اما م بخاری پیدا ہوئے تو نابینا تھے"
میں چونکی اورسیدھی ہو کر بیٹھ گئی،کیوں کہ میرے ایک بیٹے کی آنکھوں میں بھی ایک بڑا مسئلہ تھا جو کسی ڈاکٹر سے حل نہیں ہو رہا تھا ۔
”آپ جانتے ہیں کہ امام بخاری کون تھے؟“
”ہونہہ،ہو گئیں مولویانہ باتیں شروع ،انہی گھسی پٹی باتوں کو سنانے کے لیے یہ زینت مجھے یہاں گھسیٹ لائی ہے، پتا بھی ہے کہ میں ان مولویوں کی باتوں پر یقین نہیں کرتی مگر خود بھی ملانی بن رہی ہے اور میرا بھی ٹائم خراب کررہی ہے۔ “
میں نے قریب بیٹھی زینت کوغصے سے گھور تے ہوئے زیر لب کہا، جو گردو پیش سے بے نیاز بیان میں منہمک تھی ۔
مولاناکا لہجہ نہایت نپا تلا تھا ، لیکن میرے ذہن میں مولویوں کی ایک مخصوص متعصبانہ تصویر بنی ہوئی تھی جس کی وجہ سے میں ان کی کسی بات سے متاثر نہیں ہو سکتی تھی۔
”امام بخاری حدیث کے وہ استاد ہیں کہ جن کی کتاب ”بخاری شریف “ پڑھے اور سیکھے بغیر کوئی عالم نہیں بن سکتا.... “
”اچھا اتنی بڑی کتاب ہے بخاری شریف ! ہمیں توالہدیٰ کے کورس میں اس کتاب کا تھوڑا سا تعارف کروایا گیا تھا کہ اچھی کتاب ہے، اس کامطالعہ کرتے رہنا چاہیے....اچھا اس کا مطلب ہے کہ یہ مولانا بھی بخاری شریف پڑھے ہوئے ہیں۔“میں نے خود کلامی چھوڑی اور بیان سننے میں مگن ہو گئی۔
”امام بخاری پیدائشی نابینا تھے، یعنی انہیں آنکھوں سے نظر نہیں آتا تھا۔ ان کی ماں کو اس کا بے حد غم تھا، وہ بہت روتی تھیں، لیکن ہماری طرح عاملوں کے پاس نہیں بھاگی پھرتی تھیں، بلکہ سبب کے درجے میں انہوں نے اس وقت کے سارے رائج علاج بھی کروائے جو ناکام ہو گئے اوراس فاعل حقیقی اور مسبب الاسباب کے سامنے روتی بھی رہیں، گڑگڑاتی رہیں.... “
”ان مولویوں کو دیکھو ،جس کو چاہیں رلا دیں.... “ میں نے سر ہلایا۔
”دو برس کے بعد ان کی والدہ کو خواب آیا....“
”خواب گھڑنا تو کوئی ان سے سیکھے !“ سوال جواب ختم ہی نہیں ہو رہے تھے۔ میں نے سر جھٹکا اور تعو ذ پڑھنے کی کوشش کی۔
”خواب میں انہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زیار ت ہوئی، ان کی ماں کو مخاطب کر کے خلیل اللہ نے فرمایا :
”قد رد اللہ بصر ولد ک....“
”اللہ نے تیرے بیٹے کی بصارت واپس لوٹا دی۔“
مولانا کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگئے۔ چاروں طرف سے سبحان اللہ سبحان اللہ کی صدائیں آنے لگیں۔ میرے دل پر ایک چوٹ سی لگی۔ گود میں سوئے ہوئے چار سالہ احمد کے معصوم چہرے پر نظر پڑی اور اسی لمحے میرے منطقی دل کی ساری منطق گویا بھاپ بن کر اڑ گئی۔ میرا ممتا بھرا دل بے اختیار بھر آیا اور پھر دل سے آواز ابھری۔
”تم اس کی آنکھیں اپنے اللہ سے واپس لے سکتی ہو ؟“
اس جملے کی گونج اتنی تھی کہ میں بیان سننا بھول گئی۔ پتا نہیں مولانا نے اور کیا کچھ کہا ، مگر میری نظریں اپنے احمد کے معصوم سے چہرے پر جم کر رہ گئی تھیں۔
20مئی 2007ء کو احمد پیدا ہوا تھا۔ سارے خاندان میں خوشیاں منائی گئیں تھیں۔ ڈھول دھمکے نے پورے علاقے کو سر پر اٹھا لیا تھا۔ پورے علاقے میں ہم نے مٹھائیاں تقسیم کی تھیں، لیکن جب احمد تھوڑاسا بڑا ہوا تو انکشاف ہوا کہ احمدکی خوبصورت آنکھیں بینائی سے محروم ہیں ۔ ہم نے آغا خان میں پاکستان کے سب کے بڑے آئی اسپیشلسٹ ڈاکٹر اعظم علی کو دکھایا ۔
”ڈاکٹر اعظم علی کا رزلٹ سو فیصد ہے ....ان کے علاج سے ضرورآرام آجائے گا ۔ “میرے ساتھ ویٹنگ روم میں بیٹھی ایک عورت نے بتایا ۔
”اچھا....!! “میں صرف اتنا ہی کہہ سکی، کیوں کہ میرے ضبط کے بندھن ٹوٹنے لگے تھے۔
”باجی! رو مت ، اللہ خیر کرے گا۔“
”اللہ تو خیر ہی کرتا ہے ،لیکن میرے بیٹے کی بینائی معلوم نہیں کون سی خیر میں چلی گئی!“میں نے شکوہ کیا۔
”باجی! اللہ سے شکوہ نہیں کرتے ہوتے۔ “
”احمد علی.... “ نرس نے چیکنگ کے لیے پکارا تومیں احمد کو لے کر اندر چلی گئی۔اسے دوا پلا کر بے ہوش کیاگیا اور تقریبا ً دو گھنٹے چیک اپ ہوتارہا۔ دو گھنٹہ بعد ڈاکٹراعظم ہماری طرف آئے۔
” مجھے شدید افسوس ہے ،آپ کے بچے کی آنکھ کاپردہ پیدائشی طور پر بے جان ہے۔ “
یہ الفاظ تھے یا ایٹم بم تھا ۔میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور میں گر کر بے ہوش ہوگئی۔ مجھے نرسوں نے سنبھال کر بیڈ پر لٹا دیا۔
”سر !ہو سکتا ہے کہ....کہ آپ سے چیک اپ میں کوئی مسئلہ ہو گیا ہو!“یہ میرے شوہر کی آواز تھی۔
” بھائی! میں نے پندرہ برس آنکھ کے پردے پر کام کیا ہے، مجھے اتنا بھی نہیں معلوم ہو گا کہ پردہ زندہ ہے یا مردہ!؟ “ ڈاکٹر صاحب نے مشفقانہ لہجے میں کہا۔
”یعنی ....یعنی اب کچھ نہیں ہو سکتا؟“میرے شوہر نے کہا۔ان کی آواز بھی آنسوو ں سے بوجھل تھی۔
”آپ ایک سال بعد دکھائیں،یہ تھوڑا بڑا ہو گا تو پھر مزید دیکھیں گے ،مجھ سے جو ہو سکے گا ضرو ر کروں گا۔“ ڈاکٹراعظم یہ کہہ کر چلے گئے۔صاف لگ رہا تھا کہ انہوں نے طفل تسلی دی ہے۔ مجھے میرے شوہر وہیل چیئر پر ڈال کر گاڑی تک لائے۔ اس کے بعدبھی ہم نے بہت سے چھوٹے بڑے ڈاکٹروں کو دکھایا۔ ڈاکٹر ام محمد صاحبہ کو بھی دکھایا ۔ انہوں نے آبِ زمزم ڈالنے کا کہا ، مگر ایک برس ہو گیا، کچھ نہیں ہوا ۔
٭
” ہاں ....ہاں میں اس کی آنکھیں اپنے اللہ سے مانگوں گی....“
”کیا ہو گیا کومل ؟ کس سے باتیں کر رہی ہو؟ “
شوہر کی آواز سے میں چونکی۔مجھے پتہ ہی نہ چلا تھا کہ میں گاڑی میں خود سے باتیں کرنے لگی تھی۔
”کک ....کچھ نہیں۔“
”نہیں بھئی کچھ تو ہے! “شوہر نے اصرار کیا
”وہ دراصل زینت مجھے اپنے ساتھ ایک بیان میں لے گئی تھی۔“میں نے شوہر کو اصل بات بتانا شروع کر دیا۔
”تم اور بیان ....کس ملا کے بیان میں چلی گئی تھیں؟“انہوں نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
”پتا نہیں کون تھے؟“
”یہ ملاو ¿ں کے چکر میں مت پڑ و....“ میرے شوہر نے گاڑی کی رفتار بڑھاتے ہوئے کہا۔
”کوئی پاگل ہی اُن کے چکروں میں آئے گا....لیکن ایک کام کی بات انہوںنے بتائی ہے ....میرا اس پر عمل کا ارادہ ہے۔“ میں نے پرعزم لہجے میں کہا۔
”کیا بات کہہ دی ،جوتم جیسی ڈھیٹ کے دل میں اتر گئی۔“
”کوئی خاص نہیں بس ایک واقعہ سنایا تھا....“پھر میںنے امام بخاری والا واقعہ انہیں سنا دیا۔
وہ بھی باپ تھے۔ جب احمد کے حوالے سے انہوں نے یہ واقعہ سنا تو کچھ دیر خاموش رہے مگر اپنی عادت کے مطابق بولے:
”اپنا منہ دھو کے دعا مانگنا،وہ کوئی اور لوگ تھے جن کی اللہ سنتا تھا۔“
٭
اس کے بعد میری زندگی بالکل بدل گئی ۔ اپنے بچے کے لیے ، اس کی بینائی کی خیرات مانگنے کے لیے میں کس کس طرح نہ اپنے ربّ کے سامنے گڑ گڑائی۔ رات رات بھر تڑپی۔میں جو اپنی مخصوص تربیت و ماحول کی وجہ سے علماءکرام کا مذاق اڑایا کرتی تھی، ان کی کسی بات پر یقین کرنا تو دور کی بات تھی، مگر اس کے باوجود امام بخاری کا یہ واقعہ اس دن گویا میرے دل کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر گیا تھا۔ مجھے کامل یقین ہو گیا تھا کہ میں بھی امام بخاری کی والدہ کی طرح رو رو کر اللہ سے مانگوں گی تو ضرور میرے بچے کو روشنی ملے گی۔ میں روتی رہی، گڑگڑاتی رہی، یوں چھ ماہ گزر گئے ۔
اور.... پھر ایک دن بیٹھے بیٹھے اچانک میرے اندر ایک ابال سا اٹھااور پھر مجھ سے بیٹھا نہیں گیا۔ میں نے ہسپتال فون کر کے ایمرجنسی میں اپوائنٹ منٹ لیا اور پھر شوہر کو فون کیا۔
”سنیںجلدی سے گھر آ جائیں، ڈاکٹر کے پاس چلنا ہے.... “
”کس ڈاکٹر کے پاس؟“انہوںنے حیرت سے کہا۔
” ڈاکٹراعظم علی کے پاس اور کس کے پاس!“
”یہ اچانک کیا ہو گیا بیٹھے بٹھائے تمہیں؟ “
”چھوڑیں سب باتیں،بس ابھی گھرپہنچیں .... جلدی کریں ناںںں.... “شدت جذبات سے میری آواز بلند ہو گئی تھی۔ میرے اندر کی ممتا نے ایک جنون کی شکل اختیار کر لی تھی اور مجھے اپنے آپ پر کنٹرول نہیں رہا تھا۔
”ارے پاگل ہو گئی ہو کیا ،کوئی اپوائنٹ منٹ تو لیا نہیں، ایسے کیسے چلے جائیں؟“
اس بار انہوں نے نہایت نرمی سے مجھے سمجھانا چاہا۔ شاید وہ میری کیفیت بھانپ گئے تھے۔
”میں نے فون پر بات کر لی ہے کہ ہم آ رہے ہیں۔ ایمرجنسی میںدکھا نا ہے ۔ آپ آجائیں بس....“
یہ کہہ کر میں نے فون کاٹ دیا۔ میںنے جلدی سے احمد کو تیار کیا، عبایا اوڑھی اور زندگی میں پہلی مرتبہ نقاب لگایا۔ٹھیک بیس منٹ بعد گاڑی کے ہارن کی آواز سنائی دی۔میںنے احمد کوبے بی کاٹ میں لٹایا اور گیٹ سے باہر نکل گئی۔ مجھے دیکھ کر وہ حیرت سے گنگ ہو گئے۔تھوڑی دیر کے بعد بولے:
”تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے کیا؟ “
”ہاں.... “میں نے قدرے نارمل انداز میں مختصر جواب دیا۔ اب اندرونی ابال قدرے دب گیا تھا۔
”او حجن صا حبہ! یہ آج سورج کہاں سے نکلا ہے؟ “
میں چپ رہی۔ سارے راستے شوہر پوچھتے رہے کہ یہ بیٹھے بٹھائے تمہیں ہسپتال جانے کی کیا سوجھی مگر میں نے کچھ نہ بتایا اور بتاتی بھی کیا،بتانے کے لیے کچھ تھا ہی نہیں ۔میں خود اپنی کیفیت پر حیران تھی ۔ بس ایک انجانی سی قوت تھی جو مجھ سے یہ سب کام کروا رہی تھی۔
جیسے جیسے ہسپتال قریب آ رہا تھا، میری بے چینی پھر سے بڑھ رہی تھی۔
٭
”حیرت انگیز ،ناممکن ....امپاسیبل....“ ڈاکٹر صاحب کے لہجے میں حیرت گویا کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔
”کک....کیاہوگیاڈاکٹرصاحب؟ “میرے شوہر گڑبڑا گئے۔
”آپ کے بیٹے کی آنکھ کا پردہ سو فیصد زندہ ہو گیا ہے ،میری پوری زندگی کا یہ پہلا کیس ہے ....ایسا کبھی نہیں ہوا....آپ کو بہت بہت مبارک ہو، اللہ کا شکر ادا کریں، اللہ تعالیٰ نے آپ کے بیٹے کی آنکھوں کو روشنی دے دی ہے۔“
ڈاکٹر اعظم خوشی سے چہک رہے تھے۔ شاید اپنے نزدیک ایک ناممکن کو ممکن ہوتے دیکھ کر وہ بھی جذباتی ہو گئے تھے.... اور .... اور قاریات! ایک ماں کی ایسے وقت میں خوشی کی انتہاکو کون سمجھ سکتا ہے؟ شاید وہ ماں ہی سمجھ سکے، جس کا بچہ چارسال تک معذوری کی زندگی گزار کر اچانک صحت مند ہو جائے ۔میرے شوہرخوشی سے بے اختیار رونے لگے اور میرے تو خوشی سے حواس ہی مختل ہونے لگے۔ میری ہچکیاں بندھ گئیں۔ دنیا کا کوئی پیمانہ ایسا نہیں تھا، جو اس وقت میری خوشی کو ناپ سکتا۔ میرے اللہ نے اپنی ایک نہایت گناہ گار بندی کی لاج رکھ لی تھی۔ میرا تھوڑا سا رونا اس نے قبول کر لیا تھا اور میرے احمد کو اندھیروں کی جگہ جگمگاتی روشنیاں عطا کر دی تھیں۔
مجھے اپنی ٹوٹی پھوٹی دعاو ں کا صلہ میں 6 جون2012ء کوہی مل گیا تھا۔ ہماری ساری امیدوں کا محور و مرکز ایک اللہ تعالیٰ کی ہی ذات ہے، وہ جو اپنے بندوں پر بے انتہا مہربان ہے، ستر ماو ¿ں سے بھی زیادہ! بس اس سے پورے یقین کے ساتھ مانگنے کی ضرورت ہے۔
نوٹ:( یہ بالکل سچا واقعہ ہے جو
ہفت روزہ خواتین کا اسلام سے لیا گیا ہے)
No comments:
Post a Comment