مالٹا ٹرین لاہور ، سفید ہاتھی ؟
آپ کو یاد ہوگا کہ جب جب پنجاب حکومت سے اورنج ٹرین کے معاہدے کی کاپی
مانگی جاتی تھی، شہبازشریف ہمیشہ یہ کہہ کر انکار کردیتا تھا کہ یہ حساس
معاہدہ ہے اور اسے لیک کرنے سے چین کے ساتھ تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔ اپریل
2018 میں جب اس منصوبے کے حوالے سے کرپشن کی اطلاعات سامنے آئیں تو نیب نے
پنجاب حکومت سے منصوبے کے تمام ڈاکومنٹس طلب کئے لیکن شہباز شریف نے انکار
کردیا۔
اب خبر آئی ہے کہ اس معاہدے میں ایک خفیہ شق رکھی گئی تھی جس کے مطابق منصوبہ ایک خاص تاریخ تک مکمل نہ ہونے کی صورت میں پنجاب حکومت نے چینی کمپنی کو روزانہ کے حساب سے چھ ملین ڈالرز بطور جرمانہ ادا کرنا تھے اور آج سے جرمانے کا یہ میٹر چالو ہوگیا۔
اب خبر آئی ہے کہ اس معاہدے میں ایک خفیہ شق رکھی گئی تھی جس کے مطابق منصوبہ ایک خاص تاریخ تک مکمل نہ ہونے کی صورت میں پنجاب حکومت نے چینی کمپنی کو روزانہ کے حساب سے چھ ملین ڈالرز بطور جرمانہ ادا کرنا تھے اور آج سے جرمانے کا یہ میٹر چالو ہوگیا۔
یہ معاملہ صرف کمزور معاہدہ کرنے تک ہی محدود نہیں بلکہ اسے وسیع تر تناظر
میں دیکھنا ہوگا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 2017 میں ایک سکینڈل آیا تھا جس کے
مطابق شہبازشریف نے چین میں اپنے فرنٹ مین کے ذریعے کمپنیاں بنا کر انہیں
پاکستان میں پراجیکٹس ایوارڈ کئے تھے۔ ان کمپنیوں کے اکاؤنٹس میں جب بھاری
رقوم ٹرانسفر ہونا شروع ہوئیں تو چین کی حکومت نے تحقیقات لانچ کیں اور اس
ضمن میں چین حکام نے کئی مرتبہ پاکستان کا دورہ بھی کیا۔
اب اگر تھوڑی دیر کیلئے آپ اپنے آپ کو شہبازشریف کی جگہ رکھیں اور اسی طرح حرامخور بن کر سوچیں کہ اپنی ہی کمپنیاں چین میں قائم کرکے ان کمپنیوں کو میگا پراجیکٹس ایوارڈ کردیئے جائیں اور معاہدے میں شق رکھ دی جائے کہ اگر فلاں تاریخ کو منصوبہ مکمل نہیں ہوتا تو روزانہ چھ ملین ڈالر کا ہرجانہ پاکستان ادا کرے گا۔
شہبازشریف اچھی طرح جانتا تھا کہ اس منصوبے میں موجود تکنیکی نقائص کی وجہ سے یہ وقت پر کسی بھی صورت مکمل نہیں ہوسکتا تھا، ماحولیات اور تاریخی ورثہ کے بچاؤ کی تنظیموں نے عدالتی کاروائی کی دھمکی دے رکھی تھی جس کی وجہ سے چھ ماہ کیلئے یہ منصوبہ شروع ہونے سے قبل ہی روکا جاچکا تھا۔
اگر آپ شہبازشریف بن کر سوچیں تو آپ کی نہ صرف پانچوں گھی میں ہیں بلکہ سر سمیت پورا جسم کڑاھی میں۔ ایک طرف آپ نے پچاس ارب کے منصوبے کو ڈیڑھ سو ارب کا کردیا اور اسے اپنی فرنٹ کمپنی کو ایوارڈ کرکے اربوں بنائے، دوسری طرف آپ نے معاہدے میں تاخیر کی شق رکھوا دی تاکہ ہر روز بغیر کسی محنت مشقت کے، آپ کی کمپنی کو چھ ملین ڈالرز ملنا شروع ہوجائیں۔
اس لیول کی کرپشن کو پکڑنا آسان نہیں، کیونکہ فرنٹ پر چینی کمپنی ہے اور سامنے ایک کانٹریکٹ اور اس کی تاخیری کلاز۔ نہ تو کسی نے رشوت لی اور نہ ہی میٹیریل غائب ہوا ۔ ۔ ۔ لیکن اربوں روپے بنا بھی لئے اور مزید کئی ارب بھی بٹور لئے جائیں گے۔
ان حرامزادوں نے ملک کو ایسے لوٹا ہے جیسے اس ملک کے ساتھ ان کی کوئی خاندانی دشمنی رہی ہو
اب اگر تھوڑی دیر کیلئے آپ اپنے آپ کو شہبازشریف کی جگہ رکھیں اور اسی طرح حرامخور بن کر سوچیں کہ اپنی ہی کمپنیاں چین میں قائم کرکے ان کمپنیوں کو میگا پراجیکٹس ایوارڈ کردیئے جائیں اور معاہدے میں شق رکھ دی جائے کہ اگر فلاں تاریخ کو منصوبہ مکمل نہیں ہوتا تو روزانہ چھ ملین ڈالر کا ہرجانہ پاکستان ادا کرے گا۔
شہبازشریف اچھی طرح جانتا تھا کہ اس منصوبے میں موجود تکنیکی نقائص کی وجہ سے یہ وقت پر کسی بھی صورت مکمل نہیں ہوسکتا تھا، ماحولیات اور تاریخی ورثہ کے بچاؤ کی تنظیموں نے عدالتی کاروائی کی دھمکی دے رکھی تھی جس کی وجہ سے چھ ماہ کیلئے یہ منصوبہ شروع ہونے سے قبل ہی روکا جاچکا تھا۔
اگر آپ شہبازشریف بن کر سوچیں تو آپ کی نہ صرف پانچوں گھی میں ہیں بلکہ سر سمیت پورا جسم کڑاھی میں۔ ایک طرف آپ نے پچاس ارب کے منصوبے کو ڈیڑھ سو ارب کا کردیا اور اسے اپنی فرنٹ کمپنی کو ایوارڈ کرکے اربوں بنائے، دوسری طرف آپ نے معاہدے میں تاخیر کی شق رکھوا دی تاکہ ہر روز بغیر کسی محنت مشقت کے، آپ کی کمپنی کو چھ ملین ڈالرز ملنا شروع ہوجائیں۔
اس لیول کی کرپشن کو پکڑنا آسان نہیں، کیونکہ فرنٹ پر چینی کمپنی ہے اور سامنے ایک کانٹریکٹ اور اس کی تاخیری کلاز۔ نہ تو کسی نے رشوت لی اور نہ ہی میٹیریل غائب ہوا ۔ ۔ ۔ لیکن اربوں روپے بنا بھی لئے اور مزید کئی ارب بھی بٹور لئے جائیں گے۔
ان حرامزادوں نے ملک کو ایسے لوٹا ہے جیسے اس ملک کے ساتھ ان کی کوئی خاندانی دشمنی رہی ہو
No comments:
Post a Comment