June 09, 2023

Govt. of Pakistan Traying to Fix Imran Khan as Zulfiqar Ali Bhutto

 
ایک اور بھٹو نہیں چاہیے

نواب محمد احمد خان قصوری پیپلزپارٹی کا ایک انقلابی ایم این اے تھا جو بھٹو کے انقلابی منشور سے متاثر ہو کر اس کے ساتھ شامل ہوا۔ لیکن ایسے لوگ جلد ہی مایوس ہوجاتے ہیں اور قصوری کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اس کے جلد ہی بھٹو کے ساتھ اختلافات ہوگئے اور وہ غالباً اسمبلی کا واحد ایم این اے تھا جس نے 73 کے آئین کے مجوزے پر دستخط سے انکار کردیا تھا۔ قصوری پیپلزپارٹی کا وہ واحد رکن اسمبلی تھا جو اسمبلی میں کھڑا ہو کر بھٹو کی پالیسیوں پر تنقید کیا کرتا تھا۔ بھٹو نے اسے ان ڈائریکٹ طریقے سے وارننگ دی، پنجاب کے وزیراعلی معراج خالد کے زریعے اسے سمجھانے کی بھی کوشش کی لیکن وہ باز نہ آیا۔
پھر 1974 میں ایک رات وہ اپنے نوجوان بیٹے احمد رضا قصوری کے ساتھ رات کو ایک شادی کی تقریب سے واپس آرہا تھا کہ شادمان گول چکر کے قریب دو گاڑیوں مین سوار لوگوں نے اس پر گولیاں برسا دیں۔ اس کے بیٹے نے گاڑی چلا کر اسے ہسپتال لے جانے کی کوشش کی لیکن وہ جانبر نہ ہوسکا۔
نواب قصوری کا بیٹا احمد رضا قصوری وہاں سے سیدھا وقوعے کے علاقے پہنچا اور اچھرہ تھانہ میں اپنے باپ کے قتل کی ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست کی۔ جب تھانیدار نے اس سے ملزم کو نامزد کرنے کو کہا تو احمد رضا قصوری نے وزیراعظم بھٹو کا نام لے دیا۔ تھانیدار کی ٹانگیں کانپن لگیں اور اس نے فوراً اپنے افسر سے رابطہ کرکے مشورہ مانگا۔ افسر نے آئی جی پولیس کو کال کی، آئی جی نے گورنرپنجاب مصطفی کھر سے رابطہ کیا اور کھر نے سیدھے وزیراعظم بھٹو کو کال ملا کر مشورہ مانگا۔ بھٹو اس وقت اقتدار کی مضبوط کشتی میں سوار تھا، نواب قصوری کے قتل کے سیاسی اثرات زائل کرنے کی خاطر اور کچھ اوور کانفیڈنٹ ہونے کی وجہ سے اس نے طنزیہ ہنسی ہنستے ہوئے کھر سے کہا کہ اسے میرے خلاف ایف آئی آر کاٹنے دو، اس سے معاملہ جلد ٹھنڈا ہوجائے گا اور قصوری خاندان زیادہ شور بھی نہیں مچا پائے گا۔
تھوڑی دیر بعد تھانیدار کو گرین سگنل مل گیا اور اس نے وزیراعظم بھٹو کے خلاف ایف آئی آر کاٹ دی۔ اس کے 3 سال بعد جنرل ضیا نے بھٹو کا تختہ الٹ کو اقتدار سنبھال لیا لیکن مصیبت یہ آن پڑی کہ بھٹو کے خلاف کرپشن یا بے قاعدگی کا کوئی ثبوت موجود نہ تھا، بھٹو نے نہ تو کبھی پلاٹس کی سیاست کی اور نہ ہی اپنے لئے قرضے معاف کروائے اور نہ کبھی کوئی آفشور کمنی بنا کر منی لانڈرنگ کی۔
آجا کے جنرل ضیا کے پاس اچھرہ تھانے کی وہ ایف آئی آر ہی ہاتھ آئی، جو کہ داخل دفتر ہوچکی تھی۔ اس ایف آئی آر کو صاف کرکے دوبارہ نکالا گیا اور پھر یہ ایف آئی آر بھٹو کو پھانسی کے تختے تک لے گئی۔
آج پھر سے وہی کھیل جاری ہے ۔ عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد ان پہ ڈیڑھ سو سے زائد مقدمات درج ہو چکے ہیں لیکن کہیں بھی ان کے خلاف کرپشن ، اختیارات کا ناجائز استعمال یا کوئی ہیرا پھیری نہیں پائی گئی۔ ایک سال کی مسلسل کوششوں کے باجود عمران خان جیسے صادق و امین لیڈر کے خلاف کچھ بھی نہیں نکلا ۔ سیاسی مقدمات میں پیشیاں تو جاری ہیں لیکن کوئی ایک بھی ایسا کیس نہیں بنایا جا سکے جسکے تحت عمران خان کو اندر رکھا جا سکے۔ تھک ہار کر اسٹبلشمنٹ نے وہی کھیل رچا ہے جو بھٹو کے خلاف رچا گیا تھا ۔ عمران خان کے خلاف پوری زندگی میں کوئی مقدمہ درج نہیں تھا لہذا اس بار گیم پلان خود تیار کیا گیا۔ کوئٹہ کے ایک وکیل عبدالرزاق شر نے ان کے حکم پہ بلوچستان ہائیکورٹ میں عمران خان کے خلاف سنگین غداری کے مقدمے کی پٹیشن دائر کی جس کی دو سماعتیں ہو چکی ہیں ۔ پلان کے تحت اس وکیل کو ایئرپورٹ روڈ پہ قتل کر دیا گیا۔ پھر نام نہاد وزیر اعظم کے معاون خصوصی عطاء تارڑ نے پریس کانفرنس کی اور فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان کو قاتل قرار دیا اور عمران خان کے خلاف اس قتل کا مقدمہ درج کرنے کا کہا ۔ اس کے بعد اس وکیل کے بیٹے نے عمران خان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کروا دیا۔ جس عدالتی سسٹم میں شہید ارشد شریف کی والدہ اور عمران خان کو اپنے اوپر ہوئے قاتلانہ حملے میں میجر جنرل فیصل نصیر کو نامزد کر کے مقدمہ درج کرنے کی اجازت نہیں ، وہی سسٹم ایک شہری کو سابق وزیر اعظم کے خلاف بغیر کسی ثبوت کے مقدمہ درج کرنے کی سہولت دیتا ہے۔ یہ انتہائی گھسا پٹا سکرپٹ ہے جس کے تحت عمران خان کو عمر قید یا سزائے موت کی جانب دھکیلنے کا بندوبست کیا گیا ہے۔ اسٹبلشمنٹ آج بھی انھی پرانے ہتھکنڈوں سے مقبول لیڈروں کی گردن میں شکنجہ کسنے میں لگی ہے لیکن اس عرصہ میں بڑی تبدیلیاں وقوع پذیر ہو چکی ہیں۔ سوشل میڈیا اور اوورسیز پاکستانیوں کے ذریعے اس ناپاک منصوبے کو بھی ان کی بدترین ناکامی کی جانب دھکیلنا ہو گا ۔ یہ اپنی جاہلیت کے تحت ایسے سنگین اقدامات کی جانب بڑھ رہے ہیں!!! بقلم خود بابا کوڈا

 

No comments:

Post a Comment

Total Pageviews