یہ آگ صرف ریکارڈ کیوں جلاتی ہے؟
آصف محمود
مبارک ہو ، اسلام آباد کے نئے ایئر پورٹ پر بھی آگ لگ گئی ۔ آ گ میں نجی فضائی کمپنیوں کا ریکارڈ جل گیا ۔ جی ہاں وہی نجی فضائی کمپنیاں جن کے مالکان کو سپریم کورٹ نے طلب کیا تھا ۔ آپ تجربہ کار حکمرانوں کے بابرکت عہد میں بھڑکنے والی اس آگ کے کمالات دیکھیے جس معاملے پر تفتیش شروع ہوتی ہے یہ وہاں جا کر بھڑک اٹھتی ہے اور سارا ریکارڈ جلا دیتی ہے ۔
ندی پور پراجیکٹ کو دیکھ لیجیے۔ بڑا شور تھا اس پراجیکٹ کا ۔ اس پراجیکٹ پر 58 بلین کی لاگت آئی ۔ اتنی بھاری رقم برباد کر کے اس سے جو بجلی پیدا ہوئی اس کی قیمت 42 روپے فی یونٹ تھی ۔ یہ اب تک کی پیدا کی جانی والی مہنگی ترین بجلی تھی ۔
شہباز شریف نے اس پراجیکٹ میں اپنے کمالات دکھانا شروع کر دیے ۔ ایم ڈی کی پوسٹ ہی نہیں تھی وزیر اعلی نے یہ پوسٹ نکال لی ۔ یہی نہیں مرضی کے ایک گریڈ انیس کے افسر کو ایم ڈی تعینات کر دیا ۔ یہ افسر پارکس ہارٹیکلچر میں کام کر رہے تھے اور انہیں متعلقہ شعبے کا کوئی تجربہ نہ تھا ۔ بس خادم اعلی کے چہیتے تھے اس لیے منصب عطا فرما دیا گیا ۔ لاڈلے ایم ڈی کو تعریفی سرٹیفیکیٹ کے ساتھ ساتھ 1600 فیصد اضافی الاؤنس ( جی ہاں صرف 1600فیصد) بھی عطا فرما دیا گیا ۔ ایم ڈی نے خوب مزے کیے۔ ٹیکنیکل سٹاف کو کسی سے پوچھا تک نہیں لیکن ایم ڈی نے ٹریننگ کے نام پر امریکہ یاترا بھی کر لی ۔ نیپرا قوانین پامال کر دیے گئے ۔ ناقص فرنس آئل اورغلط پالیسیوں سے پراجیکٹ کا بیڑہ غرق ہو گیا اور یہ چالو ہونے کے پانچویں ہی روز بند ہو گیا ۔ بہت شور مچا ۔ چنانچہ مجبوری کے عالم میں تحقیقات شروع ہو گئیں۔
حکمرانوں کے پاس بچنے کا اب ایک ہی راستہ تھا ۔ آگ ۔ چنانچہ جہاں کروڑوں کے غبن اور کرپشن کا ریکارڈ پڑا تھا وہاں آگ لگا دی گئی ۔ کہا گیا چند نامعلوم لوگ آئے اور آگ لگا کر چلے گئے۔ خریدوفروخت کا تمام کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ بھی ڈیلیٹ کر دیا گیا ۔ گارڈ گرفتارر ہوا اس نے تسلیم کیا آگ سی ای او کے حکم پر لگائی گئی ۔ طویل چپ کے بعد ایک روز خواجہ آصف نے فرمایا تحقیقات ہوں گی اور مجرموں تک پہنچا جائے گا ۔ آج تک مگر کچھ سامنے نہیں آ سکا ۔ اب تو ڈر لگتا ہے یہ سوال اٹھایا جائے تو کہیں جمہوریت کو ڈینگی ہی نہ ہو جائے۔
لاہور میں میٹرو بنی ۔ کرپشن کی ہوشربا کہانیاں سامنے آنے لگیں ۔ آ ڈیٹر جنرل نے 2 بلین کی ناجائز اور غیر قانونی ادائیگیوں کی بات کر دی ۔ پنجاب اسمبلی میں شور اٹھ کھڑا ہوا ۔ نیب سے تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ۔ نیب نے ریکارڈ طلب کر لیا ۔ اب قریب تھا کہ نامہ اعمال کھل کر سامنے آجائے چنانچہ جمہوریت کے وسیع تر مفاد میں ایک بار آگ سامنے آئی ۔ آگ نے نعرہ لگایا ’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ اور ایل ڈی کے اس کمرے میں جا گھسی جس میں میٹرو کا ریکارڈ پڑا تھا ۔ یہ جمہوریت ہی کی برکات تھیں کہ آگ بھی اتنی سیانی ہو چکی تھی ۔ تب سے اب تک نیب سر پکڑ کر بیٹھی ہے کہ جن تجربہ کاروں کی آگ اتنی قابل ہے ان تجربہ کاروں کی اپنی فنکاریوں کا عالم کیا ہو گا۔پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر نے سر پیٹ لیا کہ اس با کمال آگ نے صرف میٹرو کا ریکارڈ ہی نہیں جلایا اس نے دانش سکول میں ہونے والی 750ملین کی کرپشن ، لیپ ٹاپ سکیم میں 70 ملین کی کرپشن اور سستی روٹی تنور میں 30 بلین کی مبینہ کرپشن سے متعلقہ ریکارڈ کو بھی جلا دیا ہے ۔ ڈاکیے کی طرح یہ آگ سیدھی اس کمرے میں گئی جہاں یہ ریکارڈ رکھا تھا۔
2013 کے انتخابات کی شفافیت پر جو طوفان اٹھا اس سے ہم آگاہ ہیں ۔ الیکشن کمیشن نے سنٹرل ماڈل سکول لاہور میں کچھ اہم ریکارڈ رکھا ہوا تھا ۔ ایک روز یہ تجربہ کار آگ وہاں بھی پہنچ گئے اور پورے سکول میں صرف اس کمرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جہاں یہ ریکارڈ پرا ہوا تھا۔
ستمبر 2017 میں اس تجربہ کار آگ نے اسلام آباد کا رخ کیا ۔ یہ لہراتی بل کھاتی سیدھی عوامی مرکز جا پہنچی ۔ یہ اتنی نظریاتی آگ تھی کہ اس اس سارے مرکز کی بھول بھلیاں بھی اسی راستے سے بھٹکا نہ سکیں ۔ یہاں چار درجن کے قریب اداروں اور نجی کمپنیوں کے دفاتر موجود ہیں لیکن آگ نے ان میں کسی کو چھوا تک نہیں ۔ یہ سیدھی وفاقی ٹیکس محتسب کے دفتر پہنچی اور سب کچھ جلا کر بھسم کر دیا ۔ وفاقی محتسب کے دفتر میں کیا کچھ نہیں پڑا ہو گا ۔ کس کس کا نامہ اعمال وہاں ہو گا ؟ کیا معلوم کتنے ہی اہم لوگوں کے کیسز کا ریکارڈ وہاں موجود ہو ۔ آگ آخر اتنی کثیر المنزلہ عمارت میں اتنے زیادہ دفاتر چھوڑ کر سیدھی وفاقی محتسب کے دفتر کو جلاتی ہے تو اس کی کچھ وجہ تو ہو گی۔
اب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پنجاب میں تجربہ بیلے ڈانس کر رہا ہو اور سندھ پیچھے رہ جائے ۔ چنانچہ اب سندھ سیکرٹریٹ میں بھی آگ لگ جاتی ہے۔ جس کے شعلے پکار پکار کر اعلان کرتے ہیں کہ بھٹو زندہ ہے ۔ کیوں نہ صدر مملکت جناب قبلہ ممنون حسین صاحب سے درخواست کی جائے کہ عالی جاہ اس آگ کو بھی ایک عدد صدارتی تمغہ حسن کارکردگی عطا فرما کر ممنون فرمائیں ۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان سے بھی درخواست کی جا سکتی ہے کہ حکمران لیگ کو آئندہ انتخابات میں انتخابی نشان کے طور پر ’’ آگ‘‘ الاٹ کی جائے۔ یہ تجربہ کاروں کے تجربے کے اعتراف میں ایک حقیر سا خراج عقیدت ہو گا۔
پی آئی اے کو زرداری حکومت نے بھی مال غنیمت ہی سمجھا لیکن جب سے ایئر بلیو کا مالک پاکستان کا وزیر اعظم بنا ہے تب سے تو لہک لہک کر اور مچل مچل کر قوم کو بتایا جا تا ہے کہ پی آئی اے کا تو بیڑا غرق ہو چکا ہے ۔ اس کی تو نجکاری کرنا پڑے گی ۔ ساتھ ہی چہروں پر مصنوعی سنجیدگی طاری کر کے فرمایا جاتا ہے اب معلوم نہیں کوئی اس کو خریدے گا بھی کہ نہیں ۔ مفتاح اسماعیل کی نا معلوم خدمات پر انہیں وزیر خزانہ بنایا گیا ہے۔ ایک روز کہنے لگے جو پی آئی اے خریدے گا اسے سٹیل مل مفت میں دیں گے۔ مفتاح نے یہ مُفتا کیا یہ سوچ کر آفر کیا کہ جو بیچ رہے ہیں وہی تو بھیس بدل کر خریدنے والے بھی ہوں گے اس لیے لوٹ سیل لگا کر ’’ ووٹ‘‘ کو عزت دی جائے۔
ایسے ارشادات بلا وجہ نہیں ادا ہوتے۔ کیا جان بوجھ کر پی آئی اے کی ساکھ تباہ کی گئی تا کہ نجکاری کے موقع پر کوئی سنجیدہ بولی دینے آئے ہی نہیں اور یہ ادارہ گھوسٹ بڈ کے ذریعے ہتھیا لیا جائے۔ یہ عجب حکومت ہے جو ایک چیز کی نجکاری کا منصوبہ دے رہی ہے لیکن اس کی اچھی قیمت وصول کرنے کی کوشش کرنے کی بجائے خودہی کہے جا رہی ہے پتا نہیں اب اسے کوئی لیتا بھی ہے یا نہیں ۔ایسا تاجر کبھی مارکیٹ میں نظر آ جائے تو لوگ اسے پکڑ کر کسی نفسیاتی ہسپتال چھوڑ آئیں ۔ یہاں ایسے لوگوں کے ہاتھ زمام اقتدار ہے۔ قریب تھا کہ ایئر بلیو کے مالک کے دور حکومت میں پی آئی اے کا سوا ستیا ناس ہو جاتا لیکن چیف جسٹس نے نوٹس لے لیا اور نجی ایئر لائنز کے مالکان بشمول وزیر اعظم کو طلب کر لیا۔
No comments:
Post a Comment