۔۔۔++18۔۔۔ خوش گوار ازدواجی زندگی کا حصول ۔۔
(57) یہ ایک حساس موضوع ہے۔ لیکن ہماری گھٹن زدہ فرسودہ غیر دینی فکر اور "غیرت" نے اس کو حادثہ اور سانحہ بنا دیا ہے۔ انسان کا جذباتی, نفسیاتی, انفرادی, جسمانی قتلِ عام:
۔۔۔ 50 سال کے قریب ایک خاتون نے رابطہ کیا اور پوچھا۔ چند سال پہلے میرے شوہر کا انتقال ہوگیا۔ ہم نے آپ کی طرح ایک مثالی زندگی گزاری۔ آپ میری بات سن لیں۔ جواب بعد میں دے دینا۔۔۔ میرے جسم کا ایک تقاضا ہے۔ اس سے میری اولاد بے خبر ہے۔ جب یہ کیفیت مجھ پہ طاری ہوتی ہے تو جسم سُن اور ہاتھ شل ہوجاتے ہیں۔
میں 4, 5 دن کچھ کرنے کے قابل نہیں رہتی۔ ہر 3, 4 ماہ کے بعد اس تکلیف زدہ کیفیت سے گزرتی ہوں۔
ذہنی طور پہ ماؤف۔ کبھی خدا سے دل لگاتی ہوں۔ کبھی اس کے عذاب کا سوچ کے خود کو باز رکھتی ہوں۔
کبھی روحانی سیشنز اٹینڈ کرتی ہوں۔ پر قابو نہیں رہتا اور بے بس ہوجاتی ہوں۔
معالجین کہتے ہیں کہ کم سے کم ماہواری کے 10 سال یہ اور چلے گا۔ مجھے اس کا حل بتائیے۔۔۔
میں پروفیشنل کنسلٹنسی میں سن کے خاموش ہوجاتا ہوں, قوٰی معطل کر دیتا ہوں۔ تاکہ اب الہامی فکر کو قلب کے دریچوں سے اندر آنے کا موقع ملے۔ مجھے تمام پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوۓ جواب دینا تھا۔ ہماری روحانی و فقہی فکر میں یہ توسع موجود ہے۔ یہ شان دار لچک ہی اسے قیامت تک کے لیے زندہ فکر بناتی ہے۔۔
۔۔۔ جن کے ساتھ یہ آزمائش گزرتی ہے, ان میں سے کچھ کو ذرا صبر آ جاتا ہے۔ اللہ دے دیتا ہے۔ کچھ لوگ جن میں Sexual urge فطرتاً زیادہ ہوتی ہے, وہ شدید تناؤ کا شکار ہوجاتی ہیں۔ باقی اس سے بے خبر اور بعض اوقات ان کے رویے سے نالاں ہوتے ہیں۔۔۔ کچھ غیر فطری کنٹرول کی طرف جاتی ہیں۔ ڈاکٹر زینب نے بتایا کہ ایک خاتون کو ایسے ہی حالات میں چیک اپ کے بعد میں نے Examin کرنے اور الٹرا ساؤنڈ کی اجازت مانگی۔ رپورٹ میں مجھے نیلے رنگ کی کوئی چیز نظر آئی۔ میں حیران تھی۔ پتا چلا کہ خواہشِ نفسانی کو دبانے کے کے لیے اس نے دائی سے کوئی دوا اندر رکھوائی ہوئی ہے۔ ایسوں کے لیے عرض ہے کہ:
اگر کوئی ضروری وجہ نہیں ہے تو اس کا فطری اور درست حل تو شادی ہے۔ اس بات پہ معاشرے سے ٹکرا سکتے ہیں تو ٹکرا جائیں۔ یہ عین جائز اور ضروری حق ہے۔ اگر گندا ردعمل سنبھال سکتے ہیں تو لڑ جائیں۔ اولاد کو بھی عقل کو ہاتھ مارنا چاہیے۔ یہ ویدانتی فرسودہ گھاٹیوں سے نکل کے خیال کرنا چاہیے ورنہ اپنے محبوب والدہ/ والد کو تباہ کن نتائج کا سامنا کروانے کے ذمہ دار اور عند اللہ ماخوذ ہوں گے۔ اور یہ بات جوانی اور ادھیڑ عمر کے علاوہ بڑھاپے کے لیے بھی صحیح ہے
تم سے اک رسم تک نہیں ٹُوٹی بات کرتے تھے تم ستاروں کی!
اگر خواہش کو کچھ کنٹرول کرنا چاہتے ہیں تو روزے رکھیں۔ اس کی حکمت یہ سمجھ آتی ہے کہ انسان نفسیاتی طور پہ خدا کے قرب کو شہوت کے آگے رکاوٹ بناۓ۔ ورنہ بھوک اشتہا بڑھا بھی دیتی ہے
یہ نہیں کرسکتیں تو ایسی خاتون خود لذتی اختیار کر سکتی ہیں۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ فقہی اور نفسیاتی ہر دو حوالوں سے۔ فقہا یا نفسیات دان اس کو فطری سمجھتے ہیں۔ بلکہ نہیں کریں گی تو قلبی, ذہنی, جسمانی, روحانی مسائل کا سامنا کریں گی, ہسٹریائی فٹس کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔ مردانہ حوالے سے بھی ہمارے بزرگ امام, احمد بن حنبل عام حالات میں بھی گناہ سے بچنے کے لیے اسے روا جانتے ہیں
کوئی Sex toys یا اس قبیل کی دیگر چیزیں استعمال کرنا چاہتی ہیں تو اس اضطراری کیفیت میں کر سکتی ہیں۔ کسی کو اعتراض کا حق نہیں۔ اس ابال کو عافیت سے گزارنے کے لیے ٹھنڈا کرنا ضروری ہے۔۔۔ یہ باتیں مردوں کے لیے بھی ہیں۔۔۔
۔۔۔ یہ قیاسی روشنی ان لوگوں کے لیے بھی ہے جن کا پارٹنر زندہ تو ہے لیکن ان کا آپسی جسمانی تعلق ختم یا معطل ہو چکا ہے۔ یا جن کی عمر دور ہوگئی پر تا حال کنوارگی ہے۔۔۔ معاملہ کی نازکیت اور شدت و گہرائی کے پیشِ نظر ہم نے ملک کے چوٹی کے ماہرین کو آن بورڈ لیا:
صاحب زادہ محمد امانت رسول (فقیہ)
عمار خان ناصر (فقیہ)
ضیا ضرناب (پروفیسر, کنسلٹنٹ سائیکالوجسٹ) اور۔۔۔
ذینب ملک (معالج, گائنا کولوجسٹ)
ہم چاہتے تھے کہ پوری ذمہ داری سے پیغام نشر کیا جاۓ۔ لوگوں کو اس اہم ترین حقیقی مسئلے میں گناہ کی نفسیات سے نکالا جاۓ۔ سوسائٹی کی ایک تلخ حقیقت کا سنجیدہ حل فراہم کیا جاۓ۔۔۔ خدا ہمیں مسکرا کے دیکھے اور کہے Weldon میرے سہارے پہ جینے والے, صرف مجھ پہ بھروسہ کرنے والے, شاباش۔۔۔ لکھنے کے بعد شکرانے کے دعائی حنائی ہاتھ ہم نے چہرے پہ پھیرے۔ امید ہے یہ تحریر کئی دکھیاروں کا تریاق ہوگی
نہیں ہے تاب تو پھر عاشقی کی راہ نہ چل یہ کارزارِ جنوں ہے جگر نکال کے رکھ
سید ثمر احمد
لاہور
25 فروری, 2022
خوش گوار ازدواجی زندگی کا حصول ۔۔۔ 57
سید ثمر احمد
No comments:
Post a Comment