رانڈ، بیوہ
اردو زبان میں بھی بیوہ کے لیے محاورات موجود ہیں
رانڈ کے اردو معنی ، بیوہ عورت، تحقیراً عورت، جوان عورت، حقارتاً (عورت) اور خوبصورت عورت کے ہیں۔ وہ عورت جس کا شوہر مرجائے۔ گالی کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔ کوسنے کے طور پر مستعمل کلمہ طنز و تحقیر۔
دولتمند بیوہ کا آدھا سہاگ سلامت رہتا ہے ۔1
جس کی بیٹی رانڈ ہوگئی اس کا جنم بگڑگیا۔2
جوان رانڈ بوڑھے سانڈ۔3
چلے رانڈ کا چرخہ اور برے کا پیٹ۔4
رانڈ اور کھانڈ کا جوبن رات کو۔5
رانڈ بیٹی مرگئی جنم سدھر گیا۔6
رانڈ روو کواری رووے ساتھ لگی ست خصمی۔7
رووےرانڈ رہے جو رنڈوے رہنے دیں۔8
اس سے ملتا جلتا ایک اور بھی ہے کہ ’’رنڈی تو بسنا چاہتی ہے، مشٹنڈے نہیں بسنے دیتے‘‘۔
ان ملے کے قیاگی رانڈ ملے بیراگی9
رانڈ کا سانڈ10
رانڈ کا سانڈ ، سَوداگَر کا گھوڑا کھاوے بَہُت ، چَلے تھوڑا11
رانڈ کا سانڈ اور سوداگر کا گھوڑا جو کھاوے تو بہت مگر چلے تھوڑا تھوڑا
باؤلی کھاٹ کے باؤلے پائے۔ باؤلی رانڈ کے باؤلے جائے12
رانڈ سانڈ بھانڈ بگڑے ہوئے برے13
رانڈ سانڈ سیڑھی سنیاسی ان سے بچے تو سیوے کاشی14
رانڈ کا سانڈ چھنال کا چھنڑا15
(مجازاً) رانڈ کی اولاد ،بے پروا ، نڈر ، بے باک ،فکر و غم سے آزاد .جوان خوب صورت جورو کو چھوڑ کے ڈھونڈتا پھرتا ہے
، موا رانڈ کا سانڈ ۔16
(۱۸۹۴، کامنی ، ۲۶)
وہ ان خوش نصیبوں میں تھا جو اپنی روزی کے لئے خود محنت نہیں کرتے بلکہ دوسروں کی محنت پر رانڈ کے سانڈ کی طرح پلتے ہیں۔ (۱۹۸۲، کیمیاگر،۳۸)
2) جاہل ، کم فہم (محاورات ہند)۔ حضرت ہم نے بھی دنیا دیکھی ہے۔ جھجو جھونٹوں میں عمر نہیں گزری ،رانڈ کے سانڈ بن کر نہیں رہے۔
(۱۹۴۳، دلی کی چند عجیب پستان۔۷۷)
ملا دے سیر بھر دودھ اس میں اور کھانڈ، کہ ہے چالیس سن میں رانڈ کا سانڈ
(۱۸۹۵، فرسنامہْ رنگین .۱۱).
پہلے ہی چھاچھ پی پی کے اور رانڈ کڑھی کھا کھا کے میری تو آنکھیں پیلی اور شاعری پتلی پڑ گئی ہےْ۔ ( یوسفی )
17[رانڈکڑھی: وہ کڑھی جو اپنے خصم کو کھا جائے یعنی جس میں پھلکیاں نہ ہوں]۔
رانڈ کڑھی (راجھستان والوں کی زبان میں بیوہ کڑھی) جس میں پکوڑے نہیں ڈالے جاتے۔
اشعار
جو رانڈ ہو کاجل کرے چویا چندن پر من دھرے18
چوڑی پہن مہندی کرے بر گردنش تلوار بہ
(جعفر زٹلی)
کہے گئی دغا دے کر ہمسنا رانڈ ہمیں کاں سوں خاوند کوں د یویں دانڈ19
(عبداللہ قیاسی)
رانڈ ہو گور کا یا منہ اری کمن دیکھے20
نوج غم سوت کا دنیا میں سہاگن دیکھے
(جان صاحب)
بندھاتی ہے تو رانڈ بیواؤں کی ہمت21
یتیموں سے کرتی ہے اظہار شفقت
(خمکدہ سرور)
چوٹ کرے ہے ایسی بھانت پھرے ہے جیسے کوئی سانڈ22
کون سا لیکھا جو کھا ہے کیسی ہے یہ نپوتی رانڈ
(انشا)
جو فرشتہ ہے مقرر باد پر23
اوس کو کیا جو رانڈ کا دِیوا بُجھا
(حسن علی)
الطاف حسین حالی کی نظم بیوہ کی مناجات
آٹھ پہر کا ہے یہ جلاپا
کاٹوں گی کس طرح رنڈاپا
اپنے پرائے کی دھتکاری
میکے اور سسرال پہ بھاری
سہہ کے بہت آزار چلی ہوں
دنیا سے بیزار چلی ہوں
دل پر میرے داغ ہیں جتنے
منہ میں بول نہیں ہیں اتنے
دکھ دل کا کچھ کہہ نہیں سکتی
اس کے سوا کچھ کہہ نہیں سکتی
تجھ پہ ہے روشن سب دکھ دل کا
تجھ سے حقیقت اپنی کہوں کیا
بیاہ کے دم پائی تھی نہ لینے
لینے کے یاں پڑ گئے دینے
خوشی میں بھی دکھ ساتھ نہ آیا
غم کے سوا کچھ ہات نہ آیا
ایک خوشی نے غم یہ دکھائے
ایک ہنسی نے گل ہی کھلائے
کیسا تھا یہ بیاہ نناواں
جوں ہی پڑا اس کا پرچھاواں
چین سے رہنے دیا نہ جی کو
کر دیا ملیامیٹ خوشی کو
رو نہیں سکتی تنگ ہوں یاں تک
اور روؤں تو روؤں کہاں تک
ہنس ہنس دل بہلاؤں کیوں کر
اوسوں پیاس بجھاؤں کیوں کر
ایک کا کچھ جینا نہیں ہوتا
ایک نہ ہنستا بھلا نہ روتا
میر انیس کے مرثیے
پوچھے گا مجھ سے آ کے جو کوئی کہ اے غریب
پُر خوں یہ کس کی لاش ہے بے یار و بے حبیب
سر پیٹ کر کہوں گی یہ ہے سانحہ عجیب
مجھ سا جہاں میں کوئی نہ ہوگا بلا نصیب
دولھا شہید ہو گیا تقدیر سو گئی
شب کو دلہن تھی صبح کو میں رانڈ ہو گئی
رونے لگی یہ کہہ کے جو وہ غیرتِ قمر
قاسم کا فرطِ غم سے تڑپنے لگا جگر
ناگاہ گھر میں دوڑ کے فضّہ نے دی خبر
بی بی غضب ہوا کہ بڑھی فوجِ بد گہر
اکبر رضا طلب ہیں قیامت ہے صاحبو
لو، اب جوان بیٹے کی رخصت ہے صاحبو
دولھا شہید ہو گیا تقدیر سو گئی
شب کو دلہن تھی صبح کو میں رانڈ ہو گئی
جس وقت کہ قتل ہوا وہبِ با وفا
بیوہ نے کی نہ آہ بجز شکرِ کبریا
ہر چند رانڈ ہونے کا صدمہ ہے جانگزا
رونے کی پر دلھن کے نہ آئی کبھی صدا
ماں اس جری کی زینبِ مضطر کے ساتھ ہے
زوجہ جو ہے وہ شاہ کی دختر کے ساتھ ہے
رغہ میں آج صبح سے ہیں سرورِ امم
فرصت نہیں ہے لاش اٹھانے سے کوئی دم
کیوں کر کہیں گے وہ کہ سدھارو سوئے عدم
بیٹی کے رانڈ ہونے کا صدمہ، تمھارا غم
دیتے نہیں رضا جو شہِ کربلا تمھیں
میں اب دلائے دیتی ہوں اذنِ وغا تمھیں
گر ہے دلہن کی فکر تو بے جا ہے یہ خیال
ہر رنج و غم میں رانڈوں کا حافظ ہے ذوالجلال
صابر ہے دکھ میں، درد میں، خیر النساء کا لال
کُھلنے کا سر کے غم ہے نہ کچھ قید کا ملال
راضی رہیں حُسین، رضا ذوالمنن کی ہو
کنگنا ہو یا رسن میں کلائی دلہن کی ہو
دھوکہ دیتے ہیں اُجلے پیراہن
راہ میں کھلتا پھول بیوہ کا جوبن
(امجداسلام امجد)
مجھے بے وارثا کرکے سدھارے
مجھے بیوہ بنایا تم نے پیارے
(شایاں)
ہر بیوہ عباس کو وقفہ ہوا دشوار
چلائی جو کہنا ہو وہ کہ جلد سِتمگار
(دبیر)
پنجابی محاورہ بھی مطلقہ سے شادی کی ممانعت کرتا ہے خواہ وہ حور شمائل ہی کیوں نہ ہو ۔
24
راہوں کُراہ نہ چلیے بھانویں دور ہووے
تے چُھٹَڑ نہ کرئیے بھانویں حور ہووے
[جانے پہچانے راستے سے ہٹ کر مت چلو خواہ وہ دُور پڑتا ہو یعنی طویل ہو اور مطلقہ سے شادی مت کرو خواہ وہ حُور ہو
]
No comments:
Post a Comment