August 03, 2023

انسانیت اور اخلاقیات ہر مذہب کی بنیادی تعلیم ہے۔ HUMANITY

تحریر: مہد ی بخاری

Syed Mehdi Bukhari

میرا بچپن بھی ویسا ہی گزرا جیسے آپ میں سے اکثر کا گزرا ہو گا۔ گھر میں عبادات کی سخت تلقین اور محلے کی مسجد میں قاری صاحب سے قرآن پاک پڑھنے کو روز شام چار بجے جانا۔ قاری صاحب قرآن کو رٹا لگواتے اور باقاعدہ سُنتے اور تلفظ غلط ہونے پر ایسی ایسی سزا دیتے کہ ڈر کے مارے یاد ہوا سبق بھی بھول جاتا۔ یکدم بھاری ہاتھ منہ پر پڑتا۔پھر اس تشدد سے تنگ آ کر ابا نے مسجد بدلوا دی۔   

محلے کی مسجد سے دور دوسرے محلے کی مسجد جانا شروع ہوا۔ وہاں قاری صاحب بہت بزرگ انسان تھے یعنی بوڑھے تھے۔ وہ بہت نرم انسان تھے۔ ہاں جھڑکتے ضرور تھے مگر شاذ و ناذر ہی مارتے تھے۔ اور جب مارتے تھے تو زیادہ سے زیادہ کمر پر جھانپڑ رسید کرتے تھے۔ البتہ مسجد کے صحن کی صفائی جھاڑو سے باقاعدگی سے کرواتے۔ ان دنوں پی ٹی وی پر بچوں کا ڈرامہ “عینک والا جن” نشر ہوا کرتا اور وہ بھی عین ساڑھے چار بجے۔ اس ڈرامے کے سبب کئی بار بہانہ کر کے چھُٹی مار لیتا۔ اماں ابا سے ڈانٹ تو پڑتی مگر قاری صاحب سے ڈانٹ کا ڈر نہیں ہوتا تھا۔ انہوں نے اگلے روز بس پوچھنا ہوتا تھا کہ کیوں نہیں آئے ؟ اور کوئی بھی بہانہ چل جایا کرتا تھا۔

شاید آج بھی یہ رواج ہو، ان دنوں رواج یہ تھا کہ بچہ جیسے ہی قرآن مجید ختم کرتا قاری صاحب کو ایک عدد سوٹ بمعہ مٹھائی بھجوائی جاتی۔ میں نے دو بار ختم کیا اور پھر قاری صاحب انتقال کر گئے۔ ان کے انتقال کی خبر جس دن ملی میں اتنا رویا کہ دو دن تک عینک والا جن بھی نہیں دیکھا۔ بس اداسی طاری رہی۔

پھر مجھے نئے قاری صاحب کے پاس جانا پڑا جو انتقال کے بعد آئے تھے۔ یہ قاری صاحب تھوڑے متشدد خیالات کے تھے حالانکہ مجھے اتنا شعور تو نہیں تھا مگر یہ سُن کر بُرا لگتا جب وہ درس دینے بیٹھ جاتے اور کبھی کسی فرقے کا نام لے کر ان کے اعمال کو شرک قرار دیتے تو کبھی کسی کی کلاس لگ جایا کرتی۔ وہ بچوں کے ذہن میں باتوں باتوں میں نفرت بھرتے رہے۔ اللہ کا کرنا یہ ہُوا کہ وہ زیادہ عرصہ نہ چل سکے اور نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر رخصت ہو گئے یا کر دئیے گئے۔

اس کے بعد میں محلے میں ایک خالہ کے ہاں ڈال دیا گیا جو گھر میں بچوں کو فی سبیل اللہ پڑھاتی تھیں۔ تیسری بار قرآن ان سے ختم کیا اور پھر گھریلو حالات کے سبب مجھے سب کچھ بھول کر سکول و گھر کو دیکھنا پڑا۔ بڑا ہوا تو جوانی کاوش روزگار کی نذر ہوتی گئی۔ عمر پچیس سال ہوئی تو ایک بار مجھے خود سے شوق ہوا کہ قرآن کو صرف ترجمے کے ساتھ پڑھوں۔ جیسے جیسے پڑھنا شروع کیا مجھے معلوم ہوا کہ تمام الہامی مذاہب کی بنیاد وہی بنیادی اخلاقیات ہیں جو قرآن بھی تعلیم کر رہا ہے۔ بچپن میں تو رٹا تھا۔ جوانی میں شعور تھا۔ میں نے اپنے ہاتھوں سے اس دور میں کچھ نوٹس بنائے تھے جو وقت کے ساتھ ضائع ہو گئے۔

میں کبھی بھی مذہبی آدمی نہیں رہا۔ مجھے یہ اقرار کرنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ میں نے عبادات یعنی نماز و روزہ میں بہت کوتاہی برتی ہے۔ نہ میرا مذہبی ہونے کا دعویٰ ہے اور نہ ہی میں نے اپنی امیج بلڈنگ کے واسطے مذہب کا لبادہ اوڑھا ہے۔ ایک دور ایسا بھی گزرا ہے جب میں مذہبی رجحانات سے یکسر باغی رہا ہوں اور مذہب کو ایک سائیڈ پر رکھ چھوڑا مگر کچھ باتیں ہمیشہ سے میرے ذہن میں رہی اور ان باتوں پر اس واسطے عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتا رہا کہ یہ بنی نوع انسان کے تمام مذاہب میں کم و بیش متفرق ہیں اور یہ بنیادی انسانی اخلاقیات ہیں۔ ان اصولوں کو توڑنا یا ان سے صرفِ نظر برتنا انسانیت کی توہین ہے۔ جانور اور انسان میں جو فرق ہے وہ انہی اصولوں کی بدولت ہے۔

زمانہ جیسے جیسے آگے بڑھ رہا ہے تمام مذاہب اس کی لپیٹ میں ہیں اور انسان مذاہب کی تعلیمات سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ انسان ترقی کر رہا ہے مگر انسانیت ترقی نہیں کر رہی۔ یہ کچھ نقاط قرآن حکیم سے پیش ہیں۔ مدعا میرا اتنا ہے کہ آپ جو چاہیں کریں کہ مذہب انسان کا انفرادی معاملہ ہے اور ہر انسان اپنے خدا کو خود جوابدہ ہے مگر ہو سکے تو ان نقاط کو ذہن میں رکھیں تاکہ زندگی انسانوں کی مانند بسر ہو سکے۔ان قرآنی احکامات کے کسی کو حوالے (آیات) چاہئے ہوں تو پوچھ سکتا ہے۔


۔گفتگو کے دوران بدتمیزی نہ کیا کرو

۔غصے کو قابو میں رکھو

۔دوسروں کے ساتھ بھلائی کرو

۔ تکبر نہ کرو

۔دوسروں کی غلطیاں معاف کر دیا کرو

۔لوگوں کے ساتھ آہستہ بولا کرو

۔اپنی آواز نیچی رکھا کرو

۔ والدین کی خدمت کیا کرو

۔والدین کی اجازت کے بغیر ان کے کمرے میں داخل نہ ہوا کرو

۔لین دین کا حساب لکھ لیا کرو

۔کسی کی اندھا دھند تقلید نہ کرو

۔اگر مقروض مشکل وقت سے گزر رہا ہو تو اسے ادائیگی کے لیے مزید وقت دے دیا کرو

۔سود نہ کھاؤ

۔رشوت نہ لو

۔وعدہ نہ توڑو

۔دوسروں پر اعتماد کیا کرو

۔سچ میں جھوٹ نہ ملایاکرو

۔انصاف کے لیے مضبوطی سے کھڑے ہو جایا کرو

۔مرنے والوں کی دولت خاندان کے تمام ارکان میں تقسیم کیاکرو

۔یتیموں کی جائیداد پر قبضہ نہ کرو

۔یتیموں کی حفاظت کرو

۔دوسروں کا مال بلا ضرورت خرچ نہ کرو

۔لوگوں کے درمیان صلح کراؤ

۔بدگمانی سے بچو

۔غیبت نہ کرو

۔جاسوسی نہ کرو

۔خیرات کیا کرو

۔غرباء کو کھانا کھلایا کرو

۔ضرورت مندوں کو تلاش کر کے ان کی مدد کرو

۔مہمانوں کی عزت کیا کرو

۔نیکی پہلے خود کرو اور پھر دوسروں کو تلقین کرو

۔صرف ان کے ساتھ لڑو جو تمہارے ساتھ لڑیں

۔کسی پر اس کی ہمت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو

۔کائنات کی تخلیق اور عجائب کے بارے میں گہرائی سے غور کرو

۔ اگر تم قدرت رکھتے ہو تو زمین و آسمان کو مسخر کر لو

۔ زمین پر پھرو تاکہ تم قدرت ملاحظہ کر پاؤ اور اس میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں

۔ بخیل نہ بنو

۔حسد نہ کرو

۔ قتل نہ کرو

۔فریب (فریبی) کی وکالت نہ کرو

۔گناہ اور زیادتی میں دوسروں کے ساتھ تعاون نہ کرو

۔اکثریت سچ کی کسوٹی نہیں

۔ چغلی نہ کھاؤ

۔جس چیز کے بارے میں علم نہ ہو اس پر گفتگو نہ کرو

۔کسی کی ٹوہ میں نہ رہا کرو

۔اجازت کے بغیر دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہو

۔زمین پر عاجزی کے ساتھ چلو

۔ہم جنس پرستی میں نہ پڑو

۔فیصلے مشاورت کے ساتھ کیا کرو

۔اسلام میں ترک دنیا نہیں ہے

۔غیر مسلموں کے ساتھ مہربانی اور اخلاق کے ساتھ پیش آؤ

۔لالچ سے بچو

۔جو دستِ سوال دراز کرے اسے نہ جھڑکو بلکہ حسب توفیق کچھ دے دو

 

 

July 21, 2023

POWER OF DUA دعا کی طاقت ، نابینا کو بینائی مل گئی

 
اما م بخاری پیدا ہوئے تو نابینا تھے"

میں چونکی اورسیدھی ہو کر بیٹھ گئی،کیوں کہ میرے ایک بیٹے کی آنکھوں میں بھی ایک بڑا مسئلہ تھا جو کسی ڈاکٹر سے حل نہیں ہو رہا تھا ۔
”آپ جانتے ہیں کہ امام بخاری کون تھے؟“
”ہونہہ،ہو گئیں مولویانہ باتیں شروع ،انہی گھسی پٹی باتوں کو سنانے کے لیے یہ زینت مجھے یہاں گھسیٹ لائی ہے، پتا بھی ہے کہ میں ان مولویوں کی باتوں پر یقین نہیں کرتی مگر خود بھی ملانی بن رہی ہے اور میرا بھی ٹائم خراب کررہی ہے۔ “
میں نے قریب بیٹھی زینت کوغصے سے گھور تے ہوئے زیر لب کہا، جو گردو پیش سے بے نیاز بیان میں منہمک تھی ۔
مولاناکا لہجہ نہایت نپا تلا تھا ، لیکن میرے ذہن میں مولویوں کی ایک مخصوص متعصبانہ تصویر بنی ہوئی تھی جس کی وجہ سے میں ان کی کسی بات سے متاثر نہیں ہو سکتی تھی۔
”امام بخاری حدیث کے وہ استاد ہیں کہ جن کی کتاب ”بخاری شریف “ پڑھے اور سیکھے بغیر کوئی عالم نہیں بن سکتا.... “
”اچھا اتنی بڑی کتاب ہے بخاری شریف ! ہمیں توالہدیٰ کے کورس میں اس کتاب کا تھوڑا سا تعارف کروایا گیا تھا کہ اچھی کتاب ہے، اس کامطالعہ کرتے رہنا چاہیے....اچھا اس کا مطلب ہے کہ یہ مولانا بھی بخاری شریف پڑھے ہوئے ہیں۔“میں نے خود کلامی چھوڑی اور بیان سننے میں مگن ہو گئی۔
”امام بخاری پیدائشی نابینا تھے، یعنی انہیں آنکھوں سے نظر نہیں آتا تھا۔ ان کی ماں کو اس کا بے حد غم تھا، وہ بہت روتی تھیں، لیکن ہماری طرح عاملوں کے پاس نہیں بھاگی پھرتی تھیں، بلکہ سبب کے درجے میں انہوں نے اس وقت کے سارے رائج علاج بھی کروائے جو ناکام ہو گئے اوراس فاعل حقیقی اور مسبب الاسباب کے سامنے روتی بھی رہیں، گڑگڑاتی رہیں.... “
”ان مولویوں کو دیکھو ،جس کو چاہیں رلا دیں.... “ میں نے سر ہلایا۔
”دو برس کے بعد ان کی والدہ کو خواب آیا....“
”خواب گھڑنا تو کوئی ان سے سیکھے !“ سوال جواب ختم ہی نہیں ہو رہے تھے۔ میں نے سر جھٹکا اور تعو ذ پڑھنے کی کوشش کی۔
”خواب میں انہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زیار ت ہوئی، ان کی ماں کو مخاطب کر کے خلیل اللہ نے فرمایا :
”قد رد اللہ بصر ولد ک....“
”اللہ نے تیرے بیٹے کی بصارت واپس لوٹا دی۔“
مولانا کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگئے۔ چاروں طرف سے سبحان اللہ سبحان اللہ کی صدائیں آنے لگیں۔ میرے دل پر ایک چوٹ سی لگی۔ گود میں سوئے ہوئے چار سالہ احمد کے معصوم چہرے پر نظر پڑی اور اسی لمحے میرے منطقی دل کی ساری منطق گویا بھاپ بن کر اڑ گئی۔ میرا ممتا بھرا دل بے اختیار بھر آیا اور پھر دل سے آواز ابھری۔
”تم اس کی آنکھیں اپنے اللہ سے واپس لے سکتی ہو ؟“
اس جملے کی گونج اتنی تھی کہ میں بیان سننا بھول گئی۔ پتا نہیں مولانا نے اور کیا کچھ کہا ، مگر میری نظریں اپنے احمد کے معصوم سے چہرے پر جم کر رہ گئی تھیں۔
20مئی 2007ء کو احمد پیدا ہوا تھا۔ سارے خاندان میں خوشیاں منائی گئیں تھیں۔ ڈھول دھمکے نے پورے علاقے کو سر پر اٹھا لیا تھا۔ پورے علاقے میں ہم نے مٹھائیاں تقسیم کی تھیں، لیکن جب احمد تھوڑاسا بڑا ہوا تو انکشاف ہوا کہ احمدکی خوبصورت آنکھیں بینائی سے محروم ہیں ۔ ہم نے آغا خان میں پاکستان کے سب کے بڑے آئی اسپیشلسٹ ڈاکٹر اعظم علی کو دکھایا ۔
”ڈاکٹر اعظم علی کا رزلٹ سو فیصد ہے ....ان کے علاج سے ضرورآرام آجائے گا ۔ “میرے ساتھ ویٹنگ روم میں بیٹھی ایک عورت نے بتایا ۔
”اچھا....!! “میں صرف اتنا ہی کہہ سکی، کیوں کہ میرے ضبط کے بندھن ٹوٹنے لگے تھے۔
”باجی! رو مت ، اللہ خیر کرے گا۔“
”اللہ تو خیر ہی کرتا ہے ،لیکن میرے بیٹے کی بینائی معلوم نہیں کون سی خیر میں چلی گئی!“میں نے شکوہ کیا۔
”باجی! اللہ سے شکوہ نہیں کرتے ہوتے۔ “
”احمد علی.... “ نرس نے چیکنگ کے لیے پکارا تومیں احمد کو لے کر اندر چلی گئی۔اسے دوا پلا کر بے ہوش کیاگیا اور تقریبا ً دو گھنٹے چیک اپ ہوتارہا۔ دو گھنٹہ بعد ڈاکٹراعظم ہماری طرف آئے۔
” مجھے شدید افسوس ہے ،آپ کے بچے کی آنکھ کاپردہ پیدائشی طور پر بے جان ہے۔ “
یہ الفاظ تھے یا ایٹم بم تھا ۔میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور میں گر کر بے ہوش ہوگئی۔ مجھے نرسوں نے سنبھال کر بیڈ پر لٹا دیا۔
”سر !ہو سکتا ہے کہ....کہ آپ سے چیک اپ میں کوئی مسئلہ ہو گیا ہو!“یہ میرے شوہر کی آواز تھی۔
” بھائی! میں نے پندرہ برس آنکھ کے پردے پر کام کیا ہے، مجھے اتنا بھی نہیں معلوم ہو گا کہ پردہ زندہ ہے یا مردہ!؟ “ ڈاکٹر صاحب نے مشفقانہ لہجے میں کہا۔
”یعنی ....یعنی اب کچھ نہیں ہو سکتا؟“میرے شوہر نے کہا۔ان کی آواز بھی آنسوو ں سے بوجھل تھی۔
”آپ ایک سال بعد دکھائیں،یہ تھوڑا بڑا ہو گا تو پھر مزید دیکھیں گے ،مجھ سے جو ہو سکے گا ضرو ر کروں گا۔“ ڈاکٹراعظم یہ کہہ کر چلے گئے۔صاف لگ رہا تھا کہ انہوں نے طفل تسلی دی ہے۔ مجھے میرے شوہر وہیل چیئر پر ڈال کر گاڑی تک لائے۔ اس کے بعدبھی ہم نے بہت سے چھوٹے بڑے ڈاکٹروں کو دکھایا۔ ڈاکٹر ام محمد صاحبہ کو بھی دکھایا ۔ انہوں نے آبِ زمزم ڈالنے کا کہا ، مگر ایک برس ہو گیا، کچھ نہیں ہوا ۔
٭
” ہاں ....ہاں میں اس کی آنکھیں اپنے اللہ سے مانگوں گی....“
”کیا ہو گیا کومل ؟ کس سے باتیں کر رہی ہو؟ “
شوہر کی آواز سے میں چونکی۔مجھے پتہ ہی نہ چلا تھا کہ میں گاڑی میں خود سے باتیں کرنے لگی تھی۔
”کک ....کچھ نہیں۔“
”نہیں بھئی کچھ تو ہے! “شوہر نے اصرار کیا
”وہ دراصل زینت مجھے اپنے ساتھ ایک بیان میں لے گئی تھی۔“میں نے شوہر کو اصل بات بتانا شروع کر دیا۔
”تم اور بیان ....کس ملا کے بیان میں چلی گئی تھیں؟“انہوں نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
”پتا نہیں کون تھے؟“
”یہ ملاو ¿ں کے چکر میں مت پڑ و....“ میرے شوہر نے گاڑی کی رفتار بڑھاتے ہوئے کہا۔
”کوئی پاگل ہی اُن کے چکروں میں آئے گا....لیکن ایک کام کی بات انہوںنے بتائی ہے ....میرا اس پر عمل کا ارادہ ہے۔“ میں نے پرعزم لہجے میں کہا۔
”کیا بات کہہ دی ،جوتم جیسی ڈھیٹ کے دل میں اتر گئی۔“
”کوئی خاص نہیں بس ایک واقعہ سنایا تھا....“پھر میںنے امام بخاری والا واقعہ انہیں سنا دیا۔
وہ بھی باپ تھے۔ جب احمد کے حوالے سے انہوں نے یہ واقعہ سنا تو کچھ دیر خاموش رہے مگر اپنی عادت کے مطابق بولے:
”اپنا منہ دھو کے دعا مانگنا،وہ کوئی اور لوگ تھے جن کی اللہ سنتا تھا۔“
٭
اس کے بعد میری زندگی بالکل بدل گئی ۔ اپنے بچے کے لیے ، اس کی بینائی کی خیرات مانگنے کے لیے میں کس کس طرح نہ اپنے ربّ کے سامنے گڑ گڑائی۔ رات رات بھر تڑپی۔میں جو اپنی مخصوص تربیت و ماحول کی وجہ سے علماءکرام کا مذاق اڑایا کرتی تھی، ان کی کسی بات پر یقین کرنا تو دور کی بات تھی، مگر اس کے باوجود امام بخاری کا یہ واقعہ اس دن گویا میرے دل کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر گیا تھا۔ مجھے کامل یقین ہو گیا تھا کہ میں بھی امام بخاری کی والدہ کی طرح رو رو کر اللہ سے مانگوں گی تو ضرور میرے بچے کو روشنی ملے گی۔ میں روتی رہی، گڑگڑاتی رہی، یوں چھ ماہ گزر گئے ۔
اور.... پھر ایک دن بیٹھے بیٹھے اچانک میرے اندر ایک ابال سا اٹھااور پھر مجھ سے بیٹھا نہیں گیا۔ میں نے ہسپتال فون کر کے ایمرجنسی میں اپوائنٹ منٹ لیا اور پھر شوہر کو فون کیا۔
”سنیںجلدی سے گھر آ جائیں، ڈاکٹر کے پاس چلنا ہے.... “
”کس ڈاکٹر کے پاس؟“انہوںنے حیرت سے کہا۔
” ڈاکٹراعظم علی کے پاس اور کس کے پاس!“
”یہ اچانک کیا ہو گیا بیٹھے بٹھائے تمہیں؟ “
”چھوڑیں سب باتیں،بس ابھی گھرپہنچیں .... جلدی کریں ناںںں.... “شدت جذبات سے میری آواز بلند ہو گئی تھی۔ میرے اندر کی ممتا نے ایک جنون کی شکل اختیار کر لی تھی اور مجھے اپنے آپ پر کنٹرول نہیں رہا تھا۔
”ارے پاگل ہو گئی ہو کیا ،کوئی اپوائنٹ منٹ تو لیا نہیں، ایسے کیسے چلے جائیں؟“
اس بار انہوں نے نہایت نرمی سے مجھے سمجھانا چاہا۔ شاید وہ میری کیفیت بھانپ گئے تھے۔
”میں نے فون پر بات کر لی ہے کہ ہم آ رہے ہیں۔ ایمرجنسی میںدکھا نا ہے ۔ آپ آجائیں بس....“
یہ کہہ کر میں نے فون کاٹ دیا۔ میںنے جلدی سے احمد کو تیار کیا، عبایا اوڑھی اور زندگی میں پہلی مرتبہ نقاب لگایا۔ٹھیک بیس منٹ بعد گاڑی کے ہارن کی آواز سنائی دی۔میںنے احمد کوبے بی کاٹ میں لٹایا اور گیٹ سے باہر نکل گئی۔ مجھے دیکھ کر وہ حیرت سے گنگ ہو گئے۔تھوڑی دیر کے بعد بولے:
”تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے کیا؟ “
”ہاں.... “میں نے قدرے نارمل انداز میں مختصر جواب دیا۔ اب اندرونی ابال قدرے دب گیا تھا۔
”او حجن صا حبہ! یہ آج سورج کہاں سے نکلا ہے؟ “
میں چپ رہی۔ سارے راستے شوہر پوچھتے رہے کہ یہ بیٹھے بٹھائے تمہیں ہسپتال جانے کی کیا سوجھی مگر میں نے کچھ نہ بتایا اور بتاتی بھی کیا،بتانے کے لیے کچھ تھا ہی نہیں ۔میں خود اپنی کیفیت پر حیران تھی ۔ بس ایک انجانی سی قوت تھی جو مجھ سے یہ سب کام کروا رہی تھی۔
جیسے جیسے ہسپتال قریب آ رہا تھا، میری بے چینی پھر سے بڑھ رہی تھی۔
٭
”حیرت انگیز ،ناممکن ....امپاسیبل....“ ڈاکٹر صاحب کے لہجے میں حیرت گویا کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔
”کک....کیاہوگیاڈاکٹرصاحب؟ “میرے شوہر گڑبڑا گئے۔
”آپ کے بیٹے کی آنکھ کا پردہ سو فیصد زندہ ہو گیا ہے ،میری پوری زندگی کا یہ پہلا کیس ہے ....ایسا کبھی نہیں ہوا....آپ کو بہت بہت مبارک ہو، اللہ کا شکر ادا کریں، اللہ تعالیٰ نے آپ کے بیٹے کی آنکھوں کو روشنی دے دی ہے۔“
ڈاکٹر اعظم خوشی سے چہک رہے تھے۔ شاید اپنے نزدیک ایک ناممکن کو ممکن ہوتے دیکھ کر وہ بھی جذباتی ہو گئے تھے.... اور .... اور قاریات! ایک ماں کی ایسے وقت میں خوشی کی انتہاکو کون سمجھ سکتا ہے؟ شاید وہ ماں ہی سمجھ سکے، جس کا بچہ چارسال تک معذوری کی زندگی گزار کر اچانک صحت مند ہو جائے ۔میرے شوہرخوشی سے بے اختیار رونے لگے اور میرے تو خوشی سے حواس ہی مختل ہونے لگے۔ میری ہچکیاں بندھ گئیں۔ دنیا کا کوئی پیمانہ ایسا نہیں تھا، جو اس وقت میری خوشی کو ناپ سکتا۔ میرے اللہ نے اپنی ایک نہایت گناہ گار بندی کی لاج رکھ لی تھی۔ میرا تھوڑا سا رونا اس نے قبول کر لیا تھا اور میرے احمد کو اندھیروں کی جگہ جگمگاتی روشنیاں عطا کر دی تھیں۔
مجھے اپنی ٹوٹی پھوٹی دعاو ں کا صلہ میں 6 جون2012ء کوہی مل گیا تھا۔ ہماری ساری امیدوں کا محور و مرکز ایک اللہ تعالیٰ کی ہی ذات ہے، وہ جو اپنے بندوں پر بے انتہا مہربان ہے، ستر ماو ¿ں سے بھی زیادہ! بس اس سے پورے یقین کے ساتھ مانگنے کی ضرورت ہے۔
نوٹ:( یہ بالکل سچا واقعہ ہے جو
ہفت روزہ خواتین کا اسلام سے لیا گیا ہے)

July 18, 2023

Beautiful Small English Novel


Charlie Wade was the live-in son-in-law that everyone despised, but his real identity as the heir of a prominent family remained a secret. He swore that one day, those who shunned him would kneel before him and beg for mercy, eventually. Decorative lights and illuminants lit up the extravagant Wilson family mansion. Tonight was the 70th birthday banquet of Lady Wilson, the head of the Wilson family. Her grandchildren and their spouses gathered around her to hand her their luxurious gifts. “Grandma, I heard that you love the Chinese tea. I looked high and low for this century-old Puer tea worth half a million dollars to present it to you.” “Grandma, you like jade. This jade is carved from the authentic Hetian jade, it is worth seven hundred thousand dollars…” Looking at the nicely wrapped gifts in front of her, Lady Wilson laughed heartily. The entire ambiance was harmonious and happy. Suddenly, Charlie Wade, Lady Wilson’s eldest grandson-in-law, spoke, “Grandma, could you lend me a million dollars, please? Mrs. Lewis from the welfare home is diagnosed with uremia and I need the money for her treatment…” The entire Wilson family gaped in extreme shock. Everyone stared at Charlie with bewilderment and surprise. This live-in grandson-in-law was overly atrocious and bold. Not only did he not prepare a gift for Lady Wilson on her birthday but he actually had the audacity to ask her for one million dollars. Three years ago, Lord Wilson, who was still alive and well, had come home with Charlie one day and insisted on marrying him to their granddaughter, Claire Wilson. Back then, Charlie was as poor and miserable as a beggar. Lord Wilson had passed away after they got married. Ever since then, everyone in the Wilson family tried to kick him out of the family. However, Charlie was always indifferent and nonchalant like a statue despite the insults and ridicule, and he spent his days in the Wilson family quietly as a live-in son-in-law. He was at his wits’ end that he had to borrow money from Lady Wilson today. Mrs. Lewis, who had taken him in and saved his life, had uremia. She needed at least one million dollars for dialysis and a kidney transplant. He had no other ideas except for asking for Lady Wilson’s help. He felt that since it was her birthday today, she might be delighted to have some mercy and provide her assistance. However, Lady Wilson was still laughing gleefully when abruptly her lips curled downwards and his eyes furrowed indignantly. She hurled the teacup in her hand to the floor and growled, “Are you here to celebrate my birthday or borrow money?” Claire hurried forward and said, “Grandma, Charlie is not thinking straight, please forgive him.” She then pulled her husband aside frantically. At this moment, Wendy, Claire’s cousin sneered in disdain. “Claire, look at the person you’re married to. Gerald is only my fiancé and we haven’t even gotten married yet but he gifted Grandma the jade. Look at your good-for-nothing husband. Not only did he come empty-handed but he also has the nerve to ask Grandma for money.” “You’re right. Charlie, we’re both the grandsons-in-law of the Wilson family but you’re such a disgrace.” The man who was talking was Gerald White, Wendy’s fiancé, who was also the son of the wealthy family in town. Although Gerald was about to marry Wendy, in his eyes, Claire was so much more beautiful and elegant than his fiancée. Claire Wilson was the famous goddess of beauty in Aurous Hill, but Gerald was very frustrated and irritated when such a beauty got married to a loser. “It’s best for this person to get out of the Wilson family now.” “Yes. He is such a disgrace to our family.” “Perhaps his intention is not to borrow money but to spoil the joyful ambiance of Grandma’s birthday instead.” Charlie clenched his fists tightly as the entire Wilson family was humiliating and ridiculing him. If it wasn’t for the sake of the urgency, he would have left this annoying place. However, his father’s words echoed in his head. He had taught him to be grateful for the help he received and to return the favor tenfold. Hence, he suppressed the fury and humiliation slowly building within him and said to Lady Wilson, “Grandma, whoever saves one life saves the world entirely. Please, I beg for your mercy.” Someone in the room snorted loudly. “Mr. Wade, stop force-feeding chicken soup to Grandma. If you want to rescue someone, you can find a way on your own. Who do you think you are to ask for money from Grandma?” It was Wendy’s brother, Harold Wilson. The sinister brother and sister had always been prejudiced against Claire, who was superior to them in every aspect. Hence, they would always attack Charlie at any chance they could seize. Claire, who was wearing a slightly awkward expression on his face, started, “Grandma, Charlie’s father died when he was eight. It was Mrs. Lewis at the welfare home who had brought him up. He is utterly grateful of her graciousness and that is why he wants to return the favor so badly. Could you please help him…” Lady Wilson growled with an indignant face, “You want me to help him? Okay, divorce him now and marry Mr. Jones. If you do as I say, I’ll give him one million dollars right away.” The Mr. Jones that Lady Wilson was referring to was Wendell Jones, a man who was always pursuing Claire despite her married status. The Jones family was one of the prominent families in the upper social circle in Aurous Hill, which was much more powerful than the Wilson family. Lady Wilson had always wanted to get on their good side. At this moment, the butler sprinted in and said, “Mr. Jones sent a birthday gift to Lady Wilson. It is a talisman carved from the jadeite stone worth three million dollars.” Lady Wilson broke into a large smile and quickly blurted, “Bring it to me. Let me see.” The butler immediately presented the emerald green talisman which sent waves of exclamation across the living hall. The emerald talisman was crystal clear with its vibrant and sharp colors, without any trace of impurities. It was of the finest jade quality. Gerald, who had gifted the talisman, gloomed in irritation instantly. He didn’t expect Wendell Jones, who had nothing to do with the Wilson family, to be so generous and lavish. Lady Wilson caressed the talisman cheerfully and said, “Oh, Mr. Jones is so sensible. It will be a sweet dream come true if he were my grandson-in-law.” Then, she lifted her gaze at Claire and asked, “So, how’s that? Do you want to consider my terms and conditions?” Claire shook her head decidedly. “No, Grandma. I will never divorce Charlie.” A dark stormy cloud instantly hovered beneath Lady Wilson’s eyes. She shouted angrily, “You... What good is that person? Why do you want to waste your time on him? Kick that person out of my house. He is not allowed at my birthday banquet. I don’t want to see his face.” Charlie heaved a sigh of dismay and regret. He didn’t want to stay with the Wilson family anymore, so he said to Claire, “Claire, I’m going to the hospital to visit Mrs. Lewis.” Claire said quickly, “I’ll go with you.” Lady Wilson shouted again, “If you leave now, you’re no longer my granddaughter. You can take your mom, your dad, and that person and get out of the Wilson family.” Claire stared at her grandmother, shocked. She did not expect to hear such a harsh comment from her. Charlie interjected, “You stay here, don’t worry about me.” Before Claire could compose herself from the trance, he turned and left. Harold laughed behind him. “Hey, my dear Charlie, if you leave with an empty stomach, will you go on the street and beg for food? If you do so, you’ll tarnish our family name. Here, I have a dollar, go buy a bun or something to eat.” Harold produced a one dollar from his pocket and threw it at Charlie’s foot. The entire family’s thunderous laughter echoed across the house. Charlie gritted his teeth in annoyance and left the house without looking back. * When Charlie arrived at the hospital, he immediately went to the cashier department to try to negotiate an extension of payment for another two days. However, when he approached the nurses, he was informed that overnight, Mrs. Lewis had been transferred to Fairview Hospital, Eastcliff’s top hospital, for treatment. Charlie gaped in shock and quickly asked, “How much does it cost? I’ll find a way to settle it.” The nurse said, “The bill is three million dollars in total. One million dollars has already been paid, the remaining two million needs to be settled without a week.” “Who covered the one million dollars?” The nurse shook his head. “I have no idea.” Charlie frowned in confusion. Just as he turned around to figure it out, a person was standing behind him. They exchanged glances, and the person bowed before him and said, “Young Master. We’ve finally found you. Sorry for all the troubles and misery you’ve suffered for all those years.” Charlie furrowed and asked coldly as if he was a completely different person. “Are you Stephen Thompson?” The person gaped in surprise. “Young Master, you still remember me.” Charlie startled slightly and murmured, “Of course I do. I remember each and every one of you. You forcibly drove my mom and dad out of Eastcliff along with me and fled the city. My parents died along the way and I became an orphan. What do you want from me now?” Stephen grimaced sorrowfully and said, “Young Master, Lord Wade was very sad when he learned about your father’s death. He never stopped looking for you. Come, let’s go home and meet him.” Charlie said coldly, “Just go, I don’t want to see him.” Stephen said, “Young Master, are you still mad at your grandfather?” “Of course.” Charlie said loudly. “I’ll never forgive him in my entire life.” Stephen sighed dejectedly. “Before I came here, the Master did say that you will not forgive him.” “Good. Luckily he still has some senses in him.” Stephen continued, “Lord Wade knows that you’ve had a hard life for so many years and he’s asking me to compensate you. If you don’t want to go home, he will buy the largest company in Aurous Hill and give it to you. Besides, here, take this card, the pin number is your birthday.” Stephen handed over the premium black card from Citibank. “Young Master, there are only five of such cards in the country.” Charlie shook his head sternly. “No, I don’t want it, take it away.” “Young Master, Mrs. Lewis is still two million dollars in debt for her medical bills. If she doesn’t pay up, she might be in danger…” “Are you threatening me? Is this part of your sinister plan?” Stephen waved his hands frantically. “Oh no. We wouldn’t dare do such a thing. Keep the card, then you’ll have enough money to pay the bill.” Charlie asked, “How much is in this card?” “Lord Wade said that he deposited some pocket money for you in this card. It’s not much, just ten billion dollars.” Ten billion dollars?. Charlie was shocked. His eyes wide open, his mouth wide agape. He knew that his grandfather was very wealthy, but back then, he was too young to understand the concept of money. He only knew that the Wade family was one of the wealthiest families in Eastcliff and even the country, but he wasn’t sure what his net worth was. Right now, he finally knew. If ten billion dollars were just pocket money, it meant that the entire Wade family had a net worth of more than one trillion dollars. Frankly speaking, at this moment, he was slightly touched and swayed. However, when he thought about his deceased parents and how his grandfather was part of the reasons why they had died, he knew he could never easily forgive him. Sensing his frustration, Stephen quickly said, “Young Master, you are one of the Wade family members, so the money is yours. Besides, technically speaking, it belongs to your father.” “The Master said that if you’re willing to go home, he will let you inherit the family’s one-trillion-dollar business empire. If you don’t want to go home yet, use this money for your living expenses.” “Oh yes, another piece of news—Aurous Hill’s largest and most profitable company, the Emgrand Group with a market value of one hundred billion dollars, had been wholly acquired by the Wade family yesterday. All the equities are now under your name, you can claim your right at the company tomorrow.” Charlie listened to him in a daze, completely in disbelief. Wasn’t it a little too much investment from the Wade family for his sake? A premium black card with a credit limit of ten billion dollars, Emgrand Group with the net worth of one hundred billion dollars. Although Aurous Hill was a land of talents, the only constant honorable existence was the Emgrand Group. It was the champ of Aurous Hill’s business industry. Any prominent and influential family had to bow before the Emgrand Group, including those families that humiliated him today—the Wilson family, the White family, and even the Jones family who was still trying to pursue his wife. They were nothing but lowly servants in front of Emgrand Group. And this magnificent company was his now? Stephen handed him a business card and said, “Young Master, you might need some time to calm down and think about it, so I’ll excuse myself now. This is my card with my number on it, please call me if you need anything.” At that, Stephen turned and left. Charlie was still in a daze after he left. He didn’t know whether he should accept the compensation from the Wade family. However, he recalled the past decade of misery and hardship and the humiliation he had experienced when he married Claire. This was the compensation that the Wade family was giving him for his suffering, so why shouldn’t he take it? Besides, Mrs. Lewis urgently needed two million dollars for her treatment. He gritted his teeth as he clutched on the card tightly, then turned back to the cashier department. “Hi, I would like to settle the bill.” The card was swiped, the password was keyed in, and the transaction was complete. Two million dollars was credited into the hospital’s account just like that. Charlie felt like he was still hovering in the clouds. Did he just become a billionaire in the blink of an eye? * He went home in a trance. At this moment, the house was fueled with the wrath of fury. Claire and her parents did not live in the Wilson family villa but they stayed in an ordinary house instead. Since Claire married Charlie and after Lord Wilson died, they were kicked out of the villa. His mother-in-law was screaming in great dismay, “If you don’t divorce Charlie Wade now, your grandma might kick you out of Wilson Group.” Claire said calmly, “If she does, I’ll just find another job.” “You…” Her mother growled angrily, “What’s so good about Charlie Wade, anyway? Why can’t you just divorce him and marry Wendell? If you marry Wendell Jones, our whole family can hold our head up high.” Her father added, “Your mom’s right. If you marry Wendell, our family will immediately become a precious treasure in the family. Your grandma will cherish you and pamper you every day.” Claire uttered, “Just stop. I won’t divorce Charlie.” “You.” Both parents had wanted to keep on persuading Claire when Charlie pushed the door open and walked in. His in-laws gave him a dirty look when they saw him. His mother-in-law snorted in disgust. “I thought you’d forgotten the way home, Charlie Wade.” Charlie sighed quietly inside his heart. His mother-in-law had always looked down on him, but what would she do if she were to know that he was now the owner of Emgrand Group and had ten billion dollars in cash? However, this was not the time to reveal his true identity. He had left the Wade family for a long time now, who knew how was the family doing now? What if someone from the family targeted him if he exposed himself? Staying in the dark was the best option for now. Hence, he lowered his head and said humbly, “Mother, I’m sorry for all the troubles I’ve caused today.” His mother-in-law shouted, “Trouble? This is more than trouble, you’re putting us at stake. Can’t you have the slightest decency and get out of our house?” Claire hurriedly interjected, “Mom, how could you say that? Charlie is your son-in-law.” “No.” her mother growled, “I don’t have such a person as my son-in-law. It’s better if he can go as far as he can.” Claire nudged Charlie and said, “Hurry, let’s go back to the room.” Charlie nodded gratefully and fled back to the room. They had been married for three years, but they had never consummated the marriage, not even once. Claire slept in bed while he slept on the floor at the side. Tonight, Charlie found it hard to fall asleep. What unfolded today was a real shock and consternation and he had yet to digest it. Before going to bed, Claire said, “How is Mrs. Lewis doing? I have about one hundred thousand dollars with me now, you can use it tomorrow.” Charlie said, “It’s okay. Someone paid her bill and transferred her to Eastcliff for treatment.” “Really?” Claire exclaimed in awe. “Wow. So, Mrs. Lewis will be fine then?” “Yes,” Charlie said, “Mrs. Lewis has done good deeds throughout her life and helped so many people. Now, someone is returning her favor.” “Glad to hear that.” Claire nodded with a smile. “You can have peace of mind now.” “Yes.” “I want to sleep now. There’s a lot to handle in the company lately, I’m exhausted.” “What’s happening in the company?” “It’s not doing very well lately. Grandma wants to collaborate with Emgrand, but Wilson Group is too weak as compared to their scale. They wouldn’t even bat an eye at us.” “Oh? Has there not been a collaboration between Wilson Group and Emgrand before?” Claire laughed sarcastically. “Of course not. What are we in the eyes of Emgrand? I bet we look like a speck of insignificant dust to them. Even Gerald’s family, Wendy’s fiancé’s family, could barely scratch the tail of Emgrand’s business empire. This is also why Grandma is eager for them to be married soon so the White family can help our family build some connections with Emgrand.” Charlie nodded knowingly. The Wilson family had used all the tricks up their sleeves to collaborate with Emgrand Group. However, Lady Wilson never would have thought that he owned Emgrand Group now… Thinking of this, Charlie decided to take over Emgrand Group and lend Claire a hand in her business. The Wilson family did not treat her fairly and they bullied her too much. As her husband, he had the responsibility to help her improve her status in the family. He said in his heart earnestly, ‘Claire, your husband is different now. I will not let anyone look down on you again. I will make the entire Wilson family bow down to you.” The next morning, after preparing breakfast, Charlie rode his scooter to Emgrand Group’s office. He parked his scooter on the side of Emgrand’s parking lot. As soon as he locked his scooter, a black Bentley slowly parked in a spot across from him. He looked up inadvertently and saw a young couple getting out of the car. The man was wearing a branded suit, looking very handsome and smart. Meanwhile, the lady was dressed up in a flamboyant style. Although somewhat gaudy, she was considered a beauty. As it turned out, the lady was Wendy Wilson, Claire’s cousin, and the man was her fiancé, Gerald White. Charlie didn’t know why they were here, but he knew that the best way to avoid trouble was to stay away from them. However, the more eager he wanted to hide from them, the higher chances they would see him. Wendy caught sight of him from the corner of her eyes. She yelped loudly, “Hey, Charlie.” Wendy called out his name in a friendly manner, but Charlie felt goosebumps all over his back. Out of courtesy, he could only stop where he was and wait for them to approach him. He smiled and asked, “Wendy, hey, why are you here?” Wendy chuckled. “Oh, Gerald is here to see Doris Young, vice-chairman of Emgrand Group. I’m here to keep him company.” Then she turned to look at Gerald with affection and said, “The White family has a lot of projects with Emgrand Group. Not only would it help the White family but also our Wilson family in the future.” Charlie didn’t know that the White family was one of Emgrand Group’s business partners. After all, he had just taken over the company and he hadn’t had time to get through the details. He didn’t show anything unusual on his face. Instead, he simply said with a polite smile, “Mr. White is very talented and magnificent, both of you make a great couple.” Gerald glared at Charlie contemptuously, feeling a surge of anger within him. This person had been scolded so badly by Lady Wilson yesterday in front of everybody, how was he able to smile like a clown as if nothing had happened today? Why did Claire, such a stunning and wonderful lady, marry such a person? If this person never existed, he would certainly have pursued Claire with great effort. Who would want to be engaged to Wendy, who paled in comparison in every aspect? Gerald huffed a breath in dismay and asked in a pretentious tone, “Why are you here?” Charlie casually said, “I’m here to apply for a job.” “Apply for a job?” Gerald sneered disdainfully. “You? The person who can’t do anything wants to apply for a job at Emgrand? Are you kidding me?” Charlie frowned. “What has it to do with you?” The reason why Wendy called Charlie in the first place was to humiliate him. Now that Gerald had started, she immediately mocked, “Why? Gerald is right, isn’t he?” “In terms of educational background, do you have any diplomas?” “In terms of skills and abilities, do you have any achievements or results to show them?” “Trust me, they wouldn’t even entertain a person like you even if you’ve come to apply for a security job. Know your place, you’re better off going to the streets to scavenge for trash, you might earn two or three thousand a month at least.” Then, she hurled a water bottle to Charlie’s feet and smirked, “There you go, pick it up and sell it for money. Don’t say that I don’t care about you.” Gerald laughed sinisterly. “We’re still relatives after all. I’ll have your back. It happens that I know the vice-chairman of the Emgrand Group in person, why don’t I say a few good words on your behalf and see if she can arrange a toilet cleaning job for you?” Charlie curled his lips into a cold sneer and said, “What kind of job I’m applying for is none of your business, you should mind your own business instead. Emgrand Group is a big company, I believe they wouldn’t want to collaborate with anyone like you.” Gerald’s face flushed with anger. “What” Charlie replied disdainfully, “You.” Then, he turned and walked towards the building, ignoring Gerald’s indignant screams behind. “Stop. Stop right there, do you hear me?” Very soon, Gerald strode quickly and caught up with Charlie at the elevator hall. He wanted to teach Charlie a lesson, to give him at least two slaps on his face to let him know the consequences of offending him, but they were inside Emgrand Group’s building now. He was worried that the harsh action would tarnish his reputation and infuriate his business partner, so he had no choice but to dismiss the idea. He gritted his teeth and warned, “I’ll let you go today, but you won’t be so lucky next time.” Charlie snorted and walked into the elevator. Before the door closed, he said, “Gerald White, do you really think you’re so powerful? Trust me, you will soon know the price to pay for being so cocky and arrogant.” “You little…” Gerald’s face turned into an ugly shade of red. He wanted to rush into the elevator but Wendy pulled his arms and said, “Gerald, don’t take the same elevator as he, we might suffocate from his stench.” He nodded, fully aware that it wasn’t wise for him to lay his hands here. Hence, he snorted coldly. “Huh, you’re lucky today. I’ll teach you a lesson next time.” * In the elevator, Charlie went directly to the top floor where the chairman’s office was located. Stephen had already made all the arrangements for him here at Emgrand. The person in charge of the arrangements was a person named Doris Young. Doris Young had earned her reputation as a renowned businesswoman in Aurous Hill. Not only was she a charming lady, but she was also extremely capable. She had been promoted to vice-chairman of the Emgrand Group at a young age. She was also among the factors behind the success of the company today. Now that Emgrand Group had been acquired by the Wade family, the former chairman had abdicated and Doris stayed back to assist the new chairman. Doris was quite shocked when she first saw Charlie. She didn’t expect to see such a young and charming person when she heard about him from Stephen. She quickly composed herself and greeted him respectfully. “Welcome, Mr. Wade. Please follow me to my office.” This was also the first time Charlie had ever met Doris. He had to admit that Doris was a very stunning and alluring young lady. Sitting down in front of Doris’s desk, Charlie started, “I will not come into the office often, so I would like you to continue looking over the company on my behalf. In addition, please do not disclose my identity to the public.” Doris was aware that Mr. Wade, who was sitting in front of her now, came from the extraordinary Wade family. For a prominent family like theirs, Emgrand Group was nothing but a mediocre business, so it was normal for him not to manage it himself. Hence, she quickly said, “Sure. Mr. Wade, just tell me if you need anything, I’ll be at your service.” At this moment, a secretary knocked on the door and said, “Miss Young, a man called Gerald White and his fiancé are here to see you.” Doris said instantly, “I’m seeing a VIP now, let them wait.” Charlie asked, “Do you know Gerald White?” “Mr. White’s family is one of our partners and several of their major projects are linked to our company. They have said that they will be here to see me, they have been here several times too.” Charlie uttered in a cold voice, “From now on, Emgrand Group would no longer have any business dealings with the White family. Halt all ongoing and preparatory projects. If the White family still earns a dime from our company, I don’t need you as our vice-chairman.” Doris startled in shock for a while, figuring that someone from the White family must have offended the person. So, she nodded vigorously and exclaimed, “Mr. Wade, don’t worry, I’ll now order my staff to stop all collaboration with the White family.” Charlie nodded satisfyingly and said, “Tell them that Emgrand Group has no interest in collaborating with them, then ask the guards to kick them out.” * Outside the office, Gerald and Wendy were waiting anxiously. The White family had always wanted to be the key players in the collaboration with Emgrand Group, so he hoped that he could build a good relationship with Doris Young and thus bring the family closer to the connection. However, the least expected thing happened. Doris’s secretary approached them with several guards. Gerald asked in confusion, “Hi, may I know if Miss Young is available to see us now?” The secretary glared coldly at him and said, “Sorry, our vice-chairman said that Emgrand Group has no interest in collaborating with you. From now on, we will cancel all the projects with your family.” “What did you say?.” Gerald gaped in extreme shock and his jaw almost dropped to the floor. Why did he find the remark so familiar anyway? Oh, right. Charlie Wade said the exact same thing when they were in the parking lot. What did Doris Young mean by that? Did she really intend to halt all the collaboration with the White family? Gerald felt a surge of blood flooding her head, exploding inside. What happened? Canceled all projects? A large portion of the White family’s profits came from working with Emgrand. If Emgrand Group terminated their ties, didn’t it mean that the family’s net worth would be cut by half? No, he couldn’t accept such a cruel fact. He growled loudly, “I want to see Miss Young. I want to ask her in person.” The secretary simply glared at him coldly. “I’m sorry, Miss Young will not see you and you’re not allowed here in the future.” Gerald shouted in great dismay, “Are you kidding me? We are a long-term business partner of Emgrand, it isn’t up to her to terminate our projects just like that. Don’t mess with us.” The secretary ignored his screaming and directed the security guards around her, “Kick them out.” The head of the security team immediately jumped on them. He grabbed Gerald’s wrist and twisted it hard behind him. Gerald yelped in pain and Captain Cooper snorted coldly. “Hurry and get out of here. If you dare make a scene at Emgrand Group, I’ll break you in half.” “You’re just a security guard, how dare you raise your voice at me? Do you know who I am?” Captain Cooper gave him a slap across his face instantly and shouted, “What are you in the face of Emgrand Group?” Gerald felt his face burning from the slap. He was about to burst in fury when his phone suddenly rang. It was his father. When he answered the call, a furious roar echoed from the other end of the line. “You. What did you do? Emgrand Group wants to terminate all projects with us. Who on earth did you offend?” Gerald whined sorrowfully, “No, Dad, that’s not true, I didn’t offend anyone. I just came here to see Miss Young, but I haven’t even seen her face yet…” Gerald’s father shouted again. “The people at Emgrand Group said that they’ve terminated their collaboration with us because of you. It’s all because of you that our family is suffering a great loss. Hurry and come back, explain this to your grandfather yourself.” Grabbing the phone in a daze, Gerald and Wendy were forcefully escorted out of Emgrand Group’s main entrance. Suddenly, Charlie’s face appeared in his mind. He turned to Wendy abruptly and asked, “Wendy, is it because of your cousin-in-law? Does he have anything to do with Emgrand Group?” “Huh?” Wendy was obviously taken aback by Gerald’s remark. When she pondered the circumstances, it might indeed have something to do with him, but he... Thus, she shook her head and uttered firmly, “No, it is absolutely impossible that he has anything to do with Emgrand Group. He is not even qualified to clean their toilets.” “You’re right…” Gerald nodded numbly. He hung his head low when he thought about his angry father. “I have to return home right away…” Very soon, the news of the White family being kicked out by Emgrand Group spread throughout Aurous Hill like wildfire. No one knew of the reason, but they were certain that the White family must have offended Emgrand Group in some way. At this rate, the White family was considered gone. Their net worth had been cut short by more than half. They were originally close to the peak of the social ladder in the city, but after the event, they instantly dropped down several levels and became a second-rate family in terms of social class. Lady Wilson was shaking with anger when she heard the news. She wanted to call off Wendy’s engagement with Gerald, but even after the termination, the White family was still more prominent than the Wilson family and she couldn’t afford to lose the ties, so she could only bear with it for the moment. * Meanwhile, in Doris’s office, Charlie looked impressed and satisfied after he heard about the process. He highly appreciated her rapid and stern attitude in it. He said with a satisfied smile, “Doris, great job, you did well. Starting today, your salary will be doubled.” Doris gaped in astonishment. She stood up and bowed respectfully. “Thank you, Mr. Wade.” Charlie nodded and continued, “Also, I want you to make two announcements.” “Yes, please proceed.” “The first thing is to announce the change of Emgrand Group’s ownership and nomination of the new chairman, but don’t disclose my identity. Just say that he is one Mr. Wade.” “The second thing is the announcement of Emgrand Group investing two billion dollars to build a six-star hotel in Aurous Hill, and announcing the tender bidding for partners. Construction and interior decorating companies throughout the city are welcome to bid.” The main business of Wilson Group was interior design and construction. The old lady would dream of hopping on Emgrand’s cruise. Whoever could win the bidding with Emgrand Group would surely become the most sought-after person in the company. Now that he owned Emgrand Group, he should offer his wife some sweet deals. The two announcements released by Emgrand Group completely shook the entire Aurous Hill like a high magnitude earthquake. When the Wilson family learned about the ownership change in Emgrand Group, they figured out why the collaboration with the White family had been terminated. It seemed that Emgrand’s new owner didn’t think much of the White family. Back to the point, who was Mr. Wade? He simply bought Emgrand Group that was worth hundreds of billions of dollars without batting an eye—he was a little too powerful, wasn’t he? All of a sudden, a lot of wealthy families were about to eagerly make a move. They wished to establish a connection with the mysterious Mr. Wade while on the other hand wished to marry their daughter to him. Moreover, the announcement about Emgrand Group’s investment of two billion dollars for the hotel construction project also shook the construction and interior decorating industries in Aurous Hill like a great force surging the ground. Two billion. They could make a lot of money even tendering scraps of the project. A lot of companies wanted a slice of the lucrative pie, including Lady Wilson, who valued money more than anything. Lady Wilson was over the moon at the moment. Two billion dollar project. This was the perfect opportunity for the Wilson family to get a contract from the mega project. It would bring their family to the next level. Hence, she called for an urgent family meeting at the mansion tonight to discuss ways to achieve a breakthrough in Emgrand Group’s mega project. Everyone had to attend. Later that night, at the Wilson family mansion, Charlie tagged along since Lady Wilson had asked for everyone’s participation. He knew about the old lady’s main agenda of the meeting, so he wanted to take this opportunity to boost Claire’s confidence. When Harold, Claire’s cousin, saw him at the mansion, he mocked disdainfully, “Charlie Wade. Where did you find your courage to see Grandma now.” With an indifferent expression on her face, Claire uttered, “Stop your nonsense. Grandma asked everyone in the Wilson family to come. Charlie is my husband, so of course he is a member of the Wilson family too.” Harold laughed sarcastically. “He is part of the Wilson family? Haha. He is just a live-in son-in-law.” Charlie rubbed his nose in slight agitation and said to Claire, “Dear, just let him be, don’t argue with him. Let’s go in quick, Grandma is waiting for everyone.” Claire nodded and walked into the house without batting an eye at Harold. Harold’s face twisted in an irritated grimace, anticipating their embarrassment later. After entering the meeting room, Charlie and Claire found a place to sit in the corner. Very soon, Lady Wilson made a great entrance and the family meeting officially began. Lady Wilson sat on the head of the table. She knocked on the table and started cheerfully, “We, the Wilson family, have been waiting for a chance like this for so many years, a chance that will bring us to the next level, to the peak of the social pyramid in Aurous Hill. The chance is finally here now.” She continued loudly, “This time, Emgrand Group has announced a mega project of two billion dollars. If anyone can tender a project from it, it will bring great and lucrative benefits.” “Moreover, this is Emgrand Group’s first major project after its change of ownership. It is a great opportunity for us.” “If we can collaborate with Emgrand Group and leave a good impression on the new chairman, we will become very powerful and prominent in the future.” The attendees were rather indifferent and unpassionate as compared to Lady Wilson’s enthusiasm. In fact, it wasn’t anything new for the Wilson family wanting to collaborate with Emgrand Group. However, for the longest time, Emgrand Group had ignored the Wilson family’s request. What made Lady Wilson think that they could get a slice of the mega pie from them now? It was impossible. Annoyed by the silence, Lady Wilson’s face flushed with anger and she shouted furiously, “Why? Do none of you have any confidence in taking a tiny slice of pie from the two billion dollars project?” Everyone exchanged nervous glances but no one dared to talk.

Fateh e Makkah


مکہّ میں ابوسفیان بہت بے چین تھا ،
" آج کچھ ھونے والا ھے " ( وہ بڑبڑایا ) اسکی نظر آسمان کی طرف باربار اٹھ رھی تھی ۔
اسکی بیوی " ھند " جس نے حضرت امیر حمزہ کا کلیجہ چبایا تھا اسکی پریشانی دیکھ کر اسکے پاس آگئ تھی
" کیا بات ھے ؟ کیوں پریشان ھو ؟ "
" ھُوں ؟ " ابوُ سُفیان چونکا ۔ کُچھ نہیں ۔۔ " طبیعت گھبرا رھی ھے میں ذرا گھوُم کر آتا ھوُں " وہ یہ کہہ کر گھر کے بیرونی دروازے سے باھر نکل گیا
مکہّ کی گلیوں میں سے گھومتے گھومتے وہ اسکی حد تک پہنچ گیا تھا
اچانک اسکی نظر شہر سے باھر ایک وسیع میدان پر پڑی ،
ھزاروں مشعلیں روشن تھیں ، لوگوں کی چہل پہل انکی روشنی میں نظر آرھی تھی
اور بھنبھناھٹ کی آواز تھی جیسے سینکڑوں لوگ دھیمی آواز میں کچھ پڑھ رھے ھوں
اسکا دل دھک سے رہ گیا تھا ۔۔۔
اس نے فیصلہ کیا کہ وہ قریب جاکر دیکھے گا کہ یہ کون لوگ ھیں
اتنا تو وہ سمجھ ھی چکا تھا کہ مکہّ کے لوگ تو غافلوں کی نیند سو رھے ھیں اور یہ لشکر یقیناً مکہّ پر چڑھائ کیلیئے ھی آیا ھے
وہ جاننا چاھتا تھا کہ یہ کون ھیں ؟
وہ آھستہ آھستہ اوٹ لیتا اس لشکر کے کافی قریب پہنچ چکا تھا
کچھ لوگوں کو اس نے پہچان لیا تھا
یہ اسکے اپنے ھی لوگ تھے جو مسلمان ھوچکے تھے اور مدینہ ھجرت کرچکے تھے
اس کا دل ڈوب رھا تھا ، وہ سمجھ گیا تھا کہ یہ لشکر مسلمانوں کا ھے
اور یقیناً " مُحمّد ﷺ اپنے جانثاروں کیساتھ مکہّ آپہنچے تھے "
وہ چھپ کر حالات کا جائزہ لے ھی رھا تھا کہ عقب سے کسی نے اسکی گردن پر تلوار رکھ دی
اسکا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا تھا
لشکر کے پہرے داروں نے اسے پکڑ لیا تھا
اور اب اسے " بارگاہ محمّد ﷺ میں لیجا رھے تھے "
اسکا ایک ایک قدم کئ کئ من کا ھوچکا تھا
ھر قدم پر اسے اپنے کرتوت یاد آرھے تھے
جنگ بدّر ، احد ، خندق ، خیبر سب اسکی آنکھوں کے سامنے ناچ رھی تھیں
اسے یاد آرھا تھا کہ اس کیسے سرداران مکہّ کو اکٹھا کیا تھا " محمّد کو قتل کرنے کیلیئے "
کیسے نجاشی کے دربار میں جاکر تقریر کی تھی کہ ۔۔۔۔
" یہ مسلمان ھمارے غلام اور باغی ھیں انکو ھمیں واپس دو "
کیسے اسکی بیوی ھندہ نے امیر حمزہ کو اپنے غلام حبشی کے ذریعے شہید کروا کر انکا سینہؑ چاک کرکے انکا کلیجہ نکال کر چبایا اور ناک اور کان کاٹ کر گلے میں ھار بنا کر ڈالے تھے
اور اب اسے اسی محمّد ﷺ کے سامنے پیش کیا جارھا تھا
اسے یقین تھا کہ ۔۔۔
اسکی روایات کے مطابق اُس جیسے " دھشت گرد " کو فوراً تہہ تیغ کردیا جاۓ گا ۔
اُدھر ۔۔۔۔
" بارگاہ رحمت للعالمین ﷺ میں اصحاب رض جمع تھے اور صبح کے اقدامات کے بارے میں مشاورت چل رھی تھی کہ کسی نے آکر ابوسفیان کی گرفتاری کی خبر دے دی
" اللہ اکبر " خیمہؑ میں نعرہ تکبیر بلند ھوا
ابوسفیان کی گرفتاری ایک بہت بڑی خبر اور کامیابی تھی
خیمہؑ میں موجود عمر ابن الخطاب اٹھ کر کھڑے ھوۓ اور تلوار کو میان سے نکال کر انتہائ جوش کے عالم میں بولے ۔۔
" اس بدبخت کو قتل کردینا چاھیئے شروع سے سارے فساد کی جڑ یہی رھا ھے "
چہرہ مبارک رحمت للعالمین ﷺ پر تبسّم نمودار ھوا
اور انکی دلوں میں اترتی ھوئ آواز گونجی
" بیٹھ جاؤ عمر ۔۔ اسے آنے دو "
عمر ابن خطاب آنکھوں میں غیض لیئے حکم رسول ﷺ کی اطاعت میں بیٹھ تو گۓ لیکن ان کے چہرے کی سرخی بتا رھی تھی کہ انکا بس چلتا تو ابوسفیان کے ٹکڑے کرڈالتے
اتنے میں پہرے داروں نے بارگاہ رسالت ﷺ میں حاضر ھونے کی اجازت چاھی
اجازت ملنے پر ابوسفیان کو رحمت للعالمین کے سامنے اس حال میں پیش کیا گیا کہ اسکے ھاتھ اسی کے عمامے سے اسکی پشت پر بندھے ھوۓ تھے
چہرے کی رنگت پیلی پڑ چکی تھی
اور اسکی آنکھوں میں موت کے ساۓ لہرا رھے تھے
لب ھاۓ رسالت مآب ﷺ وا ھوۓ ۔۔۔
اور اصحاب رض نے ایک عجیب جملہؑ سنا
" اسکے ھاتھ کھول دو اور اسکو پانی پلاؤ ، بیٹھ جاؤ ابوسفیان ۔۔ !! "
ابوسفیان ھارے ھوۓ جواری کی طرح گرنے کے انداز میں خیمہؑ کے فرش پر بچھے قالین پر بیٹھ گیا ۔
پانی پی کر اسکو کچھ حوصلہ ھوا تو نظر اٹھا کر خیمہؑ میں موجود لوگوں کی طرف دیکھا
عمر ابن خطاب کی آنکھیں غصّہ سے سرخ تھیں
ابوبکر ابن قحافہ کی آنکھوں میں اسکے لیئے افسوس کا تاثر تھا
عثمان بن عفان کے چہرے پر عزیزداری کی ھمدردی اور افسوس کا ملا جلا تاثر تھا
علیؑ ابن ابوطالبؑ کا چہرہ سپاٹ تھا
اسی طرح باقی تما اصحاب کے چہروں کو دیکھتا دیکھتا آخر اسکی نظر محمّد ﷺ کے چہرہ مبارک پر آکر ٹھر گئ
جہاں جلالت و رحمت کے خوبصورت امتزاج کیساتھ کائنات کی خوبصورت ترین مسکراھٹ تھی
" کہو ابوسفیان ؟ کیسے آنا ھوا ؟؟ "
ابوسفیان کے گلے میں جیسے آواز ھی نہیں رھی تھی
بہت ھمّت کرکے بولا ۔۔ " مم ۔۔ میں اسلام قبول کرنا چاھتا ھوں ؟؟ "
عمر ابن خطاب ایک بار پھر اٹھ کھڑے ھوۓ
" یارسول اللہ ﷺ یہ شخص مکّاری کررھا ھے ، جان بچانے کیلیئے اسلام قبول کرنا چاھتا ھے ، مجھے اجازت دیجیئے ، میں آج اس دشمن ازلی کا خاتمہؑ کر ھی دوں " انکے مونہہ سے کف جاری تھا ۔۔۔
" بیٹھ جاؤ عمر ۔۔۔ " رسالت مآب ﷺ نے نرمی سے پھر فرمایا
" بولو ابوسفیان ۔۔ کیا تم واقعی اسلام قبول کرنا چاھتے ھو ؟ "
" جج ۔۔ جی یا رسول اللہ ﷺ ۔۔ میں اسلام قبول کرنا چاھتا ھوں میں سمجھ گیا ھوں کہ آپؐ اور آپکا دین بھی سچّا ھے اور آپ کا خدا بھی سچّا ھے ، اسکا وعدہ پورا ھوا ۔ میں جان گیا ھوں کہ صبح مکہّ کو فتح ھونے سے کوئ نہیں بچا سکے گا "
چہرہؑ رسالت مآب ﷺ پر مسکراھٹ پھیلی ۔۔
" ٹھیک ھے ابوسفیان ۔۔
تو میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ھوں اور تمہاری درخواست قبول کرتا ھوں جاؤ تم آزاد ھو ، صبح ھم مکہّ میں داخل ھونگے انشاء اللہ
میں تمہارے گھر کو جہاں آج تک اسلام اور ھمارے خلاف سازشیں ھوتی رھیں ، جاۓ امن قرار دیتا ھوں ، جو تمہارے گھر میں پناہ لےلے گا وہ محفوظ ھے ، "
۔
ابوسفیان کی آنکھیں حیرت سے پھٹتی جا رھی تھیں
۔
" اور مکہّ والوں سے کہنا ۔۔ جو بیت اللہ میں داخل ھوگیا اسکو امان ھے ، جو اپنی کسی عبادت گاہ میں چلا گیا ، اسکو امان ھے ، یہاں تک کہ جو اپنے گھروں میں بیٹھ رھا اسکو امان ھے ،
جاؤ ابوسفیان ۔۔۔ جاؤ اور جاکر صبح ھماری آمد کا انتظار کرو
اور کہنا مکہّ والوں سے کہ ھماری کوئ تلوار میان سے باھر نہیں ھوگی ، ھمارا کوئ تیر ترکش سے باھر نہیں ھوگا
ھمارا کوئ نیزہ کسی کی طرف سیدھا نہیں ھوگا جب تک کہ کوئ ھمارے ساتھ لڑنا نہ چاھے "
۔
ابوسفیان نے حیرت سے محمّد ﷺ کی طرف دیکھا اور کانپتے ھوۓ ھونٹوں سے بولنا شروع کیا ۔۔
" اشھد ان لاالہٰ الا اللہ و اشھد ان محمّد عبدہُ و رسولہُ "
۔
سب سے پہلے عمر ابن خطاب آگے بڑھے ۔۔ اور ابوسفیان کو گلے سے لگایا
" مرحبا اے ابوسفیان ، اب سے تم ھمارے دینی بھائ ھوگۓ ، تمہاری جان ، مال ھمارے اوپر ویسے ھی حرام ھوگیا جیسا کہ ھر مسلمان کا دوسرے پر حرام ھے ، تم کو مبارک ھو کہ تمہاری پچھلی ساری خطائیں معاف کردی گئیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ تمہارے پچھلے گناہ معاف فرماۓ "
ابوسفیان حیرت سے خطاب کے بیٹے کو دیکھ رھا تھا
یہ وھی تھا کہ چند لمحے پہلے جسکی آنکھوں میں اس کیلیئے شدید نفرت اور غصّہ تھا اور جو اسکی جان لینا چاھتا تھا
اب وھی اسکو گلے سے لگا کر بھائ بول رھا تھا ؟
یہ کیسا دین ھے ؟
یہ کیسے لوگ ھیں ؟
سب سے گلے مل کر اور رسول اللہ ﷺ کے ھاتھوں پر بوسہ دے کر ابوسفیان خیمہؑ سے باھر نکل گیا
" وہ دھشت گرد ابوسفیان کہ جس کے شر سے مسلمان آج تک تنگ تھے انہی کے درمیان سے سلامتی سے گزرتا ھوا جارھا تھا ، جہاں سے گزرتا ، اس اسلامی لشکر کا ھر فرد ، ھر جنگجو ، ھر سپاھی جو تھوڑی دیر پہلے اسکی جان کے دشمن تھے اب آگے بڑھ بڑھ کر اس سے مصافحہ کررھے تھے ، اسے مبارکباد دے رھے تھے ، خوش آمدید کہہ رھے تھے ۔۔ "
اگلے دن ۔۔۔
مکہّ شہر کی حد پر جو لوگ کھڑے تھے ان میں سب سے نمایاں ابوسفیان تھا
مسلمانوں کا لشکر مکہّ میں داخل ھوچکا تھا
کسی ایک تلوار ، کسی ایک نیزے کی انی ، کسی ایک تیر کی نوک پر خون کا ایک قطرہ بھی نہیں تھا
لشکر اسلام کو ھدایات مل چکی تھیں
کسی کے گھر میں داخل مت ھونا
کسی کی عبادت گاہ کو نقصان مت پہنچانا
کسی کا پیچھا مت کرنا
عورتوں اور بچوں پر ھاتھ نہ اٹھانا
کسی کا مال نہ لوٹنا
بلال حبشئ آگے آگے اعلان کرتا جارھا تھا
" مکہّ والو ۔۔۔ رسول خدا ﷺ کی طرف سے ۔۔۔
آج تم سب کیلیئے عام معافی کا اعلان ھے ۔۔
کسی سے اسکے سابقہ اعمال کی بازپرس نہیں کی جاۓ گی ،
جو اسلام قبول کرنا چاھے وہ کرسکتا ھے
جو نہ کرنا چاھے وہ اپنے سابقہ دین پر رہ سکتا ھے
سب کو انکے مذھب کے مطابق عبادت کی کھلی اجازت ھوگی
صرف مسجد الحرام اور اسکی حدود کے اندر بت پرستی کی اجازت نہیں ھوگی
کسی کا ذریعہ معاش چھینا نہیں جاۓ گا
کسی کو اسکی ارضی و جائیداد سے محروم نہیں کیا جاۓ گا
غیر مسلموں کے جان و مال کی حفاظت مسلمان کریں گے
اے مکہّ کے لوگو ۔۔۔۔ !! "
۔
ھندہ اپنے گھر کے دروازے پر کھڑی لشکر اسلام کو گزرتے دیکھ رھی تھی
اسکا دل گواھی نہیں دے رھا تھا کہ " حضرت حمزہ " کا قتل اسکو معاف کردیا جاۓ گا
لیکن ابوسفیان نے تو رات یہی کہا تھا کہ ۔۔۔
" اسلام قبول کرلو ۔۔ سب غلطیاں معاف ھوجائیں گی "
مکہّ فتح ھوچکا تھا
بنا ظلم و تشدد ، بنا خون بہاۓ ، بنا تیر و تلوار چلاۓ ،
لو گ جوق در جوق اس آفاقی مذھب کو اختیار کرنے اور اللہ کی توحید اور رسول اللہ ﷺ کی رسالت کا اقرار کرنے مسجد حرام کے صحن میں جمع ھورھے تھے
اور تبھی مکہّ والوں نے دیکھا ۔۔۔
" اس ھجوم میں ھندہ بھی شامل تھی "
۔
یہ ھوا کرتا تھا اسلام ۔۔ یہ تھی اسکی تعلیمات ۔۔ یہ سکھایا تھا میرے رسول ﷺصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیاری ذات نے۔۔۔۔۔

July 15, 2023

How to Cold Buildings in Past, پرانے زمانے میں لوگ کیسے گھروں کو ٹھنڈا رکھتے تھے۔

جدید معمار تاج محل کے فن تعمیر سے عمارتوں کو ٹھنڈا کرنا کیسے سیکھ رہے ہیں  

جب آپ انڈیا کے دارالحکومت دہلی سے ملحق نوئیڈا میں قائم مائیکروسافٹ کے دفتر میں داخل ہوتے ہیں تو 400 سال قبل مغل دور حکومت میں تعمیر شدہ تاج محل کے فن تعمیر کا امتیاز فوری طور پر سمجھ میں آتا ہے۔

ہاتھی دانت کے سفید رنگ میں نہائی یہ خوبصورت محرابوں اور جگہ جگہ 'جالیوں' والی عمارت جہاں تاج محل کی شان و شوکت کا بصری قصیدہ ہے وہیں یہ جدید ترین کام کی جگہ بھی ہے۔

پیچیدہ جالی کی سکرینوں کے سوراخ سے چھن کر آتے ہوئے روشنی کے جھرنے روشنی اور گہرائی کا شاندار تاثر پیدا کرتے ہیں۔ توانائی کی بچت والی لائٹس کے ساتھ یہ تعمیراتی خصوصیت عمارت کے کاربن فوٹ پرنٹ کو کم رکھنے میں مدد کرتی ہے اور اسی وجہ سے دفتر کو لیڈ (لیڈرشپ ان انرجی اینڈ انوارنمنٹل ڈیزائن) پلاٹینم کی درجہ بندی ملی ہوئی ہے جو کہ امریکی گرین بلڈنگ کونسل کی سب سے زیادہ پائیداری کی سند ہے۔

جالی کی اصطلاح وسطی اور جنوبی ایشیا میں استعمال ہوتی ہے۔ آرائشی نمونوں کے ساتھ سنگ مرمر یا سرخ ریت کے پتھر میں تراشی گئی جالیاں 16ویں اور 18ویں صدی کے درمیان ہندوستان میں فن تعمیر کی ایک مخصوص خصوصیت ہوا کرتی تھی۔

ویں صدی کے وسط میں ہندوستان کے شہر آگرہ میں تعمیر کیے گئے تاج محل کی شاندار نقش و نگار والی جالیاں، ٹھوس اور خلا، مقعر (کھوکھلے) اور محدب (ابھرے)، لکیروں اور منحنی خطوط، روشنی اور سائے کا ایک ہم آہنگ مرکب بناتی ہیں۔

اس طرح کی ایک تعمیر ہوا محل ہے جسے انڈین شہر جے پور میں سنہ 1799 میں راجپوت حکمرانوں نے بنوایا تھا۔ اس میں 953 کھڑکیاں ہیں جن میں جالیاں اس طرح لگائی گئی ہیں کہ ان سے چھن کر عمارت کے اندر ہوا کے ہلکے ہلکے جھونکے آئیں۔

 یہ جالیاں ہوا کو گردش کرنے دیتی ہیں‘

ثقافتی ورثے کے تحفظ میں مہارت رکھنے والے ماہر تعمیرات اور قابل عمل ڈیزائن پر کئی کتابوں کے مصنف یتن پانڈیا کا کہنا ہے کہ عمارتوں میں فنکارانہ مزاج کو پیش کرنے کے علاوہ یہ جالیاں 'ہوا کو گردش کرنے دیتی ہیں، [عمارتوں کو] سورج کی روشنی سے بچانے کا کام کرتی ہیں اور پرائیویسی کے لیے ایک پردہ فراہم کرتی ہیں۔'

اب جدید دور کے بہت سے معمار عمارتوں میں پائیدار ٹھنڈک کی تلاش میں آرام دہ اور کم کاربن والی عمارتوں کی تعمیر کے لیے اس قدیم ڈیزائن کو زندہ کر رہے ہیں۔

گرمی کی شدت اور توانائی بحران کا توڑ

بلڈنگ سیکٹر میں آب و ہوا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ عمارتوں سے اخراج 2019 میں اپنی اب تک کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا، جو عالمی کاربن (سی او ٹو) کے اخراج کا 38 فیصد رہا۔

عمارتوں کو ٹھنڈا کرنے میں خاص طور پر توانائی کی ضرورت ہو سکتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ سنہ 2050 تک دنیا بھر میں ایئر کنڈیشنگ یونٹس کی تعداد آج سے تین گنا سے زیادہ ہو سکتی ہے اور اس میں جتنی بجلی لگے گی وہ پورے انڈیا اور چین میں خرچ ہونے والی بجلی کے برابر ہوگی۔

اس کے ساتھ ہی دنیا بھر میں گرمی کا موسم اور گرمی کی لہریں طویل اور شدید ہوتی جا رہی ہیں۔ انڈیا نے خاص طور پر رواں سال شدید گرمی کی لہروں کا ایک سلسلہ دیکھا ہے۔ مئی کے مہینے میں دہلی میں درجہ حرارت ریکارڈ 49 سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا۔

تیزی سے پھیلتے شہر اور بڑھتی ہوئی گرمی کے پیش نظر انڈیا میں اب پائیدار، صاف اور کم توانائی کے ذریعے موثر ٹھنڈک حاصل کرنے کی صورت تلاش کی جا رہی ہے۔

سنہ 2019 میں انڈین حکومت نے انڈیا کولنگ ایکشن پلان کا آغاز کیا، جس میں پائیدار اور کم توانائی کی کھپت سے موثر کولنگ تک رسائی فراہم کرنے کے لیے درکار اقدامات کا خاکہ پیش کیا گیا۔

یہ منصوبہ غیر فعال کولنگ نظام کی اہمیت پر زور دیتا ہے یعنی گھر کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے تعمیرات تاکہ آب و ہوا کے اثرات سے حفاظت کو فروغ دینے اور شہری گرمی کے اثرات کو کم کرنے میں مدد ملے اور جہاں عمارتیں اور سڑکیں گرمی کو جذب اور برقرار رکھیں۔

بنگلور میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس کے ممتاز سائنسدان جے سرینواسن کہتے ہیں: 'انڈیا میں گرمی کے زیادہ دباؤ کا خطرہ پہلے سے ہی موجود ہے، جس کے آنے والے برسوں میں مزید خراب ہونے کی امید ہے۔ اس سے ایئر کنڈیشنرز کی مانگ میں اضافہ ہو جائے گا اور ان سے گرمی کی پیداوار بہت زیادہ ہوتی ہے۔'

انھوں نے مزید کہا کہ عمارت کو ٹھنڈا کرنے کے متبادل طریقوں کی ضرورت ہے اور اس میں ایسی عمارتوں کے ڈیزائن کی ضرورت ہے جس میں اے سی کی کم ضرورت ہو۔

اس چیلنج کے پیش نظر کچھ ماہر فن تعمیر گرمی سے بچنے کے لیے ماضی میں کیے جانے والے تدارک سے متاثر ہو رہے ہیں، ان میں روایتی جالیاں بھی ہیں۔

دہلی میں قائم زیڈ لیب کے بانی ڈائریکٹر اور ماہر فن تعمیر سچن رستوگی کا کہنا ہے کہ '[یہ جالیاں] پائیدار ٹھنڈک اور وینٹیلیشن کے مسائل کے حل کے لیے ایک ماحول دوست ردعمل کے طور پر کام کرتی ہیں۔'

غیر فعال کولنگ تکنیک اور عمارت کے لفافے (جو عمارت کے اندرونی حصے کو بیرونی ماحول سے الگ کرنے میں مدد کرتے ہیں) اندرونی درجہ حرارت کو کم کرکے، ایئر کنڈیشنگ کی ضرورت کو کم کرتے ہیں اور قابل قدر سکون فراہم کرتے ہیں جس کے نتیجے میں 70 فیصد تک توانائی کی بچت ہوسکتی ہے۔

جالی حدت کیسے کم کرتی ہے؟

جالی ایک عام کھڑکی کے کل مربع میٹر کو کئی چھوٹے چھوٹے خانوں میں تقسیم کر کے عمارت میں داخل ہونے والی براہ راست حرارت کو کم کرتی ہے۔

پانڈیا کا کہنا ہے کہ روایتی جالی میں سوراخ تقریبا ماربل یا ریت والے پتھر کی موٹائی کے سائز کے ہی ہوتے ہیں۔

انھوں نے کہا: 'یہ موٹائی سورج کی روشنی کی براہ راست چمک کو کم کرنے کا کام کرتی ہے جبکہ اس سے منتشر ہونے والی روشنی کو داخلے کی اجازت دیتی ہے۔'

جالی سے پیدا ہونے والی ٹھنڈک کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ وینٹوری ایفیکٹ پر اسی طرح انحصار کرتی ہے جیسے ایئر کنڈیشنگ یونٹ۔

پانڈیا کہتے ہیں: 'جب ہوا سوراخوں سے گزرتی ہے، تو یہ رفتار پکڑتی ہے اور دور تک گھسی چلی جاتی ہے۔ چھوٹے سوراخ یا شگاف کی وجہ سے ہوا دب جاتی ہے اور جب وہ خارج ہوتی ہے تو ٹھنڈی ہو کر نکلتی ہے۔'

پانڈیا کہتے ہیں کہ کولنگ کی جدید تکنیکوں کے عروج نے جالی کے استعمال کو محدود کر دیا لیکن 'گلوبل وارمنگ کے خدشات اس کی بحالی کی طرف توجہ مرکوز کرا رہے ہیں۔۔۔ اور روایتی تعمیراتی شکلوں نے ماحولیاتی حالات کا مقابلہ کرنے میں اپنی اہمیت کو ثابت کیا ہے۔'

جالی ایک بار پھر سے مقبول ہو رہی ہے

چین کے شہر فوشان میں ٹائمز آئی-سٹی کمپلیکس سے لے کر فرانس کے کیپ ڈی ایگڈے میں نکارا ہوٹل اور اسپین کے قرطبہ ہسپتال تک، جدید عمارتوں میں قدرتی روشنی کو بہتر بنانے، توانائی کی کھپت کو کم کرنے اور آرام فراہم کرنے کے لیے عمارتوں کے سامنے جالیاں لگائی جا رہی ہیں۔

برطانیہ کی ناٹنگھم یونیورسٹی سے پائیدار عمارت کے ڈیزائن کی ایک محقق عائشہ بتول کہتی ہیں کہ 'سفتہ یا سوراخ والے فیکیڈ (سامنے کا حصہ یا اگواڑا) عالمی سطح پر مقبول ہو رہے ہیں اور معمار پائیدار لفافوں پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔

بتول کے 2018 کے تین سکرین شیڈنگ سسٹمز والے تجزیے میں پتا چلا کہ جالی نے سورج کی روشنی کو منحرف کرنے میں مکمل طور پر چمکدار اگواڑے اور برائس سولیل (تنے ہوئے چمکدار کپڑے کے) اگواڑے دونوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔

بتول کہتی ہیں کہ 'جالی کی سکرینیں عمارت کے اندر رہنے والوں کے لیے حرارت سے بچنے میں مدد کرتی ہیں اور بصری سکون کو بڑھاتی ہیں۔'

انھوں نے مزید کہا کہ 'روایتی تعمیراتی فن کی کارکردگی کی حد سے زیادہ رومانوی تحسین سے زیادہ ان سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔'

بہتر روشنی

نئی دہلی میں پنجاب کیسری اخبار کے صدر دفتر میں روایتی جالی والے فن تعمیر کو عصری ڈیزائن کی خصوصیات کے ممیز کیا گيا ہے۔ اسے سٹوڈیو سمبیوسس نے ڈیزائن کیا ہے۔

عمارت کا اگلا حصہ سوختے یا سوراخوں والے سفید شیشے کے مضبوط کنکریٹ میں لپٹا ہوا ہے جو روایتی جالی والے سکرین کو ابھارتا ہے۔ اپنے ڈیزائن کے لیے ایوارڈ سے نوازی جانے والی اور سٹوڈیو سمبیوسس کی شریک بانی بریٹا کنوبل گپتا کہتی ہیں کہ اس سب کا مقصد قدرتی روشنی کو بہتر بنانا، گرمی کو کم کرنا اور ہوا کے بہاؤ کو بڑھانا ہے۔

نوبل گپتا کا کہنا ہے کہ 'سکرین شیشے کے سامنے ڈبل جالی باہر کی ہوا کے درجہ حرارت کو کم کرتی ہے تاکہ ٹھنڈی ہوا کو چمنی کی طرح کام کرتے ہوئے اندر کھینچ سکے۔ اس سے ایئر کنڈیشنر پر بوجھ کم ہو جاتا ہے۔'

اس پروجیکٹ میں ہر دیوار کے لیے مختلف پوروسیٹی پیٹرن بنانے کے لیے ڈیجیٹل سمولیشن کا استعمال کیا گیا ہے اور یہ اس لیے کیا گیا ہے کس دیوار کو کتنی سورج کی روشنی ملتی ہے۔

مثال کے طور پر شمال کی طرف والے حصے میں 81 فیصد دھندلاپن ہے اور اس کے مقابلے میں جنوب کی طرف صرف 27 فیصد دھندلاپن ہے۔ عمارت کو قدرتی طور پر روشنی کی ضرورت کی سطح کو پورا کرنے میں بھی یہ جالیاں مدد کرتی ہیں۔

وہ مزید کہتی ہیں یہ جالیاں اس بات کو بھی یقینی بناتی ہیں کہ عمارت کو دن میں مصنوعی روشنی کی ضرورت نہ ہو۔

ایک اور جدید عمارت جو جالی کو مؤثر طریقے سے استعمال کرتی ہے وہ دہلی سے ملحق شہر گروگرام میں سینٹ اینڈریو انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اینڈ مینجمنٹ کے طلباء کی رہائش کا بلاک ہے۔

عمارت کی ایک قابل ذکر خصوصیت اس میں طبیعیات کے ایک اصول 'اسٹیک ایفیکٹ' کا استعمال کیا گیا ہے جس کے تحت جالی میں ہر اینٹ کے گردشی زاویوں کو شمسی تابکاری کو کم سے کم کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

’جالی کے استعمال نے بل کم کر دیے‘

عمارت کو ڈیزائن کرنے والے رستوگی کا کہنا ہے کہ 'جالی کا فیکیڈ حرارت سے بچاؤ کے شیلڈ کے طور پر کام کرتا ہے، جو سورج کی روشنی کو 70 فیصد تک کم کرتا ہے، اس طرح گرمی میں اضافے کو کم کر دیتا ہے۔ عمارت گرم ہوا کو پکڑ کر اسے باہر چھوڑ دیتی ہے۔

رستوگی کا کہنا ہے کہ جالی نے توانائی کے بلوں کو نمایاں طور پر کم کیا ہے اور ایئر کنڈیشنگ کی ضرورت کو 35 فیصد تک کم کر دیا ہے۔

دوسرے ممالک بھی جالی کے فوائد پر غور کر رہے ہیں۔

سپین کے شہر میڈر میں ہسپاسیٹ سیٹلائٹ کنٹرول سینٹر کو بھی اسی طرح شمسی تابکاری کو کنٹرول کرنے اور اندرونی راحت کو بڑھانے کے مقصد سے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس کی جالی کے سوراخ تین مختلف موٹائی پیش کرتے ہیں جو روشنی کو فلٹر کرنے اور سورج کی چکاچوند کو کم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔

عمارت کو ڈیزائن کرنے والی فرم سٹوڈیو ہیررز کے معمار اور بانی پارٹنر جوآن ہیریرز کہتے ہیں کہ 'آگے کے حصے کو دوسری جلد کے ساتھ پورا کیا گیا ہے جو کہ پانچ ایم ایم موٹی دھات کی چادر ہے۔۔۔ سفتہ کاری کا زاویہ سورج کی روشنی کی ضرورت کے تحت بدلتا رہتا ہے تاکہ آرامدہ روشنی آتی رہے۔'

انھوں نے مزید کہا کہ عمارت اور جالی کے درمیان ایک میٹر (3 فٹ) کا فاصلہ سایہ دار اور ہوا دار چیمبر والا اثر پیدا کرتا ہے۔ اور 'دو جلدوں کے درمیان کی جگہ وینٹیلیشن کی راہداری کے طور پر کا کام کرتی ہے۔

تکنیکی ترقی نے جالی کو پہلے سے زیادہ فعار اور کارگر بنا دیا ہے۔ بایومیمیکری یعنی فطرت سے متاثر ہو کر غیر حیاتیاتی نظام تیار کرنے کی سائنس یا حیاتیات کی نقل سے اخذ کرتے ہوئے فعال جالی کے فیکیڈ کا مقصد فطرت میں پائے جانے والے حرارت سے موافقت پیدا کرنے کے طریقوں کی نقل کرنا ہے۔ انسانی جلد کی ساخت سے متاثر ہو کر عمارتوں کے یہ فیکیڈ ہزاروں سوراخوں کے ذریعے سانس لینے میں مدد کر رہے ہیں

ابوظہبی کی شدید صحرائی دھوپ میں موجود البحر ٹاورز

ابوظہبی کی شدید صحرائی دھوپ میں موجود البحر ٹاورز اس فعال فیکیڈ کی مثال ہے۔ یہ برطانیہ کے ایڈاس آرکیٹیکٹس کی جانب سے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

ان ٹاورز میں ایک حساس 'ذہین' فیکیڈ ہے جو درجہ حرارت کے لحاظ سے کھلتا اور بند ہوتا ہے۔ یہ ڈیزائن جالی اور مشربیہ سے اشارے لیتا ہے۔ واضح رہے کہ مشربیہ عرب دنیا میں جالی کا متبادل ہے اور اس میں عام طور پر لکڑی کا استعمال کیا جاتا ہے۔

انجینئرنگ کنسلٹنسی اروپ کے سابق ڈائریکٹر جان لائل کھلنے کی تکنیک پر مشورہ دیتے ہیں۔

انھوں نے کہا: 'مشربیہ ایک نیا نظام ہے جو عمارت پر براہ راست سورج کی روشنی کی مقدار کو تقریباً 20 فیصد کم کرتا ہے۔ موٹرائزڈ مشربیہ عمارت میں بالواسطہ قدرتی روشنی کے مطابق کھلتا اور بند ہوتا ہے۔'

ڈائنامک یا حرکی سکرین کو عمارت سے دو میٹر (6.6 فٹ) دور رکھا گیا ہے اور چمک کو کم کرنے اور دن کی روشنی کے دخول کو بہتر بنانے کے لیے سورج کی گردش کا جواب دینے کے لیے پروگرام کیا گیا ہے۔

جیسے جیسے سورج کی پوزیشن بدلتی ہے، پورا مشربیہ سایہ فراہم کرنے کے لیے اس کے ساتھ چلتا ہے۔ اروپ کے مطابق ڈیزائن کے نتیجے میں کاربن کے اخراج میں 40 فیصد کمی ہوئی ہے۔

اگرچہ جالی کی بحالی کا تجربہ کیا جا رہا ہے، لیکن اس بارے میں خدشات موجود ہیں کہ آیا فیکیڈ کے سوراخ مکینوں کو کیڑوں مکوڑوں سے کافی محفوظ رکھتے ہیں۔ اور کیا اس سے بچنے کے لیے جالی کے سامنے شیشے یا کیڑوں کی سکرین رکھی جا سکتی ہے۔

کیا یہ فن تعمیر پائیدار حل ہے؟

دریں اثنا حرکت پذیر یا کائنیٹک فیکیڈ کے ڈیزائن اور فیبریکیشن کے عمل کے لیے اکثر زیادہ وقت درکار ہوتا ہے اور یہ مہنگے بھی ہوتے ہیں کیونکہ ان میں تکنیکی سرمایہ کاری شامل ہوتی ہے۔

تاہم اس کے فوائد مزید دریافتوں کے لیے ایک دروازہ کھولتے ہیں تاکہ توانائی کا بہتر سے بہتر استعمال کیا جا سکے۔

جدید تعمیرات کے لیے سنگ مرمر جیسے روایتی تعمیراتی مواد کا استعمال قابل عمل یا سستا نہیں ہو سکتا اور ایک ہی میٹیریل تمام موسموں کے مطابق نہیں ہو سکتا۔

آج کل زیادہ تر جالیاں درمیانی کثافت والے فائبر بورڈ، کنکریٹ، اینٹوں، لکڑی، پتھر، پی وی سی یا پلاسٹر سے بن رہی ہیں۔

خشک علاقوں میں نمی کو برقرار رکھنے کے لیے لکڑی کے ریشوں جیسے مواد کو استعمال کیا جاتا ہے۔ پودوں کے ذریعے بخارات کی منتقلی کے اسی طرح کے عمل کی نقل میں رات کے وقت جالی سوراخوں سے گزرنے والی ٹھنڈی ہوا کی نمی کو جذب کر لیتی ہے اور دن کے وقت جب ہوا میں گرمی بڑھتی ہے تو اس جذب نمی کو چھوڑتی ہے۔

جالیوں کی مختلف آب و ہوا میں کارکردگی میں بھی مختلف ہوتی ہے، مطلب یہ ہے کہ سکرین کا ڈیزائن، جیومیٹریز، سوراخ، شکل اور میٹیریئل کو آب و ہوا کے حالات کے مطابق ہونا چاہیے۔

تمام حالات کوئی ایک ہی سائز کا حل نہیں ہے۔ مثال کے طور پر گرم خشک آب و ہوا میں بہتر تھرمل سکون کے لیے 30 فیصد سوراخوں سے بنے اور دس سیٹی میٹر (چار انچ) گہرائی والے جالی کے سکرینز مناسب ہیں جبکہ گرم مرطوب آب و ہوا میں سوراخ کے تناسب کو بڑھانے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

بہر حال رستوگی کا کہنا ہے کہ ان کمیوں کے باوجود جالیاں قدرتی روشنی اور وینٹیلیشن فراہم کر کے توانائی سے بھرپور عمارتیں بنانے میں مدد کرتی ہیں۔

وہ کہتے ہیں: 'روایتی جالی کی تکنیک ماحولیاتی اور اقتصادی طور پر قابل عمل فن تعمیر کی کلید ہیں۔ پائیداری ایک اضافی حصہ نہیں ہے، اسے زندگی گزارنے کا ایک طریقہ ہونا چاہیے۔'

 

 

 


ایران کے شہر یزد کے ایک رہائشی صابری نے کہا کہ ان کے یہاں پانی والے ایئرکنڈیشنر بھی ہیں لیکن انھیں قدرتی اے سی میں بیٹھنا پسند ہے کیونکہ یہ انھیں پرانے دنوں کی یاد دلاتے ہیں۔

صابری کے قدرتی ایئر کنڈیشنر سے مراد ان کا 'بادگیر' ہے۔ وہ کہتے ہیں: 'ہم اسی کے سائے تلے بیٹھے ہیں۔'

ریگستان میں آباد یزد شہر میں شدید گرمی پڑتی ہے اور یہاں کا درجۂ حرارت 40 ڈگری سیلسیئس سے تجاوز کر جاتا ہے اور ایسے گرم موسم میں چائے کا خیال آنا کسی عجوبے سے کم نہیں۔

لیکن بادگیر والے مکان کے آنگن بیٹھنے کے بعد تپتا سورج بھی مدھم معلوم ہوتا ہے۔

یہاں اس قدر آرام محسوس ہوتا ہے کہ اپنے میزبان کو الوداع کہنے کا خیال ہی نہیں آتا۔

یہاں بیٹھ کر آپ جب ارد گرد کی چیزوں کا مشاہدہ کرتے ہیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہزاروں سال پہلے اس گرم آب و ہوا میں انسان نے اپنی سہولت کے لیے یہ تکنیک کیونکر ایجاد کر لی تھی۔


ایران کے ہزاروں سال پرانے اے سی

بادگیر یعنی ہوا کو کھینچنے والی یہ تعمیر کسی چمنی جیسی ہے اور یہ ایران کے ریگستانی شہروں کی قدیمی عمارتوں پر بنی نظر آتی ہے۔

یہ بادگیر ٹھنڈی ہوا کو کھینچ کر عمارت کے نیچے لے جانے کا کام کرتے ہیں اور ان سے گھروں کو ٹھنڈا رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

اور ان سے گرمی کی وجہ سے خراب ہونے والی چیزوں کو بچانے کا کام بھی لیا جاتا ہے۔

تمام طرح کی تحقیق سے یہ پتہ چلا کہ بادگیر کی مدد سے درجۂ حرارت کو دس ڈگری تک کم کیا جا سکتا ہے۔

عہد قدیم میں مصر سے لے کر عرب اور بابل کی تہذیب و تمدن میں اس طرح کے فن تعمیر کی کوشش کی گئی جو موسم کی سختیوں کو دور کر سکے۔

اس طرح کی عمارتوں کو قدرتی طور پر ہوا دار بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔

اس قسم کے بادگیر یا ہوا دار عمارتیں مشرق وسطی سے لے کر مصر اور ہندو پاک میں نظر آتی رہی ہیں۔

بادگیر کس طرح تعمیر کیے جاتے ہیں؟

بادگیر عمارتوں کے سب سے اونچے حصے میں تعمیر کے جاتے ہیں۔ اس لیے ان کی دیکھ بھال بڑا چیلنج ہے۔

ان کی ٹوٹ پھوٹ کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ ایران میں کئی عمارتوں پر تعمیر بادگیر 14 ویں صدی تک کے ہیں۔

فارسی شاعر ناصر خسرو کی شاعری میں بھی اس کا ذکر کیا گیا ہے، اور ان کا زمانہ تقریباً ایک ہزار سال پہلے کا ہے۔

جبکہ مصر میں حضرت عیسیٰ سے بھی 1300 سال پرانی بعض پینٹنگز میں اس کا نمونہ نظر آیا ہے۔

ڈاکٹر عبدالمنعم الشورباغی سعودی عرب کے شہر جدہ میں قائم عفت یونیورسٹی میں فن تعمیر اور ڈیزائن کے پروفیسر ہیں۔

وہ کہتے کہ 'مشرق وسطیٰ کے ممالک سے لے کر پاکستان اور سعودی عرب تک بادگیر ملتے ہیں۔'

یہ خلافت عباسیہ کے دور کے محلوں کی مربع نما عمارتوں سے مماثل ہیں۔ اور اس قسم کے محل عراق کے اخیضر علاقے میں آٹھویں صدی میں تعمیر کیے گئے تھے۔

بادگیر کی ابتدا عرب ممالک میں ہوئی؟

ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ بادگیر کی ایجاد عرب ممالک میں ہوئی تھی اور جب عربوں نے ایران کو فتح کیا، تو ان کے ساتھ یہ فن تعمیر فارس بھی پہنچا۔

یزد شہر کی زیادہ تر عمارتوں پر بنے یہ بادگیر مستطیل ہیں اور چاروں جانب ہوا کی آمد کے لیے خانے بنے ہوئے ہیں۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہاں شش پہلو اور ہشت پہلو بادگیر بھی ملتے ہیں۔

یزد کی پرانی عمارت میں ایک کیفے کے ملازم معین کہتے ہیں کہ 'بادگیر میں ہر طرف سے آنے والی ہوا کو کھینچنے کے خانے بنے ہوتے ہیں۔ جبکہ یزد سے کچھ فاصلے پر موجود قصبے میبد کے بادگیروں میں صرف ایک جانب ہی خانے ہوتے ہیں کیونکہ وہاں ایک ہی جانب سے ہوا آتی ہے۔‘

بادگیر کی تعمیر اس حکمت کے ساتھ کی جاتی ہے کہ ماحول میں موجود ہوا کو کھینچ کر وہ نیچے کی جانب لے جائے اور ٹھنڈی ہوا کے دباؤ سے گرم ہوا عمارت سے نکل جاتی ہے۔

اس گرم ہوا کو باہر نکلنے کے لیے بادگیر کے دوسری جانب ایک کھڑکی نما جگہ کھلی چھوڑ دی جاتی ہے۔

یہاں تک کہ اگر سرد ہوا نہ بھی چل رہی ہو تو بادگیر گرم ہوا کو دباؤ بنا کر باہر نکالنے کا کام کرتا رہتا ہے جس سے گھر میں گرمی کم ہوتی رہتی ہے۔


موسم سرما اور گرما کے گھر

یزد شہر میں قاجاری دور کی کئی عمارتیں اب بھی اچھی حالت میں ہیں۔

ان میں سے ایک مشہور لریحہ ہاؤس ہے۔ انیسویں صدی میں تعمیر شدہ یہ عمارت ایرانی فن تعمیر کا شاندار نمونہ ہے۔

اس کے درمیان ایک مستطیل آنگن ہے۔ موسم گرما اور موسم سرما کے مطابق عمارت کے علیحدہ حصے ہیں۔

عمارت کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا مقصد سردیوں میں سورج کی گرمی کا زیادہ سے زیادہ استعمال اور گرمیوں میں سورج سے بچنے کی کوشش ہے۔

بادگیر اس عمارت کے گرمی والے حصے میں بنایا گیا ہے۔

بادگیر سے آنے والی ہوا ایک محراب دار روشن دان سے گزرتی ہوئی عمارت کے تہہ خانے تک جاتی ہے۔

تہہ خانے میں وہ چیزیں رکھی جاتی ہیں جو جلدی خراب ہو سکتی ہیں۔ اس عمارت کی 38 سیڑھیوں سے نيچے جائیں تو موسم گرما میں بھی سردی کا احساس ہونے لگتا ہے۔

اس حصے کو سرداب یعنی سرد پانی کہا جاتا ہے۔ یہاں سے نہروں کا پانی گزرتا ہے۔

سرد ہوا اور پانی مل کر اس حصے کو ریفریجریٹر جیسا یخ بنا دیتے ہیں۔ پہلے اس طرح کی کوٹھریوں میں برف رکھی جاتی تھی۔

آج اس طرح کا قنات کا نظام ختم ہو گیا اور اسی طرح تکنیکی ترقی کے سبب بادگیر بھی معدوم ہوتا جا رہا ہے اور اس کی جگہ اے سی نے لے لی ہے۔

یزد کے 85 سالہ باسی عباس فروغی کہتے ہیں کہ ان کے محلے میں بہت سے لوگوں نے اپارٹمنٹس میں رہنا شروع کر دیا ہے۔

'پرانے گھر یا تو خالی پڑے ہیں یا باہر سے آنے والے لوگوں کو کرائے پر دے دیے گئے ہیں۔ جو گھر بڑے اور اچھی حالت میں تھے انھیں تہران اور شیراز سے آنے والے امرا نے خرید کر ہوٹل بنا دیے ہیں۔

یزد کے پرانے محلے میں رہنے والی مسز فاروقی نے حال ہی میں اپنا گھر فروخت کیا ہے، اور وہ اب اپارٹمنٹ میں رہنے لگی ہیں۔

وہ اکثر پرانے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں: 'پہلے سارے محلے کے بچے ایک ساتھ جمع ہو کر کھیلتے تھے۔ لوگ بادگیر کے نیچے بیٹھ کر چین کا سانس لیا کرتے تھے۔ شام کے وقت وہیں کھانے اور پینے کا انتظام اور خوش گپیاں ہوتی تھیں۔‘

اب ان کے پرانے گھر میں 'رویائے قدیم' یعنی پرانے خواب کے نام سے ایک ہوٹل کھل گیا ہے۔

مسز فاروقی کہتی ہیں: 'میں اب بھی کبھی کبھی اپنے پرانے گھر جاتی ہوں۔ وہ اب اچھا نظر آتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ اسے محفوظ رکھا گیا ہے۔'

عالمی وراثت کا حصہ

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے یزد شہر کو سنہ 2017 میں عالمی ورثہ قرار دیا۔

اس کے بعد ثقافتی ورثہ انسٹی ٹیوٹ نے اسے قرض دینا شروع کیا۔

جن لوگوں نے یہاں پرانے گھر خریدے انھوں نے انسٹی ٹیوٹ کی مدد سے ان کی مرمت کی اور ان میں ہوٹل کھولے۔

اس طرح بہت سے پرانے مکان محفوظ ہو گئے۔ لیکن مقامی ٹور ایجنسی کے مالک فرید استاداں کہتے ہیں کہ اب قرض ملنا مشکل ہو گیا ہے۔

حکومت کے پاس تاریخی وراثت کی دیکھ بھال کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ پھر بھی انھیں امید ہے کہ تاریخی عمارتوں، خاص طور پر بادگیر کو بچایا جا سکتا ہے۔

چپن کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ انھیں اپنے دادا کے گھر کا موسم گرما یاد ہے جب وہ گرمی کی دوپہر بادگیر کے سائے میں گزارتے تھے۔

وہ کہتے ہیں: 'وہ اور ہی دور تھا۔ بادگیر کی ہوا آج کے اے سی کا احساس کراتی تھی۔ اے سی کیا بلا ہے ہم جانتے ہی نہیں تھے۔'

استاداں کہتے ہیں کہ جب تک یہاں سیاح آتے رہیں گے حالات بہتر رہیں گے اور سیاحت کے پیسے سے یہاں کی عمارتوں کی دیکھ بھال ہوتی رہے گی۔

’یہاں آنے والے سیاحوں کی دلچسپی قدیمی عمارتوں اور بادگیروں میں ہے اور ہمیں بھی ان کا خیال رکھنا ہے۔ امید ہے کہ ہم اس میں کامیاب ہوں گے۔‘

  Copy from BBC News urdu

 


Total Pageviews