July 15, 2023

How to Cold Buildings in Past, پرانے زمانے میں لوگ کیسے گھروں کو ٹھنڈا رکھتے تھے۔

جدید معمار تاج محل کے فن تعمیر سے عمارتوں کو ٹھنڈا کرنا کیسے سیکھ رہے ہیں  

جب آپ انڈیا کے دارالحکومت دہلی سے ملحق نوئیڈا میں قائم مائیکروسافٹ کے دفتر میں داخل ہوتے ہیں تو 400 سال قبل مغل دور حکومت میں تعمیر شدہ تاج محل کے فن تعمیر کا امتیاز فوری طور پر سمجھ میں آتا ہے۔

ہاتھی دانت کے سفید رنگ میں نہائی یہ خوبصورت محرابوں اور جگہ جگہ 'جالیوں' والی عمارت جہاں تاج محل کی شان و شوکت کا بصری قصیدہ ہے وہیں یہ جدید ترین کام کی جگہ بھی ہے۔

پیچیدہ جالی کی سکرینوں کے سوراخ سے چھن کر آتے ہوئے روشنی کے جھرنے روشنی اور گہرائی کا شاندار تاثر پیدا کرتے ہیں۔ توانائی کی بچت والی لائٹس کے ساتھ یہ تعمیراتی خصوصیت عمارت کے کاربن فوٹ پرنٹ کو کم رکھنے میں مدد کرتی ہے اور اسی وجہ سے دفتر کو لیڈ (لیڈرشپ ان انرجی اینڈ انوارنمنٹل ڈیزائن) پلاٹینم کی درجہ بندی ملی ہوئی ہے جو کہ امریکی گرین بلڈنگ کونسل کی سب سے زیادہ پائیداری کی سند ہے۔

جالی کی اصطلاح وسطی اور جنوبی ایشیا میں استعمال ہوتی ہے۔ آرائشی نمونوں کے ساتھ سنگ مرمر یا سرخ ریت کے پتھر میں تراشی گئی جالیاں 16ویں اور 18ویں صدی کے درمیان ہندوستان میں فن تعمیر کی ایک مخصوص خصوصیت ہوا کرتی تھی۔

ویں صدی کے وسط میں ہندوستان کے شہر آگرہ میں تعمیر کیے گئے تاج محل کی شاندار نقش و نگار والی جالیاں، ٹھوس اور خلا، مقعر (کھوکھلے) اور محدب (ابھرے)، لکیروں اور منحنی خطوط، روشنی اور سائے کا ایک ہم آہنگ مرکب بناتی ہیں۔

اس طرح کی ایک تعمیر ہوا محل ہے جسے انڈین شہر جے پور میں سنہ 1799 میں راجپوت حکمرانوں نے بنوایا تھا۔ اس میں 953 کھڑکیاں ہیں جن میں جالیاں اس طرح لگائی گئی ہیں کہ ان سے چھن کر عمارت کے اندر ہوا کے ہلکے ہلکے جھونکے آئیں۔

 یہ جالیاں ہوا کو گردش کرنے دیتی ہیں‘

ثقافتی ورثے کے تحفظ میں مہارت رکھنے والے ماہر تعمیرات اور قابل عمل ڈیزائن پر کئی کتابوں کے مصنف یتن پانڈیا کا کہنا ہے کہ عمارتوں میں فنکارانہ مزاج کو پیش کرنے کے علاوہ یہ جالیاں 'ہوا کو گردش کرنے دیتی ہیں، [عمارتوں کو] سورج کی روشنی سے بچانے کا کام کرتی ہیں اور پرائیویسی کے لیے ایک پردہ فراہم کرتی ہیں۔'

اب جدید دور کے بہت سے معمار عمارتوں میں پائیدار ٹھنڈک کی تلاش میں آرام دہ اور کم کاربن والی عمارتوں کی تعمیر کے لیے اس قدیم ڈیزائن کو زندہ کر رہے ہیں۔

گرمی کی شدت اور توانائی بحران کا توڑ

بلڈنگ سیکٹر میں آب و ہوا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ عمارتوں سے اخراج 2019 میں اپنی اب تک کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا، جو عالمی کاربن (سی او ٹو) کے اخراج کا 38 فیصد رہا۔

عمارتوں کو ٹھنڈا کرنے میں خاص طور پر توانائی کی ضرورت ہو سکتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ سنہ 2050 تک دنیا بھر میں ایئر کنڈیشنگ یونٹس کی تعداد آج سے تین گنا سے زیادہ ہو سکتی ہے اور اس میں جتنی بجلی لگے گی وہ پورے انڈیا اور چین میں خرچ ہونے والی بجلی کے برابر ہوگی۔

اس کے ساتھ ہی دنیا بھر میں گرمی کا موسم اور گرمی کی لہریں طویل اور شدید ہوتی جا رہی ہیں۔ انڈیا نے خاص طور پر رواں سال شدید گرمی کی لہروں کا ایک سلسلہ دیکھا ہے۔ مئی کے مہینے میں دہلی میں درجہ حرارت ریکارڈ 49 سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا۔

تیزی سے پھیلتے شہر اور بڑھتی ہوئی گرمی کے پیش نظر انڈیا میں اب پائیدار، صاف اور کم توانائی کے ذریعے موثر ٹھنڈک حاصل کرنے کی صورت تلاش کی جا رہی ہے۔

سنہ 2019 میں انڈین حکومت نے انڈیا کولنگ ایکشن پلان کا آغاز کیا، جس میں پائیدار اور کم توانائی کی کھپت سے موثر کولنگ تک رسائی فراہم کرنے کے لیے درکار اقدامات کا خاکہ پیش کیا گیا۔

یہ منصوبہ غیر فعال کولنگ نظام کی اہمیت پر زور دیتا ہے یعنی گھر کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے تعمیرات تاکہ آب و ہوا کے اثرات سے حفاظت کو فروغ دینے اور شہری گرمی کے اثرات کو کم کرنے میں مدد ملے اور جہاں عمارتیں اور سڑکیں گرمی کو جذب اور برقرار رکھیں۔

بنگلور میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس کے ممتاز سائنسدان جے سرینواسن کہتے ہیں: 'انڈیا میں گرمی کے زیادہ دباؤ کا خطرہ پہلے سے ہی موجود ہے، جس کے آنے والے برسوں میں مزید خراب ہونے کی امید ہے۔ اس سے ایئر کنڈیشنرز کی مانگ میں اضافہ ہو جائے گا اور ان سے گرمی کی پیداوار بہت زیادہ ہوتی ہے۔'

انھوں نے مزید کہا کہ عمارت کو ٹھنڈا کرنے کے متبادل طریقوں کی ضرورت ہے اور اس میں ایسی عمارتوں کے ڈیزائن کی ضرورت ہے جس میں اے سی کی کم ضرورت ہو۔

اس چیلنج کے پیش نظر کچھ ماہر فن تعمیر گرمی سے بچنے کے لیے ماضی میں کیے جانے والے تدارک سے متاثر ہو رہے ہیں، ان میں روایتی جالیاں بھی ہیں۔

دہلی میں قائم زیڈ لیب کے بانی ڈائریکٹر اور ماہر فن تعمیر سچن رستوگی کا کہنا ہے کہ '[یہ جالیاں] پائیدار ٹھنڈک اور وینٹیلیشن کے مسائل کے حل کے لیے ایک ماحول دوست ردعمل کے طور پر کام کرتی ہیں۔'

غیر فعال کولنگ تکنیک اور عمارت کے لفافے (جو عمارت کے اندرونی حصے کو بیرونی ماحول سے الگ کرنے میں مدد کرتے ہیں) اندرونی درجہ حرارت کو کم کرکے، ایئر کنڈیشنگ کی ضرورت کو کم کرتے ہیں اور قابل قدر سکون فراہم کرتے ہیں جس کے نتیجے میں 70 فیصد تک توانائی کی بچت ہوسکتی ہے۔

جالی حدت کیسے کم کرتی ہے؟

جالی ایک عام کھڑکی کے کل مربع میٹر کو کئی چھوٹے چھوٹے خانوں میں تقسیم کر کے عمارت میں داخل ہونے والی براہ راست حرارت کو کم کرتی ہے۔

پانڈیا کا کہنا ہے کہ روایتی جالی میں سوراخ تقریبا ماربل یا ریت والے پتھر کی موٹائی کے سائز کے ہی ہوتے ہیں۔

انھوں نے کہا: 'یہ موٹائی سورج کی روشنی کی براہ راست چمک کو کم کرنے کا کام کرتی ہے جبکہ اس سے منتشر ہونے والی روشنی کو داخلے کی اجازت دیتی ہے۔'

جالی سے پیدا ہونے والی ٹھنڈک کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ وینٹوری ایفیکٹ پر اسی طرح انحصار کرتی ہے جیسے ایئر کنڈیشنگ یونٹ۔

پانڈیا کہتے ہیں: 'جب ہوا سوراخوں سے گزرتی ہے، تو یہ رفتار پکڑتی ہے اور دور تک گھسی چلی جاتی ہے۔ چھوٹے سوراخ یا شگاف کی وجہ سے ہوا دب جاتی ہے اور جب وہ خارج ہوتی ہے تو ٹھنڈی ہو کر نکلتی ہے۔'

پانڈیا کہتے ہیں کہ کولنگ کی جدید تکنیکوں کے عروج نے جالی کے استعمال کو محدود کر دیا لیکن 'گلوبل وارمنگ کے خدشات اس کی بحالی کی طرف توجہ مرکوز کرا رہے ہیں۔۔۔ اور روایتی تعمیراتی شکلوں نے ماحولیاتی حالات کا مقابلہ کرنے میں اپنی اہمیت کو ثابت کیا ہے۔'

جالی ایک بار پھر سے مقبول ہو رہی ہے

چین کے شہر فوشان میں ٹائمز آئی-سٹی کمپلیکس سے لے کر فرانس کے کیپ ڈی ایگڈے میں نکارا ہوٹل اور اسپین کے قرطبہ ہسپتال تک، جدید عمارتوں میں قدرتی روشنی کو بہتر بنانے، توانائی کی کھپت کو کم کرنے اور آرام فراہم کرنے کے لیے عمارتوں کے سامنے جالیاں لگائی جا رہی ہیں۔

برطانیہ کی ناٹنگھم یونیورسٹی سے پائیدار عمارت کے ڈیزائن کی ایک محقق عائشہ بتول کہتی ہیں کہ 'سفتہ یا سوراخ والے فیکیڈ (سامنے کا حصہ یا اگواڑا) عالمی سطح پر مقبول ہو رہے ہیں اور معمار پائیدار لفافوں پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔

بتول کے 2018 کے تین سکرین شیڈنگ سسٹمز والے تجزیے میں پتا چلا کہ جالی نے سورج کی روشنی کو منحرف کرنے میں مکمل طور پر چمکدار اگواڑے اور برائس سولیل (تنے ہوئے چمکدار کپڑے کے) اگواڑے دونوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔

بتول کہتی ہیں کہ 'جالی کی سکرینیں عمارت کے اندر رہنے والوں کے لیے حرارت سے بچنے میں مدد کرتی ہیں اور بصری سکون کو بڑھاتی ہیں۔'

انھوں نے مزید کہا کہ 'روایتی تعمیراتی فن کی کارکردگی کی حد سے زیادہ رومانوی تحسین سے زیادہ ان سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔'

بہتر روشنی

نئی دہلی میں پنجاب کیسری اخبار کے صدر دفتر میں روایتی جالی والے فن تعمیر کو عصری ڈیزائن کی خصوصیات کے ممیز کیا گيا ہے۔ اسے سٹوڈیو سمبیوسس نے ڈیزائن کیا ہے۔

عمارت کا اگلا حصہ سوختے یا سوراخوں والے سفید شیشے کے مضبوط کنکریٹ میں لپٹا ہوا ہے جو روایتی جالی والے سکرین کو ابھارتا ہے۔ اپنے ڈیزائن کے لیے ایوارڈ سے نوازی جانے والی اور سٹوڈیو سمبیوسس کی شریک بانی بریٹا کنوبل گپتا کہتی ہیں کہ اس سب کا مقصد قدرتی روشنی کو بہتر بنانا، گرمی کو کم کرنا اور ہوا کے بہاؤ کو بڑھانا ہے۔

نوبل گپتا کا کہنا ہے کہ 'سکرین شیشے کے سامنے ڈبل جالی باہر کی ہوا کے درجہ حرارت کو کم کرتی ہے تاکہ ٹھنڈی ہوا کو چمنی کی طرح کام کرتے ہوئے اندر کھینچ سکے۔ اس سے ایئر کنڈیشنر پر بوجھ کم ہو جاتا ہے۔'

اس پروجیکٹ میں ہر دیوار کے لیے مختلف پوروسیٹی پیٹرن بنانے کے لیے ڈیجیٹل سمولیشن کا استعمال کیا گیا ہے اور یہ اس لیے کیا گیا ہے کس دیوار کو کتنی سورج کی روشنی ملتی ہے۔

مثال کے طور پر شمال کی طرف والے حصے میں 81 فیصد دھندلاپن ہے اور اس کے مقابلے میں جنوب کی طرف صرف 27 فیصد دھندلاپن ہے۔ عمارت کو قدرتی طور پر روشنی کی ضرورت کی سطح کو پورا کرنے میں بھی یہ جالیاں مدد کرتی ہیں۔

وہ مزید کہتی ہیں یہ جالیاں اس بات کو بھی یقینی بناتی ہیں کہ عمارت کو دن میں مصنوعی روشنی کی ضرورت نہ ہو۔

ایک اور جدید عمارت جو جالی کو مؤثر طریقے سے استعمال کرتی ہے وہ دہلی سے ملحق شہر گروگرام میں سینٹ اینڈریو انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اینڈ مینجمنٹ کے طلباء کی رہائش کا بلاک ہے۔

عمارت کی ایک قابل ذکر خصوصیت اس میں طبیعیات کے ایک اصول 'اسٹیک ایفیکٹ' کا استعمال کیا گیا ہے جس کے تحت جالی میں ہر اینٹ کے گردشی زاویوں کو شمسی تابکاری کو کم سے کم کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

’جالی کے استعمال نے بل کم کر دیے‘

عمارت کو ڈیزائن کرنے والے رستوگی کا کہنا ہے کہ 'جالی کا فیکیڈ حرارت سے بچاؤ کے شیلڈ کے طور پر کام کرتا ہے، جو سورج کی روشنی کو 70 فیصد تک کم کرتا ہے، اس طرح گرمی میں اضافے کو کم کر دیتا ہے۔ عمارت گرم ہوا کو پکڑ کر اسے باہر چھوڑ دیتی ہے۔

رستوگی کا کہنا ہے کہ جالی نے توانائی کے بلوں کو نمایاں طور پر کم کیا ہے اور ایئر کنڈیشنگ کی ضرورت کو 35 فیصد تک کم کر دیا ہے۔

دوسرے ممالک بھی جالی کے فوائد پر غور کر رہے ہیں۔

سپین کے شہر میڈر میں ہسپاسیٹ سیٹلائٹ کنٹرول سینٹر کو بھی اسی طرح شمسی تابکاری کو کنٹرول کرنے اور اندرونی راحت کو بڑھانے کے مقصد سے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس کی جالی کے سوراخ تین مختلف موٹائی پیش کرتے ہیں جو روشنی کو فلٹر کرنے اور سورج کی چکاچوند کو کم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔

عمارت کو ڈیزائن کرنے والی فرم سٹوڈیو ہیررز کے معمار اور بانی پارٹنر جوآن ہیریرز کہتے ہیں کہ 'آگے کے حصے کو دوسری جلد کے ساتھ پورا کیا گیا ہے جو کہ پانچ ایم ایم موٹی دھات کی چادر ہے۔۔۔ سفتہ کاری کا زاویہ سورج کی روشنی کی ضرورت کے تحت بدلتا رہتا ہے تاکہ آرامدہ روشنی آتی رہے۔'

انھوں نے مزید کہا کہ عمارت اور جالی کے درمیان ایک میٹر (3 فٹ) کا فاصلہ سایہ دار اور ہوا دار چیمبر والا اثر پیدا کرتا ہے۔ اور 'دو جلدوں کے درمیان کی جگہ وینٹیلیشن کی راہداری کے طور پر کا کام کرتی ہے۔

تکنیکی ترقی نے جالی کو پہلے سے زیادہ فعار اور کارگر بنا دیا ہے۔ بایومیمیکری یعنی فطرت سے متاثر ہو کر غیر حیاتیاتی نظام تیار کرنے کی سائنس یا حیاتیات کی نقل سے اخذ کرتے ہوئے فعال جالی کے فیکیڈ کا مقصد فطرت میں پائے جانے والے حرارت سے موافقت پیدا کرنے کے طریقوں کی نقل کرنا ہے۔ انسانی جلد کی ساخت سے متاثر ہو کر عمارتوں کے یہ فیکیڈ ہزاروں سوراخوں کے ذریعے سانس لینے میں مدد کر رہے ہیں

ابوظہبی کی شدید صحرائی دھوپ میں موجود البحر ٹاورز

ابوظہبی کی شدید صحرائی دھوپ میں موجود البحر ٹاورز اس فعال فیکیڈ کی مثال ہے۔ یہ برطانیہ کے ایڈاس آرکیٹیکٹس کی جانب سے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

ان ٹاورز میں ایک حساس 'ذہین' فیکیڈ ہے جو درجہ حرارت کے لحاظ سے کھلتا اور بند ہوتا ہے۔ یہ ڈیزائن جالی اور مشربیہ سے اشارے لیتا ہے۔ واضح رہے کہ مشربیہ عرب دنیا میں جالی کا متبادل ہے اور اس میں عام طور پر لکڑی کا استعمال کیا جاتا ہے۔

انجینئرنگ کنسلٹنسی اروپ کے سابق ڈائریکٹر جان لائل کھلنے کی تکنیک پر مشورہ دیتے ہیں۔

انھوں نے کہا: 'مشربیہ ایک نیا نظام ہے جو عمارت پر براہ راست سورج کی روشنی کی مقدار کو تقریباً 20 فیصد کم کرتا ہے۔ موٹرائزڈ مشربیہ عمارت میں بالواسطہ قدرتی روشنی کے مطابق کھلتا اور بند ہوتا ہے۔'

ڈائنامک یا حرکی سکرین کو عمارت سے دو میٹر (6.6 فٹ) دور رکھا گیا ہے اور چمک کو کم کرنے اور دن کی روشنی کے دخول کو بہتر بنانے کے لیے سورج کی گردش کا جواب دینے کے لیے پروگرام کیا گیا ہے۔

جیسے جیسے سورج کی پوزیشن بدلتی ہے، پورا مشربیہ سایہ فراہم کرنے کے لیے اس کے ساتھ چلتا ہے۔ اروپ کے مطابق ڈیزائن کے نتیجے میں کاربن کے اخراج میں 40 فیصد کمی ہوئی ہے۔

اگرچہ جالی کی بحالی کا تجربہ کیا جا رہا ہے، لیکن اس بارے میں خدشات موجود ہیں کہ آیا فیکیڈ کے سوراخ مکینوں کو کیڑوں مکوڑوں سے کافی محفوظ رکھتے ہیں۔ اور کیا اس سے بچنے کے لیے جالی کے سامنے شیشے یا کیڑوں کی سکرین رکھی جا سکتی ہے۔

کیا یہ فن تعمیر پائیدار حل ہے؟

دریں اثنا حرکت پذیر یا کائنیٹک فیکیڈ کے ڈیزائن اور فیبریکیشن کے عمل کے لیے اکثر زیادہ وقت درکار ہوتا ہے اور یہ مہنگے بھی ہوتے ہیں کیونکہ ان میں تکنیکی سرمایہ کاری شامل ہوتی ہے۔

تاہم اس کے فوائد مزید دریافتوں کے لیے ایک دروازہ کھولتے ہیں تاکہ توانائی کا بہتر سے بہتر استعمال کیا جا سکے۔

جدید تعمیرات کے لیے سنگ مرمر جیسے روایتی تعمیراتی مواد کا استعمال قابل عمل یا سستا نہیں ہو سکتا اور ایک ہی میٹیریل تمام موسموں کے مطابق نہیں ہو سکتا۔

آج کل زیادہ تر جالیاں درمیانی کثافت والے فائبر بورڈ، کنکریٹ، اینٹوں، لکڑی، پتھر، پی وی سی یا پلاسٹر سے بن رہی ہیں۔

خشک علاقوں میں نمی کو برقرار رکھنے کے لیے لکڑی کے ریشوں جیسے مواد کو استعمال کیا جاتا ہے۔ پودوں کے ذریعے بخارات کی منتقلی کے اسی طرح کے عمل کی نقل میں رات کے وقت جالی سوراخوں سے گزرنے والی ٹھنڈی ہوا کی نمی کو جذب کر لیتی ہے اور دن کے وقت جب ہوا میں گرمی بڑھتی ہے تو اس جذب نمی کو چھوڑتی ہے۔

جالیوں کی مختلف آب و ہوا میں کارکردگی میں بھی مختلف ہوتی ہے، مطلب یہ ہے کہ سکرین کا ڈیزائن، جیومیٹریز، سوراخ، شکل اور میٹیریئل کو آب و ہوا کے حالات کے مطابق ہونا چاہیے۔

تمام حالات کوئی ایک ہی سائز کا حل نہیں ہے۔ مثال کے طور پر گرم خشک آب و ہوا میں بہتر تھرمل سکون کے لیے 30 فیصد سوراخوں سے بنے اور دس سیٹی میٹر (چار انچ) گہرائی والے جالی کے سکرینز مناسب ہیں جبکہ گرم مرطوب آب و ہوا میں سوراخ کے تناسب کو بڑھانے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

بہر حال رستوگی کا کہنا ہے کہ ان کمیوں کے باوجود جالیاں قدرتی روشنی اور وینٹیلیشن فراہم کر کے توانائی سے بھرپور عمارتیں بنانے میں مدد کرتی ہیں۔

وہ کہتے ہیں: 'روایتی جالی کی تکنیک ماحولیاتی اور اقتصادی طور پر قابل عمل فن تعمیر کی کلید ہیں۔ پائیداری ایک اضافی حصہ نہیں ہے، اسے زندگی گزارنے کا ایک طریقہ ہونا چاہیے۔'

 

 

 


ایران کے شہر یزد کے ایک رہائشی صابری نے کہا کہ ان کے یہاں پانی والے ایئرکنڈیشنر بھی ہیں لیکن انھیں قدرتی اے سی میں بیٹھنا پسند ہے کیونکہ یہ انھیں پرانے دنوں کی یاد دلاتے ہیں۔

صابری کے قدرتی ایئر کنڈیشنر سے مراد ان کا 'بادگیر' ہے۔ وہ کہتے ہیں: 'ہم اسی کے سائے تلے بیٹھے ہیں۔'

ریگستان میں آباد یزد شہر میں شدید گرمی پڑتی ہے اور یہاں کا درجۂ حرارت 40 ڈگری سیلسیئس سے تجاوز کر جاتا ہے اور ایسے گرم موسم میں چائے کا خیال آنا کسی عجوبے سے کم نہیں۔

لیکن بادگیر والے مکان کے آنگن بیٹھنے کے بعد تپتا سورج بھی مدھم معلوم ہوتا ہے۔

یہاں اس قدر آرام محسوس ہوتا ہے کہ اپنے میزبان کو الوداع کہنے کا خیال ہی نہیں آتا۔

یہاں بیٹھ کر آپ جب ارد گرد کی چیزوں کا مشاہدہ کرتے ہیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہزاروں سال پہلے اس گرم آب و ہوا میں انسان نے اپنی سہولت کے لیے یہ تکنیک کیونکر ایجاد کر لی تھی۔


ایران کے ہزاروں سال پرانے اے سی

بادگیر یعنی ہوا کو کھینچنے والی یہ تعمیر کسی چمنی جیسی ہے اور یہ ایران کے ریگستانی شہروں کی قدیمی عمارتوں پر بنی نظر آتی ہے۔

یہ بادگیر ٹھنڈی ہوا کو کھینچ کر عمارت کے نیچے لے جانے کا کام کرتے ہیں اور ان سے گھروں کو ٹھنڈا رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

اور ان سے گرمی کی وجہ سے خراب ہونے والی چیزوں کو بچانے کا کام بھی لیا جاتا ہے۔

تمام طرح کی تحقیق سے یہ پتہ چلا کہ بادگیر کی مدد سے درجۂ حرارت کو دس ڈگری تک کم کیا جا سکتا ہے۔

عہد قدیم میں مصر سے لے کر عرب اور بابل کی تہذیب و تمدن میں اس طرح کے فن تعمیر کی کوشش کی گئی جو موسم کی سختیوں کو دور کر سکے۔

اس طرح کی عمارتوں کو قدرتی طور پر ہوا دار بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔

اس قسم کے بادگیر یا ہوا دار عمارتیں مشرق وسطی سے لے کر مصر اور ہندو پاک میں نظر آتی رہی ہیں۔

بادگیر کس طرح تعمیر کیے جاتے ہیں؟

بادگیر عمارتوں کے سب سے اونچے حصے میں تعمیر کے جاتے ہیں۔ اس لیے ان کی دیکھ بھال بڑا چیلنج ہے۔

ان کی ٹوٹ پھوٹ کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ ایران میں کئی عمارتوں پر تعمیر بادگیر 14 ویں صدی تک کے ہیں۔

فارسی شاعر ناصر خسرو کی شاعری میں بھی اس کا ذکر کیا گیا ہے، اور ان کا زمانہ تقریباً ایک ہزار سال پہلے کا ہے۔

جبکہ مصر میں حضرت عیسیٰ سے بھی 1300 سال پرانی بعض پینٹنگز میں اس کا نمونہ نظر آیا ہے۔

ڈاکٹر عبدالمنعم الشورباغی سعودی عرب کے شہر جدہ میں قائم عفت یونیورسٹی میں فن تعمیر اور ڈیزائن کے پروفیسر ہیں۔

وہ کہتے کہ 'مشرق وسطیٰ کے ممالک سے لے کر پاکستان اور سعودی عرب تک بادگیر ملتے ہیں۔'

یہ خلافت عباسیہ کے دور کے محلوں کی مربع نما عمارتوں سے مماثل ہیں۔ اور اس قسم کے محل عراق کے اخیضر علاقے میں آٹھویں صدی میں تعمیر کیے گئے تھے۔

بادگیر کی ابتدا عرب ممالک میں ہوئی؟

ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ بادگیر کی ایجاد عرب ممالک میں ہوئی تھی اور جب عربوں نے ایران کو فتح کیا، تو ان کے ساتھ یہ فن تعمیر فارس بھی پہنچا۔

یزد شہر کی زیادہ تر عمارتوں پر بنے یہ بادگیر مستطیل ہیں اور چاروں جانب ہوا کی آمد کے لیے خانے بنے ہوئے ہیں۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہاں شش پہلو اور ہشت پہلو بادگیر بھی ملتے ہیں۔

یزد کی پرانی عمارت میں ایک کیفے کے ملازم معین کہتے ہیں کہ 'بادگیر میں ہر طرف سے آنے والی ہوا کو کھینچنے کے خانے بنے ہوتے ہیں۔ جبکہ یزد سے کچھ فاصلے پر موجود قصبے میبد کے بادگیروں میں صرف ایک جانب ہی خانے ہوتے ہیں کیونکہ وہاں ایک ہی جانب سے ہوا آتی ہے۔‘

بادگیر کی تعمیر اس حکمت کے ساتھ کی جاتی ہے کہ ماحول میں موجود ہوا کو کھینچ کر وہ نیچے کی جانب لے جائے اور ٹھنڈی ہوا کے دباؤ سے گرم ہوا عمارت سے نکل جاتی ہے۔

اس گرم ہوا کو باہر نکلنے کے لیے بادگیر کے دوسری جانب ایک کھڑکی نما جگہ کھلی چھوڑ دی جاتی ہے۔

یہاں تک کہ اگر سرد ہوا نہ بھی چل رہی ہو تو بادگیر گرم ہوا کو دباؤ بنا کر باہر نکالنے کا کام کرتا رہتا ہے جس سے گھر میں گرمی کم ہوتی رہتی ہے۔


موسم سرما اور گرما کے گھر

یزد شہر میں قاجاری دور کی کئی عمارتیں اب بھی اچھی حالت میں ہیں۔

ان میں سے ایک مشہور لریحہ ہاؤس ہے۔ انیسویں صدی میں تعمیر شدہ یہ عمارت ایرانی فن تعمیر کا شاندار نمونہ ہے۔

اس کے درمیان ایک مستطیل آنگن ہے۔ موسم گرما اور موسم سرما کے مطابق عمارت کے علیحدہ حصے ہیں۔

عمارت کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا مقصد سردیوں میں سورج کی گرمی کا زیادہ سے زیادہ استعمال اور گرمیوں میں سورج سے بچنے کی کوشش ہے۔

بادگیر اس عمارت کے گرمی والے حصے میں بنایا گیا ہے۔

بادگیر سے آنے والی ہوا ایک محراب دار روشن دان سے گزرتی ہوئی عمارت کے تہہ خانے تک جاتی ہے۔

تہہ خانے میں وہ چیزیں رکھی جاتی ہیں جو جلدی خراب ہو سکتی ہیں۔ اس عمارت کی 38 سیڑھیوں سے نيچے جائیں تو موسم گرما میں بھی سردی کا احساس ہونے لگتا ہے۔

اس حصے کو سرداب یعنی سرد پانی کہا جاتا ہے۔ یہاں سے نہروں کا پانی گزرتا ہے۔

سرد ہوا اور پانی مل کر اس حصے کو ریفریجریٹر جیسا یخ بنا دیتے ہیں۔ پہلے اس طرح کی کوٹھریوں میں برف رکھی جاتی تھی۔

آج اس طرح کا قنات کا نظام ختم ہو گیا اور اسی طرح تکنیکی ترقی کے سبب بادگیر بھی معدوم ہوتا جا رہا ہے اور اس کی جگہ اے سی نے لے لی ہے۔

یزد کے 85 سالہ باسی عباس فروغی کہتے ہیں کہ ان کے محلے میں بہت سے لوگوں نے اپارٹمنٹس میں رہنا شروع کر دیا ہے۔

'پرانے گھر یا تو خالی پڑے ہیں یا باہر سے آنے والے لوگوں کو کرائے پر دے دیے گئے ہیں۔ جو گھر بڑے اور اچھی حالت میں تھے انھیں تہران اور شیراز سے آنے والے امرا نے خرید کر ہوٹل بنا دیے ہیں۔

یزد کے پرانے محلے میں رہنے والی مسز فاروقی نے حال ہی میں اپنا گھر فروخت کیا ہے، اور وہ اب اپارٹمنٹ میں رہنے لگی ہیں۔

وہ اکثر پرانے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں: 'پہلے سارے محلے کے بچے ایک ساتھ جمع ہو کر کھیلتے تھے۔ لوگ بادگیر کے نیچے بیٹھ کر چین کا سانس لیا کرتے تھے۔ شام کے وقت وہیں کھانے اور پینے کا انتظام اور خوش گپیاں ہوتی تھیں۔‘

اب ان کے پرانے گھر میں 'رویائے قدیم' یعنی پرانے خواب کے نام سے ایک ہوٹل کھل گیا ہے۔

مسز فاروقی کہتی ہیں: 'میں اب بھی کبھی کبھی اپنے پرانے گھر جاتی ہوں۔ وہ اب اچھا نظر آتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ اسے محفوظ رکھا گیا ہے۔'

عالمی وراثت کا حصہ

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے یزد شہر کو سنہ 2017 میں عالمی ورثہ قرار دیا۔

اس کے بعد ثقافتی ورثہ انسٹی ٹیوٹ نے اسے قرض دینا شروع کیا۔

جن لوگوں نے یہاں پرانے گھر خریدے انھوں نے انسٹی ٹیوٹ کی مدد سے ان کی مرمت کی اور ان میں ہوٹل کھولے۔

اس طرح بہت سے پرانے مکان محفوظ ہو گئے۔ لیکن مقامی ٹور ایجنسی کے مالک فرید استاداں کہتے ہیں کہ اب قرض ملنا مشکل ہو گیا ہے۔

حکومت کے پاس تاریخی وراثت کی دیکھ بھال کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ پھر بھی انھیں امید ہے کہ تاریخی عمارتوں، خاص طور پر بادگیر کو بچایا جا سکتا ہے۔

چپن کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ انھیں اپنے دادا کے گھر کا موسم گرما یاد ہے جب وہ گرمی کی دوپہر بادگیر کے سائے میں گزارتے تھے۔

وہ کہتے ہیں: 'وہ اور ہی دور تھا۔ بادگیر کی ہوا آج کے اے سی کا احساس کراتی تھی۔ اے سی کیا بلا ہے ہم جانتے ہی نہیں تھے۔'

استاداں کہتے ہیں کہ جب تک یہاں سیاح آتے رہیں گے حالات بہتر رہیں گے اور سیاحت کے پیسے سے یہاں کی عمارتوں کی دیکھ بھال ہوتی رہے گی۔

’یہاں آنے والے سیاحوں کی دلچسپی قدیمی عمارتوں اور بادگیروں میں ہے اور ہمیں بھی ان کا خیال رکھنا ہے۔ امید ہے کہ ہم اس میں کامیاب ہوں گے۔‘

  Copy from BBC News urdu

 


No comments:

Post a Comment

Total Pageviews