Syed Mehdi Bukhari
میرا بچپن بھی ویسا ہی گزرا جیسے آپ میں سے اکثر کا گزرا ہو گا۔ گھر میں عبادات کی سخت تلقین اور محلے کی مسجد میں قاری صاحب سے قرآن پاک پڑھنے کو روز شام چار بجے جانا۔ قاری صاحب قرآن کو رٹا لگواتے اور باقاعدہ سُنتے اور تلفظ غلط ہونے پر ایسی ایسی سزا دیتے کہ ڈر کے مارے یاد ہوا سبق بھی بھول جاتا۔ یکدم بھاری ہاتھ منہ پر پڑتا۔پھر اس تشدد سے تنگ آ کر ابا نے مسجد بدلوا دی۔
محلے کی مسجد سے دور دوسرے محلے کی مسجد جانا شروع ہوا۔ وہاں قاری صاحب بہت بزرگ انسان تھے یعنی بوڑھے تھے۔ وہ بہت نرم انسان تھے۔ ہاں جھڑکتے ضرور تھے مگر شاذ و ناذر ہی مارتے تھے۔ اور جب مارتے تھے تو زیادہ سے زیادہ کمر پر جھانپڑ رسید کرتے تھے۔ البتہ مسجد کے صحن کی صفائی جھاڑو سے باقاعدگی سے کرواتے۔ ان دنوں پی ٹی وی پر بچوں کا ڈرامہ “عینک والا جن” نشر ہوا کرتا اور وہ بھی عین ساڑھے چار بجے۔ اس ڈرامے کے سبب کئی بار بہانہ کر کے چھُٹی مار لیتا۔ اماں ابا سے ڈانٹ تو پڑتی مگر قاری صاحب سے ڈانٹ کا ڈر نہیں ہوتا تھا۔ انہوں نے اگلے روز بس پوچھنا ہوتا تھا کہ کیوں نہیں آئے ؟ اور کوئی بھی بہانہ چل جایا کرتا تھا۔
شاید آج بھی یہ رواج ہو، ان دنوں رواج یہ تھا کہ بچہ جیسے ہی قرآن مجید ختم کرتا قاری صاحب کو ایک عدد سوٹ بمعہ مٹھائی بھجوائی جاتی۔ میں نے دو بار ختم کیا اور پھر قاری صاحب انتقال کر گئے۔ ان کے انتقال کی خبر جس دن ملی میں اتنا رویا کہ دو دن تک عینک والا جن بھی نہیں دیکھا۔ بس اداسی طاری رہی۔
پھر مجھے نئے قاری صاحب کے پاس جانا پڑا جو انتقال کے بعد آئے تھے۔ یہ قاری صاحب تھوڑے متشدد خیالات کے تھے حالانکہ مجھے اتنا شعور تو نہیں تھا مگر یہ سُن کر بُرا لگتا جب وہ درس دینے بیٹھ جاتے اور کبھی کسی فرقے کا نام لے کر ان کے اعمال کو شرک قرار دیتے تو کبھی کسی کی کلاس لگ جایا کرتی۔ وہ بچوں کے ذہن میں باتوں باتوں میں نفرت بھرتے رہے۔ اللہ کا کرنا یہ ہُوا کہ وہ زیادہ عرصہ نہ چل سکے اور نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر رخصت ہو گئے یا کر دئیے گئے۔
اس کے بعد میں محلے میں ایک خالہ کے ہاں ڈال دیا گیا جو گھر میں بچوں کو فی سبیل اللہ پڑھاتی تھیں۔ تیسری بار قرآن ان سے ختم کیا اور پھر گھریلو حالات کے سبب مجھے سب کچھ بھول کر سکول و گھر کو دیکھنا پڑا۔ بڑا ہوا تو جوانی کاوش روزگار کی نذر ہوتی گئی۔ عمر پچیس سال ہوئی تو ایک بار مجھے خود سے شوق ہوا کہ قرآن کو صرف ترجمے کے ساتھ پڑھوں۔ جیسے جیسے پڑھنا شروع کیا مجھے معلوم ہوا کہ تمام الہامی مذاہب کی بنیاد وہی بنیادی اخلاقیات ہیں جو قرآن بھی تعلیم کر رہا ہے۔ بچپن میں تو رٹا تھا۔ جوانی میں شعور تھا۔ میں نے اپنے ہاتھوں سے اس دور میں کچھ نوٹس بنائے تھے جو وقت کے ساتھ ضائع ہو گئے۔
میں کبھی بھی مذہبی آدمی نہیں رہا۔ مجھے یہ اقرار کرنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ میں نے عبادات یعنی نماز و روزہ میں بہت کوتاہی برتی ہے۔ نہ میرا مذہبی ہونے کا دعویٰ ہے اور نہ ہی میں نے اپنی امیج بلڈنگ کے واسطے مذہب کا لبادہ اوڑھا ہے۔ ایک دور ایسا بھی گزرا ہے جب میں مذہبی رجحانات سے یکسر باغی رہا ہوں اور مذہب کو ایک سائیڈ پر رکھ چھوڑا مگر کچھ باتیں ہمیشہ سے میرے ذہن میں رہی اور ان باتوں پر اس واسطے عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتا رہا کہ یہ بنی نوع انسان کے تمام مذاہب میں کم و بیش متفرق ہیں اور یہ بنیادی انسانی اخلاقیات ہیں۔ ان اصولوں کو توڑنا یا ان سے صرفِ نظر برتنا انسانیت کی توہین ہے۔ جانور اور انسان میں جو فرق ہے وہ انہی اصولوں کی بدولت ہے۔
زمانہ جیسے جیسے آگے بڑھ رہا ہے تمام مذاہب اس کی لپیٹ میں ہیں اور انسان مذاہب کی تعلیمات سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ انسان ترقی کر رہا ہے مگر انسانیت ترقی نہیں کر رہی۔ یہ کچھ نقاط قرآن حکیم سے پیش ہیں۔ مدعا میرا اتنا ہے کہ آپ جو چاہیں کریں کہ مذہب انسان کا انفرادی معاملہ ہے اور ہر انسان اپنے خدا کو خود جوابدہ ہے مگر ہو سکے تو ان نقاط کو ذہن میں رکھیں تاکہ زندگی انسانوں کی مانند بسر ہو سکے۔ان قرآنی احکامات کے کسی کو حوالے (آیات) چاہئے ہوں تو پوچھ سکتا ہے۔
۔گفتگو کے دوران بدتمیزی نہ کیا کرو
۔غصے کو قابو میں رکھو
۔دوسروں کے ساتھ بھلائی کرو
۔ تکبر نہ کرو
۔دوسروں کی غلطیاں معاف کر دیا کرو
۔لوگوں کے ساتھ آہستہ بولا کرو
۔اپنی آواز نیچی رکھا کرو
۔ والدین کی خدمت کیا کرو
۔والدین کی اجازت کے بغیر ان کے کمرے میں داخل نہ ہوا کرو
۔لین دین کا حساب لکھ لیا کرو
۔کسی کی اندھا دھند تقلید نہ کرو
۔اگر مقروض مشکل وقت سے گزر رہا ہو تو اسے ادائیگی کے لیے مزید وقت دے دیا کرو
۔سود نہ کھاؤ
۔رشوت نہ لو
۔وعدہ نہ توڑو
۔دوسروں پر اعتماد کیا کرو
۔سچ میں جھوٹ نہ ملایاکرو
۔انصاف کے لیے مضبوطی سے کھڑے ہو جایا کرو
۔مرنے والوں کی دولت خاندان کے تمام ارکان میں تقسیم کیاکرو
۔یتیموں کی جائیداد پر قبضہ نہ کرو
۔یتیموں کی حفاظت کرو
۔دوسروں کا مال بلا ضرورت خرچ نہ کرو
۔لوگوں کے درمیان صلح کراؤ
۔بدگمانی سے بچو
۔غیبت نہ کرو
۔جاسوسی نہ کرو
۔خیرات کیا کرو
۔غرباء کو کھانا کھلایا کرو
۔ضرورت مندوں کو تلاش کر کے ان کی مدد کرو
۔مہمانوں کی عزت کیا کرو
۔نیکی پہلے خود کرو اور پھر دوسروں کو تلقین کرو
۔صرف ان کے ساتھ لڑو جو تمہارے ساتھ لڑیں
۔کسی پر اس کی ہمت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو
۔کائنات کی تخلیق اور عجائب کے بارے میں گہرائی سے غور کرو
۔ اگر تم قدرت رکھتے ہو تو زمین و آسمان کو مسخر کر لو
۔ زمین پر پھرو تاکہ تم قدرت ملاحظہ کر پاؤ اور اس میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں
۔ بخیل نہ بنو
۔حسد نہ کرو
۔ قتل نہ کرو
۔فریب (فریبی) کی وکالت نہ کرو
۔گناہ اور زیادتی میں دوسروں کے ساتھ تعاون نہ کرو
۔اکثریت سچ کی کسوٹی نہیں
۔ چغلی نہ کھاؤ
۔جس چیز کے بارے میں علم نہ ہو اس پر گفتگو نہ کرو
۔کسی کی ٹوہ میں نہ رہا کرو
۔اجازت کے بغیر دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہو
۔زمین پر عاجزی کے ساتھ چلو
۔ہم جنس پرستی میں نہ پڑو
۔فیصلے مشاورت کے ساتھ کیا کرو
۔اسلام میں ترک دنیا نہیں ہے
۔غیر مسلموں کے ساتھ مہربانی اور اخلاق کے ساتھ پیش آؤ
۔لالچ سے بچو
۔جو دستِ سوال دراز کرے اسے نہ جھڑکو بلکہ حسب توفیق کچھ دے دو
No comments:
Post a Comment