درّہ خیبر: جہاں سکندرِ اعظم سے لے کر انگریزوں تک، سب کے غرور خاک میں مل گئے
- محمود جان بابر
- صحافی
بچپن سے جادو والی کہانیوں میں ایسے بہت سے مقامات کے قصے سنتے آئے ہیں جہاں سے ایک قدم آگے جانے والا یا تو فنا ہوجاتا یا پیچھے دیکھنے والا پتھر کا بت بن جاتا تھا۔
ایسے ہی حقیقی دنیا میں اگر کسی علاقے کو یہ مقام حاصل ہوسکا ہے تو وہ ہے پاکستان کے اندر افغانستان کی سرحد سے متصل درّہ خیبر، جہاں سے افغانستان جانے اور وہاں سے یہاں آنے والوں کو راستے کے حصول کے لیے یہاں پر آباد آفریدی قبائل کو خراج دینا پڑا اور دنیا کو فتح کرنے والے بڑے بڑے فاتحین کو بھی یہاں سر جھکانا پڑا۔
تقریباً تمام مؤرخین نے آفریدی قبائل کو وہ بلائیں لکھا ہے جو جنگ سے محبت کرتے ہیں اور یہی محبت ان کے دشمن کی بدترین شکستوں کا باعث بنتی رہی۔
غیر ملکی اور مقامی لکھاری اس بات پر متفق ہیں کہ جتنے زیادہ حملے درّہ خیبر پر ہوئے اتنے شاید ہی دنیا کے کسی شاہراہ یا گزر گاہ پر ہوئے ہوں گے۔
دنیا کا یہ مشہور درّہ خیبر پشاور سے 11 میل کے فاصلے پر یہاں بنے تاریخی دروازے باب خیبر سے شروع ہوتا ہے اور یہاں سے اندازاً 24 میل یعنی طورخم کے مقام پر پاک افغان سرحد پر ختم ہوتا ہے جہاں سے لوگ ڈیورنڈ لائن عبور کر کے افغانستان میں داخل ہوتے ہیں۔
باب خیبر اور طورخم کے بیچ کا یہ علاقہ یہاں کسی بھی بری نیت سے آنے والے کے لیے خطروں سے اتنا بھرپور ہے جس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی، یہی وجہ ہے کہ دنیا اور اس خطے میں فاتح کہلانے والا کوئی حکمران اس درّے اور اس کے مکینوں کو قابو نہیں کر سکا۔
درّہ خیبر کا جغرافیہ اور جنگی حیثیت
اس راستے کے دونوں طرف تقریباً ڈیڑھ ہزار فٹ اونچی پہاڑی چٹانیں اور ان کے بیچ ناقابل دریافت غار واقع ہیں۔ یہ درّہ یہاں کے لوگوں کے لیے جنگی لحاظ سے ایک ایسا قدرتی حصار ہے جسے دنیا کے کسی جنگی ہتھیار سے فتح نہیں کیا جا سکتا۔
اس کا سب سے خطرناک حصہ تاریخی علی مسجد کا مقام ہے جہاں پر یہ درّہ اتنا تنگ ہوجاتا ہے کہ اس کی چوڑائی صرف چند میٹر رہ جاتی ہے اور یہی وہ جگہ ہے جہاں کی پہاڑی چوٹیوں پر چھپے چند قبائل بھی سینکڑوں فٹ نیچے راستے سے گزرنے والے ہزاروں فوجیوں کے لیے قیامت بپا کرتے تھے اور اُنھیں زچ کرکے پسپا ہونے پر مجبور کر دیتے تھے۔ یہاں تک کہ اُنھیں لاشیں اٹھانے کے لیے بھی ان قبائل کی بات ماننی پڑتی تھی۔
’موت کی وادی کا دروازہ‘
پشاور شہر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تحصیل جمرود میں بنے اس دروازے کو اگر دشمن کے لیے موت کی وادی کا دروازہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔
اس دروازے سے ہی پورے درّہ خیبر کی اہمیت اجاگر ہو جاتی ہے۔ سابق صدر پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور حکومت میں یہ دروازہ بنایا گیا۔ جون 1963 میں مکمل ہونے والے اس دروازے کی تعمیر اس وقت کے کیمبل پور اور آج کے اٹک کے دو مستریوں گاما مستری اور اُن کے بھتیجے صادق مستری نے کی۔
یہ تعمیر تقریباً دو سال میں مکمل ہوئی۔ اس دروازے پر مختلف تختیوں پر ان حکمرانوں اورحملہ آوروں کے نام نصب ہیں جنھوں نے اس راستے کو استعمال کیا۔
اس دروازے کے قریب بحری جہاز نما قلعہ سکھ جرنیل ہری سنگھ نلوہ نے تعمیر کروایا تھا تاکہ درہ خیبر پر نظر رکھنے کے لیے فوجی یہاں رکھے جا سکیں۔
اس علاقے کی زیادہ تر آبادی آفریدی قبیلے کی ذیلی شاخ کوکی خیل سے تعلق رکھتی ہے۔
سکندرِ اعظم کی پسپائی
’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا
قسطیں
مواد پر جائیں
پروفیسرڈاکٹر اسلم تاثیرآفریدی خیبر سے متصل ضلع اورکزئی میں گورنمنٹ ڈگری کالج غلجو کے پرنسپل ہیں اور یہاں کی تاریخ پر اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ایران کو فتح کرنے کے بعد پختونوں کے صوبے گندھارا کا قصد کرنے والے سکندرِ اعظم کی فوجوں کو اسی درّہ خیبر پر سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور پھر اُنھیں اپنی ماں کی ہدایت پر راستہ بدلنا پڑا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ آفریدی قبائل کی اس سخت مزاحمت کی وجوہات جاننے کے لیے سکندرِ اعظم کی ماں نے اُنھیں ہدایت کی کہ اس علاقے کے چند مکینوں کو دعوت پر اس کے پاس بھیجا جائے۔
آفریدی قبائل کے یہ سردار سکندرِ اعظم کی ماں کے ساتھ بات چیت میں مصروف تھے جہاں پر اُنھوں نے ان سے سوال کیا کہ آپ میں سے سردار کون ہے۔
اس پر ہر کسی نے اس بات کا دعویٰ کیا کہ وہی سردار ہے اور یہ سب آپس میں الجھ پڑے۔ یہیں پر سکندرِ اعظم کی ماں کو احساس ہو گیا کہ یہ لوگ جب اپنوں میں سے کسی کو خود سے بڑا ماننے کو تیار نہیں تو وہ سکندرِ اعظم کو کیا مانیں گے۔
ماں نے بیٹے کو نصیحت کی کہ وہ ہندوستان جانے کے لیے درّہ خیبر کے راستے کا خیال دل سے نکال لے، یوں سکندرِ اعظم کو اپنا راستہ بدلنا پڑا اور وہ باجوڑ کے راستے اپنی منزل کی طرف چلے۔
سکندرِ اعظم کے آج کے پاکستان کے علاقوں میں داخلے کے حوالے سے سابق انگریز گورنر سر اولف کیرو نے اپنی کتاب ’پٹھان‘ میں لکھا ہے کہ سکندر پشاور میں داخل نہیں ہوسکا اور اس نے جو دریا عبور کیے وہ کوس یوسپلا اورگوریس تھے جن کے درمیان ایک پہاڑی چشمہ واقع تھا جو صرف کونٹر یعنی پنج کوڑہ کا بالائی حصہ ہوسکتا ہے جہاں سے آج کل ڈیورنڈ لائن گزرتی ہے اور اس نے آج کے باجوڑ کے ایری گایوں کے مقام نواگئی کا راستہ اختیار کیا۔
بدھ مت کے بڑے آثار
معروف صحافی اللہ بخش یوسفی اپنی مشہور کتاب تاریخ آفریدی میں لکھتے ہیں کہ درّہ خیبر کے علاقے میں بڑی تعداد میں بدھ مت سے متعلق بہت زیادہ آثارِ قدیمہ نمودار ہوئے تاہم اپنے اعتقادات کی بدولت پختون ان مورتیوں کے خلاف تھے اور اُنھیں توڑ دیا کرتے تھے۔
اسی علاقے میں لنڈی خانہ کے قریب ایک پہاڑ پر عہد قدیم کی ایک قلعہ نما عمارت ہے جسے یہاں کےآفریدی ’کافر کوٹ‘ کے نام سے جانتے ہیں۔
اللہ بخش یوسفی لکھتے ہیں کہ سطان محمود غزنوی نے ہندوستان پر حملوں میں پختونوں سے دشمنی مول لینے کے بجائے ان پر اعتماد کیا اور اُنھیں اپنا فخر کہہ کر متعارف کرواتے۔
جن سرداروں نے محمود غزنوی کے ساتھ جنگوں میں حصہ لیا ان میں ملک خانو، ملک عامو، ملک داور، ملک یحییٰ، ملک محمود، ملک عارف، ملک غازی، ملک شاہد اور ملک احمد وغیرہ شامل ہیں۔ محمود غزنوی نے سومنات کو فتح کیا تو پختون بے جگری سے لڑے اور اس طرز لڑائی نے اُنھیں پختونوں کو خان کا نام دینے پر مجبور کیا اور کہا کہ صرف پختون ہی خان کہلانے کے لائق ہیں۔
مؤرخین لکھتے ہیں کہ ہندوستان فتح کرنے کی خواہش میں جب ظہیرالدین بابر اپنی طاقت کے بھروسے پر خیبر کی طرف چلے تو آفریدی اُن کے راستے میں لوہے کی دیوار بن گئے اور بابر کو یہ سمجھ آ گئی کہ طاقت کے بل پر وہ درّہ خیبر کو عبور نہیں کر سکتے اور اگر ایسا ہووبھی گیا تو اُنھیں افغانستان کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے ہمیشہ اپنے عقب کے غیر محفوظ ہونے کی فکر لاحق رہے گی۔
لہٰذا اپنے آپ کو مضبوط کرنے کے بعد اُنھوں نے ایک بار پھر 1519 میں دوبارہ خیبر کو فتح کرنے کی ٹھانی۔ ظہیرالدین بابر کو سخت لڑائی کے بعد صرف ایک رات علی مسجد میں گذارنے کا موقع مل سکا۔ وہ جمرود تو پہنچ گئے لیکن اُنھیں خیال آیا کہ اگر وہ پنجاب جاتے ہیں تو ایسا نہ ہو کہ واپسی پر یہ قبائل اُن کی راہ کاٹ لیں۔
سکھ حکومت
سکھ حکمران رنجیت سنگھ کو یقین تھا کہ پختونوں پر اقتدار قائم رکھنے کے لیے کسی مضبوط ہاتھ کی ضرورت تھی، اس لیے سکھوں کے مشہورترین انتظامی جرنیل ہری سنگھ نلوہ کو بھاری لشکر کے ساتھ پشاور کا انتظامی افسر مقرر کیا گیا۔
ہری سنگھ نے پختونوں کو تو پریشان کیا تاہم وہ قبائلیوں کا کچھ نہ بگاڑ سکے اور ان قبائل کے اقدامات کی بدولت خود رنجیت سنگھ پر ان کی دہشت طاری ہوگئی۔
اسی دہشت کا اثر تھا کہ ان قبائلیوں کے حملوں سے بچنے کے لیے ہری سنگھ نلوہ نے باب خیبر کے مقام یعنی درہ خیبر کے دہانے پر قلعہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا اور 1836 میں اس پر کام کا آغاز ہوا۔
یہ بھی پڑھیے
یوں تو سکھوں نے یہ قلعہ قبائل کے حملوں سے بچنے کے لیے بنایا تھا تاہم افغانستان کے امیر دوست محمد خان نے اسے اپنے خلاف عزائم کا نشان سمجھا اور سکھ فوجوں پر حملہ آور ہوگئے جہاں پر ہری سنگھ نلوہ مارے گئے۔
انگریز سرکار سے مواجب کا حصول
انگریز سکھ لشکر کے افغانستان میں قیام کے وقت یہ ضروری تھا کہ ان کے پیچھے واپسی کا راستہ یعنی درہ خیبر کھلا رہے لیکن یہ آفریدی قبائل کو مواجب یعنی معاوضہ دیے بغیر ممکن نہ تھا۔
انگریزوں کو بھی پتہ تھا کہ آفریدیوں کو مواجب نہ ملا تو وہ خود بھی سکون سے نہ رہ سکیں گے، چنانچہ اُنھیں درّہ خیبر میں سکون رکھنے کے لیے آفریدیوں کو سالانہ ایک لاکھ 25 ہزار روپے مواجب دینا پڑا۔
افغانستان میں دو سال تک قیام کے بعد جب انگریزوں کو شکست ہوئی تو وہ اپنی حلیف فوج یعنی سکھوں کو لے کر واپس روانہ ہوئے تاہم درّہ خیبر کے اندر آفریدی قبائل نے اُن کے ساتھ ایسا سلوک کیا کہ اُن کے چودہ طبق روشن ہوگئے۔
درّہ خیبر کے اندر علی مسجد کے مقام پر انگریزوں کی توپیں اور بندوقیں سب کچھ آفریدی قبائل نے چھین لیا۔
ان آفریدی قبائل کے ساتھ معاہدوں کی رو سے ان قبائل کو تحفظِ راہ اور قیام امن وغیرہ کے لیے یہ رقوم دی جاتی ہیں جسے مقامی زبان میں مواجب کہتے ہیں۔
یہ رقوم سال میں دو بار ادا کی جاتی ہیں اور اسے وصول کرنے والا فخر محسوس کرتا ہے۔ ایسے قبائلی ملک اور عمائدین بھی ہیں جو ان قبائلی علاقوں سے دور رہتے ہیں اور اکثر اوقات اُنھیں اپنے حصے کے مواجب کے چند روپوں کو لینے کے لیے ہزاروں روپے خرچہ کرنا پڑتا ہے تاہم وہ اس خراج سے دستبردار نہیں ہوتے۔
حکومتیں ان قبائلی عمائدین کو احترام کے طور پر لنگی (دستار) کے نام سے بھی رقم ادا کرتی ہے۔
آفریدی کب سے یہاں ہیں؟
پروفیسر ڈاکٹر اسلم تاثیر آفریدی کہتے ہیں کہ ان آفریدیوں کی اس علاقے جمرود سے لے کر تیراہ اور چورہ تک موجودگی اور ان کے لیے جلال آباد سے پاکستان کے موجودہ شہر مردان تک ایک پختون ریاست بھی قائم کی گئی تھی جس کے بنانے والے بایزید انصاری یا پیر روخان تھے اور اس میں وزیرستان کے علاقے بھی شامل تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ ہندوستان کی زراعت اور سرسبز و شادابی ہی کی وجہ سے اسے سونے کی چڑیا سمجھا جاتا تھا اور اس لیے فاتحین نے ہمیشہ اس پر قبضہ کرکے اسے زیرِ نگیں کرنا چاہا اور ان فاتحین نے گندھارا یعنی پختونوں کے صوبے کا راستہ اختیار کیا جہاں پر درّہ خیبر ان کے راستے کی سب سے بڑی دیوار بنا۔
وہ کہتے ہیں کہ باب خیبر کے ارد گرد کے علاقے میں قریبا 29 لڑائیاں خود ارد گرد کے مختلف قبائل کے مابین لڑی گئیں جس میں سکھوں، انگریز اور خود قبائل کے بیچ یہ جنگیں ہوئیں۔
آفریدی قبائل کی یوں تو اور بھی کئی شاخیں ہیں لیکن ہر شاخ الگ الگ علاقے میں آباد ہے۔ ان کی سب سے بڑی شاخ کوکی خیل باب خیبر سے لے کر درّہ خیبر اور پھر تیراہ کے بڑے علاقے میں آباد ہے۔
اس قبیلے کے ملک عطااللہ جان کوکی خیل کے بھتیجے اکرام اللہ کوکی خیل کا کہنا ہے کہ جمرود کا کنٹرول لینے کے لیے ان کے قبیلے کی مدد تہکال کے ارباب سرفراز خان نے کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ جہاں دنیا کے ہر حصے سے آنے والے جنگجوؤں نے اس علاقے کو فتح کرنا چاہا، وہیں پر اس علاقے میں اپنے قبائل کے مابین بھی اقتدار اور زمین کے لیے رسّہ کشی جاری رہی جس میں دشمنوں کے علاوہ اپنوں نے بھی کردار ادا کیا۔
تاہم وہ کہتے ہیں کہ اب کافی عرصے سے علاقے میں امن ہے اور تمام قبائل اپنی اپنی حدود میں پُرامن زندگی گزار رہے ہیں۔
No comments:
Post a Comment