ہم ارسطو ، گریک ٹریجڈیز اور دیگر اصطلاحات کو یہیں چھوڑتے ہُوئے آگے چلتے ہیں ۔ اِس میں ہم عِمران خان ، دیگر سیاست دانوں اور آرمی کو اپنی ذاتی پسند نا پسند سے اُوپر اُٹھ کر دیکھیں گے ۔
عِمران خان ٹریجڈی ہیروز کی ڈیفائینڈ اصطلاح پر اگر مکمل نہیں تو تقریباً فِٹ بیٹھتا ہے ۔ یہ وُہ بندہ تھا / ہے جِس نے اپنی نوجوانی سے لے کر آج تک عُروج ، شُہرت اور کامیابی دیکھی ہے ۔ دُنیا میں بُہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ایک مڈل کلاس یا اِس سے کم تر سطح سے شروع کر کے ہائیٹ اوو گلوری دیکھتے ہیں ۔ اِس میں آپ ایک بھی مِثال ایسی نہیں ڈُھونڈ سکتے جو سپورٹس کے اعلیٰ ترین معیار ، شخصی جاذبیت ، ( جِسے ہم کِرزما کہتے ہیں ) سمیت کامیابی اور شُہرت کی بُلند ترین حدود تک پُہنچا ہو اور سیاست میں بھی بُلند ترین مقام حاصِل کِیا ہو ۔ یہ تمام باتیں ، نصیب ، محنت ، میل جول یا دیگر تمام فیکٹرز آپ کو ایک ایسے اندازِ فِکر میں مُبتلا کر دیتے ہیں جہاں آپ خُود کو مسیحا کے درجے پر بِٹھا لیتے ہیں ، ایک مِنیچر گاڈ ۔ آپ اپنا محاسبہ نہیں کر سکتے ، آپ کو لگتا ہے کہ آپ نہیں تو کون ؟ اب نہیں تو کب ؟ یہ بالاخر آپ کی بربادی کا سبب بنتے ہیں ۔
عِمران خان پر بعد میں واپس آتے ہیں اور اگلے سیاسی سٹیک ہولڈرز کو دیکھتے ہیں ۔ اِس وقت سیاست میں خان کے عِلاوہ دو بڑے سیاسی فیکٹرز ہیں باقی اُن کے ساتھ یا اُن کے سائے میں ہیں ۔ اُنھیں ہم سپورٹنگ رولز یا معاون اداکار کہہ سکتے ہیں ۔ بڑی سیاسی قوتیں دو اور ہیں ، ایک شریف فیملی ، دُوسری بُھٹو / زرداری فیملی ۔ آپ بُھٹو صاحب سے شروع کریں کیونکہ شریف بعد میں آتے ہیں ۔ بُھٹو مُنہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہُوئے اور اپنے سیاسی کیرئیر میں ایوب خان سمیت یحییٰ خان کو دیکھا ، اُن کے نیچے اور ساتھ کام کِیا ۔ اِیسٹ پاکستان کے سانحہ کے بعد پہلے سِول چِیف مارشل لا ایڈمِنسٹریٹر بنے ۔ بچے ہُوئے مغربی پاکستان کو سنبھالا ، پاکستان کو تہتر کا آئین دِیا ۔ اُس وقت آرمی پچھلے قدموں پر تھی اور بُھٹو صاحب نے اِس کا سیاسی کِردار مزید محدود کرنے کی کوششیں بھی جاری رکھیں ۔ فوج نے ہی مذہبی ٹولے سمیت دیگر کو آگے لا کر بُھٹو صاحب کو پہلے اقتدار سے ہٹایا اور پھر اُنھیں پھانسی گھاٹ تک پُہنچایا ۔ بُھٹو صاحب ہماری سیاست کے ایک عظیم ٹریجک ہیرو ہیں اور وُہ آج بھی سیاست سے مائینس نہیں ہُوئے ۔
شریف فیملی کی سیاست کا جنم ضیا الحق صاحب کی آمریت کے دور میں بُنیادی طور پر پی پی پی کو کمزور کرنے کے لیے ہُوا ۔ ضیا الحق کی ہلاکت کے بعد میاں نواز شریف صاحب نے اُن کا مِشن جاری رکھنے کا عزم دوہرایا اور بارہا دوہرایا لیکن سیاسی منظر پر اب ایک طاقتور حریف بینظیر بُھٹو بھی موجود تھیں ۔ پدرسری معاشرے کی سوچ کے عین مُطابق وُہ اِبتدائی طور پر کِسی کو قبول نہیں تھیں بالخصوص اسٹیبلیشمینٹ کو ؛ جِن کے ہاتھ جو اُن کے باپ کے ناحق خُون سے رنگے تھے ؛ وُہ اِن کے ساتھ کمفٹیبل نہیں تھے ۔ میوزیکل چیئرز کا کھیل جاری رہا اور بالاخر فوج خُود وردی جُوتوں سمیت حکومت میں آگے آگئی ۔
میاں صاحب اور بی بی دونوں سیاست اور وطن سے دُوری پر مجبور ہُوئے لیکن یہ سمجھ گئے کہ سیاست دانوں کو آپس میں لڑ مرنا نہیں ہے بلکہ مِل کر کام کرنا ہے ۔ میثاقِ جمہوریت تو ہُوا لیکن بی بی ایک المناک حادثے اور سازش کا شِکار ہو کر ابدی نیند سو گئیں اور پارٹی کی باگیں جناب زرداری صاحب کے ہاتھ میں آگئیں یعنی بِلی کے بھاگوں چھینکا ٹُوٹا ۔
اِس دوران ایک نیا سیاسی کِردار یعنی عِمران خان بھی اب منظر پر لایا گیا تھا کیونکہ اسٹیبلشمینٹ کو تیسری قوت کے نام پر اپنا ہتھوڑا مضبوط رکھنا تھا ۔ یہاں سے جو ہُوا وُہ سب بالکل حالیہ برسوں کی بات ہے ۔
بات جو ہمارے شہریوں کو سمجھ نہیں آتی کہ جِن کی نوجوانی بُھٹو صاحب اور میاں نواز شریف صاحب کے سیاسی عروج کے دِنوں کی ہے وُہ اُن کے عِشق میں میں ہیں اور جو نوجوان ابھی اِن سالوں میں بڑے ہُوئے ہیں وُہ خان صاحب کی “ کرشماتی شخصیت “ کے “ مقدس “ ہالے میں گرفتار ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ سب گھڑے گئے بیانیے میں پھنسے ہیں ۔ بینظیر ایک میچور لِیڈر تو تھیں لیکن نوے کی دہائی میں وُہ بھی ٹی وی پر کاشمیر کاشمیر نامی فِلم کا پرچار کِیا کرتی تھیں اور بھارت دُشمنی کا فوجی بیانیہ بھی خُوب بولا کرتی تھیں ۔
ہمارا آخری اور سب سے اہم سٹیک ہولڈر فوجی اسٹیبلشمینٹ ہے ۔ یہ خُود کو اوّل روز سے پاکستان میں طاقتور دیکھتے اور پاتے ہیں ۔ اِن کے ظاہر ہے پاکستان میں ویسٹیڈ اِنٹرسٹس ہیں ۔ اِس میں کوئی دُوسری رائے نہیں کہ آرمی کی اپنی ایک بڑی اہمیت ہے اور پاکستان جیسے تیسری دُنیا کے ممالک میں افواج ہمیشہ طاقتور ہوتی ہیں لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ افواج کے سیاسی انٹرسٹس نہیں ہونے چاہئیے ۔ جہاں اور جِس مُلک میں فوج طاقت اور حکومت کے ایوانوں میں موجود ہے اُس کا حال خراب ہے ۔ کیا میاں صاحبان اپنی فیملی سیاست سے باہر آ کر یہ سمجھنے کو تیار ہیں ؟ کیا زرداری این بلاول یہ مانیں گے کہ آخرکار پاکستان کی بچت کا واحد راستہ شاہراہِ دستور ( و جمہوریت ) سے گُزرتا ہے نہ کہ جی ایچ کیو سے ؟ یہ عِمران خان صاحب کو جانے کب سمجھ آئے گی کہ سیاستدانوں سے بات کرنا ہی اصل راستہ ہے ۔ سیاستدان عوامی لوگ ہوتے ہیں ، اُنھیں عوام میں جانا ہوتا ہے ، جواب دینا ہوتا ہے جبکہ فوجی اذہان کُچھ اور طرح سے سوچتے ہیں اور ویسے بھی اُن کی سروس ختم تو وُہ منظر سے غائب ۔
ابھی اِس بات کو یہیں ختم کرتے ہیں اور اگلی باری یہ دیکھتے ہیں کہ اِس کے بعد کا سیاسی منظر کیا ہوگا کیونکہ یہ تو طے ہے کہ اب یہ بندوبست ایسے نہیں چل سکتا ۔ نہ سیاستدانوں کو اب کُھڈے لائین لگایا جا سکتا ہے اور نہ کوئی سرکاری افسر اپنی اندھی طاقت کا استعمال مسلسل جاری رکھ سکتا ہے ۔ اِس کو کہیں تو اب رُکنا ہے ۔ کب اور کہاں یہ آگے ڈسکس کرتے ہیں ۔
میں اب مسلسل ایک لائین ایڈ کرنے پر مجبور ہو رہا ہُوں اور وُہ یہ کہ سیاسی پسند نا پسند اور کِسی ایک سیاستدان کی محبت یا نفرت کو جو بندہ سائیڈ پر رکھ کر بات نہیں کر پا رہا اُسے سنجیدہ لینا چھوڑ دیں کیونکہ تعصب اور محبت دونوں ہی آپ کی چشم کو متاثر کرتے ہیں ۔
Haroon Malik.
https://www.facebook.com/keatsmano?__cft__[0]=AZWcIIoMScwd6lfWHks0RfB43-hi3tDnqwNXhCm2AFWaYeB02RIv2gxfuRCHVFS74PQAdloCjPa9zDjLLyGa7Y-5V-gsoZQ2VLgy5vudZwoObt1he7jhRP8KhItnIKHSeRftiWime7QGiOJPqmB6xUzBdW9iDXOFInZoOBkX-GQdp5GRmjQTRi1AEG08EEE4fGU&__tn__=-UC%2CP-R
No comments:
Post a Comment