October 24, 2020

EOBI. ( Employyes OldAgePension )Announcement For those who have reached the age of Pension

 

 ایمپلائز اولڈ  ایج  بینی فٹس انسٹی ٹیوشن 

ای ۔او۔ بی۔ آئی۔کی جانب سے بڑی خوشخبری

ایسے افراد جن کی عمر 60 سل سے زائد ہو چکی ہے اور وہ  ای او بی آئی میں رجسٹرڈ ہیں۔ اگر انھوں نے ابھی تک پنشن کے لئے  درخواست جمع نہیں کروائی اُن کے لئے موقع  ہے ۔ وہ اپنی درخواست جمع کروا  سکتے ہیں۔ 

 



 

October 23, 2020

HUMAN MEDICAL FITNESS PARAMETERS

 

 MEDICAL FITNESS_

BLOOD PRESSURE
          ----------
120/80 --  Normal
130/85 --Normal  (Control)
140/90 --  High
150/95 --  V.High
----------------------------

           PULSE
          --------
72  per minute (standard)
60 --- 80 p.m. (Normal)
40 -- 180  p.m.(abnormal)
----------------------------

          TEMPERATURE
          -----------------
98.4 F    (Normal)
99.0 F Above  (Fever)

BLOOD GROUP COMPATIBILITY

What’s Your Type and how common is it?

O+       1 in 3        37.4%   (Most common)

A+        1 in 3        35.7%

B+        1 in 12        8.5%

AB+     1 in 29        3.4%

O-        1 in 15        6.6%

A-        1 in 16        6.3%

B-        1 in 67        1.5%

AB-     1 in 167       0.6%    (Rarest)


Compatible Blood Types

O- can receive O-

O+ can receive O+, O-

A- can receive A-, O-

A+ can receive A+, A-, O+, O-

B- can receive B-, O-

B+ can receive B+, B-, O+, O-

AB- can receive AB-, B-, A-, O-

AB+ can receive AB+, AB-, B+, B-, A+,  A-,  O+,  O-

This is an important msg which can save a life! A life could be saved...
What is ur blood group ?


EFFECT OF WATER                  
 We Know Water is
       important but never
       knew about the
       Special Times one
       has to drink it.. !

       Did you know ?

  Drinking 1 Glass of Water at the Right Time Maximizes its effectiveness on the  Human Body;

         1 Glass of Water
              after waking up -
              helps to
              activate internal
              organs..

         1 Glass of Water
              30 Minutes   
              before a Meal -
              helps digestion..

        1 Glass of Water
              before taking a
              Bath  - helps
              lower your blood
              pressure.

        1 Glass of Water
              before going to
              Bed -  avoids
              Stroke  or Heart
              Attack.

      'When someone
       shares something of
       value with you and
       you benefit from  it,
       You have a moral
       obligation to share

October 04, 2020

Technical Education, Finish un-employment, انڈسٹری کو ترقی دینے کے لئے ہنر مند افراد کی تیاری بہت ضروری ہے۔

   تقدیر بدلنے کا نسخہ

          ایک بوائلر بنانے والے دوست کی ورکشاپ میں جانا ہوا. کوریا سے درآمدہ استعمال شدہ  بوائلرز قطار اندر قطار پڑے تھے. بہت سا سازوسامان دیواروں کے ساتھ بے ترتیب بکھرا پڑا تھا. پوچھا اس قدر کارآمد، بیش قیمت اشیاء یوں پراگندہ حال کیوں پڑی ہیں. کہنے لگے صاحب کوئی کاریگر ہی نہیں ملتا کہ ان کو ٹھیک ٹھاک کرکے الماریوں میں لگائیں.

     ایک بڑے سے بوائلر کے پاس دوتین لوگ کام کررہے تھے. پوچھا یہ کاریگر تو ہیں. کہنے لگے نہیں یہ آٹومیشن والےہیں، پی ایل سی (ایک طرح کا کمپیوٹر سمجھ لیں جو آجکل ہو مشین کے ساتھ لگا ہوتا ہے جو اس کو خودکار انداز میں چلنے کیلئے ہدایات دیتا ہے) ٹھیک کرنے کیلئے آئے ہیں. یہ بھی چند کاریگر ہیں بہت بار فون کرنے پر اور بہت منت سماجت کرنے پر آتے ہیں.

        کہنے لگے اب اپنے بچے کو ساتھ لیکر آیا ہوں کہ یہ خود پی ایل سی کا کام سیکھ لے اور کچھ محتاجی ختم ہو، مگر کوئی اس کو کام سکھانے پر آمادہ ہی نہیں. عرض کیا حضور نظام کو سمجھیں جس نے خود آدھی زندگی خرچ کرکے بمشکل تمام ایک کام سیکھا ہے وہ بھلا کیوں آسانی سے کسی کو سکھائے گا. یہ کام تو تعلیمی اداروں کے کرنے کے ہیں. جہاں سے ہمیں ہر میدان کے وافر ہنر مند ملنا چاہیے مگر وہاں تو سب ایف اے ایف ایس سی مشغول ہیں. اس کے بعد بے اے کریں گے پھر پکوڑوں کی ریڑھی لگا کر سماجی ذرائع پر تصاویر لگائیں گے کہ ایم. پاس بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے پکوڑے بیچ رہا.

       بھائی کس نصاب حیات میں درج ہے کہ ہر شخص نے ضرور ہی میٹرک ، ایف اے، بی اے کرنا ہے. ٹیکنیکل کورسز کرو. ہنرسیکھو توجہ اور شوق سے کام کرو عزت سے روزگا کماؤ.

      وزیراعظم صاحب اگلے روز فرما رہے تھے کہ سب ایکسپورٹ کے پیچھے پڑ جاؤ. حضور سپنے ایکسپورٹ نہیں ہوتے. کارآمد اشیاء ہوتی ہیں. اور ان کو بنانے کیلئے ہنرمند ہاتھ چاہئیں. آپ پرائمری مڈل تعلیم سب پر لازم کریں اس میں انہیں، اخلاقیات مذہب، معاشرت اور خوراک کے متعلق ضروری تربیت کے بعد ساٹھ فیصد سے کم نمبر والوں کو کام سیکھنے پر لگائیں.  ہر ہائی سکول اس کے ضلع کی انڈسٹری کے حساب سے دوسال کے کورسز کروائے. جہاں پوری نیک نیتی سے انہیں مکمل ہنرمندی سکھائی جائے. فیکٹری میں کام کرنے کی عمر کی حد اٹھارہ سال سے کم کرکے پندرہ سال کریں. اور سکول سے نکلنے والا ہر ہنرمند پہلے روز کسی فیکٹری میں کم از کم بیس ہزار پر ملازم ہو.

      فیکٹریاں لگانے والوں کو یہ فکر نہ ہو کہ  مشینیں توخرید لیں گے کاریگر کہاں سے آئیں گے، ماں باپ کو یہ دباؤ نہ  ہو کہ بچہ کام تو سیکھ لے گا نوکری کہاں ملے گی. جی چاہتا ہے فی الفور ایک ایسا سکول بنادوں، مگر ابھی وسائل کی کمی آڑے آتی ہے. مگر کوئی دن جاتا ہے کہ انشاء اللہ اس کا آغاز کریں گے. آپ بھی غور کریں اگر بات منطقی لگے تو ارباب اختیار تک پہنچانے میں مدد کریں. کہ جہاں کورسز پر کام کررہے ہیں وہاں سکولوں کا نظام کو بھی ایک باربدل ہی  دیں. کہ شاید وطن عزیز کی تقدیر بدل جائے.

                            (ابن فاضل)


October 02, 2020

GOAT FARMING & BASIC FAULTS , بکریوں کی فارمنگ اور بنیادی غلطیوں کا ابتدا سے ہی ازالہ

 

بکریوں کی فارمنگ اور بنیادی غلطیوں کا ابتداء سے ہی ازالہ
کچھ سالوں سے بکریوں کا فارم بنانے کا رحجان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ جس کی وجہ سے اکثر ہمارے دوست اس فیلڈ میں آ رہے ہیں۔ اور لائف سٹاک میں یہ اچھا شگون ہے۔ دیار غیر میں یہ کام جا کر کرنا ہے تو کیوں نہ اپنے ملک میں رہ کر کیا جائے جس سے ملک کے زر مبادلہ میں بھی اضافہ ہوگا اور ملک میں لحمیات کی کمی بھی دور ہوگی۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کونسی نسل کا فارم بنایا جائے۔ تو میرا آپ تمام نئے بکریوں کے فارمر کو مشورہ ہے کہ اپنے مخصوص علاقے کی بریڈ پالی جائے۔ بکری بنیادی طور پر ایک نازک جانور ہے۔ تھوڑا سا موسم کا مزاج بدلہ نہیں اور بکری بیمار ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ تو میرے تجربے میں جو پندرا بیس فارم آئے ہیں وہ مکمل ناکامی کا شکار ہوئے ہیں۔ تمام تر حفاضطی تدابیر کے باوجود وہ تمام فارم نقصان کا باعث ہوئے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ دوسرے علاقے کی نسل کو اپنے علاقے میں لے کے آنا ہے۔ اور یہ اصول تمام نسلوں پے لاگو ہوتا ہے۔ مثلاً میرے ایک دو جاننے والوں نے راجن پوری نسل لے آئے تھے اپر پنجاب اور وسطی پنجاب میں ۔ایک بھائی کے ڈیڑھ سو جانور تھے جو اس علاقے کے موسم سے مطابقت نہ رکھنے کی وجہ سے ہلاک ہوگئے۔ اسی طرح دوسرے دوست نے 85 جانور ہلاک کروائے۔ ایک اور گوجرانولا کا فارمر ہے جس نے ہر چیز سائنسی طریقے سے سیٹ کی ہوئی تھی اور حتٰی کہ ویٹنری ڈاکٹر بھی باہر کا رکھا ہوا تھا۔ پرسوں اس کے فارم پے وزٹ کیا ہے تو 200 میں سے پچیس جانور بچے ہوئے تھے۔ اور اسی طرح پندرا بیس اور بھی ہیں جو راجن پوری سفید بکریوں کا نقصان کر چکے ہیں۔ تو میرے سینیئر ڈاکٹرز اور فیصل آباد زرعی یونیورسٹی کے ماہرین کی مشترکہ رائے یہی ہے کہ اس علاقے کی لوکل بریڈ کو زیادہ ترجیح دی جائے اگر نقصان سے بچنا ہے۔ پاکستان کی تمام نسلوں میں راجن پوری بیتل سفید زیادہ خوبصورت مانی جاتی ہے اور سب سے زیادہ نازک بھی یہی بریڈ ہے۔ یہ بریڈ صرف ڈی جی خان راجن پور اور مظفر گڑھ تک کامیاب ہے۔ اس سے آگے یا پیچھے یہ نسل جائے گی تو بکریوں فارمر کا نقصان کرے گی۔ اس نسل کی بیماری کے خلاف قوت مدافعت انتہائی کم ہے۔ اپنی پتلی چمڑی کی وجہ سے یہ نسل بہت جلد موسمی اثرات قبول کرتی ہے۔ اور اگر ملتان اور گھوٹکی تک اس نسل کو مصنوعی ماحول دیکر کچھ عرصہ برقرار بھی رکھتے ہیں تو جانور ویسا قد کاٹھ نہیں بنائے گا جس طرح وہ اپنے آبائی علاقے میں بناتے ہیں۔
دوسری بھائیوں کی بھلائی کے واسطے آگے شیئر کریں تاکہ کوئی دوسرا بھائی لا علمی کی وجہ سے عمر بھر کی کمائی کا نقصان نہ کر بیٹھے۔ ہو سکتا ہے وہ پتا نہیں کیا کیا چیز گھر کا بیچ کر یا گھر کے ضروری فرائض کو کچھ وقت کے لیے پینڈنگ کر کے یہ شوق کر رہا ہو اور نہ سمجھی میں نہ اِدھر کا رہے اور نہ اُدھر کا رہے۔ چالاک بیوپاری جو آجکل سوشل میڈیا پے چھائے ہوئے ہیں ، کبھی بھی یہ نہیں بتائیں گے کہ کون سی نسل کس علاقے کے لیے مخصوص ہے۔ ان کو اپنے نفع سے غرض ہے ۔ باقی ان کی بلا سے کسی کی منجی ٹُھک جائے۔ بکریوں کی فارمنگ ضرور کریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسمیں منافع کافی ہے بشرطیکہ لوکل بریڈ کا فارم ہو۔ یہ پیغمبری پیشہ ہے ۔منافع کی تو یقیناً گارنٹی ہے۔ لیکن جو تحفظات اوپر بیان کیے ہیں ان کو مدِنظر رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ شیِر کریں۔ آپ کی یہ چھوٹی سی کوشش کسی کا گھر برباد ہونے سے بچا سکتی ہے۔
وطن عزیز پاکستان میں دن بدن کھلی جگہوں کی کمی ہورہی ہے، اور بکریوں فارمنگ جو کبھی فری آف کاسٹ چرائی کا نظام تھا وہ ختم ہورہا ہے۔ آبادی کے بڑھنے کے ساتھ گوشت کی طلب میں بھی دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ روایتی طریقےسے گوشت کی پیداوار خاطر خواہ نہیں بڑھائی جاسکتی ۔
ایک مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان گوشت برآمد کرنے والے ممالک میں 19 نمبر پر آتے ہیں۔ لیکن بکریوں کی تعداد کے حوالے سے چین، انڈیا کے بعد تیسرے نمبر پر آتا ہے۔ وطن عزیز پاکستان میں بھیڑ بکری کے گوشت کی بہت زیادہ طلب ہے، جس کو پورا کرنے میں بکریوں فارمنگ بہت اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
بکریوں فارمنگ کوئی ایسا مشکل کام نہیں ہے، جس کے لیے کسی یونیورسٹی کی ڈگری کی ضرورت ہو، رات کو جاگ جاگ کر پڑھنا پڑھتا ہو، بکریوں فارمنگ ہر وہ انسان کر سکتا ہے ، جو اپنے اور اپنے خاندان کے لیے حلال کی روزی کمانا چاہتا ہو
یہ درست یہ کہ بکریوں فارمنگ دیہاتی پیشہ ہے۔ اور دیہات میں رہنے والے بکریوں پروڈکشن سے اپنے لیے مناسب آمدن حاصل کرسکتے ہیں۔ اور شہروں میں رہنے والے حضرات بکریوں مارکیٹنگ سے اپنے لیے مناسب آمدن حاصل کرسکتے ہیںِ ۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ بکریوں کی فارمنگ کن لوگوں کے لیے باعث منافع ہے؟
بکریوں فارمنگ ان لوگوں کے بہت منافع کا باعث ہے جو دیہات میں رہائش پذیر ہیں۔
ان کے پاس فارمنگ کے لیے تین سے پانچ ایکڑ زمین موجود ہے، یا ابتدائی طور ایک سے دو ایکڑ زمین مناسب سالانہ کرائے یا ٹھیکہ پر حاصل کرسکتے ہیں۔
ابتدائی پر دس سے پندرہ ٹیڈی بکریاں خرید سکتے ہیں۔ ایک سال تک ان کو چارہ اور بوقت ضرورت ونڈا کھلا سکتے ہیں۔ وقت ڈی ورمنگ اور حفاظتی ٹیکہ جات لگوا سکتے ہیں۔
جانوروں کی جگہ کو صآف اور خشک رکھھ سکتے ہیں۔ دن میں دو سے تین گھنٹے کے لیے چرائی یا چہل قدمی کروا سکتے ہیں۔ دو سے تین کنال گوارہ اور جنتر لگا سکتے ہیں۔ ہر چھ ماہ کے بعد نر جانوروں کو مناسب قیمت پر لوکل سطح پر فروخت کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔
اگر مندرجہ بالا نکات کو ایک منصوبہ کے تحت اختیار کیا جائے تو بکریوں فارمنگ منافع بخش ہے۔
وہ دوست جو لائیوسٹاک فارمنگ کے شعبہ میں آنے چاہتے ہیں۔ اور ایک اچھا فارمر بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اور ساتھ نقصان سے ڈرتے بھی ہیں تو بکریوں فارمنگ ان کو بہترین تربیت حاصل کرنے کا موقع دیتا ہے۔ کہ ایسے دوست جو دیہات کی سطح پر فارمنگ کرنا چاہتے ہیں اور ان کے پاس دو سے تین لاکھ روپے سرمایہ اور دو سے تین ایکڑ زمین اور وقت اور شوق ہے تو وہ بکریوں فارمنگ سے اپنے کام کی ابتداء کریں۔ اور ابتداء میں ایسی دس سے بیس بکریاں خرید لیں جو سال میں دو دفعہ بچے دیتی ہوں۔ ان کے بچے ہر چھ ماہ فروخت کرتے جائیں۔
ٹیڈی بکریوں کی عمر عام طور پر چھ سے سات سال ہوتی ہے۔ اور اپنی زندگی میں اوسط چودہ بچے جنم دیتی ہے۔ چھ سال کے بعد بکری بوڑھی ہوجاتی ہے۔ اس کی جگہ نئی جوان بکری لے آنی چاہیے ۔ اگر ہر چھ ماہ نر بکرے فروخت کرتے جائیں اور مادہ کو اپنے پاس رکھتے جائیں تو دوسرے چھ ماہ میں پہلے چھ ماہ میں جنم لینے والی مادہ بھی ماں بن جائے گی، اور فارم میں جانوروں کا اضافہ ہوگا۔
مارکیٹ میں ٹیڈی نسل کے جانور عام گوشت کی مارکیٹ میں فروخت کئے جاتے ہیں۔ اور عام گوشت کی مارکیٹ میں جانور پندرہ کلو وزن تک فروخت ہوتا ہے۔ اور سودا بازی سے مناسب قمیت پر فروخت کیا جاسکتا ہے۔ عام طور پندرہ کلو کا جانور تین سو ساڑھے تین سو روپے فی کلو زندہ فروخت ہوتا ہے۔ اگر جانور کو وافر مقدار میں چارہ ، وقت پر ڈی وارمنگ ، حفاظتی ٹیکہ جات اور اچھی مینجمنٹ کی جائے تو پندرہ کلو وزن چار ماہ کے اندر باآسانی کرلیتے ہیںِ اور چھ ماہ کے اندر بیس سے پچیس کلو وزن ہوجاتا ہے۔ جو کہ اچھی قیمت دیتا ہے۔
ٹیدی نسل کے جانور پالنے میں کم محنت ، کم سرمایہ لگتا ہے۔ اگر بکریوں سے بچے حاصل کرکے فروخت کئے جائیں تو پھر بھی منافع ہوتا ہے۔
عام طور پر ہمارے ذہنوں میں تیس ہزار ، چالیس ہزار بکرے کی قیمت ہوتی ہے۔ کہ اس قمیت پر بکے تو منافع ہے اور ہم سوچتے ہیں کہ جی اگر دس بکرے بھی فروخت کئے تو چار لاکھ تو بن جائیں گئے۔ تیس چالیس ہزار خالص نسل کے بکروں کی قیمت لگتی ہے جن کا قد، رنگ، وزن زیادہ ہوتا ہے۔ اور ان کو پالنے کے اخراجات کافی زیادہ ہوتے ہیں
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ خالص نسل کے جانور بہت نخریلے ہوتے ہیں۔ اگر چارہ، ونڈا ان کی مرضی کے مطابق نہ ہو تو یہ کھانے سے انکار کر دیتے ہیں۔ اگر ان کی ڈی ورمنگ ، حفاظتی ٹیکہ جات اور موسم کی شدت سے بچاو کا انتظام نہ کیاجائے تو لینے کے دینے پڑ جاتے ہیںِ ۔ اس لیے اگر بکریوں فارمنگ کے کم از کم دو سال بعد نسلی بکروں کو پالا جائے تو پھر مناسب منافع ملتا ہے۔
اس کے برعکس ٹیڈی بکری کے بچے بہت تعاون کرنے والے ہوتے ہیںِ ۔ ان کو جو بھی ملے وہ کھا لیتے ہیں۔ اور ٹیڈی نسل کے بکروں کو اچھے چارے پر بھی پالا جاسکتا ہے۔ اور ونڈے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ اگر گھر میں بچی ہوئی روٹیوں کو گیلی کرکے باریک توڑی میں مکس کرکے کھلا دی جائیں تو پھر بھی ونڈے کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے۔ کہنے کا مقصد یہ کہ جو دوست بکریوں فارمنگ کرنا چاہتے ہیں تو وہ ابتداء ٹیڈی بکریوں سے کریں۔ اس سے کم محنت ، کم سرمایہ سے ایک سے دو سال میں اچھا خاصا جانوروں کی تعداد میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ جس سے اچھی نسل کے کم عمر بکرے ہر سال اچھی منڈی سے خرید کر ان کی پرورش کرکے عید قربان پر فروخت کرسکتے ہیں۔
قربانی کے جانور اپنے علاقے کی معاشی صورتحال کے مطابق قیمت دیتے ہیں۔ پنجاب کے دیہی علاقوں میں زیادہ تر بیس سے پچیس ہزار تک ہی کے جانور خریدے جاتے ہیںِ ۔شاذونادر ہی چالیس سے پچاس ہزار تک کا جانور خریدا جاتا ہے۔ چھوٹے شہروں میں پچیس سے تیس ہزار تک کا جانور خریدا جاتا ہے۔ جبکہ بڑے شہروں میں پنتیس سے چالیس تک کا جانور خرید جاسکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایک اچھی نسل کو وی آئی پی طریقے سے پالنے پر دس ہزار سے بارہ ہزار روپے خرچہ ایک سال کے اندر آتا ہے۔
اس لیے بکریوں فارمنگ شروع کرنے سے پہلے فروخت کے لیے علاقے کی معاشی صورتحال کا جائزہ لینا بھی بہت ضروری ہے۔ کہ لوگ مہنگا جانور خرید سکتے بھی ہیں یا نہیں۔ عام طور بکریوں فارمنگ میں ٹیڈی بکری کا کراس بتیل بکرے سے کروا لیا جاتا ہے ۔ اور اس سے حاصل ہونے والا جانور ٹیڈی جانور سے قد میں تھوڑا بڑا لیکن بتیل سے کم ہوگا۔ اور ایسا جانور دوغلا کہلاتا ہے۔ یہ جانور مناسب قیمت پر فروخت ہوجاتا ہے۔ اور ایسے جانور کو پالنے پر زیادہ اخراجات بھی نہیں آتے
اگر آپ کے پاس اپنی ذاتی زمین ہے اور مناسب سرمایہ ہے اور وقت ہے تو پھر یہ کام شوق سے کریں۔ اگر زمین اور سرمایہ تو ہے لیکن خود کوئی نوکری یا کاروبار کرتے ہیں تو پھر ایسے ملازم کا انتخاب کریں جو کام چھوڑ کر نہ بھاگے۔ زمینداری کے کاموں میں ورکر کا ہر وقت موجود ہونا بہت ضروری ہے، ورکر آپ کے فارم کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حثیت رکھتا ہے۔ اگر کسی وقت ورکر بھاگ جائے اور آپ خود فارم پر کام نہ کرسکیں تو پھر سمجھیں کام ختم ، سرمایہ خلاص
اگر آپ اپنے فارم پر خود کام کریں تو اس سے اچھی بات اور کوئی نہیں۔ جس آپ کا تجربہ بھی بڑھے گا، اور ذہنی سکون بھی رہے گا ، اور اچھا منافع بھی حاصل ہوگا۔
بکریوں فارمنگ پارٹ ٹائم فارمنگ نہیں یہ فل ٹائم فارمنگ ہے۔ جو دوست بکریوں فارمنگ کی طرف آنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے بکریوں فارمنگ کی روٹین کو سمجھیں ، بکریوں فارمنگ کی ضروریات کو سمجھیں پھر اس پر خوب خوب سوچیں۔ سیانے کہتے ہیں کہ جو بھی کام کیا جاتا ہے اس کی کامیابی نسلوں کو سنوار دیتی ہے۔ اگر آپ فارمنگ میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس کوپندرہ سے بیس سالوں میں زیادہ سے زیادہ بڑھا لیتے ہیں۔ آج آپ نے دس سے بیس جانوروں سے آغاز کیا ، اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے ، اور اس کاروبار میں اضافے کے ساتھ ہی آپ کو زیادہ ورکروں کی ضرورت ہوگی۔
تو اگر اچھے طریقے سے اس کو چلایا گیا ہوگا تو اسی فارم کو گورنمنٹ سے بطور سنگل پرسن کمپنی رجسٹرڈ کرویا جاسکتا ہے۔ اگر آپ پانچ سے دس سال کامیاب فارمنگ کرلیتے ہیں اور مناسب تجربہ ہوجاتا ہے ، مناسب بنک بیلنس کے مالک ہوجاتے ہیں تو آپ بطور وزیٹر کسی بھی ملک کا ویزہ باآسانی حاصل کرسکتے ہیں۔
بکریوں فارمنگ ایک ایسا بزنس بن سکتا ہے جو آپ کو پوری دنیا کی سیر کروا سکتا ہے۔ آپ کا فارم آپ کو دنیا کے ہرکونے میں لے جاسکتا ہے۔ یہ کوئی ناممکن کام نہیں۔ بس ضرورت کس بات کی ہے، ضرورت اس بات کی کہ آپ درست وقت پر درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت حاصل کریں۔
بکریوں پروڈکشن کرنے والے فارمر کے لیے دنیا کے دروازے کھلے ہیں۔ اگر وہ ان کی شرائط پر پورے اُترتے ہوں تو۔ میں آپ کو خواب نہیں دکھلا رہا بلکہ ایک خواب کی تعبیر پانے کے رستے کی نشان دھی کررہا ہوں۔ کہ گاؤں دیہات میں رہنے والے پڑھے لکھے دوست اگر کم از کم پانچ سال تک کامیاب بکریوں فارمنگ کرلیتے ہیں اور فارم بنانے کے دو سال کے بعد گورنمنٹ سے فارم بطور ایک پروڈکشن کمپنی رجسٹرڈ کروالیتے ہیں۔ تو پھر دنیا کی سیر ان کے لیے ناممکن نہیں۔
دوستو! حلال گوشت کی دنیا میں بہت ہی زیادہ ڈیمانڈ ہے۔ حلال گوشت کی دنیا کو بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ایسے فارمر جن کے پاس مناسب مقدار میں زمین ہے اگر نہ ہوتو ٹھیکے پر بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اور ابتدائی طور مناسب سرمایہ موجود ہے ، تو پھر بکریوں فارمنگ سے منافع حاصل کرنے سے آپ کو کوئی نہیں روک سکتا ۔
اگر آپ بکریوں فارمنگ کے کاروبار کو سنجیدگی کے ساتھ شروع کرنے کا ارادہ کر چکے ہیں اور آپ کے پا س کم ازکم ایک سے دو ایکڑ اراضی موجود ہے، اور چار سے پانچ لاکھ کا سرمایہ موجود ہے ، تو پھر یہ تحریر آپ کے لیےہے، دنیا کے دروازے آپ پر کھلنے کے لیے تیار ہیں۔

 

Medicine Prices, With Brand Name & Generic Formula پاکستان میں ڈاکٹر برانڈ کا نام کمیشن کھانے لے لئے لکھتے ہیں۔

 

ادویات : خرابی کہاں پر ہے؟
آصف محمود
کبھی آپ نے سوچا کہ ہمارے ڈاکٹرز ادویات کے نسخوں پر برانڈڈ اور مہنگی ادویات کیوں لکھتے ہیں ، جب اسی فارمولے میں مارکیٹ میں درجنوں سستی ادویات موجود ہوتی ہیں تو ہمارے ڈاکٹر حضرات وہاں متعلقہ دوائی کا عام فارمولا نام لکھنے کی بجائے کمپنی کا برانڈ نام لکھنے پر بضد کیوں ہیں؟
ہوتا کیا ہے؟ واردات کو سمجھیے۔ مریض ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے۔ ڈاکٹر اس کے لیے ایک دوا تجویز کرتا ہے۔ وہ دوا دس بیس کمپنیاں تیار کرتی ہیں۔اس دوا کے دو نام ہوتے ہیں۔ایک generic name ہوتا ہے جو سب کا یکساں ہو تا ہے اور ایک برانڈ نام ہوتاہے جو ہر کمپنی کا الگ ہوتا ہے۔بھارت میں اور شاید بنگلہ دیش میں بھی یہ قانون بن چکا ہے کہ ڈاکٹر دوا کا نام لکھیں گے ، کسی خاص کمپنی کی برانڈڈ دوا کا نام نہیں لکھیں گے۔بنگلہ دیش جیسے ملک میں صرف 20 فیصد ادویات برانڈڈ نام سے لکھی اور تجویز کی جاتی ہیں۔جب دوا کا نام لکھ دیا یعنی اس کا فارمولا نام لکھ دیا تو اب مریض آزاد ہے وہ مارکیٹ میں جائے اور اس فارمولے پر تیار کردہ کسی بھی کمپنی کی دوا خرید لے۔
یعنی وہاں کا ڈاکٹر صرف ایک ڈاکٹر ہے وہ کسی برانڈ یا کسی خاص کمپنی کا کارندہ اور سیلز ایجنٹ نہیں ہے۔ہاورڈ ہیلتھ سکول کی آج میں ایک تحقیق پڑھ رہا تھا اس کے مطابق امریکہ میں ڈاکٹرز کے 85 فیصد نسخوں پر برانڈڈ نام کی بجائے فارمولا نام درج ہو تا ہے۔
پاکستان میں معاملہ اس کے بر عکس ہے،پورے جنوبی ایشیا میں نیپال اور پاکستان ہی ایسے ملک رہ گئے ہیں جہاں کسی دوا کا فارمولا نام نہیں لکھا جاتا۔پاکستان میں ڈاکٹر کمپنی یعنی برانڈ کا نام لکھتا ہے اور مریض اس کی مہنگی دوا خریدنے جب مارکیٹ جاتا ہے تو میڈیکل سٹور والا اس کو بتاتا بھی رہے کہ اسی فارمولے میں یہ دوسری دوا دستیاب ہے جو سستی بھی تو تو مریض کہتا ہے ’’ نہیں جی ، مجھے تو وہی دوا لینی ہے جو ڈاکٹر صاحب نے لکھی ہے‘‘۔
مریض کو شاید یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ ڈاکٹر صاحب نے مہنگی کمپنی کی دوا اس کی صحت کے لیے نہیں لکھی بلکہ اس لیے لکھی ہے کہ ان کا متعلقہ کمپنی کے میڈیکل ریپ سے معاملہ ہو چکا ہے ، وہ کمپنی سے گاڑی لے چکے ہیں اور عمرے بھی فرما چکے ہیں اور معاہدے کے تحت انہوں نے ایک یا دو سال صرف یہی دوا لکھنی ہے اور اس کی ایک خاص مقدار میں فروخت یقینی بنانی ہے۔
ذرا ان بقلم خود مسیحائوں کے غیر ملکی دوروں پر مکمل پابندی لگائیے اور فارماسوٹیکل کمپپنیوں سے ان کے معاملات کی تحقیق کیجیے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔ لیکن تحقیق کون کرے؟ معاملات ڈاکٹرز تک تھوڑے محدود ہونے ہیں۔ اگر قانون سازی نہیں ہو پا ررہی تو کیا عجب کھرا پارلیمان اور کابینہ تک چلا جائے۔
بھٹو صاحب کے دور میں یہ قانون بنایا گیا تھا کہ ڈاکٹرز کسی خاص کمپنی کا نام نہیں لکھیں گے وہ صرف دوا کا فارمولا نام لکھیں گے۔ کچھ دن یہ قانون نافذ رہا پھر ضیاء الحق صاحب کے دور میں یہ قانون بدل دیا گیا ۔ تب سے اب تک ڈاکٹرز برانڈڈ ادویات ہی لکھ رہے ہیں اور اب تو یہ عالم ہے کہ عوام الناس کو ادویات کے اصل نام معلوم ہی نہیں ، بس چند کمپنیوں کے برانڈڈ نام ہی انہیں معلوم ہیں اور وہی ادویات مہنگے داموں خریدی اوراستعمال کی جا رہی ہیں۔
مثال کے طورپر دوا کا اصل نام پیراسٹامول ہے لیکن برانڈ پیناڈول کا مشہور کر دیا ہے۔حالانکہ یہ دوا اور ناموں سے بھی دستیاب ہے۔زولگینسما ایک بہت مہنگی دوائی ہے ، یہ اس دوائی کا برانڈ نام ہے۔یہی دوائی اسی فارمولے میں نصف قیمت پر بھی دستیاب ہے لیکن بیمار سمجھتا ہے کہ بس اس نام میں کوئی کمال ہے اور اسے کوئی بتانے والا نہیں کہ بھائی اپنے پیسے برباد نہ کرو ، مہنگی اور سستی دوا کا فارمولا ایک ہی ہے۔
ایسی ادویات کی ایک طویل فہرست ہے جن کے برانڈ نام کی قیمتیں ان کے فارمولا نام سے کئی گنا زیادہ ہیں ۔لیکن یہاں نہ کوئی پالیسی ہے نہ کوئی کسی کو پوچھنے والا ہے۔ سب کو سیاست کا چسکا لاحق ہے اور ہر طرف سیاسی بحث زوروں پر ہے۔وزرائے کرام بھی یہاں اتنے ’’ویلے‘‘ اور فارغ ہیں کہ ہر وقت سیاسی موضوعات پر تبصرے فرمانے کو دستیاب ہوتے ہیں۔یہ ایماندار ی سے متعلقہ شعبوں میں کام کر رہے ہوں تو ان کے پاس ادھر ادھر کی ہانکنے کا وقت ہی نہ ہو۔لیکن یہاں ریلوے کا وزیر امور خارجہ پر قوم کی رہنمائی فرما رہا ہوتا ہے اور سائنس ایند ٹیکنالوجی کا وزیر آستینیں چڑھائے اہل مذہب کے تعاقب میں ہوتا ہے۔اپنے متعلقہ شعبے میں کسی کو دلچسپی ہی نہیں۔ اصلاح احوال کیسے ہو سکتی ہے؟
مقامی انڈسٹری ، آٹو موبائل کی ہو یا فارماسوٹیکل ، پوری توجہ اور محنت سے برباد کی گئی ہے۔ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ یہاں کوئی کام نہ کر سکے۔ انڈسٹری کے لیے آج تک ون ونڈو آپریشن کی سہولت پر نہیں سوچا گیا۔ ایک یونٹ لگانا ہو تو سرمایہ کار دو درجن دفاتر میں دھکے کھاتا رہتا ہے۔ الا ماشا ء اللہ ، ہر محکمہ اسے ذلیل کر کے اس سے حرام کھانے پر تلا ہوتا ہے ، سہولت دینے کو کوئی تیار نہیں ہوتا۔
رہی سہی کسر اس حکومت نے خوف کی فضا پیدا کر کے پوری کر دی ہے۔ خوف اور سرمایہ ایک جگہ نہیں رہ سکتے۔ مقامی صنعت تباہ ہو چکی ہے۔
ہمارا قومی مزاج بھی بیمار ہے۔ ہم معاشی خوشحالی بھی چاہتے ہیں لیکن ہم سرمایہ دار سے نفرت بھی کرتے ہیں۔ہر سرمایہ کار ہمیں بے ایمان لگتا ہے۔سیاسی قیادت کے فضائل میں بھی اب یہ ملامتی سوچ در آئی ہے کہ فلاں کے کوٹ کا بٹن ٹوٹا ہوا ہے اور فلاں کے بیٹے کی بنیان پھٹی ہوئی ، پس ثابت ہوا دونوں بہت ایماندار ہیں۔ یعنی ایمانداری اب کنگلا ہونے کا نام ہے۔چنانچہ اپنے سرمایہ کار کو ہم بھگا دیتے ہیں اور اس کے بعد ہم غیر ملکی کمپنیوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ہمارا مشیر صحت ساری بے بسی سے بتا رہا ہوتا ہے: کیا کرتے دوائیں مہنگی نہ کرتے تو مارکیٹ میں دوائیں ملنی ہی نہیں تھیں۔

 

Total Pageviews