گھر آنے والے کو کیا کھلایا جائے..؟؟؟
ایک عمومی معاشرتی رویہ جس کی وجہ سے تکلفات میں اضافہ اور دلوں میں فاصلے بڑھ گئے۔۔۔
یعنی پہلے ایک وقت تھا جب ملنا ملانا اہم ہوا کرتا تھا۔ کسی کے گھر آنے جانے کے لئے تکلفات کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ نہ ہی گھر کے مکینوں کو بطور میزبان یہ فکر ہوتی تھی کہ آنے والے کو کیا کھلایا پلایا جائے جو اس کے شایانِ شان ہو۔ مطلب جو گھر میں پکا ہوتا وہی آگے رکھ دیا جاتا۔ اور مہمان نے کبھی یہ فکر نہیں کی کہ کسی کے گھر جانے سے پہلے کیا ایسا تحفہ دیا جائے جو سب سے بہترین اور مہنگا ہو۔ یا وہ اس بات پر کبھی بیزار نہیں ہوا کہ اس کو کیا کھلایا گیا اور کہاں بٹھایا گیا۔ ۔ یعنی دو طرفہ تعلقات میں مادی چیزیں زیادہ آڑے نہیں آتی تھیں۔۔۔۔ لہٰذا ملنے والے کو جب یاد ستائی، وہ چلا آیا اور میزبان پر چونکہ پروٹوکول کا علیحدہ سے بوجھ نہیں پڑتا تھا سو وہ خوشی خوشی ملتا تھا۔
آج کے جدید دور میں جہاں بہت ساری اچھی باتیں اور ترقیاں ہوئی ہیں،،، وہاں کچھ ایسے معاملات بھی ہوتے ہیں جو بحیثیت افراد ہمیں اپنوں سے دور کر گئے ۔۔۔ مثلاً ایک خاص طرز پر ہی ملنا جلنا، جو کہ زیادہ تر انویٹیشن کی بنیاد پر ہی ہوتا ہے چاہے وہ کھانے کی دعوت ہو یا چائے کی۔ پھر اس کے لئے خصوصی اہتمام ۔۔ جس پر فی زمانہ اچھا خاصہ خرچا آتا ہے۔ اور مہمان کو یہ فکر کہ آج یہ سب کھا کے آئیں ہیں تو اب اسی معیار کا کھلانا بھی ہو گا۔ اپنی چادر سے بڑھ کر پاؤں پھیلانے پر جو پریشانی بعد میں آئے گی۔ اس کے پیشِ نظر وہ دعوت قبول کرنے سے بھی ہچکچانے لگتا ہے۔
اچھا مزید برآں ۔۔۔ کچھ رشتہ دار خود 10طرح کی ڈشیز بنا کے آگے رکھ کر اپنی امارت کا رعب تو ڈالتے ہی ہیں۔۔۔ پھر اس بات پر شکوہ کناں بھی ہوتے ہیں کہ ہم نے تو اتنی خاطر مدارت کی۔۔ جبکہ ہمارے آنے پر بس وہی 2 ڈشیز ہمارے آگے رکھی گئیں۔
سو لوگ ہر بار ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ۔۔۔
اس پوری کھینچا تانی میں وہ قہقہے اور بے فکریاں کہیں گم ہوگئے۔۔ جو سادگی اور بے دھڑک ہو کر ملنے جلنے میں تھے۔
آج اگر کوئی کسی کو اس سے بڑھ چڑھ کر کھلا نہ سکے تو وہ خود کہیں آنے جانے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہے۔ کہ کھائیں گے تو کھلانا بھی پڑے گا۔ وہ بھی جوابی طور پر پہلے سے بڑھ کر۔۔۔۔۔۔
سو دوستو۔
بات کل ملا کے یہ ہے کہ وہ بہن بھائیوں ، یاروں دوستوں اور دوسرے خونی رشتوں میں جہاں یہ تکلفات آڑے آنا ہمیں اکیلا اور تنہا کر گیا،،، وہاں یہ ہماری معصومیت بھی لے گیا۔ آج کے دور میں ہم جتنا رکھ رکھاؤ اور سلیقے کے ساتھ پھونک پھونک کر ایک دوسرے سے ملتے ہیں
کیا کبھی بچپن میں ایسے ملا کرتے تھے؟؟؟؟
بچپن کے دوست آج بھی ملیں تو خوشی کا احساس ، سرور کی کیفیت اور قہقہوں کا شور ہی اور ہوتا ہے۔ اب جو دوست بنائے جائیں ان کے سامنے بھی ہمیں رکھ رکھاؤ اور سلیقے سے پیش آنا ہوتا ہے
ہمیں ڈر ہوتا ہے کہ لوگ ہمارے بارے میں ججمنٹل نہ ہو جائیں۔ وہ سب کچھ نہ جان لیں جو ہم نے بڑی محنت سے چھپایا ہے۔ کیونکہ اس سے ہماری عزت ، رتبے، معیارات میں کمی آئے گی تو دوستی پر بھی فرق پڑے گا۔۔۔۔
کبھی وہ وقت تھا کہ ظاہری حلیہ اور مادی چیزیں رشتوں سے پیچھے تھیں اور بھروسہ آگے تھا۔۔۔انسان خوش تھا۔
اب یہ وقت ہے کہ ظاہری طور و اطوار رشتوں، دوستیوں اور محبتوں سے آگے بڑھ گئے ۔ انسان اندر سے خالی ہوتا چلا گیا
اور آج وہ ہجوم اور بھیڑ میں بھی تنہا ہے۔۔۔ کیونکہ اس کے پاس ایک بھی ایسا رشتہ اور تعلق نہیں،،،، جس کے سامنے وہ اپنے اندر کی کمیاں خامیاں عیاں کر سکے، اپنی ذات کی ناکامیاں رکھ سکے اور اپنی غلطیوں کا اعتراف دھڑلے سے کر سکے ۔ اسے یہ خوف نہ ہو کہ وہ اس کے بارے کیا سوچے گا یا جج کرے گا۔۔۔۔۔۔
سو اگر آپ کے پاس ایسا کوئی رشتہ ہو۔۔۔۔ بہن بھائیوں ، دوستوں میں۔۔۔۔ تو اسے ظاہریت کی بھینٹ کبھی نہ چڑھنے دیں۔ اسے کھانے کھلانے کی ٹینشن ، پہناوے، آن بان شان کی پہنچ سے دور رکھیں۔۔۔۔
بچوں کے جیسے معصوم ، بے فکر تعلقات انسان کو اندر سے زندہ رکھتے ہیں۔ ورنہ وہ جی نہیں رہا ہوتا۔۔۔ صرف سانس لے رہا ہوتا ہے۔۔۔
No comments:
Post a Comment