May 09, 2025

Pakistan Wins 59 Minutes Air Space War between JF-17 Thundre & indian Rafale, Mig, Su 30 Air Crafts

 


پاکستان، 9 مئی -- 7 مئی، 2025 کو ہونے والے واقعات میں ایک ڈرامائی موڑ آنے کے بعد، جنوبی ایشیا کے اوپر کے آسمان نے جدید فوجی تاریخ کی سب سے بڑی فضائی لڑائی کا منظر پیش کیا۔ یہ لڑائی تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہی، جس میں 100 سے زائد لڑاکا طیارے شامل تھے اور اس کا اختتام پاکستان کی بھارت پر فیصلہ کن فتح کے ساتھ ہوا۔ فضائی ذرائع نے تصدیق کی کہ 59 منٹ کی فضائی جنگ میں پاکستان کی فضائیہ (پی اے ایف) کی بے مثال مہارت اور حکمت عملی کی برتری کا مظاہرہ کیا گیا۔

بھارت نے اپنے ایلیٹ "اسٹریٹجک سکواڈرن" کو تعینات کر کے اس جھڑپ کا آغاز کیا، جس میں جدید رافیل جیٹ، سو-30s اور میگ طیارے شامل تھے۔ ان کا مشن پاکستانی فضائی حدود میں داخل ہونا اور تسلط ظاہر کرنا تھا۔ تاہم، پاک فضائیہ نے فوراً عملی تیاری کر لی اور JF-17 تھنڈر بلاک 3s، F-16 فالکنز، اور زمینی میزائل دفاعی نظاموں کا استعمال کرتے ہوئے طاقتور جوابی کارروائی کی۔ ان افواج نے مل کر بھارتی طیاروں کو ایک Beyond Visual Range (BVR) ہلاکت کے علاقے میں پھنسایا۔جب فضائی لڑائی شروع ہوئی تو پاکستان نے پانچ بھارتی طیارے گرا دیے - جن میں تین رافیل، ایک سو-30MKI، اور ایک میگ-29 شامل تھے۔ یہ پہلا موقع تھا جب رافیل، جو بھارت کی فضائی طاقت میں تبدیلی لانے والے سمجھا جاتا تھا، جنگ میں تباہ ہوئے۔ پاکستان کا فضائی دفاع جدید ریڈار لاکنگ اور میزائل نظاموں پر منحصر تھا جو آنے والے خطرے کو پاکستانی سرحد میں داخل ہونے سے پہلے بے اثر کر دیتے تھے۔

جس چیز نے اس تصادم کو الگ کیا وہ اس میں شامل پیمانے اور ٹکنالوجی تھی۔ پاکستان نے بھارت کے ہائی ٹیک سسٹم کو اندھا کرنے کے لیے ریڈار جیمنگ اور جوابی اقدامات جیسے جدید الیکٹرانک جنگی حربے استعمال کیے۔ دنیا بھر کے تجزیہ کار پہلے ہی اس مقابلے کو "مشرق کی ٹیکٹیکل ماسٹر کلاس" قرار دے چکے ہیں اور اس کا موازنہ سرد جنگ کے دور کی بڑی فضائی لڑائیوں سے کر رہے ہیں۔ بھارت کی حکمت عملی کوئی زمین یا کنٹرول حاصل کرنے میں ناکام رہی جس کی وجہ سے نئی دہلی کے دفاعی حلقوں میں صدمے اور خاموشی چھا گئی۔

عالمی منڈیوں نے اس بحران پر ردعمل کا اظہار کیا کیونکہ رافیل کی فرانسیسی مینوفیکچرر کمپنی کے حصص میں مبینہ طور پر 18 فیصد کمی واقع ہوئی۔ پاکستان کی کامیابی نے نہ صرف بھارت کے فضائی غلبے کے دعووں کو دھچکا پہنچایا بلکہ جے ایف 17 تھنڈر جیسے کم قیمت دیسی طیاروں کی تاثیر کو بھی ظاہر کیا۔ فوجی ماہرین کا خیال ہے کہ اس جنگ سے دنیا بھر میں مستقبل کے فضائی تنازعات سے نمٹنے کا طریقہ بدل جائے گا۔

مجموعی طور پر، یہ ایک دفاعی فتح سے کہیں زیادہ تھا - یہ قومی فخر کا لمحہ تھا اور ان لوگوں کے لئے ایک انتباہ تھا جو پاکستان کی فضائی صلاحیتوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔ ...

مجموعی طور پر، یہ صرف ایک دفاعی فتح نہیں تھی - یہ قومی فخر کا ایک لمحہ اور ان لوگوں کے لیے ایک انتباہ تھا جو پاکستان کی فضائی صلاحیتوں کو کم تر سمجھتے ہیں۔ بے مثال ہم آہنگی اور حوصلے کے ساتھ، PAF نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ مہارت اور حکمت عملی سب سے جدید ٹیکنالوجی کو بھی شکست دے سکتی ہیں۔

    

April 25, 2025

بانسری کی عجیب و غریب داستان بانسری والے نے 180 بچے غائب کر دیئے۔

 



 


عجیب و غریب تاریخ

 "آپ نے Peek Freans Gluco Biscuits

 کا وہ مشہور اشتہار تو ضرور دیکھا ہوگا، جس میں ایک رنگین لباس پہنے بانسری بجانے والا شخص بچوں کو اپنے پیچھے لگائے لے جا رہا ہوتا ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ منظر صرف ایک تخیلی اشتہار نہیں بلکہ ایک صدیوں پرانے، حیران کن اور پراسرار سچے واقعے سے متاثر ہے؟"

1284 کے موسم گرما میں جرمنی کے چھوٹے سے قصبے ہیملن میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے نہ صرف اس زمانے کے لوگوں کو حیران کر دیا بلکہ صدیوں بعد تک محققین، مورخین اور ادیبوں کے لیے ایک پراسرار پہیلی بنا رہا۔ یہ کہانی ایک انوکھے کردار "پیڈ پایپر" کے گرد گھومتی ہے - ایک رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس پراسرار بانسری نواز جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے پہلے تو شہر کو چوہوں کے عذاب سے نجات دلائی، مگر جب اسے اس کا معاوضہ نہ ملا تو اس نے انتقاماً شہر کے 130 بچوں کو اپنی جادوئی بانسری کے ساتھ لے کر غائب ہو گیا۔  

شہر ہیملن کی تباہی اور چوہوں کا عذاب
تیرہویں صدی کے آخر میں ہیملن شہر چوہوں کی ایک بہت بڑی آبادی کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر تھا۔ یہ چوہے نہ صرف فصلوں اور گوداموں کو تباہ کر رہے تھے بلکہ طاعون جیسی مہلک بیماریاں بھی پھیلا رہے تھے۔ شہر کے باشندے بے بسی کا شکار تھے اور کسی معجزے کے منتظر تھے۔  

پراسرار شخصیت کا ظہور  
ایک دن شہر میں ایک عجیب و غریب شخص داخل ہوا۔ وہ "پیڈ" یعنی رنگ برنگے کپڑے پہنے ہوئے تھا اور اس کے ہاتھ میں ایک چمکدار چاندی کی بانسری تھی۔ اس نے دعویٰ کیا کہ وہ چوہوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کر سکتا ہے۔ میئر اور شہر کے معززین نے اسے 1,000 گِلڈر (اس زمانے کی ایک بڑی رقم) کا لالچ دیا اگر وہ شہر کو اس آفت سے نجات دلا دے۔  

جادوئی بانسری کا کمال  
پیڈ پایپر نے اپنی بانسری بجانا شروع کی۔ ایک عجیب سی دھن تھی جو سنتے ہی تمام چوہے اپنے بلوں سے نکل آئے اور اس کے پیچھے ہو لیے۔ وہ انہیں شہر کی گلیوں سے گزارتا ہوا دریائے ویسر کے کنارے لے گیا جہاں تمام چوہے دریا میں چھلانگ لگا کر ڈوب گئے۔ شہر والے خوشی سے نہال ہو گئے۔  

وعدہ خلافی اور پیڈ پایپر کا غصہ  
لیکن جب معاوضہ دینے کا وقت آیا تو میئر اور شہر کے معززین نے رقم دینے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے نہ صرف 1,000 گِلڈر دینے سے انکار کیا بلکہ اسے صرف 50 گِلڈر دیے اور یہاں تک کہا کہ شاید یہی شخص چوہے لایا تھا تاکہ رقم بٹورے۔ پیڈ پایپر خاموشی سے چلا گیا، لیکن اس کی آنکھوں میں انتقام کی آگ تھی۔  

بچوں کا پراسرار غائب ہونا
26 جون 1284 کو، جب تمام بڑے گرجا گھر میں سنت جان اور پال کے دن کی عبادت میں مصروف تھے، پیڈ پایپر واپس آیا۔ اس بار اس کا لباس شکار کے جیسا سبز تھا۔ اس نے اپنی بانسری کی وہی پراسرار دھن بجائی، لیکن اس بار اس کی تان بچوں کے لیے تھی۔  

شہر کے 130 بچے، جو کھیل رہے تھے یا گھروں میں تھے، اچانک اس کے پیچھے ہو لیے۔ وہ ناچتے گاتے شہر کے مشرقی دروازے سے نکل گئے اور کاپنبرگ پہاڑی کی طرف چل دیے۔ وہاں ایک غار کے منہ پر پہنچ کر وہ سب غائب ہو گئے۔ صرف تین بچے پیچھے رہ گئے:  
- ایک لنگڑا بچہ جو تیز نہیں چل سکتا تھا  
- ایک بہرا بچہ جس نے بانسری نہیں سنی تھی  
- ایک اندھا بچہ جو راستہ نہیں دیکھ سکتا تھا  

یہی تینوں بچے بعد میں بڑے ہو کر اس واقعے کے چشم دید گواہ بنے۔  

تاریخی شواہد اور دستاویزات  
یہ صرف ایک افسانہ نہیں بلکہ ہیملن شہر کے تاریخی ریکارڈز میں درج ہے:  
- 1300 کے قریب ہیملن کے گرجا میں ایک کھڑکی بنائی گئی تھی جس پر یہ واقعہ نقش تھا۔ بدقسمتی سے یہ 1660 میں تباہ ہو گئی۔  
- 1370 میں راہب ہائنرک آف ہیرفورڈ نے اپنی لاطینی کتاب "کیٹینا آوریا" میں اس واقعے کا ذکر کیا۔  
- ہیملن کے "ریٹنفینگر ہاؤس" پر لگی تختی پر یہ واقعہ درج ہے۔  
- 1556 میں بنائے گئے شہر کے دروازے پر بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔  

مختلف نظریات  
1. ہجرت کا نظریہ: کئی مورخین کا خیال ہے کہ یہ دراصل نوجوانوں کے ایک گروہ کی مشرقی یورپ کی طرف ہجرت تھی۔ لسانیات کے ماہر یورگن اڈولف نے پایا کہ ہیملن کے کئی خاندانی نام آج پولینڈ کے علاقوں میں ملتے ہیں۔  
2. بچوں کی صلیبی جنگیں: کچھ کا خیال ہے کہ یہ بچے کسی مذہبی مہم کا حصہ بن گئے ہوں گے۔  
3. طبیعیاتی وجوہات: ممکن ہے کہ یہ بچے کسی بیماری یا قدرتی آفت کا شکار ہوئے ہوں۔  
4. نفسیاتی نظریہ: بعض محققین کا کہنا ہے کہ یہ اجتماعی نفسیاتی کیفیت (جیسے ڈانسنگ مینیا) کا واقعہ ہو سکتا ہے۔  

ثقافتی اثرات  
یہ کہانی گوئٹے، گریم برادرز، اور رابرٹ براؤننگ جیسے عظیم ادیبوں کی تحریروں میں زندہ ہے۔ براؤننگ کی نظم "دی پیڈ پایپر آف ہیملن" خاصی مشہور ہوئی۔ آج بھی ہیملن شہر میں "بنگیلوسن اسٹراسے" (بغیر ڈھول کی گلی) نامی جگہ پر موسیقی یا رقص پر پابندی ہے، کیونکہ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے بچے آخری بار دکھائی دیے تھے۔  

آخری بات
چاہے یہ ایک سچا واقعہ تھا یا علامتی داستان، پیڈ پایپر آف ہیملن کی کہانی صدیوں سے انسانی تخیل کو مسحور کرتی آ رہی ہے۔ کیا واقعی کوئی جادوئی بانسری نواز تھا؟ یا پھر یہ تاریخ کا کوئی اور ہی راز ہے؟ شاید ہم کبھی پورے یقین سے نہیں جان پائیں گے، لیکن یہ پراسرار کہانی ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گی۔


April 12, 2025

Change the Education System of Pakistan


  نظام کو بدلو تا کہ اپاہج نہیں ہنر مند پیدا ہوں 

میٹرک تک  سلیبس اس طرح ہونا چاہیے کہ بچے کے پاس کوئی نہ کوئی ہنر آ  جائے اور بچے کو پتہ چل جائے کہ اس نے میٹرک کے بعد کون سے فیلڈ اختیار کرنی ہے یعنی اس کی  کس فیلڈ میں دلچسپی ہے ۔
میرا خیال ہے اب رٹا سسٹم ختم ہونا چاہیے بچوں کو دسویں تک زیادہ سے زیادہ ٹیکنیکل تعلیم دینی چاہیے ۔۔
جمعہ اور ہفتہ دو دن ایسے ہوں جس میں نصابی کتابیں بالکل بند کر دی جائیں اور بچوں کو ہنر سکھائے جائیں
ایسے کون سے ہنر ہیں جو بچے دسویں کلاس تک سیکھ سکتے ہیں ۔۔

1- آٹو مکینک
خصوصی طور پر موٹر سائیکل کے بارے میں بچوں کو تربیت دی جائے اس کے انجن کے بارے میں پرزے تبدیل کرنے کے بارے میں انہیں چھٹی کلاس سے لے کر دسویں کلاس تک مرحلہ وائز موٹرسائیکل کا کام سکھایا جائے وہ اس قدر ماہر بن جائیں کہ دسویں کلاس کے بعد پرزے خرید کر پورا موٹر سائیکل اسمبل کر سکیں ۔۔

2- بجلی کا کام الیکٹریشن

بچوں کو عملی طور پر بجلی کا کام سکھایا جائے انڈر گراؤنڈ وائرنگ کیسے کی جاتی ہے اوپن گراؤنڈ وائرنگ کیسے کی جاتی ہے موٹر وائنڈ کیسے کی جاتی ہے مکمل طور پر بچوں کو کام سکھایا جائے اور یہ شعبہ اور یہ ہنر خود میں پوری ایک سائنس ہے فزکس میں اس کے چیپٹر تو ہیں تھیوری کے طور پر میں کہنے سے چاہتا ہوں کہ بچوں کو پریکٹیکلی کام سکھایا جائے صحیح معنوں میں

3- گھر کا ڈاکٹر

چھٹی کلاس سے لے کے دسویں کلاس تک کے تمام بچوں کو گھر ڈاکٹر بنا دیا جائے جو کہ وقت کی اشد ضرورت ہے
بچے کو بلڈ پریشر مانیٹر کرنا آنا چاہیے ۔۔
وین میں انجیکشن لگانا سکھائیں گوشت میں انجیکشن لگانا سکھائیں بوقت ضرورت ڈرپ کیسے لگائی جاتی ہے ۔
ایمرجنسی کی صورت میں بینڈج کرنا سکھائیں ۔۔
ضروری نہیں یہ کام اس نے لوگوں کے لیے کرنے ہیں یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جو بچے کی ساری زندگی اس کے کام آنے والی ہیں۔۔۔

4- موبائل ریپیئرنگ اور سافٹ ویئر

بچوں کو موبائل ریپیئرنگ کے بارے میں تربیت دی جائے ان کو موبائل ریپیئر کرنا سکھایا جائے موبائل میں سوفٹ ویئر کیسے اپڈیٹ کیا جاتا ہے سافٹ ویئر انسٹال کیسے کیا جاتا ہے ۔۔

5- خود سے پیسے کمانا

گرمی کی چھٹیوں میں بچوں کو ٹاسک دیا جائے کہ پانچ پانچ بچے مل کر تھوڑے تھوڑے پیسے ڈال کر کوئی کاروبار کریں کوئی چیز لے کر فروخت کریں تاکہ وہ عملی زندگی میں اس طرح کی صورتحال میں پریشان نہ ہو مطلب ان کو کمانا سکھائیں ( ہمارے پڑوسی ملک انڈیا میں یہ پریکٹیکل کئی سالوں سے ہو رہا ہے )

6- فری لانسنگ

ویڈیو گیم کھیلنے کے علاوہ کمپیوٹر اور بھی بہت سے مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے یہ بچوں کو عملی طور پر باور کروایا جا سکتا ہے انہیں بتائیں کہ انٹرنیٹ کا دور ہے اپ اپنی چیزیں انٹرنیٹ پر کس قدر اسانی کے ساتھ فروخت کر سکتے ہیں ۔۔
اپنی خدمات کو انٹرنیٹ پر فروخت کرنا سکھائیں ۔۔

مثال کے طور پر اگر کوئی بچہ دیہاتی ہے اور اس کے گھر میں دیسی گھی ہے تو اس کا استاد بتائے کہ وہ دیسی گھی کا پیج بنا کر انٹرنیٹ پر ایمانداری کے ساتھ کس قدر کامیاب کاروبار  کر سکتا ہے ایلسی کی پنیا فروخت کر سکتا ہے مکئی کا اٹا فروخت کر سکتا ہے سردیوں میں ساگ بنا کر فروخت کر سکتا ہے مکھن فروخت کر سکتا ہے اور بھی بہت کچھ یہ اسے سکھایا جائے  ۔۔!!

7- نرسری اگانا

بچوں کو بیج لگانے کی تربیت دی جائے پھولوں کے بیج  سبزیوں کے بیج  درختوں کے بیج  اور یہ کام سکول میں بہت اسانی کے ساتھ ہو سکتے ہیں کہ اگر مستقبل میں اس کا رجحان نیچر کی طرف بڑھ جائے تو وہ نرسری کا اپنا کاروبار کر سکتا ہے اسے یہ ہنر ضرور سکھانے چاہیے ۔۔

8- چھوٹے پیمانے پر صابن سازی

9- بیچنا آنا چاہیے بچوں کو مارکیٹنگ

بچوں کے اندر اس قدر اعتماد پیدا کیا جائے کہ وہ بہترین مارکیٹر بن سکے ان کو اپنی چیزیں بیچنا آنا چاہیے اور اساتذہ سے بڑھ کر کوئی ایسی ہستی نہیں جو بچوں میں اس قدر اعتماد پیدا کر سکے والدین سے بھی زیادہ اعتماد بچوں کو سکول میں ماحول سے ملتا ہے اساتذہ سے ملتا ہے

اب وقت ہے کہ سلیبس میں موجود فضول کہانیوں کو یکثر مسترد کر کے ہمارے انے والے بچوں کو دسویں تک مکمل پریکٹیکل تعلیم دی جائے تاکہ وہ اپنا باعزت روزگار کما سکے اور وطن عزیز کے باعزت شہری بن سکیں ۔۔
تحریر
عاطف سہیل آرائیں ۔۔!!!

...کاپیڈ...
#k4kasim

April 07, 2025

MARRIED LIFE : HOW TREATS WIFE



 ازدواجیات!

مرد بہت ساری بری عادتیں والدین سے کاپی کرتا ہے باقی بیوی اس میں کوٹ کوٹ کر بھرتی ہے،پہلے وہ بس بڑے جھوٹ بولتا تھا اب بات بات پر بولتا ہے.

 ماں اور بہن بھائیوں سے بھی بات کر کے یوں چھپاتا ہے جیسے گرل فرینڈ سے کر لی ہو، بیوی جب چھوٹی چھوٹی باتوں پر Attitude  دکھانا شروع کر دیتی ہے تو وہ چھوٹی چھوٹی چیز پر بھی جھوٹ بول کر گھر کے ماحول کو نارمل رکھنے کی کوشش کرتا ہے، یہانتک کہ خریدے گئے سودے سلف کی قیمت بھی کم بتاتا ہے تا کہ بیوی ڈسٹرب نہ کرے. چیزوں پر سے قیمت کے اسٹکر پھاڑ کر گھر آتا ہے مگر بیوی نے بھی قسم کھائی ھوتی ہے کہ کوئی بھی ایشیو کھڑا کر کے اس کی کلاس لینی ہے.

بیوی کے لئے 80 درھم کا سوٹ لائے گا اور بیوی کو 60 کا بتائے گا اور بیوی کہے گی یہ تو میری سہیلی 40 کا لائی ہے.

 ایک پاکستانی نژاد امریکی جوڑا ٹی وی پر انٹرویو دے رہا تھا دونوں امریکہ میں کنسلٹنٹ ڈاکٹر تھے.  شوھر نے بیوی سے ڈر کی مثال دی کہ میں سیب لایا 50 روپے درجن وائف کی چخ چخ کے ڈر سے اس کو بتایا کہ 36 روپے درجن لایا ہوں  . اس نے پڑوسن کو بتایا اور پڑوسن کا شوھر سارا دن بازار میں دھکے کھاتا رھا اس ریٹ پر  کہیں نہ ملے، میری وائف نے اپنے سیب پڑوسن کو دے کر 36 روپے لے لئے کہ میرے میاں اور لے آئیں گے پھر مجھے اپنا بھرم رکھنے کے لئے مزید لانے پڑے. ایک دفعہ وائف کا سوٹ لایا جو اس کو آدھی قیمت کا بتایا اور اس نے وہ سوٹ اٹھا کر اسی قیمت میں سہیلی کو پکڑا دیا کہ مجھے اس کا پرنٹ پسند نہیں دوسرا منگوا لونگی. اب تنگ آ کر میں نے اس کو اصل قیمت بتا دی اور پھر اگلی دو راتیں یہ سوئی نہیں اور اس سہیلی سے بولنا بھی چھوڑ دیا - شوہر فطرتا کمپرومائزنگ ہوتا ہے کیونکہ اس کو سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے جبکہ وائف پرسنل ہوتی ہے صرف ذاتی سوچ سوچتی ہے. اپنے گھر کی حد تک.  

بیوی پوری کوشش کرتی ہے کہ وہ شوھر کی تعریف نہ کرے یہانتک کہ شوہر کے جاننے والوں تک کے سامنے بھی نہیں کرتی کہ وہ اس تک پہنچا نہ دیں. وہ کبھی یہ نہیں کہتی کہ میری خوش قسمتی ہے کہ آپ مجھے مل گئے ورنہ تو بڑے بڑے کمینے شوھر آج کل مارکیٹ میں آئے ہیں. البتہ وہ یہ جملہ شوھر سے ضرور سننا چاہتی ہے کہ تم نے میری زندگی جنت بنا دی ہے  (جہاں بندہ مرضی سے مر بھی نہیں سکتا ) شوھر اللہ کی ایک نعمت ہے اور اللہ کے رسول کا حکم ہے کہ نعمت کو شکر کے ذریعے محفوظ کرو کیونکہ اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ تم شکر کرو گے تو ہم نعمت میں اضافہ کریں گے.  گھر کی بربادی میں ناشکری کا بہت بڑا ہاتھ ہے.

 عرض کیا تھا کہ شوھر اپنی فطرت میں پالتو جاندار ہے. پہلے اس pet کو ماں پالتی ہے پھر بیوی کے حوالے کر دیتی ہے، بیوی اس کو لدو جانور سمجھ کر بس دھونس اور دھاندلی سے قابو  میں رکھنے کی کوشش کرتی ہے جیسے کرائے کی بےبی سیٹر بچوں کو پٹاخ پٹاخ کر چپ کرانے کی کوشش کرتی ہیں.  ایسی بیوی کے ہاتھ لگنے والا شوھر بس ایک مسکراہٹ کی مار ہوتا ہے اور یہی اکثر ھوتا ہے کہ کالی پٹا کر لے جاتی ہے اور گوری زیور سجائے بیٹھی رہ جاتی ہے  ' بقول استاد قمر جلالوی _

چرچے سنے جو راہزن روز آشکار کے -
تو لیلئ شب نے رکھ دئیے زیور اتار کے -

آخری بات یہ کہ شوھر کو یہ بات زہر لگتی ہے کہ بیوی اس کو تو جوتی کی نوک پہ رکھے. مگر اس کے والدین پر اپنی مظلومیت کی دھاک جما کر ان کے ذریعے اس کے گھٹنے ٹکوانے کی سیاست کرے. بجائے اس کے کہ شوھر پر واضح کرے کہ اس کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے وہ اس کے سامنے تو کے- ٹو کی طرح تن کر کھڑی ہو اور دوسروں کو بیچ میں ڈال کر اپنا مکو ٹھپ لے.  یہ اصل میں شرک فی المحبت ہے.

March 22, 2025

What should be fed to the person coming home .

 
گھر آنے والے کو کیا کھلایا جائے..؟؟؟

ایک عمومی معاشرتی رویہ جس کی وجہ سے تکلفات میں اضافہ اور دلوں میں فاصلے بڑھ گئے۔۔۔
یعنی پہلے ایک وقت تھا جب ملنا ملانا اہم ہوا کرتا تھا۔ کسی کے گھر آنے جانے کے لئے تکلفات کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ نہ ہی گھر کے مکینوں کو بطور میزبان یہ فکر ہوتی تھی کہ آنے والے کو کیا کھلایا پلایا جائے جو اس کے شایانِ شان ہو۔ مطلب جو گھر میں پکا ہوتا وہی آگے رکھ دیا جاتا۔ اور مہمان نے کبھی یہ فکر نہیں کی کہ کسی کے گھر جانے سے پہلے کیا ایسا تحفہ دیا جائے جو سب سے بہترین اور مہنگا ہو۔ یا وہ اس بات پر کبھی بیزار نہیں ہوا کہ اس کو کیا کھلایا گیا اور کہاں بٹھایا گیا۔ ۔ یعنی دو طرفہ تعلقات میں مادی چیزیں زیادہ آڑے نہیں آتی تھیں۔۔۔۔ لہٰذا ملنے والے کو جب یاد ستائی، وہ چلا آیا اور میزبان پر چونکہ پروٹوکول کا علیحدہ سے بوجھ نہیں پڑتا تھا سو وہ خوشی خوشی ملتا تھا۔
آج کے جدید دور میں جہاں بہت ساری اچھی باتیں اور ترقیاں ہوئی ہیں،،، وہاں کچھ ایسے معاملات بھی ہوتے ہیں جو بحیثیت افراد ہمیں اپنوں سے دور کر گئے ۔۔۔ مثلاً ایک خاص طرز پر ہی ملنا جلنا، جو کہ زیادہ تر انویٹیشن کی بنیاد پر ہی ہوتا ہے چاہے وہ کھانے کی دعوت ہو یا چائے کی۔ پھر اس کے لئے خصوصی اہتمام ۔۔ جس پر فی زمانہ اچھا خاصہ خرچا آتا ہے۔ اور مہمان کو یہ فکر کہ آج یہ سب کھا کے آئیں ہیں تو اب اسی معیار کا کھلانا بھی ہو گا۔ اپنی چادر سے بڑھ کر پاؤں پھیلانے پر جو پریشانی بعد میں آئے گی۔ اس کے پیشِ نظر وہ دعوت قبول کرنے سے بھی ہچکچانے لگتا ہے۔
اچھا مزید برآں ۔۔۔ کچھ رشتہ دار خود 10طرح کی ڈشیز بنا کے آگے رکھ کر اپنی امارت کا رعب تو ڈالتے ہی ہیں۔۔۔ پھر اس بات پر شکوہ کناں بھی ہوتے ہیں کہ ہم نے تو اتنی خاطر مدارت کی۔۔ جبکہ ہمارے آنے پر بس وہی 2 ڈشیز ہمارے آگے رکھی گئیں۔
سو لوگ ہر بار ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ۔۔۔
اس پوری کھینچا تانی میں وہ قہقہے اور بے فکریاں کہیں گم ہوگئے۔۔ جو سادگی اور بے دھڑک ہو کر ملنے جلنے میں تھے۔
آج اگر کوئی کسی کو اس سے بڑھ چڑھ کر کھلا نہ سکے تو وہ خود کہیں آنے جانے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہے۔ کہ کھائیں گے تو کھلانا بھی پڑے گا۔ وہ بھی جوابی طور پر پہلے سے بڑھ کر۔۔۔۔۔۔
سو دوستو۔
بات کل ملا کے یہ ہے کہ وہ بہن بھائیوں ، یاروں دوستوں اور دوسرے خونی رشتوں میں جہاں یہ تکلفات آڑے آنا ہمیں اکیلا اور تنہا کر گیا،،، وہاں یہ ہماری معصومیت بھی لے گیا۔ آج کے دور میں ہم جتنا رکھ رکھاؤ اور سلیقے کے ساتھ پھونک پھونک کر ایک دوسرے سے ملتے ہیں
کیا کبھی بچپن میں ایسے ملا کرتے تھے؟؟؟؟
بچپن کے دوست آج بھی ملیں تو خوشی کا احساس ، سرور کی کیفیت اور قہقہوں کا شور ہی اور ہوتا ہے۔ اب جو دوست بنائے جائیں ان کے سامنے بھی ہمیں رکھ رکھاؤ اور سلیقے سے پیش آنا ہوتا ہے
ہمیں ڈر ہوتا ہے کہ لوگ ہمارے بارے میں ججمنٹل نہ ہو جائیں۔ وہ سب کچھ نہ جان لیں جو ہم نے بڑی محنت سے چھپایا ہے۔ کیونکہ اس سے ہماری عزت ، رتبے، معیارات میں کمی آئے گی تو دوستی پر بھی فرق پڑے گا۔۔۔۔
کبھی وہ وقت تھا کہ ظاہری حلیہ اور مادی چیزیں رشتوں سے پیچھے تھیں اور بھروسہ آگے تھا۔۔۔انسان خوش تھا۔
اب یہ وقت ہے کہ ظاہری طور و اطوار رشتوں، دوستیوں اور محبتوں سے آگے بڑھ گئے ۔ انسان اندر سے خالی ہوتا چلا گیا
اور آج وہ ہجوم اور بھیڑ میں بھی تنہا ہے۔۔۔ کیونکہ اس کے پاس ایک بھی ایسا رشتہ اور تعلق نہیں،،،، جس کے سامنے وہ اپنے اندر کی کمیاں خامیاں عیاں کر سکے، اپنی ذات کی ناکامیاں رکھ سکے اور اپنی غلطیوں کا اعتراف دھڑلے سے کر سکے ۔ اسے یہ خوف نہ ہو کہ وہ اس کے بارے کیا سوچے گا یا جج کرے گا۔۔۔۔۔۔
سو اگر آپ کے پاس ایسا کوئی رشتہ ہو۔۔۔۔ بہن بھائیوں ، دوستوں میں۔۔۔۔ تو اسے ظاہریت کی بھینٹ کبھی نہ چڑھنے دیں۔ اسے کھانے کھلانے کی ٹینشن ، پہناوے، آن بان شان کی پہنچ سے دور رکھیں۔۔۔۔
بچوں کے جیسے معصوم ، بے فکر تعلقات انسان کو اندر سے زندہ رکھتے ہیں۔ ورنہ وہ جی نہیں رہا ہوتا۔۔۔ صرف سانس لے رہا ہوتا ہے۔۔۔

Total Pageviews