February 11, 2022

والدین کی نا فرمانی ، دین سے بیزاری بے راہ روی کی سزا تمام لڑکیوں کے لیئے

میں کس مذہب میں پھنس گئی ہوںمسلمانوں کی سوچ بہت تنگ ہےمیں آزاد ہونا چاہتی ہوں اپنے سب فیصلے خود کرنا چاہتی ہوں یہ کیا تم لوگوں نے میری زندگی کو زنجیروں میں جکڑ رکھا ہےکبھی مولوی کہتے ہیں سر پہ دوپٹہ لو کبھی ماں باپ کہتے ہیں گھر سے باہر نہیں جانادنیا چاند پہ پہنچ گئی ہے اور ہم لڑکیوں کو اسلام نے قیدی بنا رکھا ہے فاطمہ اپنا زہر اگل رہی تھی ۔

امی بس مجھے ڈانس کلاس میں جانا ہے مجھے ڈانسر بننا ہے ماں غصے سے بولی فاطمہ کچھ شرم کرو کیسی بکواس کرتی ہو تم امی دیکھو میں سب عورتوں کی طرح بھینس بن کر نہیں جی سکتی مجھے زندگی میں بہت کچھ کرنا ہے اپنا ایک نام بنانا ہے اپنی پہچان بنانی ہے۔

میں یہ حجاب اور برقع پہن کر جہالت میں نہیں جینا چاہتی دیکھو ٹک ٹاک پہ کتنی لڑکیاں مشہور ہو گئی ہےکتنی بڑی بڑی سٹار بن گئی ہیں مارننگ شوز میں ان کے انٹرویوز آتے ہیں بس میں اس اسلام۔کی زنجیر کو توڑنا چاہتی ہوںماں بس آپ ابا سے بات کرو میں کل۔سے جاب بھی کت رہی ہوں اور ڈانس کلاس بھی ابا پیسے نہیں دیتے تو نا دیں میں خود کو اب سنبھال سکتی ہوں اللہ اکبر اللہ اکبر مسجد سے مغرب کی اذان کی آواز سنائی دینے لگی

ماں نے کہا فاطمہ موبائل کو چھوڑ دے اور سر پہ دوپٹہ لو فاطمہ نے ٹک ٹاک اوپن کی ہوئی گانا وڈیوز دیکھ رہی کوئی پرواہ نہیں اذان ہو رہی ہے یا نہیں وہ اسلام کے دائرے میں خود کو قید سمجھ رہی تھی دیکھو بڑی بڑی ٹی وی اسٹارز کتنا پیسہ کماتی ہیں بڑی بڑی گاڑیاں لوگ ترستے ہیں ان سے ایک تصویر بنانے کے لیے بھی فاطمہ بولتی چلی جا رہی تھی ۔ماں نے بہت سمجھایا لیکن شاید وہ بغاوت پہ اتر آئی تھی۔

 آپ پانچ وقت نماز ادا کرتی ہو نا تو بتاو اللہ نے کیا دیا ہے آپ کو یہ ٹوٹا ہوا گھر ، ٹوٹی ہوئی سائیکل رکھی ہوئی ہےکہو نئے کپڑے لے دو تو تم لوگوں کے رونے ختم۔نہیں ہوتے ڈیہاڑی نہیں لگی ابا کی تو یہ نہیں ہوا  وہ نہیں ہوامیں تم لوگوں کو کامیاب ہو کر بتاوں گی ماں غصے سے بولی فاطمہ میری بچی تم کو کیا ہو گیا یہ کیسے کفریہ الفاظ بول رہی ہو اللہ سے ڈر اور شکر ادا کرلیکن فاطمہ کچھ سنتی تو پھر نا  بس ابا سے کہو میں کل سے جاب پہ جا رہی ہوںمیری دوست بھی جاتی ہے ایک پراپرٹی ڈیلر ہے اس کے آفس میں مجھے 30 ہزار میں جاب مل رہی30 ہزار ابا 3 مہینے میں کماتے ہیں باپ عشا کے وقت گھر آیا فاطمہ اپنے کمرے میں تھی ماں بہت اداس بیٹھی تھی ابا پاس آئے کیا ہوا اداس سی ہو آج ماں بولی فاطمہ کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے۔

 کیا کیا بولتی ہے کچھ سمجھ نہیں آتاوہ نوکری کرنا چاہتی ہےمیں چاہتی ہوں آپ ضد چھوڑ دیں اسے نوکری پہ جانیں دیں تب تک کوئی اچھاسا لڑکا دیکھ کر اس کو بیاہ دیتے ہیں۔فاطمہ نےبابا پیار سے بولے اللہ کی بندی وہ زمانے کو نہیں جانتی اسے خبر ہی نہیں ہے زمانے کی تلخیاں ہوتی کیا ہیں ۔میں باپ ہوں اس کا اس سے پہلے ایک مرد ہوں اور میاں اچھے سے جانتا ہوں اپنے معاشرے کو وہ جو خواب دیکھتی اس کا راستہ صرف فنا ہے۔ وہ ابھی بچی ہے ناسمجھ ہے ماں ضد کرتے ہوئے بولی آپ بس اسے جانے دو کرنے دو نوکری شاید ہماری سختی اسے اذیت پہنچا رہی ہے۔

 ماں نے صبح کہا جائو فاطمہ نوکری کر لو لیکن ہماری عزت کا خیال رکھنا میری بچی فاطمہ مسکرانے لگی آپ سوچ بدلو یہ عزت کا خیال رکھنا  میں جاب کرنے جا رہی ہوں کوئی گناہ  نہیں  وہ  خود  کو  آزاد کرنا  چاہتی تھی اور پھر  اللہ وہی عطا کرتا ہے۔ جیسی ہماری نیت ہوتی ہے جیسے ہمارے اعمال ہوتے ہیں بہت خوش تھی اس جہالت سے نکلی ہوں آفس پہنچی باس نے بہت احترام سے ویلکم کیا آج پہلا دن تھا آفس میں تھکن بھرا رہا تھا گھر آئی آنکھوں میں ایک چمک تھی کچھ کر دکھانے کا جذبہ تھا ۔ ماں نے پوچھا کھانا لگائوں بیٹی ماں کی طرف دیکھ کر کہنے لگی نہیں امی میں باس کے ساتھ ڈنر کر کے آئی ہوں پہلا دن تھا اس لیئے انھوں نے ٹریٹ دی دن گزرنے لگے ۔وہ آزادی کے نام پہ اڑنے لگی پہلی تنخواہ 35 ہزار روپے آئی جو اس کے لیئے بہت بڑی رقم۔تھی نیا موبائل لیا کچھ ضرورت کی چیزیں لیں باس کے ساتھ اچھے ریلیشن بن گئے باپ نے کافی رشتے دکھائے ۔ لیکن فاطمہ شادی نہیں کرنا چاہتی تھی کہنے لگی اگر میرے ساتھ زبردستی کی تو میں بتا رہی ہوں پولیس کے پاس چلی جاوں گی بوڑھا باپ حیران تھا فاطمہ یہ کیسی باتیں کرتی. ہوتم  فاطمہ بولی ابا بس میں کہہ دیا ۔  نا     اپنی مرضی سے شادی کروں گی آپ کو اگر بوجھ لگتی ہوں تو آپ کا گھر چھوڑ جاتی ہوں اور مجھے جہالت والی باتیں نہ سنایا کریںگھر  بسانا عزت شوہر جب مجھے کوئی اچھا لگا

میں کر لوں گی شادی باپ کا دل چاہا اس کی گردن کاٹ دوں کیسی بدزبان ہو گئی ہے۔  باپ نے ایک تھپڑ مار دیا اتنی بڑی ہو گئی ہو ۔ اپنے باپ کے ساتھ زبان لڑاتی ہو فاطمہ نے باپ کو دھکا دیا گھر سے باہر چلی گئی بھاڑ میں جاو تم لوگ باپ کی آنکھیں نم ہو گئی تھیں جاتے ہوئے باپ نے آواز دی بیٹی جس راستے پہ چل رہی ہو نا بہت پچھتائو گی تمہارا باپ ہوں نا میرے دل کی دھڑکن ہو تم اس لیے میں کچھ نہیں کہہ سکتا تم کو لیکن ایک بات یاد رکھناوقت بدلے گا گھڑی کی ٹک ٹک کرتی سوئی آگے بڑھے گی۔ میں مر جاوں گا قبر میں پڑا تمہارا باپ تمہاری بے بسی دیکھے گافاطمہ بیٹی یاد رکھنا تم مجھے پکارو گی ضرورلیکن تب وقت گزر چکا ہو گا فاطمہ مسکرانے لگی بس ہو گیا لیکچر ماں نے آواز دی فاطمہ بیٹی رک جا کہاں جا رہی ہوگھر سے چلی گئی ماں آوازیں دیتی رہی باپ شاید بیٹی کا یوں نافرمان ہونا مارنے لگایا اللہ وہ نہیں جانتی اسلام ہی سب سے پاک اور محفوظ دیوار ہے مذہب ہے۔ وہ بربادی کی طرف چل دی ہے اس پہ رحم فرما میرے اللہ فاطمہ نے باس کو کال کی سر آپ کہاں ہیں باس پیار سے بولا میں تو گھر ہوں کیا ہوا سر میں گھر چھوڑ کر آ گئی ہوںاپنے ساتھ لے جاوسر حیران تھے ایسا کیوں بھلا خیریت تو ہے نا سر آپ آ جائیں بس باس آیا کار میں بیٹھی بہت غصے میں تھی ارے ہوا کیا ہے کہاں جاو گی اب ایسا تھوڑی نا گھر سے آتے ہیں سر آپ مجھے رینٹ کے روم میں چھوڑ دیں کہیں فاطمہ خوبصورت تھی باس نے ہمدردی سے کہا ایسا کرو میرا گیسٹ ہاوس خالی ہے وہاں رہو تم پریشان نہ ہو میں تمہارے ساتھ ہوں شکریہ سر آپ کا احسان کبھی نہیں بھولوں گئ۔  بوڑھا باپ بیٹی کے دکھ سے بستر پہ پڑ گیا اور پھر ایک دن دنیا سے چل۔بساوقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فاطمہ اپنے باس نوید کے ساتھ کافی آگے بڑھ چکی تھی آفس سے پرسنل فیصلے بھی مل۔کر کرنے لگے وہ دونوں آہستہ آہستہ جسم تک پہنچ گئے ۔

فاطمہ کو اپنی ہمدردی کے آئینہ میں اتار کراس کے ساتھ ہوس پوری کرنے لگا سر نوید میں چاہتی ہوں میں ڈانسر بنوں مجھے ماڈل بننے کا بہت شوق ہےنوید مسکرا کر بولا تم پریشان نہ ہو میں ہوں نا جو دل چاہے کرنا فاطمہ کو پیسے کی کوئی کمی نا تھی نوید نے پیسوں کی عیاشی دی تھی اسے پراپرٹی کی سب ڈیل وہ دونوں ایک ساتھ کرتے فاطمہ نوید پہ بہت یقین کرتی تھی نوید تم نہ ہوتے تو میں شاید کافی مشکل وقت گزارتی نوید کا  دوست آفس آیا  یار  بڑی مست لڑکی رکھی ہوئی ہے۔ تم نے آفس میں نوید مسکرایا شرم کر شرم دوست کہنے لگا کیا شادی کرنے کا ارادہ ہے نوید قہقہ لگا کر ہنسا اس سے شادی حد ہو گئی یار اچھا سنو یار میری بھی دوستی  کروا اس سےنوید آہستہ سے بولا صبر رکھو صبر خود کو آزاد سمجھتی تھی ماڈرن جینز پہنناسر پہ دوپٹہ نہیں آنکھوں میں حیا نہیں ہر اجنبی کے ساتھ بیٹھنا اسلام سے بغاوت فاطمہ کی دوست نے اسے کہا فاطمہ تم۔بہت غلط راہ پہ ہو سنبھل جاو  فاطمہ  اپنا دامن داغدار کر چکی تھی ۔پھر ایک دن اچانک پولیس والے ان کے آفس آ گئے نوید کو پکڑ لیا فاطمہ کو بھی گرفتار کر لیا ۔ نوید غصے سے بولا کیوں گرفتار کر رہے ہو۔  پولیس والا بولا تم۔نے امریکہ کی ایک پارٹی ہے ان کے پلاٹ دو نمبری میں بیچے ہیں جن کی قیمت دو کروڑ روپے ہے ۔نوید کو پولیس اسٹیشن لے گئے فاطمہ کو بھی گرفتار کر لیا تھا فاطمہ نوید سے کہنے لگی سر پلیز مجھے اس مصیبت سے نکالیں نوید نے دلاسہ دیا تم۔فکر نہ کرو میں کچھ کرتا ہوں تھانیدار آیا ہوں۔

 بھئی کب دے گا پیسے نوید نے انسپکٹر کو آنکھ سے اشارہ کیا آہستہ سے بولا میں آپ کو 50 لاکھ روپے دوں گاآپ یہ سارا کیس اس لڑکی پہ ڈال دو بس پولیس والا مسکرایا ہم۔کو رشوت دیتے ہو نوید آہستہ سے بولا سر دیکھیں نا کچھ ہو توانسپکٹر بولا 50 لاکھ لے لئے تو کچھ بھی کروں بے فکر ہو جا اب نوید کو رہا کر دیا ۔ فاطمہ پیار سے بولی سر آپ کہاں جا رہے ہیں نوید خاموشی سے پاس سے گزر گیا پولیس والا بولا تیرا یار دھوکہ دے گیا تم کو کیس تیار کیا  دوکروڑ فاطمہ پہ ڈال دیئے وقت نے کایہ پلٹی تھی عدالت میں کیس گیا. تو سارے ثبوت فاطمہ کے خلاف تھے وہ بے بسی میں جج سے مخاطب ہوئی سر یہ سب جھوٹ ہے۔

 لیکن عدالت ثبوت پہ چلتی ہے نوید رنگ بدل گیا ہاں اس نے میرے ساتھ دھوکہ کیا ہے یہ لڑکی اپنے ماں باپ کی سگی نہیں بنی تھی میری کیا بنتی سر پلیز اس کو کڑی سے کڑی سزا دیں ۔ اور میرا پیسہ واپس لے کر دیں فاطمہ بدلتے رنگ دیکھ رہی تھی نوید سر خدا کا خوف کریں آپ کیوں جھوٹ بول رہے ہیں5 سال با مشقت کی قید سنائی گئی فاطمہ رونے لگی جج صاحب میں بے قصور ہوں لاوارث کی طرح جیل منتقل کر دی گئی دال اور سوکھی روٹی سامنے پڑی تھی آنکھوں میں آنسو تھے یہ کہاں آ گئی میں کچھ دن گزرے امریکہ والا شخص جس کی پراپرٹی نوید نے دو نمبری میں بیچ کر الزام فاطمہ پہ لگا دیا تھا۔

پاکستان واپس آیا جیل پہنچا جیلر صاحب کون سی وہ چھوکری ہے جس میں اتنی ہمت میرے پلاٹ بیچ دیئے جیلر سر جھکا کر چوہدری صاحب آ جائیں آپ کو ملاتا ہوں فاطمہ سلاخوں کے پیچھے بیٹھی تھی وہ شخص چوہدری اقبال پاس آیا یہ ہے وہ لڑکی ہے تو بڑی خوبصورت مجھے نہیں لگتا یہ ایسا کام۔کر سکتی ہے جیلر بولا چوہدری صاحب اس کو پھنسایا گیا ہے صرف ہم۔سب جانتے ہیں اقبال مسکرانے لگا چلو ایک گیم کھیلتے ہیں فاطمہ سے مخاطب ہو کر بولا دیکھ میں تم۔کو یہاں سے نکلوا سکتا ہوں اگر تم۔میرے ساتھ ایگریمنٹ کرو تو کیا ہو گا۔ میں تم کو آزاد کردوں گا ۔اس کالی کوٹھری سے نکال لوں گا۔میری بات مان لوتو فاطمہ بس جیل سے کسی طرح نکلنا چاہتی تھی کہیں نہ کہیں اسے ٹھوکر لگ چکی تھی فاطمہ کا ساتھ دینے والا تھا ہی کون میں تم کو آزاد کر دوں گا۔ اس کالی کوٹھری سے نکال لوں گا میری بات مان لو تو فاطمہ بس جیل سے کسی طرح نکلنا چاہتی تھی کہیں نہ کہیں اسے ٹھوکر لگ چکی تھی فاطمہ کا دینے والا تھا ہی کون ماں باپ کو تو وہ ٹھکرا آئی تھی کیا کرتی کہاں جاتی اسلام سے بغاوت کر چکی تھی۔

 اسے آزادی چاہیے تھی لیکن قیدی بن گئی وہ نہیں جانتی تھی عورت صرف تب تک عورت ہے جب تک وہ باحیا با پردہ ہے جیسے ہی اسلام کا دائرہ پار کیا وہ عورت سے صرف ایک گوشت کا  لوتھڑا  رہ جاتی ہے جسے وقت گزاری کے لیئے لوگ استعمال کرتے ہیں اقبال سونے کی انگھوٹھیاں پہنی ہوئی بڑی بڑی مونچھ رکھی ہوئی فاطمہ کی طرف دیکھ رہا تھا فاطمہ پولیس والے کی طرف دیکھنے لگی۔ پھر بولی ٹھیک ہے میں آپ کی بات ماننے کے لیئے تیار ہوں اقبال ہلکا سا مسکرایا گڈ جیلر صاحب میڈم کو باہر نکالیں وہ دونوں کمرے میں بیٹھے تھے اقبال بولا فاطمہ مین جانتا ہوں تم بے قصور ہو نوید نے تم کو پھنسایا ہے۔ میں کیا پولیس والے بھی جانتے ہیں جج صاحب بھی جانتے ہیں فاطمہ پہ ایک سے بڑھ کر ایک پردہ کھل رہا تھااقبال کا لہجہ کچھ سخت ہوا اصل بات پہ آتے ہیں میں اسٹیج شو کا پروڈیوسر بھی ہوں۔  جیسے نرگس اور اس طرح کی ڈانسر مجرا کرتی ہیں تم خوش شکل ہو ہر اسٹیج شو پہ لوگوں کے سامنے تم۔کو ناچنا ہو گا  بڑی قیمت ادا کروں گا ۔لوگوں کا دل بہلانا ہو گا ایک چیک پہ 20 لاکھ روپے سامنے رکھا فیصلہ تمہارا ہے پانچ سال جیل میں سڑنا ہے

پھر میں نہیں چھوڑوں گا تم کو یا پھر یہ رنگین زندگی جب میرا دو کروڑ پورا ہو جائے تم۔آزاد ہو ایک طرف قید خانہ تھا ایک طرف میخانہ سوکھی روٹی کالی شامیں طرح طرح کے کھانے رنگین شام اس نے ڈیل سائن کر لی اقبال ہنسنے لگا مجھے یقین تھا۔  چلیں میرے ساتھ جیلر صاحب آپ کے 10 لاکھ آپ کو مل جائیں گے اس کیس کو ختم کر دو کسی طرح فاطمہ کار میں بیٹھی ایک عالی شان گھرلیکن وہ گھر نہیں جہنم تھا جس میں قدم رکھتے ہی اس کی دنیا بدل گئی جیسے ہی گھر میں داخل ہوئی وہاں بہت سی لڑکیاں تھیں مرد تھے جیسے وہ کوٹھ ا ہو اقبال بولا یہ ہیں ثنا میڈم یہ تم کو ناچنا سکھا دیں گی ثنا  فاطمہ کی طرف دیکھنے لگی واہ کیا خوبصورت مال آیا ہے

اقبال بولا اس کو ٹرنینگ دو میں 2 دن کے بعد آوں گا بہت بڑا شو ہونے جا رہا ہے یہاں اس کو ناچنا ہے فاطمہ خاموش تھی۔ ثنا بولی تم کسی شریف گھر کی بیٹی لگتی ہو خود پہ ترس نہیں آتا کیا ہائے میں یہاں سے نکلنا چاہتی ہوں ۔تم اس گندگی کی زینت بننا چاہتی ہو فاطمہ کیا بتاتی گھر سے نکلی تھی زمانے سے لڑنے زمانے نے خاک بنا کر رکھ دیا  جاتے ہوئے اقبال نے اشارہ کیا بھاگنے کی یا کوئی بھی ہوشیاری کی کوشش کی تو قتل کر دی جاو گی۔  سمجھی فاطمہ نرم بستر پہ بیٹھی تھی کے ثنا ہاتھ میں گھنگرو لیئے آ گئی پہنو اسے پاوں میں گھنگرو باندھے ان کی چھنکار چھن چھن کرتے ہوئے چلنے لگی رات بھر اسے سکھاتی رہی۔ دو دن میں اسے اس قابل کر دیا کے وہ لوگوں کا دل بہلا سکتی تھی۔ بخار ہو چکا تھا تھکن تھی لوگوں کا ہجوم تھا وہاں لڑکیوں کا میرا دیکھنے کے لیئے بوڑھے جوان سب آئے تھے۔

 اس کی انٹری ہوئی ناچنے لگی 30 منٹ تک ناچتی رہی دیکھنے والے انجوائے کر رہے تھے آج وہ کنجری بن کر خود کو بہت چھوٹا محسوس کر رہی تھی کیوں کے اس نے دیکھ اایک پوسٹر پہ اس کے نام کے ساتھ کنجری لکھا ہوا تھا ہائے اسے اس کی آزادی نے کنج ری بنا ڈالا آنکھوں میں چھپائے آنسو ناچ رہی تھی اب قدم بوجھل ہونے لگے تھے بخار سے جسم ٹوٹنے لگااس کا ڈانس ختم ہوئے کمرے میں گئی بیڈ پہ ایک لاش کی طرح گر گئی ثنا پاس آئی اچھا ڈانس کیا ہے تم نے اوہ بخار ہے تم کو چلو کوئی بات نہیں پیناڈول لو ٹھیک ہو جاو گی۔

ثنا کی طرف دیکھ کر بولی میرے گھنگرو کھول دوثنا نے سرخ آنکھوں میں ایک قیامت دیکھفاطمہ رات کو تمہیں ایک شادی پہ جانا ہے۔ کسی چوہدری کی مہندی پہ کنجری بن کر ناچنا ہے کافی پیسہ ملت گا وہاں سے شاہد دو لاکھ تم بھی کما لو گئ فاطمہ آہستہ سے بولی مجھ میں ہمت نہیں ہے ثنا قہقہ لگا کر ہنسی ہمت تو تم میں بہت ہے ڈئیر فاطمہ سنا ہے تم میں اتنی ہمت ہے کے اپنے باپ کو دھکا دے کر آئی تھی اتنی ہمت ہے کے اپنے باس کے ساتھ جسمانی  تعلقات رکھے اتنی ہمت ہے کے کسی مرد کو اپنی راتیں دے دیں ۔ سنا ہے تم ٹک ٹاک اسٹار بننا چاہتی تھی ناچ کر تو یہ بھی بلکل ویسا ہی ہے اس میں تو پیسہ بھی بہت ہے فاطمہ ثنا کی طرف دیکھنے لگی ۔

تم کیسے جانتی ہو یہ سب باتیں ثنا نے پھر قہقہ لگایا نوید کوئی پراپرٹی ڈیلر نہیں ہے اقبال کا پارٹنر ہے وہ دونوں کوٹھا چلاتے ہیں دھندا کرتے ہیں وہ بھولی بھالی لڑکیوں کو جھانسا دے کر پھنسا لیتے ہیں کبھی فیس بک کی محبت سے تو کبھی رونگ نمبر سے کبھی نگاہیں ملا کر کسی چوراہے پہ یہ بھیڑیے ہمدرد بن کر مارتے ہیں یہاں ہر انسان ظالم ہے پولیس والے کیا جج وکیل سب اس کوٹھے پہ آ کر اپنی راتیں رنگین کرتے ہیں ثنا روتے ہوئے بولی میں 5 سال گزر گئے ہیں اس جہنم میں میں با پردہ لڑکی چند دن کی محبت میں ماری گئی بس یوں کہہ لو میں کسی کی باتوں میں بہہ گئی تھی اور برباد ہو گئی یہ مرد بہت محبت سے بات کر کے بہت نفرت سے برباد کرتے ہیں چلو ہمت کرو تم۔ی

ان جلاد لوگوں کو نہیں جانتی ہو تم انکار کرو گی یہ تمہارا جینا حرام کر دیں گے واپس آ  گئی تو میں تم کو مالش کر دوں گی اب کچھ سمجھ رہی تھی فاطمہ جو بھی ہوا ایک عذاب سا ہوا ہے اقبال آیا فاطمہ چلو ٹائم ہو گیا ہے 11 بجے پروگرام شروع ہو جائے گا وہاں پہنچی شادی والے گھر ان کے نوجوان لڑکے پاس آ کر بیٹھے نازیبا الفاظ بولنے لگے کوئی اس کی آنکھوں کی بات کرتا کوئی ہونٹوں کی جیسے بازار سے خریدا ہوا کوئی کھلونا ہو خامواس بیٹھی تھی خوبصورت تو تھی لیکن بھٹک گئی تھی رنگین محفل میں جیسے ہی گانا بجانا شروع ہوا شراب کی بوتلیں کھل گئیں اقبال بولا تم پریشان نہ ہونا بس ناچتے رینا 30 لاکھ کہ ڈیل ہے ان لوگوں کے ساتھ موبائل کے کیمرے آن ہوئے کچھ لڑکے لائیو اس کا ناچ چلانے لگے درد بھرے قدم ناچنے لگے بخار تھکن کون سمجھے یہ درد بھلا شوق ھے بغاوت کا فیصلہ بھی اپنا تھا ۔اسلام کو تنگ سوچ کہنا بھی اس کا تھا ڈانسر بننے کی ضد بھی اس کی تھی باپ کو جاہل کہنا بھی اس کا تھا پھر دہلیز پار کرنا بھی اس کا فیصلہ تھا وہ ناچ رہی تھی لڑکے شراب پہ کر نازیبا حرکتیں کرنے لگے دل گھبرا رہا تھا کوئی راستہ کوئی سفر اب نہ تھا ہر سانس جہنم ہر دھڑکن قیامت تھی 3 بج گئے تھے اب ہمت ختم ہونے لگی چاہا اب کرسی پہ بیٹھ جائے ایک لڑکا ہاتھ میں بندوق پکڑے پاس آیاناچ کنجری ناچ 30 لاکھ روپے دیئے ہیں ہائے رے معاشرے کی یہ بے حسی اور اللہ بیشک سب کچھ دیکھ رہا ہے فاطمہ اقبال کے پاس آئی سر میں تھک گئی ہوں۔

 اب دوسری لڑکی کو بولو ڈانس کرے اقبال بولا وہ لوگ کہہ رہے ہیں 5 گانوں پہ ڈانس کر دو بس فاطمہ بولی میں نہیں ڈانس کر سکتی اب پاس کھڑا وہ لڑکا شراب کے نشے میں تھا فاطمہ کے منہ پہ تھپڑ مارا ناچ ورنہ گولی مار دوں گا گندی گالیاں دینے لگا تھپڑ اتنے زور کا تھا کے سفید چہرے پہ انگلیوں کے نشان نظر آنے لگے آنکھوں سے بے بسی کے آنسو بہنے لگے شو ختم ہوا کار میں بے ہوشی کی مانند گر گئی سامنے بیگ نوٹوں سے بھرا پڑا تھا لاکھوں روپے پاس تھی لیکن گھٹن تھی گھر آئی ثنا نے پکڑ کر بستر پہ لٹایا اقبال بولا اس کو درد کا انجیکشن دے دینا میرے لیئے بہت ضروری ہے یہ ثنا نے چہرے پہ ہاتھ رکھا فاطمہ میری طرف دیکھو فاطمہ خاموش تھی ثنا بولی فاطمہ یہ فیصلہ تمہارا تھا اب جیسا بھی برداشت کرو

میں تمہارے پائوں پہ مالش کر دیتی ہوں گود میں پائوں رکھے سو گئی نیند میں ماں کو آواز دینے لگی کبھی ماں کو آواز دیتی کبھی بابا کو یہ دنیا بہت ظالم ہے خدا کی قسم یہ آپ کی سوچ سے بھی زیادہ ظالم ہےدوسری صبح اٹھی ثنا کے پاس جا کر بیٹھی ثنا بہت جلد پیسے پورے ہو جائیں گے میں پھر یہاں سے چلی جاوں گی اپنی امی کے پاس نئی زندگی شروع کروں گی اللہ کو یاد کروں گی نماز ادا کروں گی میں اپنے اللہ کو راضی کر لوں گی اہنے گناہوں کی معافی مانگ لوں گی وہ شاید اب سمجھ گئی تھی یہ رنگین دنیا صرف دھوکہ ہے۔ صرف فریب ہے اسلام سے بغاوت صرف بربادی ہے لیکن اب دیر ہو چکی تھی۔

 ثنا بولی فاطمہ اب بھول جاو سب کچھ تم نے جس دن یہاں سے جانا چاہا یہ لوگ تم کو مار دیں گے اور یہی سچ ہے کل وہ جو لڑکی جھگڑا کر رہی تھی اقبال کے ساتھ اسے ان لوگوں نے تیزاب کے ڈرم میں پھینک دیا ہے درندے لوگ ہیں یہ فاطمہ کا جسم کانپنے لگا آج اس مجرا کرتے ہوئے 7 ماہ گزر گئے تھے پھر ایک دن بھیانک موڑ آیا ایک دن ایک ہوٹل  میں کسی لڑکے کی برتھ ڈے پہ ناچ رہی تھی گانے بج رہے تھے اس کے قدم تیزی سے ناچ رہے تھے ایک لڑکا ، اٹھا پاس آیا کہنے لگا بے لباس ہو کر ناچ فاطمہ غصے سے بولی کیا بکواس کر رہے ہو،  وہ سب نوجوان لڑکے شراب پی رہے تھے اقبال سے کہنے 5 لاکھ دیں گے اس کو بولو بے لباس ہو کر ناچے فاطمہ انکار کرتی رہی  اور جب رات کے 1 بجے  جب سارا زمانہ سو رہا تھا ایک گولی کی آواز گونجی اس کے سینے سے پار ہو گئی شراب کے نشے میں گولی چل گئی فاطمہ زمین پہ گر گئی سب ڈر گئے۔ 

 اقبال قہقہ لگا کر ہنسا چلو کمینی سے جان چھوٹی پیسے لیئے بھاگ نکلا سب دوست بھی بھاگ گئے وہ خون سے لت پت فرش پہ پڑی تھی سب بھاگ گئے اتنے میں ہوٹل انتظامیہ پہنچ گئےجلدی سے فاطمہ کو ہسپتال منتقل کیا اب بھلا اقبال کے ساتھ ملے ہوئے پولیس والے کیسے اس کے خلاف بول سکتے تھے ۔آخر سب ملے ہوئے تھے ایک دوسرے کے ساتھ ہسپتال منتقل کر کے لاوارث کی طرح چھوڑ دیا وہ موت سے لڑ رہی تھی کوئی ڈاکٹر بھی سرجری کرنے کے لیے تیار نہ تھا گولی لگی تھی پولیس کیس تھا شاید مرنے کے قریب تھی ڈاکٹر ثمر آیا نوجوان لڑکا تھا کون ہے یہ لڑکی دوسرا ڈاکٹر بولا گولی لگی ہے میں جانتا ہوں اسے کنجری ہے مجرا کرتی ہے ۔ ڈاکٹر ثمر بولا جو بھی ہے آخر انسان ہے کیسے لوگ ہو آپ ڈاکٹر بولا مرنے دے اس بے حیا لڑکی کو معاشرے میں فحاشی پھیلا رہی تھی ڈاکٹر ثمر اپنی ذمےداری پہ سرجری کرنے لگا سب نے منع کیا پولیس کیس ہے لیکن ثمر چہرے پہ سنت رسول پانچ وقت کا نمازی خوف خدا رکھنے والا انسان تھاسرجری ہوئی سب کہنے لگے ڈاکٹر ثمر تم۔نے اپنے سر مصیبت کیوں ڈال لی، 

 ڈاکٹر ثمر خاموش تھا ظہر کی نماز ادا کی دعا مانگنے لگا اللہ پاک اس لڑکی کی مدد فرما اسے شفا عطا فرما وہ جیسی بھی ہے جو بھی ہے یہ تیرا اور اس کا معاملہ ہے بس اللہ اس کی مدد فرما اس پہ اپنی رحمت برسا ڈاکٹر ثمر اپنی جیب سے سارا خرچ کر رہے تھے اقبال نوید سے بولا میں امریکہ جانے لگا ہوں کچھ مہینے تک واپس آ جاوں گا وہ مر گئی ہوئی تو معاملہ ہی ختم ہو جائے گا نوید بولا ثنا ہمارے خلاف بغاوت کر رہی ہے اقبال بولا اس کو آزاد کر دو بخش دو اسے فاطمہ بے ہوشی میں خواب دیکھ رہی تھی روضہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھی کوئی نعت پڑھ رہی تھی روح کو سکون مل رہا تھا آنکھ کھلی چہرے پہ ایک سمائل تھی وہ زندہ تھی۔  ڈاکٹر ثمر نے بہت بڑا رسک لیا تھا اس کی سرجری والا فاطمہ رونے لگی اے اللہ مجھے سچا ایمان نصیب فرمامیں معافی مانگتی ہوں۔  میں تم کو تیرے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ دیتی ہوںمجھے میرے گناہوں کی معافی دے دے مجھے سمجھ آ گئی ہے صرف اسلام ہی وہ مذہب ہے جس میں ہر لڑکی شہزادی ہے میرے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی راستہ سچ ہے حق ہے میں بھٹک گئی تھی میں نے اسلام سے بغاوت کر کے کنجری کا نام حاصل کیا جب کے میرا نام پاکیزہ ہے۔

 فاطمہ میں کیسے کیسے کانٹوں پہ چل آئی ہوں کاش میں با پردہ باحیا رہتی کاش میں ٹک ٹک اور مارننگ شوز دیکھ کر نہ بہکتی وہ رو رہی تھی اتنے میں ڈاکٹر ثمر آ گیا ماشااللہ شکر الحمداللہ اللہ نے آپ کو زندگی عطا کی آپ اب پھر سے ڈانس کر سکیں گی مجرا کر سکیں گی ڈاکٹر ثمر کے یہ الفاظ سن کر فاطمہ کا کلیجہ پھٹ گیا روتے ہوئے بولی میں اب ناچنا نہیں چاہتی سر مجھے اسلام کی با پردہ بیٹی بننا ہے اب کافی بہتر تھی فاطمہ ڈاکٹر ثمر مسکرایا مجھے آپ کے بارے سب کچھ ڈاکٹر نوشاد صاحب نے بتایا ہے آپ اتنی خوبصورت ہیں میں دعا کرتا ہوں آپ سیدھے راستے پہ آ جائیں فاطمہ روتے ہوئے بولی میں اللہ پاک کے حضور سجدے میں گر کر اپنے گناہوں کی معافی مانگنا چاہتی ہوں ڈاکٹر ثمر رات کو اکیلے بیٹھا تھا دل میں خیال آیا

اگر میں فاطمہ کو ہمسفر بنا لوں اور وہ میری ہمسفر بن کر واپس اسلام میں لوٹ آئے تو شاید کل قیامت کے دن میری بخشش ہو جائے اور بیشک اللہ نے سب کچھ بہتر لکھا ہوا ہمارے لیئے فاطمہ ہسپتال سے جانے لگی وہ اپنے ماں باپ کے گھر جانا چاہتی تھی ثمر بولا فاطمہ کیا مجھ سے نکاح کرو گی فاطمہ کو یقین نہیں ہو رہا تھا مجھ سے نکاح ڈاکٹر صاحب میں ہی کیوں ثمر بولا شاہد اللہ بھی یہی چاہتا ہے دونوں میں بات چیت ہوئی فاطمہ روتے ہوئے بولی لیکن مجھے پہلے اپنے امی ابو سے ملنا ہے وہ گائوں پہنچی 5 سال گزر گئے تھے اپنے گھر کے سامنے پہنچی گھر ٹوٹ چکا تھا گھر میں بھینسیں بندھی ہوئی تھیں دروازہ بھی نہیں تھا دل تڑپنے لگا پوچھنے پہ پتا چلا فاطمہ کے ماں باپ فوت ہو چکے ہیں ۔ اب ہمسائے یہاں اپنے جانور باندھتے ہیں کمرے میں داخل ہوئی درد بھرا منظر برتن وہ چارپائیاں سب کچھ دھول جمی ہوئی چیخ چیخ کر رونے لگی میں نے خود جلایا اپنے ہاتھوں سے میرا انجام یہی ہونا چاہیے تھا امی ابو کی قبر پہ جا کر بہت روئی تھی ثمر نے کندھے پہ ہاتھ رکھا حوصلہ دیا اپنے ساتھ گھر لے گیا۔

 فاطمہ اور ثمر نے شادی کر لی شادی کے بعد فاطمہ مکمل بدل گئی باحجاب با پردہ 5 وقت نماز تلاوت قرآن پاک دو بار عمرہ بھی کر لیا فخر کرتی ہے کے مسلمان ہوں آور سیدھے راستے پہ ہوں فارس کو پڑھنے والی ہر شہزادی اپنے دلوں پہ لکھ لے اسلام کے دائرے سے باہر نکلو گی تو کنجری کہلاو گی فاطمہ کی زندگی آپ سب کے سامنے ہے اور یاد رکھنا معجزہ ہر بار نہیں ہوتا ڈاکٹر ثمر ہر بار نہیں ملتا میں فارس اس معاشرے کے مرد کو نہیں بدل سکتا لیکن اس معاشرے کی ہر شہزادی کو آئینہ کا دوسرا رخ ضرور دکھا سکتا ہوں ان پڑھ جاہل ناسمجھ فارس آپ سب سے اتنا ہی  کہے گا جتنا  بچ سکتے ہو زمانے کی سرد ہوا سے بچ کر رہو نہ گھر سے بھاگ کر شادی کرو نہ ٹک ٹاک اسٹار بنو نہ گھروں میں جھگڑے کرو نہ ماں باپ کو دھوکہ دے کر یار سے ڈیٹ کرو نہ طلاق لو نہ گھر برباد کروایک غلط قدم کنجری تک کا سفر کروا سکتا ہے میرے معاشرے کے مرد کو اللہ جانے عورت سنبھل جائے تو فارس کا مقصد قلم مکمل ہو جائے

 

No comments:

Post a Comment

Total Pageviews