور چرچز کی اجازت دینے لگا‘ وائیٹ ہاﺅس اور 10 ڈاﺅننگ سٹریٹ میں افطار ڈنر ہونے لگے‘عید ملن پارٹیاں ہونے لگیں‘ بھارت میں مسلمان کو شدھی کرنے کی مہم پر نریندر مودی نے استعفیٰ دینے کی دھمکی دے دی‘ ایران میں (باقی کل)
جنرل ضیاءالحق ملک کے امیر المومنین بن گئے‘ یہ ملک کے تامرگ حکمران بھی تسلیم کر لئے گئے لیکن ملک کو ان کی امارت کی کڑی سزا بھگتنا پڑی‘ یہ معتدل ملک مذہبی شدت پسندی کا شکار ہو گیا‘ ملک میںعسکری تربیت کے کیمپ بنے‘ جہاد کے فتوئے جاری ہوئے‘ مساجد منافرت کےلئے استعمال ہونے لگیں‘ ملک شیعہ اور سنی میں تقسیم ہوا اور دونوں فرقوں نے رائفلیں اٹھا لیں‘ جہاد کےلئے اسلحہ آیا‘ یہ اسلحہ عام لوگوں تک پہنچا اور افغان متحارب گروہوں کی فنڈنگ کےلئے منشیات کی سمگلنگ شروع ہوگئی‘ یہ سلسلہ 1988ءتک جاری رہا‘ روس فروری 1989ءمیں افغانستان سے نکلا تو ملک میں ایک لاکھ ٹرینڈ مسلح لوگ موجود تھے‘ ان مسلح افرادکے حامی مدارس بھی تھے اور مساجد بھی۔جنرل ضیاءالحق اس وقت تک جہادی سیاستدانوں کی ایک فوج بھی تیار کر چکے تھے‘ یہ سیاستدان افغان وار کو جہاد بھی سمجھتے تھے اور مجاہدین اور ان کی مدد کرنے والے سمگلروں کے ہاتھ بھی چومتے تھے لیکن معاشرہ اس وقت تک تباہ ہو چکا تھا‘ ہم اندھے کنوئیں میں گر چکے تھے‘ افغان وار کے بعد لاکھوں ٹرینڈ سپاہیوں کے پاس کوئی کام نہیں تھا‘ یہ ریاست کےلئے کھلم کھلا چیلنج تھے‘ جنرل ضیاءالحق کے بعد فوج کی نئی قیادت نے ان میں سے کچھ کو کشمیر میں کھپا دیا اور جوباقی بچ گئے انہیں جنرل نصیر اللہ بابر نے طالبان کے ظہور کے بعد افغانستان بھجوا دیا‘ یہ تکنیک جلے پر برف ثابت ہوئی‘ درد عارضی طور پر ختم ہو گیا لیکن بیماری متعدی بن گئی‘ یہ جنگ کا پہلا ایکٹ تھا‘ یہ ایکٹ صرف ایک جرنیل کے اقتدار کےلئے تحریر کیا گیا اور اس ایکٹ نے نہ صرف معتدل معاشرے کو شدت پسند بنا دیا بلکہ ملک کو دہشت گردی‘ مذہبی شدت پسندی‘ فرقہ واریت‘ ہیروئن اور گولے بارود کا کھیت بھی بنا دیا۔
جنگ کا دوسرا ایکٹ 2001ءمیں لکھا گیا‘ جنرل پرویز مشرف میاں نواز شریف کو فارغ کر کے اقتدار پر قابض ہو چکے تھے‘ یہ بھی آمر تھے اور انہیں بھی اپنے اقتدار کو ملک اور بیرون ملک قابل قبول بنانے کےلئے کسی بڑی جنگ کی ضرورت تھی‘قدرت نے ان پر بھی نوازش کی اور 2001ءمیں نائین الیون ہوگیا ‘ وہ جرنیل آج بھی زندہ ہیں جنہوں نے ٹوئن ٹاورز گرنے کے بعد جنرل پرویز مشرف کو مبارکباد کے فون کئے تھے‘ امریکا کو جس طرح جنرل ضیاءالحق کے دور میں روسیوں کی گولیوں کےلئے پاکستانی سینے درکار تھے‘بالکل اسی طرح جنرل مشرف کے دور میں ایک بار پھر طالبان کی گولیوں کےلئے ہمارے جسم چاہئے تھے۔ جنرل مشرف نے فوراً ہاں کر دی‘ اس ہاں کے نتیجے میں جنرل پرویز مشرف پوری دنیا کےلئے یونیفارم میں قابل قبول ہو گئے مگر ملک کا رہا سہا جنازہ بھی نکل گیااور ہم ان مجاہدین کے دشمن بھی ڈکلیئر ہو گئے جنہیں ہم نے اسی کی دہائی میں خود بنایا تھا‘ ہم ان طالبان کے بھی دشمن نمبر ون ہو گئے جنہیں ہم نے 1994ءمیں افغانستان میں سیٹل کیا تھا اور ہم ان پاکستانی مجاہدین کےلئے بھی کافروں کے دوست اور قابل گردن زنی ہو گئے جن کی جیب میں پاکستان کا شناختی کارڈ تھا اور ہم نے جنہیں پاکستان سے بھرتی کر کے ٹریننگ دی تھی‘ جنرل مشرف اس کے بعد غلطیاں کرتے رہے اور افغانستان کی جنگ پاکستان میں داخل ہوتی رہی‘ یہ جنگ جنرل مشرف کی مہربانی سے بلوچستان میں بھی آئی‘ جنوبی وزیرستان بھی پہنچی‘ سوات بھی آئی اور شمالی وزیرستان بھی گئی ‘ ہمیں جب اپنی غلطی کا اندازہ ہوا تو اس وقت تک ہمارے 55 ہزار لوگ شہید ہو چکے تھے‘ ملکی معیشت کا بھٹہ بیٹھ چکا تھا‘ ریاستی ادارے تباہ ہو چکے تھے‘ فوجی اداروں اور عمارتوں پر حملے ہو چکے تھے‘ قوم نفسیاتی مریض بن چکی تھی‘ پاکستان دنیا کےلئے خطرناک ترین ملک ڈکلیئر ہو چکا تھا اور وہ امریکا اور یورپ جن کےلئے ہم 35سال سے لڑے رہے تھے وہ ہم پر درجنوں پابندیاں لگا چکے تھے‘ ہم بری طرح پھنس چکے تھے۔
ہم اب آگے چلنے سے قبل یہ فیصلہ کرتے ہیں ہم نے ان 35 برسوں میں کیا پایا‘ ہمیں صرف دو فائدے ہوئے‘ ایک دنیا نے جنرل ضیاءالحق کو تامرگ حکمران تسلیم کر لیا‘ دو‘ جنرل پرویز مشرف 2008ءتک بلاشرکت غیرے پاکستان کے حکمران رہے اور بس۔ ہم نے نقصان کیا اٹھائے؟ ہم نے معاشرے کا توازن کھو دیا‘ دنیااکیسویںصدی میں مذہب سے سیکولر ہو گئی‘ سعودی عرب نے بزنس امیگریشن کھول دی‘ خواتین کو ملازمت اور ڈرائیونگ کی اجازت دے دی‘ اسرائیل عیسائیوں اور مسلمانوں کو شہریت دینے لگا‘ مسجدوں اور چرچز کی اجازت دینے لگا‘ وائیٹ ہاﺅس اور 10 ڈاﺅننگ سٹریٹ میں افطار ڈنر ہونے لگے‘عید ملن پارٹیاں ہونے لگیں‘ بھارت میں مسلمان کو شدھی کرنے کی مہم پر نریندر مودی نے استعفیٰ دینے کی دھمکی دے دی‘ ایران میں (باقی کل)
No comments:
Post a Comment