ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے ہمارے ہاں تین مختلف قسم کے ردعمل موجود ہیں۔ کچھ
لوگ اس کے حق میں ہیں، اسے پروموٹ کرتے اور اس کے لئے دلائل دیتے ہیں۔ اس
معاملے میں چونکہ کارپوریٹ معاملات شامل ہیں، بعض پراڈکٹس ویلنٹائن کے
حوالے سے فروخت ہوتی ہیں، اس لئے کنزیومر ازم بھی ساتھ شامل ہو جاتا ہے۔
ویلنٹائن ڈے کی پروڈکٹس (چاکلیٹ، پھول، ٹیڈی بیئر وغیرہ) کی فروخت سے جن کے
مفادات وابستہ ہیں، ان کی حمایت کی وجہ سمجھ بھی آتی ہے، مگر ویلنٹائن کو
نظریاتی اور فکری بنیادوں پر سپورٹ فراہم کرنے والا حلقہ بنیادی طو رسے
لبرلز پر مشتمل ہے، جو فرد کی آزادی کے قائل ہیں، جو شخص اپنی پسند سے کچھ
کرنا چاہے، کرے، اس پرپابندی نہیں لگانی چاہیے۔موج مستی کے قائل اور اپنی
زندگی میں رنگ بھرنے کے خواہاں حضرات بھی اس حلقے کے ہمنوا ہیں۔ یہ وہ لوگ
ہیں جو” بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست“ پر یقین رکھتے ہیں۔ہر وہ
تہوار یا دن جس میںگلیمر اور رومانویت شامل ہو،، چند ساعتیں رنگین کرنے کا
موقعہ مل سکے، وہ انہیں مرغوب ہے۔
ادھر ویلنٹائن کی مخالفت کرنے والے حلقے میں روایتی مذہبی لوگوں کے علاوہ لوئر مڈل کلا س کی روایتی اخلاقیات والے لوگ شامل ہیں، جن کے خیال میں اپنی مشرقی اور اسلامی اقدار کی حفاظت کرتے ہوئے ہمیں اپنے بچوں کو مغرب کی تہذیبی یلغار سے بچاناچاہیے۔مسئلہ صرف ایک ہے کہ ہمارا مذہبی طبقہ جب کسی ایشو کی مخالفت کرتا ہے تو اپنے دلائل کی بنیادصرف ایمان وعقائد پر استوار کرتا ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں کہ ہم اپنی زندگی کے چند سب سے بڑے فیصلے ایمان اور عقائد کی روشنی ہی میں کرتے ہیں، مگر زیادہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ جس ایشو کی حمایت یا مخالفت کی جائے، اس پر غیر جذباتی انداز میں مکمل دلائل پیش کر دئیے جائیں، تاکہ دوسروں کے لئے کسی منطقی نتیجے تک پہنچنا آسان ہوجائے۔ ایک تیسرا طبقہ دوسرے کئی ایشوز کی طرح ویلنٹائن پر بھی نیوٹرل یا بے نیازی والا رویہ رکھتا ہے۔ ان کی بلا سے کوئی اسے منائے یا نہ منائے۔ ان کا تمام تر فوکس اپنے کیرئر،مالی معاملات اور روز مرہ زندگی کے ٹارگٹ پر رہتا ہے۔ ہمارے خیال میں ویلنٹائن ڈے والا معاملہ ایسا نہیں کہ اس پر غیر جانبدار رہا جائے۔ زندگی کے بعض معاملات میں آپ نیوٹرل نہیں رہ سکتے۔یہ معاملہ بظاہر اتنا بڑا نہیں، مگر چونکہ اس کی نوعیت فکری ہے اور یہ ایشو ہمارے سماج کو متاثر کرنے اور بنیادی فیبرک کو درہم برہم کرنے کی قوت رکھتا ہے، اس لئے اس پر کوئی واضح پوزیشن لینا ضروری ہے۔ حمایت کرنے والے تو کھل کھلا کر سامنے موجود ہیں، اس کی مخالفت کرنے والوں کو بھی واضح ہو کر سٹینڈ لینا اور اپنا مقدمہ پیش کرنا ہوگا۔ غیر جانبدار لوگوں کو کسی ایک طرف جانا ہوگا۔ ویلنٹائن ڈے کی حمایت میں تین چار دلائل دئیے جاتے ہیں۔” یہ محبت کے اظہار کا دن ہے، اس پر پابندی کیوں لگائی جائے؟انسانی زندگیوں میں نفرتیں اس قدر زیادہ ہوچکی ہیں ، اگر ایک دن محبت کے نام کر دیا گیا ہے تو اس میں کیا برائی ہے؟ نوجوان لوگ کچھ دیر کے لئے خوش ہوجائیں، کچھ ہنس کھیل لیں تو کون سی قیامت آ جائے گی، مولوی حضرات کسی کو خوش دیکھ نہیں سکتے …. وغیرہ وغیرہ۔ “ایک اور دلیل جو عام طور سے دی جاتی ہے ،” ویلنٹائن ڈے صرف لڑکے اور لڑکی کی محبت کا دن نہیں ہے، محبت کا صرف یہی رنگ تو نہیں ، ماں ، باپ ، بھائیوں وغیرہ کو بھی پھول دئیے جاسکتے ہیں۔
پرخلوص محبت کا اظہار ہی ہے، ایک دن مقرر ہوگیا ہے تو اسے منانے میں کیا حرج ہوسکتا ہے؟ “بعض لوگ اس الزام پر برہم ہوجاتے ہیں کہ ویلنٹائن ڈے مغرب سے درآمد شدہ تہوار ہے، جھنجھلاہٹ میں یہ ایک ہی فقرہ دہراتے ہیں،”ویلنٹائن مغرب سے آیا ہے تو پھر کیا ہوا؟ اس میں کیا حرج ہے….؟ “ ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے کوئی حتمی رائے قائم کرنے سے پہلے دو تین باتیں سمجھ لی جائیں۔ سب سے اہم یہ کہ ہر تہوار یا دن کا ایک خاص پس منظر اور ایک مجموعی تاثر (Overall Impact)ہوتا ہے۔اسی مخصوص پس منظر ہی میں اسے دیکھنا پڑے گا ، یہ ممکن نہیں کہ آپ اس کے کسی ضمنی اثر(Side Effect) کو قبول کر لیں اور صرف اسی کی بنیاد پر رائے قائم کر لیں۔ مثال کے طور پر روزے ہم اللہ کے حکم کی تعمیل میں رکھتے ہیں اور یہ ایک طرح سے تذکیہ نفس کا طریقہ ہے۔ اس کے ضمنی فوائد بے شمار ہوسکتے ہیں، بعض ماہرین اس کے طبی فوائد بھی گنواتے ہیں۔ یہ ثانوی اثرات یا فوائد خواہ جس قدر ہوجائیں، مگر روزے کا بنیادی سبب جو ہے ،و ہی رہے گا۔ ایسا نہیں کہ کوئی سمارٹ ہونے کے لئے روزے رکھنے شروع کر دے، ایسا کرنا ہرگز عبادت نہیں کہلائے گا۔ یہی بات نماز کے بارے میں کہی جاتی ہے۔ اللہ کا حکم ہے، ہمیں رسول اللہﷺ نے یہ سکھایا اور اس کے اجر سے متعارف کرایا۔ اب نماز پڑھنے کے ضمنی اثرات کئی ہوں گے ، بعض سکالر اس میں ورزش کے پہلو کی جانب اشارہ کرتے ہیں، تو کچھ اسے ذہنی سکون کا نسخہ تصور کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ ،نماز مگر نماز ہی رہے گی، اللہ کی بندگی کا ایک اسلوب، نبی ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ۔اس کا مجموعی تاثر بھی وہی رہے گا، اسی سے یہ عبادت پہچانی جاتی ہے۔ تہوار کی بات چل رہی ہے تو عیدکو لے لیں۔ عید الفطر انعام ہے رمضان المبارک کی عبادت کا، اس دن کو اسی پس منظر میں دیکھا اور جانا جاتا ہے۔ عیدالضحیٰ میں قربانی کی سنت پوری کی جاتی ہے،اس کا ایک مکمل تاریخی پس منظر ہے،جس سے اس دن کو پہچاناجاتا ہے۔ ویلنٹائن ڈے کابھی ایک پس منظر ہے، مغربی تاریخ میں کچھ روایات ہیں اور پھر جدید مغربی تاریخ میں اس دن کو منانے کا بدلتا انداز ہے، جس پر اب دو عشروں سے کارپوریٹ روایات اور کنزیومرازم کا غلبہ ہوچکا۔ ویلنٹائن بنیادی طور پر پرو نکاح یا پرومیرج تحریک تھی۔
جب ایک خاص زمانے میں بادشاہ وقت نے نوجوانوں پر شادی کرنے کی پابندی عائد کر دی کہ شادی شدہ لوگ اپنی بیوی بچوں کی محبت میں فوج میں شامل ہونے سے گریز کرنے لگے تھے۔روایت کے مطابق سینٹ ویلنٹائن نے اس ناروا شاہی حکم سے بغاوت کا راستہ نکالا اور نوجوان جوڑوں کی شادیوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔اسی جرم میں اسے سزا بھی ہوئی ،مگر یہ سلسلہ چل نکلا۔ بیسویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں جب مغرب کی بدلتی اخلاقی قدروں میں شادی کا انسٹی ٹیوشن کمزور پڑنے لگا تو ویلنٹائن ڈے کا انداز بھی بدل دیا گیا۔ اب محبت کرنے والے جوڑوں کے مابین عہد وپیمان اور کھلے اظہار محبت کے لئے اسے استعمال کیا جانے لگا۔ رفتہ رفتہ اس میں کنزیومر ازم کا رنگ بڑھتا گیا۔ اب صرف اظہار کافی نہیں بلکہ سرخ پھول ، چاکلیٹ ، ٹیڈی بیئر وغیرہ لازم ہوگئے، ویلنٹائن ڈنرروایت ہوگئی اور پھر ویسٹرن سٹائل میں رومانوی شام منانے بلکہ زیادہ کھلے الفاظ میں شب بسری کے تمام لوازمات شامل ہوتے گئے ۔ ویلنٹائن ڈے کی مغربی روایت میں اور جو لوگ پاکستان جیسے ملک میںیہ دن رائج کرنا چاہتے ہیں، ان سب پر یہ واضح ہے کہ یہ خالصتاً مرد و عورت کے مابین اظہار محبت کا دن ہے۔ محبت کا وہ انداز بھی مغربی کلچر سے مستعار یا اخذ کردہ ہے۔ مشرقی کلچر اور اسلامی روایات میں جس کی قطعی گنجائش نہیں۔ جس طرح کسی نئی چیز کو معاشرے کے لئے قابل قبول بناتے ہوئے پہلے کچھ تکلفات اور اد ب آداب کا لبادہ پہنایا جاتا ہے‘ اسی طرح اس دن کے حوالے سے کہہ دیا جاتا ہے کہ اسے ماں باپ یا بہن بھائیوں سے محبت کے اظہار کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ نہیں جناب، یہ دلیل درست نہیں ہے۔ یہ صرف ایک حیلہ، دھوکہ اور تنقید کرنے والوں کا منہ بندکرنے کا حربہ ہے۔
ہمیں اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے اظہار محبت کے لئے غیر اخلاقی، مشکوک پس منظر والے کسی دن کی ضرورت نہیں۔ اول تو مقدس رشتوں کے ساتھ اظہار محبت کو الگ دن کی ضرورت نہیں۔ ہمارا مذہب، ہماری روایات ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ اپنے ان عزیز رشتوں کے ساتھ محبت ہمیں ہر لمحہ اپنے دل میں زندہ رکھنی اور اپنے عمل سے اسے ثابت کرنا ہے۔ کسی فرماں بردار اولاد کو اپنی سعادت مندی اور محبت ثابت کرنے کے لئے سرخ پھولوں کی ضرورت نہیں۔ اس کے صبح سے شام تک کے عمل سے اسے جھلکنا اور چھلکنا چاہیے۔ اگر ایسا نہیں تو پھر خواہ کتنے پیسے پھولوں، چاکلیٹوں پر خرچ کر دئیے جائیں، وہ سب بےکار ہیں۔ ایک اور اہم نکتہ سمجھنا ضروری ہے کہ محبت کا جذبہ قدرت کا تحفہ ہے، مرد اور عورت کے درمیان محبت ہونا فطری چیز ہے، مخالف جنس کے لئے کشش رکھنابھی ایک حقیقت ہے۔ اس کشش، محبت اور تعلق کو دیرپا بنیادوں پر استوار کرنے اور پھر قائم رکھنے کا ایک طریقہ، قرینہ اور سلیقہ ہے۔
ہماری اسلامی اور مشرقی روایات میں مرد اور عورت ایک خاص اسلوب اور طریقے سے رشتے میں بندھتے ہیں۔ ہمارا مذہب اور سماج اس کی اجازت دیتا ہے، بلکہ حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ یہ صرف اسلام کا معاملہ نہیں بلکہ مشرقی تہذیب میں رچے بسے غیر مسلموں کی بھی یہی روایات اور آداب ہیں۔ اس خطے میں رہنے والے ہندو گھرانے ہوں، سکھ یا عیسائی…. ہر ایک میںبزرگوں کا احترام کیا جاتا ہے، والدین کی رضامندی سے معاملات آگے بڑھائے جاتے اور اپنی محبت کے جذبوں کو نفاست اور شائستگی کا لبادہ پہنا کر مزید خوبصورت بنایا جاتا ہے۔ اپنی انہی روایات کا احترام کرنا چاہیے، ہر معاشرے کے کچھ بنیادی اجزا ہوتے ہیں، سماج کا فیبرک جن سے جڑا ہوتا ہے، انہیں ادھیڑنے کی کوشش پورے سماج کوتلپٹ کر دیتی ہے۔ ویلنٹائن ڈے کی مخالفت کرنے والے جنونی ، متشدد یا محبت کے مخالف نہیں۔ ان کے دلوں میں بھی بہاریں آتی، جذبے مہکتے اور آنکھیں سپنے دیکھتی ہیں۔ یہ لوگ مگر اپنے جذبات کے کھلے، بے لگام اظہار کو حیوانی فعل گردانتے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ محبت جیسے حسین ترین جذبے کی توہین نہ کی جائے۔ عامیانہ، سطحی اور بازاری انداز سے اس کے اظہار کے بجائے مہذب، شائستہ انداز میں رشتوں کے تقدس اور نزاکتیں ملحوظ خاطررکھی جائیں۔
خواہشات کی اس انداز میں تکمیل محبت کو نہ صرف مقدس اور پاکیزہ بنا دیتی ہے بلکہ رب تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کرنے سے رحمتیں اور برکات بھی شامل ہو جاتی ہیں۔ پس نوشت: جناب جاوید احمد غامدی کی رائے یاد آئی ،ان کی کئی آرا سے اختلاف ہے، مگریہ نکتہ انہوں نے کمال انداز میں بیان کیا۔غامدی صاحب اپنی کتاب ”مقامات “میں اسلامی معاشرے کا بنیادی جوہر تین چیزوں کو قرار دیتے ہیں ،”حیا، تحفظ فروج(عصمت کی حفاظت) اور حفظ مراتب۔ “ویلنٹائن ڈے پر نظر ڈالئے اور دیکھئے کہ کس کمال مہارت کے ساتھ یہ تینوں پر ضرب لگاتا ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ غامدی صاحب خود، ان کے حلقہ فکر ،خاص کر ان کے ذہین تلامذہ اس حوالے سے کیوں خاموش رہتے ہیں؟ اگرکسی نے کچھ کہا یا لکھا بھی تو عملی طور پر وہ ویلنٹائن ڈے کے حامیوں کے کیمپ کو تقویت پہنچاتا ہے۔
ادھر ویلنٹائن کی مخالفت کرنے والے حلقے میں روایتی مذہبی لوگوں کے علاوہ لوئر مڈل کلا س کی روایتی اخلاقیات والے لوگ شامل ہیں، جن کے خیال میں اپنی مشرقی اور اسلامی اقدار کی حفاظت کرتے ہوئے ہمیں اپنے بچوں کو مغرب کی تہذیبی یلغار سے بچاناچاہیے۔مسئلہ صرف ایک ہے کہ ہمارا مذہبی طبقہ جب کسی ایشو کی مخالفت کرتا ہے تو اپنے دلائل کی بنیادصرف ایمان وعقائد پر استوار کرتا ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں کہ ہم اپنی زندگی کے چند سب سے بڑے فیصلے ایمان اور عقائد کی روشنی ہی میں کرتے ہیں، مگر زیادہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ جس ایشو کی حمایت یا مخالفت کی جائے، اس پر غیر جذباتی انداز میں مکمل دلائل پیش کر دئیے جائیں، تاکہ دوسروں کے لئے کسی منطقی نتیجے تک پہنچنا آسان ہوجائے۔ ایک تیسرا طبقہ دوسرے کئی ایشوز کی طرح ویلنٹائن پر بھی نیوٹرل یا بے نیازی والا رویہ رکھتا ہے۔ ان کی بلا سے کوئی اسے منائے یا نہ منائے۔ ان کا تمام تر فوکس اپنے کیرئر،مالی معاملات اور روز مرہ زندگی کے ٹارگٹ پر رہتا ہے۔ ہمارے خیال میں ویلنٹائن ڈے والا معاملہ ایسا نہیں کہ اس پر غیر جانبدار رہا جائے۔ زندگی کے بعض معاملات میں آپ نیوٹرل نہیں رہ سکتے۔یہ معاملہ بظاہر اتنا بڑا نہیں، مگر چونکہ اس کی نوعیت فکری ہے اور یہ ایشو ہمارے سماج کو متاثر کرنے اور بنیادی فیبرک کو درہم برہم کرنے کی قوت رکھتا ہے، اس لئے اس پر کوئی واضح پوزیشن لینا ضروری ہے۔ حمایت کرنے والے تو کھل کھلا کر سامنے موجود ہیں، اس کی مخالفت کرنے والوں کو بھی واضح ہو کر سٹینڈ لینا اور اپنا مقدمہ پیش کرنا ہوگا۔ غیر جانبدار لوگوں کو کسی ایک طرف جانا ہوگا۔ ویلنٹائن ڈے کی حمایت میں تین چار دلائل دئیے جاتے ہیں۔” یہ محبت کے اظہار کا دن ہے، اس پر پابندی کیوں لگائی جائے؟انسانی زندگیوں میں نفرتیں اس قدر زیادہ ہوچکی ہیں ، اگر ایک دن محبت کے نام کر دیا گیا ہے تو اس میں کیا برائی ہے؟ نوجوان لوگ کچھ دیر کے لئے خوش ہوجائیں، کچھ ہنس کھیل لیں تو کون سی قیامت آ جائے گی، مولوی حضرات کسی کو خوش دیکھ نہیں سکتے …. وغیرہ وغیرہ۔ “ایک اور دلیل جو عام طور سے دی جاتی ہے ،” ویلنٹائن ڈے صرف لڑکے اور لڑکی کی محبت کا دن نہیں ہے، محبت کا صرف یہی رنگ تو نہیں ، ماں ، باپ ، بھائیوں وغیرہ کو بھی پھول دئیے جاسکتے ہیں۔
پرخلوص محبت کا اظہار ہی ہے، ایک دن مقرر ہوگیا ہے تو اسے منانے میں کیا حرج ہوسکتا ہے؟ “بعض لوگ اس الزام پر برہم ہوجاتے ہیں کہ ویلنٹائن ڈے مغرب سے درآمد شدہ تہوار ہے، جھنجھلاہٹ میں یہ ایک ہی فقرہ دہراتے ہیں،”ویلنٹائن مغرب سے آیا ہے تو پھر کیا ہوا؟ اس میں کیا حرج ہے….؟ “ ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے کوئی حتمی رائے قائم کرنے سے پہلے دو تین باتیں سمجھ لی جائیں۔ سب سے اہم یہ کہ ہر تہوار یا دن کا ایک خاص پس منظر اور ایک مجموعی تاثر (Overall Impact)ہوتا ہے۔اسی مخصوص پس منظر ہی میں اسے دیکھنا پڑے گا ، یہ ممکن نہیں کہ آپ اس کے کسی ضمنی اثر(Side Effect) کو قبول کر لیں اور صرف اسی کی بنیاد پر رائے قائم کر لیں۔ مثال کے طور پر روزے ہم اللہ کے حکم کی تعمیل میں رکھتے ہیں اور یہ ایک طرح سے تذکیہ نفس کا طریقہ ہے۔ اس کے ضمنی فوائد بے شمار ہوسکتے ہیں، بعض ماہرین اس کے طبی فوائد بھی گنواتے ہیں۔ یہ ثانوی اثرات یا فوائد خواہ جس قدر ہوجائیں، مگر روزے کا بنیادی سبب جو ہے ،و ہی رہے گا۔ ایسا نہیں کہ کوئی سمارٹ ہونے کے لئے روزے رکھنے شروع کر دے، ایسا کرنا ہرگز عبادت نہیں کہلائے گا۔ یہی بات نماز کے بارے میں کہی جاتی ہے۔ اللہ کا حکم ہے، ہمیں رسول اللہﷺ نے یہ سکھایا اور اس کے اجر سے متعارف کرایا۔ اب نماز پڑھنے کے ضمنی اثرات کئی ہوں گے ، بعض سکالر اس میں ورزش کے پہلو کی جانب اشارہ کرتے ہیں، تو کچھ اسے ذہنی سکون کا نسخہ تصور کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ ،نماز مگر نماز ہی رہے گی، اللہ کی بندگی کا ایک اسلوب، نبی ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ۔اس کا مجموعی تاثر بھی وہی رہے گا، اسی سے یہ عبادت پہچانی جاتی ہے۔ تہوار کی بات چل رہی ہے تو عیدکو لے لیں۔ عید الفطر انعام ہے رمضان المبارک کی عبادت کا، اس دن کو اسی پس منظر میں دیکھا اور جانا جاتا ہے۔ عیدالضحیٰ میں قربانی کی سنت پوری کی جاتی ہے،اس کا ایک مکمل تاریخی پس منظر ہے،جس سے اس دن کو پہچاناجاتا ہے۔ ویلنٹائن ڈے کابھی ایک پس منظر ہے، مغربی تاریخ میں کچھ روایات ہیں اور پھر جدید مغربی تاریخ میں اس دن کو منانے کا بدلتا انداز ہے، جس پر اب دو عشروں سے کارپوریٹ روایات اور کنزیومرازم کا غلبہ ہوچکا۔ ویلنٹائن بنیادی طور پر پرو نکاح یا پرومیرج تحریک تھی۔
جب ایک خاص زمانے میں بادشاہ وقت نے نوجوانوں پر شادی کرنے کی پابندی عائد کر دی کہ شادی شدہ لوگ اپنی بیوی بچوں کی محبت میں فوج میں شامل ہونے سے گریز کرنے لگے تھے۔روایت کے مطابق سینٹ ویلنٹائن نے اس ناروا شاہی حکم سے بغاوت کا راستہ نکالا اور نوجوان جوڑوں کی شادیوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔اسی جرم میں اسے سزا بھی ہوئی ،مگر یہ سلسلہ چل نکلا۔ بیسویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں جب مغرب کی بدلتی اخلاقی قدروں میں شادی کا انسٹی ٹیوشن کمزور پڑنے لگا تو ویلنٹائن ڈے کا انداز بھی بدل دیا گیا۔ اب محبت کرنے والے جوڑوں کے مابین عہد وپیمان اور کھلے اظہار محبت کے لئے اسے استعمال کیا جانے لگا۔ رفتہ رفتہ اس میں کنزیومر ازم کا رنگ بڑھتا گیا۔ اب صرف اظہار کافی نہیں بلکہ سرخ پھول ، چاکلیٹ ، ٹیڈی بیئر وغیرہ لازم ہوگئے، ویلنٹائن ڈنرروایت ہوگئی اور پھر ویسٹرن سٹائل میں رومانوی شام منانے بلکہ زیادہ کھلے الفاظ میں شب بسری کے تمام لوازمات شامل ہوتے گئے ۔ ویلنٹائن ڈے کی مغربی روایت میں اور جو لوگ پاکستان جیسے ملک میںیہ دن رائج کرنا چاہتے ہیں، ان سب پر یہ واضح ہے کہ یہ خالصتاً مرد و عورت کے مابین اظہار محبت کا دن ہے۔ محبت کا وہ انداز بھی مغربی کلچر سے مستعار یا اخذ کردہ ہے۔ مشرقی کلچر اور اسلامی روایات میں جس کی قطعی گنجائش نہیں۔ جس طرح کسی نئی چیز کو معاشرے کے لئے قابل قبول بناتے ہوئے پہلے کچھ تکلفات اور اد ب آداب کا لبادہ پہنایا جاتا ہے‘ اسی طرح اس دن کے حوالے سے کہہ دیا جاتا ہے کہ اسے ماں باپ یا بہن بھائیوں سے محبت کے اظہار کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ نہیں جناب، یہ دلیل درست نہیں ہے۔ یہ صرف ایک حیلہ، دھوکہ اور تنقید کرنے والوں کا منہ بندکرنے کا حربہ ہے۔
ہمیں اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے اظہار محبت کے لئے غیر اخلاقی، مشکوک پس منظر والے کسی دن کی ضرورت نہیں۔ اول تو مقدس رشتوں کے ساتھ اظہار محبت کو الگ دن کی ضرورت نہیں۔ ہمارا مذہب، ہماری روایات ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ اپنے ان عزیز رشتوں کے ساتھ محبت ہمیں ہر لمحہ اپنے دل میں زندہ رکھنی اور اپنے عمل سے اسے ثابت کرنا ہے۔ کسی فرماں بردار اولاد کو اپنی سعادت مندی اور محبت ثابت کرنے کے لئے سرخ پھولوں کی ضرورت نہیں۔ اس کے صبح سے شام تک کے عمل سے اسے جھلکنا اور چھلکنا چاہیے۔ اگر ایسا نہیں تو پھر خواہ کتنے پیسے پھولوں، چاکلیٹوں پر خرچ کر دئیے جائیں، وہ سب بےکار ہیں۔ ایک اور اہم نکتہ سمجھنا ضروری ہے کہ محبت کا جذبہ قدرت کا تحفہ ہے، مرد اور عورت کے درمیان محبت ہونا فطری چیز ہے، مخالف جنس کے لئے کشش رکھنابھی ایک حقیقت ہے۔ اس کشش، محبت اور تعلق کو دیرپا بنیادوں پر استوار کرنے اور پھر قائم رکھنے کا ایک طریقہ، قرینہ اور سلیقہ ہے۔
ہماری اسلامی اور مشرقی روایات میں مرد اور عورت ایک خاص اسلوب اور طریقے سے رشتے میں بندھتے ہیں۔ ہمارا مذہب اور سماج اس کی اجازت دیتا ہے، بلکہ حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ یہ صرف اسلام کا معاملہ نہیں بلکہ مشرقی تہذیب میں رچے بسے غیر مسلموں کی بھی یہی روایات اور آداب ہیں۔ اس خطے میں رہنے والے ہندو گھرانے ہوں، سکھ یا عیسائی…. ہر ایک میںبزرگوں کا احترام کیا جاتا ہے، والدین کی رضامندی سے معاملات آگے بڑھائے جاتے اور اپنی محبت کے جذبوں کو نفاست اور شائستگی کا لبادہ پہنا کر مزید خوبصورت بنایا جاتا ہے۔ اپنی انہی روایات کا احترام کرنا چاہیے، ہر معاشرے کے کچھ بنیادی اجزا ہوتے ہیں، سماج کا فیبرک جن سے جڑا ہوتا ہے، انہیں ادھیڑنے کی کوشش پورے سماج کوتلپٹ کر دیتی ہے۔ ویلنٹائن ڈے کی مخالفت کرنے والے جنونی ، متشدد یا محبت کے مخالف نہیں۔ ان کے دلوں میں بھی بہاریں آتی، جذبے مہکتے اور آنکھیں سپنے دیکھتی ہیں۔ یہ لوگ مگر اپنے جذبات کے کھلے، بے لگام اظہار کو حیوانی فعل گردانتے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ محبت جیسے حسین ترین جذبے کی توہین نہ کی جائے۔ عامیانہ، سطحی اور بازاری انداز سے اس کے اظہار کے بجائے مہذب، شائستہ انداز میں رشتوں کے تقدس اور نزاکتیں ملحوظ خاطررکھی جائیں۔
خواہشات کی اس انداز میں تکمیل محبت کو نہ صرف مقدس اور پاکیزہ بنا دیتی ہے بلکہ رب تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کرنے سے رحمتیں اور برکات بھی شامل ہو جاتی ہیں۔ پس نوشت: جناب جاوید احمد غامدی کی رائے یاد آئی ،ان کی کئی آرا سے اختلاف ہے، مگریہ نکتہ انہوں نے کمال انداز میں بیان کیا۔غامدی صاحب اپنی کتاب ”مقامات “میں اسلامی معاشرے کا بنیادی جوہر تین چیزوں کو قرار دیتے ہیں ،”حیا، تحفظ فروج(عصمت کی حفاظت) اور حفظ مراتب۔ “ویلنٹائن ڈے پر نظر ڈالئے اور دیکھئے کہ کس کمال مہارت کے ساتھ یہ تینوں پر ضرب لگاتا ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ غامدی صاحب خود، ان کے حلقہ فکر ،خاص کر ان کے ذہین تلامذہ اس حوالے سے کیوں خاموش رہتے ہیں؟ اگرکسی نے کچھ کہا یا لکھا بھی تو عملی طور پر وہ ویلنٹائن ڈے کے حامیوں کے کیمپ کو تقویت پہنچاتا ہے۔
No comments:
Post a Comment