ٹھاکر کی جے ہو !
::::::::::::::::::::::
سی پیک کے حوالے سے میں 2014ء اور 2015ء کے دوران اپنی پوسٹوں میں صاف صاف بتا چکا ہوں کہ یہ پروجیکٹ اتنی آسانی سے پورا نہیں ہونے دیا جائے گا۔ میں نے بتایا تھا کہ اسے امریکہ، بھارت اور ایران سے شدید خطرات لاحق رہیں گے۔ ایک خطرہ متحدہ عرب امارات بھی تھا لیکن اسے ڈنڈا چڑھا کر سیدھا کر لیا گیا ہے۔ جب "پاکستان کی خارجہ پالیسی" والے طویل سلسلے میں پہلی بار آپ حضرات کو آگاہ کیا تھا کہ ایران پاکستان کا دوست نہیں بلکہ دشمن ہے اور اسے ہماری سرکاری پالیسی میں بھی ایک خطرناک دشمن کے طور پر ہی دیکھا جاتا ہے تو تب کچھ لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آئی تھی لیکن بعد میں کلبوشن یادیو کی گرفتاری نے ایران کا حجت الاسلامی چوغا تار تار کرکے رکھ دیا اور وہ ایک دشمن کے طور پر ہی سب کی سمجھ میں آگیا۔ سی پیک کی سیکیورٹی کے لئے ایک میجر جنرل کی کمان میں پورا ڈویژن ویسے ہی قائم نہیں کیا گیا۔ کوئی سنگین خطرہ ہے جس کے تدارک کے لئے یہ قدم اٹھایا گیا تھا اور وہ خطرہ یہی ممالک ہیں۔ ایران اس وقت بظاہر بیک فٹ پر چلا گیا ہے لیکن یہ اس وقت بھی اس چار رکنی خاموش اتحاد کا حصہ ہے جو بھارت، ایران، افغانستان اور بنگلہ دیش پر مشتمل ہے اور جس کا مقصد فی الحال پاکستان کے خلاف سفارتی جارحیت ہے۔
سوال یہ ہے کہ سفارتی جارحیت ہی کیوں ؟ وجہ صاف ہے کہ کلبوشن والے معاملے اور بلوچستان میں عسکریت پسندوں کے بڑی تعداد میں ہتھیار ڈالنے کے سبب بھارت اور ایران بہت کمزور پوزیشن پر چلے گئے ہیں۔ جب تک یہ نئی صف بندیاں نہیں کر لیتے تب تک ان کے پاس سفارتی جارحیت کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس سفارتی جارحیت کا پاکستان گزشتہ دنوں بنگلہ دیش کو بڑا ٹیکنیکل جواب دے چکا ہے جس کے بعد سے چٹگامی ڈائن حسینہ واجد کے ہوش اڑے اڑے نظر آتے ہیں۔ پاکستان اگر خود بنگلہ دیش کو سخت جواب دیتا تو اس کی اتنی اہمیت نہ ہوتی کیونکہ پاکستان تو ایک براہ راست فریق ہے اور فریق سے لوگ ردعمل ہی کی توقع کرتے ہیں۔ چنانچہ پاکستان کی درخواست پر ترکی نے سٹینڈ لیا جو اس معاملے میں ایک غیرجانبدار ملک تھا۔ اگر حسینہ واجد ترکی کے اقدام کو سنجیدگی سے نہ لیتی تو سعودی عرب بھی تیار کھڑا تھا جو بنگالیوں کا اپنے ملک سے جلوس نکال کر ردعمل دیتا۔ طیب اردگان نواز شریف کا کوئی کلاس فیلو یا بچپن کا یار نہیں کہ انہیں اپنی بیٹی کی شادی کا گواہ بنائے۔ یہ پاکستان ترکی اور سعودی عرب کی بڑھتی سٹریٹیجک پارٹنر شپ کے ہی مظاہر ہیں جو ذاتی دوستی کی شکل میں بھی اپنے اثرات دکھا رہے ہیں۔ سفارتکاری کا حسن ہی یہ ہے کہ اس میں اپنوں کی گالیاں بھی آپ کے کام آتی ہیں۔ چنانچہ سوشل میڈیا پر حکومت پاکستان کو اپنے ہی شہریوں سے پڑنے والی گالیاں بھی پاکستان کے حق میں گئیں اور وار پاکستان نے خاموشی سے براستہ ترکی کرکے حسینہ واجد کے ہوش گم کر دیئے۔
پاکستان کو بھارت سے اس موجودہ وقت میں کوئی سنگین خطرہ درپیش نہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ بھارت گلگت میں کوئی اثر نفوذ حاصل کر گیا ہے۔ گلگت میں اثر نفوذ ایران کا ہے اور نریندر مودی نے بڑھک اپنے اسی پارٹنر کے اثر نفوذ پر اعتماد کرکے ماری ہے۔ لیکن ایرانی کلبوشن کے معاملے کے سبب اسقدر کمزور پوزیشن پر کھڑے ہیں کہ جب مودی نے لال قلعے سے بڑھک ماری کہ گلگت میں گویا میرے ہی کہنے پر ہڑتال ہو رہی ہے تو یہ ہڑتال پاکستانی اداروں نے ایک ہی رات میں لپیٹ کر رکھدی۔ الٹا مودی کی بڑھک کا ہمیں یہ فائدہ ہوگیا ہے کہ خود مودی نے مجلس وحدۃ المسلمین پر غداری کا ایسا ٹھپہ لگا دیا ہے جسے دھونے کے لئے اب ایران کے صرف، صابن اور شیمپو بھی ناکام ثابت ہونگے۔ مودی نے ہمیں نہیں ایران اور پاکستان میں ان کے ایجنٹوں کو نقصان پہنچا دیا ہے اور یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ تہران کا ہر حجت الاسلام اس وقت محرم نہ ہونے کے باوجود ماتم کر رہا ہوگا۔ اس موقع کو پاکستان اب ضائع نہیں کرے گا اور امید رکھنی چاہئے کہ ضرب عضب کا رخ اب ان دہشت گردوں کی جانب بھی موڑ دیا جائے گا جو سالہا سال سے زائرین کی آڑ میں ٹریننگ کے لئے ایران جاتے رہے ہیں۔
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ مودی نے یوم آزادی والی حماقت کر کیسے دی ؟ جواب یہ ہے کہ اس وقت بھارت کو شدید بیرونی و اندرونی دباؤ کا سامنا ہے۔ اور وہ دباؤ یہ ہے کہ عالمی طاقتوں کے سٹیٹلائٹ لائن آف کنٹرول پر نظریں جما کر گردش کر رہے ہیں جہاں کوئی ہلجل نہیں ہو رہی۔ لیکن اس کے باوجود لائن آف کنٹرول کے اس پارکشمیر 43 دن سے پوری قوم سڑکوں پر ہے۔ اس صورتحال میں کچھ اہم ممالک مودی سے یہ کہہ رہے ہیں کہ بھارت کا یہ موقف تو غلط ثابت ہو گیا کہ کشمیر ایک پر امن مقام ہے وہاں پاکستان نے دہشت گردی سے ماحول خراب کر رکھا ہے۔۔ پاکستان سے عسکریت پسندوں کا آنا ایک عرصہ دراز سے بند ہو چکا پھر ہر کشمیری سڑکوں پر کیوں ہے ؟ اور ان پر بہیمانہ تشدد کیوں ہو رہا ہے ؟ دباؤ صرف بیرونی دنیا سے نہیں بلکہ کانگریس، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا اور پورے بھارت کی طلبہ یونینیں بھی مودی پر زبردست دباؤ ڈال رہی ہیں جبکہ میڈیا اور دانشور الگ درد سر بنے ہوئے ہیں۔ نریندر مودی اس وقت ایک بدترین قسم کے دباؤ میں ہے اور یہ اسی دباؤ کا نتیجہ ہے کہ وہ لال قلعے پر کھڑا ہو کر وہ اول فول بک گیا جس کا سب سے منہ توڑ جواب اپنے ہی چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر نے کھڑے کھلوتے دے ڈالا۔ اس وقت پورے بھارت میں مودی کی بڑھک کا مذاق اڑ رہا ہے جبکہ ہر شخص کہہ رہا ہے "ٹھاکر کی جے ہو !"
No comments:
Post a Comment