September 01, 2014

نوازشریف: قوت فیصلہ سے محروم NAWAZ SHARIF NO DECESION


اگست 12 سے لے کر 27 اگست تک 15 دنوں میں وزیر داخلہ چوہدری نثار اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی آرمی چیف سے چار تفصیلی ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ ان ملاقاتوں کی تفصیل کا تو علم نہیں مگر عمومی تاثریہی ہے کہ مسلم لیگ نواز کی آرمی چیف سے ملاقاتوں کا مقصد اس بحران سے نکلنا ہے جو پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ اور بعدازاں ریڈ زون میں دھرنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ ان ملاقاتوں کا یہی مطلب لیا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ نواز سیاسی حل نکالنے میں ناکام ہے اور وہ فوج کی مدد سے صورت حال سے نکلنا چاہتی ہے ۔بالاخر بار بار کی ملاقاتیں رنگ لے آئیں اور آرمی چیف کو کم از کم ثالثی پر راضی کر لیا۔
پچھلے ادوار میں مسلم لیگ نواز یا نواز شریف کی سیاست ایجنسیوں کی مرہون منت رہی ہے لہذاجب تن تنہا سیاست کرنے کا وقت آیا ہے تووہ بروقت فیصلہ کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔
موجودہ بحران سے پہلے طالبان کے ساتھ بات چیت کا ڈول ڈالا گیا ۔ مختلف حلقوں بشمول پارلیمانی پارٹیوں کی طرف سے طالبان کے خلاف آپریشن کی حمایت کے باوجود اس مسئلے کو لٹکا دیا گیا جبکہ اس دوران طالبان پاکستانی عوام کو دہشت گردی کا نشانہ بناتے رہے ۔ بالاخر تنگ آکر پاک آرمی نے خود سے آپریشن شروع کردیا اور حکومت نے باامر مجبوری اسے قبول کر لیا۔جہاں تک آپریشن کا معاملہ ہے تو اب تک کے نتائج کافی حوصلہ افزا ہیں ۔ سولہ جون کے بعد طالبان کی طرف سے کوئی بڑی کاروائی نہیں ہوئی۔
موجودہ بحرانی صورت حال پر تجزیہ نگاروں کی یہ متفقہ رائے ہے کہ نواز شریف اور ان کی کچن کیبنٹ نے پہلے دن سے ہی عمران خان کے الزامات پر توجہ دینے کی بجائے مذاق اڑایااور ایک سال میں صورت حال بحران کا شکار ہوگئی ہے۔طاہر القادری نے بھی اس بحرانی صورتحال سے فائد ہ اٹھانے کا فیصلہ کر لیا۔نواز شریف فیصلہ کرنے میں دیر کر گئے اور گڈ گورننس کے خود ساختہ علمبردار، ماورائے عدالت قتل فیم اور جعلی پولیس مقابلوں کے خالق شہباز شریف نے طاہر القادری سے نمٹنے کے لیے جو فوری فیصلہ کیا وہ اب ان کے گلے کا پھندا بن چکا ہے۔
نوازشریف پارلیمنٹ سے خطاب کرنے میں بھی کافی ہچکچاتے رہے۔ سینٹ میں کبھی گئے نہیں ۔قومی اسمبلی میں بھی شاذ و نادر ہی آتے ۔ موجودہ بحران پر تین روز اسمبلی میں آنے کے باوجود پارلیمنٹ سے کوئی خطاب نہیں کیا بلکہ حسب عادت سینئیر صحافیوں کو بلا کر اپنا نقطہ نظر بتادیا۔27 اگست کو اسمبلی میں جو خطاب کیا اس میں جوڈیشل کمیشن اور ایف آئی آر سے متعلق کوئی گفتگو نہ کی اور حسب معمول شاہراہوں اور کارخانوں کی بات کی۔28 اگست کو تاریخی خطاب کیا اس کا جھوٹ بھی پکڑا گیا۔
یہ درست ہے کہ پاکستان میں جب بھی کوئی سیاسی حکومت اقتدار میں آتی ہے۔ تو غیر جمہوری قوتیں اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتی ہیں ۔پیپلز پارٹی کے پچھلے پانچ سال اس کی واضح مثال ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گذرتا تھا جب میڈیا اور اس کے حواری پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کی تاریخیں نہ دیتے ہوں۔ گو زرداری گو اور گو گیلانی گو کے نعرے نہ لگائے جاتے ہوں۔ نوازشریف کی پس پردہ حمایت سے این آر او کی آڑ میں چیف جسٹس کی انتقامی کاروائیاں علیحدہ سے تھیں ۔ جنرل شجاع پاشا کی حمایت میں نواز شریف کا کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ میں پیش ہونا بھی تاریخ بن چکا ہے۔
بہرحال پیپلز پارٹی کی قیادت کسی بھی ایشو کو انا کا مسئلہ بنائے بغیر سیاسی بصیر ت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف ہر بحران سے نکلتی رہی بلکہ بنیادی نوعیت کی قانون سازی بھی کر گئی۔ لیکن نواز شریف اپنے بادشاہی رویے کی وجہ سے پھنس چکے ہیں جو فیصلے انہیں چھ ماہ پہلے کرنے چاہیے تھے وہ آج کر رہے ہیں۔
یہ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ (جنوری 2013)پیپلز پارٹی کے آخری دور میں طاہر القادری بھرپور قوت کے ساتھ لانگ مارچ کرتے ہوئے اسلام آباد پہنچ گئے تھے اور اس وقت ان کا مطالبہ صرف اسلامی نظام کے قیام کا تھا جسے آصف زرداری نے تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملا کر حل کر لیا۔ لیکن نواز حکومت نے ان کے کارکنوں کو گولیاں مار کر طاہر القادری کے بے جان پتلے میں جان ڈال دی اور وہ اب وہ گلے پڑچکا ہے۔
چلیں غلطیاں بھی ہو جاتی ہیں مگرنوازشریف میں نہ مانوں والی حالت سے باہر ہی نہیں نکل رہے۔وہ طاہر القادری سے مل کر ان کے مطالبات ہمدردی سے سنتے ، مرنے والوں کے گھر جاتے اور دیت وغیرہ دے کر مسئلہ کر سکتے تھے مگر اقتدار کا نشہ اتنا حاوی تھا کہ الٹا طاہر القادری پر قتل کا مقدمہ درج کر ا دیا۔ جب عوام کا دباؤ بڑھا تو شہباز شریف نے اپنے دو قریبی مشیروں کو فارغ کر دیا اور کہا کہ اگر عدالتی کمیشن نے میرے بارے میں کوئی الزام بھی لگایا تو میں اسی وقت استعفیٰ دے دوں گا مگرایسا نہ ہو سکا۔ عدالتی فیصلے کے باوجود ایف آئی آر کٹنے نہیں دی جارہی اور نہ ہی شہباز شریف استعفیٰ دینے کے لیے تیار ہیں جس کا کہ انہوں نے عوام سے وعدہ کیا تھا۔
اسی طرح نواز حکومت کا انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی بروقت تحقیقات نہ کرانے سے اس خدشے کو تقویت ملتی گئی کہ الیکشن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کرائی گئی ہے جبکہ ان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے اسمبلی کے فلور پر اعلان کیا ہے کہ ہر حلقے میں دھاندلی ہوئی ہے اور ساٹھ سے ستر ہزار ووٹ جعلی ڈالے گئے ہیں اور جب انگوٹھوں کی تصدیق کا وقت آیا تو نادرا کے چئیرمین کو برطرف کردیاجبکہ الیکشن ٹربیونلز نے درخواستوں کو سننا ہی گوارا نہ کیا۔
کسی بھی بحران سے سیاسی طور پر نمٹنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت درکار ہوتی ہے جبکہ نواز شریف و شہباز شریف ایسا کرنے کے لیے تیار نظر نہ آئے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ نواز شریف فوری طور پر پارلیمان میں موجود تمام جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی بناتے جو عمران خان اور طاہر القادری کے الزامات کی غیر جانبدارنہ تفتیش کی گارنٹی دیتے اور عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں عمران کے ساتھ کھڑا ہونے کا اعلان کرتے ۔ لیکن نواز شریف نے فیصلہ کرنے میں ناکام رہے اور جب کیا بھی تو وہ آرمی چیف کو ثالثی کے لیے بلا لائے۔*

No comments:

Post a Comment

Total Pageviews