کچھ مزاح ہوجائے
داجی راجہ نواب حکمت عالی کی کرامت...
ہمارا ایک بہت بڑا مشہور خاندان ہے اور اس میں بڑے بڑے مشہور بزرگ گزرے ہیں, اور کچھ ابھی تک گزر رہے ہیں، موجودہ ہستیوں میں مشہور معروف داجی راجہ نواب حکمت عالی ہیں، اونچا لمبا قد سفید کرتے کے ساتھ سفید تہمد باندھتے ہیں، سر پر یہ بڑا اونچے شملے والا پگڑ کے پہلی بار ملنے والا ان کو سچ مچ کا کسی ریاست کا مہاراجہ سمجھ لیتا ہے، نام بھی بڑا اور کام اس سے بھی بڑے بڑے خاندان اور خاندان سے باہر جہاں تک کوئی ان کو جانتا ہے اور جہاں تک کوئی ان کو نہیں جانتا ہر جگہ بڑے بزرگ ہونے کے ناطے صلح صفائی راضی نامہ کرانے، گھر بسانے کی بجائے ٹانگ اڑانے کو اور بے پر کی اڑانے کو ترجیح دیتے ہیں، بلکہ ایک طرح کا قدیم ٹانگ اڑانے والا فری لانسر پیشہ اختیار کیے ہوئے ہیں، اور خود کو اس قدیم شعبے کا موجد گردانتے ہیں، یہ نہیں کہ یہ اکیلے تن تنہا قدیم اور موسٹ سینیر بزرگ ہیں، بلکہ تین بزرگ تو ان سے عمر میں مہا بزرگ ہیں لیکن داجی ان کو بڑا تسلیم کرنے کو تیار نہیں، حالانکہ عمر میں ان تینوں سے کل ملا کر گیارہ برس چھوٹے ہیں، لیکن پیدائش کے وقت کا کوئی خاص حساب کتاب نہ ہونے کی وجہ سے یہ ان تینوں کو رعب و دبدبہ سے دبا جاتے ہیں اور اپنی عمر ہر جگہ ایک سو پندرہ سال بتلاتے ہیں، باقیوں کی ننانوے سال اور ساتھ اس یقین سے بتاتے ہیں کہ جیسے باقی سنچری پوری نہ کرسکیں گے، جو بھی پہلی بار ان سے مل کر عمر کا پوچھتا ہے تو فخر سے بتاتے ہیں 115 سال کا ہوں اور ابھی بھی دوڑتا ہوں تو پوچھنے والا کا منہ کھلے کا کھلا رہ جاتا ہے
وہ حقیقت بعد میں عیاں ہوتی ہے کہ ہر بار کہیں نہ کہیں سے جان بچا کر دوڑتے ہیں، سال کے بارہ ماہ کشمیر میں گزارتے ہیں لیکن خاندان میں کہیں بھی کوئی مسئلہ ہو لڑائی جھگڑے یا ناراضگی تک بات جا پہنچے تو وہاں داجی بھی پہنچ جاتے ہیں، جاسوسی کا نیٹ ورک ان کا انتہائی تیز ترین اور فعال ہے وہ ہے خاندان بھر کی خواتیں، یہ جہاں خود کو عمر سے پچیس تیس سال زیادہ بتاتے ہیں وہاں ان خواتین کو بھی کاکی اور گُڈی کہتے ہیں جن کی بتیسی گرے ہوئے بھی چار سال ہوچکے ہوں، یوں ان سے روپے پیسے، دیسی گھی، دیسی مرغے اور خبریں نکلوا لیتے ہیں بلکہ ہتھیا لیتے ہیں، ہمارے خاندان کے لوگ اس وقت پورے ملک بلکہ پوری دنیا میں بس رہے ہیں اسکی ایک وجہ جو مجھے سمجھ آئی وہ یہ کہ گھر سے بھاگ کر جو جہاں پہنچا وہاں بستی بسا لی اور وہیں کا ہو کر رہ گیا، لیکن ہمت ہے داجی جی کی جو سب کو بھگانے کے بعد انکے ٹھکانے اور آنے جانے کی خبر بھی رکھتے ہیں، بلکہ آئے روز کہیں نہ کہیں پہنچے ہوتے ہیں، یہی کچھ چار روز پہلے انکو مخبروں نے بتایا کہ راولپنڈی میں باؤ شاہ عالم کے بچوں میں ان بن ہوگئی ہے، داجی نے فوراً سے پہلے کہ کہیں جلد بازی میں راضی نہ ہو جائیں، اپنی شاہی سواری نکالی اور سوار ہوکر نکل پڑے، ان کی شاہی سواری ایک عدد سائیکل پر مشتمل ہے، جو بقول ان کے انہوں نے 1930 میں لندن سے ایک گوری سے خریدی تھی، ہمارے پاس اس کو ماننے کے سوا دوسرا کوئی آپشن نہیں ہے اس لیے یہی سچ ہے، سائیکل پر وہ بس ویگن وغیرہ کے اڈے تک ہی جاتے ہیں، باقی ان کو ہر جگہ بسیں، ویگنیں لیکر جاتی ہیں، سفر وہ شروع سے مفت کرتے آرہے ہیں، اپنی اس عادت میں وہ انتہائی پختہ ہیں، سائیکل سڑک کے عین بیچ میں لہراتے ہوئے چلاتے ہیں، اور ساتھ کہتے ہیں کہ یہ سڑک ان کے باپ نے بنوائی تھی، اس لیے کوئی انہیں کراس کرنے کی جرات نہیں کرتا، ان کی سائیکل کو لہراتا دیکھ کر اکثر بس ڈرائیور بے بس ہوکر سڑک کی سائیڈ پر اپنی بس روک دیتے ہیں. بس میں سوار ہوجانے کے بعد ان کے جاننے والے ان سے کرایہ نہیں لیتے اور نہ جاننے والوں سے یہ خود کچھ نہ کچھ لے لیتے ہیں، خیر سے جیسے داجی گھر سے دور دراز سفر کیلئے نکلتے ہیں تو پیچھے گھر والے سکھ کے جتنے زیادہ سانس لے سکتے لینے لگتے ہیں، اور وہ تمام گھر کے ضروری کام جو داجی کی وجہ سے رکے ہوتے ہیں وہ کروانے لگ جاتے ہیں ، جیسے اڑوس پڑوس ہر گھر میں گیزر لگ چکا تھا لیکن داجی سردی ہو یا برفباری گرم پانی سے نہانے کے سخت خلاف تھے اور جو کوئی چوری چھپے اس اصول کی خلاف ورزی کرتا اس کو تین دن یخ ٹھنڈے پانی سے نہانے کے ساتھ ساتھ ٹھنڈا کھانا اور ٹھنڈی چائے پینی پڑتی، ، داجی کی جتنی بھی عمر تھی لیکن ماشاءاللہ قابل رشک صحت کے مالک تھے، تقریباً 50 سال سے فی سبیل اللہ محلے کی مسجد میں پانچ وقت پابندی سے اذان دیتے تھے، زیادہ تر کام کاج خود کرنے کے عادی تھے، سائیکل کے ساتھ پیدل چلنا بھی ان کا محبوب مشغلہ تھا، زبان کے تیکھے لیکن دل کے بادشاہ تھے اپنے ہاتھ سے کام کاج کرنے میں عار محسوس نہ کرتے تھے گھر میں اکثر کلہاڑے کے ساتھ لکڑیوں کو بھی خود ہی چیر پھاڑ لیا کرتے تھے،
راولپنڈی سے واپس آئے، سخت سردیوں کے دن تھے چولہے میں جلانے کیلئے لکڑیوں کی ضرورت پڑی گھر میں داجی اور خواتین کے سوا دوسرا کوئی نہ تھا، چاروناچار داجی خود ہی گھر سے ملحقہ حویلی میں جہاں کچی جگہ تھی وہاں لکڑیوں پر کلہاڑا چلانے لگے، ایک دفعہ داجی کا نہیں بلکہ کلہاڑے کا نشانہ چوکا اور کلہاڑا پورے زور کے ساتھ سیدھا زمین میں جا دھنسا، جیسے ہی کلہاڑا کھینچا ساتھ ہی پانی کا باریک سا فوارہ اس جگہ سے پھوٹ پڑا، داجی اپنی کرامت پر حیران و پریشان کہ ایسی کون سی نیکی کی جس کا صلہ آج رب نے پانی کے چشمہ کی صورت میں دیا، احتیاطاً دوسری جگہ کلہاڑا مارا اور وہاں سے بھی پانی کا دھاریں مارتا ہوا چشمہ، اور پانی بھی گرما گرم، دوڑے دوڑے گھر گئے خواتین کو بتایا اور آناً فاناً گاؤں میں بات پھیل گئی کہ داجی کی کرامت ظاہر ہوگئی ہے، گرم پانی کا چشمہ داجی راجہ نواب حکمت عالی کی حویلی میں پھوٹ پڑا ہے، گھر والوں نے رانگلی چارپائی پر سفید بے داغ چادر پھیلا کر صاف ستھرے کپڑے پہنا کر داجی کو اس کے اوپر بٹھا دیا، اب گاؤں کے لوگ پھولوں کے ہار اور مٹھائی لیکر آنے شروع ہوگئے، لوگ عقیدت کے ساتھ داجی کے ہاتھ پاؤں چومتے اور ایک چھوٹی بوتل میں مقدس چشمے کا متبرک پانی بھرتے، اس سے زیادہ داجی کی اجازت بھی نہیں تھی، اب وہ لوگ بھی رشک کرنے لگے جو داجی سے ہمیشہ خار کھائے رکھتے، عصر کے وقت تایا جی، داجی کے سب سے بڑے بیٹے، جو ایک پروفیسر تھے، کالج سے واپسی پر جیسے ہی گاؤں میں داخل ہوے تو گھر جانے والے رستے پر لوگوں کا جم غفیر دیکھ کر ان کا دل دہل کر رہ گیا، کہ خدانخواستہ داجی اڑن چھو تو نہیں ہوگئے لیکن پھر خود ہی لاحول ولا قوۃ پڑھ کر باطل خیال کو جھٹکا کہ داجی اتنی آسانی سے زندگی سے ہار ماننے والے نہیں، کوئی اور معاملہ ہے، خیر گھر پہنچے داجی کی آؤ بھگت کسی گدی نشیں پیر صاحب کی طرح دیکھی تو سوچنے لگے یہ کیا کایا پلٹ ہوگئی، داجی نے اپنے بڑے سپوت پروفیسر کو مسکرا کر دیکھا اور ساتھ تھوڑے گھبرا بھی گئے کیونکہ پروفیسر بیٹا داجی کے ان کاموں کے ہمیشہ سے خلاف تھا جو داجی خوامخواہ کرتے پھرتے تھے، خیر تایا جی نے ساری کتھا آرام سے سنی، تایا جی جن کا غصہ مشہور تھا کرامت کا سن کر ان کی ہسی چھوٹ گئی، فوراً اٹھے اندھے عقیدت مندوں کے ہجوم کو بھگایا، دروازے بند کیے، اور گھر والوں کو داجی سمیت لیکر حویلی گئے پانی کی ٹینکی کا والو بند کیا تو داجی کا کرامتی چشمہ بھی دھیرے دھیرے بند ہوگیا، کسی کی سمجھ میں معاملہ نہ آیا، تو تایا جان نے بتایا جب داجی پنڈی گئے تھے، تو پیچھے حویلی میں چوری چھپے بغیر کسی کو بتائے جلدی سے گیزر وغیرہ کے ساتھ متعلقہ سامان خریدا پلمبر کو ساتھ لیا اور گھر میں خفیہ گیزر، خفیہ پائپ لائن کے ساتھ نصب کروایا، جس کا خفیہ پائپ عین اس جگہ پر زیرِ زمین تھا جہاں داجی کا کلہاڑا گھس بیٹھا اور پائپ پھٹ گیا، ساتھ داجی کی کرامت ظاہر ہوئی جس کا علم بس تایا جی اور پلمبر کو تھا، بابا جانی کہتے ہیں اس واقعے کے بعد گھر والے گرم پانی استعمال کرتے، اور داجی اپنے ہاتھوں سے پورا ایک سال یخ ٹھنڈے پانی کی بالٹی بھر کر پروفیسر کو نہانے کیلئے دیتے، جس سے نہانے کے بعد کچھ دیر تک پروفیسر تایا کا رنگ کورے لٹھے کی طرح سفید ہوجاتا تھا..
بقلم توقیر بُھملہ
No comments:
Post a Comment