گذشتہ کئی سالوں سے ان موضوعات کو پڑھ رہی اور لکھ رہی ہوں۔۔۔ یہ تحریر میرا حاصل مطالعہ ہے۔۔
کلاؤڈ برسٹ اب افسانہ نہیں رہا
ملیحہ سید
خیبر پختونخوا کے پہاڑی اضلاع۔۔۔خصوصاً بونیر اور سوات۔۔۔گزشتہ دنوں جس تباہ کن بارش اور اچانک سیلاب (فلیش فلڈ) کا شکار ہوئے، اس کے اسباب سمجھنے کے لیے سب سے پہلے ’’کلاؤڈ برسٹ‘‘ کی واضح تعریف ضروری ہے۔
موسمیات میں کلاؤڈ برسٹ اس انتہائی شدید اور مقامی بارش کو کہا جاتا ہے جو عموماً پہاڑی یا وادی علاقوں میں قوی ابھری ہوئی ہواؤں (orographic lift) اور طاقتور کنویکشن کے باعث بہت کم وقت میں ایک چھوٹے رقبے پر برستی ہے۔
عالمی ماہرین اسے عموماً ایسے واقعے کے طور پر بیان کرتے ہیں جس میں 30 مربع کلومیٹر یا اس سے بھی کم علاقے میں بارش کی شدت 100 ملی میٹر فی گھنٹہ یا اس سے زیادہ ہو۔یہ وہ شدت ہے جو چند منٹوں میں برساتی نالوں کو دریا بنا دیتی ہے اور ڈھلوان علاقوں میں مٹی کے تودے گرا دیتی ہے۔
ورلڈ میٹیورولوجیکل آرگنائزیشن کے حوالہ جاتی معیارات بھی اس طرح کی بارشوں کو عام ’’ہیوی رین‘‘ سے الگ درجہ دیتی ہیں اور انہیں پرتشدد موسلا دھار شاورز کی حد تک رکھتی ہیں۔ کلاؤڈ برسٹ اکثر کُول ایئر ماس میں گرم مرطوب ہوا کے اچانک اٹھنے اور بلند بادلوں (کومولونمبس) میں بڑے قطروں کے تیزی سے جڑنے کے عمل سے بنتا ہے، اس لیے اس کا دورانیہ مختصر مگر اثر تابناک ہوتا ہے۔
ایسے واقعات وادیِ سوات اور بونیر جیسے خطوں میں کیوں زیادہ تباہ کن ثابت ہوتے ہیں؟ وجہ یہ کہ تنگ و عریض وادیوں، ڈھلوانی بستیاں، دریا کے کنارے آباد کاری، اور ندی نالوں کی قدرتی گزرگاہوں پر تجاوزات پانی کے بہاؤ کو محدود کرتی ہیں۔
جب انتہائی قلیل وقت میں بہت زیادہ بارش گرتی ہے تو پانی کو پھیلنے کی جگہ نہیں ملتی، نتیجتاً دباؤ اچانک بڑھتا ہے، کٹاؤ تیز ہوتا ہے، پل، سڑکیں اور کچے گھر بہہ جاتے ہیں، اور لینڈ سلائیڈنگ سلسلہ وار شروع ہو جاتی ہے۔ یہی کچھ حالیہ دنوں میں ہوا۔
شمال مغربی پاکستان میں غیر معمولی موسلا دھار بارشوں اور کلاؤڈ برسٹس نے اچانک سیلاب پیدا کیے جن میں درجنوں بستیاں متاثر ہوئیں، لینڈ سلائیڈز اور ریلوں نے جانیں لیں اور مواصلات منقطع ہوئے۔
مستند خبررساں اداروں اور صوبائی اعدادوشمار کے مطابق سب سے زیادہ جانی نقصان خیبر پختونخوا میں ہوا، جہاں بونیر ضلع میں اموات کی تعداد غیر معمولی رہی اور سوات میں گھروں، اسکولوں اور ڈھانچوں کی تباہی ریکارڈ ہوئی۔
خبر رساں اداروں کے مطابق 15 اگست 2025 تک صرف شمال مغرب میں بارش اور اچانک سیلاب کے تازہ سلسلے میں درجنوں ہلاکتیں رپورٹ ہوئیں، جبکہ مجموعی طور پر موسمِ برسات کے آغاز (اواخر جون) سے ملک بھر میں سینکڑوں اموات ہو چکی تھیں۔ اسی دوران ریسکیو مشن پر مامور ایک ہیلی کاپٹر بھی خراب موسم کے باعث حادثے کا شکار ہوا جس میں عملہ جاں بحق ہوا۔
یہ سب اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ شدید موسمی واقعات کے دوران رسائی، مواصلات اور مدد رسانی خود کتنا بڑا چیلنج بن جاتے ہیں۔ سوات دریا کے مقامات پر بھی پانی کی سطح میں خطرناک اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آیا اور سیاحتی وادیوں میں پھننسے لوگوں کی بڑی تعداد کو نکالنا پڑا۔
پاکستان میں ایسے سانحات اب ’’غیر معمولی‘‘ نہیں رہے۔عالمی موسمیاتی ادارہ (WMO) واضح کر چکا ہے کہ 2024 کرۂ ارض کا اب تک کا گرم ترین سال رہا، جبکہ ایشیا کا خطہ مسلسل غیر معمولی حدت، ریکارڈ سمندری درجہ حرارت اور اوسط سے زیادہ سمندری سطح کے اضافے کا سامنا کر رہا ہے۔ شدید بارشیں اور سیلاب 2024 میں ایشیا کے سب سے زیادہ نمایاں خطرات میں شمار ہوئے۔
بین الاقوامی سائنسی جائزوں کے مطابق حدت میں اضافے سے فضا میں نمی زیادہ رُکی رہتی ہے اور جب وہ گِرتی ہے تو بارش کے واقعات مزید شدید ہوتے ہیں۔یعنی "جب برستی ہے تو ٹوٹ کر"۔ یہی رجحان جنوبی ایشیا کے مون سون خطے میں مختصر مگر شدید بارشی جھکڑوں اور کلاؤڈ برسٹس کے امکانات کو بڑھا رہا ہے۔
ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن کے حالیہ اور سابقہ مطالعات نے پاکستان میں شدید بارشوں کے بعض سلسلوں میں انسانی وجہ سے ہونے والی حدت کے واضح اثرات دکھائے ہیں۔
تازہ تجزیوں میں 2025 کے وسطِ مون سون میں پاکستان کے کئی شہروں اور شمالی علاقوں میں ہونے والی موسلا دھار بارشوں اور شہری سیلاب میں انسانی سرگرمیوں سے پیدا شدہ حدت کو ایک اہم عنصر قرار دیا گیا۔
جبکہ 2022 کے تباہ کن سیلابوں کے بارے میں اسی نیٹ ورک کی تحقیق نے 5 روزہ شدید بارش کے واقعات میں بارش کی شدت کو بعض ماڈلز میں 50 فیصد تک زیادہ بتایا یعنی اسی نوعیت کے نظام اب پہلے سے کہیں زیادہ نمکیات اور توانائی لے کر برستے ہیں اور مروجہ ڈھانچوں کی برداشت سے باہر ہو جاتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی ’’ایمیشنز گیپ رپورٹ 2024‘‘ خبردار کرتی ہے کہ اگر عالمی درجۂ حرارت کو 1.5°C تک محدود رکھنے کے تقاضے پورے نہ کیے گئے تو 2°C یا اس سے زیادہ گرم دنیا میں انتہائی موسمی واقعات،جن میں مختصر مگر شدید بارشیں بھی شامل ہیں مزید کثرت اور شدت سے آئیں گے۔
اسی طرح آئی پی سی سی کی تازہ جامع رپورٹ واضح کرتی ہے کہ جنوبی ایشیا میں انتہائی بارش اور متعلقہ سیلابی خطرات بڑھ رہے ہیں اور کمزور ڈھانچوں، دریا کے کنارے آبادی اور غریب طبقوں پر ان کے اثرات غیر معمولی ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک جو عالمی اخراج میں کم حصہ ڈالتے ہیں، سب سے زیادہ قیمت ادا کر رہے ہیں۔
کلاؤڈ برسٹ کے بعد زمینی سطح پر تباہی کے بنیادی میکانزم واضح ہیں ،انتہائی قلیل وقت میں بہت زیادہ بارش، ڈھلوانوں پر مٹی کا اچانک بھربھرا جانا، لینڈ سلائیڈنگ، نالوں کا پلک جھپکتے میں سیلابی ریلوں میں بدل جانا، اور دریا کے کناروں پر تیز کٹاؤ۔ بونیر اور سوات جیسی وادیوں میں گھروں اور انفراسٹرکچر کی تباہی اسی زنجیر کی کڑیاں ہیں۔
حالیہ رپورٹوں میں خیبر پختونخوا کے اضلاع میں اموات، گھروں اور سکولوں کی تباہی کے اعدادوشمار سامنے آئے، جو اس بات کی گواہی ہیں کہ موسمیاتی خطرات اب ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے معمولات سے آگے کا مسئلہ بن چکے ہیں۔
پالیسی اور عمل کی سطح پر کیا ضروری ہے؟
* سب سے پہلے، ہنگامی وارننگ اور کمیونٹی رسپانس۔خاص طور پر وادیوں اور ندی نالوں کے قریب آبادیوں کے لیے،کو حد درجہ مقامی بنایا جائے۔
* دوسری بات، دریا اور برساتی نالوں کی قدرتی گذرگاہوں سے تجاوزات ہٹانا، خطرے کے نقشوں کے مطابق غیر محفوظ علاقوں سے محفوظ جگہوں پر منصوبہ بند منتقلی اور مقامی تعمیرات کے معیارات میں بارشی لوڈ کے مطابق بہتری لانا۔
* تیسری بات، سیلابی میدانوں میں کچے گھروں کی ازسرِنو تعمیر کے بجائے بلند پلینتھ اور سیلاب سے محفوظ ڈیزائن اپنانا۔
* چوتھی بات، سیلابی بیمہ، کمیونٹی فنانس، اور مقامی حکومتوں کے لیے موسمیاتی فنڈنگ تک رسائی۔
• پانچویں بات، سیاحتی وادیوں کے لیے "ریئل ٹائم رسک انفارمیشن" سڑک بندشیں، دریا کی سطح، لینڈ سلائیڈ الرٹس ۔۔۔کو موبائل اور ایف ایم چینلز پر لازماً نشر کرنا۔
کیونکہ مقامی معیشتیں سیاحت پر انحصار کرتی ہیں اور بروقت معلومات جانیں بچاتی ہیں۔
یہ سب اقدامات اسی وسیع تر پس منظر میں معنی رکھتے ہیں جہاں عالمی درجۂ حرارت تاریخی بلند ترین سطح پر ہے اور ایشیا بھر میں سیلابی خطرات ڈیٹا کے ساتھ بڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔
بالائی پاکستان۔۔۔۔خاص طور پر گلگت بلتستان میں گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے (GLOFs) اور مسلسل لینڈ سلائیڈنگ کے خدشات کے پیشِ نظر خیبر پختونخوا اور پنجاب کے دریا بھی اچانک بہاؤ میں اضافے سے متاثر ہو سکتے ہیں۔
حالیہ ہفتوں میں قراقرم ہائی وے پر بار بار تعطل اور جانی نقصان نے دکھایا کہ ایک خطے کا خطرہ دوسرے خطوں کی رسد، تجارت اور سیاحت تک کو مفلوج کر دیتا ہے۔ اس لیے بین الاضلاعی رابطہ کاری، موسمیاتی ڈیٹا کی فوری ترسیل، اور متبادل راستوں و سپلائی چین کی پیشگی منصوبہ بندی اب لازمی ہے۔
آخر میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ’’کلاؤڈ برسٹ‘‘ کوئی افسانوی اصطلاح نہیں بلکہ ایک موسمیاتی حقیقت ہے جس کے پیچھے ٹھوس طبیعیات اور گرم ہوتی ہوئی دنیا کی سخت حقیقت موجود ہے۔ بونیر اور سوات میں حالیہ تباہی ہمیں بتاتی ہے کہ جب پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر چند گھنٹوں میں مہینوں جتنی بارش گرتی ہے تو کمزور ڈھانچے اور بے ہنگم آباد کاری سب سے پہلے ٹوٹتے ہیں۔
عالمی رپورٹس مسلسل متنبہ کر رہی ہیں کہ پاکستان جیسے ممالک کے لیے موافقت (Adaptation) اور لچکدار ڈھانچے بنانا اب اختیار نہیں، مجبوری ہے اور جب تک عالمی سطح پر اخراج کم نہیں ہوتے، ایسے سانحے بار بار سر اٹھاتے رہیں گے۔
صورتِ حال ہنگامی بھی ہے اور ساختی بھی، اس لیے حکمتِ عملی کو تین دائروں میں بیک وقت چلانا چاہیے۔۔۔ جیسے
فوری ردِعمل، قلیل/درمیانی مدت کی تیاری، اور طویل مدتی ساختی اصلاح۔
ذیل میں ایک عملی روڈ میپ ہے جو خیبر پختونخوا بالخصوص سوات، بونیر اور ملحقہ وادیوں کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، مگر اسے صوبائی وفاقی سطح پر بھی اپنایا جا سکتا ہے۔
سب سے پہلے ایک واضح اصول: کلاؤڈ برسٹ کم وقت میں غیرمعمولی بارش ہے، اس لیے "چند گھنٹے پہلے" درست وارننگ، "چند منٹ" میں محفوظ جگہ منتقل ہونے کے راستے، اور "چند دن" میں بحالی کی فوری صلاحیت۔۔ یہ تین ستون کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ کرتے ہیں۔
فوری اور آئندہ مون سون کے لیے لازمی اقدامات
ہنگامی انتباہ کو آخری میل تک لے جائیں۔۔۔ موبائل سیل براڈکاسٹ، ایف ایم ریڈیو، مساجد کے لاؤڈ اسپیکر، اور مقامی والینٹیئر نیٹ ورک ایک ہی متن کے ساتھ ایک ہی وقت میں الرٹ جاری کریں۔ پیغام صرف تین چیزیں بتائے۔۔ کہ
* خطرہ کیا ہے ؟
* محفوظ مقام کہاں ہے؟
* پہنچنے میں کتنا وقت لگے گا؟
✓"ریڈ الرٹ پروٹوکول"طے کریں۔۔۔
• مخصوص تھریش ہولڈ (مثلاً فی گھنٹہ غیر معمولی بارش/ندیوں کی سطح میں تیز اضافہ) ملتے ہی سکول بند، سیاحت عارضی معطل، دریا کنارے کاروبار و تعمیرات فوراً خالی، اور بستی وار محفوظ مراکز کھول دیے جائیں۔
* انخلا کے راستوں کی پیشگی نشاندہی اور نشانات: ہر یونین کونسل میں کم از کم دو متبادل راستے، راستوں پر فاصلہ/وقت کے سائن بورڈ، رات میں نظر آنے والی ریٹرو ریفلیکٹو پٹی اور پلوں کے قریب گائیڈ پوسٹس۔
* نالوں کی فوری ڈیسِلٹنگ اور قبضہ ختم کرنا۔۔۔ مون سون کے دوران ہنگامی اختیارات کے تحت برساتی گزرگاہوں سے رکاوٹیں، بجری، اور عارضی تعمیرات فوراً ہٹائی جائیں۔۔ خلاف ورزی پر موقع پر جرمانہ اور بھاری ضبطی۔
* قبل از حادثہ طبی و ریسکیو تیاری: تحصیل سطح پر ایمبولینس، کشتی، رسیاں، لائف جیکٹس، سیٹلائٹ فونز، جنریٹر، اور ادویات کا اسٹاک؛ مقامی ڈاکٹرز اور رضاکاروں کی 48 گھنٹے کی ڈیوٹی روٹیشن۔
* سیاحتی نظم و ضبط: دریا کے کنارے ہوٹلز/کیمپس پر رئیل ٹائم الرٹ اسکرینیں، خطرے کے وقت فوراً مہمانوں کی اندراجی فہرست اور اجتماعی انخلا کی مشق۔۔ غیرمحفوظ مقامات پر سیلفی/کیپنگ پر جرمانہ۔
✓ قلیل اور درمیانی مدت (۳–۱۲ ماہ)
* خطرے کے نقشے اور قانون سازی : وادی وار فلڈ پلین/لینڈ سلائیڈ رسک میپنگ کروا کر ’’نو-بلڈ زون‘‘ قانونی طور پر مقرر کریں۔ دریاکنارے 50–200 میٹر (مقامی ہائیڈرولوجی کے مطابق) کا کوریڈور بطور ’’قدرتی گزرگاہ‘‘ محفوظ کیا جائے۔
* عمارات کے ہِل ایریا بائی لاز: نچلے فرش کی بلند بنیاد (raised plinth)، پائل/راک بولٹنگ، ریٹیننگ والز کے انجینئرڈ ڈیزائن، بڑے کلورٹس و کراسنگز کی گنجائش کو 1-in-50 یا 1-in-100 سالہ بارش کے مطابق اپڈیٹ کرنا؛ خلاف ورزی پر تعمیر سیل اور فوری مسماری کے اخراجات مالک پر۔
* ڈھیٹ بہاؤ اور ملبہ روکنے کے ڈھانچے: نالوں میں ڈیبرِس فلو بیریئرز، چیک ڈیمز، گابیون وال/ٹو وائر بنڈز، اور دریا میں ساحلی کٹاؤ روکنے کے اسمارٹ اسپَرز، مگر صرف اُن جگہوں پر جہاں ہائیڈرولک ماڈلنگ اسے مؤثر بتائے۔
* بارش و دریا کی رئیل ٹائم نگرانی: آٹومیٹڈ ویدر اسٹیشنز اور دریا سطح گیجز کی کثافت بڑھا کر ڈیٹا کو آن لائن ڈیش بورڈ/ایپ میں کھولا جائے؛ مقامی زبان (پشتو/اردو) میں الرٹس۔
* سکول و کلینک بطور پناہ گاہ: کم از کم ایک محفوظ فلور، ایڈجسٹ ایبل بیڈز، خواتین و بچوں کے لیے علیحدہ کمروں کی گنجائش، سولر بیک اپ، اور محفوظ پانی/سینی ٹیشن کے مستقل انتظامات۔
* مالیاتی تحفظ: صوبائی ڈیزاسٹر رسک فنانسنگ فریم ورک۔۔ہنگامی فنڈ، کنٹینجنسی بجٹ، اور " پیرامیٹرک مائیکرو انشورنس" ۔ جس کے تحت مخصوص بارش/دریا سطح پر کسان/دکاندار کو خودکار ادائیگی ہو۔ بنکوں کے ذریعے کم سود بحالی قرض، اور سیلابی علاقوں کے لیے ٹیکس و فیس میں عارضی ریلیف۔
* محفوظ روزگار و بحالی: "کیَش فار ورک" کے تحت نالوں کی صفائی، سڑکوں کی بحالی، سبزی/پولٹری کٹس، اور خواتین کے گھریلو روزگار پیکجز ۔۔۔ متاثرہ گھرانوں کے لیے شفاف فہرستیں اور موبائل منی ادائیگیاں۔
* کمانڈ اینڈ کنٹرول: ضلعی سطح پر "انسیڈنٹ کمانڈ سسٹم" کی باقاعدہ تربیت، سال میں کم از کم دو بڑے فلڈ ڈرلز، اور ریسکیو، پولیس، محکمۂ صحت، لوکل گورنمنٹ، سیاحت اور ہاؤسنگ کے نمائندوں پر مشتمل مشترکہ آپریشن روم۔
طویل مدت (۱–۳ سال اور آگے)
* زمین کے استعمال کی اصلاح: دریا کے قدرتی کوریڈور کی مکمل بحالی، بڑے ہوٹل/مارکیٹس کی مرحلہ وار محفوظ منتقلی، نالوں پر مستقل تجاوزات کے خلاف زیرو ٹالرنس، اور نئی ہاؤسنگ اسکیموں کی مشروط منظوری صرف خطراتی نقشے کے مطابق۔
* جامع انفراسٹرکچر ریزیلینس: پلوں کو اوورٹاپنگ سے بچانے کے لیے فری بورڈ بڑھانا، سیلابی پانی کے متبادل راستے (relief culverts)، لینڈ سلائیڈ پرن زونز میں روڈ الائنمنٹ کی تبدیلی، اور اہم سڑکوں/پُلوں کے نیچے ملبہ پھنسنے سے روکنے کے لیے ڈیٹریٹس کیچمنٹ ڈیزائن۔
* قدرتی حلوں کا مرکزی دھارا: مقامی نوع کے درختوں کے ساتھ ڈھلوانوں کی بایو انجینئرنگ، اسپرنگز اور واٹر کیچمنٹس کی بحالی، ویٹ لینڈز اور فلڈ پلین ری اسٹوریٹو پروجیکٹس تاکہ اچانک بارش کا دباؤ قدرتی طور پر تقسیم ہو۔
* گلیشیائی وادیوں کے لیے خصوصی پروگرام: GLOF مانیٹرنگ، برفانی جھیلوں کی ڈرینیج/اسپل ویز، اور قراقرم/ہندوکش ہائی ویز پر لینڈ سلائیڈ ارلی وارننگ۔
* تعلیم اور رویّہ: سکول نصاب میں مقامی ڈیزاسٹر آگہی، ہر بستی میں خواتین و نوجوانوں کی رضاکار ٹیمیں، سالانہ مشقیں، اور سیاحوں کے لیے " ڈو نَو ہارم" رہنما اصول (پلاسٹک/کچرا، دریا کنارے غیرمحفوظ سرگرمیاں، آتش بازی وغیرہ پر پابندی)۔
* ڈیٹا، تحقیق اور احتساب
ہر واقعے کے بعد 30 دن میں ’’لَیسن لرنٹ‘‘ رپورٹ، نقصان کی کھلی ڈیٹاسیٹ اور عوامی سماعت؛ سالانہ "ریزیلینس اسکورکارڈ " جس میں الرٹ کی رفتار، انخلا کی کامیابی، ڈھانچوں کی مزاحمت، اور بحالی وقت کی پیمائش ہو۔
* ادارہ جاتی اور مالیاتی بندوبست
صوبائی/ضلعی سطح پر ایک ’’کلاؤڈ برسٹ سیفٹی سیل‘‘ بنایا جائے جس میں موسمیات، آبپاشی، پبلک ہیلتھ، پی اینڈ ڈی، لوکل گورنمنٹ، ریسکیو 1122 اور ٹورزم سب شامل ہوں۔ یہ سیل وارننگ، رسک میپنگ، اور نافذ العمل بندوبست کا نگہبان ہو۔
* فنڈنگ کے ذرائع کو متنوع کریں
سالانہ ترقیاتی پروگرام میں "کلائمیٹ ایڈاپٹیشن ونڈو"، بین الاقوامی موسمیاتی فنڈز تک رسائی (گرین کلائمیٹ فنڈ/ایڈاپٹیشن فنڈ)، ڈونر پارٹنرشپس، اور ڈیزاسٹر بانڈز/انشورنس پول کے ذریعے بڑے انفراسٹرکچر کی مالیاتی حفاظت۔
* شفاف خریداری و عملدرآمد
ای ٹینڈرنگ، تھرڈ پارٹی مانیٹرنگ، اور کرپشن/بدانتظامی پر فوری سزا؛ "پراجیکٹ میپ" عوام کے لیے آن لائن تاکہ ہر بند، اسپل وے، پل اور ڈرین کی حالت اور مرمت کی تاریخ نظر آ سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ ساتھ مقامی سطح کی چھوٹی مگر فیصلہ کن تبدیلیاں،ہر گھر کے لیے ایمرجنسی کٹ (ٹارچ، ریڈیو، پاور بینک، پہلی امداد، گرم کپڑے، خشک راشن) اور خاندان کا انخلا منصوبہ۔
گھروں کی بُنیاد بلند اور دروازوں/ونڈوز پر فلڈ اسٹاپرز؛ چھت کا پانی محفوظ کرنے والے ٹینک تاکہ اچانک بہاؤ نالیوں پر کم دباؤ ڈالے۔
کمیونٹی سطح پر ’’بارش گھنٹی‘‘ یا سائرن؛ رضاکاروں کے پاس بنیادی رَسی اور لائف جیکٹ کی دستیابی؛ دیہات میں ٹریکٹر/چار پہیہ گاڑی بطور ہنگامی نقل و حمل۔
الغرض کلاؤڈ برسٹ کے دور میں کامیابی کا راز " سیکنڈز اور منٹس" کو جیتنے میں ہے ۔۔۔ یعنی وارننگ تیز، انخلا آسان، راستے کھلے، اور ڈھانچے لچکدار۔ اگر ہم قانون، انجینئرنگ، فنانس اور سماجی نظام کو ایک لڑی میں پرودیں تو سوات، بونیر اور پورا کے پی نہ صرف کم نقصان اٹھائے گا بلکہ ہر اگلے مون سون کے ساتھ زیادہ محفوظ ہوتا جائے گا۔
August 15, 2025
WHAT IS CLOUD BURSTS, KPK BONIR HEAVEY RAINS FLOODS, LOT OF DEATHS
Subscribe to:
Comments (Atom)
