July 20, 2022

KHYBER PASS

 

درّہ خیبر: جہاں سکندرِ اعظم سے لے کر انگریزوں تک، سب کے غرور خاک میں مل گئے

  • محمود جان بابر
  • صحافی
خیبر، آفریدی، پاکستان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

بچپن سے جادو والی کہانیوں میں ایسے بہت سے مقامات کے قصے سنتے آئے ہیں جہاں سے ایک قدم آگے جانے والا یا تو فنا ہوجاتا یا پیچھے دیکھنے والا پتھر کا بت بن جاتا تھا۔

ایسے ہی حقیقی دنیا میں اگر کسی علاقے کو یہ مقام حاصل ہوسکا ہے تو وہ ہے پاکستان کے اندر افغانستان کی سرحد سے متصل درّہ خیبر، جہاں سے افغانستان جانے اور وہاں سے یہاں آنے والوں کو راستے کے حصول کے لیے یہاں پر آباد آفریدی قبائل کو خراج دینا پڑا اور دنیا کو فتح کرنے والے بڑے بڑے فاتحین کو بھی یہاں سر جھکانا پڑا۔

تقریباً تمام مؤرخین نے آفریدی قبائل کو وہ بلائیں لکھا ہے جو جنگ سے محبت کرتے ہیں اور یہی محبت ان کے دشمن کی بدترین شکستوں کا باعث بنتی رہی۔

غیر ملکی اور مقامی لکھاری اس بات پر متفق ہیں کہ جتنے زیادہ حملے درّہ خیبر پر ہوئے اتنے شاید ہی دنیا کے کسی شاہراہ یا گزر گاہ پر ہوئے ہوں گے۔

دنیا کا یہ مشہور درّہ خیبر پشاور سے 11 میل کے فاصلے پر یہاں بنے تاریخی دروازے باب خیبر سے شروع ہوتا ہے اور یہاں سے اندازاً 24 میل یعنی طورخم کے مقام پر پاک افغان سرحد پر ختم ہوتا ہے جہاں سے لوگ ڈیورنڈ لائن عبور کر کے افغانستان میں داخل ہوتے ہیں۔

باب خیبر اور طورخم کے بیچ کا یہ علاقہ یہاں کسی بھی بری نیت سے آنے والے کے لیے خطروں سے اتنا بھرپور ہے جس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی، یہی وجہ ہے کہ دنیا اور اس خطے میں فاتح کہلانے والا کوئی حکمران اس درّے اور اس کے مکینوں کو قابو نہیں کر سکا۔

خیبر، آفریدی، پاکستان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

انگریز سپاہی 1908 میں علی مسجد قلعے کے مقام پر

درّہ خیبر کا جغرافیہ اور جنگی حیثیت

اس راستے کے دونوں طرف تقریباً ڈیڑھ ہزار فٹ اونچی پہاڑی چٹانیں اور ان کے بیچ ناقابل دریافت غار واقع ہیں۔ یہ درّہ یہاں کے لوگوں کے لیے جنگی لحاظ سے ایک ایسا قدرتی حصار ہے جسے دنیا کے کسی جنگی ہتھیار سے فتح نہیں کیا جا سکتا۔

اس کا سب سے خطرناک حصہ تاریخی علی مسجد کا مقام ہے جہاں پر یہ درّہ اتنا تنگ ہوجاتا ہے کہ اس کی چوڑائی صرف چند میٹر رہ جاتی ہے اور یہی وہ جگہ ہے جہاں کی پہاڑی چوٹیوں پر چھپے چند قبائل بھی سینکڑوں فٹ نیچے راستے سے گزرنے والے ہزاروں فوجیوں کے لیے قیامت بپا کرتے تھے اور اُنھیں زچ کرکے پسپا ہونے پر مجبور کر دیتے تھے۔ یہاں تک کہ اُنھیں لاشیں اٹھانے کے لیے بھی ان قبائل کی بات ماننی پڑتی تھی۔

’موت کی وادی کا دروازہ‘

پشاور شہر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تحصیل جمرود میں بنے اس دروازے کو اگر دشمن کے لیے موت کی وادی کا دروازہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔

اس دروازے سے ہی پورے درّہ خیبر کی اہمیت اجاگر ہو جاتی ہے۔ سابق صدر پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور حکومت میں یہ دروازہ بنایا گیا۔ جون 1963 میں مکمل ہونے والے اس دروازے کی تعمیر اس وقت کے کیمبل پور اور آج کے اٹک کے دو مستریوں گاما مستری اور اُن کے بھتیجے صادق مستری نے کی۔

یہ تعمیر تقریباً دو سال میں مکمل ہوئی۔ اس دروازے پر مختلف تختیوں پر ان حکمرانوں اورحملہ آوروں کے نام نصب ہیں جنھوں نے اس راستے کو استعمال کیا۔

اس دروازے کے قریب بحری جہاز نما قلعہ سکھ جرنیل ہری سنگھ نلوہ نے تعمیر کروایا تھا تاکہ درہ خیبر پر نظر رکھنے کے لیے فوجی یہاں رکھے جا سکیں۔

اس علاقے کی زیادہ تر آبادی آفریدی قبیلے کی ذیلی شاخ کوکی خیل سے تعلق رکھتی ہے۔

خیبر، آفریدی، پاکستان

،تصویر کا ذریعہGSinclair Archive

،تصویر کا کیپشن

سنہ 1878 میں ایک برطانوی جریدے میں شائع ہونے والی پینٹنگ جس میں خیبر پاس کے آفریدی قبائل کے ایک جرگے کا منظر دکھایا گیا ہے

سکندرِ اعظم کی پسپائی

پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

پروفیسرڈاکٹر اسلم تاثیرآفریدی خیبر سے متصل ضلع اورکزئی میں گورنمنٹ ڈگری کالج غلجو کے پرنسپل ہیں اور یہاں کی تاریخ پر اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ایران کو فتح کرنے کے بعد پختونوں کے صوبے گندھارا کا قصد کرنے والے سکندرِ اعظم کی فوجوں کو اسی درّہ خیبر پر سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور پھر اُنھیں اپنی ماں کی ہدایت پر راستہ بدلنا پڑا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ آفریدی قبائل کی اس سخت مزاحمت کی وجوہات جاننے کے لیے سکندرِ اعظم کی ماں نے اُنھیں ہدایت کی کہ اس علاقے کے چند مکینوں کو دعوت پر اس کے پاس بھیجا جائے۔

آفریدی قبائل کے یہ سردار سکندرِ اعظم کی ماں کے ساتھ بات چیت میں مصروف تھے جہاں پر اُنھوں نے ان سے سوال کیا کہ آپ میں سے سردار کون ہے۔

اس پر ہر کسی نے اس بات کا دعویٰ کیا کہ وہی سردار ہے اور یہ سب آپس میں الجھ پڑے۔ یہیں پر سکندرِ اعظم کی ماں کو احساس ہو گیا کہ یہ لوگ جب اپنوں میں سے کسی کو خود سے بڑا ماننے کو تیار نہیں تو وہ سکندرِ اعظم کو کیا مانیں گے۔

ماں نے بیٹے کو نصیحت کی کہ وہ ہندوستان جانے کے لیے درّہ خیبر کے راستے کا خیال دل سے نکال لے، یوں سکندرِ اعظم کو اپنا راستہ بدلنا پڑا اور وہ باجوڑ کے راستے اپنی منزل کی طرف چلے۔

سکندرِ اعظم کے آج کے پاکستان کے علاقوں میں داخلے کے حوالے سے سابق انگریز گورنر سر اولف کیرو نے اپنی کتاب ’پٹھان‘ میں لکھا ہے کہ سکندر پشاور میں داخل نہیں ہوسکا اور اس نے جو دریا عبور کیے وہ کوس یوسپلا اورگوریس تھے جن کے درمیان ایک پہاڑی چشمہ واقع تھا جو صرف کونٹر یعنی پنج کوڑہ کا بالائی حصہ ہوسکتا ہے جہاں سے آج کل ڈیورنڈ لائن گزرتی ہے اور اس نے آج کے باجوڑ کے ایری گایوں کے مقام نواگئی کا راستہ اختیار کیا۔

خیبر، آفریدی، پاکستان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ستمبر 1996 میں لیڈی ڈیانا درّہ خیبر کے دورے کے موقعے پر مہمانوں کی کتاب میں تاثرات درج کر رہی ہیں

بدھ مت کے بڑے آثار

معروف صحافی اللہ بخش یوسفی اپنی مشہور کتاب تاریخ آفریدی میں لکھتے ہیں کہ درّہ خیبر کے علاقے میں بڑی تعداد میں بدھ مت سے متعلق بہت زیادہ آثارِ قدیمہ نمودار ہوئے تاہم اپنے اعتقادات کی بدولت پختون ان مورتیوں کے خلاف تھے اور اُنھیں توڑ دیا کرتے تھے۔

اسی علاقے میں لنڈی خانہ کے قریب ایک پہاڑ پر عہد قدیم کی ایک قلعہ نما عمارت ہے جسے یہاں کےآفریدی ’کافر کوٹ‘ کے نام سے جانتے ہیں۔

اللہ بخش یوسفی لکھتے ہیں کہ سطان محمود غزنوی نے ہندوستان پر حملوں میں پختونوں سے دشمنی مول لینے کے بجائے ان پر اعتماد کیا اور اُنھیں اپنا فخر کہہ کر متعارف کرواتے۔

جن سرداروں نے محمود غزنوی کے ساتھ جنگوں میں حصہ لیا ان میں ملک خانو، ملک عامو، ملک داور، ملک یحییٰ، ملک محمود، ملک عارف، ملک غازی، ملک شاہد اور ملک احمد وغیرہ شامل ہیں۔ محمود غزنوی نے سومنات کو فتح کیا تو پختون بے جگری سے لڑے اور اس طرز لڑائی نے اُنھیں پختونوں کو خان کا نام دینے پر مجبور کیا اور کہا کہ صرف پختون ہی خان کہلانے کے لائق ہیں۔

مؤرخین لکھتے ہیں کہ ہندوستان فتح کرنے کی خواہش میں جب ظہیرالدین بابر اپنی طاقت کے بھروسے پر خیبر کی طرف چلے تو آفریدی اُن کے راستے میں لوہے کی دیوار بن گئے اور بابر کو یہ سمجھ آ گئی کہ طاقت کے بل پر وہ درّہ خیبر کو عبور نہیں کر سکتے اور اگر ایسا ہووبھی گیا تو اُنھیں افغانستان کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے ہمیشہ اپنے عقب کے غیر محفوظ ہونے کی فکر لاحق رہے گی۔

لہٰذا اپنے آپ کو مضبوط کرنے کے بعد اُنھوں نے ایک بار پھر 1519 میں دوبارہ خیبر کو فتح کرنے کی ٹھانی۔ ظہیرالدین بابر کو سخت لڑائی کے بعد صرف ایک رات علی مسجد میں گذارنے کا موقع مل سکا۔ وہ جمرود تو پہنچ گئے لیکن اُنھیں خیال آیا کہ اگر وہ پنجاب جاتے ہیں تو ایسا نہ ہو کہ واپسی پر یہ قبائل اُن کی راہ کاٹ لیں۔

خیبر، آفریدی، پاکستان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

درّہ خیبر اس راستے سے گزرنے والے ہر حملہ آور کے لیے ایک مشکل خطہ رہا ہے

سکھ حکومت

سکھ حکمران رنجیت سنگھ کو یقین تھا کہ پختونوں پر اقتدار قائم رکھنے کے لیے کسی مضبوط ہاتھ کی ضرورت تھی، اس لیے سکھوں کے مشہورترین انتظامی جرنیل ہری سنگھ نلوہ کو بھاری لشکر کے ساتھ پشاور کا انتظامی افسر مقرر کیا گیا۔

ہری سنگھ نے پختونوں کو تو پریشان کیا تاہم وہ قبائلیوں کا کچھ نہ بگاڑ سکے اور ان قبائل کے اقدامات کی بدولت خود رنجیت سنگھ پر ان کی دہشت طاری ہوگئی۔

اسی دہشت کا اثر تھا کہ ان قبائلیوں کے حملوں سے بچنے کے لیے ہری سنگھ نلوہ نے باب خیبر کے مقام یعنی درہ خیبر کے دہانے پر قلعہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا اور 1836 میں اس پر کام کا آغاز ہوا۔

یہ بھی پڑھیے

یوں تو سکھوں نے یہ قلعہ قبائل کے حملوں سے بچنے کے لیے بنایا تھا تاہم افغانستان کے امیر دوست محمد خان نے اسے اپنے خلاف عزائم کا نشان سمجھا اور سکھ فوجوں پر حملہ آور ہوگئے جہاں پر ہری سنگھ نلوہ مارے گئے۔

انگریز سرکار سے مواجب کا حصول

انگریز سکھ لشکر کے افغانستان میں قیام کے وقت یہ ضروری تھا کہ ان کے پیچھے واپسی کا راستہ یعنی درہ خیبر کھلا رہے لیکن یہ آفریدی قبائل کو مواجب یعنی معاوضہ دیے بغیر ممکن نہ تھا۔

انگریزوں کو بھی پتہ تھا کہ آفریدیوں کو مواجب نہ ملا تو وہ خود بھی سکون سے نہ رہ سکیں گے، چنانچہ اُنھیں درّہ خیبر میں سکون رکھنے کے لیے آفریدیوں کو سالانہ ایک لاکھ 25 ہزار روپے مواجب دینا پڑا۔

خیبر، آفریدی، پاکستان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

سنہ 1878 میں انگریز درّہ خیبر میں جمرود قلعے کے مقام پر

افغانستان میں دو سال تک قیام کے بعد جب انگریزوں کو شکست ہوئی تو وہ اپنی حلیف فوج یعنی سکھوں کو لے کر واپس روانہ ہوئے تاہم درّہ خیبر کے اندر آفریدی قبائل نے اُن کے ساتھ ایسا سلوک کیا کہ اُن کے چودہ طبق روشن ہوگئے۔

درّہ خیبر کے اندر علی مسجد کے مقام پر انگریزوں کی توپیں اور بندوقیں سب کچھ آفریدی قبائل نے چھین لیا۔

ان آفریدی قبائل کے ساتھ معاہدوں کی رو سے ان قبائل کو تحفظِ راہ اور قیام امن وغیرہ کے لیے یہ رقوم دی جاتی ہیں جسے مقامی زبان میں مواجب کہتے ہیں۔

یہ رقوم سال میں دو بار ادا کی جاتی ہیں اور اسے وصول کرنے والا فخر محسوس کرتا ہے۔ ایسے قبائلی ملک اور عمائدین بھی ہیں جو ان قبائلی علاقوں سے دور رہتے ہیں اور اکثر اوقات اُنھیں اپنے حصے کے مواجب کے چند روپوں کو لینے کے لیے ہزاروں روپے خرچہ کرنا پڑتا ہے تاہم وہ اس خراج سے دستبردار نہیں ہوتے۔

حکومتیں ان قبائلی عمائدین کو احترام کے طور پر لنگی (دستار) کے نام سے بھی رقم ادا کرتی ہے۔

آفریدی کب سے یہاں ہیں؟

پروفیسر ڈاکٹر اسلم تاثیر آفریدی کہتے ہیں کہ ان آفریدیوں کی اس علاقے جمرود سے لے کر تیراہ اور چورہ تک موجودگی اور ان کے لیے جلال آباد سے پاکستان کے موجودہ شہر مردان تک ایک پختون ریاست بھی قائم کی گئی تھی جس کے بنانے والے بایزید انصاری یا پیر روخان تھے اور اس میں وزیرستان کے علاقے بھی شامل تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ہندوستان کی زراعت اور سرسبز و شادابی ہی کی وجہ سے اسے سونے کی چڑیا سمجھا جاتا تھا اور اس لیے فاتحین نے ہمیشہ اس پر قبضہ کرکے اسے زیرِ نگیں کرنا چاہا اور ان فاتحین نے گندھارا یعنی پختونوں کے صوبے کا راستہ اختیار کیا جہاں پر درّہ خیبر ان کے راستے کی سب سے بڑی دیوار بنا۔

خیبر، آفریدی، پاکستان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

سنہ 1879 میں ایک برطانوی جریدے میں شائع ہونے والا خاکہ جس میں علی مسجد کی چوٹی سے درّہ خیبر کا نظارہ دکھایا گیا ہے

وہ کہتے ہیں کہ باب خیبر کے ارد گرد کے علاقے میں قریبا 29 لڑائیاں خود ارد گرد کے مختلف قبائل کے مابین لڑی گئیں جس میں سکھوں، انگریز اور خود قبائل کے بیچ یہ جنگیں ہوئیں۔

آفریدی قبائل کی یوں تو اور بھی کئی شاخیں ہیں لیکن ہر شاخ الگ الگ علاقے میں آباد ہے۔ ان کی سب سے بڑی شاخ کوکی خیل باب خیبر سے لے کر درّہ خیبر اور پھر تیراہ کے بڑے علاقے میں آباد ہے۔

اس قبیلے کے ملک عطااللہ جان کوکی خیل کے بھتیجے اکرام اللہ کوکی خیل کا کہنا ہے کہ جمرود کا کنٹرول لینے کے لیے ان کے قبیلے کی مدد تہکال کے ارباب سرفراز خان نے کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ جہاں دنیا کے ہر حصے سے آنے والے جنگجوؤں نے اس علاقے کو فتح کرنا چاہا، وہیں پر اس علاقے میں اپنے قبائل کے مابین بھی اقتدار اور زمین کے لیے رسّہ کشی جاری رہی جس میں دشمنوں کے علاوہ اپنوں نے بھی کردار ادا کیا۔

تاہم وہ کہتے ہیں کہ اب کافی عرصے سے علاقے میں امن ہے اور تمام قبائل اپنی اپنی حدود میں پُرامن زندگی گزار رہے ہیں۔

July 15, 2022

مسلسل محنت کا پھل ELLON MUSK

 

 

ایلون مسک کی کامیابی کی دلچسپ کہانی

ایلو ن مسک آج دنیا کے امیر ترین انسانوں کی فہرست میں پہلے نمبر پر براجمان ہیں۔ انہوں نے جب اپنے بھائی کے ساتھ مل کر اپنی پہلی کمپنی کا آغاز کیا تو کام کرنے کی جگہ کیلئے کوئی بڑا اپارٹمنٹ رینٹ پر نہیں لیا، بلکہ ایک چھوٹے سے کمرے کو کرائے پر لے کر اُسے اپنا آفس بنا لیا۔ اُس زمانے میں ایلون مسک کے پاس باقاعدہ ایک آفس لینے کے لیے بھی پیسے نہیں تھے۔اِن کے پاس اپنی خوراک، اپنے لباس اور دیگر چیزوں کے اخراجات کو برداشت کرنے کے لیے کیونکہ رقم موجود نہیں تھی، اس لیے وہ YMCA جو غریب اور متوسط لوگوں کو مفت میں خوراک اور رہائش مہیا کرنے کیلئے ایک این جی او کی طرح کام کرتا ہے، وہاں جا کر اپنی ضرورت کی چیزوں کا بندوبست کیا کرتے تھے، یہاں تک کہ نہانے کے لیے بھی انہیں YMCAجانا پڑتا تھا۔ اُن کے پاس کام کرنے کے لیے صرف ایک کمپیوٹر تھا، اُن کی ویب سائٹ دن میں چلتی تھی اور رات کو بیٹھ کر ایلون اور اُن کے چھوٹے بھائی ویب سائٹ کی کوڈنگ کیا کرتے تھے۔انہوں نے ’زپ 2‘ کے نام سے ایک کمپنی کی بنیاد رکھی اور اِس پر کام شروع کر دیا۔ اِن دونوں بھائیوں کی اپنے کام کے ساتھ لگن کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ہفتے میں 7 دن اور 24 گھنٹے کام میں مصروف رہتے تھے۔ 24گھنٹے محاورتاً نہیں حقیقت میں ،اِن دونوں بھائیوں کی کوشش ہوتی تھی کہ جتنا زیادہ ہو سکے اپنے کام کو وقت دیں، یہ صرف سوتے وقت کام نہیں کرتے تھے۔ کام سے بڑھ کر اِن کیلئے اور کوئی چیز عزیز نہیں تھی۔مسلسل محنت اور لگن رنگ لائی اور 4 برس کی جدوجہد کا پھل انہیں ’زپ 2‘ کمپنی کو 307ملین ڈالر (تقریباً 59ارب پاکستانی روپے )کی خطیر رقم میں فروخت کر کے ملا۔
ایلون مسک نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’اگر کوئی کمپنی دن میں8گھنٹے کام کر رہی ہے تو آپ 16گھنٹے کام کریں، یوں جو کمپنی 1برس میں کامیابی حاصل کرے گی، وہی کامیابی آپ صرف 6 ماہ میں حاصل کر لیں گے۔‘‘
آپ دنیا میں کوئی بھی کمپنی دیکھ لیں، چاہے پھر فیس بُک ہو، گوگل ہو، ٹیسلا ہو یا کوئی بھی دوسری کمپنی، اُن کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ بہترین پروڈکٹ ہوتا ہے۔ ایلون مسک بتاتے ہیں کہ اُنہوں نے جب ٹیسلا کمپنی کو جوائن کیا تو خود سے یہ وعدہ کرلیا کہ اُن کی فیکٹری سے جو بھی گاڑی نکلے گی، اُس کا معیار بہت اعلیٰ ہوگا۔ ایلون مسک کی کاروباری پالیسی نے امریکا میں بہت سو کو متاثر کیا۔ ایلون نے ٹیسلا میں ایسی تمام چیزوں پر پیسے خرچ کرنے سے صاف انکارکر دیا تھا، جن سے پیسوں کا ضیاع ہو۔
مثال کے طور پر ٹیسلا کارز کی اشتہارات آغاز سے اب تک ٹیلی ویژن پر نہیں چلائے جاتے اور نہ ہی کسی ویب سائٹ پر ٹیسلا کی اشتہاری مہم دیکھنے کو ملتی ہے، حالانکہ آپ ایمازون سے آن لائن ٹیسلا خرید سکتے ہیں، لیکن آپ کبھی بھی ٹیسلا کے اشتہارات نہیں دیکھیں گے۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ ایلون مسک اشتہارات پر پیسے صرف کرنے کے بجائے وہی پیسے اپنی گاڑی کے معیار کو بہتر بنانے پر لگاتے ہیں۔ آپ بھی جب کبھی اپنی کمپنی کا آغاز کریں یا اگر آپ پہلے سے ہی کوئی کمپنی چلا رہے ہیں تو یہ سنہری اصول اپنا لیں کہ آپ کی پروڈکٹ کا معیار سب سے بہتر ہونا چاہیے، وہ خود بہ خود بکے گی آپ کو اُس کے اشتہارات چلانے کی بھی ضرورت نہیں پڑےگی، جب صارف آپ کی پروڈکٹ خریدے گا اور اُسے اُس کا معیارپسند آئے گا تو وہ اُس کے بارے میں اپنے اردگرد موجود دوسرے لوگوں کوبتائے گا، یوں مفت میں اشتہاری مہم کا ایک سلسلہ شروع ہو جائے گا اور آپ کو اپنی پروڈکٹ کی تشہیر کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
لیکن صرف اعلیٰ معیار ہی وہ چیز نہیں ہے کہ جس سے ایلون مسک نے ٹیسلا اور اپنی دیگر 6 کمپنیوں کو کامیابی کی بلندیوں تک پہنچایا بلکہ مسلسل محنت سے انہوں نے یہ کارہائے نمایاں انجام دیا۔ ایلون مسک ایک انسان کی بجائے ،روبوٹ کی طرح کام کرتے ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ ہے اور وہ ہے سب سے بہتر، سب سے اعلیٰ کا حصول ہے۔ ایلون اپنے سٹاف کو صاف صاف کہہ چکے ہیں کہ مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ مجھے صبح 3بجے فون کریں یا رات کو، میں 24گھنٹے آپ کی مدد کیلئے موجود ہوں۔
ایلون مسک نے جب ٹیسلا کمپنی کو جوائن کیا تو اُن کے سامنے دو مقاصد تھے، ایک یہ کہ دنیا کو ماحولیاتی آلودگی سے محفوظ رکھنے کیلئے الیکٹرک گاڑیاں کارگر ثابت ہو سکتی ہیںاور دوسرا یہ کہ فوسل فیولز یعنی پیٹرولیم مصنوعات کیونکہ قدرتی وسائل ہیں، اِس لیے ایک دن یہ ختم ہو جائیں گے۔دلچسپ اور اہم بات یہ ہے کہ ٹیسلا کی بنیاد ایلون مسک نے نہیں رکھی تھی بلکہ اِس کے فاؤنڈرز مارٹن اور مارک نامی دو کاروباری شخصیات تھیں۔ ٹیسلا کے اِن دونوں فاؤنڈرز نے الیکٹرک گاڑیاں تو بنا لیں، لیکن یہ کمپنی کو کامیاب بنانے کیلئے کوئی خاطر خواہ کام نہ کر سکے۔ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ٹیسلا کمپنی دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئی۔ ایسے میں ایلون مسک نے بطور سی ای او ٹیسلا کو جوائن کیا اور ٹیسلا کے کاروباری ماڈل میں حیران کا اور غیر معمولی تبدیلیاں کیں۔ انہوں نے کمپنی کا 25فیصد سٹاف ختم کر دیا، اُن کے مطابق یہ سٹاف اضافی تھا۔ یہ اضافی سٹاف ختم کرنے سے کمپنی کا خرچ اچانک کم ہو گیا، اسی طرح انہوں نے الیکٹرک گاڑیوں کے سب سے بڑے مسئلے یعنی اُس کے مائلیج کو بڑھانے کے لیے ریسرچ پردل کھول کر خرچ کیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے امریکی حکومت سے بھی اربوں روپے قرض لیا۔ ایلون مسک کا یہ نیا بزنس ماڈل کام کر گیا۔ وہ الیکٹرک گاڑیوں کے مائلیج کے مسئلے کو حل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ انہوں نے 2008میں ’روڈسٹر‘ کے نام سے گاڑی لانچ کی، جو صرف ایک چارج میں 394کلومیٹر کا سفر طے کر سکتی تھی۔ اس گاڑی کے ریلیز کے بعد ٹیسلا نے غیر معمولی کامیابیوں کا سفر شروع کیا اور الیکٹرک گاڑیوں کو ایک نئی جہت سے متعارف کروایا۔ آج وہی الیکٹرک کارز جن کی کامیابی پر کسی کو یقین نہ تھا، دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر نہ صرف فروخت ہو رہی ہیں، بلکہ ٹیسلا کار کمپنی کی مارکیٹ ویلیو آج دنیا کی تمام گاڑی ساز کمپنیوں کی مارکیٹ ویلیو کو ملا لیا جائے تو اُس سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ اس کمپنی کی مارکیٹ ویلیو 2022میں 797.30بلین ڈالر ہے۔ٹیسلا مارکیٹ کپیٹل کے لحاظ سے دنیا کی چھٹی سب سے زیادہ قدر رکھنے والی کمپنی بھی بن گئی ہے۔
یہ تو ایلون مسک کی ٹیسلا کو کامیاب بنانے کی کہانی ہے، جس میں اُن کی کاروباری حکمت عملی نے کام دکھایا اور کمپنی دن دگنی اور رات چگنی ترقی کرتی چلی گئی، لیکن ایلون کی زندگی میں سب کچھ خوبصورت اور کامیابی سے بھرپور نہیں تھا۔ ایلون نے جب ’سپیس ایکس‘ کمپنی کی بنیاد رکھی اور2025تک انسان کو مریخ پر بھیجنے کافیصلہ کیا تو یہ فیصلہ خودکشی کی طرح تھا۔ کیونکہ جو کام دنیا کی بڑی بڑی معاشی طاقتیں اور خلائی ادارے جیسا کہ امریکا کا خلائی ادارہ ’ناسا‘ اور روس کا ’روسکاسموس‘ نہیں کر سکے، وہ آخر ایک پرائیویٹ کمپنی کیسے کر سکتی تھی ۔ لوگوں کی توقعات کے عین مطابق ایلون مسک کو اپنے راکٹس کی لانچنگ میں پے در پے ناکامیاں ہوئیں۔ حالات اِس نہج تک آ گئے کہ ایلون مسک کو ایک انٹرویو میں روتے ہوئے دیکھا گیا۔
انٹرویو کرنے والے میزبان نے اُن سے سوال کیا کہ ’’چاند پر پہلا قدم رکھنے والے نیل آرمسٹرونگ اور خلا باز جین کارنن نے کمرشل بنیادوں پر انسانوں کوچاند یا مریخ پر بھیجنے کی مخالفت کی تھی، تو آپ (ایلون مسک) ایسا کیوں کر رہے ہیں۔‘‘
ایلون مسک نے تقریباً روتے ہوئے کہا کہ ’’یہ لوگ میرے ہیروز ہیں، مجھے نیل آرمسٹرونگ اورجین کارنن کے خیالات جان کر بہت دکھ ہوا، لیکن میری خواہش ہے کہ یہ لوگ آئیں اور دیکھیں کہ ہم کتنی محنت کر رہے ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ ہماری محنت دیکھ کر انہیں اپنے خیالات بدلنے پڑیں گے۔‘‘
ایلون مسک کی کمپنی سپیس ایکس کے تیار کردہ بہت سارے منصوبے ناکام ہوئے، اُن کے بہت سے راکٹس لانچ ہونے سے قبل ہی تباہ ہو گئے اور کچھ لانچ ہونے کے بعد زمین پر آگرے۔ لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری اور آخر فالکن 9 کے نام سے دنیا کا پہلا سٹیج لینڈنگ ٹیسٹ کیا۔ سپیس ایکس ایسا راکٹ تیار کرنے میں کامیاب ہو گئی، جسے زمین سے لانچ کرنے کے بعد دوبارہ لینڈ بھی کروایا جاسکتا ہے۔ آخر کوئی سوچ بھی سکتا ہے کہ بغیر پروں کے کیسے ایک راکٹ زمین پر بآسانی لینڈ کر رہا ہے اور یہ پھل مسلسل محنت، لگن اور ہار نہ مارننے کی ضد کا تھا۔ ہمیں بچپن سے ضدی نہ ہونے کی تربیت دی جاتی ہے، لیکن ضدی ہونا اتنا بھی برا نہیں۔ آپ ضدی بن جائیں، اُس کام کیلئے جس میں آپ کو اپنا مستقبل نظر آتا ہے۔
(دانش احمد انصاری)

 



July 06, 2022

Spouse 1

 رانڈ، بیوہ
اردو زبان میں بھی بیوہ کے لیے محاورات موجود ہیں
رانڈ کے اردو معنی ، بیوہ عورت، تحقیراً عورت، جوان عورت، حقارتاً (عورت) اور خوبصورت عورت کے ہیں۔  وہ عورت جس کا شوہر مرجائے۔ گالی کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔ کوسنے کے طور پر مستعمل کلمہ طنز و تحقیر۔

دولتمند بیوہ کا آدھا سہاگ سلامت رہتا ہے ۔1
جس کی بیٹی رانڈ ہوگئی اس کا جنم بگڑگیا۔2
جوان رانڈ بوڑھے سانڈ۔3
چلے رانڈ کا چرخہ اور برے کا پیٹ۔4
رانڈ اور کھانڈ کا جوبن رات کو۔5
رانڈ بیٹی مرگئی جنم سدھر گیا۔6
رانڈ روو کواری رووے ساتھ لگی ست خصمی۔7
 رووےرانڈ رہے جو رنڈوے رہنے دیں۔8
اس سے ملتا جلتا ایک اور بھی ہے کہ ’’رنڈی تو بسنا چاہتی ہے، مشٹنڈے نہیں بسنے         دیتے‘‘۔
ان ملے کے قیاگی رانڈ ملے بیراگی9

رانڈ کا سانڈ10

رانڈ کا سانڈ ، سَوداگَر کا گھوڑا کھاوے بَہُت ، چَلے تھوڑا11

رانڈ کا سانڈ اور سوداگر کا گھوڑا جو کھاوے تو بہت مگر چلے تھوڑا تھوڑا

باؤلی کھاٹ کے باؤلے پائے۔ باؤلی رانڈ کے باؤلے جائے12

رانڈ سانڈ بھانڈ بگڑے ہوئے برے13
رانڈ سانڈ سیڑھی سنیاسی ان سے بچے تو سیوے کاشی14
رانڈ کا سانڈ چھنال کا چھنڑا15

(مجازاً) رانڈ کی اولاد ،بے پروا ، نڈر ، بے باک ،فکر و غم سے آزاد .جوان خوب         صورت جورو کو چھوڑ کے ڈھونڈتا پھرتا ہے

 ، موا رانڈ کا سانڈ ۔16
 (۱۸۹۴، کامنی ، ۲۶)

وہ ان خوش نصیبوں میں تھا جو اپنی روزی کے لئے خود محنت نہیں کرتے بلکہ دوسروں     کی محنت پر رانڈ کے سانڈ کی طرح پلتے ہیں۔ (۱۹۸۲، کیمیاگر،۳۸)

2) جاہل ، کم فہم (محاورات ہند)۔ حضرت ہم نے بھی  دنیا دیکھی ہے۔ جھجو         جھونٹوں میں عمر نہیں گزری ،رانڈ کے سانڈ بن کر نہیں رہے۔
 (۱۹۴۳، دلی کی چند عجیب پستان۔۷۷)
ملا دے سیر بھر دودھ اس میں اور کھانڈ، کہ ہے چالیس سن میں رانڈ کا سانڈ
(۱۸۹۵، فرسنامہْ رنگین .۱۱).
پہلے ہی چھاچھ پی پی کے اور رانڈ کڑھی کھا کھا کے میری تو آنکھیں پیلی اور شاعری         پتلی پڑ گئی ہےْ۔ ( یوسفی )
17[رانڈکڑھی: وہ کڑھی جو اپنے خصم کو کھا جائے یعنی جس میں پھلکیاں نہ ہوں]۔



رانڈ کڑھی (راجھستان والوں کی زبان میں بیوہ کڑھی) جس میں پکوڑے نہیں         ڈالے جاتے۔

اشعار
جو رانڈ ہو کاجل کرے چویا چندن پر من دھرے18
چوڑی پہن مہندی کرے بر گردنش تلوار بہ
(جعفر زٹلی)

کہے گئی دغا دے کر ہمسنا رانڈ ہمیں کاں سوں خاوند کوں د یویں دانڈ19
(عبداللہ قیاسی)
رانڈ ہو گور کا یا منہ اری کمن دیکھے20
نوج غم سوت کا دنیا میں سہاگن دیکھے
(جان صاحب)

بندھاتی ہے تو رانڈ بیواؤں کی ہمت21
یتیموں سے کرتی ہے اظہار شفقت
(خمکدہ سرور)

چوٹ کرے ہے ایسی بھانت پھرے ہے جیسے کوئی سانڈ22
کون سا لیکھا جو کھا ہے کیسی ہے یہ نپوتی رانڈ
(انشا)

جو فرشتہ ہے مقرر باد پر23
اوس کو کیا جو رانڈ کا دِیوا بُجھا
(حسن علی)

الطاف حسین حالی کی نظم بیوہ کی مناجات

آٹھ پہر کا ہے یہ جلاپا
کاٹوں گی کس طرح رنڈاپا
اپنے پرائے کی دھتکاری
میکے اور سسرال پہ بھاری
سہہ کے بہت آزار چلی ہوں
دنیا سے بیزار چلی ہوں
دل پر میرے داغ ہیں جتنے
منہ میں بول نہیں ہیں اتنے
دکھ دل کا کچھ کہہ نہیں سکتی
اس کے سوا کچھ کہہ نہیں سکتی
تجھ پہ ہے روشن سب دکھ دل کا
تجھ سے حقیقت اپنی کہوں کیا
بیاہ کے دم پائی تھی نہ لینے
لینے کے یاں پڑ گئے دینے
خوشی میں بھی دکھ ساتھ نہ آیا
غم کے سوا کچھ ہات نہ آیا
ایک خوشی نے غم یہ دکھائے
ایک ہنسی نے گل ہی کھلائے
کیسا تھا یہ بیاہ نناواں
جوں ہی پڑا اس کا پرچھاواں
چین سے رہنے دیا نہ جی کو

کر دیا ملیامیٹ خوشی کو
رو نہیں سکتی تنگ ہوں یاں تک
اور روؤں تو روؤں کہاں تک
ہنس ہنس دل بہلاؤں کیوں کر
اوسوں پیاس بجھاؤں کیوں کر
ایک کا کچھ جینا نہیں ہوتا
ایک نہ ہنستا بھلا نہ روتا

میر انیس کے مرثیے

 پوچھے گا مجھ سے آ کے جو کوئی کہ اے غریب
پُر خوں یہ کس کی لاش ہے بے یار و بے حبیب
سر پیٹ کر کہوں گی یہ ہے سانحہ عجیب
مجھ سا جہاں میں کوئی نہ ہوگا بلا نصیب
دولھا شہید ہو گیا تقدیر سو گئی
شب کو دلہن تھی صبح کو میں رانڈ ہو گئی

رونے لگی یہ کہہ کے جو وہ غیرتِ قمر
قاسم کا فرطِ غم سے تڑپنے لگا جگر
ناگاہ گھر میں دوڑ کے فضّہ نے دی خبر
بی بی غضب ہوا کہ بڑھی فوجِ بد گہر

اکبر رضا طلب ہیں قیامت ہے صاحبو
لو، اب جوان بیٹے کی رخصت ہے صاحبو
دولھا شہید ہو گیا تقدیر سو گئی
شب کو دلہن تھی صبح کو میں رانڈ ہو گئی

 جس وقت کہ قتل ہوا وہبِ با وفا
بیوہ نے کی نہ آہ بجز شکرِ کبریا
ہر چند رانڈ ہونے کا صدمہ ہے جانگزا
رونے کی پر دلھن کے نہ آئی کبھی صدا

ماں اس جری کی زینبِ مضطر کے ساتھ ہے
زوجہ جو ہے وہ شاہ کی دختر کے ساتھ ہے

 رغہ میں آج صبح سے ہیں سرورِ امم
فرصت نہیں ہے لاش اٹھانے سے کوئی دم
کیوں کر کہیں گے وہ کہ سدھارو سوئے عدم
بیٹی کے رانڈ ہونے کا صدمہ، تمھارا غم

دیتے نہیں رضا جو شہِ کربلا تمھیں
میں اب دلائے دیتی ہوں اذنِ وغا تمھیں
گر ہے دلہن کی فکر تو بے جا ہے یہ خیال
ہر رنج و غم میں رانڈوں کا حافظ ہے ذوالجلال
صابر ہے دکھ میں، درد میں، خیر النساء کا لال
کُھلنے کا سر کے غم ہے نہ کچھ قید کا ملال
راضی رہیں حُسین، رضا ذوالمنن کی ہو
کنگنا ہو یا رسن میں کلائی دلہن کی ہو




دھوکہ دیتے ہیں اُجلے پیراہن
راہ میں کھلتا پھول بیوہ کا جوبن
(امجداسلام امجد)

مجھے بے وارثا کرکے سدھارے
مجھے بیوہ بنایا تم نے پیارے
 (شایاں)


ہر بیوہ عباس کو وقفہ ہوا دشوار
چلائی جو کہنا ہو وہ کہ جلد سِتمگار
(دبیر)

پنجابی محاورہ بھی مطلقہ سے شادی کی ممانعت کرتا ہے خواہ وہ حور شمائل ہی کیوں نہ         ہو ۔

24
راہوں کُراہ نہ چلیے بھانویں دور ہووے
تے چُھٹَڑ نہ کرئیے بھانویں حور ہووے


[جانے پہچانے راستے سے ہٹ کر مت چلو خواہ وہ دُور پڑتا ہو یعنی طویل ہو اور         مطلقہ سے شادی مت کرو خواہ وہ حُور ہو

]

Spouse

 فائنل
بیوی، زوجہ، جورُو

    زوجہ

بڑی بیوی تھی دخت جمشید شاہ جو دشرتی تھی شمشیر و تخت وکلاء
(۱۶۴۹، خاور نامہ ، ۱۵۲)
    گھر کی مالکہ

خاوند گھرکامیاں ہوتووہ گھری کی بیوی ہوں
 (۱۸۷۳، مجالس النسا ، ۱ : ۸)

 ہر عورت (خطاباً یا رواجاً)
آپ اگر طوائف ہیں تو بیوی اپنا معمول بتائیے ، آپ کے سبب سے دو پیسے ہمیں بھی مل جائیں۔
 (۱۸۸۸، طلسم ہوشربا، ۳ : ۲۲۱)



جُوْرُو،  زوجہ، بیوی
جُوْرُو خَصَم،     میاں بیوی، شادی شدہ جوڑا
جورُو کَر لینا

جُوْرُو کا بَنْدَہ1
جُوْرُو کا جِھڑْکا2
جُوْرُو کا غُلام3
جورو کا مزدور4

جُوْرُو کا مَزدُور
جورُو کا مُرِید5
جُوْرُو کا بھائی6
سالا، خسر پورہ7

جُوْرُو جاتا8
جورو اور بچے، آل اولاد، اہل و عیال9
نَہ جورُو، نَہ جَٹَّہ10
 نہ جورو نہ جاتا ، اﷲ میاں سے ناتا11

ساجھا جورُو خَصَم کا ہی بَھلا12
ساتھ جورُو خَصَم کا13
کَوڑی گانٹھ کی، جورُو ساتْھ کی14

جُوْرُو خَصَم کی لَڑائی دُودْھ کی سی مَلائی15
جُوْرُو خَصَم کی لَڑائی کیا خَصَم جورُو کی لَڑائی کِسی کو نَہ بھائی16

غَرِیب کی جورُو سَب کی سَلْہَج17
غَرِیب کی جورُو سَب کی سَرْہَج18
غَرِیب کی جورُو سَب کی بھابی19
مُفلِس کی جورُو سَب کی بھابی20
21 زَبَردَسْت کی جورُو سَب کی دادی
ٹھاڑے کی جورُو سَب کی دادی22
غَرِیب کی جورُو عُمْدَہ خانَم نام23
بُھوکا بیچے جورُو اَور راجا کَہے مَیں اُودھارْ لُوں24


مُفلِس کی جورُو سَدا نَنگی25
نَکھٹُو کی جورُو سَدا نَنْگی26
اَنْدھے کی جورُو کا اَللہ بیلی27
اَنْدھے کی جورُو کا خُدا رَکْھوالا28
چَمارکی جورُو اور ٹُوٹی جُونی29
تیلی کی جورُو ہو کَر کیا پانی سے نَہائے30
چور کی جورُو کُوئے میں مُنھ دے کَر رُوتی ہے31
کالے کَوّے کی جورُو32
جورو چکنی میاں مزدور33

بُوڑھے خَصَم کی جورُو گَلے کا ڈھولْنا34
بُڈّھی بَھینس کا دُودْھ شَکَر کا گھولْنا35
 بُدّھے مَرْد کی جورُو گلے کا ڈھولْنا36

دو خَصْم کی جورُو چَوسَر کی گوٹ37
دو جورُو کا خَصْم چَوسَر کا پانسا38

جُوْرُو زُوْر کی نَہِیں کِسی اَور کی39
تیرے میرے صَدقے میں اُس کی جورُو پیٹ سے40
جُوْرُو کا دِکَھْیلا بیچ کر تَنْدُوری روٹی کھائی ہے41
 
جِس کی جورُو اَنْدَر، اُس کا نَصِیبا سِکَنْدَر42

بالے کی ماں اور بُوڑھے کی جورُو کو خُدا نَہ مارے43
بَچّےکی ماں بُوڑھے کی جورُو سَلامَت رہے44
بُڈّھے کی نہ مَرَے جُورو، بالے کی نَہ مَرے ماں45

خُدائی اِک طَرَف ، جورُو کا بھائی اِک طَرَف46
بَہَن گَھر بھائی کُتّا اور ساس گَھر جَمائی کُتّا47
کان پیارے تو بالِیاں ، جورُو پیاری تو سالِیاں48

جُوْرُو کا مَرنا گَھر کا خَرابا ہے49
بیوی کے مرنے سے گھر اجڑ جاتا ہے50
جُوْرُو کو اَمّاں کَہْنے لَگْنا51
جورُو کا مَرنا اور کُہْنی کی چوٹ کا لَگْنا بَرابَر ہے52
جورُو کا مَرنا اور جُوتی کا ٹُوٹْنا بَرابر ہے53


جُوْرُو ٹََٹُولے گَٹْھڑی اور ماں ٹَٹُولےاَنْتْڑی54
جُوْرُو ٹَٹُولے پھِیْٹ اوَر مَاں ٹَٹُوْلے پِیْٹ55

جَگ کی ماں جَہان کی خالَہ56
اس عورت کو کہتے ہیں جو گھرگھر پھرتی ہو

آفَت کی پَر٘کالَہ57
آفت کی پڑیا58

July 05, 2022

Water Bank, Water Card

 

 بارش کا پانی  ، زیادہ بارش ہونے کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے۔ اسے محفوظ کرنے کے لئے 

واٹر بینک ، وئٹ میٹرنگ اور واٹر کارڈ کا آئیڈیا

انجنئیر ظفر وٹو
آپ نے اکثر یہ پڑھا ہوگا کہ قسمت کے دھنی کروڑوں کی لاٹری جیتنے والے زیادہ تر افراد کچھ عرصہ بعد پھر اسی طرح غربت کی حالت میں پائے جاتے ہیں اور جیک پاٹ لگنے کے باوجود بھی ان کی مالی حالت ہمیشہ کے لئے نہیں سنبھلتی کیونکہ انہیں فنانشئیل مینیجمنٹ کرنا نہیں آتی۔
تاہم اگر ایک شخص کی ہر سال ہی لاٹری نکلتی ہو بلکہ ہر سال ایک سے زیادہ دفعہ لاٹری نکلتی ہو اور وہ پھر بھی غریب رہے تو اسے کیا کہنا چاہئے ۔ وہ شخص میں اور آپ ہیں۔
اللہ میاں ہر سال کئی دفعہ ہمیں بارش کی صورت میں اپنی ضرورت سے بھی زیادہ پانی بھیج دیتے ہیں ۔ہماری لاٹری نکل آتی ہے- جیک پاٹ لگ جاتا ہے۔ لیکن ہرسال ہی ہم اپنی نااہلی کی وجہ سے اس سےفائدہ اٹھانے کی بجائے نہ صرف ضائع کر دیتے ہیں بلکہ الٹا نقصان اٹھاتے ہیں اور روتے پیٹتے ہیں۔
جب بھی بارش ہوتی ہے ہمارے شہروں کی سڑکوں اور گلیوں پر پانی کھڑا ہوجاتا ہے- نشیبی علاقے زیر آب آجاتے ہیں۔دفتر کاربار بند ہوجاتے ہیں۔عمارات کو نقصان پہنچتا ہے-پانی میں پھنس کر گاڑیاں ناکارہ ہوجاتی ہیں اور پھر کئی دنوں تک نشیبی علاقے کیچڑ میں لت پت رہتے ہیں-
عالمی درجہ بندی کے مطابق پاکستان پانی کی قلت کا شکار ممالک کی فہرست میں شامل ہے جس کی وجہ پانی کی کم دستیابی بالکل نہیں بلکہ وافر مقدار میں دستیاب پانی کی بری منیجمنٹ(انتظام) ہے- وہ وقت دور نہیں جب ہمارے ہاں پانی کی چلتی ٹوٹی ایک خواب بن جائے گی اور چند لیٹر پانی کے حصول کے لئے بھی لمبی لمبی لائینیں لگا کریں گی۔
ہمارے ہاں جب بھی بارش ہوتی ہے تو نشیبی علاقے زیر آب آجاتے ہیں-حالانکہ شہری علاقوں میں بارش کا یہ پانی زحمت کی بجائے رحمت بنایا جا سکتا وہے -
بارش کا پانی جب چھت پر گرتا ہے تو سب سے صاف ہوتا ہے- اگر اسے چھت پر ہی کسی طریقے سے جمع کر لیا جائے تو یہ پانی بہت سے مقاصد کیلئے استعمال ہو سکتا ہے-
چھت کے بعد دوسرا آپشن اسے پائپ کے ذریعے نیچے لاکر زمین کے اوپر بنائے گئے کسی بھی ٹینک میں جمع کرنا ہے جس کا سائز اور میٹریل آپ کی ضرورت، بجٹ اور لوکیشن کے حساب سے فائنل کیا جا سکتا ہے -
اس کے بعد تیسرا آپشن اس بارشی پانی کوکو زیرزمین ٹینک بنا کر ذخیرہ کرنا یا ری چارج ویل (پانی چوس کنوئیں) بنا کر زیر زمین پانی کی سطح بلند کرنے کا ہے - آپ ان میں سے کوئی ایک ، دو یا تینوں آپشن استعمال کر سکتے ہیں-
اس طرح آپ اپنے گھر کی پانی کی کئی دنوں کی ضروریات نا صرف پوری کر سکتے ہیں بلکہ ضرورت سے زائد پانی کو “واٹر بینک” میں جمع کرواکر پیسہ بھی کما سکتے ہیں ۔
واٹر بینک کیا ہے؟
“واٹر بینک” ہم ایسی سہولیات یا تعمیرات کو کہیں گے جو بڑے شہروں کے پارک ، کھیلوں کے میدان، یونیورسٹیوں کے کیمپس یا سرکاری ونجی کھلے میدانوں میں بارش کے پانی کو بڑی مقدار میں زیر زمین پانی تک پانی چوس کنوؤں کے ذریعے پہنچاتی ہیں۔ ان سہولیات کو تعمیر کرنے کی ذمہ داری پانی ضائع کرنے والی تمام صنعتوں پر لازم کردی جائے جس میں چمڑے اور ٹیکسٹائل کی صنعتیں خصوصا قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ بھی تقریباً ہر بڑی فیکٹری میں زمینی پانی کولنگ کے لئے استعمال ہورہا ہوتا ہے۔
ہر صنعت پر اس کے ضائع کئے گئے پانی کے کم ازکم دُگنا حجم کے پانی کو بارش کے دنوں میں زیر زمین ری چارج کروانے کی پابندی ہو۔یہ صنعتیں کالونی ، سوسائٹی یا ادارے کی سطح پر سو فیصد بارشی پانی کو زیرزمین پانی میں ری چارج کروانے کی پابند ہوں۔ ان کے این او اسی کی رینیئوئل ان کی اس اہلیت سے مشروط کردی جائے کہ وہ حکومت کی طرف سے ان کے لئے مختص کئے گئے خاص خاص شہری علاقوں میں کتنا بارشی پانی ری چارج کرواتی ہیں۔
کارواش اور کنسٹرکشن انڈسٹری پر بھی ایسی ہی پابندیاں لاگو ہوں اور ان پر استعمال سے دُگنا پانی بارش کے دنوں میں واٹر بینک میں ری چارج کروانے کی پابندی ہو۔
اگر واٹر بنک کا آئیڈیا جڑ پکڑتا ہے تو مستقبل کے واٹر بنکس دریاؤں کے کناروں پر نشیبی علاقوں میں بنائے جانے والے بڑے بڑے بغلی تالاب (آف لائن اسٹوریج) یا دریاؤں سیلابی میدانوں میں بنائی گئی مصنوعی جھیلیں بھی ہو سکتی ہیں جو بڑے سیلابی پانیوں کو ذخیرہ کرلیں جب دریا ابل ابل کر کناروں سے باہر آرہے ہوتے ہیں۔ یہ تعمیرات بھی پانی کی بے پناہ کھپت کرنے والی صنعتوں کے خرچے پر بنوائی جائیں۔ بلوچستان جیسے علاقے میں چیک ڈیم یا سمال ڈیم بھی واٹر بنک کے طور پر بنوائے جا سکتے ہیں۔
ویٹ میٹرنگ کیا ہے؟
جس طرح شمسی توانائی سے بجلی بنا کر واپڈا کے نظام میں ڈالنے پر بجلی کے یونٹ مفت ملتے ہیں جسے نیٹ میٹرنگ کہتے ہیں اسی طرح پانی خور صنعتوں کے لئے زمینی پانی کو ری چارج کرنے کے ویٹ میٹرنگ کا نظام لاگو کیا جائے۔
بڑے شہروں کے واسا , KWSB یا پبلک ہیلتھ کے ادارے “ویٹ میٹرنگ” “wet metering “ کا نظام شروع کر سکتے ہیں جس میں واسا یا پبلک ہیلتھ یا KWSB کسی بھی فرد کو اتنا پانی مہیا کرنے کا پابند ہو جتنا بارش کا صاف پانی اس شخص نے بارش کے دوران جمع کرکے “واٹر بینک “میں جمع کروایا ہو گا-
واسا , KWSB یا پبلک ہیلتھ خود بھی “واٹر بینک “ بنا سکتے ہیں یا پھر نجی “واٹر بینکوں” کے ساتھ اپنے واٹر سپلائی کے نظام کو جوڑ سکتے ہیں- اس طرح انہیں سینکڑوں فٹ زیرزمین پانی پمپ کرنے کی بجائے واٹر بینک سے پمپ کرنا پڑے گا جس سے بجلی کا خرچہ انتہائی کم ہوگا اور زیرزمین پانی کی سطح بھی بلند ہوگی-
واٹر کارڈ کیسے کام کرے گا؟
لوگوں کو خوش نما بوتلوں میں زمینی پانی کو منرل واٹر بنا کر بیچنے والی کمپنیوں پر بھی بارشی پانی کو زیر زمین پانی کے ری چارج کرنے والی سہولتیں بنانے کی پابندی ہو جہاں بارش کے دنوں میں شہری اپنے چھتوں یا گھروں کا پانی لاکر جمع کروانے پر برابر یا زیادہ حجم کے صاف پینے کے پانی کے یونٹس ڈیجیٹل “ واٹر کارڈ “ پرحاصل کریں جو انہیں ما بعد بارش کسی بھی جگہ / بیکری سے مفت میں پانی دے سکیں ۔ اندازہ کریں کہ اگر کسی شہری کو چند بارشوں میں بارش کا پانی واٹر بینک میں جمع کروانے پر پورے سال کے استعمال کا پانی مفت مل رہا ہو رو وہ بارش میں پانی جمع کرنے والا نظام خود بخود ہی بنا لے گا۔
لوگ پلاسٹک کی پورٹیبل ٹینکیاں مناسب تعداد میں بنا کر بارش کے دوران گھروں کی چھتوں سے آنے والے بارش کے صاف پانی کے پائپ کے والو سے جوڑ کر بھرتے جایئں اور بارش ختم ہونے پر ان ٹینکیوں میں جمع شدہ پانی کو ایک ایک کرکے واٹر بینک میں جمع کرواکر رسید لے لیں یا اپنا واٹر کارڈ ری چارج کروا لیں-
اس واٹر کارڈ پر حکومت یا این جی اوز کی طرف سے پرکشش پیکیج ہوں۔ مثلاً لاہور میں رہنے والا شہری اپنی ضرورت سے زیادہ کا بارشی پانی لاہور کے واٹر بینک میں جمع کروانے پر واٹر کارڈ پر حاصل شدہ پانی کے حجم سے فوڈ پانڈا کی طرز پر بنی “واٹر بھانڈا “ایپ سے واٹر ٹینکر کوئٹہ یا کراچی میں اپنی فیملی، رشتہ دار، مسجد مدرسے یا کسی ضرورت مند کو عطیہ کر سکے۔
واٹر بینک اور ویٹ میٹرنگ سے پیسے کیسے کمائے / بچائے جا سکتے ہیں؟
شہری علاقوں کی تمام کھلی جگہوں پر بارش کے پانی کو زیر زمین پانی کے ری چارج کرنے کے لئے شہری نجی ” واٹر بینک” بنا کر ان میں پانی جمع رکھنے کے سروس چارجز پانی ضائع کرنے کی پابندی کی زد میں آئی پانی خور صنعتوں سےوصول کر سکتے ہیں-
ایسے پلاٹ جو کسی بھی وجہ سے خالی پڑے ہیں یا پارکنگ ایریا ز میں “واٹر بینک” بنا کر اچھی خاصی آمدنی کمائی جاسکتی ہے-
اندازہ کریں واسا پورے شہر میں پھیلے ہزاروں “واٹر بینکس” کے نیٹ ورک سے اگر سال میں ساٹھ دن بھی پانی دے سکتا ہے تو بجلی کے خرچے کتنی کمی اور زیرزمین پانی کی سطح میں کتنی بہتری ہوگی- چھتوں سے بارش کے پانی کا بہہ کر سڑکوں اور گلیوں میں کھڑا ہونے میں کتنی کمی آجائے گی۔
اس سے کیا فرق پڑے گا؟
لاہور میں مون سون کی بارشیں ہر سال جون کے آخر سے شروع ہوکر ستمبر کے آخر تک چلتی ہیں اس علاوہ سردیوں میں بھی بارش ہو جاتی ہے اور فروری مارچ میں بھی بارشیں چلتی رہتی ہیں- اگر ہم سادہ ترین الفاظ میں کہیں کہ سال میں کم از کم 20 دفعہ بارشیں ہوئی تو اوپر دئے گئے نظام سے آپ کے پاس بارش کا صاف پانی ذخیرہ کرنے یا ری چارج کرنے کے بیس مواقع تھے-
اگر ایک بارش سے آپ کے چھت ، لان یا زیر زمین پانی ذخیرہ یا ری چارج کرنے کی صلاحیت آپ کے دو سے تین دن کے استعمال کے پانی کے حجم کے برابر ہے تو آپ بارش کے پانی کو سال کے کم ازکم پچاس ساٹھ دنوں کے لئے مفت استعمال میں لا سکتے ہیں-جس سے زیر زمین پانی اور موٹر کو چلانے کے لئے استعمال ہونے والی بجلی کی کھپت میں کم ازکم پُندرہ فی صد کمی ہوئی اور زیرزمین پانی کی تیزی سے نیچے جانے والی سطح میں کچھ بہتری آئے گی-
اگر گھر کی چھت سے بہنے والا آدھا بارش کا پانی اس طریقے سے ذخیرہ یا ری چارج کر لیا جائے تو گلی یا سڑکوں پر بہنے والے بارش کے پانی کے حجم میں آدھی کمی آگئی جس کا مطلب راستوں کا کھلے رہنا اور ٹریفک کا رواں دواں رہنا ہے جس سے کاروبار اور دفتر کھلے رہیں گے اور کام کاج کا حرج نہیں ہوگا- گھروں اور عمارتوں کا نقصان نہیں ہوگا - سڑکیں پانی کھڑا ہونے سے نہیں ٹوٹیں گی-کم سے کم  ہر شخص کو اپنی زندگی میں اپنے نام کا ایک عدد پانی چوس کنواں اس سیارہ زمین کی پیاس بجھانے کے لئے ضرور بنوانا چاہئے۔☔️🌧💦💧🚿☔️🌧💦💧🚿☔️🌧💦💧🚿
پچھلے سال Water Talkers واٹر ٹاکرز گروپ کے لئے لکھی گئی ایک تحریر جو کہ محکمہ موسمیات کی آج کی بارش کی پیش گوئی کے تناظر میں ترمیم کرکےنشر مکرر کی گئی۔
 
 

 

July 04, 2022

General Ayoub Khan VS Quaid Azam Muhammad Ali Jinnah Orders


 


پاکستان کی تاریخ کے وہ اوراق جو ہمیں کتابوں میں نہیں پڑھاۓ جاتے۔

🚷 قیامِ پاکستان کے کچھ عرصے بعد سردار عبدالرب نشتر نے ایوب خان کے بارے میں ایک فائل قائد اعظم کو بھجوائی تو ساتھ نوٹ میں لکھا کہ ایوب خان مہاجرین کی بحالی اور ریلیف کے بجائے سیاست میں دلچسپی لیتا ہے
🚷 اس پر قائد اعظم نے فائل پر یہ آرڈر لکھا:
’’ میں اس آرمی افسر (ایوب خان) کو جانتاہوں۔ وہ فوجی معاملات سے زیادہ سیاست میں دلچسپی لیتا ہے ۔ اس کو مشرقی پاکستان ٹرانسفر کیا جاتا ہے۔ وہ ایک سال تک کسی کمانڈ پوزیشن پر کام نہیں کرے گا اور اس مدت کے دوران بیج نہیں لگائے گا۔ ‘‘
⏪ بحوالہ:
👈 کتاب: قائد اعظم بحیثیت گورنر جنرل
👈 مصنف: قیوم نظامی
🚷 قائد اعظم کا ایوب خان کے بارے میں غصہ بعد میں بھی ٹھنڈا نہ ہوا اور جب وہ ڈھاکہ گئے اور انھیں فوجی سلامی دی گئی تو انھوں نے ایوب خان کو اپنے ساتھ کھڑے ہونے سے روک دیا۔
⏪ بحوالہ:
👈 کتاب: گوہر گزشت
👈 مصنف: الطاف گوہر
🚷 دراصل تقسیم کے زمانے میں امرتسر میں ہندومسلم فسادات پر قابو پانے کے لیے ایوب خان کو ذمہ داری سونپی گئی تھی مگر وہ وہاں جا کر مہاراجہ پٹیالہ کی محبوبہ پر عاشق ہو گئے اور اپنا بیشتر وقت اسکے ساتھ گزارنے لگے اور فسادات پہ کوئی توجہ نہیں دی۔ جس پر قائد آعظم نے سزا کے طور پر انکو ڈھاکہ بھیجا تھا۔
⏪ بحوالہ:
👈 کتاب: گوہر گزشت
👈 مصنف: الطاف گوہر
🚷 اپنی اس تنزلی پر ایوب خان بہت رنجیدہ ہوئے اور انہوں نے قائد آعظم کے احکامات کے برخلاف اسوقت کے فوجی سربراہ سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اس حوالے سے انہوں نے اپنے دوست بریگیڈیئر شیر علی خان پٹودی سے مدد مانگی۔ شیر علی خان پٹودی پہلی فرصت میں کراچی سے راولپنڈی گئے اور کمانڈر انچیف سر فرینک میسروی سے اپنے دوست کی سفارش کی لیکن بات بنی نہیں۔
⏪ بحوالہ:
👈 کتاب: گوہر گزشت
👈 مصنف: الطاف گوہر
🚷 لیکن بد نصیبی یہ ہے کہ جس ایوب خان سے قائداعظم اسقدر نالاں تھے اسی ایوب خان کو لیاقت علی خان نے اسوقت کے سینئرترین جنرل، جنرل افتخار پر فوقیت دے کر فوج کا سربراہ بنا دیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس حوالے سے بھی انکے دوست بریگیڈیئر شیر علی خان پٹودی اور دیگر رفقاء نے اہم کردار ادا کیا۔
🚷 اور بد نصیبی دیکھئے، وہی ایوب خان پاکستان کا پہلا مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنا اور پاکستان پر گیارہ سال گک حکومت کرتا رہا۔
⏪ بحوالہ:
👈 کتاب: The Crossed Sword
👈 مصنف: شجاع نواز
🚷 قائد آعظم خاص جمہوری انداز میں مملکت چلانا چاہتے تھے۔ اور اسی حوالے سے کسی کی مداخلت پسند نہیں کرتے تھے۔ اس حوالے سے قائد اعظم نے ایک اور فوجی افسر اکبر خان کے مشوروں سے زچ ہو کر اس سے کہا تھا کہ آپ کا کام پالیسی بنانا نہیں، حکومت کے احکامات کی تعمیل کرنا ہے۔
🚷 اور بعد زاں وہی جنرل اکبر لیاقت علی خان کے خلاف بغاوت کے جرم میں گرفتار ہوا اور تقریباََ پانچ سال جیل میں رہا
🚷 اور بد نصیبی دیکھئیے، عدالت سے غداری کی سزا کاٹنے والے، اسی جنرل اکبر کو 1973 میں بھٹو صاحب، قومی سلامتی کونسل کا رکن نامزد کر دیتے ہیں
⏪ بحوالہ:
👈 کتاب: قائد اعظم بحیثیت گورنر جنرل
👈 مصنف: قیوم نظامی
🚷 بانی پاکستان جون 1948 میں سٹاف کالج کوئٹہ گئے تو وہاں گفتگو کے دوران انکو اندازہ ہوا کہ اعلیٰ فوجی افسران اپنے حلف کے حقیقی معنوں سے واقف نہیں ہیں۔ اس موقع پر انھوں نے اپنی لکھی ہوئی تقریر ایک طرف رکھ کے فوجی افسران کو یاددہانی کے طور پر ان کا حلف پڑھ کر سنایا، اور انہیں احساس دلایا کہ انکا کام حکم دینا نہیں صرف حکم ماننا ہے۔
⏪ بحوالہ:
👈 کتاب: قائد اعظم بحیثیت گورنر جنرل
👈 مصنف: قیوم نظامی
🚷 بعد کے ادوار میں فوجی جرنیلوں نے اس حلف کی اتنی خلاف ورزی کی کہ ائیر مارشل اصغر خان کو لکھنا پڑا کہمیری تجویز ہے کہ اگر ہم پر جرنیلوں ہی نے حکمرانی کرنی ہے تو یہ الفاظ حلف سے حذف کردیے جائیں: ’’ْمیں کسی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں، خواہ ان کی نوعیت کچھ بھی ہو، حصہ نہیں لوں گا۔‘‘ 🔹
⏪ بحوالہ:
👈 کتاب: جنرل اور سیاست
👈 مصنف: اصغر خان
جنرل گریسی جب اپنے پیشہ ورانہ دورے پر لاہور گئے تو کرنل ایوب کو دیکھا اور بلا کو پوچھا کہ "آپ کو تو ڈھاکہ میں رپورٹ کرنی تھی تو آپ یہاں کیا کر رہے ہیں"جس پر ایوب خان نے کہا کہ وہ کراچی لیاقت علی خان سے ملنے جا رہے ہیں۔۔اس پر جنرل گریسی نے ایوب کے کورٹ مارشل کے آرڈر کیئے اور انہیں اپنے ساتھ کراچی لے آئے۔
بحوالہ میموریز آف اے سولجر ۔۔جنرل وجاہت حسین"سیکریٹری جنرل گریسی"
حاصلِ کلام: 👈❤👉
جس دن ہم نے اپنی نئ نسل کو پاکستان کی اصل تاریخ پڑھانا شروع کردی اسی دن سے پاکستان ترقی کرنا شروع کر دے گا۔
 
 

Total Pageviews