February 25, 2022

Widow Express Her Sexual Views every one read for info

 
💏۔۔۔++18۔۔۔🔥   ❣خوش گوار ازدواجی زندگی کا حصول ۔۔

(57) یہ ایک حساس موضوع ہے۔ لیکن ہماری گھٹن زدہ فرسودہ غیر دینی فکر اور "غیرت" نے اس کو حادثہ اور سانحہ بنا دیا ہے۔ انسان کا جذباتی, نفسیاتی, انفرادی, جسمانی قتلِ عام:
۔۔۔ 50 سال کے قریب ایک خاتون نے رابطہ کیا اور پوچھا۔ چند سال پہلے میرے شوہر کا انتقال ہوگیا۔ ہم نے آپ کی طرح ایک مثالی زندگی گزاری۔ آپ میری بات سن لیں۔ جواب بعد میں دے دینا۔۔۔ میرے جسم کا ایک تقاضا ہے۔ اس سے میری اولاد بے خبر ہے۔ جب یہ کیفیت مجھ پہ طاری ہوتی ہے تو جسم سُن اور ہاتھ شل ہوجاتے ہیں۔
 میں 4, 5 دن کچھ کرنے کے قابل نہیں رہتی۔ ہر 3, 4 ماہ کے بعد اس تکلیف زدہ کیفیت سے گزرتی ہوں۔ 
ذہنی طور پہ ماؤف۔ کبھی خدا سے دل لگاتی ہوں۔ کبھی اس کے عذاب کا سوچ کے خود کو باز رکھتی ہوں۔ 
کبھی روحانی سیشنز اٹینڈ کرتی ہوں۔ پر قابو نہیں رہتا اور بے بس ہوجاتی ہوں۔
 معالجین کہتے ہیں کہ کم سے کم ماہواری کے 10 سال یہ اور چلے گا۔ مجھے اس کا حل بتائیے۔۔۔ 
 
☺ میں پروفیشنل کنسلٹنسی میں سن کے خاموش ہوجاتا ہوں, قوٰی معطل کر دیتا ہوں۔ تاکہ اب الہامی فکر کو قلب کے دریچوں سے اندر آنے کا موقع ملے۔ مجھے تمام پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوۓ جواب دینا تھا۔ ہماری روحانی و فقہی فکر میں یہ توسع موجود ہے۔ یہ شان دار لچک ہی اسے قیامت تک کے لیے زندہ فکر بناتی ہے۔۔
 ۔۔۔ جن کے ساتھ یہ آزمائش گزرتی ہے, ان میں سے کچھ کو ذرا صبر آ جاتا ہے۔ اللہ دے دیتا ہے۔ کچھ لوگ جن میں Sexual urge فطرتاً زیادہ ہوتی ہے, وہ شدید تناؤ کا شکار ہوجاتی ہیں۔ باقی اس سے بے خبر اور بعض اوقات ان کے رویے سے نالاں ہوتے ہیں۔۔۔ کچھ غیر فطری کنٹرول کی طرف جاتی ہیں۔ ڈاکٹر زینب نے بتایا کہ ایک خاتون کو ایسے ہی حالات میں چیک اپ کے بعد میں نے Examin کرنے اور الٹرا ساؤنڈ کی اجازت مانگی۔ رپورٹ میں مجھے نیلے رنگ کی کوئی چیز نظر آئی۔ میں حیران تھی۔ پتا چلا کہ خواہشِ نفسانی کو دبانے کے کے لیے اس نے دائی سے کوئی دوا اندر   رکھوائی ہوئی ہے۔ ایسوں کے لیے عرض ہے کہ:
♦اگر کوئی ضروری وجہ نہیں ہے تو اس کا فطری اور درست حل تو شادی ہے۔ اس بات پہ معاشرے سے ٹکرا سکتے ہیں تو ٹکرا جائیں۔ یہ عین جائز اور ضروری حق ہے۔ اگر گندا      ردعمل سنبھال سکتے ہیں تو لڑ جائیں۔ اولاد کو بھی عقل کو ہاتھ مارنا چاہیے۔ یہ ویدانتی فرسودہ گھاٹیوں سے نکل کے خیال کرنا چاہیے ورنہ اپنے محبوب والدہ/ والد کو تباہ کن نتائج کا سامنا کروانے کے ذمہ دار اور عند اللہ ماخوذ ہوں گے۔ اور یہ بات جوانی اور ادھیڑ عمر کے علاوہ بڑھاپے کے لیے بھی صحیح ہے
تم سے اک رسم تک نہیں ٹُوٹی                                                                                                                                                                        بات کرتے تھے تم ستاروں کی!
♦اگر خواہش کو کچھ کنٹرول کرنا چاہتے ہیں تو روزے رکھیں۔ اس کی حکمت یہ سمجھ آتی ہے کہ انسان نفسیاتی طور پہ خدا کے قرب کو شہوت کے آگے رکاوٹ بناۓ۔ ورنہ بھوک اشتہا بڑھا بھی دیتی ہے
♦یہ نہیں کرسکتیں تو ایسی خاتون خود لذتی اختیار کر سکتی ہیں۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ فقہی اور نفسیاتی ہر دو حوالوں سے۔ فقہا یا نفسیات دان اس کو فطری سمجھتے ہیں۔ بلکہ نہیں کریں گی تو قلبی, ذہنی, جسمانی, روحانی مسائل کا سامنا کریں گی, ہسٹریائی فٹس کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔ مردانہ حوالے سے بھی ہمارے بزرگ امام, احمد بن حنبل عام حالات میں بھی گناہ سے بچنے کے لیے اسے روا جانتے ہیں
♦کوئی Sex toys یا اس قبیل کی دیگر چیزیں استعمال کرنا چاہتی ہیں تو اس اضطراری کیفیت میں کر سکتی ہیں۔ کسی کو اعتراض کا حق نہیں۔ اس ابال کو عافیت سے گزارنے کے لیے ٹھنڈا کرنا ضروری ہے۔۔۔ یہ باتیں مردوں کے لیے بھی ہیں۔۔۔
۔۔۔ یہ قیاسی روشنی ان لوگوں کے لیے بھی ہے جن کا پارٹنر زندہ تو ہے لیکن ان کا آپسی جسمانی تعلق ختم یا معطل ہو چکا ہے۔ یا جن کی عمر دور ہوگئی پر تا حال کنوارگی ہے۔۔۔ معاملہ کی نازکیت اور شدت و گہرائی کے پیشِ نظر ہم نے ملک کے چوٹی کے ماہرین کو آن بورڈ لیا:
🌻صاحب زادہ محمد امانت رسول (فقیہ)
🌻عمار خان ناصر (فقیہ)
🌻ضیا ضرناب (پروفیسر, کنسلٹنٹ سائیکالوجسٹ) اور۔۔۔
🌻ذینب ملک (معالج, گائنا کولوجسٹ)
ہم چاہتے تھے کہ پوری ذمہ داری سے پیغام نشر کیا جاۓ۔ لوگوں کو اس اہم ترین حقیقی مسئلے میں گناہ کی نفسیات سے نکالا جاۓ۔ سوسائٹی کی ایک تلخ حقیقت کا سنجیدہ حل فراہم کیا جاۓ۔۔۔ خدا ہمیں مسکرا کے دیکھے اور کہے Weldon میرے سہارے پہ جینے والے, صرف مجھ پہ بھروسہ کرنے والے, شاباش۔۔۔ لکھنے کے بعد شکرانے کے دعائی حنائی ہاتھ ہم نے چہرے پہ پھیرے۔ امید ہے یہ تحریر کئی دکھیاروں کا تریاق ہوگی
نہیں ہے تاب تو پھر عاشقی کی راہ نہ چل                                                                                                                                            یہ کارزارِ جنوں ہے جگر نکال کے رکھ
سید ثمر احمد
لاہور
25 فروری, 2022
❣خوش گوار ازدواجی زندگی کا حصول ۔۔۔ 57
سید ثمر احمد❣

 

Relationship With Poor & Rich Neighbours - Relatives


🤔🤔🤔           نئی  نسل کے لیئے۔                      مانگنے کا انداز ؛ مانگتے رہا کریں
یہ واقعہ میرا نہیں ہے‘ میرے ایک دوست نے سنایا تھا اور اس نے بھی کسی اور سے سنا تھا لیکن یہ کمال ہے اور اس میں زندگی کا شان دار بلکہ شان دار ترین سبق چھپا ہے۔
سنانے والے نے سنایا‘ میں پڑھائی کے بعد لندن سے واپس آیا‘ سارا دن گھر پر پڑا رہتا تھا‘ ایک دن میری والدہ نے مجھ سے کہا‘دوڑ کر جائو اور ہمسایوں سے تھوڑا سا نمک مانگ کر لے آئو‘ میں نے حیرت سے ماں کی طرف دیکھا اور کہا’’امی جی آپ کل ہی نمک لے کر آئی ہیں‘ وہ کہاں گیا اور دوسرا اللہ کا ہم پر بڑا احسان‘ بڑا کرم ہے‘ ہم ہمسایوں سے نمک کیوں مانگ رہے ہیں؟‘‘
 

میری ماں نے ہنس کر کہا ’’تم پہلے نمک لے کر آئو‘ میں تمہیں پھر بتائوں گی‘‘ میں برا سا منہ بنا کر چلا گیا‘ ہمارا ہمسایہ بہت غریب تھا‘ اس کا دروازہ تک ٹوٹا ہواتھا‘ میں نے اس کی کنڈی بجائی‘ خاتون خانہ باہر آئی‘ میں نے اسے سلام کیا اور بتایا‘ میں آپ کے ہمسائے خواجہ صاحب کا بیٹا ہوں‘ لندن سے آیا ہوں‘ میری والدہ کو تھوڑا سا نمک چاہیے‘ اگر ہو سکے تو آپ دے دیجیے‘ خاتون کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی‘ وہ اندر گئی‘چھوٹی سی کٹوری میں تھوڑا سا نمک ڈال کرلے آئی اور مسکرا ک
ر بولی‘ بیٹا امی کو میرا سلام کہنا اور پھرکہنا ‘آپ کو اگر مزید بھی کسی چیز کی ضرورت ہو تو آپ منگوا لیجیے گا‘ میرے پاس آج فریش بھنڈیاں بھی ہیں۔

 

میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور نمک لے کر آ گیا‘ میں والدہ سے بہت ناراض تھا‘ مجھے نمک مانگتے ہوئے بڑی شرم آئی تھی‘ میری والدہ نے مجھے دیکھ کر قہقہہ لگایا اور میرے سر پر ہاتھ پھیر کر بولی ’’بیٹا یہ لوگ غریب ہیں‘ یہ روز مجھ سے کھانے کی کوئی نہ کوئی چیز مانگتے ہیں‘ ان کے بچے شروع شروع میں جب ہماری بیل بجاتے تھے تو مجھے ان کی آنکھوں میں شرمندگی اور بے عزتی محسوس ہوتی تھی‘ میں نے انھیں شرمندگی سے نکالنے کے لیے یہ طریقہ ایجاد کیا ہے‘ میں ہر دوسرے دن ان سے کوئی نہ کوئی چیز مانگتی رہتی ہوں‘ کبھی نمک مانگ لیتی ہوں‘ کبھی مرچ کے لیے کسی کو بھجوا دیتی ہوں اور کبھی دوپٹہ ‘ چادر یا بالٹی مانگ لیتی ہوں۔

 

میرے مانگنے کی وجہ سے یہ کمفرٹیبل ہو جاتے ہیں اور ان کو جوبھی چیز چاہیے ہوتی ہے یہ ہم سے بے دھڑک لے لیتے ہیں‘‘ یہ سن کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ میں نے اپنی ماں کا ہاتھ تھاما اور دیر تک چومتا رہا‘ میری ماں نے اس کے بعد مجھے زندگی کا شان دارترین سبق دیا‘ انھوں نے فرمایا ’’بیٹا اپنے غریب ہمسایوں‘ رشتے داروں اور دوستوں سے چھوٹی چھوٹی چیزیں مانگتے رہا کرو‘ اس سے ان کی انا کی بھی تگڑی رہتی ہے اور ہمارابھی ان سے تعلق قائم رہتا ہے‘‘ میں نے ایک بار پھر اپنی ماںکا ہاتھ چوم لیا‘ میری والدہ نے شام کو میرے ذریعے اس ہمسائے کے گھر سالن بھی بھجوا دیا‘ میں گوشت کا ڈونگا لے کر گیا اور ان سے تھوڑی سی بھنڈیاں مانگ کر لے آیا‘ اس رات مجھے طویل عرصے بعد لمبی اور پرسکون نیند آئی۔

 
یہ کیا شان دار واقعہ اور بے مثال سبق ہے‘ میں نے جب یہ سنا تو میرے سامنے بھی درجنوں واقعات کھل گئے‘ میرے والد بھی اپنے دوستوں سے تمباکو اور حقے کے لیے گڑ منگوایا کرتے تھے‘ یہ سلسلہ اس وقت بھی جاری رہا جب ان کا حقہ عملاً بند ہو چکا تھا‘ ہمارے گھرمیں دس پندرہ کلو تمباکو ہروقت رہتا تھا مگر وہ اس کے باوجود مزید منگواتے رہتے تھے‘ میں نے ایک دن ان سے اس عجیب وغریب شوق کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے ہنس کر جواب دیا‘ میرے دوست بوڑھے ہو چکے ہیں۔
 
یہ اکیلے بھی ہیں اور یہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے بھی رہ گئے ہیں‘ مجھے تمباکو پہنچانا ان کی زندگی کی واحد ایکٹویٹی ہے‘ میں انھیں فون کر کے فرمائش کرتا ہوں تو یہ خوش ہو جاتے ہیں‘ یہ اس بہانے اسلام آباد آتے ہیں‘ میں انھیں ڈاکٹروں کو دکھا دیتا ہوں‘ دو تین دن ان کی خدمت کرتا ہوں‘ واپسی پر انھیں جوتے اور کپڑے بھی لے کر دیتا ہوں اور ہم ایک دو دن ہنس کھیل بھی لیتے ہیں‘ مجھے اس وقت والد کی منطق سمجھ نہیں آتی تھی لیکن جب میں نے نمک کا واقعہ سنا تو مجھے والد‘ تمباکو اور ان کے سارے پینڈو دوست یاد آ گئے اور پھر میں دیر تک سوچتا رہا ہماری بزرگ نسل کتنی شان دار اور وسیع القلب تھی‘یہ کس طرح لوگوں کو اپنے ساتھ جوڑ کررکھتی تھی جب کہ ہم تقسیم درتقسیم نسل ہیں‘ ہمارا اپنی ذات کے ساتھ بھی تعلق ٹوٹ چکا ہے‘ لاہور میں میرے ایک دوست رہتے تھے‘ اللہ تعالیٰ انھیں جوار رحمت میں جگہ دے۔

میں جب بھی ان سے ملنے جاتا تھا‘ وہ کسی نہ کسی ریستوران میں دعوت کرتے تھے‘ دس پندرہ بیس لوگوں کو انوائٹ کرتے تھے اور آخر میں بل ہمیشہ اپنے کسی نہ کسی غریب دوست سے دلاتے تھے‘ مجھے ان کی یہ حرکت بہت بری لگتی تھی‘ میں سوچتا تھا‘ یہ کیا چول حرکت ہے؟ وہ بے چارہ ہمارے سامنے موٹر سائیکل یا رکشے پر آیا اور شاہ صاحب نے اسے دس پندرہ ہزار روپے کابل ٹھونک دیا‘ اللہ تعالیٰ نے انھیں انتہائی خوش حال بنا رکھا ہے‘ انھیں کم از کم یہ چول نہیں مارنی چاہیے‘ میں کئی برس تک شاہ صاحب کی اس حرکت پر کڑھتا رہا لیکن پھر ایک دن شاہ صاحب پکڑے گئے۔

 

میں واش روم میں تھا‘ شاہ صاحب بھی اپنے غریب دوست کو پکڑ کر واش روم میں لے گئے‘ وہ دونوں نہیں جانتے تھے میں اندر ان کی گفتگو سن رہا ہوں‘ شاہ صاحب نے اپنے غریب دوست کی ٹھوڑی کو ہاتھ لگایا اور اس سے کہا ’’یار حماد باہر میرے دوست ہیں‘ یہ مجھے بل نہیں دینے دیں گے‘ تم یہ پیسے رکھو اور جب ویٹر بل لائے تو تم بل پکڑ کر زبردستی ادا کر دینا‘ اگر میرے دوست ضد کریں گے تو میں ان سے کہوں گا یہ دعوت حماد کی طرف سے تھی لہٰذا بل یہی دے گا‘ پلیز میرا پردہ رکھنا‘‘ حماد نے آہستہ آواز میں سرگوشی کی‘ شاہ جی آپ پیسے رہنے دیں‘ بل میں دے دوں گا‘ شاہ صاحب نے دوبارہ اس کی ٹھوڑی کو ہاتھ لگایا اور منت کے لہجے میں کہا’’ حماد پلیز تم یہ رقم ادھار سمجھ کر رکھ لو لیکن بل اسی سے ادا کرو اور اس کے ساتھ ہی رقم اس کی جیب میں ڈال دی‘‘ وہ دونوں واش روم سے نکل گئے تو میں بھی آنکھیں صاف کرتا ہوا باہر آ گیا۔

 

دعوت کے آخر میں جب بل آیا تو سب نے اونچی آواز میں کہنا شروع کر دیا ’’میں دوں گا‘ میں دوں گا‘‘ لیکن شاہ صاحب نے حسب عادت اونچی آواز میں کہا ’’یہ بل حماد دے گا‘ یہ چوہدری صاحب سے ملنا چاہتا تھا لہٰذا اسے اب اس ملاقات کی قیمت بھی ادا کرنی پڑے گی‘‘ اور ساتھ ہی حماد نے بل پکڑ لیا‘ میں نے یہ واقعہ بعدازاں بے شمارلوگوں کو سنایا اور ہر بار ان سے درخواست کی آپ جب بھی اپنے پرانے اور بچپن کے دوستوں سے ملیں‘ شان دار کھانا منگوائیں اور جب بل کی باری آئے تو بل اٹھا کر اپنے سب سے غریب دوست کے حوالے کر دیں اور ساتھ ہی میز کے نیچے سے اسے رقم پکڑا دیں‘ اس سے اس کا بھرم بھی رہ جائے گا‘ دوستوں میں اس کی عزت بھی بڑھ جائے گی اور آپ کا اس کے ساتھ تعلق بھی گہرا ہو جائے گا۔

 

یہ واقعات سن سن کر میرے چند جاننے والوں نے ’’دوستوں سے مانگتے رہو‘‘ کے نام سے ایک چھوٹا سا گروپ بنا لیا ہے‘ اس گروپ کے لوگ اپنے غریب رشتے داروں اور دوستوں سے کچھ نہ کچھ مانگتے رہتے ہیں‘ یہ کسی سے گنے منگوا لیتے ہیں‘ کسی سے گڑ‘ کسی سے مکھن‘ کسی سے پنیر‘ کسی سے دیسی انڈے‘ کسی سے ساگ اور کسی سے آٹا‘ یہ حرکت بظاہر بڑی چیپ محسوس ہوتی ہے لیکن آپ یقین کریں ان کی اس چیپ حرکت سے ان کے اپنے پرانے دوستوں اور رشتے داروں کے ساتھ تعلقات بہت آئیڈیل ہیں‘یہ لوگ دوستوں سے دال‘ ساگ اور گڑ مانگتے ہیں اور دوست جواب میں ان سے دوائیاں‘ بچوں کی فیسیں اور بیٹیوں کا جہیز مانگ لیتے ہیں اور یہ لوگ دوستوں کو مہینے دو مہینے بعد کپڑے‘ جوتے‘ سویٹر اور رضائیاں بھی بھجواتے رہتے ہیں۔

 

آپ خود سوچیے یہ لوگ اگر ان سے گڑ نہیں مانگیں گے تو یہ غریب دوست ان سے اپنی تکلیف اور ضرورت کا ذکر کیسے کریں گے اور یہ اگران سے بھی اپنی ضرورت بیان نہیں کریں گے تو پھر یہ کس کے پاس جائیں گے؟ کیا انسان کو تکلیف میں دوستوں اور رشتے داروں سے رابطہ نہیںکرنا چاہیے؟ دوسری چیز آپ لوگ اپنے ہمسایوں سے بھی کچھ نہ کچھ مانگتے رہا کریں‘ اس سے آپ کے تعلقات دیواروں تک محدود نہیں رہیں گے‘ یہ صحن اور ڈرائنگ روم تک چلے جائیں گے لیکن اس کے لیے ایک بات کا خاص خیال رکھیں‘ پنجاب کی پرانی روایت تھی‘ ہماری دادیاں اور نانیاں دوسروں کا برتن خالی واپس نہیں بھجواتی تھیں اگر ایک گھر سے سالن آتا تھا تو واپسی پر اس برتن میں حلوہ یا میوہ جاتا تھا۔

 

آپ بھی ہمسایوں سے مانگیں اور واپسی پر اس برتن میں زیادہ بڑی اور شان دار چیزیں بھجوائیں‘ اس سے آپ کے تعلقات میں بھی اضافہ ہو گا اور اجنبیت کی دیواریں بھی گرجائیں گی اور آخری بات آپ کو جب بھی کوئی شخص کھانے کی چیز بھجوائے تو لوگوں کے درمیان اس کی جی بھر کر تعریف کریں‘ یہ یاد رکھیں ہم انسانوں کی فطرت ہے ہم ہمیشہ دوسروں سے کھانے کی چیز کی تعریف چاہتے ہیں‘ آپ ذرا یاد کریں لوگوں نے جب بھی آپ کے کھانے کی تعریف کی تھی تو آپ کو کیسا لگا تھا؟

 

آپ کو اگر اچھا لگا تھا تو آپ بھی یہ کر کے دیکھیں دوسروں کو بھی بہت اچھے لگے گا اور یہ بھی یاد رکھیں ہم سماجی جانور ہیں‘ ہم دوسروں سے کٹ کر نہیںرہ سکتے‘ ہماری ساری خوشیاں دوسروں کے دلوں سے نکلتی ہیں لہٰذا لوگوں سے رابطے میں رہا کریں‘ خوش رہیں گے ورنہ اپنی ہی ذات میں قیدتنہائی کا شکار ہو کر گھٹ گھٹ کر فوت ہو جائیں گے۔منقول


 

LAST CHANCE FOR PAKISTAN


یہ آخری موقع ہے، ہم نے اگر یہ موقع بھی کھو دیا تو ہم بحیثیت ریاست ماضی کا قصہ بن جائیں گے، قدرت نے ہمیں آخری موقع سے قبل تین مواقع دیے تھے مگر ہم نے قدرت کی مہربانی سے فائدہ نہیں اٹھایا، وہ مواقع کیا تھے، ہم آخری موقع کی طرف جانے سے قبل ان کا جائزہ لیتے ہیں۔

ہمیں پہلا موقع صدر ایوب خان کے دور میں ملا، ایوب خان کے دور میں سوویت یونین اور امریکا دو سپر پاور تھیں اور برصغیر اس وقت دونوں سپر پاورز کا میدان جنگ تھا، خطے میں تین بڑی طاقتیں تھیں، چین، بھارت اور پاکستان۔ بھارت سوویت یونین کا اتحادی بن گیا، چین سوشلسٹ ملک تھا، یہ نظریاتی لحاظ سے روس کے قریب اور امریکا سے دور تھا، پاکستان غیر جانبدار تھا چنانچہ امریکا کے پاس پاکستان کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا، امریکا نے پاکستان کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔

ایوب خان نے یہ ہاتھ تھام لیا، ہم پر ترقی کے دروازے کھل گئے، پاکستان ساٹھ کی دہائی میں ایشیا میں ترقی کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا، ہمارے ملک میں ڈیم بنے، سڑکیں، پل اور نہریں بنیں، ہم نے ایشیا میں بجلی سے چلنے والی پہلی ٹرین چلائی، کراچی میں زیر زمین میٹرو کے لیے کھدائی ہوئی، پاکستان خطے میں فیملی پلاننگ شروع کرنے والا پہلا ملک تھا، ملک میں اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں بنیں، صنعتی یونٹس لگے، ٹیلی ویژن شروع ہوا۔

پی آئی اے ایشیا کی سب سے بڑی ائیر لائین بنی، ہم نے نئے بینک بھی بنائے، اسلام آباد کے نام سے ایشیا کا جدید ترین شہر بھی آباد کیا اور ہماری مرچنٹ نیوی دنیا کی تمام بڑی بندرگاہوں پر بھی دستک دینے لگی، ترقی کا یہ سفر جاری رہتا تو پاکستان 1980ء تک دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوتا لیکن پھر ہم نے ترقی کا میدان چھوڑ کر سیاست کی غلیظ نالی میں چھلانگ لگا دی، ہمارا ملک بھی ٹوٹ گیا، ہم دنیا بھر کی نظر میں بھی مشکوک ہو گئے اور ہماری ترقی کو ریورس گیئر بھی لگ گیا، بھٹو صاحب نے ایوب خان سے بدلہ لینے کے لیے پوری قومی پالیسی بدل دی، ہم امریکا سے روس چلے گئے۔

ملک میں اسلامی سوشلزم آیا اور پرائیویٹ ادارے قومیا لیے گئے، ہماری پالیسی کی اس شفٹ نے امریکا اور یورپی اتحادیوں کو پریشان کر دیا اور یہ پاکستان کا متبادل تلاش کرنے لگے، امریکا نے ہم سے مایوس ہو کر اپنے دروازے متحدہ عرب امارات اور ایران پر کھول دیے، امریکا نے انڈیا کے ساتھ بھی اپنے تعلقات ٹھیک کر لیے اور یہ چین کے ساتھ بھی فاصلے کم کرنے لگا۔

ہم 1970ء تک خطے میں امریکا کے واحد اتحادی تھے لیکن 1972ء کے بعد متحدہ عرب امارات، بھارت اور چین بھی امریکا کی میز پر آگئے اور ایران بھی امریکا کا "بڈی" بن گیا جب کہ ہم باہر دہلیز کی طرف دھکیلے جانے لگے یوں ہم نے 1960ء اور 1970ء کی دہائی کا پہلا موقع ضایع کر دیا۔

ہمیں دوسرا موقع افغان روس جنگ کی صورت میں ملا، امریکا کے پاس 1980ء میں پاکستان کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا، چین اور بھارت روس کے اتحادی تھے، ایران میں انقلاب آ چکا تھا اور سعودی عرب اور یو اے ای کے پاس فوج نہیں تھی چنانچہ ہم واحد ملک تھے جو اس نازک گھڑی میں امریکا کی مدد کر سکتے تھے لہٰذا ہم 1980ء میں اپنے سارے قرضے بھی معاف کرا سکتے تھے۔

پاکستان کو سنگا پور، تائیوان اور کوریا کی طرح سرمایہ کار ملک بھی بنا سکتے تھے اور امریکا سے ملک بھر میں جدید انفرا سٹرکچر بھی بچھوا سکتے تھے لیکن ہم نے جنرل ضیاء الحق کو یونیفارم میں صدر قبول کرانے کے سوا کچھ نہ کیا، ہم نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ملک کو بارود، افغان مہاجرین، بم دھماکوں، ہیروئن اور قرضوں کی دلدل بنا دیا، ہمارے معاشرے کی جڑیں تک کھوکھلی ہو گئیں، ہم نے دوسرا موقع بھی کھو دیا۔

ہمیں تیسرا موقع نائین الیون کے بعد ملا تھا، امریکا ہر حال میں دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنا چاہتا تھا، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں روس، چین، بھارت، ترکی، سعودی عرب اور یو اے ای ہمارے خطے کے تمام ممالک امریکا کے ساتھی تھے، ایران بھی طالبان حکومت کے خلاف تھا چنانچہ یہ بھی امریکا کے خلاف ہونے کے باوجود طالبان کے معاملے میں امریکا کے ساتھ تھا لیکن ان تمام اتحادیوں کے باوجود امریکا پاکستان کے بغیر یہ جنگ نہیں لڑ سکتا تھا، ہم اگر اس وقت عقل سے کام لیتے تو ہم اپنے ملک کا مقدر بدل سکتے تھے۔

ہم قرضے معاف کراتے، ملک میں صنعتی یونٹس لگواتے، پاکستان کو عالمی منڈی بناتے اور غربت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے باہر آ جاتے لیکن افسوس اس بار جنرل پرویز مشرف نے خود کو یونیفارم میں صدر منوا کر تیسرا موقع بھی ضایع کر دیا، ہم امریکا اور طالبان دونوں کو خوش رکھنے کے چکر میں تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے، آج افغانستان میں امن ہو رہا ہے اور پاکستان عالمی دہشت گردوں کا میدان جنگ بن گیا ہے، ہم بارہ سال سے مر رہے ہیں لیکن امریکا سے فائدہ چین، بھارت، سعودی عرب، یو اے ای اور سینٹرل ایشیا کے ممالک اٹھا رہے ہیں۔

دنیا میں 60ء اور 70ء کی دہائیاں صنعتی انقلاب کا دور تھا، ہم نے وہ دور ضایع کر دیا، 1980ء کی دہائی سرمایہ کاری کا دور تھا، ہم نے وہ بھی ضایع کر دیا اور 2000ء سے 2010ء تک سروسز کے شعبے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور تھا، ہم نے یہ تینوں مواقع، یہ تینوں دور ضایع کر دیے، ہمارے پاس اب چوتھا اور آخری موقع بچا ہے، ہم نے اگر یہ بھی ضایع کر دیا تو ہم واقعی تاریخ کی اندھی گلیوں میں گم ہو جائیں گے، یہ آخری موقع کیا ہے؟ میں اس طرف آنے سے پہلے آپ کو پاکستان کی تازہ جغرافیائی پوزیشن سمجھانا چاہتا ہوں۔

پاکستان اس وقت تین اہم معاشی طاقتوں کے درمیان موجود ہے، ہمارے ایک طرف قدرتی وسائل سے مالامال سینٹرل ایشیا ہے، یہ خطہ تیل، گیس، معدنیات، پانی اور بجلی سے مالا مال ہے، سینٹرل ایشیا کے ممالک اپنے قدرتی وسائل فروخت کرنا چاہتے ہیں، یورپ 1980ء سے خام مال کے بجائے تیار شدہ مصنوعات خرید رہا ہے۔

یہ تیل، گیس، بجلی اور معدنیات کا خریدار نہیں رہا، دنیا میں اس وقت قدرتی وسائل کے تین بڑے خریدار ہیں، چین، امریکا اور بھارت۔ پاکستان چین، بھارت اور سینٹرل ایشیا کے درمیان واقع ہے چنانچہ پائپ لائین بنے، بجلی کے کھمبے لگیں یا پھر سڑک بنے ہم درمیان میں ہوں گے، دوم، چین اور بھارت دنیا کی دو بڑی صنعتی طاقتیں ہیں، سینٹرل ایشیا، مڈل ایسٹ، یورپ اور امریکا ان دونوں طاقتوں کی منڈیاں ہیں، چین دنیا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے۔

یہ ہر سال شنگھائی پورٹ سے 466 بلین ڈالر کا سامان ایکسپورٹ کرتاہے، چین کی یہ پورٹ سینٹرل ایشیا، مڈل ایسٹ اور یورپ سے بہت دور ہے، چین کے بحری جہاز7ہزار چار سو دو کلو میٹر سفر کر کے مڈل ایسٹ، سینٹرل ایشیا اور یورپ پہنچتے ہیں، چین یہ فاصلہ کم کرنا چاہتا ہے اور پاکستان چین کی مدد کر سکتا ہے، بھارت بھی سینٹرل ایشیا کو اپنی مارکیٹ بنانا چاہتا ہے، یہ پاکستان سے گزر کر افغانستان، ایران اور سینٹرل ایشیا جانا چاہتا ہے۔

چین نے 1980ء کی دہائی میں گوادر کاشغر روٹ تیار کیا، چین کا منصوبہ تھا یہ گوادر پورٹ تیار کرے، کاشغر سے گوادر تک ریلوے لائین اور سڑک بنائے، کاشغر کو ملک کی سب سے بڑی ڈرائی پورٹ بنائے، چینی مصنوعات کاشغر آئیں، وہاں سے گوادر پہنچیں اور گوادر سے دنیا بھر کی منڈیوں میں پہنچا دی جائیں، کاشغر سے گوادر تک روٹ پر 32 ارب ڈالر خرچ ہوں گے، چین یہ سرمایہ خرچ کرنے کے لیے تیار ہے، چینی صدر پاکستان آئیں گے، گوادر کاشغرمعاہدے پر دستخط ہوں گے اور کام شروع ہو جائے گا لیکن چینی صدر کے دورے سے قبل پاکستان میں چند نئے ایشوز سامنے آ رہے ہیں۔

چین اور پاکستان نے گوادر کاشغر کے لیے تین روٹس تیار کیے ہیں، مشرقی، مغربی اور متبادل روٹ، مشرقی روٹ میں سڑک گوادر سے گڈانی، خضدار، رتو ڈیرو، سکھر، ملتان، لاہور، اسلام آباد، حویلیاں اور حویلیاں سے کاشغر پہنچے گی، یہ روٹ پاکستان کے چاروں صوبوں سے گزرے گا، مغربی روٹ گوادر، آواران، رتو ڈیرو، نصیر آباد، ڈیرہ بگٹی، ڈی جی خان، ڈی آئی خان، سوات اور گلگت سے ہوتا ہوا کاشغر جائے گاجب کہ تیسرا متبادل روٹ گوادر، تربت، پنجگور، قلات، کوئٹہ، ڈی آئی خان، سوات اور گلگت سے کاشغر پہنچے گا، چین کو خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے حالات پر یقین نہیں، چین کا خیال ہے یہ اگر بلوچستان اور خیبر پختونخواہ سے سڑک گزارتا ہے تو قافلے بھی لوٹ لیے جائیں گے۔

چینی لوگ بھی اغواء ہوں گے اور یہ سڑکیں بھی بلاک ہوتی رہیں گی یوں یہ وقت پر ڈلیوری نہیں دے سکے گا، چین کا یہ خدشہ غلط نہیں کیونکہ بلوچستان میں چینی انجینئرز کے اغواء اور قتل کی بے شمار وارداتیں ہو چکی ہیں، چین شروع میں وہ مشرقی روٹ بنانا چاہتا ہے جو سندھ اور پنجاب سے ہوکر کاشغر پہنچے گا لیکن بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کی سیاسی قیادت کو یہ سودا منظور نہیں، اسفند یار ولی نے مشرقی روٹ کو "نیا کالا باغ" بنانے کی دھمکی دے دی جب کہ بلوچ لیڈر گوادر کو اپنی ملکیت قرار دے رہے ہیں، چینی حکام اس صورت حال کو خوف بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔

دنیا میں راہ داریوں کا دور ہے اور ہم چین، بھارت اور سینٹرل ایشیا کے درمیان "چونگی ریاست" یا ٹول پلازہ بن کر اربوں ڈالر سالانہ کما سکتے ہیں، یہ روٹ ہمارے ملک میں ہزاروں گودام بھی بنوائے گا، نئی فیکٹریاں اور انڈسٹریاں بھی لگوائے گا، لاکھوں نئی نوکریاں بھی پیدا کرے گا اور ہمارے ملک میں امن و امان کی صورتحال کو بھی بہتر بنائے گا لیکن ہم نے اگر یہ موقع بھی کھو دیا تو پھر دنیا کے پاس یہ آپشن بچے گا، یہ پاکستان کو "مائینس" کر کے نیا روٹ بنائے، چین تاجکستان، افغانستان اور ایران سے سڑک گزارے اور بھارت بلوچستان کی افراتفری میں سرمایہ کاری کرے۔

پاکستان ٹوٹ جائے، بھارت سندھ اور بلوچستان نئی ریاستوں کے ساتھ معاہدہ کرے، بھارت سندھ اور بلوچستان روٹ بنائے اور چین تاجکستان اور افغانستان سے ہوتا ہوا ایران پہنچے اور یہ وہاں آپس میں مل جائیں، یہ روٹ بہر حال بن کر رہے گا کیونکہ یہ سینٹرل ایشیا، چین اور بھارت تینوں کی معاشی بقا کے لیے ضروری ہے۔

ہم نے اب یہ فیصلہ کرنا ہے، یہ روٹ موجودہ پاکستان سے گزرے گا یا پھر اس نئے پاکستان سے گزرے گا جو چار چھوٹی چھوٹی آزاد ریاستوں میں تقسیم ہو چکا ہو گا، ہم وفاق کو بچا لیں یا وفاق کو توڑ دیں، ہمارے پاس اب صرف ایک آپشن باقی ہے اور اگر خدانخواستہ یہ ہو گیا تو ہم اس سلوک کو "ڈیزرو" کریں گے کیونکہ جو قوم ہر موقع ضائع کر دے، جو قوم ترقی کے خلاف ہو وہ قدرت کی نظر میں ٹوٹنا اور ذلیل ہونا ڈیزرو کرتی ہے۔

 

 

February 11, 2022

والدین کی نا فرمانی ، دین سے بیزاری بے راہ روی کی سزا تمام لڑکیوں کے لیئے

میں کس مذہب میں پھنس گئی ہوںمسلمانوں کی سوچ بہت تنگ ہےمیں آزاد ہونا چاہتی ہوں اپنے سب فیصلے خود کرنا چاہتی ہوں یہ کیا تم لوگوں نے میری زندگی کو زنجیروں میں جکڑ رکھا ہےکبھی مولوی کہتے ہیں سر پہ دوپٹہ لو کبھی ماں باپ کہتے ہیں گھر سے باہر نہیں جانادنیا چاند پہ پہنچ گئی ہے اور ہم لڑکیوں کو اسلام نے قیدی بنا رکھا ہے فاطمہ اپنا زہر اگل رہی تھی ۔

امی بس مجھے ڈانس کلاس میں جانا ہے مجھے ڈانسر بننا ہے ماں غصے سے بولی فاطمہ کچھ شرم کرو کیسی بکواس کرتی ہو تم امی دیکھو میں سب عورتوں کی طرح بھینس بن کر نہیں جی سکتی مجھے زندگی میں بہت کچھ کرنا ہے اپنا ایک نام بنانا ہے اپنی پہچان بنانی ہے۔

میں یہ حجاب اور برقع پہن کر جہالت میں نہیں جینا چاہتی دیکھو ٹک ٹاک پہ کتنی لڑکیاں مشہور ہو گئی ہےکتنی بڑی بڑی سٹار بن گئی ہیں مارننگ شوز میں ان کے انٹرویوز آتے ہیں بس میں اس اسلام۔کی زنجیر کو توڑنا چاہتی ہوںماں بس آپ ابا سے بات کرو میں کل۔سے جاب بھی کت رہی ہوں اور ڈانس کلاس بھی ابا پیسے نہیں دیتے تو نا دیں میں خود کو اب سنبھال سکتی ہوں اللہ اکبر اللہ اکبر مسجد سے مغرب کی اذان کی آواز سنائی دینے لگی

ماں نے کہا فاطمہ موبائل کو چھوڑ دے اور سر پہ دوپٹہ لو فاطمہ نے ٹک ٹاک اوپن کی ہوئی گانا وڈیوز دیکھ رہی کوئی پرواہ نہیں اذان ہو رہی ہے یا نہیں وہ اسلام کے دائرے میں خود کو قید سمجھ رہی تھی دیکھو بڑی بڑی ٹی وی اسٹارز کتنا پیسہ کماتی ہیں بڑی بڑی گاڑیاں لوگ ترستے ہیں ان سے ایک تصویر بنانے کے لیے بھی فاطمہ بولتی چلی جا رہی تھی ۔ماں نے بہت سمجھایا لیکن شاید وہ بغاوت پہ اتر آئی تھی۔

 آپ پانچ وقت نماز ادا کرتی ہو نا تو بتاو اللہ نے کیا دیا ہے آپ کو یہ ٹوٹا ہوا گھر ، ٹوٹی ہوئی سائیکل رکھی ہوئی ہےکہو نئے کپڑے لے دو تو تم لوگوں کے رونے ختم۔نہیں ہوتے ڈیہاڑی نہیں لگی ابا کی تو یہ نہیں ہوا  وہ نہیں ہوامیں تم لوگوں کو کامیاب ہو کر بتاوں گی ماں غصے سے بولی فاطمہ میری بچی تم کو کیا ہو گیا یہ کیسے کفریہ الفاظ بول رہی ہو اللہ سے ڈر اور شکر ادا کرلیکن فاطمہ کچھ سنتی تو پھر نا  بس ابا سے کہو میں کل سے جاب پہ جا رہی ہوںمیری دوست بھی جاتی ہے ایک پراپرٹی ڈیلر ہے اس کے آفس میں مجھے 30 ہزار میں جاب مل رہی30 ہزار ابا 3 مہینے میں کماتے ہیں باپ عشا کے وقت گھر آیا فاطمہ اپنے کمرے میں تھی ماں بہت اداس بیٹھی تھی ابا پاس آئے کیا ہوا اداس سی ہو آج ماں بولی فاطمہ کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے۔

 کیا کیا بولتی ہے کچھ سمجھ نہیں آتاوہ نوکری کرنا چاہتی ہےمیں چاہتی ہوں آپ ضد چھوڑ دیں اسے نوکری پہ جانیں دیں تب تک کوئی اچھاسا لڑکا دیکھ کر اس کو بیاہ دیتے ہیں۔فاطمہ نےبابا پیار سے بولے اللہ کی بندی وہ زمانے کو نہیں جانتی اسے خبر ہی نہیں ہے زمانے کی تلخیاں ہوتی کیا ہیں ۔میں باپ ہوں اس کا اس سے پہلے ایک مرد ہوں اور میاں اچھے سے جانتا ہوں اپنے معاشرے کو وہ جو خواب دیکھتی اس کا راستہ صرف فنا ہے۔ وہ ابھی بچی ہے ناسمجھ ہے ماں ضد کرتے ہوئے بولی آپ بس اسے جانے دو کرنے دو نوکری شاید ہماری سختی اسے اذیت پہنچا رہی ہے۔

 ماں نے صبح کہا جائو فاطمہ نوکری کر لو لیکن ہماری عزت کا خیال رکھنا میری بچی فاطمہ مسکرانے لگی آپ سوچ بدلو یہ عزت کا خیال رکھنا  میں جاب کرنے جا رہی ہوں کوئی گناہ  نہیں  وہ  خود  کو  آزاد کرنا  چاہتی تھی اور پھر  اللہ وہی عطا کرتا ہے۔ جیسی ہماری نیت ہوتی ہے جیسے ہمارے اعمال ہوتے ہیں بہت خوش تھی اس جہالت سے نکلی ہوں آفس پہنچی باس نے بہت احترام سے ویلکم کیا آج پہلا دن تھا آفس میں تھکن بھرا رہا تھا گھر آئی آنکھوں میں ایک چمک تھی کچھ کر دکھانے کا جذبہ تھا ۔ ماں نے پوچھا کھانا لگائوں بیٹی ماں کی طرف دیکھ کر کہنے لگی نہیں امی میں باس کے ساتھ ڈنر کر کے آئی ہوں پہلا دن تھا اس لیئے انھوں نے ٹریٹ دی دن گزرنے لگے ۔وہ آزادی کے نام پہ اڑنے لگی پہلی تنخواہ 35 ہزار روپے آئی جو اس کے لیئے بہت بڑی رقم۔تھی نیا موبائل لیا کچھ ضرورت کی چیزیں لیں باس کے ساتھ اچھے ریلیشن بن گئے باپ نے کافی رشتے دکھائے ۔ لیکن فاطمہ شادی نہیں کرنا چاہتی تھی کہنے لگی اگر میرے ساتھ زبردستی کی تو میں بتا رہی ہوں پولیس کے پاس چلی جاوں گی بوڑھا باپ حیران تھا فاطمہ یہ کیسی باتیں کرتی. ہوتم  فاطمہ بولی ابا بس میں کہہ دیا ۔  نا     اپنی مرضی سے شادی کروں گی آپ کو اگر بوجھ لگتی ہوں تو آپ کا گھر چھوڑ جاتی ہوں اور مجھے جہالت والی باتیں نہ سنایا کریںگھر  بسانا عزت شوہر جب مجھے کوئی اچھا لگا

میں کر لوں گی شادی باپ کا دل چاہا اس کی گردن کاٹ دوں کیسی بدزبان ہو گئی ہے۔  باپ نے ایک تھپڑ مار دیا اتنی بڑی ہو گئی ہو ۔ اپنے باپ کے ساتھ زبان لڑاتی ہو فاطمہ نے باپ کو دھکا دیا گھر سے باہر چلی گئی بھاڑ میں جاو تم لوگ باپ کی آنکھیں نم ہو گئی تھیں جاتے ہوئے باپ نے آواز دی بیٹی جس راستے پہ چل رہی ہو نا بہت پچھتائو گی تمہارا باپ ہوں نا میرے دل کی دھڑکن ہو تم اس لیے میں کچھ نہیں کہہ سکتا تم کو لیکن ایک بات یاد رکھناوقت بدلے گا گھڑی کی ٹک ٹک کرتی سوئی آگے بڑھے گی۔ میں مر جاوں گا قبر میں پڑا تمہارا باپ تمہاری بے بسی دیکھے گافاطمہ بیٹی یاد رکھنا تم مجھے پکارو گی ضرورلیکن تب وقت گزر چکا ہو گا فاطمہ مسکرانے لگی بس ہو گیا لیکچر ماں نے آواز دی فاطمہ بیٹی رک جا کہاں جا رہی ہوگھر سے چلی گئی ماں آوازیں دیتی رہی باپ شاید بیٹی کا یوں نافرمان ہونا مارنے لگایا اللہ وہ نہیں جانتی اسلام ہی سب سے پاک اور محفوظ دیوار ہے مذہب ہے۔ وہ بربادی کی طرف چل دی ہے اس پہ رحم فرما میرے اللہ فاطمہ نے باس کو کال کی سر آپ کہاں ہیں باس پیار سے بولا میں تو گھر ہوں کیا ہوا سر میں گھر چھوڑ کر آ گئی ہوںاپنے ساتھ لے جاوسر حیران تھے ایسا کیوں بھلا خیریت تو ہے نا سر آپ آ جائیں بس باس آیا کار میں بیٹھی بہت غصے میں تھی ارے ہوا کیا ہے کہاں جاو گی اب ایسا تھوڑی نا گھر سے آتے ہیں سر آپ مجھے رینٹ کے روم میں چھوڑ دیں کہیں فاطمہ خوبصورت تھی باس نے ہمدردی سے کہا ایسا کرو میرا گیسٹ ہاوس خالی ہے وہاں رہو تم پریشان نہ ہو میں تمہارے ساتھ ہوں شکریہ سر آپ کا احسان کبھی نہیں بھولوں گئ۔  بوڑھا باپ بیٹی کے دکھ سے بستر پہ پڑ گیا اور پھر ایک دن دنیا سے چل۔بساوقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فاطمہ اپنے باس نوید کے ساتھ کافی آگے بڑھ چکی تھی آفس سے پرسنل فیصلے بھی مل۔کر کرنے لگے وہ دونوں آہستہ آہستہ جسم تک پہنچ گئے ۔

فاطمہ کو اپنی ہمدردی کے آئینہ میں اتار کراس کے ساتھ ہوس پوری کرنے لگا سر نوید میں چاہتی ہوں میں ڈانسر بنوں مجھے ماڈل بننے کا بہت شوق ہےنوید مسکرا کر بولا تم پریشان نہ ہو میں ہوں نا جو دل چاہے کرنا فاطمہ کو پیسے کی کوئی کمی نا تھی نوید نے پیسوں کی عیاشی دی تھی اسے پراپرٹی کی سب ڈیل وہ دونوں ایک ساتھ کرتے فاطمہ نوید پہ بہت یقین کرتی تھی نوید تم نہ ہوتے تو میں شاید کافی مشکل وقت گزارتی نوید کا  دوست آفس آیا  یار  بڑی مست لڑکی رکھی ہوئی ہے۔ تم نے آفس میں نوید مسکرایا شرم کر شرم دوست کہنے لگا کیا شادی کرنے کا ارادہ ہے نوید قہقہ لگا کر ہنسا اس سے شادی حد ہو گئی یار اچھا سنو یار میری بھی دوستی  کروا اس سےنوید آہستہ سے بولا صبر رکھو صبر خود کو آزاد سمجھتی تھی ماڈرن جینز پہنناسر پہ دوپٹہ نہیں آنکھوں میں حیا نہیں ہر اجنبی کے ساتھ بیٹھنا اسلام سے بغاوت فاطمہ کی دوست نے اسے کہا فاطمہ تم۔بہت غلط راہ پہ ہو سنبھل جاو  فاطمہ  اپنا دامن داغدار کر چکی تھی ۔پھر ایک دن اچانک پولیس والے ان کے آفس آ گئے نوید کو پکڑ لیا فاطمہ کو بھی گرفتار کر لیا ۔ نوید غصے سے بولا کیوں گرفتار کر رہے ہو۔  پولیس والا بولا تم۔نے امریکہ کی ایک پارٹی ہے ان کے پلاٹ دو نمبری میں بیچے ہیں جن کی قیمت دو کروڑ روپے ہے ۔نوید کو پولیس اسٹیشن لے گئے فاطمہ کو بھی گرفتار کر لیا تھا فاطمہ نوید سے کہنے لگی سر پلیز مجھے اس مصیبت سے نکالیں نوید نے دلاسہ دیا تم۔فکر نہ کرو میں کچھ کرتا ہوں تھانیدار آیا ہوں۔

 بھئی کب دے گا پیسے نوید نے انسپکٹر کو آنکھ سے اشارہ کیا آہستہ سے بولا میں آپ کو 50 لاکھ روپے دوں گاآپ یہ سارا کیس اس لڑکی پہ ڈال دو بس پولیس والا مسکرایا ہم۔کو رشوت دیتے ہو نوید آہستہ سے بولا سر دیکھیں نا کچھ ہو توانسپکٹر بولا 50 لاکھ لے لئے تو کچھ بھی کروں بے فکر ہو جا اب نوید کو رہا کر دیا ۔ فاطمہ پیار سے بولی سر آپ کہاں جا رہے ہیں نوید خاموشی سے پاس سے گزر گیا پولیس والا بولا تیرا یار دھوکہ دے گیا تم کو کیس تیار کیا  دوکروڑ فاطمہ پہ ڈال دیئے وقت نے کایہ پلٹی تھی عدالت میں کیس گیا. تو سارے ثبوت فاطمہ کے خلاف تھے وہ بے بسی میں جج سے مخاطب ہوئی سر یہ سب جھوٹ ہے۔

 لیکن عدالت ثبوت پہ چلتی ہے نوید رنگ بدل گیا ہاں اس نے میرے ساتھ دھوکہ کیا ہے یہ لڑکی اپنے ماں باپ کی سگی نہیں بنی تھی میری کیا بنتی سر پلیز اس کو کڑی سے کڑی سزا دیں ۔ اور میرا پیسہ واپس لے کر دیں فاطمہ بدلتے رنگ دیکھ رہی تھی نوید سر خدا کا خوف کریں آپ کیوں جھوٹ بول رہے ہیں5 سال با مشقت کی قید سنائی گئی فاطمہ رونے لگی جج صاحب میں بے قصور ہوں لاوارث کی طرح جیل منتقل کر دی گئی دال اور سوکھی روٹی سامنے پڑی تھی آنکھوں میں آنسو تھے یہ کہاں آ گئی میں کچھ دن گزرے امریکہ والا شخص جس کی پراپرٹی نوید نے دو نمبری میں بیچ کر الزام فاطمہ پہ لگا دیا تھا۔

پاکستان واپس آیا جیل پہنچا جیلر صاحب کون سی وہ چھوکری ہے جس میں اتنی ہمت میرے پلاٹ بیچ دیئے جیلر سر جھکا کر چوہدری صاحب آ جائیں آپ کو ملاتا ہوں فاطمہ سلاخوں کے پیچھے بیٹھی تھی وہ شخص چوہدری اقبال پاس آیا یہ ہے وہ لڑکی ہے تو بڑی خوبصورت مجھے نہیں لگتا یہ ایسا کام۔کر سکتی ہے جیلر بولا چوہدری صاحب اس کو پھنسایا گیا ہے صرف ہم۔سب جانتے ہیں اقبال مسکرانے لگا چلو ایک گیم کھیلتے ہیں فاطمہ سے مخاطب ہو کر بولا دیکھ میں تم۔کو یہاں سے نکلوا سکتا ہوں اگر تم۔میرے ساتھ ایگریمنٹ کرو تو کیا ہو گا۔ میں تم کو آزاد کردوں گا ۔اس کالی کوٹھری سے نکال لوں گا۔میری بات مان لوتو فاطمہ بس جیل سے کسی طرح نکلنا چاہتی تھی کہیں نہ کہیں اسے ٹھوکر لگ چکی تھی فاطمہ کا ساتھ دینے والا تھا ہی کون میں تم کو آزاد کر دوں گا۔ اس کالی کوٹھری سے نکال لوں گا میری بات مان لو تو فاطمہ بس جیل سے کسی طرح نکلنا چاہتی تھی کہیں نہ کہیں اسے ٹھوکر لگ چکی تھی فاطمہ کا دینے والا تھا ہی کون ماں باپ کو تو وہ ٹھکرا آئی تھی کیا کرتی کہاں جاتی اسلام سے بغاوت کر چکی تھی۔

 اسے آزادی چاہیے تھی لیکن قیدی بن گئی وہ نہیں جانتی تھی عورت صرف تب تک عورت ہے جب تک وہ باحیا با پردہ ہے جیسے ہی اسلام کا دائرہ پار کیا وہ عورت سے صرف ایک گوشت کا  لوتھڑا  رہ جاتی ہے جسے وقت گزاری کے لیئے لوگ استعمال کرتے ہیں اقبال سونے کی انگھوٹھیاں پہنی ہوئی بڑی بڑی مونچھ رکھی ہوئی فاطمہ کی طرف دیکھ رہا تھا فاطمہ پولیس والے کی طرف دیکھنے لگی۔ پھر بولی ٹھیک ہے میں آپ کی بات ماننے کے لیئے تیار ہوں اقبال ہلکا سا مسکرایا گڈ جیلر صاحب میڈم کو باہر نکالیں وہ دونوں کمرے میں بیٹھے تھے اقبال بولا فاطمہ مین جانتا ہوں تم بے قصور ہو نوید نے تم کو پھنسایا ہے۔ میں کیا پولیس والے بھی جانتے ہیں جج صاحب بھی جانتے ہیں فاطمہ پہ ایک سے بڑھ کر ایک پردہ کھل رہا تھااقبال کا لہجہ کچھ سخت ہوا اصل بات پہ آتے ہیں میں اسٹیج شو کا پروڈیوسر بھی ہوں۔  جیسے نرگس اور اس طرح کی ڈانسر مجرا کرتی ہیں تم خوش شکل ہو ہر اسٹیج شو پہ لوگوں کے سامنے تم۔کو ناچنا ہو گا  بڑی قیمت ادا کروں گا ۔لوگوں کا دل بہلانا ہو گا ایک چیک پہ 20 لاکھ روپے سامنے رکھا فیصلہ تمہارا ہے پانچ سال جیل میں سڑنا ہے

پھر میں نہیں چھوڑوں گا تم کو یا پھر یہ رنگین زندگی جب میرا دو کروڑ پورا ہو جائے تم۔آزاد ہو ایک طرف قید خانہ تھا ایک طرف میخانہ سوکھی روٹی کالی شامیں طرح طرح کے کھانے رنگین شام اس نے ڈیل سائن کر لی اقبال ہنسنے لگا مجھے یقین تھا۔  چلیں میرے ساتھ جیلر صاحب آپ کے 10 لاکھ آپ کو مل جائیں گے اس کیس کو ختم کر دو کسی طرح فاطمہ کار میں بیٹھی ایک عالی شان گھرلیکن وہ گھر نہیں جہنم تھا جس میں قدم رکھتے ہی اس کی دنیا بدل گئی جیسے ہی گھر میں داخل ہوئی وہاں بہت سی لڑکیاں تھیں مرد تھے جیسے وہ کوٹھ ا ہو اقبال بولا یہ ہیں ثنا میڈم یہ تم کو ناچنا سکھا دیں گی ثنا  فاطمہ کی طرف دیکھنے لگی واہ کیا خوبصورت مال آیا ہے

اقبال بولا اس کو ٹرنینگ دو میں 2 دن کے بعد آوں گا بہت بڑا شو ہونے جا رہا ہے یہاں اس کو ناچنا ہے فاطمہ خاموش تھی۔ ثنا بولی تم کسی شریف گھر کی بیٹی لگتی ہو خود پہ ترس نہیں آتا کیا ہائے میں یہاں سے نکلنا چاہتی ہوں ۔تم اس گندگی کی زینت بننا چاہتی ہو فاطمہ کیا بتاتی گھر سے نکلی تھی زمانے سے لڑنے زمانے نے خاک بنا کر رکھ دیا  جاتے ہوئے اقبال نے اشارہ کیا بھاگنے کی یا کوئی بھی ہوشیاری کی کوشش کی تو قتل کر دی جاو گی۔  سمجھی فاطمہ نرم بستر پہ بیٹھی تھی کے ثنا ہاتھ میں گھنگرو لیئے آ گئی پہنو اسے پاوں میں گھنگرو باندھے ان کی چھنکار چھن چھن کرتے ہوئے چلنے لگی رات بھر اسے سکھاتی رہی۔ دو دن میں اسے اس قابل کر دیا کے وہ لوگوں کا دل بہلا سکتی تھی۔ بخار ہو چکا تھا تھکن تھی لوگوں کا ہجوم تھا وہاں لڑکیوں کا میرا دیکھنے کے لیئے بوڑھے جوان سب آئے تھے۔

 اس کی انٹری ہوئی ناچنے لگی 30 منٹ تک ناچتی رہی دیکھنے والے انجوائے کر رہے تھے آج وہ کنجری بن کر خود کو بہت چھوٹا محسوس کر رہی تھی کیوں کے اس نے دیکھ اایک پوسٹر پہ اس کے نام کے ساتھ کنجری لکھا ہوا تھا ہائے اسے اس کی آزادی نے کنج ری بنا ڈالا آنکھوں میں چھپائے آنسو ناچ رہی تھی اب قدم بوجھل ہونے لگے تھے بخار سے جسم ٹوٹنے لگااس کا ڈانس ختم ہوئے کمرے میں گئی بیڈ پہ ایک لاش کی طرح گر گئی ثنا پاس آئی اچھا ڈانس کیا ہے تم نے اوہ بخار ہے تم کو چلو کوئی بات نہیں پیناڈول لو ٹھیک ہو جاو گی۔

ثنا کی طرف دیکھ کر بولی میرے گھنگرو کھول دوثنا نے سرخ آنکھوں میں ایک قیامت دیکھفاطمہ رات کو تمہیں ایک شادی پہ جانا ہے۔ کسی چوہدری کی مہندی پہ کنجری بن کر ناچنا ہے کافی پیسہ ملت گا وہاں سے شاہد دو لاکھ تم بھی کما لو گئ فاطمہ آہستہ سے بولی مجھ میں ہمت نہیں ہے ثنا قہقہ لگا کر ہنسی ہمت تو تم میں بہت ہے ڈئیر فاطمہ سنا ہے تم میں اتنی ہمت ہے کے اپنے باپ کو دھکا دے کر آئی تھی اتنی ہمت ہے کے اپنے باس کے ساتھ جسمانی  تعلقات رکھے اتنی ہمت ہے کے کسی مرد کو اپنی راتیں دے دیں ۔ سنا ہے تم ٹک ٹاک اسٹار بننا چاہتی تھی ناچ کر تو یہ بھی بلکل ویسا ہی ہے اس میں تو پیسہ بھی بہت ہے فاطمہ ثنا کی طرف دیکھنے لگی ۔

تم کیسے جانتی ہو یہ سب باتیں ثنا نے پھر قہقہ لگایا نوید کوئی پراپرٹی ڈیلر نہیں ہے اقبال کا پارٹنر ہے وہ دونوں کوٹھا چلاتے ہیں دھندا کرتے ہیں وہ بھولی بھالی لڑکیوں کو جھانسا دے کر پھنسا لیتے ہیں کبھی فیس بک کی محبت سے تو کبھی رونگ نمبر سے کبھی نگاہیں ملا کر کسی چوراہے پہ یہ بھیڑیے ہمدرد بن کر مارتے ہیں یہاں ہر انسان ظالم ہے پولیس والے کیا جج وکیل سب اس کوٹھے پہ آ کر اپنی راتیں رنگین کرتے ہیں ثنا روتے ہوئے بولی میں 5 سال گزر گئے ہیں اس جہنم میں میں با پردہ لڑکی چند دن کی محبت میں ماری گئی بس یوں کہہ لو میں کسی کی باتوں میں بہہ گئی تھی اور برباد ہو گئی یہ مرد بہت محبت سے بات کر کے بہت نفرت سے برباد کرتے ہیں چلو ہمت کرو تم۔ی

ان جلاد لوگوں کو نہیں جانتی ہو تم انکار کرو گی یہ تمہارا جینا حرام کر دیں گے واپس آ  گئی تو میں تم کو مالش کر دوں گی اب کچھ سمجھ رہی تھی فاطمہ جو بھی ہوا ایک عذاب سا ہوا ہے اقبال آیا فاطمہ چلو ٹائم ہو گیا ہے 11 بجے پروگرام شروع ہو جائے گا وہاں پہنچی شادی والے گھر ان کے نوجوان لڑکے پاس آ کر بیٹھے نازیبا الفاظ بولنے لگے کوئی اس کی آنکھوں کی بات کرتا کوئی ہونٹوں کی جیسے بازار سے خریدا ہوا کوئی کھلونا ہو خامواس بیٹھی تھی خوبصورت تو تھی لیکن بھٹک گئی تھی رنگین محفل میں جیسے ہی گانا بجانا شروع ہوا شراب کی بوتلیں کھل گئیں اقبال بولا تم پریشان نہ ہونا بس ناچتے رینا 30 لاکھ کہ ڈیل ہے ان لوگوں کے ساتھ موبائل کے کیمرے آن ہوئے کچھ لڑکے لائیو اس کا ناچ چلانے لگے درد بھرے قدم ناچنے لگے بخار تھکن کون سمجھے یہ درد بھلا شوق ھے بغاوت کا فیصلہ بھی اپنا تھا ۔اسلام کو تنگ سوچ کہنا بھی اس کا تھا ڈانسر بننے کی ضد بھی اس کی تھی باپ کو جاہل کہنا بھی اس کا تھا پھر دہلیز پار کرنا بھی اس کا فیصلہ تھا وہ ناچ رہی تھی لڑکے شراب پہ کر نازیبا حرکتیں کرنے لگے دل گھبرا رہا تھا کوئی راستہ کوئی سفر اب نہ تھا ہر سانس جہنم ہر دھڑکن قیامت تھی 3 بج گئے تھے اب ہمت ختم ہونے لگی چاہا اب کرسی پہ بیٹھ جائے ایک لڑکا ہاتھ میں بندوق پکڑے پاس آیاناچ کنجری ناچ 30 لاکھ روپے دیئے ہیں ہائے رے معاشرے کی یہ بے حسی اور اللہ بیشک سب کچھ دیکھ رہا ہے فاطمہ اقبال کے پاس آئی سر میں تھک گئی ہوں۔

 اب دوسری لڑکی کو بولو ڈانس کرے اقبال بولا وہ لوگ کہہ رہے ہیں 5 گانوں پہ ڈانس کر دو بس فاطمہ بولی میں نہیں ڈانس کر سکتی اب پاس کھڑا وہ لڑکا شراب کے نشے میں تھا فاطمہ کے منہ پہ تھپڑ مارا ناچ ورنہ گولی مار دوں گا گندی گالیاں دینے لگا تھپڑ اتنے زور کا تھا کے سفید چہرے پہ انگلیوں کے نشان نظر آنے لگے آنکھوں سے بے بسی کے آنسو بہنے لگے شو ختم ہوا کار میں بے ہوشی کی مانند گر گئی سامنے بیگ نوٹوں سے بھرا پڑا تھا لاکھوں روپے پاس تھی لیکن گھٹن تھی گھر آئی ثنا نے پکڑ کر بستر پہ لٹایا اقبال بولا اس کو درد کا انجیکشن دے دینا میرے لیئے بہت ضروری ہے یہ ثنا نے چہرے پہ ہاتھ رکھا فاطمہ میری طرف دیکھو فاطمہ خاموش تھی ثنا بولی فاطمہ یہ فیصلہ تمہارا تھا اب جیسا بھی برداشت کرو

میں تمہارے پائوں پہ مالش کر دیتی ہوں گود میں پائوں رکھے سو گئی نیند میں ماں کو آواز دینے لگی کبھی ماں کو آواز دیتی کبھی بابا کو یہ دنیا بہت ظالم ہے خدا کی قسم یہ آپ کی سوچ سے بھی زیادہ ظالم ہےدوسری صبح اٹھی ثنا کے پاس جا کر بیٹھی ثنا بہت جلد پیسے پورے ہو جائیں گے میں پھر یہاں سے چلی جاوں گی اپنی امی کے پاس نئی زندگی شروع کروں گی اللہ کو یاد کروں گی نماز ادا کروں گی میں اپنے اللہ کو راضی کر لوں گی اہنے گناہوں کی معافی مانگ لوں گی وہ شاید اب سمجھ گئی تھی یہ رنگین دنیا صرف دھوکہ ہے۔ صرف فریب ہے اسلام سے بغاوت صرف بربادی ہے لیکن اب دیر ہو چکی تھی۔

 ثنا بولی فاطمہ اب بھول جاو سب کچھ تم نے جس دن یہاں سے جانا چاہا یہ لوگ تم کو مار دیں گے اور یہی سچ ہے کل وہ جو لڑکی جھگڑا کر رہی تھی اقبال کے ساتھ اسے ان لوگوں نے تیزاب کے ڈرم میں پھینک دیا ہے درندے لوگ ہیں یہ فاطمہ کا جسم کانپنے لگا آج اس مجرا کرتے ہوئے 7 ماہ گزر گئے تھے پھر ایک دن بھیانک موڑ آیا ایک دن ایک ہوٹل  میں کسی لڑکے کی برتھ ڈے پہ ناچ رہی تھی گانے بج رہے تھے اس کے قدم تیزی سے ناچ رہے تھے ایک لڑکا ، اٹھا پاس آیا کہنے لگا بے لباس ہو کر ناچ فاطمہ غصے سے بولی کیا بکواس کر رہے ہو،  وہ سب نوجوان لڑکے شراب پی رہے تھے اقبال سے کہنے 5 لاکھ دیں گے اس کو بولو بے لباس ہو کر ناچے فاطمہ انکار کرتی رہی  اور جب رات کے 1 بجے  جب سارا زمانہ سو رہا تھا ایک گولی کی آواز گونجی اس کے سینے سے پار ہو گئی شراب کے نشے میں گولی چل گئی فاطمہ زمین پہ گر گئی سب ڈر گئے۔ 

 اقبال قہقہ لگا کر ہنسا چلو کمینی سے جان چھوٹی پیسے لیئے بھاگ نکلا سب دوست بھی بھاگ گئے وہ خون سے لت پت فرش پہ پڑی تھی سب بھاگ گئے اتنے میں ہوٹل انتظامیہ پہنچ گئےجلدی سے فاطمہ کو ہسپتال منتقل کیا اب بھلا اقبال کے ساتھ ملے ہوئے پولیس والے کیسے اس کے خلاف بول سکتے تھے ۔آخر سب ملے ہوئے تھے ایک دوسرے کے ساتھ ہسپتال منتقل کر کے لاوارث کی طرح چھوڑ دیا وہ موت سے لڑ رہی تھی کوئی ڈاکٹر بھی سرجری کرنے کے لیے تیار نہ تھا گولی لگی تھی پولیس کیس تھا شاید مرنے کے قریب تھی ڈاکٹر ثمر آیا نوجوان لڑکا تھا کون ہے یہ لڑکی دوسرا ڈاکٹر بولا گولی لگی ہے میں جانتا ہوں اسے کنجری ہے مجرا کرتی ہے ۔ ڈاکٹر ثمر بولا جو بھی ہے آخر انسان ہے کیسے لوگ ہو آپ ڈاکٹر بولا مرنے دے اس بے حیا لڑکی کو معاشرے میں فحاشی پھیلا رہی تھی ڈاکٹر ثمر اپنی ذمےداری پہ سرجری کرنے لگا سب نے منع کیا پولیس کیس ہے لیکن ثمر چہرے پہ سنت رسول پانچ وقت کا نمازی خوف خدا رکھنے والا انسان تھاسرجری ہوئی سب کہنے لگے ڈاکٹر ثمر تم۔نے اپنے سر مصیبت کیوں ڈال لی، 

 ڈاکٹر ثمر خاموش تھا ظہر کی نماز ادا کی دعا مانگنے لگا اللہ پاک اس لڑکی کی مدد فرما اسے شفا عطا فرما وہ جیسی بھی ہے جو بھی ہے یہ تیرا اور اس کا معاملہ ہے بس اللہ اس کی مدد فرما اس پہ اپنی رحمت برسا ڈاکٹر ثمر اپنی جیب سے سارا خرچ کر رہے تھے اقبال نوید سے بولا میں امریکہ جانے لگا ہوں کچھ مہینے تک واپس آ جاوں گا وہ مر گئی ہوئی تو معاملہ ہی ختم ہو جائے گا نوید بولا ثنا ہمارے خلاف بغاوت کر رہی ہے اقبال بولا اس کو آزاد کر دو بخش دو اسے فاطمہ بے ہوشی میں خواب دیکھ رہی تھی روضہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھی کوئی نعت پڑھ رہی تھی روح کو سکون مل رہا تھا آنکھ کھلی چہرے پہ ایک سمائل تھی وہ زندہ تھی۔  ڈاکٹر ثمر نے بہت بڑا رسک لیا تھا اس کی سرجری والا فاطمہ رونے لگی اے اللہ مجھے سچا ایمان نصیب فرمامیں معافی مانگتی ہوں۔  میں تم کو تیرے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ دیتی ہوںمجھے میرے گناہوں کی معافی دے دے مجھے سمجھ آ گئی ہے صرف اسلام ہی وہ مذہب ہے جس میں ہر لڑکی شہزادی ہے میرے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی راستہ سچ ہے حق ہے میں بھٹک گئی تھی میں نے اسلام سے بغاوت کر کے کنجری کا نام حاصل کیا جب کے میرا نام پاکیزہ ہے۔

 فاطمہ میں کیسے کیسے کانٹوں پہ چل آئی ہوں کاش میں با پردہ باحیا رہتی کاش میں ٹک ٹک اور مارننگ شوز دیکھ کر نہ بہکتی وہ رو رہی تھی اتنے میں ڈاکٹر ثمر آ گیا ماشااللہ شکر الحمداللہ اللہ نے آپ کو زندگی عطا کی آپ اب پھر سے ڈانس کر سکیں گی مجرا کر سکیں گی ڈاکٹر ثمر کے یہ الفاظ سن کر فاطمہ کا کلیجہ پھٹ گیا روتے ہوئے بولی میں اب ناچنا نہیں چاہتی سر مجھے اسلام کی با پردہ بیٹی بننا ہے اب کافی بہتر تھی فاطمہ ڈاکٹر ثمر مسکرایا مجھے آپ کے بارے سب کچھ ڈاکٹر نوشاد صاحب نے بتایا ہے آپ اتنی خوبصورت ہیں میں دعا کرتا ہوں آپ سیدھے راستے پہ آ جائیں فاطمہ روتے ہوئے بولی میں اللہ پاک کے حضور سجدے میں گر کر اپنے گناہوں کی معافی مانگنا چاہتی ہوں ڈاکٹر ثمر رات کو اکیلے بیٹھا تھا دل میں خیال آیا

اگر میں فاطمہ کو ہمسفر بنا لوں اور وہ میری ہمسفر بن کر واپس اسلام میں لوٹ آئے تو شاید کل قیامت کے دن میری بخشش ہو جائے اور بیشک اللہ نے سب کچھ بہتر لکھا ہوا ہمارے لیئے فاطمہ ہسپتال سے جانے لگی وہ اپنے ماں باپ کے گھر جانا چاہتی تھی ثمر بولا فاطمہ کیا مجھ سے نکاح کرو گی فاطمہ کو یقین نہیں ہو رہا تھا مجھ سے نکاح ڈاکٹر صاحب میں ہی کیوں ثمر بولا شاہد اللہ بھی یہی چاہتا ہے دونوں میں بات چیت ہوئی فاطمہ روتے ہوئے بولی لیکن مجھے پہلے اپنے امی ابو سے ملنا ہے وہ گائوں پہنچی 5 سال گزر گئے تھے اپنے گھر کے سامنے پہنچی گھر ٹوٹ چکا تھا گھر میں بھینسیں بندھی ہوئی تھیں دروازہ بھی نہیں تھا دل تڑپنے لگا پوچھنے پہ پتا چلا فاطمہ کے ماں باپ فوت ہو چکے ہیں ۔ اب ہمسائے یہاں اپنے جانور باندھتے ہیں کمرے میں داخل ہوئی درد بھرا منظر برتن وہ چارپائیاں سب کچھ دھول جمی ہوئی چیخ چیخ کر رونے لگی میں نے خود جلایا اپنے ہاتھوں سے میرا انجام یہی ہونا چاہیے تھا امی ابو کی قبر پہ جا کر بہت روئی تھی ثمر نے کندھے پہ ہاتھ رکھا حوصلہ دیا اپنے ساتھ گھر لے گیا۔

 فاطمہ اور ثمر نے شادی کر لی شادی کے بعد فاطمہ مکمل بدل گئی باحجاب با پردہ 5 وقت نماز تلاوت قرآن پاک دو بار عمرہ بھی کر لیا فخر کرتی ہے کے مسلمان ہوں آور سیدھے راستے پہ ہوں فارس کو پڑھنے والی ہر شہزادی اپنے دلوں پہ لکھ لے اسلام کے دائرے سے باہر نکلو گی تو کنجری کہلاو گی فاطمہ کی زندگی آپ سب کے سامنے ہے اور یاد رکھنا معجزہ ہر بار نہیں ہوتا ڈاکٹر ثمر ہر بار نہیں ملتا میں فارس اس معاشرے کے مرد کو نہیں بدل سکتا لیکن اس معاشرے کی ہر شہزادی کو آئینہ کا دوسرا رخ ضرور دکھا سکتا ہوں ان پڑھ جاہل ناسمجھ فارس آپ سب سے اتنا ہی  کہے گا جتنا  بچ سکتے ہو زمانے کی سرد ہوا سے بچ کر رہو نہ گھر سے بھاگ کر شادی کرو نہ ٹک ٹاک اسٹار بنو نہ گھروں میں جھگڑے کرو نہ ماں باپ کو دھوکہ دے کر یار سے ڈیٹ کرو نہ طلاق لو نہ گھر برباد کروایک غلط قدم کنجری تک کا سفر کروا سکتا ہے میرے معاشرے کے مرد کو اللہ جانے عورت سنبھل جائے تو فارس کا مقصد قلم مکمل ہو جائے

 

February 10, 2022

جسم فروشی کا دھندہ ،

اسلام آباد(نیوز ڈیسک) ایک ڈیڑھ سال پہلے ایک نا با لغ لڑکی کے ساتھ ایک بہت بڑے اور نامی گرامی ہوٹل میں 11 مر دوں نے اجتما عی ز یاد تی کر ڈالی تھی ۔۔اس وقت مجھے بہت دکھ ہوا ۔۔۔ان گیارہ در ندوں کو عبرتناک مو ت دینے کو دل چاہ رہا تھا ۔۔۔۔لیکن اب تک بات میری سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ کہ ایک بہت بڑے ہوٹل میں وہ لوگ لڑکی کو بنا اس کی مرضی کے لے کر پہنچ کیسے گئے؟؟؟فرض کر لیتے ہیں کہ اسے ایک ہوٹل میں بلایا گیا تھا۔ یعنی وہ اپنی مرضی سے گئی تھی ۔۔۔۔ کیا بنا مرضی کے کسی ہوٹل میں لے جائی جا سکتی ہے ؟؟اور وہ بھی ایسی صورت میں کہ ایک بندے نے روم بک کیا ہو ۔۔۔۔ایک بہت بڑے ہوٹل میں ایک لڑکی کے ساتھ 11 بندے یہ کام کر رہے ہیں اور ساتھ والے کمرے میں آواز تک نہیں جا رہی ؟ عجب نہیں لگے گا ؟ ایک لڑکی جو دو دن سے گھر سے غائب ہے۔ اور بننا بھی ماڈل چاہتی ہے تو کیا اس کے گھر والوں کو علم نہیں ہو گا کہ ہماری بیٹی اسی سلسلے میں کسی سے ملنے گئی ہے ؟۔۔اسی طرح ایک اور واقعہ کچھ عرصہ پہلے کہ لڑکی کا ایک کلاس فیلو کے ساتھ چکر تھا ۔۔لڑکے کے ساتھ چکر میں گھر والوں کو چکر دیتے دیتے ایسا چکرائی کہ پتہ چلا پریگنٹ یعنی حاملہ ہو گئی ۔۔حاملہ ہوئی تو دن بدن حالت بگڑی ۔۔وہی لڑکا جس کے ساتھ چکر تھا وہ ہسپتال میں لاوارث چھوڑ کر فرار ۔۔۔۔پھر خبر ملی لڑکی مر گئی ۔۔۔۔۔۔

ایسے ہی بے شمار واقعات آئے روز ہماری نظروں سے گزرتے ہیں۔ کہیں لڑکے کے ساتھ گھر سے بھاگنے والی عثمان مرزا جیسے حیو انوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہے تو کہیں گھر سے بھاگنے کے چکر میں اپنے ہی گاؤں کے وڈیروں کی ضد پہ غیرت کے نام پہ موت کے گھا ٹ اتار دی جاتی ہے ۔۔ سمجھ نہیں آتی ۔۔آج کی لڑکیوں نے خود ہی اپنی عز توں کا تماشہ کیوں بنایا ہوا ہے ۔۔۔کہیں کوئی ٹک ٹاک پہ چار لڑکوں کے ساتھ ناچ رہی ہے ۔۔تو کہیں کوئی یوٹیوب انسٹا پر اپنی خوبصورتی کی نمائش لگا کر بیٹھی ہے ۔۔اور پھر چند لوگوں کے واہیات کمنٹس کو بھی ہنس ہنس کر جواب دے رہی ہوتی ہے ۔۔تو کہیں پیزہ برگر آئس کریم کھلانے کا وعدہ کرنے والے کے ساتھ ماں کو نیند کی گولیاں دے کر راتیں ہوٹلوں میں گزار رہی ہوتی ہے پہلے پہل سنا جاتا تھا کہ جسم فروشی کا دھندہ گرلز ہاسٹل اور یونیورسٹیوں میں بڑی خاموشی سے ہوتا ہے۔ لیکن میری معلومات کے مطابق اب یہ یونیورسٹی سے نکل کر کالج اور سیکنڈری سکولوں تک پہنچ چکا ہے۔۔۔

اور کچھ کو لگتا ہےاس کے پیچھے باقاعدہ نیٹ ورک ہوتا۔ یہ شروع ہوتا ہے احساس محرومی سے اور مقابلے کے رجحان سے۔ یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے ہر دوسری لڑکی کے پاس سمارٹ فون موجود ہے اور وہ سمارٹ فون کہاں سے آتا ہے۔ یہ کوئی نہیں سمجھنا چاہے گا۔ گھر بیٹھے بیٹھے اس سمارٹ فون میں ایزی لوڈ کہاں کہاں سے آجاتا ہے یہ کوئی سمجھنا نہیں چاہے گا۔۔روز 50 روپے خرچہ لے جانے والی لڑکی کے پاس مہنگے موبائل، کپڑے، پرفیوم کہاں سے آگئے۔ 

یہ بھی ایک جسم فر وشی ہے اب ہوتا کیا ہے۔ ہر سکول ، کالج اور یونیورسٹی میں امیر لوگوں کے بچے بھی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور غریب لوگوں کے بھی۔ جب لڑکی اپنی ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی لڑکی کے پاس مہنگا ترین موبائل دیکھتی ہے تو اسکا بھی دل کرتا ہے کہ یہی موبائل میرے پاس بھی ہو۔ جب وہ ہر روز اپنی سہیلی کو نئے اور مہنگے کپڑے پہنے دیکھتی ہے تو اسکا بھی دل کرتا ہے کہ وہ بھی اسی طرح کے کپڑے پہنے۔ جب وہی لڑکی مہنگے کاسمیٹکس اور پرفیوم اپنی سہیلی کے چہرے پر تھوپے دیکھتی ہے تو اسکا بھی دل کرتا ہے کہ وہ بھی ان چیزوں کو استعمال کرے۔ جب وہ اپنی سہیلی کے بوائے فرینڈ کو اپنی سہیلی کے ساتھ روز یا ہر دوسرے دن میکڈونلڈ میں برگر کھانے جاتا دیکھتی ہے تو اسکا بھی دل کرتا ہے کہ وہ بھی ہر روز کسی کے ساتھ برگر کھانے جائے۔ کوئی اسکا بھی ایسے ہی نخرے اٹھانے والا دوست ہو۔ یہاں سے اپنی مرضی سے جسم فروشی کی سوچ کا بیج بونا شروع ہو جاتا ہے۔ اور کمال منافقت یہ ہے کہ نہ لڑکی اسے جسم فر وشی ماننے کو تیار ہوتی ہے نہ لڑکا سمجھتا ہے کہ وہ جسم خرید رہا ہے۔ بلکہ دونوں اسے پیار اور گرل فرینڈ بوائے فرینڈ کا نام دیتے ہیں۔ اب یہ مجھے بتانے کی شاید ضرورت نہیں کہ ایک ہی لڑکی یا لڑکے کے بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ اکثر بدلتے بھی رہتے ہیں۔ غریب لڑکی چاہے گی کہ اسکا بوائے فرینڈ گاڑی والا ہو آئے روز اسے مہنگے گفٹ دے ۔۔۔جو وہ اپنی امیر سہیلی کے مقابلے میں استعمال کر سکے ۔۔حسد ۔۔حسد ہر برائی کی جڑ ہے ۔۔۔حسد کی آ گ میں جلنے والے لوگ پھر یہ نہیں دیکھتے کہ وہ حد کی بھی حد پار کررہے ہیں ۔۔۔وہ نہیں دیکھتے کہ گھر میں بوڑھے والدین ان کی فیسیں کیسے جمع کرتے ہیں ۔۔وہ یہ نہیں دیکھتے ۔۔کہ گھر میں بیٹھی جوان بہنیں شادی کی عمر کو ہے ۔۔۔۔وہ یہ نہیں دیکھتے کہ کل ان کا کیا کہیں ان کی بہنوں کے آگے نہ آجائے ۔۔وہ بس چلتے جاتے ہیں اندھا دھند ۔

۔۔۔۔اور ٹھوکڑ لگنے پر بھی معافی مانگنے کی بجاے حرام موت لینا پسند کرتے ہیں ۔۔۔ طوائف اگر اپنا جسم پیچ کے اپنے بچوں کیلئے روٹی خریدے تو وہ جسم فروشی ہوئی۔ اور ایک سٹوڈنٹ اگر آئے روز اپنا پارٹنر بدلے۔ روز پیسے لے۔ ایزی لوڈ مانگے۔ موبائل گفٹ لے ۔مہنگے قیمتی سوٹ لے ، پرفیوم لے تو یہ جسم فروشی نہیں۔ ایسا کیوں ؟ یہ دوہرا معیار صرف ہمارے معاشرے میں ہی کیوں؟ میں یہاں مرد ذات کو ڈیفینڈ نہیں کر رہی صرف یہ سمجھانے کی کوشش کر رہی ہوں کہ حضور تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے……. خدارا لڑکیوں اپنی عزت کو سمجھو۔۔۔۔۔یہ دنیا محض فانی ہے ۔۔۔۔۔۔مہنگی اور برانڈڈ چیزوں سے نہیں عزت سے زندگی گزارو۔

 

ایک شخص مکے میں اعلان کررہا تھا کہ میری ایک ہزار دینار کی تھیلی گم ہوگئی ہے. A PILGRAM LOST HIS BAG OF DINAR'S

مشہور مورخ ابن جریر طبری کہتے ہیں کہ میں ایک سال حج کے زمانے میں مکہ مکرمہ میں تھا تو میں نے خراسان ( اس دور میں خراسان ایران اور افغانستان سمیت ارد گرد کے کئی ممالک کو کہا جاتا تھا) سے آئے ہوئے ایک شخص کو یہ اعلان کرتے ہوئے سنا وہ کہہ رہا تھا : اے مکہ کے رہنے والو! اے حج کیلئے دور دراز سے آنے والو! میری ایک تھیلی گم ہو گئی ہے جس میں ایک ہزار دینار تھے۔ جو شخص بھی مجھے وہ واپس کر دے تو اللہ تعالیٰ اسے بہترین جزادے اور جہنم آزادی عطا کرے ( دینار سونے کا سکہ ہوتا تھا اور آج کل کے حساب سے اس کا وزن 4, 347گرام بنتا ہے۔ اس طرح اندازہ کر لیں کہ ایک ہزار دینار ، اچھا خاصا سونے کا خزانہ تھا)یہ اعلان سنتے ہی مکہ مکرمہ کے ایک بوڑھے صاحب اٹھے اور انہوں نے اْس اعلان کرنے والے کو مخاطب کر کے کہا : اے خراسانی بھائی !ہمارے شہر کے حالات آج کل بہت ہی دگرگوں ہیں۔ ہر طرف قحط سالی نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ مزدوری کے مواقع بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔

فقر و غربت کا دور دورہ ہے۔ آپ کیلئے میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ اس شخص کیلئے جو آپ کا مال لوٹا دے کچھ انعام کا اعلان کردو۔ ممکن ہے کہ وہ مال کسی فقیر اور محتاج کے ہاتھ لگا ہو تو جب وہ انعام کا اعلان سنے گا تو آپ کا مال لا کر دے دے گا۔ تاکہ اْسے بھی حلال طریقے سے کچھ دینار مل جائیں ۔خراسانی شخص نے پوچھا: آپ کے خیال میں ایسے شخص کا انعام کتنا ہونا چاہیے؟ ۔مکہ مکرمہ کے رہائشی ان بزرگ عمر شخص نے کہا : ایک ہزار دینار میں سے کم از کم سو دینار تو ہونے ہی چاہئیں ۔لیکن خراسانی شخص اس پر راضی نہیں ہوا اور اس نے کہا : میں اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالے کرتا ہوں۔ آج مجھے مال نہ ملا تو کوئی بات نہیں روزِ قیامت تو مل ہی جائے گا ۔ابن جریرطبری کہتے ہیں کہ میں یہ سارا مکالمہ سن رہا تھا اور میں سمجھ گیا کہ یہ مال کسی اور کو نہیں اسی بابا جی کو ملا ہے لیکن یہ بغیر کسی حلال انعام کے اْسے واپس نہیں کرنا چاہتا ہے

۔شاید یہ بہت محتاج اور فقیر ہے۔ میں نے اپنے شک کو یقین میں بدلنے کیلئے اور اصل صورت حال سمجھنے کیلئے اس کا پیچھا کیا کہ یہ کہاں جاتا ہے؟وہ بابا جی اپنی جگہ سے اٹھے اور مکہ مکرمہ ایک پرانے محلہ کے کچے گھر میں داخل ہوئے۔ ابن جریر طبری باہر کان لگا کر سن رہے تھے۔ اندر گھر سے آواز آئی کہ بابا جی اپنی اہلیہ کو کہہ رہے تھے: اے لبابہ ! دیناروں کا مالک مل چکا ہے اور اب ہمیں دینار واپس ہی کرنے پڑیں گے۔ میں نے اسے کچھ انعام دینے کا ہی کہا لیکن وہ تو اس سے بھی انکاری ہے ۔کئی دنوں سے فاقے کی ستائی ہوئی اہلیہ نے جواب دیا : میں پچاس سال سے آپ کے ساتھ غربت بھری زندگی بسر کر رہی ہوں لیکن کبھی اپنی زبان پر حرفِ شکایت نہیں لائی۔ لیکن اب تو کئی دنوں سے فاقہ ہے۔ پھر ہم دونوں کی ہی بات نہیں۔ گھر میں ہماری چار بیٹیاں ، آپ کی دو بہنیں اور آپ کی والدہ بھی ہیں۔ انہی کا کچھ خیال کر لو۔ یہ مال جیسا بھی ہے آج خرچ کر لو۔ کل کو ممکن ہے کہ اللہ تمہیں مالدار کر دے تو یہ قرض چکا دینا ۔بابا جی نے اپنی لرزتی ہوئی آواز میں کہا: کیا میں ۶۸ برس کی عمر میں آکر اب حرام کھانا شروع کردوں جبکہ میں نے پوری زندگی صبر وشکر میں گزاردی ہے۔ اب تو یوں سمجھو کہ میں قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھا ہوں۔مجھ سے یہ نہ ہو سکے گا۔ اس پر بیوی بھی خاموش ہو گئی،ابن جریر طبری کہتے ہیں میں یہ سب باتیں سن کر بہت حیران ہوا اور واپس حرم شریف آگیا۔ اگلے دن جب سورج کچھ بلند ہوا تو وہ ہی کل والا خراسانی شخص اپنے گم شدہ مال کا اعلان کرنے لگا۔ پھر وہ ہی بابا جی کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا : اے خراسانی بھائی! میں نے کل بھی آپ کو ایک مفید مشورہ دیا تھا اگر آپ ہزار دینار میں سے سو دینار نہیں دے سکتے تو دس دینار ہی دے دو تاکہ اگر کسی غریب فقیر محتاج کو آپ کا مال ملا ہے تو اْس کا بھی کچھ بھلا ہو جائے ۔ابن جریر طبری کہتے ہیں کہ اس طرح دوسرا دن بھی بیت گیا اور خراسانی شخص کو اس کا مال نہیں مل سکا۔ جب تیسرے دن کی صبح ہوئی تو پھر وہ آکر اپنے گم شدہ مال کا اعلان کرنے لگا۔ اب پھر وہ ہی بابا جی کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا : خراسانی بھائی! میں نے پرسوں آپ کو سو دینار انعام کا اعلان کرنے کا مشورہ دیا لیکن آپ نہیں مانے۔ کل دس دینار کا مشورہ دیا اس پر بھی آپ نے انکار کر دیا۔ چلو! ایک دینار انعام کا ہی اعلان کر دو ، ممکن ہے کہ جس غریب کو مال ملا ہے اْس کے گھر میں کئی دن سے فاقہ ہو تو وہ ایک دینار سے اپنے اہل و عیال کیلئے کچھ کھانے کا ہی انتظام کر لے گا ۔

خراسانی شخص نے پھر بڑی ہی تنگ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں ایک دینار بھی دینے کیلئے تیار نہیں ہوں۔ اپنا مال لوں گا تو پورا لوں گا ورنہ روزِ قیامت ہی فیصلہ ہو گا۔جب بابا جی نے یہ سنا تو اْن کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا اور اْس خراسانی شخص کا دامن اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہا میرے ساتھ آؤ کہ میں تمہارا مال واپس کردوں۔ اللہ کی قسم! جب سے یہ مال مجھے ملا ہے میں ایک پل بھی سکون کی نیند نہیں سو سکا ہوں ۔ابن جریر طبری کہتے ہیں کہ میں بھی چپکے سے ان کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ بابا جی اپنے گھر میں داخل ہوئے۔دینار لیے اور باہر نکل کر وہ سارے دینار اس خراسانی شخص کو دیتے ہوئے کہا: اللہ تعالیٰ مجھے معاف کر دے اور اپنے فضل سے ہمیں رزق عطا فرمائے ۔مجھے ان کے پیچھے گھر سے رونے اور سسکیوں کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی کہ سب کئی دن فاقے سے تھے۔ اس خراسانی شخص نے تسلی سے اپنے دینار گنے اور روانہ ہو گیا۔ابھی وہ تھوڑا ہی آگے گیا تھا کہ اچانک مڑا اور ان بابا جی کی کنیت سے انہیں مخاطب کر کے کہنے لگا: اے ابو غیاث! میرے والد کا انتقال ہوا تو انہوں نے اپنی میراث میں تین ہزار دینار چھوڑے تھے اور وصیت کی تھی کہ شرعی طریقے پر اس کا تیسرا حصہ یعنی ہزار دینار فقراء و مساکین پر صدقہ کر دئیے جائیں اور میں مکہ مکرمہ سے یہ مال اسی نیت سے لایا تھا کہ کسی فقیر اور محتاج کو دے کر اپنے لیے اور اپنے مرحوم والد کیلئے دعا کرواؤں گا۔ مجھے اس سفر میں آپ سے زیادہ سفید پوش کوئی نظر نہیں آیا اس لیے یہ مال رکھ لو اور اپنی ضروریات میں خرچ کرو ۔اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔آمین

Total Pageviews