November 23, 2016

Holocaust ہولو کاسٹ حقیقت یا حکایت


ہولو کاسٹ ۔۔۔ حقیقت یا حکایت
بیسویں صدی کے سب سے بڑے اور منظم قتلِ عام کے بارے میں دو مختلف نقطہ ہائے نظر
دوسری جنگ عظیم کے دوران 1939 سے 1945تک کے چھ سالہ عرصے میں لاکھوں یہودیوں کو قتل کیا گیا(عالمی سطح پر تشہیر کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق ساٹھ لاکھ یہودیوں کا قتلِ عام ہوا)۔ اس قتلِ عام کو ’’ہولو کاسٹ ‘‘ کا نام دیا گیا۔ ہولو کاسٹ اور اسکی حقیقت کیا ہے اور اس سے کیا مقاصد حاصل کئے گئے ؟ یہ ایک طویل بحث ہے ۔ اگرچہ بین الاقوامی قوانین اور پابندیوں کی وجہ سے اسے ایک حساس موضوع قرار دیا جاتا ہے پھر بھی اس بارے میں بہت کچھ لکھا گیا۔ ’’ حساسیت‘‘ کے پیشِ نظر جس احتیاط کی ضرورت تھی وہ ملحوظ، خاطر نہیں رکھی گئی۔ لفظ ہولو کاسٹ (Holocaust) یونانی لفظ ہولو کاسٹن Holokauston) ( سے اخذ کیا گیا ہے جس کے معنی ہیں ’’ آگ میں مکمل طور پر جل کر قربانی دینا‘‘ یا ایسی قربانی جوآگ میں مکمل طور پر جل کر دی جائے‘‘بڑے پیمانے پر قتلِ عام اور انسانی تباہی کیلئے اختیار کئے گئے مختلف طریقوں کیلئے بھی یہی لفظ استعمال ہوتا رہا ہے، مگر دوسری جنگِ عظیم (1939-45) کے دوران یہودیوں کے وسیع پیمانے پر قتلِ عام کیلئے جب یہ لفظ استعمال کیا گیا تو گویا اسکے معنی ہی بدل گئے۔ اس حوالے سے اس لفظ کا اس قدر استعمال ہواکہ اب ہولوکاسٹ محض نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کے قتلِ عام کا استعارہ بن کر رہ گیا ہے اور اس سے کوئی دوسرا معنی مراد ہی نہیں لیا جاتا۔ ہولوکاسٹ کے حوالے سے اقوامِ عالم یا عالمی دانش دو واضح حصوں میں تقسیم ہے، ایک طرف یہودی قوم ہے جس نے ہولوکاسٹ کے واقعے کو بہت زیادہ بڑھایا اور ایک حد تک مبالغے سے بھی کام لیا دوسری طرف مخالف نقطہ ٔ نظر ہے جس نے اس مبالغہ آمیزی کی آڑ لے کر سرے سے یہودی قتلِ عام کو ہی جھٹلادیا۔اس اختلاف کی وجہ سے عصرِ حاضر میں تاریخ کا طالبعلم عجب مخمصے کا شکار ہوکر رہ گیاہے۔اگر وہ یہودی نقطہء نظر کے تناظر میںاس موضوع کا مطالعہ کرتا ہے تو بے پناہ مواد طبع شدہ یا انٹرنیٹ پردستیاب ہے اور اگر وہ اسکے خلاف جاننا چاہتا ہے تو بھی صورت ِحال یہی ہے کہ اسے اسقدر مدلل مواد دستیاب ہوتا ہے کہ اس کیلئے فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کس بات پر یقین کرے۔ تو پھر حقیقت کیا ہے؟


     قبل اسکے کہ اس بارے میں حتمی بات کی جائے مناسب ہوگا کہ اسکے تاریخی محرکات اور اثرات کا جائزہ لیا جائے تاکہ حتمی رائے قائم کرنے میں کوئی مدد مل سکے۔ ہولو کاسٹ کا ذمہ دارمتنازعہ جرمن لیڈر ہٹلر اور اسکی نازی پارٹی کو قرار دیا جاتا ہے۔ ایڈولف ہٹلر کی ذاتی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ ایک وطن پرست لیڈر تھا جس کے دل میں اپنی قوم اور وطن کے لئے کچھ کر گزرنے کا جذبہ موجود تھا۔ ایک سپاہی سے سیاسی لیڈر اور جرمن چانسلر بننے تک کا سفر طے کرنے میں محبت اور نفرت کے جذبات اسکی طاقت بنے۔ یہ دونوں جذبے اُس میں انتہا پسندی کی حد تک تھے۔ محبت جرمن قوم اور جرمنی کیلئے جبکہ نفرت یہودی قوم کیلئے۔ انہیں جذبات سے مغلوب ہوکر وہ جرمنی کو عظیم تر بنانے کیلئے اور اپنی قوم کو پہلی عالمی جنگ کی ذلت سے نکالنے کیلئے ایک نئی عالمی جنگ کا نقارچی بنا۔ اور یہودی قوم کے قتلِ عام کا محرک بھی۔ ایڈوولف ہٹلر کو یہودیوں سے بہت نفرت تھی اور اس نے اپنی اس نفرت کو چھپانے کی کبھی کوشش نہیں کی۔اپنی مشہورِ زمانہ آپ بیتی میری ’’جدو جہد ‘‘ میں اس نے یہودیوں کے خلاف اپنی نفرت کا بھرپور اظہار کیا ہے۔ جرمنی کے مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے ہٹلر لکھتا ہے کہ ’’طویل مطالعہ اور تحقیق کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہودی اور انکی سرمایہ داری طاقت ہی تمام خرابیوں کی جڑ ہے‘‘ 

          ایک اور جگہ لکھتا ہے کہ ’’ آج ہم یہودیوں کو عیاری اور مکاری کا پتلا سمجھتے ہیں۔حقیقتاً وہ ہمیشہ سے ایسے ہی تھے اور ایسے ہی رہیں گے‘‘۔ 30 جنوری 1933 کو ہٹلر جرمنی کا چانسلر بنا، اُس وقت پال وون ہنڈن برگ جرمنی کے صدر تھے، 1934میں ان کی موت کے بعد ہٹلر جرمنی کا مطلق العنان حکمران بن گیا۔اپنے اقتدار کے مضبوط ہونے کے بعد اس نے یہودی مخالف جذبا ت کا کھلے عام اظہار کرنا شروع کردیا۔حتیٰ کہ جرمنی میں یہ نعرہ عام ہوگیا کہ’’ یہاں یہودیوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے‘‘(Jews are unwanted here)۔ 1935 میں جرمنی میں نورم برگ قوانین نافذ کئے گئے جن کے تحت صرف جرمن نسل کے لوگ ہی جرمنی کی شہریت کے حقدار قرار دئے گئے، اس طرح جرمنی کے یہودی بے وطن ہو کر رہ گئے۔ 1937کے اوائل میں یہودیوں کو کاروبار سے محروم کردیا گیا۔ 1938 میں فرانس میں ایک جرمن سرکاری ملازم کو ایک یہودی نوجوان نے قتل کردیا ، اس واقعے کے خلاف جرمنی میں یہودیوں کے خلاف غصہ کی لہر اٹھی اور پورا ملک فسادات کی لپیٹ میں آگیا۔ان فسادا ت کو نائٹ آف بروکن گلاسز کا نام دیا گیا کیونکہ اُس رات شیشوں سے سجی دکانات کے شیشے اس طرح توڑے گئے کہ گلیا ں بھر گئیں۔ یہودیو ں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا، یہودی تاجروں کا کاروبار بند کرادیا گیا۔ 

      یہودی بچوں کو سکولوں سے اور یہودیوں کو ملازمتوں سے نکال دیاگیا۔ یہودیوں کے پبلک مقامات از قسم پارکس، کلبز، سینما ہال ، کھیل کے میدانوں، اور سومنگ پولزوغیرہ میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی۔یہودی بچوں اور نوجوانوں کیلئے صورتِ حال بہت تکلیف دہ ہوگئی۔ یہودیوں کی شہریت ختم کردی گئی۔ تقریباً تیس ہزار یہودیوں کو ان فسادات کا ذمہ دار قرار دے کر گرفتار کر لیا گیا۔ ان حالات سے تنگ آکر کئی ایک یہودیوں نے خود کشی کرلی جبکہ بہت سوں نے جرمنی سے ترکِ وطن بھی کیا۔   

                                     اس پر جولائی 1938 میں 32ممالک کے نمائندے فرانس میں جمع ہوئے تاکہ غور کیا جائے کہ کون سا ملک کتنے یہودیوں کو اپنے یہاں پناہ دے سکتا ہے۔ یورا گوئے، وینزویلا،نے واضح انکار کر دیا فرانس نے کہا کہ اس کے پاس پہلے ہی دو لاکھ یہودی موجود ہیں لہٰذا وہ مزید یہودیوں کو پناہ نہیں دے سکتا۔ ارجنٹائن نے بھی اسی آڑ میں انکار کر دیا ہالینڈ، ڈنمارک نے بھی’’ معذرت ‘‘ کرلی ، اور خود امریکہ جس نے بڑی کوشش سے یہ کانفرنس بلائی تھی ، یہودیوں کی آبادکاری سے انکار کردیا۔ اور پھر اگلے سال عالمی جنگ کا آغاز ہوگیا جس میں لاکھوںیہودی (تقریباً ساٹھ لاکھ یہودی) مارے گئے۔ بیسویں صدی میںیہودیوں کے خلاف نفرت اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی۔ جسکا تاریخی تسلسل تقریباً آٹھ سو سال پر محیط تھا۔ مثلاً بارھویں سے سولھویں صدی عیسوی کے دوران جرمنی سے یہودیوں کو نکالا جاتا رہا، 1228 میں سپین میں یہودیوں کو لباس کے اوپر نمایاں نشان لگانے کا قانونی طور پر پابند کیا گیا، 1266میں پولینڈ میں کلیسا نے فیصلہ کیا کہ یہودی لوگ عیسائیوں کے ساتھ اکٹھے نہیں رہ سکتے، 1279ہنگری کے کلیسا نے حکم دیا کہ یہودی اپنے لباس پر بائیں جانب زرد کپڑا ڈالیں تاکہ انکی شناخت ہو ، 1321 میں فرانس میں 160یہودی ایک گڑھے میں دفن کر دیے گئے، 1355میں سپین میں ایک مشتعل ہجوم نے بارہ ہزار یہودیوں کو قتل کردیا، 1391 میں اٹلی کے ایک جزیرے میں پچاس ہزار یہودیوں کا قتلِ عام کیا گیا، 1399 پولینڈ میں پہلی بار یہودیوں کے خلاف نفرت انگیز اور جارحانہ اقدامات کئے گئے، 1412 میںکیسٹائیل میں یہودیوں کو علیٰحدہ علاقوں میں رہنے اور امتیازی نشان(ایک پٹی کی صورت میں) پہننے پر مجبور کیا گیا، 1420 فرانس سے یہودیوں کو نکال دیا گیا یا انکو مار دیا گیا، 1474 سسلی میں ایک بار پھر بڑے پیمانے پر یہودیوں کا قتلِ عام کیا گیا، 1492میں سپین سے ایک لاکھ ساٹھ ہزار یہودیوں کو ملک بدر کیا گیا اور اس ملک بدری کے دوران بیس ہزار یہودی یا تو مارے گئے یا مار دیے گئے،اسی سال سسلی اور مالٹا سے یہودیوں کو نکال دیا گیا، 1498 پرتگا ل میں ایک بھی یہودی نہ رہنے دیا گیا، 1541 میں نیپلز سے اور 1550میں گینوا سے یہودیوں کو نکال دیا گیا۔ ہولو کاسٹ کے حوالے سے یہودی نقطہء نظر کے مطابق ’’ یورپ میں یہودیوں کیلئے زندگی مشکل بنادی گئی تھی۔ 

         اور 1930میں یہودی مخالف لیڈر ایڈولف ہٹلر کو اقتدار ملا تو اس نے ہر طرف صدیوںسے یہودیوں کے خلاف پھیلی نفرت کا فائدہ اٹھایا اور عوامی نفرت کی آڑ میں ذاتی رنج و نفرت کی تسکین کیلئے اپنے یہود مخالف ایجنڈا پر کام شروع کردیا ۔ یہودیوں کے کاروبار کا قومی سطح پربائیکاٹ پہلا قدم تھا۔ یہودیوں کو جرمنی سے نکالنے کیلئے نت نئے قانون بنائے گئے ، انہیں سرکاری ملازمتوں اور سکولوں سے نکالا گیا، 1935میں نورمبرگ قوانین نافذ ہوئے جنکی رو سے صرف جرمن نسل کے لوگ ہی جرمنی کی شہریت کے حقدار قرار دیے گئے اس سے یہودی بے وطن ہو کر رہ گئے، 1937میں یہودی تاجروں کو ان کے کاروبار سے محروم کردیا گیا۔ اب تک یہ سب کچھ جرمنی میں ہورہا تھا۔ 1938میں جرمن نازیوں نے آسٹریا پر قبضہ کرلیا اس طرح آسٹریا میں مقیم تقریباً دو لاکھ یہودی بھی جرمنوں کے رحم و کرم پر آگئے۔ اسی سال جرمنی میں نائٹ آف بروکن گلاسز فسادات پھوت پڑے ۔ یہودیوں کا قتلِ عام ہوا۔ 1939 میں دوسری جنگِ عظیم کا آغاز ہوا ۔ 1941 میں جرمنی نے روس پر حملہ کیا، یہودیوں کئے مکانات جلا کر انہیں گھروں سے باہر نکالا گیا اور وارسا منتقل کردیا گیا۔ 1942میں ’’آخری حل‘‘ پر عمل شروع ہوا ۔

         موت کے کیمپ قائم کئے گئے جن میں یہودیوں کو گیس کے ذریعے ہلاک کیا گیا، صرف 1942 میں ستائیس لاکھ یہودی قتل کئے گئے۔ یہودیوں کو ٹرینوں میں بھر کر موت کے کیمپوں تک لایا جاتا اور اس طرح 1945تک ساٹھ لاکھ یہودیو ں کا قتلِ عام کیا گیا۔1948 میں جیوش نیشنل کونسل نے اسرائیل کی ریاست کا دعویٰ کر دیا۔ تاکہ وہاں ہولو کاسٹ کے عذاب کے بعد زندہ بچ جانے والے یہودی اپنی زندگی دوبارہ شروع کرسکیں‘‘۔ (واضح رہے کہ اس قسم کے اقدام کا اعلان برطانوی حکومت تیس سال پہلے ہی کرچکی تھی جسے ’’اعلانِ بالفور‘‘ کہتے ہیں) ۔ آشو وٹز کیمپ ایک مشہور جنگی کیمپ ہے جو جرمنوں نے قائم کیا تھا۔ یہ کیمپ 1940میں پولینڈ میں قائم کیا گیا تھا۔ اس کیمپ میں جنگی قیدی یا ایسے افراد جن سے جرمنوں کو خطرہ ہوتا تھا رکھے جاتے تھے۔ انگریزی میں انہیں کنسنٹریشن کیمپ(Concenteration camp) کہتے ہیں ، اس کے علاوہ بھی کئی ایک جنگی کیمپ تھے مگر یہ کیمپ سب سے زیادہ خوفناک تصور کیا جاتا تھا ۔یہودی روایت کے مطابق ’’ اس کیمپ میں ہلاک کئے گئے یہودیوں کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ (روسیوں نے یہ تعداد چالیس لاکھ تک بتائی تھی تاہم اسے مستند نہیں سمجھا جاتا)یہودیوں کو برہنہ حالت میں یہاں لایا جاتا ، پھر شاور یا دیگر نصب پائپوں کی سے زہریلی گیس چھوڑی جاتی جس سے لمحوں میں موت واقع ہو جاتی، پھر ان لاشوں کو جلا کر غائب کردیا جاتاـ‘‘۔ ’’دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے پر کئی ایک افراد پر جنگی جرائم کے مقدمات چلائے گئے، اور اس مقصد کیلئے نورم برگ ٹربیونل قائم کیا گیا۔ جنگ کے خاتمے پر ان اذیت رساں کیمپوں سے فرار یا رہاہونے والے کئی ایک قیدیوں نے ان مظالم اور قید کی سختیوں کی ہولناک داستانیں سنائیں جس سے اقوامِ عالم کو ان مظالم کی تفصیل سے آگاہی ہوئی کہ کس طرح بوڑھے اور لاغر قیدیوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا جاتا اور صحت مند قیدیوں کو جبری مشقت کیلئے زندہ رہنے دیا جاتا مگرجب وہ کام کے قابل نہ رہتے انہیں بھی ان عقوبت خانوں کی غذا بنا کر زندگی کی قید سے رہائی دی جاتی۔ مہلک یا دیگر ادویات اور بائیالوجیکل ہتھیاروں کی تیاری کیلئے ان پر تجربات کئے جاتے جن میں بڑی تعداد بچوں کی تھی۔ جس سے نہ وہ زندہ رہے اور نہ مرسکے، جنگ کے خاتمے پر ایسے کئی بچے یا نوعمر افراد اتحادی فوجوں نے ان اذیت رساں کیمپوں سے برآمد کئے جو نہ تو مردہ تھے اور نہ ان پر زندگی کی تہمت لگ سکتی تھی۔

            ایک امریکی اخبار نے آشو وٹز کیمپ سے رہائی پانے والے ایک روسی باشندے کا انٹرویو شائع کیا جس میں اس نے یہودیوںکو ذبح کرنے کی کہانی بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ’’ سینکڑوں لوگوں کو بجلی کے ایسے بیلٹ پر ڈالا جاتا جو انکو ایک ہی وقت میں کاٹ ڈالتا۔ پھر ان لاشوں کو ایسی بھٹیوں میں پھینک دیا جاتا جہاںیہ لاشیں جل کر بھسم ہو جاتیں۔ جلنے کا یہ عمل لمحوں میں مکمل ہو جاتا۔ ان لوگوں کی لاشوں سے قریبی گوبھی کے کھیتوں کیلئے کھاد تیار کی جاتی تھی‘‘۔ نورم برگ ٹربیونل میں چیف امریکی پراسیکیوٹر رابرٹ جیکس کے بقول ’’جرمنوں نے آشو وٹز کے قریب بیس ہزار یہودیوں کو ایک نئی ایجاد کے ذریعے بخارات میں تبدیل کردیا تھا، یہ عمل کچھ اس طرح کیاجاتا کہ بخارات میں تبدیل کئے جانے والوں کا نشان تک باقی نہ رہتا‘‘۔ 15اپریل 1946 کو نورمبرگ کے جنگی جرائم کے ٹربیونل کے سامنے آشو وٹز کیمپ کے نازی (جرمن) کمانڈر روڈلف یاس نے اعترافِ جرم کرتے ہوئے کہا کہ ’’ مئی 1940 سے دسمبر 1943 تک کے دوران آشو وٹز کے اس کیمپ میں پچیس لاکھ لوگوں کو گیس چیمبرز اور بھٹیوں میں جلا کر ہلاک کیا گیاجبکہ اس عرصہ میں پانچ لاکھ لوگ بیماریوں اور وبائوں کے باعث اس کیمپ میں ہلا ک ہوئے‘‘۔ یہ وہ تفاصیل ہیں جو ہولو کاسٹ واقعے کے مبنی بر حقائق ہونے کے دعویدار بطور ثبوت پیش کرتے ہیں۔ دوسری طرف ہولوکاسٹ کی یہودی یا یورپی روایات کو من گھڑت، غلط اور خانہ ساز کہنے والوں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے جس میں کئی ایک افراد اور غیر سرکاری ادارے تک شامل ہیں، جن کا دعویٰ ہے کہ ’’انہوں نے اس موضوع پر تحقیق کی ہے اور ابھی تک کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر آشو وٹز کیمپ کے نازی کمانڈر روڈلف یاس کے مذکورہ بالا اعترافی بیان کے حوالے سے برطانوی فوج کے انٹیلی جنس سارجنٹ برنارڈ کلارک (Bernard Clark) نے اس اعترافی بیان کے سامنے آنے کے چند سال بعد انکشاف کیا کہ اس نے (برنارڈ کلارک نے) اپنے دیگر پانچ ساتھیوں کے ساتھ مل کر روڈلف یاس پر شدید تشدد کرکے اس سے یہ اعترافی بیان لکھوایا تھا، اسکے بقول روڈلف یاس پر اتنا تشدد کیا گیا کہ اگر اس سے پچاس لاکھ یہودیوں کے قتل کا بیان دلوایا جاتا تو وہ فوراً لکھ کر دے دیتا ۔

          تشدد کے زور پر دیے گئے اپنے بیان میں روڈلف یاس نے کئی ایک ایسے ڈیتھ کیمپوں کا نام بھی لیا جن کا سرے سے وجود ہی نہ تھا۔ ماریکا فرینک نامی ایک یہودی خاتون کو جولائی 1944میں ہنگری سے آشو وٹز کیمپ لایا گیا ، یہ خاتون جنگ کے بعد اس کیمپ سے زندہ باہر آئی۔ جب اس سے گیس چیمبرز کے متعلق شہادت دینے کیلئے کہا گیا تو اس نے شہادت دی کہ ’’ میں نے قید کے دنوں میں گیس چیمبرز کے بارے میں نہ توکبھی کچھ سنا اور نہ ہی انکو دیکھا، یہ سب باتیں میں نے رہائی کے بعد سنی ہیں‘‘۔ بحوالہ VOICE FROM HOLOCAUST by Sylvia Rothchild, Printed in Newyaork 1981 page 199-191 ہولو کاسٹ تھیوری کے ناقدین یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’آشو وٹز کیمپ بنیادی طور پر ان لوگو ں کیلئے بنایا گیا تھا جو کام کاج کے قابل نہ تھے ، ان میں بیمار اور بوڑھے یہودی شامل تھے ۔ اس کے علاوہ اس کیمپ میں وہ لوگ بھی تھے جنہیں کسی دوسرے کیمپ میں منتقل کرنے کیلئے انتظار( waiting ) میں رکھا جاتا تھا۔اس کیمپ میں کثیر اموات کی وجہ بھی یہ تھی کہ یہاں بیمار، لاغر اور بوڑھے یہودیوں کو رکھا جاتا تھا‘‘ پرنسٹن یونیورسٹی کے یہودی پروفیسر آرنو مائر Arno Mayer نے اپنی کتاب ’’آخری حل‘‘ مطبوعہ 1989 میں لکھا ہے کہ آشو وٹز کیمپ میں یہودی ہلاکتیں زیادہ تر وبائوں اور دیگر قدرتی وجوہات کی بنا پر ہوئیں‘‘ ’’آشو وٹز کیمپ میں بڑھتی ہوئی ہلاکتوں پر خود نازی حکام میں بھی تشویش پائی جاتی تھی چنانچہ کیمپ کے کمانڈروں اور ڈاکٹروں کو ہدایت کی گئی کہ ’’ کیمپ کے ڈاکٹر، قیدیوں کو دی جانے والی خوراک کی نگرانی پہلے سے زیادہ کریں، کیمپ انتظامیہ سے مل کر رہائشی سہولیات کو بہتر بنانے کیلئے تجاویز مرتب کریں اور متعلقہ کیمپ کے کمانڈنٹ کے پاس جمع کرائیں ، کیمپ کے ڈاکٹرز اس بات کا مشاہدہ کریں کہ آیا کام کی جگہ پر حالات پہلے سے بہتر ہو رہے ہیں یا نہیں‘‘۔ کیمپ انتظامیہ کے نام خط لکھا گیا نازی حکام کا یہ جنگ کے بعد قبضہ میں لی گئی اُن دستاویزات میں موجود تھا 

          جو آشو وٹز کیمپ سے برآمد ہوئیں۔بحوالہ : (Nuremberg Documents PS2171, Annex 2. NC & A Red Series, Vol 14 PP 833 -834) یہ خط جنگ کے خاتمے پر نورمبرگ ٹربیونل میں اہم ترین دستاویزی ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا۔ جس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کیمپ میں ہلاکتیں بڑھنے پر خود نازی حکام بھی تشویش کا اظہار کرتے رہے۔اور لوگوں کو بچانے کیلئے ہدایات جاری کی جاتی رہیں‘‘۔ ہولوکاسٹ تھیوری کے ناقدین یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’جنگ کے دوران امریکی طیاروں کی طرف سے ان ’’ہلاکت خیز‘‘ کیمپوں کی فضائی تصاویر بھی لی جاتی رہیں جو 1979 میں امریکی سی آئی اے نے ڈی کلاسی فائی کی ہیں، ان تصویروں میں بھی کوئی ایسے آثار موجود نہیں ہیں جنکی بنیاد پر ان کیمپوں کو قتل گاہ قرار دیا جاسکے‘‘۔ بحوالہ: The Holocaust Revisted, DC Centeral Intelligence Agency 1979 by Dino A Bruigioni and Robert C Porier ہولو کاسٹ تھیوری پر سب سے پہلی تنقید فرانس پیکر یوکی نے کی جس نے اپنی کتاب Imperim میں اس تھیوری کو مکمل طور پر مسترد کر دیا ۔ کتاب کی اشاعت کے بعد اس پر زندگی تنگ کردی گئی ، اسے کئی ممالک میں عدالتی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا، تنگ آکر وہ مصر آیا جہاں جمال عبدالناصر نے اسے کافی پذیرائی بخشی مگر ایف بی آئی نے اسے گرفتار کرلیااور ایک دن وہ ایف بی آئی کی قید میں مردہ پایا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے سائینائیڈ کھا لیا تھا، مگر یہ زہر قید کے دوران اُس تک کیسے پہنچا؟ اس کا جواب صرف ایف بی آئی کے پاس ہے۔ 

       فرانسیسی مورخ پال ریزی نیئر Paul Rassinier دوسری جنگِ عظیم کے دوران جرمنوں کی قید میں رہا، اپنی کتاب ڈرامہ آف یورپین جیوزDrama of European Jews شائع شدہ 1964 میں لکھتا ہے کہ ’’علاج کی سہولیات کا فقدان ، گھٹیا اور ناکافی خوراک، غیر انسانی محنت و مشقت اور نمونیا ہی وہ عوامل تھے جو ان کنسنٹریشن کیمپوں میں قیدیوں کی موت کا سبب بنے‘‘۔ وہ مزید لکھتا ہے کہ ’’ گیس چیمبرز کے حوالے سے جھوٹے گواہوں کی بنیاد پر عجیب و غریب داستانیں پھیلائی جارہی ہیں، میں نے سب کو دعوت دی ہے کہ وہ آئیں اور ہولو کاسٹ کے حوالے سے مواد کا مطالعہ کریں ، ایسی کوئی دستاویز موجودہی نہیں جس میں کسی اتھارٹی نے یہودیوں کے قتلِ عام کا حکم دیا ہو۔ کیااتنے بڑے پیمانے پر منظم نسل کشی کسی حکم کے بغیر کی گئی؟ ‘‘ اس کے بقول ’’ ہمیں کوئی گیس چیمبر نہیں ملا اور نہ ہی آشو وٹز کیمپ میں نسل کشی کا وہ طریقہ اختیار کیا گیا جو یہودی روایت کرتے ہیں‘‘۔ ہولوکاسٹ واقعے کے مخالفین کہتے ہیں کہ ’’آشو وٹز کیمپ میں یہودیوں کو گیس چیمبرز میں ہلاک کئے جانے کی کہانی ان قیدیوں کے بیانات کی بنیاد پر بنائی گئی جنہوں نے بذاتِ خود قتلِ عام نہیں دیکھا ۔ جنگ کے آخری دنوں میں اتحادی طیاروں کا یہ معمول تھا کہ وہ پولش اور جرمن زبان میں لکھے گئے ایسے پمفلٹ قریبی علاقوں میں گراتے تھے جن میں تحریر ہوتا کہ لوگوں کو گیس چیمبرز میں جلایا جارہا ہے۔یہ اتحادیوں کی ایک نازی مخالف پروپیگنڈا مہم تھی جسے اتحادی ممالک کے ریڈیو چینلز کے ذریعے تمام یورپی ملکوں میں پھیلایا گیا۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سارے لوگوں نے ان کہانیوں پر یقین کر لیا اور یہ زبان زدِ عام ہو گئیں۔ اور پھر لوگوں کے بیانات ہی ہولوکاسٹ کے ثبوت کے طور پر پیش کئے گئے۔ اور کوئی ایسا گواہ سامنے نہ آیا جو اس قتلِ عام کا عینی شاہد ہو۔ہولوکاسٹ کے حوالے سے ایک روایت یہ بھی عام ہوئی کہ جرمن نازی یہودیوں کو قتل کرکے انکی چربی سے صابن بناتے ہیں اور تقریباً نو لاکھ یہودیوں کو مارکے ان کی چربی سے صابن بنایا گیا۔دلیل یہ دی جاتی تھی کہ صابن فیکٹری پر لکھے ہوئی RIF کے حروف کا مطلب ہے Rlen Judisisches Fett یعنی خالص یہودی چربی۔ بعد میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ RFIکا مطلب ہے Reichestelle fur Indessirielle Ferrbersegung یعنی National Center for Industrial Fast Provisioning ‘‘۔ ہولو کاسٹ تھیوری کے خلاف ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ’’ ورلڈ المانک کے مطابق 1938 میں یہودیوں کی یورپی آبادی تقریباً ایک کروڑ پینسٹھ لاکھ تھی جن میں سے ساٹھ لاکھ قتل کردئے گئے ، اور جنگ کے بعد 1948میں ایک کروڑ ستاسی لاکھ حالانکہ قتلِ عام کے بعد جنگ کے اختتام پر ایک کروڑ پانچ لاکھ زندہ بچے،جبکہ انکی آبادی بیاسی لاکھ بڑھ گئی محض دس سالوں میں یہودی مائوں نے بیاسی لاکھ بچے پیدا کئے ، یہ ایک محیرالعقول دعویٰ ہے۔ 

مزید یہ کہ ساٹھ لاکھ یہودیوں کو جلائے جانے کے بعد انکی راکھ بھی لاکھوں ٹن ہوتی ، وہ کہاں گئی؟ اس سوال کا جواب بھی کسی کے پاس نہیں ہے‘‘۔ ہولوکاسٹ تھیوری کے حامی کہتے ہیں کہ ان کیمپوں میں یہودیوں کو مارنے کیلئے زائیکلون بی گیس کا استعمال کیا گیا جبکہ ناقدین کہتے ہیں کہ’’ زائیکلون بی ٹائی فس نامی وبائی بیماری پھیلانے والی جوئوں کو مارنے کیلئے استعمال ہوتی ہے۔ یہ آہستہ اثر دکھانے والی گیس ہے اور وسیع پیمانے پر قتلِ عام کیلئے موزوں نہیں ہے، بلکہ اس بھی مہلک گیس موجود تھی ، زائیکلون بی کے ایک بار استعمال کے بعد اس کے اثرات بیس گھنٹے تک رہتے ہیں لہٰذا کیمپوں زائیکلون بی کے باعث ہلاک شدگا ن کی لاشوں کو نکالنے کیلئے بیس گھنٹے انتظار لازم تھا ورنہ ورکر بھی ہلاک ہو جاتے جبکہ گواہوں کا کہنا ہے کہ چند منٹوں میں لاشوں کو ہٹا لیا جاتا اور دوسرے لوگ لائے جاتے ، یہ سب ممکن ہی نہیں ہے‘‘۔ ہولوکاسٹ واقعے کا انکار ایک جرم کی حیثیت رکھتا ہے اور دنیا کے کئی ممالک میںہولو کاسٹ کے انکار پر سزا دی جاتی ہے ۔ Holocaust Denial Laws دنیا کے دس ممالک میں نافذہیں، جن میں فرانس ، بلجیئم ، آسٹریا، رومانیہ، سلواکیا، چیک ری پبلک، لتھوانیا، پولینڈ، جرمنی اور سویٹزر لینڈ ۔ ہولو کاسٹ کے واقعے پر کسی قسم کی تنقید اسرائیل میں بھی جرم ہے۔ ریڈ کراس نے دوسری عالمی جنگ میں نہایت اہم کردار ادا کیا ، نازیوں کے تما م کیمپوں تک اسکی رسائی تھی ، اور اس نے تمام اعداد و شمار باضابطہ طور پر ترتیب دئے، ریڈ کراس کے چارلس بیڈرمین کے پاس وہ تمام اطلاعات دستاویزی صورت میں موجود تھیں کہ کتنے کیمپ تھے اور ہر کیمپ میں کتنے قیدی تھے۔ کتنے جرمن شہری تھے اور کتنے جنگی قیدی۔ یہ دستاویزات چودہ ملین ٹکڑوں پر مشتمل ہیں۔ لیکن ان تک رسائی کسی کیلئے ممکن نہیں ، صرف اسرائیلیوں کیلئے ان دستاویزات تک رسائی آسان ہے دوسرے کسی ملک کیلئے تقریباً ناممکن، یعنی جو ہولو کاسٹ واقعے کو درست تسلیم کرتے ہیں وہ ان دستاویزات تک رسائی پاسکتے ہیں مگر جو انکار کرتے ہیں یا شک میں ہیں یا تحقیق کرکے حقیقت سامنے لانا چاہتے ہیںان کیلئے ان دستاویزات تک رسائی ممکن نہیں ۔ اس بات کو بھی ہولو کاسٹ تھیوری کے مخالفین واقعے کے جھوٹے ہونے کیلئے ایک دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ان کا استدلال ہے کہ’’ اگر ہولوکاسٹ حقیقت ہے تو تحقیق پر پانبدی اور سزا کیوں ہے؟‘‘ دوسری عالمی جنگ کے دوران ہونے والے اس غیر معمولی واقعے کی بنا پر یہودیوں کے حق میں رحم اور حمایت کی بھر پور تحریک چلائی گئی اور باقی بچ رہنے والے یہودیوںکو پر امن زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرنے کیلئے ایک الگ وطن ’’عطا ‘‘کرنے کا منصوبہ بنا ، مغرب کی نظر انتخاب پہلے ہی فلسطین پر تھی کیونکہ تیس سال پہلے ایک برطانوی یہودی صیہونی چیم وایزمین نے انگلینڈ کے وزیرِ خارجہ لارڈ بالفور کوتجویز دی تھی کہ فلسطین کو یہودیوں کا وطن قرار دے کر انہیں وہاں آباد کیا جائے۔ چنانچہ 1917 میں اعلان بالفور منظر عام پر آچکا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ’’ ملکہ عالیہ کی حکومت یہودیوں کیلئے ایک قومی وطن کی خاطر فلسطین میں ایک یہودی ریاست قائم کرنے کا اعلان کرتی ہے تاہم یہ بات واضح طور پر سمجھ لینی چاہئے کہ (اس کی وجہ سے) پہلے سے موجود غیر یہودی فلسطینی طبقوں کے مذہبی اور شہری حقوق کو کوئی نقصان نہ پہنچا یا جائے گاـ‘‘۔ ہولو کاسٹ کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کچھ عرصہ پہلے سابق ایرانی صدر محمد احمدی نژاد نے اس کے وقوع سے انکار کیا تو عالمی سطح پر اس پر (ایرانی صدر پر) بہت تنقید کی گئی۔چنانچہ میں نے اس موضوع پر اپنی معلومات کیلئے چند کتابوں اور انٹرنیٹ سائٹس کا مطالعہ کیا۔ اگر میں سارے مواد کو یکجا کروں تو ایک ضخیم کتاب بن جائے، اسی دوران میں نے اپنے چند غیر ملکی دوستوں (انٹرنیٹ فرینڈز) کی رائے بھی لی۔ جن میں ایک سڑسٹھ سالہ اسرائیلی دانشور مسٹر شمعون اور رومانیہ سے میری ایک دوست کلاڈیا بھی شامل ہیں۔ان سے ہونے والی گفتگو کافی دلچسپ اور معلومات افزاء تھی ۔ کلاڈیا کا مطالعہ ہر موضوع پر قابلِ رشک ہے ، وہ تاریخ و حالت حاضرہ پر گہری نظر رکھتی ہیں۔ اس مضمون کی تیاری میں میں نے اُس باہمی گفتگو سے بھی مدد لی ہے۔ کلاڈیا نے اس بارے میں میری رائے لینا چاہی تو میرا جواب سادہ سا تھا کہ ’’ قتل کئے جانے والے یہودی ساٹھ لاکھ ہوں یا ساٹھ ہزار، دنیا کا کوئی اخلاقی ضابطہ اتنی بڑی تعداد میں بے گناہ انسانوں کو قتل کرنے کیلئے اخلاقی جواز یا دلیل پیش نہیںکرسکتا( کیونکہ مرنے والوں میں معصوم بچے اور خواتین بھی شامل تھیں)۔ ظلم ہرحال میں ظلم ہے۔چاہے ساٹھ لاکھ کے ساتھ ہو یا ساٹھ ہزار کے ساتھ۔ اسکے ساتھ ہی میں نے اپنے مغربی دوستوں(جن میں یہودی اور مسیحی دونوں مذاہب کے لوگ شامل ہیں) کے سامنے یہ سوال بھی رکھا کہ یہودیوں کے ساتھ آخریہ ظلم کس نے کیا؟ مسلمانوںنے یا مسیحیوں نے؟ اگر ظلم کرنے والے مسلمان نہیں تھے تو انتقام یا جوابی ظلم کا شکار مسلمان کیوں بنائے گئے؟ اسرائیل کا قیام بے گناہ اور پرامن فلسطینیوں کیوں لاشوں پر کیوں کیا گیا؟ ہولو کاسٹ کے جواب میں آخر فلسطینی مسلمانوں کے قتلِ عام کا آخر کیا جواز ہے؟ عرصہ بیتا مگر میرے سوال کا جواب کسی نے نہیں دیا ۔ مجھے نہیں معلوم کی اس کی وجہ اُن کی لاعلمی ہے یا شرمندگی؟؟
https://www.facebook.com/RehmanWalay/photos/a.330068240449283.1073741825.329617373827703/1114242165365216/?type=3

No comments:

Post a Comment

Total Pageviews