January 04, 2020

WORLD TRADE CENTER 9/11 AND REALITY EFFECTS FALSE FLAG OPERATION BY AMERICA


https://www.facebook.com/ArifSiddiquiPk/videos/812100049289792/?__tn__=K-R

*ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی: حقیقت کیا ہے؟*

*تحقیق و ترجمہ: محمد عمران مسجدی*
گیارہ ستمبر 2001 کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر فضائی حملوں میں تین ہزار سے زائد امریکی باشندے ہلاک ہوئے۔ 9/11 کمیشن رپورٹ کے مطابق یہ کاروائی ایک نئی پرل ہاربر کاروائی تھی۔ گورنمنٹ نے اپنی ہی عوام کے خلاف ایک بڑے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ اس حوالہ سے مزید شواہد سامنے آئے ہیں کہ 9/11 کےورلڈ ٹریڈ سینٹر کے حملوں کے پیچھے خود امریکی وہائٹ ہاؤس کا ہاتھ تھا۔ مختلف وِسل بلوئرز نے امریکہ اور القاعدہ کے سربراہ کی باہم بات چیت کو بے نقاب کیا ہے۔ اپنی ہی عوام کے خلاف دہشت گردانہ حملے کروانا امریکی وہائٹ ہاؤس کا منصوبہ تھا اور جسمیں امریکی فنڈز استعمال کئے گئے اور اسکا اپنا پارلیمنٹری کمیشن براہِ راست ملوث تھا ۔گورنمنٹ ٹاپ لیول آفیشلز اور امریکی خفیہ ایجنسی سی آئے اے CIA  کے سابق افسر ان نے بھی اسکی تصدیق کی ہے۔ اور اسے گلیڈیو جیسا آپریشن قرار 
دیا ہے۔ یہ بات سی آئی اے کے سابق افسر بِل کولبی نے بیان کی۔

یاد رہے! 'آپریشن گلیڈیو' کے بارے میں ہائی اتھارٹیز کی جانب سے باور کروایا جاتا
 رہا ہے کہ 1972 میں اور پھر 1990 میں یہ آپریشن ختم کیا جاچکا لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اب بھی مختلف ناموں سے اور دنیا کے مختلف خطوں میں جاری ہے۔
اس آپریشن کا ایک سازشی کردار وِنسنز وِنسی گوارا اپنے اعترافی بیان میں کہتا ہے: "تم نے اپنے مذموم مقاصد کے لئے معصوم لوگوں، عورتوں، بچوں اور بزرگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اور اس حملے کے بعد ریاست کو یہ موقع مل گیا کہ وہ ایمرجنسی نافذ کردے۔ "


ڈاکٹر ڈینئل گینسر کہتا ہے: 'آپریشن نارتھ ووڈ ' اور آپریشن گلیڈیو کا ڈیٹا اور اسکے کرتا دھرتا موجود ہیں۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ فالس فلیگ دہشت گردی false flag terrorismلوگوں کو بے وقت مروانے، ذہنی اذیت دینے اور بھیڑوں کیطرح ہانکنے کا سبب بنتی ہے۔ یہ فتنہ پھیلانے کی حکمتِ عملیstrategy of tensionہےجو کہ امریکی مرکز وہائٹ ہاؤس کی جانب سے اپنائی جاتی رہی ہے۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ اتھارٹی خود دھماکے کرواتی ہے اور کہتی ہے کہ تمھارے دشمن نے یہ سب کیا ہے۔ اور یہ سلسلہ مستقل اور ہر زمانے میں جاری رہا ہے۔ یہ 9/11 کا واقعہ امریکی صدر نکسن کے دور( 1972سے 1974)کےدوران ہونے والے واٹر گیٹ اسکینڈل سے بھی بڑا اور کئی گنا خطرناک اور عالمی اثرات کا حامل سازشی واقعہ ہے۔
برطانوی انویسٹیگیٹو جرنلسٹ نفیض احمد جو کہ کئی عالمی شہرت یافتہ کتابوں کا مصنف بھی ہے )اسکی مشہور کتاب The War on Freedom: How and Why America was Attacked, September 11, 2001, (Published 2002) (۔اسکےاور چند دوسرے ذرائع کے مطابق القاعدہ کے ڈپٹی لیڈر جو اب القاعدہ کے ہیڈ بھی ہیں یعنی ایمن الظواہری اور امریکی خفیہ ایجنیوں میں 2001 تک باہم مسلسل کئی میٹنگز ہوتی رہیں اور قریبی رابطہ بھی رہا۔
امریکہ نے 9/11 کے سازشی حملوں سے قبل جولائی 2001میں ان حملوں کے سب سے مطلوب شخص رمزی یوسف کے قریبی ساتھی محمد خلیفہ کو سابق سیکریٹری آف اسٹیٹ وارن کرسٹوفر (1993-97)کی براہِ راست مداخلت کے ساتھ سعودیہ عرب بھجوادیاتھا ۔ (یاد رہے! اسوقت امریکہ کا سیکریٹری آف اسٹیٹ کولن پاول 2001-05 تھا)۔ یہ بات اکثر مغربی محققین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ یہ دہشتگرد محض امریکہ کے آلہ کار یا tool تھے جنھیں اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کیا گیا۔


ڈاکٹر کیوین بیرٹ جو علوم العربیہ میں ڈاکٹریٹ ہے اور جس نے Questioning the War on Terror کتاب لکھی اور اس کتاب کی وجہ سے اسے وِسکوسن یونیورسٹی سے بے دخل کر دیا گیا تھا ،اسکا کہنا ہے کہ جہاں تک القاعدہ کی بات ہے تو یہ مغربی خفیہ ایجنسیوں کی تیار کردہ تنظیم ہے۔ یہ بات مصری سیاسی امور کے ماہر محمد ہیکل نے بھی کہی کہ امریکی اینٹیلی جنس ایجنسیز القاعدہ کے معاملات میں براہِ راست ملوث ہے۔ 9/11 کے فوری بعد اسنے کہا کہ یہ حملے سراسر جھوٹے پروپیگنڈے پر مبنی امریکی کاروائی ہے۔اور القاعدہ کو حقیقت میں چلانے والے مغربی ممالک ہی ہیں۔ القاعدہ میں سعودی خفیہ ایجنسی کے افراد ہیں، اسکے ساتھ ساتھ اسمیں اسرائیلی ،امریکی اور مصری خفیہ ایجنسیز کے اہلکار بھی موجود ہیں۔(یاد رہے! مصری ایمن الظواہری (پ 1951) تاحال حیات ہیں)۔ ڈاکٹر کیوین نفیض احمد کے حوالہ سے بتاتا ہے کہ 9/11 سے قبل ہونے والے ترکی کے ایک حملے کے دوران القاعدہ کے بڑے سرکردہ رہنما ترکی کے کسی جیل میں قید تھے اس جیل کے گارڈز نے یہ بیان دیا کہ یہ القاعدہ جیسی جہادی تنظیم کے رہنما ہونے کے باوجود حرام حلال کا کوئی لحاظ نہ کرتے تھے۔ جب ان سے پوچھا جاتا کہ آپ تو بنیاد پرست مسلمان ہیں تو مسکرا کر کہتے کہ ایسانہیں ہے بلکہ یہ صرف کشیدگی پیداکرنے کی حکمتِ عملی Engineering of Crisesہے۔
اس 9/11 کے بارے میں دنیا کے ٹاپ فزیسٹ، پائیلٹس، انجینئرزاور ہلاک شدگان کے لواحقین کا کہنا ہے کہ مین اسٹریم میڈیا نے اس معاملہ کی حقیقت بیان کرنے میں مکمل طور پر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے رکھی ۔ 9/11 کے واقعہ کے بعد ٹائم اسکوائر کے بڑے بڑے بِل بورڈز اور پوری اسٹیٹ میں اس بات کی خوب تشہیر کی گئی کہ "کیا آپ جانتے ہیں کہ تیسرا ٹاور (WTC-7) بھی 9/11 کے روزتباہ ہو گیا تھا؟" یہ بات باعثِ حیرت تھی کہ وہ بڑا ٹاور جسے کسی حملہ آور طیارے نے چھوا تک نہ تھا وہ بھی گِر گیا۔


ماہرِ تعمیرات رچرڈ کیج کے مطابق: یہ ممکن ہی نہ تھا کہ ایک ایسا عظیم ٹاور ازخود یوں زمیں بوس ہوجائے۔5:20 منٹ پر ڈبلیو ٹی سی سیون اچانک اور یکدم ایسے زمین پر آگرا جیسے وہ کوئی مضبوط اسٹیل اسٹرکچر کی عمارت نہ ہو بلکہ کوئی پین کیک ہو۔
سِول اسٹرکچرل انجینئر رولنڈ اینگل کہتا ہے: یہ ناممکن ہے یہ گویا ہائی اسکول کی فزکس کے بھی منافی ہے۔
ماہرِ تعمیرات جوناتھن سمولن کہتا ہے: ایک ایسی بلڈنگ جو کہ40 ہزار ٹن اسٹرکچرل اسٹیل اور پائیدار سسٹم پر تعمیر کی گئی تھی ایسے یکدم بلا کسی وجہ کے زمین بوس نہیں ہوسکتی تھی الا یہ کہ اسے دھماکے سے نہ اڑا دیا جائے۔
حکومت کے مطابق تمام کے تمام 84 اسٹیل کے ستون یا کالمز ایک ساتھ ٹوٹ گئے تھے۔ جبکہ ہزاروں مصدقہ غیر حکومتی ذرائع کے مطابق جنمیں سے ایک جان کال آرکیٹکٹ انجینئر بھی ہے، کا کہنا ہے کہ یہ ان 19 ہائی جیکرز کا کام ہر گز نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ یہ اسٹیل ،آفس فائر کیوجہ سے بالکل بھی پگھل نہیں سکتا تھا ، یہ جیٹ فیول سے بھی ممکن نہ تھا اور نہ ہی یہ ممکن تھا کہ یہ ٹاور از خود گِر جاتے۔ یہ سائنسی طور پر اور عملاً ناممکن بات ہے ۔ WTC-7 بلڈنگ کا یوں زمین بوس ہوجانا واضح طور پر ایک کنٹرولڈ تباہی کا نتیجہ تھا۔ سائنسی و متعلقہ ماہرین ِ علم کا اتفاق ہے کہ اسکی صرف ایک ہی وجہ ممکن ہے کہ ان ٹاورز کے کالمز کو ایک ساتھ دانستہ تباہ کیا گیا تھا۔ اسبات کے ثبوت و شواہد باقاعدہ عملی تجربات کے ذریعہ بھی فراہم کئے گئے کہ اس بلڈنگ کا یوں ازخود بیٹھ جانا ممکن ہی نہ تھا۔ اس حوالہ سے کی گئی تھرمائیٹ ڈییبٹ سے بھی یہی کچھ ظاہر ہواہے۔
کانسنسس9/11 پینل جس نے گویانو گیارہ پر اپنی تحقیق کو گولڈ اسٹینڈرڈ کی طرح ثابت کردیا تھا کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے حوالہ سے امریکی گورنمنٹ کی فراہم کردہ معلومات غلط بیانی ،جھوٹ اور من گھڑت پروپیگنڈے پر مبنی تھیں۔ دلچسپ بات یہ بھی ہوئی کہ اس کمیشن کے متفقہ بیان کے بعد گورنمنٹ نے اپنا موقف تبدیل کر لیا۔ مذکورہ متفقہ نو گیارہ پینل کی ایک محققہ الزبتھ وڈورتھ جو کہ consensus9/11.org سے تعلق رکھتی ہیں ،کہتی ہیں: اس کمیشن کی تحقیقات و نتائج کو میڈیا پر کبھی صحیح طور پر پیش نہیں کیا گیا۔ الزبتھ نے مزید بتایا کہ ڈیوڈ چینڈلر جو کہ طبیعیات و ریاضی کے میدان میں تیس سال سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں ،انھوں نے بذریعہ تفصیلی تحقیق اور ماڈلز اسے ثابت کیا کہ اس بلڈنگ کے گِرنے کا سائنسی طور پر صرف ایک ہی سبب ممکن ہے اور وہ یہ کہ اس اسکائی اسکریپر کے اگر تمام کے تمام چوراسی کالمز ایک ساتھ ڈھے جائیں ۔
محقق ڈاکٹر گریم میکوئن جنھوں نے عینی شاہدین کی آراء جمع کیں اور اس دن فائر ڈپارٹمنٹ کا ریکارڈ بھی چیک کیا ۔انکے مطابق 10 ہزار صفحات پر پھیلی رپورٹ اور 118 سے زائد عینی شاہدین کے مطابق اس دن دھماکوں کی آوازیں سنیں گئیں لیکن یہ خبر مین اسٹریم میڈیا پر کبھی نشر نہیں کی گئیں۔ اسکے ساتھ ساتھ فائر فائیٹرز نے بھی اس حوالہ سے اپنی شہادتیں ریکارڈ کروائیں۔


یاد رہے! مین اسٹریم میڈیا کا ایک حکومتی ترجمان ریکل میڈو (MSNBC)جو کہ ایک بہت چرب زبان شخص ہے اور اسی نام سے ایک پروگرام کو ہوسٹ کیا کرتا تھا ۔ اسنے امریکی حکومت کے جھوٹے بیانیئے کو خوب اور پرزور انداز میں ہر پلیٹ فارم پر پیش کیا۔
باب میکیل وین جسکا بیٹا اس حملہ میں مارا گیا اور جسے اب ایک برے آدمی کے طور پر ظاہر کیا جارہا ہےوہ کہتا ہے: میرا بیٹا ان حملوں میں مارا گیا۔ میرا بیٹا مذکورہ دھماکوں کےذریعہ ہی ہلاک کیا گیااور اسے میں نے ثابت بھی کیا لیکن عدالتی جیوری نے یہ قبول نہیں کیا۔ ہم یہ بات جانتے ہیں کہ 9/11 کا یہ واقعہ امریکی ساختہ اندرونی سازش تھی ایک inside job ۔ میرا بیٹا ایک ایسی ہی امریکی کاروائی میں مارا گیا ۔ امریکیوں نے ہی میرے بیٹے کو بم دھماکے میں ہلاک کیاہے۔ مجھے سازشی نظریہ ساز Conspiracy Theorist کہہ کر رد کر دیا گیا اور میرا مذاق اڑایا گیا۔ نیوز ایجنسی کے چند افراد جو کہ نسبتاً ہمدرد واقعہ ہوئے تھے انھوں نے مجھے کہا کہ باب تم ٹھیک کہتے ہو لیکن بحیثیتِ نیوز رپورٹر یا نیوز کاسٹر یہ ہماری جاب ہے کہ ہم حکومتی موقف کو پیش کریں اسکا دفاع کریں ۔ میری کہانی کو نہ الیکٹرانک میڈیا پر دکھایاگیا نہ پرنٹ میڈیا پر ہی شائع کیا گیا۔ اور اس واقعہ کی ذمہ داری میں اپنی اسٹیٹ پر امریکی عوام پر رکھتا ہوں ۔کیونکہ وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ : ہم امریکی اچھے لوگ ہیں۔ ۔۔ہم خاص لوگ ہیں۔۔۔ ہم دوسروں سے بہتر ہیں۔۔۔ یہ حکومتی ایماء پر کیا جاتا ہے۔ اب ہم ایک نہ ختم ہونے والی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جھونک دیئے گئے ہیں ۔ میں جانتا ہوں وہ لوگ جو عراق میں مارے جارہے ہیں، شام میں ہلاک کئے جارہے ہیں، لیبیا میں بلاوجہ قتل کئے جارہے ہیں۔افغانستان میں ان پر جنگ مسلط کر دی گئی ہے۔ وہ اپنے بچوں کو کھو رہے ہیں۔ ۔( روتے ہوئے )سب اپنے خاندانوں کو کھو رہے ہیں، ان سب کا ذمہ دار کون ہے؟ (ڈینیئل بُشل ( دی ٹرتھ سیکر۔ آرٹی نیوز،رشیا))


*خیال رہے:* RT ٹی وی روس کا غالباً سرکاری میڈیا نٹورک ہے جو امریکہ و یورپ کی کمزوریوں و چالبازیوں کو ہائی لائٹ کرتا رہتا ہے۔ اور یہ وہی کیمونسٹ روس ہے جسے گزشتہ دہائی میں کیپٹلسٹ امریکہ اور اسکے چاہی ان چاہی حواریوں نے افغان محاذ پر طالبان کے ذریعہ کھدیڑا ڈالا تھا۔اور بالآخر سرد جنگ کے بعد اسے کئی وسط ایشیائی اور دیگر ریاستوں میں توڑ دیا تھا۔
مزید تفصیلات کے لئے دیکھئے: https://rationalwiki.org/wiki/9/11
*چند متعلقہ اصطلاحات اور انکا مختصر پس منظر:*
*آپریشن گلاڈیو Operation Gladio(1956):*مسلح مزاحمت کی پوشیدہ "اسٹینڈ بیک" کاروائیاں، جس کی منصوبہ بندی ویسٹرن یونین (ڈبلیو یو) نے کی تھی ، اور اس کے بعد نیٹو نے بھی ، یورپ میں ممکنہ وارسا معاہدہ اور فتح کے لئے منصوبہ بنایا تھا۔ نیٹو کے متعدد ممبر ممالک اور کچھ غیر جانبدار ممالک میں اسٹینڈ بیک آپریشنز تیار کیے گئے تھے۔ گلیڈیو میں سی آئی اے کا کردار اور سرد جنگ کے دور کے دوران اس کی سرگرمیاں شامل سمجھی جاتی ہیں ۔ اس دوران اٹلی میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں سے بھی اسکا تعلق استوار ہے۔اس معاملے پر سوئٹزرلینڈ اور بیلجیم کی پارلیمانی تفتیش بھی ہوئی ہے۔
سوئس تاریخ دان ڈینیئل گانسر نے 2005 میں اپنی کتاب NATO’s Secret Armies(نیٹو کی خفیہ فوج )تحریر کی۔ اور یہ بات مختلف ثبوت اور شواہد سے ثابت کی کہ امریکہ اور یورپ کی مشترکہ فوج نے آپریشن گلیڈیو لانچ کر رکھے ہیں۔ اور دہشت گردی اور "Tension Strategyکشیدگی پیدا کرنے کی حکمت عملی" کے ذریعہ مختلف ممالک کی پالیسیوں کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ گانسر نے کہا کہ مختلف مواقع پر ، پیچھے رہنے والی تحریکیں دائیں بازو کی دہشت گردی ، جرائم اور بغاوت کی کوششوں سے منسلک ہیں۔ نیٹو کی خفیہ آرمی میں گانسر نے کہا کہ گلیڈیو یونٹوں نے نیٹو اور سی آئی اے کے ساتھ قریبی تعاون کیا اور اٹلی میں گلیڈیو اپنی ہی شہری آبادی کے خلاف دہشت گرد حملوں کا ذمہ دار تھا۔
بلیک واٹر Black waterوہ نجی غیر سرکاری امریکی فوجی تنظیم ہے جس نے مسلمان ممالک ( عراق، افغانستان، شام اور پاکستان )میں انسانیت سوز مظالم ڈھائے اور شہر کے شہر اجاڑ دیئے۔ یہ پاکستان میں بھی چوری چھپے امریکی سفارت کاروں کی سیکورٹی کے نام پر 2013 تک دندناتے پھرتے رہے لاہور، کراچی اور اسلام آباد کے پوش علاقوں میں بڑی بڑی رہائش گاہوں میں رہائش پذیر تھے اور اپنی دہشت سے بھر پور کاروائیاں سرانجام دیتے رہے۔ پی پی پی کے دور میں بلیک واٹر کے 200 افراد کو ویزے دئیے ۔یہ بھی اطلاعات ہیں کہ افغانستان میں جاری جنگ کوان 'نجی ٹھیکے داروںMercenaries ' کے حوالے کر دیا جائے اور ریگولر امریکی افواج کو وہاں سے نکال لیا جائے۔ بلیک واٹر کے بانی ایرک پرنس نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ صرف چھ ہزار پرائیوٹ سیکیورٹی اہلکاروں کی مدد سے افغان جنگ کو منطقی انجام تک پہنچا سکتے ہیں۔
 بلیک واٹر نے اپنا نام بدل کر اب زی(Xe)  اس بلیک واٹر تنظیم کا بانی ایرک پرنس (Erik Prince) نامی ایک سابق نیوی آفیسر ہے جو بحریہ کی بدنامِ زمانہ کمانڈو تنظیم (SEAL) کا رکن رہ چکا ہے۔ اپنی پرائیویٹ آرمی کو تربیت دینے کے لئے امریکہ میں اس نے ایک وسیع و عریض قطعۂ زمین خرید کر اس میں ایک بڑا ٹریننگ سنٹر قائم کیا ہوا ہے۔پاکستان میں البتہ زیادہ دیر تک اس کے قدم نہیں جم سکے تھے۔کیونکہ پاکستان آرمی نے جلد اس کا سراغ لگا کر اس کو ملک سے باہر نکال دیا تھا!

*اقتصادی غارت گر Confessions of an Economic Hitman 2004):* یہ جان پرکنز کی مشہور کتاب کا نام ہے۔ وہ بوسٹن(امریکہ) میں Chas. T. Main نامی کنسلٹنگ کمپنی (کارپوریشن )میں کام کیا کرتا تھا۔ اس کمپنی میں ملازمت سے پہلے جان پرکنز کا نیشنل سیکیورٹی ایجنسی (NSA) نے انٹرویو لیا تھا جو سی آئی اے طرز کی ایک اور امریکی ایجنسی ہے۔کہا جاتا ہے کہ اسامہ بن لادن نے اپنے ایک ویڈیو ٹیپ میں اس کتاب کا ذکر کیا تھا۔پرکنز کا کہنا ہے کہ اس نے یہ کتاب 1980 کی دہائی میں لکھنا شروع کی تھی مگر دھمکیوں اوررشوت کی وجہ سے کام بند کرنا پڑتا تھا۔اس کتاب کے مطابق پرکنز کا کام یہ تھا کہ ترقی پزیر ممالک کے سیاسی اور معاشی رہنماوں کو جھانسہ یا رشوت دے کر ترقیاتی کاموں کے لیےعالمی بینک World BankاورUSAIDسے بڑے بڑے قرضے لینے پر آمادہ کرے۔ اور جب یہ ممالک قرضے واپس کرنے کے قابل نہیں رہتے تھے تو انہیں مختلف ملکی امور میں مجبوراً امریکی سیاسی دباو قبول کرنا پڑتا تھا۔پرکنز کے مطابق قرضہ لینے والے ان ممالک میں غربت بڑھ جاتی تھی اور اقتصادیات مفلوج ہوجاتی تھی۔ hitmanکرائے کے قاتل کو کہتے ہیں۔ پرکنز اپنے آپ کو Economic Hitmanکہتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ ہم جیسے لوگوں کی تنخواہ بہت زیادہ ہوتی تھی اور ہم ساری دنیا کے ممالک کو دھوکا دے کر کھربوں ڈالر کا کاروبار کرتے تھے۔ورلڈ بینک اوریو ایس ایڈکے نام پر پیسہ چند امیر ترین خاندانوں کے پاس چلا جاتا تھا جو ساری دنیا کے قدرتی وسائل کے مالک ہیں۔ یہ لوگ اپنے مقاصد کے لیے غلط اقتصادی جائزے، فریبی مالیاتی رپورٹیں، ملکی انتخابات میں دھاندلی، طوائفیں، رشوت اور دھمکی جیسے ہتھیار استعمال کرتے تھے اور ضرورت پڑنے پر قتل بھی کروا دیتے تھے۔اپنے ایک انٹرویو میں پرکنز نے بتایا کہ پہلا معاشی کرائے کا قاتل Kermit Roosevelt, Jr تھا جو چھبیسویں امریکی صدرروزویلٹ کا پوتا تھا۔ اس نے 1953 میں ایران میں محمد مصدق کی حکومت کا تختہ پلٹوایا تھا، جبکہ مصدق قانونی طریقے سے انتخابات جیت کر صدرمنتخب ہوا تھا۔ مصدق کا جرم یہ تھا کہ اس نےبرٹش پیٹرولیم کمپنی کو قومی ملکیت میں لے لیا تھا جو پورے ایران میں تیل کی پیداوار کو کنٹرول کرتی تھی۔ برطانویMI6اور امریکیCIAنے مصدق کی جگہ ایرانی جنرل فضل اللہ زاہدی کوشاہ ایران بنا دیا۔ پرکنز کے مطابق اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ عالمی بینک بھی معاشی کرائے کے قاتلوں کا ایک آلہ ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ میرے کاموں میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ایسے ممالک کو تلاش کروں جہاں قدرتی وسائل موجود ہوں مثلاً تیل۔ اور پھر ان ممالک کے لیے عالمی بینک اور اس کی ساتھی کمپنیوں سے بڑے بڑے قرضوں کا بندوبست کروں۔ لیکن قرض کی یہ رقم کبھی بھی ان ممالک تک نہیں پہنچتی تھی بلکہ یہ ہماری ہی دوسری کارپوریشنوں کو ادا کی جاتی تھی جو ان ممالک میں انفراسٹرکچر بنانے کا کام کرتی تھیں مثلاً پاور پلانٹ لگانا اور انڈسٹریل پارک بنانا۔ ساری رقم اور سود چند مٹھی بھر خاندانوں میں واپس چلی جاتی تھی جبکہ اس ملک کے عوام پر قرضوں کا ایسا انبار رہ جاتا تھا جو وہ کبھی ادا نہیں کر سکتے تھے۔ ایسے موقعوں پر ہم پھر واپس آتے تھے اور کہتے تھے کہ چونکہ تم قرض ادا نہیں کر سکے ہو اس لیے تمہارا قرض "ری اسٹرکچر" کرنا پڑے گا۔ اب IMFکو گھسنے کا موقع ملتا تھا۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) ان سے کہتا تھا کہ ہم تمہارا قرض ری اسٹرکچر کرنے میں تمہاری مدد کریں گے لیکن تمہیں اپنا تیل اور دوسرے ذخائر ہماری کمپنیوں کو کم قیمت پر بیچنا پڑے گا اور وہ بھی بغیر کسی پابندی کے۔ یا پھر وہ مطالبہ کرتے تھے کہ اپنے بجلی اور پانی کے ذرایع ہماری کارپوریشن کے کنٹرول میں دے دیے جائیں یا ہمیں فوجی اڈا بنانے کی اجازت دی جائے یا ایسی ہی کوئی اور شرط۔ حتیٰ کہ وہ اسکولوں اور جیلوں تک کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینے کا خیال تھا مطالبہ کرتے تھے۔

*پرل ہاربر حملہ: Pearl Harbor attack (دسمبر1941):* جسے ہوائی یا آپریشن زی بھی کہا جاتا ہے۔ جسمیں امریکی (جھوٹے)ورژن کے مطابق جاپانی بحریہ نے امریکی جزیرے ہوائی میں پرل ہاربر کے بحری اڈے پر پر اچانک حملہ کر دیا تھا ۔حملے کے نتیجے امریکا کے 8 بحری جہاز تباہ ہوئے اور 9 کو شدید نقصان پہنچا۔ 188 طیارے مکمل طور پر تباہ ہو گئے جبکہ 2403 امریکی فوجی اور 68 شہری ہلاک ہوئے۔ جبکہ محقیقین کے مطابق یہ ایک فالس فلیگ آپریشن تھا جسکے بعد امریکہ نے دوسری جنگِ عظیم میں کودنے کا جواز گھڑا۔درحقیقت یہ آپریشن تاریخ کو بدلنے والے واقعات میں شمار ہوتا ہے۔ امریکا، جو اس وقت ایک ابھرتی ہوئی عسکری و اقتصادی قوت تھا، نے بڑی تعداد میں فوجی اور اسلحہ اور رسد اتحادیوں کو بھیجی تاکہ محوری طاقتوں یعنی جرمنی،اطالیہ اورجاپان، کا مقابلہ کیا جا سکے جنہیں بالآخر 1945ء میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جنگ عظیم دوم میں اتحادیوں کی فتح اور امریکا کا ایک غالب عالمی قوت کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آنا موجودہ بین الاقوامی سیاسی منظرنامے کو تبدیل کرنے کا باعث بنا۔

*آپریشن نارتھ ووڈOperation Northwood(1962):* یہ ان تجاویز کا نام ہے جو امریکی فوجی کمان نے 1962ء میں امریکا کے اندردہشت گردی کے واقعات کا ڈراما کر کے ان کا الزام کیوبا کی حکومت پر ڈالنا تھا، جس کے بعد کیوبا پر حملہ کرنے کا جواز حاصل ہو جاتا۔کیوبا پر حملے کا جواز گھڑنے کے لئے تارکینِ وطن کیوبن شہریوں کا قتلِ عام کیا جانا تھا، کیوبا کے جہاز کا سمندر میں ڈبو دینا تھا، ہوائی جہازوں کو ہائی جیک کرنا اور انکو تباہ کرنا ، امریکی بحری جہاز کو ڈبو دینا اور امریکہ میں پرتشدد تصادم کو ہوا دینا بھی ہوسکتا تھا۔ لیکن قتل ہوجانے والے امریکی صدر جان کینڈی نے اسکی اجازت نہ دی۔

*فالس فلیگ :(فریبی جھوٹا یا کالا پرچم)False Flag:* یہ اس خفیہ فوجی یا نیم فوجی کارروائی کو کہتے ہیں جن کا مقصد اس طرح فریب دینا ہوتا ہے کہ یہ معلوم ہو کہ یہ کارروائی انجام دینے والوں کی بجائے کسی اور ہستی، گروہ یا ملک نے کیے ہیں۔ زمانہ امن میں شہری تنظیموں اور سرکاری اداروں کی کارروائی بھی فریبی پرچم کہلائے گی، اگر اس کارروائی میں ملوث اداروں کو چھپانا مقصود ہو۔ فریبی پرچم تاریخاً بحری جنگ میں شروع ہوا جب کسی دوسرے ملک کا جھنڈا اڑائے ایک بحری جہاز حملہ آور ہوتا تاکہ دشمن کو دھوکا دیا جا سکے۔ انگریز قانون میں اسے جائز سمجھا جاتا تھا۔ موجودہ دور میں دہشت گردی کے واقعات پرچم دورغ false flag کے تحت کرنے کی شکایات عام ہیں۔
*وِسل بلوئر (سیٹی مار Whistleblower):* کھیل کے دوران ریفری جب کسی غلط فعل کو دیکھتا ہے تو سیٹی بجا کر کھیل روک کر غلطی کی سزا دیتا ہے۔ عام زندگی میں سٹی بلوئر ایسے شخص کو کہتے ہیں جو کسی محکمہ یاتنظیم کا رکن ہوتے ہوئے اس میں بدعنوانی کی نشان دہی کرے اور ذمہ دار افراد کو ان کرتوتوں کے بارے میں مطلع کرے۔ اکثر حکومتیں وِسل بلوئر سے خوفزدہ رہتی ہیں اور اس کی بیخ کنی 
  کی تدابیر کرتی رہتی ہیں۔
ویڈیو ملاحظ فرمائیں۔

<iframe src="https://www.facebook.com/plugins/video.php?href=https%3A%2F%2Fwww.facebook.com%2FArifSiddiquiPk%2Fvideos%2F812100049289792%2F&show_text=0&width=560" width="560" height="308" style="border:none;overflow:hidden" scrolling="no" frameborder="0" allowTransparency="true" allowFullScreen="true"></iframe>

No comments:

Post a Comment

Total Pageviews