آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں بی اے، بی کام ، ایم کام، بی بی اے، ایم بی اے اور انجینئرنگ کے شعبہ جات میں بے تحاشہ ڈگریاں اور چار چار سال تک کلاس رومز میں جی پی کے لیےخوار ہوتے لڑکے لڑکیاں کونسا تیر مار رہے ہیں؟
آپ یقین کریں ہم صرف دھرتی پر "ڈگری ذدہ" انسانوں کے بوجھ میں اضافہ کر رہے ہیں. یہ ڈگری ذدہ نوجوان ملک کو ایک روپے تک کی پروڈکٹ دینے کے قابل نہیں۔ ان کی ساری تگ و دو اور ڈگری کا حاصل محض ایک انجان نوکری ہے اور بس۔
ٹیوٹا ، ڈاہٹسو ، ڈاٹسن ، ہینو ، ہونڈا ،سوزوکی ، کاواساکی ، لیکسس ، مزدا ، مٹسوبشی ، نسان ، اسوزو اور یاماہا یہ تمام برانڈز جاپان کے ہیں. کیا، ہونڈائی اور ڈائیوو جنوبی کوریا بناتا ہے۔ جو لگژری برینڈز ہیں وہ امریکہ اور یورپ بناتا ہے اس کے بعد دنیا میں آٹو موبائلز رہ کیا جاتی ہے؟ الیکٹرونکس مارکیٹ سونی سے لے کر کینن کیمرے تک سب کچھ چین اور جاپان کے پاس ہے۔ ایل جی اور سام سنگ جنوبی کوریا سپلائی کرتا ہے۔ 2014 میں سام سنگ کا ریوینیو 305 بلین ڈالرز تھا ۔ "ایسر" لیپ ٹاپ تائیوان بنا کر بھیجتا ہے جب کہ ویتنام جیسا ملک بھی "ویتنام ہیلی کاپٹرز کارپوریشن " کے نام سے اپنے ہیلی کاپٹرز اور جہاز بنا رہا ہے۔ محض ہوا، دھوپ اور پانی رکھنے والا سنگاپور ساری دنیا کی آنکھوں کو خیرہ کر رہا ہے. دنیا میں تعمیر ہونے والا ہر اسپتال چین اور جرمنی سے اپنے آلات منگوا رہا ہے۔ خدا کو یاد کرنے کے لیے تسبیح اور جائے نماز تک ہم خدا کو نہ ماننے والوں سے خریدتے ہیں۔
دنیا کے اول درجے کے تعلیمی نظاموں میں فن لینڈ،جاپان اور جنوبی کوریا ہیں۔ انھوں نے اپنی نئی نسل کو "ڈگریوں" کے پیچھے بھگانے کے بجائے انھیں ٹیکنیکل کرنا شروع کردیا ہے۔ آپ کو سب سے زیادہ ایلیمنٹری اسکولز ان ہی ممالک میں نظر آئیں گے۔
وہ اپنے بچوں کا وقت کلاس رومز میں بورڈز کے سامنے ضائع کرنے کے بجائے انہیں حقائق کی دنیا میں لے جاتے ہیں۔ ایک بہت بڑا ووکیشنل انسٹیٹیوٹ اس وقت سنگاپور میں ہے اور وہاں بچوں کا صرف بیس فیصد وقت کلاس میں گزرتا ہے باقی اسی فیصد وقت بچے اپنے اپنے شعبوں میں آٹو موبائلز اور آئی ٹی کی چیزوں سے کھیلتے گزارتے ہیں۔
دوسری طرف آپ ہمارے تعلیمی نظام اور ہمارے بچوں کا حال ملاحظہ کریں۔ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں۔
ہم اسقدر "وژنری" ہیں کہ ہم لیپ ٹاپ اسکیم پر 200 ارب روپے خرچ کرتے ہیں لیکن لیپ ٹاپ کی انڈسٹری لگانے کو تیار نہیں ہیں ۔ آپ ہمارے "وژنری پن" کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ پوری قوم سی پیک کے انتظار میں صرف اس لیے ہے کہ ہمیں چائنا سے گوادر تک جاتے 2000 کلو میٹر کے راستوں میں ڈھابے کے ہوٹل اور پنکچر کی دوکانیں کھولنے کو مل جائیں گی اور ہم ٹول ٹیکس لے لے کر بل گیٹس بن جائیں گے۔ اوپر سے لے کر نیچے تک کوئی بھی ٹیکنالوجی ٹرانسفر کروانے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔
آپ فلپائن کی مثال لے لیں۔ فلپائن نے پورے ملک میں "ہوٹل مینجمنٹ اینڈ ہاسپٹلٹی" کے شعبے کو ترقی دی ہے۔اپنے نوجوانوں کو ڈپلومہ کورسسز کروائے ہیں اور دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ ڈیمانڈ فلپائن کے سیلز مینز / گرلز ، ویٹرز اور ویٹرسسز کی ہے ۔ حتیٰ کے ہمارا دشمن ملک بھارت تک ان تمام شعبوں میں بہت آگے جاچکا ہے۔ آئی ٹی انڈسٹری میں سب سے زیادہ نوجوان ساری دنیا میں بھارت سے جاتے ہیں جب کہ آپ کو دنیا کے تقریبا ہر ملک میں بڑی تعداد میں بھارتی لڑکے لڑکیاں سیلز مینز ، گرلز ، ویٹرز اور ویٹریسسز نظر آتے ہیں ۔ پروفیشنل ہونے کی وجہ سے ان کی تنخواہیں بھی پاکستانیوں کے مقابلے میں زیادہ ہیں. جبکہ ادھر پاکستان میں ایک "مری" ہی ہمارے لیے ناسور بن چکا ہے جہاں کے دکانداروں کو سیاحوں سے بات تک کرنا نہیں آتی۔
چینی کہاوت ہے کہ "اگر تم کسی کی مدد کرنا چاہتے ہو تو اس کو مچھلی دینے کے بجائے اسے مچھلی پکڑنا سکھا دو"۔ چینیوں کو یہ بات سمجھ آگئی کاش ہمیں بھی آجائے۔ خدارا ! ملک میں " ڈگری زدہ " لوگوں کی تعداد بڑھانے کے بجائے ہنر مند افراد پیدا کیجیے. دنیا کے اتنے بڑے "ہیومن ریسورس" کی اس طرح بے قدری مت ہونے دیجیے ورنہ انجام ہمارے سامنے ہے.
نواز چشتی
آپ یقین کریں ہم صرف دھرتی پر "ڈگری ذدہ" انسانوں کے بوجھ میں اضافہ کر رہے ہیں. یہ ڈگری ذدہ نوجوان ملک کو ایک روپے تک کی پروڈکٹ دینے کے قابل نہیں۔ ان کی ساری تگ و دو اور ڈگری کا حاصل محض ایک انجان نوکری ہے اور بس۔
ٹیوٹا ، ڈاہٹسو ، ڈاٹسن ، ہینو ، ہونڈا ،سوزوکی ، کاواساکی ، لیکسس ، مزدا ، مٹسوبشی ، نسان ، اسوزو اور یاماہا یہ تمام برانڈز جاپان کے ہیں. کیا، ہونڈائی اور ڈائیوو جنوبی کوریا بناتا ہے۔ جو لگژری برینڈز ہیں وہ امریکہ اور یورپ بناتا ہے اس کے بعد دنیا میں آٹو موبائلز رہ کیا جاتی ہے؟ الیکٹرونکس مارکیٹ سونی سے لے کر کینن کیمرے تک سب کچھ چین اور جاپان کے پاس ہے۔ ایل جی اور سام سنگ جنوبی کوریا سپلائی کرتا ہے۔ 2014 میں سام سنگ کا ریوینیو 305 بلین ڈالرز تھا ۔ "ایسر" لیپ ٹاپ تائیوان بنا کر بھیجتا ہے جب کہ ویتنام جیسا ملک بھی "ویتنام ہیلی کاپٹرز کارپوریشن " کے نام سے اپنے ہیلی کاپٹرز اور جہاز بنا رہا ہے۔ محض ہوا، دھوپ اور پانی رکھنے والا سنگاپور ساری دنیا کی آنکھوں کو خیرہ کر رہا ہے. دنیا میں تعمیر ہونے والا ہر اسپتال چین اور جرمنی سے اپنے آلات منگوا رہا ہے۔ خدا کو یاد کرنے کے لیے تسبیح اور جائے نماز تک ہم خدا کو نہ ماننے والوں سے خریدتے ہیں۔
دنیا کے اول درجے کے تعلیمی نظاموں میں فن لینڈ،جاپان اور جنوبی کوریا ہیں۔ انھوں نے اپنی نئی نسل کو "ڈگریوں" کے پیچھے بھگانے کے بجائے انھیں ٹیکنیکل کرنا شروع کردیا ہے۔ آپ کو سب سے زیادہ ایلیمنٹری اسکولز ان ہی ممالک میں نظر آئیں گے۔
وہ اپنے بچوں کا وقت کلاس رومز میں بورڈز کے سامنے ضائع کرنے کے بجائے انہیں حقائق کی دنیا میں لے جاتے ہیں۔ ایک بہت بڑا ووکیشنل انسٹیٹیوٹ اس وقت سنگاپور میں ہے اور وہاں بچوں کا صرف بیس فیصد وقت کلاس میں گزرتا ہے باقی اسی فیصد وقت بچے اپنے اپنے شعبوں میں آٹو موبائلز اور آئی ٹی کی چیزوں سے کھیلتے گزارتے ہیں۔
دوسری طرف آپ ہمارے تعلیمی نظام اور ہمارے بچوں کا حال ملاحظہ کریں۔ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں۔
ہم اسقدر "وژنری" ہیں کہ ہم لیپ ٹاپ اسکیم پر 200 ارب روپے خرچ کرتے ہیں لیکن لیپ ٹاپ کی انڈسٹری لگانے کو تیار نہیں ہیں ۔ آپ ہمارے "وژنری پن" کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ پوری قوم سی پیک کے انتظار میں صرف اس لیے ہے کہ ہمیں چائنا سے گوادر تک جاتے 2000 کلو میٹر کے راستوں میں ڈھابے کے ہوٹل اور پنکچر کی دوکانیں کھولنے کو مل جائیں گی اور ہم ٹول ٹیکس لے لے کر بل گیٹس بن جائیں گے۔ اوپر سے لے کر نیچے تک کوئی بھی ٹیکنالوجی ٹرانسفر کروانے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔
آپ فلپائن کی مثال لے لیں۔ فلپائن نے پورے ملک میں "ہوٹل مینجمنٹ اینڈ ہاسپٹلٹی" کے شعبے کو ترقی دی ہے۔اپنے نوجوانوں کو ڈپلومہ کورسسز کروائے ہیں اور دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ ڈیمانڈ فلپائن کے سیلز مینز / گرلز ، ویٹرز اور ویٹرسسز کی ہے ۔ حتیٰ کے ہمارا دشمن ملک بھارت تک ان تمام شعبوں میں بہت آگے جاچکا ہے۔ آئی ٹی انڈسٹری میں سب سے زیادہ نوجوان ساری دنیا میں بھارت سے جاتے ہیں جب کہ آپ کو دنیا کے تقریبا ہر ملک میں بڑی تعداد میں بھارتی لڑکے لڑکیاں سیلز مینز ، گرلز ، ویٹرز اور ویٹریسسز نظر آتے ہیں ۔ پروفیشنل ہونے کی وجہ سے ان کی تنخواہیں بھی پاکستانیوں کے مقابلے میں زیادہ ہیں. جبکہ ادھر پاکستان میں ایک "مری" ہی ہمارے لیے ناسور بن چکا ہے جہاں کے دکانداروں کو سیاحوں سے بات تک کرنا نہیں آتی۔
چینی کہاوت ہے کہ "اگر تم کسی کی مدد کرنا چاہتے ہو تو اس کو مچھلی دینے کے بجائے اسے مچھلی پکڑنا سکھا دو"۔ چینیوں کو یہ بات سمجھ آگئی کاش ہمیں بھی آجائے۔ خدارا ! ملک میں " ڈگری زدہ " لوگوں کی تعداد بڑھانے کے بجائے ہنر مند افراد پیدا کیجیے. دنیا کے اتنے بڑے "ہیومن ریسورس" کی اس طرح بے قدری مت ہونے دیجیے ورنہ انجام ہمارے سامنے ہے.
نواز چشتی
No comments:
Post a Comment