March 22, 2025

Teen age Mothers, Sex Education, Moral Graounds, & Double Face Judgements

مغربیت، دیسی لبرلزم اور حقیقت! - بلال شوکت آزاد
دنیا میں کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں جو خالصتاً عقل و منطق سے حل کیے جا سکتے ہیں، مگر کچھ معاملات میں منافقت، دوغلے معیار اور مخصوص ایجنڈے اتنے گہرے ہوتے ہیں کہ سچائی آنکھوں کے سامنے ہونے کے باوجود بھی لوگ اسے قبول نہیں کرتے۔ ایک ایسا ہی مسئلہ "مغربیت" اور ہمارے ہاں کی "دیسی لبرلیت" کا ہے، جو ہمیشہ اپنے مخصوص ایجنڈے کے تحت کام کرتی ہے۔
آج کی دنیا میں اگر کسی مغربی ملک میں 13 سال کی بچی زنا کے نتیجے میں ماں بن جائے، تو اسے "معاشرتی حقیقت" اور "آزادیِ انتخاب" کہہ کر قبول کر لیا جاتا ہے۔ میڈیا اس پر رپورٹنگ کرے گا، نفسیاتی تجزیے پیش ہوں گے، اور اس کے "سپورٹ سسٹم" کو سراہا جائے گا کہ کیسے سوسائٹی نے اسے قبول کیا، کیسے سوشل ویلفیئر نے اسے سہارا دیا، اور کیسے اس کے ساتھ "ججمنٹل" رویہ نہیں اپنایا گیا۔ یہاں تک کہ شاید کوئی بڑا میگزین اس پر ایک تفصیلی مضمون لکھ دے گا کہ "نوجوان ماؤں کی زندگی پر اس حمل کے اثرات" اور ان کا "سماجی مستقبل" کیا ہوگا۔
لیکن اگر یہی تیرہ سال کی بچی کسی مسلمان ملک میں نکاح کے بعد رشتہ ازدواج میں بندھ جائے، تو مغربی میڈیا اور اس کے پاکستانی چمچے چیخ و پکار شروع کر دیں گے:
"یہ ظلم ہے!"
"یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے!"
"یہ بچی کا بچپن چھیننے کے مترادف ہے!"
"یہ پدرشاہی کی جیت اور خواتین کے حقوق کی شکست ہے!"
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر 13 سال کی بچی شادی نہیں کر سکتی، تو وہ ماں کیسے بن سکتی ہے؟ اگر وہ شادی کے لیے "کم عمر" ہے، تو پھر زنا کے لیے عمر کی کوئی حد کیوں نہیں؟ اگر وہ شادی کے بعد کسی ذمہ دار شوہر کے سہارے زندگی گزارنے کے قابل نہیں، تو بغیر باپ کے ناجائز بچے کو پالنے کے قابل کیسے ہے؟
یہ وہ منافقت ہے جو ہمارے معاشروں میں رائج کی جا رہی ہے، اور حیرت انگیز طور پر ہمارے کچھ دیسی لبرل بھی اسے آنکھیں بند کرکے قبول کر رہے ہیں۔
مغرب میں "آزادی" کا تصور درحقیقت محض ایک فریب ہے۔ یہاں ہر قسم کی جنسی بے راہ روی کو "پرسنل چوائس" کہہ کر قبول کر لیا جاتا ہے، مگر جب کوئی مذہبی اصول کے تحت کوئی کام کرے، تو اسے ظلم اور جبر کہہ دیا جاتا ہے۔
مثلاً، اگر ایک 15 سالہ لڑکی اپنے "بوائے فرینڈ" کے ساتھ رہنا شروع کر دے، تو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ لیکن اگر وہ کسی اسلامی نکاح کے بندھن میں بندھ جائے، تو فوراً "چائلڈ میریج" کے خلاف قانون سازی کی باتیں شروع ہو جائیں گی۔ اگر کوئی نوجوان جوڑا بغیر شادی کے ساتھ رہے، تو مغربی معاشرہ اسے "کپل گولز" قرار دیتا ہے، مگر اگر کوئی مسلمان لڑکی اپنے والدین کی مرضی سے شادی کر لے، تو کہا جاتا ہے کہ "یہ ظلم ہے، اسے خود فیصلہ کرنے کا اختیار ہونا چاہیے تھا!"
یعنی، لڑکی کو "فیصلہ" صرف اسی صورت میں کرنے کی اجازت ہے جب وہ مغربی نظریات کے مطابق فیصلہ کرے۔ اگر وہ اسلام کے مطابق کوئی قدم اٹھائے، تو یہ "دماغی کنڈیشننگ" اور "دباؤ" کہلائے گا۔
ہمارے دیسی لبرلز کی مثال ان غلاموں کی سی ہے جو اپنے آقاؤں کی ہر بات پر سر جھکاتے ہیں۔ ان کے نزدیک ہر وہ چیز جو مغرب میں ہوتی ہے، وہ ترقی ہے، اور ہر وہ چیز جو اسلام میں ہے، وہ دقیانوسیت۔
یہ وہی لوگ ہیں جو حقوقِ نسواں کے نام پر "فریڈم آف چوائس" کے گیت گاتے ہیں، مگر جب کوئی لڑکی اپنی مرضی سے اسلامی لباس پہننے کا فیصلہ کرے، تو فوراً کہتے ہیں کہ "یہ دقیانوسی سوچ ہے!" یعنی، "آزادی" صرف وہی ہے جو مغرب میں دی جا رہی ہو، باقی سب غلامی ہے۔
یہی دیسی لبرلز آج مغرب کے سیکس ایجوکیشن نصاب کی حمایت کرتے ہیں، جس میں چھوٹے بچوں کو LGBTQ اور "آزاد جنسی زندگی" کی تعلیم دی جاتی ہے، مگر جب کوئی مدرسہ یا دینی ادارہ بچوں کو اسلامی تعلیم دے، تو یہ فوراً اسے "انتہا پسندی" قرار دیتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کب تک ہم مغرب کی اس منافقت کو دیکھ کر خاموش رہیں گے؟ کب تک ہم ان دوہرے معیارات کو نظر انداز کریں گے؟ کب تک ہمارے دیسی لبرلز مغرب کی غلامی کرتے رہیں گے؟
اگر 13 سال کی بچی کی شادی قابلِ اعتراض ہے، تو 13 سال کی بچی کا زنا بھی قابل اعتراض ہونا چاہیے۔
اگر خواتین کے حقوق کے نام پر انہیں اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کا حق دیا جاتا ہے، تو انہیں اسلامی نکاح کرنے کا بھی پورا حق ہونا چاہیے۔
اگر ہم "آزادی" کے حامی ہیں، تو یہ آزادی صرف بے راہ روی تک محدود نہیں ہونی چاہیے، بلکہ ہر انسان کو اپنے مذہب، عقیدے، اور روایات کے مطابق زندگی گزارنے کا بھی پورا اختیار ہونا چاہیے۔
یہ وقت ہے کہ ہم اس منافقت کو بے نقاب کریں۔ مغربی معاشرے کے دوغلے معیار صرف ان کے لیے نہیں، بلکہ ہمارے معاشروں کے لیے بھی خطرناک ہیں۔ ہمیں اپنے اسلامی اصولوں اور روایات پر فخر کرنا چاہیے، نہ کہ مغرب کی اندھی تقلید میں اپنے ہی مذہب، تہذیب اور ثقافت کو کمتر ثابت کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
دیسی لبرلز کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اگر آج وہ مغربی غلامی کے نشے میں مست ہو کر اپنی روایات کا مذاق اڑا رہے ہیں، تو کل یہی مغرب ان کے لیے نئے قوانین بنائے گا، جہاں ان کے پاس نہ اپنی شناخت ہوگی، نہ آزادی۔
اور پھر یہ وہی دیسی لبرلز ہوں گے جو آنسو بہا کر کہیں گے: "ہم کہاں کھڑے ہیں؟"

No comments:

Post a Comment

Total Pageviews

111,926