پاکستان کی تاریخ کے وہ اوراق جو ہمیں کتابوں میں نہیں پڑھاۓ جاتے۔
قیامِ پاکستان کے کچھ عرصے بعد سردار عبدالرب نشتر نے ایوب خان کے بارے میں ایک فائل قائد اعظم کو بھجوائی تو ساتھ نوٹ میں لکھا کہ ایوب خان مہاجرین کی بحالی اور ریلیف کے بجائے سیاست میں دلچسپی لیتا ہے
اس پر قائد اعظم نے فائل پر یہ آرڈر لکھا:
’’ میں اس آرمی افسر (ایوب خان) کو جانتاہوں۔ وہ فوجی معاملات سے زیادہ سیاست میں دلچسپی لیتا ہے ۔ اس کو مشرقی پاکستان ٹرانسفر کیا جاتا ہے۔ وہ ایک سال تک کسی کمانڈ پوزیشن پر کام نہیں کرے گا اور اس مدت کے دوران بیج نہیں لگائے گا۔ ‘‘
بحوالہ:
کتاب: قائد اعظم بحیثیت گورنر جنرل
مصنف: قیوم نظامی
قائد اعظم کا ایوب خان کے بارے میں غصہ بعد میں بھی ٹھنڈا نہ ہوا اور جب وہ ڈھاکہ گئے اور انھیں فوجی سلامی دی گئی تو انھوں نے ایوب خان کو اپنے ساتھ کھڑے ہونے سے روک دیا۔
بحوالہ:
کتاب: گوہر گزشت
مصنف: الطاف گوہر
دراصل تقسیم کے زمانے میں امرتسر میں ہندومسلم فسادات پر قابو پانے کے لیے ایوب خان کو ذمہ داری سونپی گئی تھی مگر وہ وہاں جا کر مہاراجہ پٹیالہ کی محبوبہ پر عاشق ہو گئے اور اپنا بیشتر وقت اسکے ساتھ گزارنے لگے اور فسادات پہ کوئی توجہ نہیں دی۔ جس پر قائد آعظم نے سزا کے طور پر انکو ڈھاکہ بھیجا تھا۔
بحوالہ:
کتاب: گوہر گزشت
مصنف: الطاف گوہر
اپنی اس تنزلی پر ایوب خان بہت رنجیدہ ہوئے اور انہوں نے قائد آعظم کے احکامات کے برخلاف اسوقت کے فوجی سربراہ سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اس حوالے سے انہوں نے اپنے دوست بریگیڈیئر شیر علی خان پٹودی سے مدد مانگی۔ شیر علی خان پٹودی پہلی فرصت میں کراچی سے راولپنڈی گئے اور کمانڈر انچیف سر فرینک میسروی سے اپنے دوست کی سفارش کی لیکن بات بنی نہیں۔
بحوالہ:
کتاب: گوہر گزشت
مصنف: الطاف گوہر
لیکن بد نصیبی یہ ہے کہ جس ایوب خان سے قائداعظم اسقدر نالاں تھے اسی ایوب خان کو لیاقت علی خان نے اسوقت کے سینئرترین جنرل، جنرل افتخار پر فوقیت دے کر فوج کا سربراہ بنا دیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس حوالے سے بھی انکے دوست بریگیڈیئر شیر علی خان پٹودی اور دیگر رفقاء نے اہم کردار ادا کیا۔
اور بد نصیبی دیکھئے، وہی ایوب خان پاکستان کا پہلا مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنا اور پاکستان پر گیارہ سال گک حکومت کرتا رہا۔
بحوالہ:
کتاب: The Crossed Sword
مصنف: شجاع نواز
قائد آعظم خاص جمہوری انداز میں مملکت چلانا چاہتے تھے۔ اور اسی حوالے سے کسی کی مداخلت پسند نہیں کرتے تھے۔ اس حوالے سے قائد اعظم نے ایک اور فوجی افسر اکبر خان کے مشوروں سے زچ ہو کر اس سے کہا تھا کہ آپ کا کام پالیسی بنانا نہیں، حکومت کے احکامات کی تعمیل کرنا ہے۔
اور بعد زاں وہی جنرل اکبر لیاقت علی خان کے خلاف بغاوت کے جرم میں گرفتار ہوا اور تقریباََ پانچ سال جیل میں رہا
اور بد نصیبی دیکھئیے، عدالت سے غداری کی سزا کاٹنے والے، اسی جنرل اکبر کو 1973 میں بھٹو صاحب، قومی سلامتی کونسل کا رکن نامزد کر دیتے ہیں
بحوالہ:
کتاب: قائد اعظم بحیثیت گورنر جنرل
مصنف: قیوم نظامی
بانی پاکستان جون 1948 میں سٹاف کالج کوئٹہ گئے تو وہاں گفتگو کے دوران انکو اندازہ ہوا کہ اعلیٰ فوجی افسران اپنے حلف کے حقیقی معنوں سے واقف نہیں ہیں۔ اس موقع پر انھوں نے اپنی لکھی ہوئی تقریر ایک طرف رکھ کے فوجی افسران کو یاددہانی کے طور پر ان کا حلف پڑھ کر سنایا، اور انہیں احساس دلایا کہ انکا کام حکم دینا نہیں صرف حکم ماننا ہے۔
بحوالہ:
کتاب: قائد اعظم بحیثیت گورنر جنرل
مصنف: قیوم نظامی
بعد کے ادوار میں فوجی جرنیلوں نے اس حلف کی اتنی خلاف ورزی کی کہ ائیر مارشل اصغر خان کو لکھنا پڑا کہمیری تجویز ہے کہ اگر ہم پر جرنیلوں ہی نے حکمرانی کرنی ہے تو یہ الفاظ حلف سے حذف کردیے جائیں: ’’ْمیں کسی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں، خواہ ان کی نوعیت کچھ بھی ہو، حصہ نہیں لوں گا۔‘‘
بحوالہ:
کتاب: جنرل اور سیاست
مصنف: اصغر خان
جنرل گریسی جب اپنے پیشہ ورانہ دورے پر لاہور گئے تو کرنل ایوب کو دیکھا اور بلا کو پوچھا کہ "آپ کو تو ڈھاکہ میں رپورٹ کرنی تھی تو آپ یہاں کیا کر رہے ہیں"جس پر ایوب خان نے کہا کہ وہ کراچی لیاقت علی خان سے ملنے جا رہے ہیں۔۔اس پر جنرل گریسی نے ایوب کے کورٹ مارشل کے آرڈر کیئے اور انہیں اپنے ساتھ کراچی لے آئے۔
بحوالہ میموریز آف اے سولجر ۔۔جنرل وجاہت حسین"سیکریٹری جنرل گریسی"
حاصلِ کلام:
جس دن ہم نے اپنی نئ نسل کو پاکستان کی اصل تاریخ پڑھانا شروع کردی اسی دن سے پاکستان ترقی کرنا شروع کر دے گا۔
No comments:
Post a Comment