July 01, 2014

عورتوں کے ساتھ ظلم اور زیادتی۔


عورتوں کے ساتھ ظلم  اور زیادتی۔
تم نے مجھے ہمیشہ کہا کہ ماںکا احترام کرو، مجھے کتابوں میں نصاب کی طرح پڑھاتے ہو کہ ماں کے پیروں تلے جنت ہوتی ہے۔ مجھے میرے ایمان کی حد تک یقین دلاتے ہو کہ اگر کسی نے دنیا میں عورت کو عزت دی ہے تو وہ صرف اسلام ہے ۔ تو پھر تم کیسی اسلامی جمہوریہ پاکستان ہو جہاں میری ماں کو روز پیروں تلے روند دیا جاتا ہے ۔ جہاں ہرگھنٹے میں اوسطً دو عورتیں ماں بننے کے عمل کے دوران اس دنیا کو چھوڑ کر چلی جاتی ہیں۔کیونکہ تم اسے بنیادی صحت کی سہولیات فراہم نہیں کر سکتے ۔کیوں میرے ذہنوں میں یہ عکس بناتے ہو کہ عورت ماں ، بہن اور بیٹی ہوتی ہے لیکن ہر محلے ، ہر قصبہ اور ہر شہر میں ہمارے ظلم کا نشانہ بنی ہوئی ہے ۔
نا جانے ہمیں شرم کیوں نہیں آتی ۔13 سال سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بربریت کی مثالیں قائم کر دی گئیں لیکن کوئی ہمیں یہ تو بتائیں کہ ہم نے اپنے گھروں میں مظلوموں کا گلا کس طرح دبایا ہے ۔مان لیا ہے ہم نے اور پوری دنیا نے کہ دہشت کی یہ آگ 60 ہزار جانوں کو نگل گئی۔ لیکن تم نے کبھی سوچا ہے کہ چپ قاتل اور خاموش مقتول کون ہے ؟ جس نے اس سے زیادہ جانیں نگل لی ۔حساب کتاب کی دکانیں کھولوں تو تماری اور میری آنکھیں کھلیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اوسط ہر سال پانچ ہزار سے زائد عورتیں گھریلو تشدد سے مر جاتی ہیں یعنی 13 سال میں 65 ہزار عورتیں ہم نے مار دی ۔ جو دہشت گردی میں مرنے والوں سے زیادہ ہے ۔ مگر کیڑے مکوڑے کی طرح ہمارے پیروں سے روند دی جانی والی مخلوق کا ہم ماتم کیوں کریں گے ؟
کیسے روندتے ہیں ؟ اگر میں کہوں تو یہاں90  فیصد کا یہ کہنا ہو گا کہ اُن سے اچھا باپ ،اُن سے اچھا بھائی ،اُن سے اچھا شوہر دنیا میں کوئی ہو ہی نہیں سکتا لیکن یہ سب مغرب کی سازش ہے ۔ جو ہمارے خلاف ہاتھ پائوں دھو کر پڑ گیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو مجھے تم ہی بتا دو۔اپنی مصروف زندگی سے دو پل نکال کر مجھے تھوڑا سا سُن لو ۔ دے دو میری باتوں کا جواب کہ شفا بی بی کا کیا قصور تھا ۔ جو اُس کے ساتھ ظلم کی انتہا کر دی گئی ۔ اُسے عبرت ناک تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پھر اُس کے سر کے سارے بال صاف کر دیے گئے ۔ اگر آپ کو سمجھ نہیں آرہا تو بتا دو کہ شفا بی بی کو گنجا کر دیا گیا۔
کون ہے یہ شفا بی بی ؟ایبٹ آباد کی 29 سالہ شفا بی بی نے اپنا سر اپنے والدین کی مرضی کے آگے جھکا دیا ۔ اپنی خواہشات کا گلا گھونٹ کر اپنے گھر والوں کی رضا مندی پرآصف کے ساتھ شادی کر لی ۔ ایبٹ آباد کی اس کہانی میں مجھے نہیں معلوم کہ آپ کی کتنی دلچسپی ہو گی ۔لیکن اگر یہ کہانی سمجھ آجائے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ہم مظلوم کا گلا کس طرح گھونٹتے ہیں ۔ شفا بی بی نے اپنا سب کچھ میر علی کے آصف کو سونپ دیا اور دو سالوں میں اُس کے یہاں دو بچے پیدا ہوئے ۔ آصف کو شفا بی بی سے بہت محبت تھی اور دو بچے دو سال میں پیدا بھی ہو گئے تھے اس لیے اس محبت کو مزید آگے بڑھانے کے لیے آصف نے دو سال بعد ہی ایک اور شادی کر لی ۔
ظاہر ہے اسلامی نظریاتی کونسل اب ہر گھر میں جھانک کرتو دیکھ نہیں سکتی تھی کہ کس مرد نے دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لی اس لیے انھوں نے اب یہ مسئلہ بھی حل کر دیا ہے ۔خیر شفا بی بی کی زندگی مشکل ہو گئی ۔آصف کا جھکائو اپنی دوسری بیوی کی طرف تھا ۔ آمدن کم تھی اور بچوں کو پالنا بھی ضروری تھا ۔ اس لیے گھر میں اکثر جھگڑا ہوتا ۔ ایک تو سوتن اور پھر آمدن کم ۔ آصف کیونکہ شفا سے محبت کرتا تھا اس لیے اُس کا مکمل جھکائو اپنی دوسری بیوی کی طرف تھا اور اسی وجہ سے اکثر شفا کو تشددکا نشانہ بننا پڑتا۔
ماں باپ نے منع کر دیا کہ دوسری شادی تو مرد کی حیثیت سے اُس کا حق ہے لیکن تم اپنے بچوں کے لیے اُس گھر کو مت چھوڑو ۔ ماں باپ کے گھر کا دروازہ عزت کی خاطر بند ہو چکا تھا اور شوہر کا گھر اُس کا اب نہیں رہا تھا ۔ شفا نے ہمت نہ ہاری اور گھر میں ہاتھ سے بنی ہوئی کچھ مصنوعات بنانا شروع کی تاکہ اس کو مارکیٹ میں بیچ کر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال سکے کیونکہ وہ اپنے شوہر سے مایوس ہو چکی تھی لیکن دو بچوں کو لے کر کہاں جاتی ؟
کپڑوں میں اپنے ہاتھوں کا لہو دے کر خوبصورت کڑھائی کر کے شفا اس خوشی میں بازار گئی کہ آج وہ اپنے بچوں کو پیٹ بھر کر کھانا کھلا سکے گی ۔وہ بازار سے خوش خوش لوٹی تو اُسے کیا معلوم تھا کہ ایک قیامت اُس کا انتظارکر رہی ہے گھر پر اُس کے خلاف سازش تیار تھی ،عورت ہی عورت کے خلاف اپنی بقا کے لیے کھڑی تھی ۔ آصف کی دوسری بیوی اور ماں نے اُس پر الزامات کی بارش کر دی ۔ اورپھر رہی سہی کسر آصف نے پوری کر دی اُسے بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ اور پھر اُسے کے سر کے سارے بال کاٹ کر گنجی کر دیا گیا ۔ مگر ابھی اپنی مردانگی کا ثبوت دینا باقی تھا ۔ اُسے طلاق دے دی گئی ۔
ہم مانتے ہی تو نہیں کہ یہ تشدد ہم کرتے ہیں عورت کے پاس کیا راستہ رہ جاتا ہے وہ اپنے بچوں کو لے کر کہاں جائے ہر لمحہ مرتی رہتی ہے ۔
نہ ماں باپ اُسے اپنے گھر میں جگہ دیتے ہیں اور نہ شوہر کے گھر کی وہ مالک بن پاتی ہیں ۔سو عورتوں پر تحقیق کی گئی جس میں سے 97 فیصد نے اقرار کیا کہ اُن پر کسی نہ کسی شکل میں گھر میں تشدد ہوتا ہے ۔ کہیں کھانا پکانے پر تو کہیں کپڑے دھونے پر کہیں بچوں کے رونے پر تو کہیں صفائی کے انتظام نہ ہونے پر لیکن آپ یہ سب کچھ نہیں کرتے ہونگے ۔ کیونکہ جب 100مردوں سے بات کی گئی تو سب نے کہا کہ اُن سے زیادہ شریف آدمی تو اس وقت کہیں بھی نہیں ہے انھوں نے تشدد تو دور کی بات کبھی اپنے گھر کی عورتوں کو غصے سے نہیں دیکھا ۔
لیکن ایک کڑوا سچ اور بھی تو سنتے جائیں ۔ یہ کہانی صرف ایبٹ آباد کی نہیں ہے ۔ گزشتہ دنوں نواب شاہ کے اسپتال میں ایک دن میں چھ لڑکیوں کو لایا گیا جنھوں نے خود کشی کی کوشش کی ۔ ان لڑکیوں کودادو، نوشہروفیروز اور سکرنڈ سے لایا گیا ۔ ان لڑکیوں کو کوئی شوق نہیں ہے کہ وہ خود سے موت کو گلے لگائیں۔ وہ کون سے ایسے حالات ہیں جس کی وجہ سے یہ لڑکیاں یہ اقدام اٹھانے پر مجبور ہوئیں ۔ پاکستان میں سرکاری اسپتالوں کے اعداد و شمار کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر خود کشی کرنے کی کوشش کرنے والوں کو لایا جاتا ہے جس میں سے اکثریت لڑکیوں کی ہوتی ہے …کیوں ؟ آپ کو تو نہیں معلوم ہو گا کیونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آپ اسلامی اصولوں پر مکمل طور پر عمل کرتے ہیں اور آپ تو کسی کو اتنا دکھی کرتے ہی نہیں ہے کہ آپ سے تنگ آکر کوئی خود کشی کی کوشش کرے ۔
جمیلہ کی ہی خود کشی دیکھ لیں ۔جمیلہ بھی تو ایک لڑکی تھی ۔اُسے لڑکیوں سے کیوں محبت نہیں ہو گئی ۔ساہیوال کی یہ معصوم کلی بھی خوشیوں بھری زندگی کی تلاش میں تھی ۔ہاتھ پیلے ہوئے تو لگا کہ اب زندگی کا ہر رنگ بدل جائے گا ۔ اور کچھ مہینوں میں ہی خبر آئی کہ وہ ماں بننے والی ہے ۔ کتنا پیارا احساس تھا ۔ ماں بننے کا ۔ لیکن جب اُس نے بیٹی کو جنم دیا تو لوگ اُسے کہنے لگے کہ بیٹا ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا۔
اگلے ہی سال ایک بار پھر اُس نے ایک پیاری سی بیٹی کو جنم دیا ۔ گھر میں بات بات پر اُسے طعنے ملنے لگے ۔ سب جانتے ہیں کہ بچے کی جنس کا تعلق عورت سے نہیں مرد سے ہوتا ہے لیکن کوئی اُس کے مرد کو الزام نہیں دیتا تھا ۔ اور جب گزشتہ دنوں ساہیوال کے ایک اسپتال میں اُس نے بچی کو جنم دیا تو اُس پر قیامت ڈھا دی گئی ۔ چوتھی بیٹی ۔ بیٹا کیوں نہیں ۔۔اور آپ کو معلوم ہے کہ اُس جمیلہ نے کیا کیا ۔۔؟ اُس نے زہر پی لیا …لیکن آپ افسوس مت کریں ،کیونکہ آپ کے یہاں تو ایسا ہوتا ہی نہیں ۔
(نوٹ:متاثرین کے تحفظ کی خاطر یہاں نام تبدیل کیے گئے ہیں )

No comments:

Post a Comment

Total Pageviews