July 30, 2021

کچھ مزاح ہوجائے😊 Comedy, Humor

 
کچھ مزاح ہوجائے😊

داجی راجہ نواب حکمت عالی کی کرامت...
ہمارا ایک بہت بڑا مشہور خاندان ہے اور اس میں بڑے بڑے مشہور بزرگ گزرے ہیں, اور کچھ ابھی تک گزر رہے ہیں، موجودہ ہستیوں میں مشہور معروف داجی راجہ نواب حکمت عالی ہیں، اونچا لمبا قد سفید کرتے کے ساتھ سفید تہمد باندھتے ہیں، سر پر یہ بڑا اونچے شملے والا پگڑ کے پہلی بار ملنے والا ان کو سچ مچ کا کسی ریاست کا مہاراجہ سمجھ لیتا ہے، نام بھی بڑا اور کام اس سے بھی بڑے بڑے خاندان اور خاندان سے باہر جہاں تک کوئی ان کو جانتا ہے اور جہاں تک کوئی ان کو نہیں جانتا ہر جگہ بڑے بزرگ ہونے کے ناطے صلح صفائی راضی نامہ کرانے، گھر بسانے کی بجائے ٹانگ اڑانے کو اور بے پر کی اڑانے کو ترجیح دیتے ہیں، بلکہ ایک طرح کا قدیم ٹانگ اڑانے والا فری لانسر پیشہ اختیار کیے ہوئے ہیں، اور خود کو اس قدیم شعبے کا موجد گردانتے ہیں، یہ نہیں کہ یہ اکیلے تن تنہا قدیم اور موسٹ سینیر بزرگ ہیں، بلکہ تین بزرگ تو ان سے عمر میں مہا بزرگ ہیں لیکن داجی ان کو بڑا تسلیم کرنے کو تیار نہیں، حالانکہ عمر میں ان تینوں سے کل ملا کر گیارہ برس چھوٹے ہیں، لیکن پیدائش کے وقت کا کوئی خاص حساب کتاب نہ ہونے کی وجہ سے یہ ان تینوں کو رعب و دبدبہ سے دبا جاتے ہیں اور اپنی عمر ہر جگہ ایک سو پندرہ سال بتلاتے ہیں، باقیوں کی ننانوے سال اور ساتھ اس یقین سے بتاتے ہیں کہ جیسے باقی سنچری پوری نہ کرسکیں گے، جو بھی پہلی بار ان سے مل کر عمر کا پوچھتا ہے تو فخر سے بتاتے ہیں 115 سال کا ہوں اور ابھی بھی دوڑتا ہوں تو پوچھنے والا کا منہ کھلے کا کھلا رہ جاتا ہے
 وہ حقیقت بعد میں عیاں ہوتی ہے کہ ہر بار کہیں نہ کہیں سے جان بچا کر دوڑتے ہیں، سال کے بارہ ماہ کشمیر میں گزارتے ہیں لیکن خاندان میں کہیں بھی کوئی مسئلہ ہو لڑائی جھگڑے یا ناراضگی تک بات جا پہنچے تو وہاں داجی بھی پہنچ جاتے ہیں، جاسوسی کا نیٹ ورک ان کا انتہائی تیز ترین اور فعال ہے وہ ہے خاندان بھر کی خواتیں، یہ جہاں خود کو عمر سے پچیس تیس سال زیادہ بتاتے ہیں وہاں ان خواتین کو بھی کاکی اور گُڈی کہتے ہیں جن کی بتیسی گرے ہوئے بھی چار سال ہوچکے ہوں، یوں ان سے روپے پیسے، دیسی گھی، دیسی مرغے اور خبریں نکلوا لیتے ہیں بلکہ ہتھیا لیتے ہیں، ہمارے خاندان کے لوگ اس وقت پورے ملک بلکہ پوری دنیا میں بس رہے ہیں اسکی ایک وجہ جو مجھے سمجھ آئی وہ یہ کہ گھر سے بھاگ کر جو جہاں پہنچا وہاں بستی بسا لی اور وہیں کا ہو کر رہ گیا، لیکن ہمت ہے داجی جی کی جو سب کو بھگانے کے بعد انکے ٹھکانے اور آنے جانے کی خبر بھی رکھتے ہیں، بلکہ آئے روز کہیں نہ کہیں پہنچے ہوتے ہیں، یہی کچھ چار روز پہلے انکو مخبروں نے بتایا کہ راولپنڈی میں باؤ شاہ عالم کے بچوں میں ان بن ہوگئی ہے، داجی نے فوراً سے پہلے کہ کہیں جلد بازی میں راضی نہ ہو جائیں، اپنی شاہی سواری نکالی اور سوار ہوکر نکل پڑے، ان کی شاہی سواری ایک عدد سائیکل پر مشتمل ہے، جو بقول ان کے انہوں نے 1930 میں لندن سے ایک گوری سے خریدی تھی، ہمارے پاس اس کو ماننے کے سوا دوسرا کوئی آپشن نہیں ہے اس لیے یہی سچ ہے، سائیکل پر وہ بس ویگن وغیرہ کے اڈے تک ہی جاتے ہیں، باقی ان کو ہر جگہ بسیں، ویگنیں لیکر جاتی ہیں، سفر وہ شروع سے مفت کرتے آرہے ہیں، اپنی اس عادت میں وہ انتہائی پختہ ہیں، سائیکل سڑک کے عین بیچ میں لہراتے ہوئے چلاتے ہیں، اور ساتھ کہتے ہیں کہ یہ سڑک ان کے باپ نے بنوائی تھی، اس لیے کوئی انہیں کراس کرنے کی جرات نہیں کرتا، ان کی سائیکل کو لہراتا دیکھ کر اکثر بس ڈرائیور بے بس ہوکر سڑک کی سائیڈ پر اپنی بس روک دیتے ہیں. بس میں سوار ہوجانے کے بعد ان کے جاننے والے ان سے کرایہ نہیں لیتے اور نہ جاننے والوں سے یہ خود کچھ نہ کچھ لے لیتے ہیں، خیر سے جیسے داجی گھر سے دور دراز سفر کیلئے نکلتے ہیں تو پیچھے گھر والے سکھ کے جتنے زیادہ سانس لے سکتے لینے لگتے ہیں، اور وہ تمام گھر کے ضروری کام جو داجی کی وجہ سے رکے ہوتے ہیں وہ کروانے لگ جاتے ہیں ، جیسے اڑوس پڑوس ہر گھر میں گیزر لگ چکا تھا لیکن داجی سردی ہو یا برفباری گرم پانی سے نہانے کے سخت خلاف تھے اور جو کوئی چوری چھپے اس اصول کی خلاف ورزی کرتا اس کو تین دن یخ ٹھنڈے پانی سے نہانے کے ساتھ ساتھ ٹھنڈا کھانا اور ٹھنڈی چائے پینی پڑتی، ، داجی کی جتنی بھی عمر تھی لیکن ماشاءاللہ قابل رشک صحت کے مالک تھے، تقریباً 50 سال سے فی سبیل اللہ محلے کی مسجد میں پانچ وقت پابندی سے اذان دیتے تھے، زیادہ تر کام کاج خود کرنے کے عادی تھے، سائیکل کے ساتھ پیدل چلنا بھی ان کا محبوب مشغلہ تھا، زبان کے تیکھے لیکن دل کے بادشاہ تھے اپنے ہاتھ سے کام کاج کرنے میں عار محسوس نہ کرتے تھے گھر میں اکثر کلہاڑے کے ساتھ لکڑیوں کو بھی خود ہی چیر پھاڑ لیا کرتے تھے،
 راولپنڈی سے واپس آئے، سخت سردیوں کے دن تھے چولہے میں جلانے کیلئے لکڑیوں کی ضرورت پڑی گھر میں داجی اور خواتین کے سوا دوسرا کوئی نہ تھا، چاروناچار داجی خود ہی گھر سے ملحقہ حویلی میں جہاں کچی جگہ تھی وہاں لکڑیوں پر کلہاڑا چلانے لگے، ایک دفعہ داجی کا نہیں بلکہ کلہاڑے کا نشانہ چوکا اور کلہاڑا پورے زور کے ساتھ سیدھا زمین میں جا دھنسا، جیسے ہی کلہاڑا کھینچا ساتھ ہی پانی کا باریک سا فوارہ اس جگہ سے پھوٹ پڑا، داجی اپنی کرامت پر حیران و پریشان کہ ایسی کون سی نیکی کی جس کا صلہ آج رب نے پانی کے چشمہ کی صورت میں دیا، احتیاطاً دوسری جگہ کلہاڑا مارا اور وہاں سے بھی پانی کا دھاریں مارتا ہوا چشمہ، اور پانی بھی گرما گرم، دوڑے دوڑے گھر گئے خواتین کو بتایا اور آناً فاناً گاؤں میں بات پھیل گئی کہ داجی کی کرامت ظاہر ہوگئی ہے، گرم پانی کا چشمہ داجی راجہ نواب حکمت عالی کی حویلی میں پھوٹ پڑا ہے، گھر والوں نے رانگلی چارپائی پر سفید بے داغ چادر پھیلا کر صاف ستھرے کپڑے پہنا کر داجی کو اس کے اوپر بٹھا دیا، اب گاؤں کے لوگ پھولوں کے ہار اور مٹھائی لیکر آنے شروع ہوگئے، لوگ عقیدت کے ساتھ داجی کے ہاتھ پاؤں چومتے اور ایک چھوٹی بوتل میں مقدس چشمے کا متبرک پانی بھرتے، اس سے زیادہ داجی کی اجازت بھی نہیں تھی، اب وہ لوگ بھی رشک کرنے لگے جو داجی سے ہمیشہ خار کھائے رکھتے، عصر کے وقت تایا جی، داجی کے سب سے بڑے بیٹے، جو ایک پروفیسر تھے، کالج سے واپسی پر جیسے ہی گاؤں میں داخل ہوے تو گھر جانے والے رستے پر لوگوں کا جم غفیر دیکھ کر ان کا دل دہل کر رہ گیا، کہ خدانخواستہ داجی اڑن چھو تو نہیں ہوگئے لیکن پھر خود ہی لاحول ولا قوۃ پڑھ کر باطل خیال کو جھٹکا کہ داجی اتنی آسانی سے زندگی سے ہار ماننے والے نہیں، کوئی اور معاملہ ہے، خیر گھر پہنچے داجی کی آؤ بھگت کسی گدی نشیں پیر صاحب کی طرح دیکھی تو سوچنے لگے یہ کیا کایا پلٹ ہوگئی، داجی نے اپنے بڑے سپوت پروفیسر کو مسکرا کر دیکھا اور ساتھ تھوڑے گھبرا بھی گئے کیونکہ پروفیسر بیٹا داجی کے ان کاموں کے ہمیشہ سے خلاف تھا جو داجی خوامخواہ کرتے پھرتے تھے، خیر تایا جی نے ساری کتھا آرام سے سنی، تایا جی جن کا غصہ مشہور تھا کرامت کا سن کر ان کی ہسی چھوٹ گئی، فوراً اٹھے اندھے عقیدت مندوں کے ہجوم کو بھگایا، دروازے بند کیے، اور گھر والوں کو داجی سمیت لیکر حویلی گئے پانی کی ٹینکی کا والو بند کیا تو داجی کا کرامتی چشمہ بھی دھیرے دھیرے بند ہوگیا، کسی کی سمجھ میں معاملہ نہ آیا، تو تایا جان نے بتایا جب داجی پنڈی گئے تھے، تو پیچھے حویلی میں چوری چھپے بغیر کسی کو بتائے جلدی سے گیزر وغیرہ کے ساتھ متعلقہ سامان خریدا پلمبر کو ساتھ لیا اور گھر میں خفیہ گیزر، خفیہ پائپ لائن کے ساتھ نصب کروایا، جس کا خفیہ پائپ عین اس جگہ پر زیرِ زمین تھا جہاں داجی کا کلہاڑا گھس بیٹھا اور پائپ پھٹ گیا، ساتھ داجی کی کرامت ظاہر ہوئی جس کا علم بس تایا جی اور پلمبر کو تھا، بابا جانی کہتے ہیں اس واقعے کے بعد گھر والے گرم پانی استعمال کرتے، اور داجی اپنے ہاتھوں سے پورا ایک سال یخ ٹھنڈے پانی کی بالٹی بھر کر پروفیسر کو نہانے کیلئے دیتے، جس سے نہانے کے بعد کچھ دیر تک پروفیسر تایا کا رنگ کورے لٹھے کی طرح سفید ہوجاتا تھا..
بقلم توقیر بُھملہ

 

E-Commerce, Hand crafts, Hand Made

 

دستکاری اور ای کامرس ..
Hand Made / Hand Crafted / E-Commerce
پاکستان کا شاید ہی کوئی ایسا گھر ہوگا جہاں لوگ دستکاری نہ کرتے ہوں.
تقریباً ہر گھر میں مرد و خواتین کچھ نہ کچھ ہاتھ سے کام کرنے کا ہنر رکھتے ہیں.
سلائی کڑھائی، کھجور کے پتوں سے ٹوکریاں، چٹائیاں، مالا، ٹوپیاں، تصویریں، برتنوں پر نقش و نگار،نومولود بچوں کے گرم اونی ہاتھ سے بُنے ہوئےکپڑے، دستانے، ہاتھ سے بنے ہوئے جوتے،، کپڑے سے بنی ہوئی مختلف اشیاء،, جیسے سرہانے کے غلاف، ٹشو پیپر کے ڈبے کا غلاف، قرآن مجید کا غلاف، گھروں میں چھوٹی چھوٹی اشیاء رکھنے والے بیگ، مجسمے، اجرک، شال، سویٹر، جرسی،
غرض کوئی بھی ایسی چیز جو "دستکاری" کے زمرے میں آتی ہو لوگ بنانے میں ماہر ہیں، اور اگر کوئی نہیں بنا سکتا تو وہ کہیں سے سیکھ سکتا ہے یا پھر کسی دور دراز علاقے سے کچھ ثقافتی اشیاء جو خالص ہاتھ سے بنی ہوئی خرید تو سکتا ہے نا؟
جب ایسا سب کچھ ہر گھر میں میسر ہو تو کیوں نہ ان تمام چیزوں کو پوری دنیا میں فروخت کیا جائے؟
اور منہ مانگے دام وصول کیے جائیں؟
کوئی امپورٹ ایکسپورٹ کا لائیسنس لینے کی ضرورت بھی نہیں.
اور سامان امریکہ، یورپ، برطانیہ وغیرہ میں فروخت بھی کریں..
یہ ای کامرس ہے، اور آپ تھوڑی سی محنت کرکے، اس انڈسٹری میں بہت سارے کام گھر میں رہتے ہوئے بھی کرسکتے ہیں..
کیسے ہوگا یہ سب؟ کون کرے گا؟
یہ سب کچھ آپ کریں گے، آپ کے اہل خانہ کریں گے، گھریلو خواتین کریں گی، بالخصوص وہ خواتین جو گھر سے باہر قدم نہیں رکھ سکتیں، یہ ان کے لیے اپنی مصنوعات کو فروخت کرنے کا ایک منفرد پلیٹ فارم ہے..
اس کا نام ہے Etsy, اکثریت اس نام سے واقف ہوگی.
لیکن آپ نے Etsy کا نام نہیں سنا تو، یوٹیوب کیجیے، فیس بک پر گروپ جوائن کیجیے، گوگل کیجیے، ایسے لوگ تلاش کریں جو ای کامرس انڈسٹری میں ڈراپ شپنگ، ورچوئل اسسٹنٹ وغیرہ یا پورا ای کامرس سٹور چلا رہے ہوں، ان سے راہنمائی لیں اور اس کو شروع کریں..
اگر تو آپ ایک ایسے پاکستانی ہیں جو اخلاقی اصولوں پر لین دین کرنا فرض سمجھتے ہیں، دھوکا نہیں دیتے، دو نمبری نہیں کرتے، پاکستان کی بدنامی کا باعث نہیں بنتے اور نہ ہی بننا چاہتے ہیں تو یہ پلیٹ فارم آپ کے لیے ہے،
اس میں تھوڑی سی پیچیدگیاں ہیں لیکن پریشانی کی کوئی بات نہیں،
اگر تو آپ ڈیجٹل دنیا کے متعلق تھوڑی بہت جانکاری یا معلومات رکھتے ہیں، آن لائن شاپنگ کرتے ہیں یا اس کام سے واقفیت رکھتے ہیں تو ان کے لیے بےحد آسان ہے، باقیوں کے لیے تو اس کو تھوڑا سا سیکھنا اور وقت دینا ضروری ہے.
آپ کے پاس ایسی ہاتھ سے بنی مصنوعات ہے جو منفرد، پائیدار اور خالص آپ کا اپنا برانڈ ہے تو آپ بے شمار ڈالر کما سکتے ہیں، اگر نہیں تو آپ ارد گرد سے خرید کرنے کے بعد فروخت کرکے بھی معقول آمدنی حاصل کرسکتے ہیں،
اس وقت پاکستان سے ڈائریکٹ اس کا اکاؤنٹ بنانا مشکل ہے، چند پابندیاں ہیں جو جلد ختم ہونے کی امید ہے،
آپ کے پاس ایک عدد نیشنل ٹیکس نمبر ہونا ضروری ہے. جو بھی کام کریں لیگل اور قانون کے دائرے میں رہ کر کریں تاکہ کل کلاں کو رسیدیں دینے میں آسانی ہو..
ایک عدد بینک اکاؤنٹ
جاز کیش
اور چند دوسرے آن لاین پیمنٹ گیٹ وے کے اکاؤنٹ
،
اب آپ نے یہ کرنا یے کہ اپنا کوئی قریبی، عزیز رشتہ دار، امریکا، برطانیہ, کینیڈا وغیرہ کے ملک میں تلاش کرنا ہے اور اس کے ایڈریس پر اپنا اکاؤنٹ بنانا ہے،
اگر نہیں تو پاکستان سے ہی آپ کو تھوڑی سی فیس کے عوض ان ممالک کے نمبر، کمپنی اور اکاؤنٹ مل جائیں گے، جن سے آپ اپنا اکاؤنٹ آسانی سے بنا لیں گے،
چیزیں آپ پاکستان سے کوریئر سروس سے بھیجیں گے، اگر کوئی بڑا آئٹم ہے تو اس کے کسٹم والوں سے ایک سرٹیفکیٹ بنوانا پڑتا ہے، پیکنگ وغیرہ کے بعد آپ نے اپنا مال مطلوبہ کسٹمر کو بھیج دینا ہوتا ہے..
اس کی مکمل ٹریننگ آپ یوٹیوب، فیس بک گوگل سے حاصل کرسکتے ہیں، اور چند اس کے ایکسپرٹ بھی ہیں جو تھوڑی بہت فیس کے عوض اس پر کام کرنا اور اکاؤنٹ بنانا سکھا دیں گے،، اگر آپ سنجیدگی سے سیکھنا اور کاروبار کرنا چاہتے ہیں، اپنے وقت کو اور دوسروں کے وقت کو قیمتی سمجھتے ہیں تو میں آپ کو پاکستانی ایکسپرٹ سے ملوا سکتا ہوں جو آپ کو سکھائیں گے کہ، اکاؤنٹ کیسے بنانا ہے، کمپنی کیسے رجسٹرڈ کرنی ہے، اس آن لائن سٹور پر اپنی چیزیں مفت میں یا فیس کے عوض کیسے ڈسپلے/لسٹنگ کرنی ہیں،کسٹمر ڈیلنگ اور پیمنٹ کا پراسس، وغیرہ وغیرہ
توقیر بُھملہ
https://www.facebook.com/ToqeerBhumla

 

اولاد کی تربیت Parenting

 

_________________Parenting_______________

اولاد کی تربیت

توقیر بُھملہ
حصہ اول.
پاکستان میں کئی ایسے جڑواں شہر ہیں جو ایک دوسرے سے بے حد مختلف ہیں.
راولپنڈی اور اسلام آباد کو ہی دیکھ لیں.
راولپنڈی کے بعض علاقے ایسے تنگ و تاریک کے پیدل گزرنا دشوار اور سہولتوں کا فقدان ہے، اس کے برعکس ہر طرح کی سہولیات کے ساتھ اسلام آباد کی شاہراہوں پر جنگی طیارے تک آرام سے دوڑ پھر سکتے ہیں.
یہ ایک مختلف طرز کا تقابل ہوسکتا ہے، قدیم و جدید کا بھی، حکمت عملی اور بغیر حکمتِ عملی کا، ضرورت کے تحت بدلاؤ وغیرہ وغیرہ کا..
کہاں کس ماحول میں رہنا ہے، کیسی طرزِ زندگی اپنانی ہے، یہ فیصلہ بہت پہلے کہیں بچپن کی منزل پر شعور میں غیر محسوس طریقے سے بویا جاتا ہے، جس کا نتیجہ انسان کی زندگی میں کیے گئے فیصلوں سے برآمد ہوتا ہے.
کوئی بھی ایجاد کسی مسئلے کا حل یا پہلے سے کیے گئے حل میں بہتری کی کوششوں کا نتیجہ ہوتی ہے.
ہم اپنی روزمرہ زندگی میں بے شمار مسائل دیکھتے ہیں مگر ان مسائل کے حل کی طرف بہت کم لوگ کام کرتے ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ ایک بہتر چیز ایک پہلے سے کمتر چیز کی بدولت اور سہولت کے فقدان کے باعث وجود میں آتی ہے..
جب ہم نے دیکھ اور جان لیا کہ نئی چیزیں پرانی چیزوں سے کئی درجے بہتر ہیں تو ہم پھر بھی تذبذب کا شکار رہے اور قدیم و جدید کے درمیان الجھ کررہ گئے.
پاکستان کے جہاں بے پناہ مسائل ہیں وہاں ایک ایسا مسئلہ ہے جو میرے خیال میں ہمارے تمام مسائل کی بنیاد یا وجہ ضرور ہے.
پچھلے دنوں ایک ورکشاپ میں شمولیت کا موقع ملا جس میں مختلف کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ہر طبقہ کے افراد (والدین) تھے،
وہاں دیگر مسائل کے ساتھ ایک ایسے مسئلے پر بات چیت ہوئی اور اس کے متعلق تربیت کرنے کا کہا گیا، جو مجھے لگا شاید ہماری (پاکستانی) کمیونٹی کے متعلق کہا جارہا ہے لیکن ہمارے ہاں تو یہ تقریباً مسئلہ ہے ہی نہیں،
وہ یہ تھا کہ آنلائن ایجوکیشن کی وجہ سے بچوں اور اساتذہ کے درمیان جو مسائل ہیں ان میں ایک یہ بھی تھا کہ، جب آن لائن گروپ کی شکل میں بچے تعلیم کے لئے اپنے کمپیوٹر یا موبائل کے سامنے آتے ہیں تو وہ ایک ایسے حلیے میں ہوتے ہیں جو کسی درسگاہ میں قابلِ قبول نہیں، مثلاً کچھ بچے والدین کے ساتھ کمبل کے اندر ہی لیٹے ہوئے آن لائن آرہے ہیں، تو کچھ نے بغیر بازو والی بنیان پہنی ہے، اور چند ایک کے ساتھ والدین بھی نظر آتے ہیں جو رویے اور حلیے میں نامناسب ہوتے ہیں،
اسی طرح کے اخلاقی مسائل تھے جن کے متعلق آگاہی دی گئی.
بچے کی جسمانی، جذباتی، معاشرتی، فکری، روحانی نشوونما اور پرورش والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے، اس ذمہ داری کو نبھانے کا نام پیرنٹنگ یا اولاد کی تربیت ہے.
ہمارے ہاں پیرنٹگ یا والدین اور بچے کی تربیت کا باقاعدہ کوئی شعبہ یا نصاب میری نظر سے نہیں گزرا..
ہم نے جہاں بے شمار علوم و فنون پر کمندیں ڈالیں وہاں ہم نے اپنے بوسیدہ تعلیمی نظام کی طرح والدین بننے اور بچوں کی تربیت کرنے کے عمل کو یکسر فراموش یا پھر نظر انداز کیے رکھا،
ہم نے شاید ضرورت نہیں سمجھی یا ادراک ہی نہیں کرسکے کہ ہم اپنی اولاد کی بہتر تربیت نہ کرنے کی وجہ سے معاشرے کے مسائل اور بے کار افراد میں اضافہ کررہے ہیں.دوران تعلیم تو بچہ کچھ ادب آداب سیکھ ہی جاتا ہے لیکن جو بچے باقاعدہ تعلیم کی سہولت سے محروم رہتے ہیں وہ اخلاق و آداب کہاں سے سیکھتے ہیں؟ کم عمری میں ملازمت یا ہنر سیکھنے والے جب ارد گرد سے اپنے سماج اور ماحول سے اگر کچھ برا سیکھتے ہیں تو پھر ایک دن جو سماج سے لیا ہوتا ہے وہی پہلے سے بدترین شکل میں لوٹایا جارہا ہوتا ہے.
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سماج کا پڑھا لکھا باشعور طبقہ جہاں علم و ہنر کے لیے تربیت ساز ادارے بنا رہا ہے وہاں وہ والدین کی تعلیم و تربیت کے لیے مراکز قائم کرتا، اور معاشرے میں آئندہ آنے والے نسلوں کی اخلاقی بہتری اور علمی راہنمائی کے لئے مفید اقدامات کرتا.
ایسے مراکز یا کونسلنگ اکیڈمی کی طرز کے ادارے ہوتے جہاں شادی سے پہلے مرد و خواتین کو شادی شدہ زندگی کے مسائل کے متعلق تربیت دی جاتی.
انہیں سکھایا جاتا کہ شادی کے بعد عشق و محبت کے علاوہ چند حقیقی مسائل بھی ہیں جنہیں اگر حل نہ کیا جائے یا حل کرنے کی صوابدید نہ ہو تو گھر جہنم بن جاتے ہیں اور پھر ان گھروں سے لاوا نکل کر سماج کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے.
جہاں سکھایا جاتا کہ عورت پر مختلف اوقات میں مختلف کیفیات کا اثر ہوتا ہے جس کے تحت عورت کے مزاج میں اتار چڑھاؤ رہتا ہے.
مرد کے گرم سرد مزاج کے پیچھے کیا عوامل ہیں اور اس نفسیات کو کیسے سنبھالنا ہے. شادی ہوتی کیوں ہے اور اس کا مقصد کیا ہوتا ہے؟
جب نئے جوڑے کے ہاں نئے مہمان کی آمد متوقع ہو تو اس دورانیہ کو کس طرح جھیلنا ہے اور اس دوران دونوں نے کیا کرنا ہے، سینہ بہ سینہ روایتوں کے نقصانات اور فوائد کیا ہیں؟
عورت جب ماں بننے کے مراحل میں سے گزرتی ہے تو کہاں بے حد احتیاط کیسے اور کیوں ضروری ہے؟ والدین بننے والوں کے پاس اتنی معلومات ہوں انہیں پتا ہو کہ وہ کون سے میڈیکل ٹیسٹ ہیں جو ہر صورت کرنے ہیں تاکہ دنیا میں آنے والے بچے کے متعلق پہلے سے پتا چل جائے، آیا اسے پیدائش کے بعد ذہنی و جسمانی معذوری کا سامنا ہوگا یا وہ تندرست و توانا ہوگا، اگر دوران حمل کوئی پیچیدگی یا نقص کا اندیشہ یا احتمال ہوتو اسے پیدائش سے پہلے کیسے درست کیا جاسکتا ہے.
پھر جب دنیا میں آمد ہوگئی تو اس کی تربیت کس طرح کرنی ہے؟ اسے پالنا کیسے ہے.
اکثریت اولاد کو اپنی ایسی خواہشات کے مطابق پروان چڑھاتی ہے کہ وہ تربیت مزاج اور سماج کے برعکس ہوتی ہے، کہیں محرومی تو کہیں بے جا آزادی ذہنوں میں ڈال دی جاتی ہے،
کہیں پر والدین، سختی، تشدد، روک ٹوک اور پابندیوں سے پروان چڑھاتے ہیں اور کہیں پر بالکل ہی بچے کو مادر پدر آزاد کردیا جاتا ہے،
بچے کے کھیل کود، مشاغل، مسائل، دوستیاں، ضروریات، تعلیم وغیرہ کا سارا فیصلہ والدین خود طے کرتے ہیں اور وہ ذرا سا بھی اختیار بچے کو سونپنے کے حق میں نہیں ہوتے،بچہ سماج کے لیے کارآمد ہوگا یا بے کار، شخصیت میں اعتماد ہوگا یا نہیں، نیکی و بدی، حلال و حرام میں تمیز کا تصور جو اسے سکھایا یا پڑھایا جاتا ہے وہ گھر یا سماج میں کتنا نافذ العمل ہے؟ ، انفرادی اور اجتماعی طور پر انسانی حقوق و فرائض کس شکل میں ہیں، اسے جن رسم و رواج سے آشنا کیا جارہا ہے کیا معاشرے میں وہ قابلِ قبول ہیں یا نہیں؟ تخلیقی و تعمیری فکر کیسے پیدا کی جاتی ہے اور اس سے کام کیسے لیا جاتا ہے؟ والدین بچے کو جو کچھ کرنے کا کہتے ہیں کیا وہ خود اس ہر عمل کرتے ہیں یا نہیں؟ کیوں کہ ایک سٹیج ایسی ہوتی ہے جہاں پر بچہ صرف دیکھ کر عمل کرنا سیکھ رہا ہوتا ہے..
ہم ایسے افراد کی کھیپ معاشرے کے حوالے کرتے ہیں جو نہ تو اپنا خیال رکھ سکتے ہیں اور نہ ہی معاشرے کے لئے کارآمد ثابت ہوتے ہیں. 
 توقیر بُھملہ
 
اولاد کی تربیت  حصہ دوم
PARENTING
توقیر بُھملہ

اولاد کی اصل و حقیقی تربیت یہ ہے کہ والدین اپنے بچے کے منفی پہلوؤں کو سمجھ کر انہیں مثبت پہلوؤں میں بدل دیں، نہ کہ صرف مثبت رجحان پر ہی توجہ رکھیں.
والدین خوش و خرم زندگی گزاریں گے تو بچے کی زندگی آسودہ ہوگی، بچہ آپ کے کہے ہوئے پر عمل کرنے کی بجائے آپ کے کیے ہوئے پر عمل اور یقین کرتا ہے،
بچوں کے قول و فعل پر رد عمل یا عمل کا باریک فرق انہیں بنانے یا سنوارنے میں مدد دیتا ہے.
اکثر والدین اولاد کی تربیت میں غلطیاں کرتے ہیں میں یہاں پر چند ایک کا تذکرہ کرنا چاہوں گا..
والدین ہمیشہ اپنے ماضی میں جینے کی کوشش کرتے ہیں اور جدید ترقی سے خوفزدہ رہتے ہوئے بچے کو اس سے دور رکھتے ہیں.
بچے کے ساتھ ہمیشہ تحکمانہ رویہ اختیار کیے ہوئے رہتے ہیں.
بچے میں اچھائیوں کی بجائے اس کے عیب تلاش کرکے اسے بار بار جتاتے جاتے ہیں.
بچے کا موازنہ ہمیشہ دوسرے کسی مختلف مزاج بچے سے کرتے ہیں.
پیدا ہونے والا ہر بچہ دنیا کے باقی بچوں سے مکمل طور پر مختلف ہوتا ہے، مگر والدین تمام بچوں کے ساتھ یکساں تربیت کا انداز اپنائے رکھتے ہیں.
وہ بچے کے ساتھ انتہائی ضرورت کے علاوہ بات چیت نہیں کرتے.
بچے پر تو اعتماد بالکل نہیں کرتے اسے ہروقت باور کراتے ہیں کہ تم ابھی بچے ہو.
تقریباً تمام والدین بچوں سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر لیتے ہیں.
والدین اپنے بچے کی باتیں سننے کے ساتھ مختلف کام کرتے رہتے ہیں جس سے بچہ ان کی مکمل توجہ سے محروم رہ جاتا ہے..
وہ اپنے بچے کو بار بار یاد دلاتے رہیں گے تم نے اپنا دھیان رکھنا ہے، تم نے اپنا خیال رکھنا ہے ، وہ بچے کو غلطی کرنے کی گنجائش نہیں دیتے، اور بچہ اپنے اوپر اعتماد کی صلاحیت سے محروم رہ جاتا ہے.
والدین سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں جنہیں بچہ جان جاتا ہے لیکن والدین بچے کے سامنے اپنی غلطی ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے.
وہ اپنے بچے کی پوری بات سننے کی بجائے درمیان میں ہی ٹوک کر قہقہہ لگانے یا سمجھانے لگ جاتے ہیں، جس سے آہستہ آہستہ بچہ ادھوری یا نامکمل بات کہنے کا عادی ہوجاتا ہے..
لگے بندھے تعریفی اور تنقیدی جملے، اس کے بلند حوصلے محنت اور لگن کے رستے میں رکاوٹ بنتے ہیں،
دوستی اور تعمیری سراہنے کی بجائے والدین ایک خلا اور خلیج رکھنا پسند کرتے ہیں جس سے وہ شفقت اور راہنمائی سے محروم رہ جاتا ہے.
والدین کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ اپنے اور اپنے بچے کے درمیان تعلق کی جانچ پرکھ کرتے رہیں، وہ دیکھیں کہ یہ تعلق کیسا ہے؟ اس تعلق سے فاصلے بڑھ رہے ہیں یا کم ہورہے ہیں؟
والدین کا بنیادی مقصد ہی بچے کی اس نہج پر تربیت کرنا ہے کہ وہ سماج کے لیے ایک فعال اور مثبت و مفید شہری بنے جو اپنے فیصلے کرنے میں بااختیار ہو، اسے مشاورت کے طریقے اور فوائد کا علم ہو،
دنیا میں والدین کی چار بڑی اقسام طے کی گئی ہیں ..
1. آمرانہ مزاج والے والدین..
ایسے والدین جو تمام تر اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھتے ہوئے اپنی مرضی اور خواہش بچے پر مسلط کرتے ہیں.وہ کسی بھی طرح بچے کو اپنا مسئلہ خود حل کرنے کی اجازت نہیں دیتے. ایسے والدین بچے کو سزا دیکر درست کرنے پر یقین رکھتے ہیں.
بچے کو غلطی پر حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے اس سے معافی منگوانے یا متشددانہ رویے کے تحت اسے ڈراتے ہیں کہ اگر دوبارہ غلطی کی تو فلاں سزا دیں گے یا فلاں سہولت ختم کردیں گے،
تحکمانہ رویے سے گھر میں خود کو باس اور بچے کے ساتھ ملازم جیسا برتاؤ رکھتے ہیں.
2.بااصول مگر بااختیار والدین..
ایسے والدین جو اصول و ضوابط طے کرکے اس پر بچے کو چلاتے ہیں، بچے کی مرضی اور خواہش کا احترام کرتے ہیں، مگر اسے ہر لمحے احساس دلائے رکھتے ہیں کہ وہ اس کے ایسے باپ ہیں جو حتمی اختیار اپنے پاس رکھتے ہیں.
3. دوست رویے والے والدین.
ایسے والدین جو بچے کی ہر خواہش کا احترام کرتے ہوئے اسے کھل کر جینے کا موقع دیتے ہیں، اس پر روک ٹوک نہیں رکھتے، یہ صرف اس وقت مداخلت کرتے ہیں جب کوئی خطرناک بات یا سیریس مسئلہ ہو. یہ اکثر بچے کو بحث و مباحثہ کرنے کا حوصلہ دیتے ہیں مگر کیا اچھا ہے یا کیا برا ہے اس کے متعلق حتمی فیصلہ بچے ہر چھوڑ دیتے ہیں، پھر بچے کے اختیار کیے گئے فیصلے کے مثبت اور منفی پہلوؤں کو ازسرنو جانچ کر اسے بتاتے یا سمجھاتے ہیں، یہ اس کی بری عادات پر زیادہ ڈانٹ ڈپٹ نہیں کرتے نہ ہی سختی سے بات منوانے پر یقین رکھتے ہیں. اس کی بری عادات کو سائنٹفک، پریکٹیکل اور اخلاقی طریقوں سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں
4. غیر مداخلتی والدین .
یہ ایسے والدین ہوتے ہیں جو اپنا وقت اور اپنی توجہ بالکل بھی بچے کو نہیں دیتے، وہ کیا کررہا ہے، کیا پڑھ رہا ہے، اس کے رجحانات کیا ہیں، یا اسے زندگی میں آگے کیا کرنا ہے وہ ایسی نشوونما والی باتوں میں ذرا بھی دلچسپی نہیں رکھتے.
( پس تحریر، والدین کی تربیت کے متعلق مراکز قائم کرنے سے نہ صرف معاشرے کو کارآمد شہری ملیں گے (بلکہ یہ کام بطورِ بہترین روزگار بھی کیا جاسکتا ہے.
توقیر بُھملہ


Business Tips, کاروبار کیسے کریں قسط نمبر 5

 

کاروباری پوسٹ نمبر 5
انٹرپرینورشپ سیریز
توقیر بُھملہ
آئیڈیا کو فلٹر کرنا / Filtration of Ideas
دوستو اگر آپ گزشتہ پوسٹوں کو پڑھ اور سمجھ رہے ہیں،
اور اگر آپ نے مارکیٹ ریسرچ اور مارکیٹ تجزیہ جو کاروبار میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اسے کر لیا ہے یا اسے کرنے کے متعلق سوچ رہے ہیں, یا کم از کم اسے سمجھ لیا ہے تو مبارکباد قبول کیجئے..
فرض کرتے ہیں کہ آپ نے اچھی طرح مارکیٹ ریسرچ کرلی وہاں سے چند آئیڈیاز مل گئے، ان میں سے ایک آئیڈیا ایسا ہے جو آپکی طبعیت اور سرمایہ کے مطابق ہے. اور آپ کو ذاتی طور پر پسند بھی ہے، آج اسی آئیڈیا کو مزید فلٹر کرنے کے متعلق جاننے کی کوشش کریں گے.
اپنے آئیڈیا کی (تطہیر) فلٹر یا مزید سوچ بچار کرنا اس کو چھاننی سے گزارنے کے لیے کیا کرنا ہوگا :اس کے لیے ہم ایک کیس اسٹڈی دیکھتے ہیں
ہم احمد (ایک فرضی نام) کی مثال لیتے ہیں
آئیے احمد کی کیس سٹڈی مثال سے ہم اپنے آئیڈیا کو مزید بہتر بنانے کی اہمیت اور ضرورت کے متعلق جانتے ہیں..
احمد کو کافی شاپس میں کام کرنے کا تجربہ ہے اور وہ خود اب ایک کافی شاپ کھولنا چاہتا ہے ۔اگر وہ ایسا کرتا ہے تو کسٹمر دوسری کافی شاپس کو چھوڑ کر احمد کے پاس کیوں آئیں گے؟
پچھلے چند ہفتوں سے ، احمد نے اس موجودہ اقدام کو مارکیٹ میں مزید تحقیق (مارکیٹ ریسرچ) کرنے کے لئے استعمال کیا ہے۔ اس نے دیکھا ہے کہ جہاں شہر کی دوسری کھانے پینے کی دوکانیں ہیں وہاں سے نزدیک پیدل چلنے کے فاصلے کے اندر کوئی لوکل کافی شاپ نہیں ہے۔ اس کی مارکیٹ کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے مقامی علاقے میں لوگ نزدیکی جگہوں پر پیدل چلنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ پیدل چلنا ، قریب ترین کافی شاپ 30 منٹ کی واک کے فاصلے پر ہے۔ اس نے مقامی لوگوں سے کافی شاپ رکھنے کے بارے میں پوچھا ہے جو صرف 15 منٹ کی واک ڈسٹینس پر ہوگی۔ اس آئیڈیا کے بارے میں اسے بہت ساری مثبت رائے ملی ہیں ، بہت سے لوگوں نے ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ وہ دوستوں کے ساتھ کوئی ایسی نزدیکی پرسکون جگہ پر کافی پینا چاہیں گے جہاں کچھ دیر بیٹھ کر گپ شپ بھی کرسکیں .
احمد نے اپنے ممکنہ کسٹمرز کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے آن لائن وسائل کا بھی استعمال کیا ہے۔ اس کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ نوجوان پیشہ ور افراد کی طرف سے کافی شاپس کی طلب اور استعمال میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس نے مقامی لوگوں سے بات چیت کرکے ، اپنی کافی شاپ کے ساتھ کچھ مشہور قسم کے کھانے پینے کے آئٹمز کو رکھنے کے بارے میں بھی معلومات حاصل کیں ہیں.
وہ مقامی کالجوں میں بھی گیا اور نوجوانوں سے بھی رائے طلب کی جن کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ اور وائی فائی کی سہولت ہو تو چند طلباء وہاں کسی گوشے میں بیٹھ کر کافی کے ساتھ ساتھ لیپ ٹاپ پر اپنی اسائنمنٹ حل کرنے میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں
مارکیٹ ریسرچ کے اس موجودہ مرحلے سے ، احمد نے اپنے خیال کو محض ایک کافی شاپ کھولنے سے لیکر وہاں لائٹ فوڈ آئٹمز ( کیک، پیسٹریز، کوکیز، وغیرہ) رکھنے تک اس بات کا تعین کرنے کے لئے اپنے آئیڈیا کو بہتر بنایا ہے کہ اس کے لوکل علاقے میں کافی شاپ کی ضرورت ہے جہاں زیادہ تر نوجوان طلباء اور پیشہ ور افراد اس کے گاہک ہوں گے ، جب اس کا ٹارگٹ کسٹمر نوجوان پیشہ ور افراد ہیں تو احمد نے اس لوکل جگہ اور وہاں کے افراد کی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے کافی اور لائٹ فوڈ کی مختلف اقسام کو بھی سمجھنا شروع کر دیا ہے جو وہ اپنی دکان میں پیش کرے گا۔ اس نے انٹرنیٹ کو استعمال کرتے ہوئے دنیا بھر کی کافی شاپس کو غور سے دیکھا ہے، اسے پتا چلا ہے کہ کافی محض پیٹ بھرنے کا نام نہیں بلکہ ایک ثقافت اور کشش کا نام ہے، اس نے اپنی شاپ کو بھی ایک ثقافتی رنگ دینے، اپنی شاپ کے اندر ہی فریش کافی کے بیجوں کو گرائنڈ کرنے اور کسٹمر کے سامنے تازہ صاف ستھری کافی تیار کرنے کا بھی پلان بنا لیا ہے،
غور کریں، سوچیں :
احمد کے اپنے کاروباری آئیڈیا کو بہتر بنانے کے بارے میں اس پراگریس کو پڑھنے کے بعد ، کیا آپ سوچ کر بتا سکتے ہیں کہ وہ اپنی توجہ کو اور آئیڈیا کو مزید کس طرح بہتر اور مفید کرسکتا ہے؟ آپ کے نزدیک اور ایسی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں جن پر مزید ریسرچ کرکے اس کو کافی شاپ کھولنے میں مدد مل سکتی ہے؟

Business Tips, کاروبار کیسے کریں قسط نمبر 3-4-

 



کاروباری پوسٹ نمبر 3
انٹرپرینورشپ سیریز
توقیر بُھملہ
..
مارکیٹ ریسرچ / Market Research
( مارکیٹ ریسرچ کے متعلق ایک میرا پرانا لکھا ہوا آرٹیکل بھی آج مل گیا تھا، وہ بھی پوسٹ کردوں گا اس پوسٹ کو مارکیٹ ریسرچ پہلا حصہ سمجھ کر پڑھیں آپ اگر پڑھیں تو بعد میں دونوں کو ملا کر پڑھ لیں اور موازنہ کرلیں)
جہاں کوئی پروڈکٹ، سروس، سامان، دوکاندار، بیچنے والا اور خریدنے والا ہو تو اسے مارکیٹ /بازار کہتے ہیں،
تحقیق، تفتیش اور سروے سے اپنا مطلوبہ ہدف پورا کرنا ریسرچ کہلاتا ہے..
مارکیٹ ریسرچ اپنے مطلوبہ ہدف حاصل کرنے مثلاً کاروبار کو قائم کرنے، پھیلانے یا بڑھانے کے لیے کی جاتی ہے..
مارکیٹ ریسرچ کیوں ضروری ہے اور کیا واقعی اس کی ضرورت ہے بھی کہ نہیں؟
مارکیٹ ریسرچ ایک ایسی حکمت عملی ہے جو سرمائے اور ہنر وغیرہ کے بندوبست سے بھی پہلے کی جاتی ہے، ہمارے ہاں اس چیز کا رواج نہیں اور ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی ہم ضرورت اور خریدار کے ادراک اور مسئلے کے حل کی بجائے اپنے خود کے لیے مسئلہ پیدا کردیتے ہیں، جس کی وجہ سے اکثریت یا تو خسارے اور قرضوں میں پھنس جاتے ہیں اور بھاگ جاتے ہیں یا پھر چند لوگ دو چار مزید تجربات کر گزرتے ہیں اور ان کا نتیجہ بھی زیادہ تر غلط نکلتا ہے،
جہاں تک بزنس کمیونٹی سے میں وابستہ رہا ہوں میں نے سب سے پہلے یہی سنا اور سیکھا کہ " اچھا پہلے مارکیٹ ریسرچ کرو"
" Do Your Market Research"
ایک بات یاد رکھیں مارکیٹ ریسرچ اور مارکیٹنگ ریسرچ دو الگ چیزیں ہیں، ابھی ہم صرف مارکیٹ ریسرچ پر بات کریں گے.
مارکیٹ ریسرچ کم از کم ایک ماہ بلاناغہ ہوم ورک ہے، جس میں آپ تسلی سے جتنی زیادہ ہوسکتا ہے اتنی دوکان، سامان اور گاہک کے متعلق معلومات اکٹھی کرتے ہیں، جب تک یہ ہوم ورک مکمل نہ ہو آپ اور آپ کا سٹارٹ اپ یا کاروبار ادھورا رہے گا.
جیسا کہ ہم نے پڑھا کہ کاروبار کسی مسئلے کو حل کرنے یا کسی ضرورت کو پورا کرنے کا نام ہے تو اس کے لیے سب سے پہلے اپنے گھر سے شروعات کریں، دیکھیں کہ ایسی کون سی چیز ہے جو آسانی سے گلی محلوں سے مل جاتی ہے، اور ایسی کون سی چیز ہے جو، نزدیک سے آسانی سے نہیں ملتی بلکہ کبھی کبھار تو اپنے علاقے یا شہر سے بھی نہیں ملتی اور اس کی ضرورت یا مانگ زیادہ ہورہی ہے، مثلاً ہمارے سامنے تبدیلیاں آئیں جن کا ایک عام آدمی ادراک نہ کرسکا، برف بازار سے خریدتے تھے، کسی نے فریج بنا دیا اور اب ہر گھر میں ہے، لوگ رفع حاجت کے لے باہر کھیتوں یا جنگلوں کا رخ کرتے تھے، کسی نے ٹوائلٹ کی سیٹیں اور فلیش بنا دیے جو اب ہر گھر میں ہیں، ایسی ہزاروں ضروریات اور مسائل ہوتے ہیں جنہیں ایک عام آدمی یا صارف کی آنکھ سے دیکھنا ناممکن ہے، اس کے لیے بزنس / کاروباری سوچ اور مارکیٹ ریسرچ کی بصیرت درکار ہے،( مثلاً آپ ایک ایسی جگہ پر ہیں جہاں کے لوگ خوش خوراک ہیں اور آمنے سامنے پندرہ بیس کڑاہی ہوٹل کھل گئے ہیں جہاں رش بھی رہتا ہے، تو آپ کے پاس ایک سنہری موقع ہے آپ انہی ہوٹلوں کی قطار میں ایک چھوٹی سی دوکان دیکھ کر اس میں ایک چھوٹی سی مشین لگائیں جو گرم مصالحہ جات یا دوسرے مرچ مصالحے وغیرہ پیسنے کا کام کرے، صاف ستھرے ثابت مصالحوں کو پیس کر پہلے تو نزدیکی ہوٹلوں کو دیں، پھر خوبصورت پیکنگ میں، مقامی اور علاقائی مارکیٹ میں سپلائی کریں اور ساتھ ہی آن لائن فریش آرگینک مصالحہ جات کا کام شروع کردیں، ایک بہترین خوبصورت دوکان جس کے اندر تمام مصالحہ جات کی ترتیب سے ایک ایچ ڈی ویڈیو اور تصاویر بنوا کر ایک مختصر تعارفی اشتہار میں لگائیں اور وہ آدھے منٹ کا ویڈیو اشتہار آپ لوکل کیبل اور انٹرنیٹ پر چلوا دیں،،) اس کے بعد بہتر ذریعہ مقامی اخبارات ہیں، یہ آپ کو بتائیں گے کہ اس وقت علاقے میں کون سے مسائل ہیں، ایسا کیا ہے جس کے لیے لوگ گورنمنٹ کی طرف دیکھ رہے ہیں؟ اگر کوشش کریں تو اسے پرائیویٹ بھی شروع کیا جاسکتا ہے اور مسئلے کے حل کے ساتھ پیسہ بھی بنایا جاسکتا ہے.
اس کے بعد بازاروں کے چکر ایک دوکاندار اور گاہک دونوں کی نظر سے مارکیٹ کو دیکھنا ، دوکاندار اور گاہک کے مابین ہونے والے مکالمے، بحث و مباحثہ، قیمتوں پر جھگڑے، مال کی کوالٹی، بروقت سپلائی، مال واپسی یا ناقابل واپسی، سٹاک، وغیرہ دیکھیں کہ پہلے سے موجود یہ تمام چیزیں کس شکل میں ہیں، لوکل تیار اور دستیاب ہیں یا باہر سے آرہی ہیں ،جب سے یہ بازار یا مارکیٹ وجود میں آئی ہے کیا اس کے بعد یہ پھیل رہی ہے یا سکڑ رہی ہے؟ ادھار اور نقد کا کیا تناسب ہے؟ کاروباری حضرات ایک دوسرے سے کمپیٹیشن کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کیے ہوئے ہیں؟ ،
اس کے بعد جب آپ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ مسئلہ یا ضرورت کا حل آپ مقامی افراد کو مہیا کرسکتے ہیں تو دیکھیں کیا اس کام میں نزدیک کوئی حریف ہے؟ اگر ہے تو اس سے مقابلہ کس طرح کرنا ہے؟ دوسرے لوگوں کے سے ہٹ کر آپ کی کیا حکمت عملی ہوگی کہ اپنے کمپیٹیٹر / حریف سے کیسے برتری حاصل کی جائے..
اور سب سے اہم چیز جو مارکیٹ ریسرچ آپ کو بتاتی ہے وہ یہ ہے کہ آیا مقامی / علاقائی سطح پر ایک دوکان یا آن لائن کاروبار کی شروعات کرنے کے لئے کافی تعداد میں گاہک / خریدار موجود ہیں بھی کہ نہیں؟ ۔ آپ کے براہ راست حریف یا کمپیٹیٹر کون ہوں گے؟یہ دو چیزیں باقی تمام چیزوں کی بنیاد ہیں ۔اس کے بعد آپ کے کاروبار میں آپ کے ارد گرد کن لوگوں سے واسطہ پڑے گا.
میں یہاں ایک بات کا اضافہ کرنا چاہوں گا کہ اس وقت گوگل پر معلومات کے علاوہ،ہر جگہ لکھنے والوں نے اپنے علاقے کے متعلق ایک آدھ کتاب ضرور لکھ رکھی ہے.
جس علاقے میں آپ کام کرنا چاہتے ہیں وہاں کے متعلق کتاب اگر آپ خرید لیں تو یہ آپ کا پہلا مثبت قدم ہے جو آپ کامیابی کی طرف رکھ رہے ہیں، کتاب کیوں؟
دراصل ان کتابوں میں لوگوں کے رہن سہن، طرز معاشرت، رسم و رواج، خوراک، لباس، عادات اور موسم کے متعلق بہت کچھ مل جاتا ہے جس سے ہمیں ان کے ذہنی رجحانات کو سمجھنے میں آسانی ہوجاتی ہے.
، اس کے بعد آپ کے اردگرد ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پاس اس علاقے کی تمام معلومات ہوتی ہیں آپ وہاں سے کوئی بھی طریقہ اپنا کر یہ معلومات لے سکتے ہیں، آپ نے دیکھا ہوگا، گلی محلوں یا راہ چلتے ہوئے چند لوگ ملتے ہیں جن کے ہاتھوں میں کاغذات اور بیگ وغیرہ ہوتے ہیں، وہ گھر کے افراد کی تعداد ، ان کی تعلیم، کام کاج اور آمدنی، پسند اور ناپسند اور چند مخصوص برانڈز کے استعمال کے متعلق معلومات لیتے اور لکھتے ہیں، یہ سروے کہلاتا ہے جو مارکیٹ ریسرچ کی ایک شاخ ہے، یہ مختلف طرز اور نوعیت کے سروے کوئی بھی بڑی کمپنی اپنی پروڈکٹ لانچ کرنے سے پہلے اور بعد میں کرواتی ہے اور اپنے پاس سارا ریکارڈ محفوظ رکھتی، پھر اسی ریکارڈ کی بنیاد پر اگلے لائحہ عمل طے کرتی ہے.
جب آپ نے اپنے گھر، گلی، محلے، شہر اور مارکیٹ کو کھنگال کر کوئی مسئلہ، کوئی مشکل کوئی کمی کوتاہی، یا کسی نئی ضرورت کو تلاش کرلیا تو سمجھیں آپ آدھے کاروبار کے مالک ہوگئے ہیں اب آپ نے اپنے اس عمل کو آگے بڑھانا ہے..
آج مارکیٹ ریسرچ میں پہلا حصہ خریدار کے متعلق سیکھتے ہیں..
کسٹمر / خریدار / صارف..
سب سے پہلے دیکھنا ضروری ہے کہ اس مارکیٹ / بازار کے ارد گرد لوگوں کی آبادی کتنی ہے؟ اور کیا یہاں ارد گرد ایسے کسٹمرز ہیں بھی جو ہماری طرف متوجہ ہوں گے یا ہمارے گاہک بنیں گے یا نہیں ؟ اور اگر بنیں گے بھی تو انکی ممکنہ تعداد کیا ہوسکتی ہے؟
کیا ان کی قوت خرید اتنی ہے کہ وہ ہماری طے کردہ قیمت ادا کرسکیں گے؟ اور کیا یہ ضرورت یا مسئلہ ایک مستقل طور پر رہے گا جس سے کسٹمر مستقل رہیں گے یا نہیں؟
کیا یہ ان کی روزمرہ کی ضروریات میں سے ہے یا کبھی کبھار کی ضرورت؟
--_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-
ان چیزوں سے پہلے اپنی شخصیت کی جانچ پرکھ کریں اور دیکھیں کہ آپ کا مزاج کیسا ہے، آپ کو شور پسند ہے یا پرسکون ماحول، لوگوں سے بھاؤ تاؤ کرنا اچھا لگتا ہے یا پھر خاموش طبعیت ہیں، وغیرہ وغیرہ، کام کاج میں ہمارے مزاج کا بڑا دخل ہوتا ہے جس کا ہمیں پتا نہیں چلتا اور ہم پرسکون طبعیت کے لوگ پرشور جگہوں پر کام شروع کرلیتے ہیں پھر ہر کسی سے جھگڑتے رہتے ہیں، اس لیے اپنے مزاج اور مارکیٹ کے مزاج کو سمجھنے میں جتنا بھی وقت لگ سکتا ہے وہ لگانا چاہیے..
_-_-_-__-_-___-____-----____-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_
کیا آپ کو یہ سب جاننا / سیکھنا اچھا اور مفید لگ رہا ہے یا نہیں؟
اپنی قیمتی رائے سے ضرور نوازیں..
شکریہ 
 توقیر بُھملہ /
 
 
کاروباری پوسٹ نمبر 4
انٹرپرینورشپ سیریز
توقیر بُھملہ
مارکیٹ ریسرچ.. دوسرا حصہ.
مارکیٹ ریسرچ: کا مطلب ہے وہ معلومات اکٹھا کرنا جو آپ کو اپنے کاروباری آئیڈیاز کی خوبیوں،خامیوں اور کمزوریوں کو سمجھنے میں مدد فراہم کرے گی۔ اس سے آپ کو یہ جاننے میں مدد ملتی ہے کہ کون سا آئیڈیا مزید اس شعبے میں نئی راہیں اور ترقی کرنے کا سبب اور فائدہ مند ثابت ہوگا۔ اگر آپ کے پاس اس وقت صرف ایک ہی آئیڈیا ہے تو ، مارکیٹ کی ریسرچ آپ کو یہ سمجھنے کے قابل بنائے گی کہ اپنے آئیڈیا کو مزید بہتر بنانے کے طریقے کو کیسے سمجھیں یا پھر نئے آئیڈیاز کہاں سے لیں۔
مجھے مارکیٹ کی ریسرچ کے بارے میں کیا سوچنا چاہئے؟
اپنے کاروباری آئیڈیاز (خیالات) کی درست اور بہتر پوٹینشل جاننے کے لیے ان چند سوالات کے مطابق مارکیٹ ریسرچ کریں ۔
1. مارکیٹ کا سائز: Market Size
میرے کاروباری آئیڈیا میں کتنے افراد کے کام کرنے کا امکان اور گنجائش ہے؟
میرے ممکنہ گاہک کہاں ہیں (یعنی مقامی، شہر سے باہر اور دو دراز علاقوں سے یا پھر انٹرنیشنل بھی ہوسکتے ہیں )؟
2. مارکیٹ تجزیہ (مارکیٹ اینالائیسز) :
اس شعبے کی ویلیو یا ورتھ کتنی ہے؟ (اس جگہ میں ایک عام کاروباری ہر سال کتنا کما سکتا ہے؟)
پہلے ہی یہاں میرے آئیڈیاز سے ملتے جلتے کتنے ہی کاروبار چل رہے ہیں؟
3. رجحانات: Trends
کیا وقت کے ساتھ ساتھ میرے کام کی منتخب کردہ جگہ میں کاروبار کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے یا کم ہوا ہے؟
میرے ممکنہ گاہکوں کو کون سی چیز زیادہ سہولت کے ساتھ مل سکتی ہے اور اس چیز کی مقبولیت کیوں ہے؟
کیا دوسرے شعبوں یا کاروباری اداروں کی طرف سے کوئی مستقبل میں خطرہ لاحق ہوسکتا ہے اور ہوگا تو وہ ممکنہ خطرات یا نقصانات کیا ہوسکتے ہیں؟
جب آپ ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کے لئے مارکیٹ کی تحقیق / ریسرچ کریں گے تو ، مزید سوالات ضرور سامنے آئیں گے۔ اپنے ہر حتمی کاروباری آئیڈیاز /خیالات کی صلاحیت، کامیابی کا تعین کرنے میں مدد کر نے والی زیادہ سے زیادہ معلومات کی ریسرچ کریں اور ایسی معلومات اکٹھی کریں جس کا فائدہ ہو۔ کاروبار سے پہلے کی گئی ریسرچ ہی آپ کو مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے میں مددگار ثابت ہوگی، کاروبار کسی مشکل کا حل کرنے اور کسی مدد کے جذبے کے تحت ہی بہترین بنتا ہے، کاروبار سے صرف اور صرف منافع کمانا یا آمدنی کا حصول ایک آدھا غلط خیال ہے اور اس نصف غلط خیال کو بروقت درست کرنا بے حد ضروری ہے. ان سوالات کے جوابات اور ریسرچ سے آپ کو ان آئیڈیاز / خیالات میں سے کسی کو منتخب کرنے میں مدد ملے گی جو آپ کی مزید ترقی کے لیے آگے بڑھنے کا باعث ہوگا۔
یاد رکھیں کہ اس مرحلے پر ، آپ کا 'حتمی خیال' یا فائنل آئیڈیا کا پلان تیار بھی ہوتا رہے گا اور اس ردوبدل بھی ہوتا جائے گا، اس لیے اپنے آئیڈیا اور ٹارگٹ کے تھیم کو وسیع رکھیں تاکہ ممکنہ ردو بدل کیلئے آپ ذہنی طور پر تیار ہوں ۔
مارکیٹ کی تحقیق کب کافی ہے؟
مارکیٹ کی تحقیق کو ایک مستقل عمل کے طور پر سمجھا جانا چاہئے - جیسا کہ آپ اپنے آئیڈیا کو ترقی دیتے ہیں ، اپنا کاروبار شروع کرتے ہیں ، اور اسی طرح جب آپ اپنا کاروبار چلاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چیزیں مستقل طور پر تبدیل ہوتی رہتی ہیں ، اور ایک سمجھدار انٹرپرینور یا تاجر جو اس کاروباری کھیل سے آگے رہنا چاہتا ہے وہ مارکیٹ کی تبدیلی پر نظر رکھے گا اور اس کے مطابق اپنے کاروبار کو ترتیب دیتا رہے گا ۔
 توقیر بُھملہ
 

 

Business Tips, کاروبار کیسے کریں۔ قسط نمبر 2

 


کاروباری پوسٹ نمبر 2..
انٹرپرینورشپ سیریز
توقیر بُھملہ
بزنس یا کاروبار کیا ہے؟ اور اس کی ابتداء کہاں سے ہوتی ہے؟ ..
کتابوں کی لکھی پڑھی ہوئی تعریفوں سے ہٹ کر..
چھوٹے پیمانے پر مقامی یا علاقائی سطح پر رہتے ہوئے مارکیٹ میں لوگوں کی کسی بھی ضرورت، مشکل یا مسئلے کا عارضی یا مستقل حل نکالنا اور خریدار کی قوت خرید کو مدنظر رکھتے ہوئے ضرورت پوری کرنا سمال بزنس یا چھوٹا کاروبار کہلاتا ہے.
ایک مسئلہ یا مشکل آپ کے اردگرد پہلے سے موجود ہوتا ہے آپ نے اس کا ادراک کرنا اور اس چیز کا حل تلاش کرکے پبلک کو دے دینا ہوتا ہے ، سہولت مہیا کرنا اور لوگوں کی ضرورت پوری کرنا ہی کاروبار کے جمنے اور پھلنے پھولنے کا بہترین ذریعہ ہوتا ہے، جب پبلک کو اپنی پریشانی کا حل مل جاتا ہے تو وہ حل آپ کے نام سے منسوب ہوجاتا ہے اور آہستہ آہستہ ایک برانڈ کی شکل اختیار کرسکتا ہے.. اس کے بعد دوسرا کوئی اس کام میں آپ کی پیروی کرسکتا ہے، آپ جیسا نام نہیں کما سکتا..
آپ کا ایک فیصلہ.. نیا رستہ تلاش کرنا یا پھر پہلے سے بنے ہوئے رستے پر چلنا ہی آپ کے نفع نقصان کو طے کرتا ہے..
دوسرے نمبر پر آپ دیکھتے ہیں مارکیٹ میں کوئی بھی ایسا بڑا مسئلہ وجود نہیں رکھتا جس کو حل کرکے بندہ اپنے کاروبار کا اچھا اور بڑا آغاز کرسکے تو پھر مارکیٹ کے اندر ایک مصنوعی مسئلہ یا مشکل پیدا کی جاتی ہے جس سے عوام کو ایک ایسی چیز دکھائی جاتی ہے جس کا وجود نہیں ہوتا لیکن اس چیز کی مارکیٹنگ یا تشہیر اتنی زبردست ہوتی ہے کہ عوام اس پروڈکٹ یا اس بزنس کے لانچ ہونے کا انتظار کرنے لگتی ہے جس سے وہ چیز لانچ ہونے کے بعد ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوکر اپنا نام بنا جاتی ہے. یہ ایک بڑے پیمانے کا کام ہوتا ہے جس میں مختلف عوامل کا ساتھ اور ہاتھ ہوتا ہے.
مثلاً کچھ عرصہ پہلے تک جسم کو ڈی ٹاکس DETOX کرنے والی کسی پروڈکٹ یا اس نام کا وجود نہیں تھا، پھر راتوں رات پوری دنیا میں ہر جگہ باڈی ڈی ٹاکس اور ہربل اینڈ آرگینک چیزوں کی بھرمار ہوگئی اور آج ہر جگہ منافع بخش ڈی ٹاکس پروڈکٹس اور ادارے بن چکے ہیں.
پہلی پوسٹ میں ہم نے ظفر اور ارشد کی مثال دیکھی تھی اب اس مثال کو سامنے رکھ کر مسئلہ حل کرتے ہیں..
بزنس شروع کرنے سے پہلے اگر دیکھا دیکھی ہم کوئی بھی کام شروع کردیں گے یا مختلف لوگوں سے مشورہ اور آراء حاصل کرتے رہیں گے تو ہم اپنے آپ پر اعتماد نہیں کرسکیں گے، انسانی ذہن کا ایک فوکس پوائنٹ ہوتا ہے ارتکاز کی قوت جب منتشر ہوجائے تو انسان کوئی بھی فیصلہ کرنے کے قابل نہیں رہتا اور یوں وہ دوسروں کی پڑھائی ہوئی پٹیوں پر لگ جاتا ہے، جس سے غلط فیصلے اور غلط کاروبار کی شروعات کرنے کے بعد پچھتانے لگ جاتا ہے، سرمایے، وقت اور اپنے نام کی خرابی ایک بہت بڑا نقصان ہے، جس کو پورا کرنا ہر کسی کے بس میں نہیں ہوتا..
جب ایک مسئلہ کا حل یا ایک پروڈکٹ اچھے طریقے سے اور آسانی سے مل رہی ہو تو لوگ اسی طرح کی چیز کے لیے ہماری طرف کیوں متوجہ ہوں گے؟ ، وہ جو چیز پہلے سے مل رہی ہو اور اس پر اعتماد بن چکا ہو تو اسی چیز کے لیے کوئی ہمارے پاس کیوں آئے گا؟؟ یا تو اس چیز کی خامیاں (پروپیگنڈہ) مارکیٹ میں پھیلائی جائیں جو کہ ایک گھٹیا فعل ہے یا پھر لالچ کا سہارا لے کر لوگوں کو متوجہ کیا جاتا ہے یا پھر ایک لمبا انتظار..
ہم نے پبلک کو کسی مسئلے کا حل دینے کی بجائے ایک ایسا کام کیا جس میں ہماری اپنی سہولت تھی یا وقتی پیسہ تھا، نا کہ خریدار یا عوام کی سہولت یا ضرورت تھی، اس لیے شعور صرف بزنس کمیونٹی کی ملکیت نہیں ہوتا بلکہ خریدار بھی پسند ناپسند اور شعور رکھنے والے ہوتے ہیں، جب انہیں اعتماد ہوجائے تو وہ اپنی پسندیدہ چیز کے لیے اندھیری گلیوں یا تہہ خانوں میں بھی جاکر خریداری کرلیتے ہیں لیکن جہاں اعتماد نہ ہو تو وہ چیز بے شک سپر سٹور یا سجی سجائی دوکانوں پر ہو لوگ نہیں خریدتے.
اب ظفر کو مختلف لوگوں سے مشورہ بھی نہیں کرنا چاہیے تھا، اٹھتے بیٹھتے لوگوں سے کاروبار کے متعلق بھی نہیں پوچھنا تھا تو پھر اسے کیا کرنا تھا؟
جی اسے اپنے سرمایے، اور ہنر کے مطابق مارکیٹ ریسرچ کرنی تھی، گویا کہ "مارکیٹ ریسرچ" ایک غیرمانوس اور اجنبی سا لفظ لگتا ہے، سننے والا سوچتا ہے یار پتا نہیں کیا بلا ہوگی مارکیٹ ریسرچ؟ کیسے کرتے ہیں؟ ، اور کیوں کرتے ہیں؟
تو ہم اگلی پوسٹ میں ارد گرد مارکیٹ کا مسئلہ، مشکل یا ضرورت کیا ہوتی ہے؟ اسے کیسے جانچتے یا تلاش کرتے ہیں؟ کاروبار کی شروعات سے پہلے مارکیٹ ریسرچ کرنا اور اس کے بعد کن چیزوں سے ابتدا کرنی ہے ان کے متعلق سیکھیں گے..
(ان پوسٹوں کو پڑھتے ہوئے خیال رہے کہ ہم چھوٹے کاروبار کے متعلق بات چیت کررہے ہیں، اور ایک دوسرے سے سیکھ رہے ہیں )
توقیر بُھملہ

Business Plan Idelogy and Markeet Reserch، کاروبار کیسے کریں قسط نمبر 1

 


کاروباری پوسٹ نمبر 1..
انٹرپرینورشپ سیریز
توقیر بُھملہ
ظفر کے پاس جب کسی طرح اڑھائی لاکھ روپے جمع ہو گئے تو وہ اٹھتے بیٹھتے ہر کسی سے ایک ہی بات پوچھتا "یار ملازمت سے جان چھڑانا چاہتا ہوں کوئی چھوٹا موٹا کاروبار بتاؤ جس میں منافع اچھا ہو یا کوئی ایسی جگہ بتاؤ جہاں انویسٹمنٹ کروں اور ہر ماہ لگا بندھا منافع ملتا رہے"
جب مشورہ دینے والا پوچھتا کہ کون سا کام آتا ہے؟ تو ظفر کا جواب ہوتا یار ابھی تک کوئی خاص نہیں مگر ساتھ ساتھ سیکھ لوں گا..
جب پوچھا جاتا پیسے کتنے لگا سکتے ہو تو جواب ہوتا" بس تم کاروبار بتاؤ پیسے بہت ہیں " وغیرہ وغیرہ..
اب مشورہ دینے والے زیادہ تر خود مارکیٹ سے ناواقف یا پھر کاروبار سے ناواقف تھے، کچھ اگر تھے بھی تو خطرہ مول لینے والے نہیں تھے، اسی طرح سب نے اپنی اپنی طبیعت کے مطابق مشوروں سے نوازا،
مارکیٹ، گاہک، ضرورت وغیرہ کا کسی بھی مشورے میں ذکر نہیں تھا، اگر ذکر تھا تو فلاں نے بکرے پالے اب وہ لاکھوں کما رہا ہے، فلاں نے آن لائن کپڑے اور جوتے فروخت کرنے کا کام کیا اب لاکھوں میں کھیل رہا ہے، اس طرح فلاں کے کام اور لاکھوں میں کھیل نے ظفر کو بڑا متاثر کیا، دو چار دوستوں نے بتایا تھا کہ ساتھ والے گاؤں کے ارشد نے چھ ماہ پہلے شہر سے ہٹ کر ایک تہہ خانے میں چائنہ شوز کا کام شروع کیا تھا، کسی کو بھی یقین نہیں تھا کہ کام چلے گا مگر اب وہاں دن رات رش کم نہیں ہوتا لگتا ہے سارا شہر وہاں ہی جوتے خریدنے چلا جاتا ہے، اس کام میں لاگت کم اور منافع دوگنا زیادہ ہے. ظفر نے وہاں جاکر اپنی آنکھوں سے دیکھا اور پھر انہی دوستوں کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے ارشد کے تہہ خانے سے نزدیک ہی ایک نو تعمیر پلازے میں چائنہ شوز کی دوکان کھول لی،
اب چھ ماہ ہونے کو ہیں اور ظفر سارا دن اکا دکا گاہکوں کے علاوہ خریداروں کی حسرت سے راہ تکتا بلکہ ارشد کے تہہ خانے کی طرف جاتے ہوئے دیکھتا رہتا ہے. اور ساتھ ایک نیا مشورہ جس پر وہ سنجیدگی سے غور کررہا ہے کہ اب یہ کام چھوڑ کر کاسمیٹکس کا کام کیا جائے..
ظفر سے کہاں غلطی بلکہ غلطیاں ہوئیں؟
ارشد کی دوکان کیوں گاہکوں سے بھری رہتی ہے؟
ظفر کے پاس بھی چائنہ شوز تھے لیکن گاہک متوجہ کیوں نہیں ہوئے؟
چھوٹے پیمانے پر کاروبار کیا ہے؟
ملازمت کے ساتھ کاروبار کیسے سنبھالا جائے؟
اور اس جیسے دوسرے سوالات کا آسان اور عام فہم زبان میں سلسلہ آج سے ان شاءاللہ شروع کیا ہے،
یہاں فیس بک پر ہی روزانہ آپ کو کاروبار کے متعلق ایک مختصر پوسٹ ملا کرے گی، آپ کے تمام سوالات کا جواب بھی پوسٹ کے اندر یا کمنٹس میں دیا جائے گا..
کوئی ان-باکس یا فیس وغیرہ یا کچھ بھی ایسا نہیں جس کا مطالبہ کیا جائے گا.. باقی میرے پاس ویڈیو بنانے اور اپلوڈ کرنے کا وقت نہیں ورنہ ویڈیو ضرور بناتا..
آپ جانتے ہیں تو راہنمائی کیجئے..
جاننا چاہتے ہیں تو سیکھیں اور شئر کریں..
فقیر کا کام ہے صدا لگانا وہ لگتی رہے گی..
توقیر بُھملہ

 Copy  from https://www.facebook.com/ToqeerBhumla


July 15, 2021

Humanity Makes Good faith for you

 ہمارے دفتر کی صفائی ایک لڑکی کرتی تھی اس کا شوہر سائیکل پر اس کو لینے آتا تھا

 


 ایک روز جب میں دفتر میں داخل ہوا تو ایک بائیس سالہ انتہائی کمزور لڑکی میرا کمرہ صاف کررہی تھی ۔ اس کے کپڑے انتہائی پرانے کپڑوں کا رنگ گو کہ سفید تھا لیکن اس پر اتنی گرد پڑی ہوئی تھی کہ وہ مشکل سے سفید نظر آتے تھے ۔ میں نے اپنی سیکرٹری سے پوچھا کہ یہ کون ہے ۔جواب ملا کہ ہماری پہلی صفائی والی آیا

بیماری کیوجہ سے کام چھوڑ گئی ہے یہ لڑکی اس کی جگہ پر آئی ہے دن گزرتے گئے اس بچی کی آنکھوں کی حیاء اور چہرے کی معصومیت ایک پیغام دیتی تھی ۔ میں نے کبھی اس سے متعلق پوچھنا مناسب نہیں سمجھا۔ اس بات کو کوئی چھ ماہ گزر گئے تو ایک روز میری سیکرٹری نے مجھے کہا کہ اسے دو چارپائیاں لے دیں اور پھر اس نے وہ واقعہ سنایا جو اس کے ساتھ گزشتہ رات پیش آیا تھا ۔ کہنے لگی کہ روزانہ اس کا شوہر سائیکل پر لینے اسے آتا تھا ۔ کل جب وہ کافی دیر تک نہیں آیا تو میں اس کو اس کے گھر چھوڑنے چلی گئی ۔ یہ ایک ویرانے میں چھپڑ ساتھا میں نے اندر داخل ہونا چاہا تو اس نے روکا کہ آپ اندر نہ جائیں میں

زبردستی اندر گئی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ وہاں پر ماسو ا ایک لالٹین کے کچھ بھی تھا ۔ اس کے دو بچے زمین پر لیٹے ہوئے تھے میں نے پوچھا کہ تم او ر تمہارا خاوند کہاں سوتے ہیں۔ تو اس نے زمین کی ایک جانب اشارہ کرکے بتایا کہ وہاں میں نے پوچھا تمہارے پاس کوئی چارپائی بستر رضائی وغیرہ کچھ نہیں تو وہ روپڑی اور کوئی جواب نہ دیا دوسرے دن اسے دو چارپائیاں لے کر دے دیں اور کچھ برتن بھی ۔ جب میں نے کچھ کپڑوں کے پیسے دیئے اور اسے کرایہ پر گھر

لے دیا تو اس کی حالت دیدنی تھی ۔ دراصل میرا پروگرام اس کو ایک گھر لے کر دینے کا تھا چند روز پہلے میں نے اپنے روزانہ کے معمول کے مطابق دفتر میں صلاۃ التسبیح شروع کی تو قیام کے دوران اچانک محسوس ہوا کہ میں آسمان میں ایک ایسے مقام پر ہوں جہاں فرشتے خداند قدوس سے براہ راست احکام وصول کرتے ہیں ۔ چاروں طرف تاحد نظر سفید لباس میں ملبوس فرشتے ہی فرشتے ہیں اتنے میں رب العزت کی آواز گونجتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی عبادت کا ثواب دو گُنا کردو ۔ اس کے فوراً بعد تمام فرشتے آپس میں چہ میگوئیاں شروع کردیتے ہیں۔ سب فرشتے حیران ہیں کہ اس بچی نے اپنے پالن ہار رب العزت سے کیا مانگ لیا ہے

کہ ایک تو رب العزت نے اس بندے کو تمام عمر کی عبادت کے برابر ثواب بخشا ہے اور ساتھ ہی ایسی نعمتیں عطاء کی ہیں جس کا تصور کرنا بھی مشکل ہے ۔ میں نے نوافل مکمل کئے ۔بچی کو بلوایا اور اس وقت میں پھوٹ پھوٹ کر رو دیا اور اس سے استدعا کی کہ وہ ایک بار پھر رب العزت سے میرے لئے ویسی ہی دعا مانگے ۔ کچھ دن بعد القاء ہوتا ہے کہ اس نے تو کچھ نہیں مانگا لیکن جو کچھ بھی آپ نے اسے دیا ہے وہ اتنی خوش تھی اور جب رات کو وہ چارپائی پر لیٹی تو زاروقطار

رو رہی تھی ۔ اور زبان پر الحمداللہ تھا ۔ رب العزت کو اس کی یہ ادا پسند آئی اس لئے انعام تو آپ ہی کو ملنا تھا۔ میں نے اگلے روز اس لڑکی کو بلوا کر اس کے گھریلو حالات معلوم کئے تو پتہ چلا کہ اس نے انتہائی کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزاری ہے ۔ وہ بلکل ا ن پڑھ تھی لیکن نماز کی پابند تھی ۔ گھر میں کبھی سالن نہ بھی ہوتا تووہ سو کھی روٹی اور مرچوں سے پانی کے ساتھ پیٹ بھر لیتی اور ہر حال میں رب العزت کا شکر ادا کرتی اور کہتی الحمداللہ رب تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے ایسے بھی تو لوگ ہونگے جن کو یہ سوکھی روٹی بھی میسر نہیں ۔

چھوٹی سی عمر میں جب وہ چودہ سال کی تھی ماں باپ نے خالہ زاد کے ساتھ رشتہ طے کردیا اور شادی ہوگئی ۔ شوہر ایک موٹر سائیکل کی دکان پر کام کرتا تھا کبھی ہزار پانچ سوکماکر لاتا۔ ایک سال کے اندر 2جڑواں بچے پیدا ہوئے کبھی اوپلے تھاپے اور کبھی کسی کے گھر میں ایک وقت کی روٹی اور 2000 ماہانہ پر کام کیا لیکن ہر حال میں اس نے رب العزت کا شکرادا کیا۔ شروع میں سسرال والوں نے ایک چھپڑ

میں رہنے کی جگہ دی پھر وہاں سے بھی نکال دیا اور ہم نے معصوم بچوں کے ساتھ بھینسوں کے کمرے کےایک نکڑ میں رہ کرگزر بسر کی اور جب اس اسپتال میں نوکری ملی تو ایک کرایہ کا کمرہ لے لیا آپ جانتے ہیں کہ آج مہنگائی کا کیا عالم ہے لیکن ہر حال میں ذات باری تعالیٰ کاشکر ادا کیا۔ آج میں اتنی خوش ہوں کہ میں زندگی بھر تصور بھی نہیں کر سکتی تھی کبھی ایسا بھی ہو گا۔ آج پھر میں اپنے رب کے حضور سربسجود ہوں اور اپنے ڈاکٹرصاحب کی بھلائی اور خوشی کے لئے دعا کرتی ہوں۔

مجھے گھر مل گیا، گھریلو اشیاءمل گئیں۔میں نے جب اس بچی سے انتہائی دردمندانہ اپیل کی کہ ایک مرتبہ پھر وہی دعامانگو جو تم نے رات کو میرے حق میں مانگی تھی تو اس نے ذہن پر زور دے کر کہا کہ میں نے تو کچھ بھی نہیں مانگا تھا۔ میں بس بے انتہا خوش تھی، خوشی میں زاروقطاررو رہی تھی اور زبان پر ’’الحمدللہ‘‘ تھا اور دل میں آپ کے لئے دعا تھی، وہ دعا کیا تھی میں نہیں جانتی صرف اور صرف آپ کی صحت اور خوشی مانگ رہی تھی اس جہان میں اور آخرت میں بھی ۔

 

Copy Paste

Total Pageviews