January 04, 2020

GENERAL QASIM SULEMANI , & AND GENERAL AZIZ EFECTS AFTER DEATH





ہم جب کوئی نیا موبائل لینے جاتے ہیں تو کیمرے پہ بڑا فوکس کرتے ہیں کہ اس کی امیج کوالئی اچھی ہونی چاہیے، تصویر کافی کلئیر آنی چاہیے، زوم پہ بھی کوالٹی اچھی آنی چاہیے، لینز وائڈ اینگل کا حامل ہونا چاہیے تو انسان کی سوچ کا اینگل بھی وائڈ ہونا چاہیے، انسان کو خود بھی اردگرد ہوتے واقعات کو زوم کرکے دیکھنا چاہیے بےشک جلد بازی میں رائے قائم کرکے سب سے پہلے میں کی روایت سے کہیں بہتر ہے کہ دیر میں درست کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.
چلیں اب آتے ہیں بات کی طرف کل جب امریکی حملے میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی موت ہوگئی.
پوری دنیا کو ایک نیا مدعا مل گیا خاص کر پاکستانیوں کو تو جیسےایران یا سعودی شہری بننے کا موقع مل گیا ہو. کوئی سعودی بن چاہیے، تصویر کافی کلئیر آنی چاہیے، زوم پہ بھی کوالٹی اچھی آنی چاہیے، لینز وائڈ اینگل کا حامل ہونا چاہیے تو انسان کی سوچ کا اینگل بھی وائڈ ہونا چاہیے، انسان کو خود بھی اردگرد ہوتے واقعات کو زوم کرکے دیکھنا چاہیے بےشک جلد بازی میں رائے قائم کرکے سب سے پہلے میں کی روایت سے کہیں بہتر ہے کہ دیر میں درست کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.
چلیں اب آتے ہ گیا کوئی ایرانی بن گیا اور ایک دوجے پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیے جبکہ ان پاکستانیوں کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے تھا کہ آپ جب بھی مصیبت میں ہوئے ہیں تو آپکے لیے نہ کوئی ایرانی آپس میں لڑتے ہیں اور نہ ہی سعودی. تو بہتر ہے آپس میں نہ ہی لڑیں.
تین ماہ میں دو اہم ترین قتل ہوئے جن میں کچھ چیزیں مشترک تھیں. یعنی چند ماہ پہلے اہم ترین سعودی جنرل عبدالعزیز اور کل ایرانی جنرل قاسم.
یہ دونوں ہی افراد اپنی اپنی افواج کے اہم ترین اور منجھے ہوئے جنرلز تھے وہ دونوں افواج جنہیں امریکہ آمنے سامنے لانے کی تگ دو میں ہے.
یہ دونوں جنرلز اپنے ملک کی حکومتوں میں اہم ترین کردار ادا کر رہے تھے یعنی حکومت میں کافی اثرورسوخ رکھتے تھے. دونوں جنرلز ملکی سلامتی میں اہم ترین کردار ادا کر رہے تھے یعنی اندرونی و بیرونی سیاست و سلامتی کے معاملات پر گہری نظر رکھتے تھے.
دونوں جنرلز اپنے اپنے ملک کے سربراہان کے انتہائی قریب ترین سمجھے جاتے تھے عبدالعزیز سعودی شاہوں کے لیے انکے گھر کے فرد جیسی قربت رکھتے تھے جبکہ قاسم سلیمانی بھی ایرانی سربراہان کے نزدیک ایسا ہی مقام رکھتے تھے.
ان دونوں جنرلز میں سے ایک کی موت تب ہوئی جب سعودی حکومت نے امریکا کو سعودی عرب میں سیکیورٹی کی ذمہ داری سونپی اس کے کچھ وقت میں جنرل عزیز پراسرار طور پر قتل ہوگئے جس کے بارے کہا گیا کہ "ذاتی رنجش" کی بنیاد پہ لیکن دنیا اتنی بیوقوف نہیں کہ یہ نہ جان پائے کہ ایک میجر جنرل اتنا کمزور نہیں ہوتا کہ کوئی بھی راہ چلتے اسے قتل کر ڈالے وہ بھی ذاتی رنجش پر تو کچھ تو اہم تھا.
جبکہ دوسرے یعنی ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کا قتل امریکا کے ہی ہاتھوں ہوا ہے اس وقت جبکہ ایک طرف ایران میں گزشتہ دنوں سینکڑوں لوگ ایرانی حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے قتل ہوئے ہیں اور ایران سعودیہ بھی امریکا کی ہی وجہ سے جنگ کے دھانے پر پہنچ چکے تھے اور دوسری جانب ایران اور امریکہ تعلق خراب ہونے کے ڈارمے بھی جاری ہیں.
یہ میری اپنی ذاتی رائے ہے آپ بے شک فی الحال متفق نہ ہوں لیکن مجھے پختہ یقین ہے کہ سعودی جنرل اور ایرانی جنرل کے قتل کے پیچھے انکی اپنی حکومتیں موجود ہیں اور سعودی جنرل کو کہ شاہی خاندان کا وفادار تھے اس کے قتل کے پیچھے بھی امریکا ہی ہے ذرا چیزیں کو زوم کرکے دیکھیں معلوم ہو جائے گا..
جیسا کہ میں نے اوپر کہا کہ یہ اپنے ملک کے سربراہان کے نزدیک ترین سمجھے جاتے تھے تو ایسی صورتحال میں کچھ اہم باتیں بھی سامنے رکھیے.
اتنی قربت کے بعد چند ایک چیزیں ہوسکتی ہیں جن کی بناء پر یہ بات واضح طور پر کہی جاسکتی ہے کہ انکے قتل کے پیچھے انکی حکومتیں ہیں.
یہ جنرل جب اپنی حکومت کے قریب کے تو ہوسکتا ہے انہیں حکومت کی کسی بات سے یا حکومت کو انکی کسی بات سے اختلاف ہو کیونکہ سعودی حکومت کی پچھلے کچھ عرصے کے متنازعہ عوامل جیسا کہ یمن میں ٹانگ اڑانا، فحاشی اور بےحیائی کا فروغ، مسلم ممالک کے مفادات کے خلاف چلنا اور سب سے بڑھ کر امریکا سے قربت اور امریکہ کو سعودی سیکیورٹی کے لیے منتخب کرنا،اسرائیل کی جانب بڑھتے قدم، جنرل عزیز شاہی خاندان کے وفادار تھا جبکہ اسی شاہی خاندان کے ایک بڑے حصے کو سعودی فرماروا سلیمامن سے کئی باتوں پر اختلاف بھی ہے تو دیکھیں کئی پہلو سامنے آئیں گے.
یہ ایسے عوامل جن میں ہوسکتا ہے کہ سعودیہ کی اہم ترین شخصیات میں سے کسی کو تکلیف ہو اور یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جس جنرل نے ہمیشہ سے سعودی شاہی خاندان سے قربت رکھی وہ شاید کے اس پہ خطرناک ثابت ہوسکتا تھا.
اس کے علاوہ ایران حکومت کو بھی جنرل سے اختلاف ہوسکتا تھا اور جنرل کو ایرانی حکومت سے بھی ایران کا کبھی بھارت کی طرف جھکاؤ، کبھی یمن میں ٹانگ اڑائی تو کبھی شام میں، تو کبھی سعودیہ سے اختلافات، کبھی اپنے ملک میں فسادات یہ وجوہات ہوسکتی ہیں اس میں یا تو حکومت جنرل کے ساتھ نہیں تھی یا پھر جنرل خودمختار جو کہ حکومت کے ہاتھ میں نہیں تھا خیر یہ تو اب وقت بتائے گا.
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایران اپنے جنرل کے قتل میں شامل تھا تو اسے امریکہ کے ہاتھوں کیوں مروایا تو یاد رکھیے ایرانی جنرل کا ایران میں مارا جانا اتنا آسان نہ تھا اور اسکے نتیجے میں جو صورتحال پیدا ہوتی شاید اسکا اندازہ کرنا مشکل نہیں. جنرل عزیز کے قتل کے بعد سعودیہ میں خاموشی اور جنرل قاسم کے قتل کے بعد ایران حکومت کا ٹھنڈا پڑتا غصہ ہم بدلہ لیں گے، ہم بدلہ لیں گے سے ہم قانون کاروائی کریں گے تک سفر کسی خدشے سے خالی نہیں.
افغانستان سے نکلتے امریکہ کو ایشیاء میں اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے اب نئی جگہ کی تلاش ہے وہ جگہ یقیناً ایران نہیں ہے لیکن ایران ایک بہانہ ضرور ہے ایک یہاں دجال کے انتظار میں آباد یہودی جن کی بدولت امریکہ کی رسی اسرائیل نے کھینچ رکھی ہے، دوسری وجہ پاکستان جسے کبھی امریکہ ایران جنگ میں کھینچنے کی کوشش کرتا ہے تو کبھی سعودی جنگ میں کبھی بھارت سے لڑوانے کی کوشش میں.
پومپیو کی کل جنرل باجوہ کو کال کا مقصد بھی یہی تھا کہ شاید امریکا کے اقدام پر حمایت میں کچھ نکل جائے یا چند تسلی بخش الفاظ ہی مل جائیں لیکن انکی کال کا خلاصہ وہی ٹھنڈا اور پرسکون سا جواب کہ کشیدگی کم ختم کرنے کی کوشش کریں. (میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ امریکہ اپنے اس اقدام کو سعودیہ عرب اور ایران کشیدگی میں اضافے کے لیے استعمال کرے گا کیسے کرے گا وہ آپ دیکھ لیجئے گا امریکہ کہیں ناں کہیں سے اپنے اس اقدام میں سعودیہ کو کھینچ لائے گا)
ایران میں بیٹھے ہیں یہودی اور امریکہ حملہ کرے ایسا ممکن ہی نہیں بس ایران کے بہانے اپنے بیڑے، جہاز اور اردگرد فوجی اڈے قائم کرنے ہیں تاکہ پاکستان پہ نظر رکھی جائے اور کسی طرح پاکستان کو نقصان پہنچایا جائے.
میں نے برسوں سے ایک ہی بات دہرائی ہے کہ 2020 کا سال نیو ورلڈ آرڈر نافذ کرنے کا سال ہوگا اور دجالی طاقتیں پوری طاقت لگا دیں گی اس سال نیو ورلڈ آڈر کے نفاذ کے لیے لیکن یہ سال پاکستان کا بھی ہے ان شاءاللہ اور اسی نیو ورلڈ آرڈر کے نفاذ کی راہ میں ایک ہی رکاوٹ بچی ہے وہ ہے پاکستان اور پاک فوج.
خیر کچھ بھی ہو پاکستان کہہ چکا ہے کہ ہم اب کسی کی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے نہ ہم کسی کے لیے مزید کچھ کریں گے اب جو کریںنگے پاکستان کے مفاد کو سامنے رکھ کر کریں گے تو میری آپ سب پاکستانیوں سے بھی گزارش ہے کہ خدارا ایرانی اور سعودی بننے کی بجائے پاکستان بنیں اور شعیہ سنی کی لڑائی میں نہ پڑیں یہ سب اندر سے ایک ہیں کوشش کریں اپنے ملک کا سوچیں کیونکہ ان میں سے کوئی نہ آپکو ایرانی شہریت سے دے گا نہ ہی سعودی تو بہتر ہے اپنے ملک کا سوچیں.

No comments:

Post a Comment

Total Pageviews