January 30, 2020

Life of Holy Prophet Hazrat Muhammad ﷺ





آپ رسول اللہ ﷺ کا اسوہ حسنہ ملاحظہ کیجیے‘ ہمارے رسولؐ نے پوری زندگی جھوٹ نہیں بولا‘ اونچی آواز میں بات نہیں کی‘ کسی کی طرف نفرت سے نہیں دیکھا‘ غرور نہیں کیا‘ کسی کو گالی نہیں دی‘ کسی کو بددعا نہیں دی‘ کسی کا دل نہیں توڑا‘ کبھی وعدہ خلافی نہیں کی‘ کوئی عہد‘ کوئی سمجھوتہ نہیں توڑا‘ کوئی درخت نہیں کاٹا‘ کوئی راستہ نہیں روکا‘ کسی جانور کو پتھر نہیں مارا‘ کسی ناجائز بچے کو ناجائز نہیں کہا‘ کسی حکومت کی رٹ کو چیلنج نہیں کیا‘ کسی کافر سے بھی منہ نہیں موڑا۔

آپؐ زندگی میں عیسائیوں سے بھی ملتے رہے اور یہودیوں کے ساتھ بھی ملاقات کرتے رہے‘ آپؐ نے مسجد نبوی کے دروازے غیر مسلموں کے لیے بھی کھلے رکھے‘ آپؐ نے پوری زندگی کافروں کے احسان بھی یاد رکھے‘ پوری زندگی عورتوں کا احترام کیا‘ پوری زندگی بچوں سے پیار کیا‘ پوری زندگی کسی پر ہاتھ نہیں اٹھایا‘ پوری زندگی خود کو متقی اور دوسروں کو گناہ گار قرار نہیں دیا‘ اللہ تعالیٰ نے عبداللہ بن ابی کو منافق اعظم قرار دیا۔
مسجد ضرار گرانے کا حکم دے دیا لیکن جب عبداللہ بن ابی کا انتقال ہوا تو ہمارے رسولؐ نے نہ صرف اس کا جنازہ پڑھایا بلکہ اس کی تدفین کے لیے اپنا کرتہ مبارک بھی عنایت کیا اور کثرت سے اس کی مغفرت کے لیے دعا بھی فرمائی‘ طائف کے لوگوں نے پتھر مار مار کر لہو لہان کر دیا‘ ہمارے رسولؐ کی نعلین مبارک میں خون جم گیا‘ حضرت جبرائیلؐ آئے اور عرض کیا‘ یارسول اللہ ﷺ! میرے ساتھ ملک الجبال(پہاڑوں کی نگرانی پر مقرر فرشتہ) موجود ہیں‘ آپ حکم دیجیے یہ تعمیل کریں گے۔

ملک الجبال نے عرض کی‘ مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے‘ آپ جو چاہیں حکم کریں‘ میں تعمیل کروں گا‘آپؐ حکم دیں پہاڑوں کو ملا کر ان تمام بے ادب اور گستاخوں کو پیس ڈالوں؟ فرمایا نہیں‘ یہ نہیں تو ان کی آنے والی نسلیں اسلام قبول کریں گی‘ محمد بن قاسم طائف کی آنے والی اسی نسل کا باشندہ تھا‘ طائف بچ گیا‘ محمد بن قاسم کے آباؤاجداد بچ گئے اور آخر میں ہندوستان کے لوگ کفر سے بچ گئے۔ آپؐ نے مکہ کے ان لڑکوں کو بھی سینے سے لگا لیا جو آپؐ پر پتھر برساتے تھے۔
آپؐ نے ان لوگوں کو بھی معاف فرما دیا جو کعبہ کے سائے میں آپؐ پر اونٹ کی اوجھڑی ڈال جاتے تھے‘ آپؐ کی صاحبزادیاں آ کر وہ اوجھڑی اتارا کرتی تھیں‘ وہ روتی جاتی تھیں اور آپؐ کا سر مبارک دھوتی جاتی تھیں اور آپؐ آخر میں ان کا ماتھا چوم کر فرماتے تھے غم نہ کرو اچھا وقت بھی آئے گا‘ ہمارے رسولؐ نے پوری زندگی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا‘ چندہ جمع نہیں کیا‘ کپڑوں کا تیسرا جوڑا نہیں بنایا‘ پوری زندگی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا‘ کبھی دانت صاف کیے بغیر نہیں سوئے۔

آپؐ نے وصال سے پہلے بھی مسواک فرمائی‘ کسی کا حق نہیں مارا‘ کبھی گندے کپڑے نہیں پہنے‘ بدن اطہر سے کبھی بو نہیں آئی‘ کبھی پکا مکان نہیں بنایا‘ پوری زندگی کسی غلام‘ کسی خادم کو نیند سے نہیں جگایا‘ کسی کو اوئے نہیں کہا‘ کبھی کسی غیر محرم کو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا‘ گلی یا سڑک کے درمیان میں نہیں چلے‘ کبھی گند نہیں پھیلایا‘ کبھی راستے میں نہیں بیٹھے‘ کبھی لوگوں کے معاملات زندگی میں مداخلت نہیں کی‘کبھی کسی کے خدا‘ کسی کے مذہبی رہنما کو برا نہیں کہا۔
آپؐ نے پوری زندگی بتوں کو بھی گالی نہیں دی‘ کسی کا حق نہیں مارا‘ کسی کا قرض نہیں دبایا‘ پوری زندگی ممتاز ہو کر نہیں بیٹھے‘ حاتم طائی کی صاحبزادی بھی قیدی بن کر آئی تو اس کا اٹھ کر استقبال کیا‘ غزوات میں بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کی‘ دشمن کے بچوں کو قتل نہیں کیا‘ کسی عورت پر تلوار نہیں اٹھائی‘ میدان جنگ میں بھی درخت نہیں کاٹا‘ زخمی دشمن کو قتل نہیں کیا‘ پوری زندگی امانت میں خیانت نہیں کی۔

کسی شخص کو زبردستی نماز نہیں پڑھائی‘ کسی کو روزے کے لیے مجبور نہیں کیا‘ کسی کو جبراً داڑھی نہیں رکھوائی‘ کسی کو زبردستی عمامہ نہیں باندھا اور کسی کو جبہ پہننے پر مجبور نہیں کیا‘ کوئی بازار بند نہیں کرایا‘ کوئی میلہ نہیں رکوایا اور کسی کے ہنسنے‘ کھیلنے اور خوش ہونے پر پابندی نہیں لگائی‘ کبھی کم نہیں تولہ‘ کبھی کم نہیں ناپا‘ کبھی دودھ میں پانی نہیں ملایا‘ کبھی خوراک اور ادویات میں ملاوٹ نہیں کی‘ کبھی رقم جمع نہیں کی اور کبھی کسی بھی چیز کی ذخیرہ اندوزی نہیں کی۔
آپؐ جس سے بھی ملے مسکرا کر ملے‘ جس کو بھی رخصت کیا کھڑے ہو کر گرم جوشی سے رخصت کیا‘ جس کو دیکھا اسی کو اہمیت دی‘ جس نے پوچھا اس کو پورا سمجھایا‘ پورا بتایا‘ گستاخوں کی گستاخی کو مسکرا کر اگنور کر دیا‘ نفرت کرنے والوں کی نفرت کو ہنس کر ٹال دیا‘ کانٹے بچھانے‘ کوڑا پھینکنے والوں کی عیادت کی‘ گرے ہوئے پر وار نہیں ہونے دیا۔

حضرت امیر حمزہؓ کا کلیجہ چبانے اور خود کو ابتر کہنے والوں کو بھی معاف کر دیا‘ اللہ تعالیٰ نے بھی جہاں بس اور بس فرما دیا آپؐ نے وہاں بھی شفقت اور محبت کا سلسلہ نہیں ٹوٹنے دیا‘ آپؐ نے اپنی صاحبزادی کو تکلیف دینے والوں کو بھی معاف کر دیا اور کعبے کے دروازے بند کرنے والوں کے سر پر بھی ہاتھ رکھ دیا۔
آپؐ نے پوری زندگی اپنا کام خود کیا‘ اپنے کپڑے مرمت کیے‘ جھاڑو دیا‘ اپنے جوتے گانٹھے‘ جانورں کو چارہ کھلایا اور اپنا بستر سیدھا کیا‘ پوری زندگی سادہ خوراک کھائی‘ فاقے بھی کاٹے‘ دھوپیں بھی سہیں اور سردیاں بھی برداشت کیں‘ آپؐ کی چھت بھی ٹپکی اور صحن میں کیچڑ بھی ہوا‘ لوگوں نے آپؐ کے مال پر بھی قبضہ کیا اور آپؐ نے پوری زندگی لوگوں کے طعنے بھی سہے‘ آپؐ نے پوری زندگی خوش حالی نہیں دیکھی اور آپؐ کو پوری زندگی نرم بستر نہیں ملا۔
ہم اگر اس رسولؐ کے عاشق ہیں تو پھر ہم میں ان کی کون سی خوبی موجود ہے‘ کیا ہماری زبانیں اور ہمارے ہاتھ کنٹرول میں ہیں‘ کیا ہمارے دل نفرت اور کدورت سے پاک ہیں‘ کیا ہم مال ودولت اور خوش حالی کی علتوں سے ماورا ہیں‘ کیا معاف کرنا‘ خدمت کرنا اور دوسروں کی مدد کرنا ہماری روٹین ہے‘ کیا ہم اپنی اور اپنے ماحول کی صفائی کا خیال رکھتے ہیں‘ کیا ہماری زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہیں‘ کیا اعتدال ہماری زندگی ہے‘ کیا ہم ہاتھ‘ منہ اور پیٹ روک کر کھانا کھاتے ہیں‘ کیا ہم نے غرور‘ حسد اور غصے کے جذبے ختم کر لیے ہیں۔
کیا ہمارا سینہ اتنا چوڑا اتنا وسیع ہو چکا ہے کہ ہم عیسائیوں‘ یہودیوں اور ہندوؤں کو سینے سے لگا لیں‘ کیا ہم عورتوں‘ بچوں اور بوڑھوں کو عزت اور محبت دیتے ہیں‘ کیا ہم پانی کی پاکیزگی اور درختوں کی طراوت کی حفاظت کرتے ہیں‘ کیا ہم امن کو جنگ اور محبت کو نفرت پر فوقیت دیتے ہیں‘ کیا ہم گورے اور کالے‘ عربی اور عجمی اور امیر اور غریب دونوں کو ایک نظر سے دیکھتے ہیں‘ کیا ہم جھوٹ‘ منافقت اور فریب سے مبریٰ ہو چکے ہیں‘ کیا ہم نے تصنع اور بناوٹ کو اپنی زندگی سے خارج کر دیا ہے۔
کیا ہم اپنے کام اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں‘ کیا ہمارے چہروں پر ہر وقت مسکراہٹ اورہمارے ہاتھوںمیںہروقت گرمی رہتی ہے‘ کیا ہمارے دسترخوان وسیع اور اختلافات کے دفتر چھوٹے ہو چکے ہیں‘ کیا ہم ہمسایوں کے حقوق ادا کر رہے ہیں‘ کیا ہم بنیادی انسانی حقوق کی عزت کر رہے ہیں‘ کیا ہم راستوں‘ گلیوں اور شاہراہوں کی حرمت کا خیال رکھ رہے ہیں اور کیا ہماری نگاہیں صاف اور زبانیں پاک ہیں؟ خدا کی قسم نہیں‘ ہم دنیا کی ایسی بدترین قوم ہیں جس کے ہاتھ‘ زبان اور شر سے اپنے محفوظ ہیں اور نہ ہی پرائے‘ ہم کلمہ پڑھ کر دوسروں کو گالی دیتے ہیں۔
ہم منبر رسولؐ پر بیٹھ کر دوسروں کو کافر قرار دیتے ہیں‘ ہم قرآن اور احادیث سے نفاق کی پنیری نکال لیتے ہیں‘ ہم نماز پڑھتے ہیں اور پھر اٹھ کر دوسرے نمازی کو قتل کر دیتے ہیں‘ ہم مسجدوں‘ درگاہوں اور مزاروں کے چندے کھا جاتے ہیں اور ہم کبھی ڈبل شاہ اور کبھی مفتی مضاربہ بن کر لوگوں کی کمائی لوٹ لیتے ہیں لیکن ہم اس کے باوجود عشق رسولؐ کے دعوے دار بھی ہیں‘ ہم سچے عاشق رسولؐ بھی ہیں؟ ہم کیسے عاشق ہیں جن میں اپنے محبوب کی ایک بھی خوبی‘ ایک بھی صفت موجود نہیں‘ ہم کیسے عاشق ہیں‘ ہم گالی بھی دیتے ہیں‘ راستے بھی روکتے ہیں‘ ڈنڈے بھی دکھاتے ہیں اور عشق رسولؐ کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔
ہم قیامت کے دن اپنے رسولؐ کو کیا منہ دکھائیں گے‘ ...

January 04, 2020

WORLD TRADE CENTER 9/11 AND REALITY EFFECTS FALSE FLAG OPERATION BY AMERICA


https://www.facebook.com/ArifSiddiquiPk/videos/812100049289792/?__tn__=K-R

*ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی: حقیقت کیا ہے؟*

*تحقیق و ترجمہ: محمد عمران مسجدی*
گیارہ ستمبر 2001 کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر فضائی حملوں میں تین ہزار سے زائد امریکی باشندے ہلاک ہوئے۔ 9/11 کمیشن رپورٹ کے مطابق یہ کاروائی ایک نئی پرل ہاربر کاروائی تھی۔ گورنمنٹ نے اپنی ہی عوام کے خلاف ایک بڑے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ اس حوالہ سے مزید شواہد سامنے آئے ہیں کہ 9/11 کےورلڈ ٹریڈ سینٹر کے حملوں کے پیچھے خود امریکی وہائٹ ہاؤس کا ہاتھ تھا۔ مختلف وِسل بلوئرز نے امریکہ اور القاعدہ کے سربراہ کی باہم بات چیت کو بے نقاب کیا ہے۔ اپنی ہی عوام کے خلاف دہشت گردانہ حملے کروانا امریکی وہائٹ ہاؤس کا منصوبہ تھا اور جسمیں امریکی فنڈز استعمال کئے گئے اور اسکا اپنا پارلیمنٹری کمیشن براہِ راست ملوث تھا ۔گورنمنٹ ٹاپ لیول آفیشلز اور امریکی خفیہ ایجنسی سی آئے اے CIA  کے سابق افسر ان نے بھی اسکی تصدیق کی ہے۔ اور اسے گلیڈیو جیسا آپریشن قرار 
دیا ہے۔ یہ بات سی آئی اے کے سابق افسر بِل کولبی نے بیان کی۔

یاد رہے! 'آپریشن گلیڈیو' کے بارے میں ہائی اتھارٹیز کی جانب سے باور کروایا جاتا
 رہا ہے کہ 1972 میں اور پھر 1990 میں یہ آپریشن ختم کیا جاچکا لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اب بھی مختلف ناموں سے اور دنیا کے مختلف خطوں میں جاری ہے۔
اس آپریشن کا ایک سازشی کردار وِنسنز وِنسی گوارا اپنے اعترافی بیان میں کہتا ہے: "تم نے اپنے مذموم مقاصد کے لئے معصوم لوگوں، عورتوں، بچوں اور بزرگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اور اس حملے کے بعد ریاست کو یہ موقع مل گیا کہ وہ ایمرجنسی نافذ کردے۔ "


ڈاکٹر ڈینئل گینسر کہتا ہے: 'آپریشن نارتھ ووڈ ' اور آپریشن گلیڈیو کا ڈیٹا اور اسکے کرتا دھرتا موجود ہیں۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ فالس فلیگ دہشت گردی false flag terrorismلوگوں کو بے وقت مروانے، ذہنی اذیت دینے اور بھیڑوں کیطرح ہانکنے کا سبب بنتی ہے۔ یہ فتنہ پھیلانے کی حکمتِ عملیstrategy of tensionہےجو کہ امریکی مرکز وہائٹ ہاؤس کی جانب سے اپنائی جاتی رہی ہے۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ اتھارٹی خود دھماکے کرواتی ہے اور کہتی ہے کہ تمھارے دشمن نے یہ سب کیا ہے۔ اور یہ سلسلہ مستقل اور ہر زمانے میں جاری رہا ہے۔ یہ 9/11 کا واقعہ امریکی صدر نکسن کے دور( 1972سے 1974)کےدوران ہونے والے واٹر گیٹ اسکینڈل سے بھی بڑا اور کئی گنا خطرناک اور عالمی اثرات کا حامل سازشی واقعہ ہے۔
برطانوی انویسٹیگیٹو جرنلسٹ نفیض احمد جو کہ کئی عالمی شہرت یافتہ کتابوں کا مصنف بھی ہے )اسکی مشہور کتاب The War on Freedom: How and Why America was Attacked, September 11, 2001, (Published 2002) (۔اسکےاور چند دوسرے ذرائع کے مطابق القاعدہ کے ڈپٹی لیڈر جو اب القاعدہ کے ہیڈ بھی ہیں یعنی ایمن الظواہری اور امریکی خفیہ ایجنیوں میں 2001 تک باہم مسلسل کئی میٹنگز ہوتی رہیں اور قریبی رابطہ بھی رہا۔
امریکہ نے 9/11 کے سازشی حملوں سے قبل جولائی 2001میں ان حملوں کے سب سے مطلوب شخص رمزی یوسف کے قریبی ساتھی محمد خلیفہ کو سابق سیکریٹری آف اسٹیٹ وارن کرسٹوفر (1993-97)کی براہِ راست مداخلت کے ساتھ سعودیہ عرب بھجوادیاتھا ۔ (یاد رہے! اسوقت امریکہ کا سیکریٹری آف اسٹیٹ کولن پاول 2001-05 تھا)۔ یہ بات اکثر مغربی محققین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ یہ دہشتگرد محض امریکہ کے آلہ کار یا tool تھے جنھیں اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کیا گیا۔


ڈاکٹر کیوین بیرٹ جو علوم العربیہ میں ڈاکٹریٹ ہے اور جس نے Questioning the War on Terror کتاب لکھی اور اس کتاب کی وجہ سے اسے وِسکوسن یونیورسٹی سے بے دخل کر دیا گیا تھا ،اسکا کہنا ہے کہ جہاں تک القاعدہ کی بات ہے تو یہ مغربی خفیہ ایجنسیوں کی تیار کردہ تنظیم ہے۔ یہ بات مصری سیاسی امور کے ماہر محمد ہیکل نے بھی کہی کہ امریکی اینٹیلی جنس ایجنسیز القاعدہ کے معاملات میں براہِ راست ملوث ہے۔ 9/11 کے فوری بعد اسنے کہا کہ یہ حملے سراسر جھوٹے پروپیگنڈے پر مبنی امریکی کاروائی ہے۔اور القاعدہ کو حقیقت میں چلانے والے مغربی ممالک ہی ہیں۔ القاعدہ میں سعودی خفیہ ایجنسی کے افراد ہیں، اسکے ساتھ ساتھ اسمیں اسرائیلی ،امریکی اور مصری خفیہ ایجنسیز کے اہلکار بھی موجود ہیں۔(یاد رہے! مصری ایمن الظواہری (پ 1951) تاحال حیات ہیں)۔ ڈاکٹر کیوین نفیض احمد کے حوالہ سے بتاتا ہے کہ 9/11 سے قبل ہونے والے ترکی کے ایک حملے کے دوران القاعدہ کے بڑے سرکردہ رہنما ترکی کے کسی جیل میں قید تھے اس جیل کے گارڈز نے یہ بیان دیا کہ یہ القاعدہ جیسی جہادی تنظیم کے رہنما ہونے کے باوجود حرام حلال کا کوئی لحاظ نہ کرتے تھے۔ جب ان سے پوچھا جاتا کہ آپ تو بنیاد پرست مسلمان ہیں تو مسکرا کر کہتے کہ ایسانہیں ہے بلکہ یہ صرف کشیدگی پیداکرنے کی حکمتِ عملی Engineering of Crisesہے۔
اس 9/11 کے بارے میں دنیا کے ٹاپ فزیسٹ، پائیلٹس، انجینئرزاور ہلاک شدگان کے لواحقین کا کہنا ہے کہ مین اسٹریم میڈیا نے اس معاملہ کی حقیقت بیان کرنے میں مکمل طور پر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے رکھی ۔ 9/11 کے واقعہ کے بعد ٹائم اسکوائر کے بڑے بڑے بِل بورڈز اور پوری اسٹیٹ میں اس بات کی خوب تشہیر کی گئی کہ "کیا آپ جانتے ہیں کہ تیسرا ٹاور (WTC-7) بھی 9/11 کے روزتباہ ہو گیا تھا؟" یہ بات باعثِ حیرت تھی کہ وہ بڑا ٹاور جسے کسی حملہ آور طیارے نے چھوا تک نہ تھا وہ بھی گِر گیا۔


ماہرِ تعمیرات رچرڈ کیج کے مطابق: یہ ممکن ہی نہ تھا کہ ایک ایسا عظیم ٹاور ازخود یوں زمیں بوس ہوجائے۔5:20 منٹ پر ڈبلیو ٹی سی سیون اچانک اور یکدم ایسے زمین پر آگرا جیسے وہ کوئی مضبوط اسٹیل اسٹرکچر کی عمارت نہ ہو بلکہ کوئی پین کیک ہو۔
سِول اسٹرکچرل انجینئر رولنڈ اینگل کہتا ہے: یہ ناممکن ہے یہ گویا ہائی اسکول کی فزکس کے بھی منافی ہے۔
ماہرِ تعمیرات جوناتھن سمولن کہتا ہے: ایک ایسی بلڈنگ جو کہ40 ہزار ٹن اسٹرکچرل اسٹیل اور پائیدار سسٹم پر تعمیر کی گئی تھی ایسے یکدم بلا کسی وجہ کے زمین بوس نہیں ہوسکتی تھی الا یہ کہ اسے دھماکے سے نہ اڑا دیا جائے۔
حکومت کے مطابق تمام کے تمام 84 اسٹیل کے ستون یا کالمز ایک ساتھ ٹوٹ گئے تھے۔ جبکہ ہزاروں مصدقہ غیر حکومتی ذرائع کے مطابق جنمیں سے ایک جان کال آرکیٹکٹ انجینئر بھی ہے، کا کہنا ہے کہ یہ ان 19 ہائی جیکرز کا کام ہر گز نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ یہ اسٹیل ،آفس فائر کیوجہ سے بالکل بھی پگھل نہیں سکتا تھا ، یہ جیٹ فیول سے بھی ممکن نہ تھا اور نہ ہی یہ ممکن تھا کہ یہ ٹاور از خود گِر جاتے۔ یہ سائنسی طور پر اور عملاً ناممکن بات ہے ۔ WTC-7 بلڈنگ کا یوں زمین بوس ہوجانا واضح طور پر ایک کنٹرولڈ تباہی کا نتیجہ تھا۔ سائنسی و متعلقہ ماہرین ِ علم کا اتفاق ہے کہ اسکی صرف ایک ہی وجہ ممکن ہے کہ ان ٹاورز کے کالمز کو ایک ساتھ دانستہ تباہ کیا گیا تھا۔ اسبات کے ثبوت و شواہد باقاعدہ عملی تجربات کے ذریعہ بھی فراہم کئے گئے کہ اس بلڈنگ کا یوں ازخود بیٹھ جانا ممکن ہی نہ تھا۔ اس حوالہ سے کی گئی تھرمائیٹ ڈییبٹ سے بھی یہی کچھ ظاہر ہواہے۔
کانسنسس9/11 پینل جس نے گویانو گیارہ پر اپنی تحقیق کو گولڈ اسٹینڈرڈ کی طرح ثابت کردیا تھا کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے حوالہ سے امریکی گورنمنٹ کی فراہم کردہ معلومات غلط بیانی ،جھوٹ اور من گھڑت پروپیگنڈے پر مبنی تھیں۔ دلچسپ بات یہ بھی ہوئی کہ اس کمیشن کے متفقہ بیان کے بعد گورنمنٹ نے اپنا موقف تبدیل کر لیا۔ مذکورہ متفقہ نو گیارہ پینل کی ایک محققہ الزبتھ وڈورتھ جو کہ consensus9/11.org سے تعلق رکھتی ہیں ،کہتی ہیں: اس کمیشن کی تحقیقات و نتائج کو میڈیا پر کبھی صحیح طور پر پیش نہیں کیا گیا۔ الزبتھ نے مزید بتایا کہ ڈیوڈ چینڈلر جو کہ طبیعیات و ریاضی کے میدان میں تیس سال سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں ،انھوں نے بذریعہ تفصیلی تحقیق اور ماڈلز اسے ثابت کیا کہ اس بلڈنگ کے گِرنے کا سائنسی طور پر صرف ایک ہی سبب ممکن ہے اور وہ یہ کہ اس اسکائی اسکریپر کے اگر تمام کے تمام چوراسی کالمز ایک ساتھ ڈھے جائیں ۔
محقق ڈاکٹر گریم میکوئن جنھوں نے عینی شاہدین کی آراء جمع کیں اور اس دن فائر ڈپارٹمنٹ کا ریکارڈ بھی چیک کیا ۔انکے مطابق 10 ہزار صفحات پر پھیلی رپورٹ اور 118 سے زائد عینی شاہدین کے مطابق اس دن دھماکوں کی آوازیں سنیں گئیں لیکن یہ خبر مین اسٹریم میڈیا پر کبھی نشر نہیں کی گئیں۔ اسکے ساتھ ساتھ فائر فائیٹرز نے بھی اس حوالہ سے اپنی شہادتیں ریکارڈ کروائیں۔


یاد رہے! مین اسٹریم میڈیا کا ایک حکومتی ترجمان ریکل میڈو (MSNBC)جو کہ ایک بہت چرب زبان شخص ہے اور اسی نام سے ایک پروگرام کو ہوسٹ کیا کرتا تھا ۔ اسنے امریکی حکومت کے جھوٹے بیانیئے کو خوب اور پرزور انداز میں ہر پلیٹ فارم پر پیش کیا۔
باب میکیل وین جسکا بیٹا اس حملہ میں مارا گیا اور جسے اب ایک برے آدمی کے طور پر ظاہر کیا جارہا ہےوہ کہتا ہے: میرا بیٹا ان حملوں میں مارا گیا۔ میرا بیٹا مذکورہ دھماکوں کےذریعہ ہی ہلاک کیا گیااور اسے میں نے ثابت بھی کیا لیکن عدالتی جیوری نے یہ قبول نہیں کیا۔ ہم یہ بات جانتے ہیں کہ 9/11 کا یہ واقعہ امریکی ساختہ اندرونی سازش تھی ایک inside job ۔ میرا بیٹا ایک ایسی ہی امریکی کاروائی میں مارا گیا ۔ امریکیوں نے ہی میرے بیٹے کو بم دھماکے میں ہلاک کیاہے۔ مجھے سازشی نظریہ ساز Conspiracy Theorist کہہ کر رد کر دیا گیا اور میرا مذاق اڑایا گیا۔ نیوز ایجنسی کے چند افراد جو کہ نسبتاً ہمدرد واقعہ ہوئے تھے انھوں نے مجھے کہا کہ باب تم ٹھیک کہتے ہو لیکن بحیثیتِ نیوز رپورٹر یا نیوز کاسٹر یہ ہماری جاب ہے کہ ہم حکومتی موقف کو پیش کریں اسکا دفاع کریں ۔ میری کہانی کو نہ الیکٹرانک میڈیا پر دکھایاگیا نہ پرنٹ میڈیا پر ہی شائع کیا گیا۔ اور اس واقعہ کی ذمہ داری میں اپنی اسٹیٹ پر امریکی عوام پر رکھتا ہوں ۔کیونکہ وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ : ہم امریکی اچھے لوگ ہیں۔ ۔۔ہم خاص لوگ ہیں۔۔۔ ہم دوسروں سے بہتر ہیں۔۔۔ یہ حکومتی ایماء پر کیا جاتا ہے۔ اب ہم ایک نہ ختم ہونے والی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جھونک دیئے گئے ہیں ۔ میں جانتا ہوں وہ لوگ جو عراق میں مارے جارہے ہیں، شام میں ہلاک کئے جارہے ہیں، لیبیا میں بلاوجہ قتل کئے جارہے ہیں۔افغانستان میں ان پر جنگ مسلط کر دی گئی ہے۔ وہ اپنے بچوں کو کھو رہے ہیں۔ ۔( روتے ہوئے )سب اپنے خاندانوں کو کھو رہے ہیں، ان سب کا ذمہ دار کون ہے؟ (ڈینیئل بُشل ( دی ٹرتھ سیکر۔ آرٹی نیوز،رشیا))


*خیال رہے:* RT ٹی وی روس کا غالباً سرکاری میڈیا نٹورک ہے جو امریکہ و یورپ کی کمزوریوں و چالبازیوں کو ہائی لائٹ کرتا رہتا ہے۔ اور یہ وہی کیمونسٹ روس ہے جسے گزشتہ دہائی میں کیپٹلسٹ امریکہ اور اسکے چاہی ان چاہی حواریوں نے افغان محاذ پر طالبان کے ذریعہ کھدیڑا ڈالا تھا۔اور بالآخر سرد جنگ کے بعد اسے کئی وسط ایشیائی اور دیگر ریاستوں میں توڑ دیا تھا۔
مزید تفصیلات کے لئے دیکھئے: https://rationalwiki.org/wiki/9/11
*چند متعلقہ اصطلاحات اور انکا مختصر پس منظر:*
*آپریشن گلاڈیو Operation Gladio(1956):*مسلح مزاحمت کی پوشیدہ "اسٹینڈ بیک" کاروائیاں، جس کی منصوبہ بندی ویسٹرن یونین (ڈبلیو یو) نے کی تھی ، اور اس کے بعد نیٹو نے بھی ، یورپ میں ممکنہ وارسا معاہدہ اور فتح کے لئے منصوبہ بنایا تھا۔ نیٹو کے متعدد ممبر ممالک اور کچھ غیر جانبدار ممالک میں اسٹینڈ بیک آپریشنز تیار کیے گئے تھے۔ گلیڈیو میں سی آئی اے کا کردار اور سرد جنگ کے دور کے دوران اس کی سرگرمیاں شامل سمجھی جاتی ہیں ۔ اس دوران اٹلی میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں سے بھی اسکا تعلق استوار ہے۔اس معاملے پر سوئٹزرلینڈ اور بیلجیم کی پارلیمانی تفتیش بھی ہوئی ہے۔
سوئس تاریخ دان ڈینیئل گانسر نے 2005 میں اپنی کتاب NATO’s Secret Armies(نیٹو کی خفیہ فوج )تحریر کی۔ اور یہ بات مختلف ثبوت اور شواہد سے ثابت کی کہ امریکہ اور یورپ کی مشترکہ فوج نے آپریشن گلیڈیو لانچ کر رکھے ہیں۔ اور دہشت گردی اور "Tension Strategyکشیدگی پیدا کرنے کی حکمت عملی" کے ذریعہ مختلف ممالک کی پالیسیوں کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ گانسر نے کہا کہ مختلف مواقع پر ، پیچھے رہنے والی تحریکیں دائیں بازو کی دہشت گردی ، جرائم اور بغاوت کی کوششوں سے منسلک ہیں۔ نیٹو کی خفیہ آرمی میں گانسر نے کہا کہ گلیڈیو یونٹوں نے نیٹو اور سی آئی اے کے ساتھ قریبی تعاون کیا اور اٹلی میں گلیڈیو اپنی ہی شہری آبادی کے خلاف دہشت گرد حملوں کا ذمہ دار تھا۔
بلیک واٹر Black waterوہ نجی غیر سرکاری امریکی فوجی تنظیم ہے جس نے مسلمان ممالک ( عراق، افغانستان، شام اور پاکستان )میں انسانیت سوز مظالم ڈھائے اور شہر کے شہر اجاڑ دیئے۔ یہ پاکستان میں بھی چوری چھپے امریکی سفارت کاروں کی سیکورٹی کے نام پر 2013 تک دندناتے پھرتے رہے لاہور، کراچی اور اسلام آباد کے پوش علاقوں میں بڑی بڑی رہائش گاہوں میں رہائش پذیر تھے اور اپنی دہشت سے بھر پور کاروائیاں سرانجام دیتے رہے۔ پی پی پی کے دور میں بلیک واٹر کے 200 افراد کو ویزے دئیے ۔یہ بھی اطلاعات ہیں کہ افغانستان میں جاری جنگ کوان 'نجی ٹھیکے داروںMercenaries ' کے حوالے کر دیا جائے اور ریگولر امریکی افواج کو وہاں سے نکال لیا جائے۔ بلیک واٹر کے بانی ایرک پرنس نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ صرف چھ ہزار پرائیوٹ سیکیورٹی اہلکاروں کی مدد سے افغان جنگ کو منطقی انجام تک پہنچا سکتے ہیں۔
 بلیک واٹر نے اپنا نام بدل کر اب زی(Xe)  اس بلیک واٹر تنظیم کا بانی ایرک پرنس (Erik Prince) نامی ایک سابق نیوی آفیسر ہے جو بحریہ کی بدنامِ زمانہ کمانڈو تنظیم (SEAL) کا رکن رہ چکا ہے۔ اپنی پرائیویٹ آرمی کو تربیت دینے کے لئے امریکہ میں اس نے ایک وسیع و عریض قطعۂ زمین خرید کر اس میں ایک بڑا ٹریننگ سنٹر قائم کیا ہوا ہے۔پاکستان میں البتہ زیادہ دیر تک اس کے قدم نہیں جم سکے تھے۔کیونکہ پاکستان آرمی نے جلد اس کا سراغ لگا کر اس کو ملک سے باہر نکال دیا تھا!

*اقتصادی غارت گر Confessions of an Economic Hitman 2004):* یہ جان پرکنز کی مشہور کتاب کا نام ہے۔ وہ بوسٹن(امریکہ) میں Chas. T. Main نامی کنسلٹنگ کمپنی (کارپوریشن )میں کام کیا کرتا تھا۔ اس کمپنی میں ملازمت سے پہلے جان پرکنز کا نیشنل سیکیورٹی ایجنسی (NSA) نے انٹرویو لیا تھا جو سی آئی اے طرز کی ایک اور امریکی ایجنسی ہے۔کہا جاتا ہے کہ اسامہ بن لادن نے اپنے ایک ویڈیو ٹیپ میں اس کتاب کا ذکر کیا تھا۔پرکنز کا کہنا ہے کہ اس نے یہ کتاب 1980 کی دہائی میں لکھنا شروع کی تھی مگر دھمکیوں اوررشوت کی وجہ سے کام بند کرنا پڑتا تھا۔اس کتاب کے مطابق پرکنز کا کام یہ تھا کہ ترقی پزیر ممالک کے سیاسی اور معاشی رہنماوں کو جھانسہ یا رشوت دے کر ترقیاتی کاموں کے لیےعالمی بینک World BankاورUSAIDسے بڑے بڑے قرضے لینے پر آمادہ کرے۔ اور جب یہ ممالک قرضے واپس کرنے کے قابل نہیں رہتے تھے تو انہیں مختلف ملکی امور میں مجبوراً امریکی سیاسی دباو قبول کرنا پڑتا تھا۔پرکنز کے مطابق قرضہ لینے والے ان ممالک میں غربت بڑھ جاتی تھی اور اقتصادیات مفلوج ہوجاتی تھی۔ hitmanکرائے کے قاتل کو کہتے ہیں۔ پرکنز اپنے آپ کو Economic Hitmanکہتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ ہم جیسے لوگوں کی تنخواہ بہت زیادہ ہوتی تھی اور ہم ساری دنیا کے ممالک کو دھوکا دے کر کھربوں ڈالر کا کاروبار کرتے تھے۔ورلڈ بینک اوریو ایس ایڈکے نام پر پیسہ چند امیر ترین خاندانوں کے پاس چلا جاتا تھا جو ساری دنیا کے قدرتی وسائل کے مالک ہیں۔ یہ لوگ اپنے مقاصد کے لیے غلط اقتصادی جائزے، فریبی مالیاتی رپورٹیں، ملکی انتخابات میں دھاندلی، طوائفیں، رشوت اور دھمکی جیسے ہتھیار استعمال کرتے تھے اور ضرورت پڑنے پر قتل بھی کروا دیتے تھے۔اپنے ایک انٹرویو میں پرکنز نے بتایا کہ پہلا معاشی کرائے کا قاتل Kermit Roosevelt, Jr تھا جو چھبیسویں امریکی صدرروزویلٹ کا پوتا تھا۔ اس نے 1953 میں ایران میں محمد مصدق کی حکومت کا تختہ پلٹوایا تھا، جبکہ مصدق قانونی طریقے سے انتخابات جیت کر صدرمنتخب ہوا تھا۔ مصدق کا جرم یہ تھا کہ اس نےبرٹش پیٹرولیم کمپنی کو قومی ملکیت میں لے لیا تھا جو پورے ایران میں تیل کی پیداوار کو کنٹرول کرتی تھی۔ برطانویMI6اور امریکیCIAنے مصدق کی جگہ ایرانی جنرل فضل اللہ زاہدی کوشاہ ایران بنا دیا۔ پرکنز کے مطابق اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ عالمی بینک بھی معاشی کرائے کے قاتلوں کا ایک آلہ ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ میرے کاموں میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ایسے ممالک کو تلاش کروں جہاں قدرتی وسائل موجود ہوں مثلاً تیل۔ اور پھر ان ممالک کے لیے عالمی بینک اور اس کی ساتھی کمپنیوں سے بڑے بڑے قرضوں کا بندوبست کروں۔ لیکن قرض کی یہ رقم کبھی بھی ان ممالک تک نہیں پہنچتی تھی بلکہ یہ ہماری ہی دوسری کارپوریشنوں کو ادا کی جاتی تھی جو ان ممالک میں انفراسٹرکچر بنانے کا کام کرتی تھیں مثلاً پاور پلانٹ لگانا اور انڈسٹریل پارک بنانا۔ ساری رقم اور سود چند مٹھی بھر خاندانوں میں واپس چلی جاتی تھی جبکہ اس ملک کے عوام پر قرضوں کا ایسا انبار رہ جاتا تھا جو وہ کبھی ادا نہیں کر سکتے تھے۔ ایسے موقعوں پر ہم پھر واپس آتے تھے اور کہتے تھے کہ چونکہ تم قرض ادا نہیں کر سکے ہو اس لیے تمہارا قرض "ری اسٹرکچر" کرنا پڑے گا۔ اب IMFکو گھسنے کا موقع ملتا تھا۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) ان سے کہتا تھا کہ ہم تمہارا قرض ری اسٹرکچر کرنے میں تمہاری مدد کریں گے لیکن تمہیں اپنا تیل اور دوسرے ذخائر ہماری کمپنیوں کو کم قیمت پر بیچنا پڑے گا اور وہ بھی بغیر کسی پابندی کے۔ یا پھر وہ مطالبہ کرتے تھے کہ اپنے بجلی اور پانی کے ذرایع ہماری کارپوریشن کے کنٹرول میں دے دیے جائیں یا ہمیں فوجی اڈا بنانے کی اجازت دی جائے یا ایسی ہی کوئی اور شرط۔ حتیٰ کہ وہ اسکولوں اور جیلوں تک کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینے کا خیال تھا مطالبہ کرتے تھے۔

*پرل ہاربر حملہ: Pearl Harbor attack (دسمبر1941):* جسے ہوائی یا آپریشن زی بھی کہا جاتا ہے۔ جسمیں امریکی (جھوٹے)ورژن کے مطابق جاپانی بحریہ نے امریکی جزیرے ہوائی میں پرل ہاربر کے بحری اڈے پر پر اچانک حملہ کر دیا تھا ۔حملے کے نتیجے امریکا کے 8 بحری جہاز تباہ ہوئے اور 9 کو شدید نقصان پہنچا۔ 188 طیارے مکمل طور پر تباہ ہو گئے جبکہ 2403 امریکی فوجی اور 68 شہری ہلاک ہوئے۔ جبکہ محقیقین کے مطابق یہ ایک فالس فلیگ آپریشن تھا جسکے بعد امریکہ نے دوسری جنگِ عظیم میں کودنے کا جواز گھڑا۔درحقیقت یہ آپریشن تاریخ کو بدلنے والے واقعات میں شمار ہوتا ہے۔ امریکا، جو اس وقت ایک ابھرتی ہوئی عسکری و اقتصادی قوت تھا، نے بڑی تعداد میں فوجی اور اسلحہ اور رسد اتحادیوں کو بھیجی تاکہ محوری طاقتوں یعنی جرمنی،اطالیہ اورجاپان، کا مقابلہ کیا جا سکے جنہیں بالآخر 1945ء میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جنگ عظیم دوم میں اتحادیوں کی فتح اور امریکا کا ایک غالب عالمی قوت کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آنا موجودہ بین الاقوامی سیاسی منظرنامے کو تبدیل کرنے کا باعث بنا۔

*آپریشن نارتھ ووڈOperation Northwood(1962):* یہ ان تجاویز کا نام ہے جو امریکی فوجی کمان نے 1962ء میں امریکا کے اندردہشت گردی کے واقعات کا ڈراما کر کے ان کا الزام کیوبا کی حکومت پر ڈالنا تھا، جس کے بعد کیوبا پر حملہ کرنے کا جواز حاصل ہو جاتا۔کیوبا پر حملے کا جواز گھڑنے کے لئے تارکینِ وطن کیوبن شہریوں کا قتلِ عام کیا جانا تھا، کیوبا کے جہاز کا سمندر میں ڈبو دینا تھا، ہوائی جہازوں کو ہائی جیک کرنا اور انکو تباہ کرنا ، امریکی بحری جہاز کو ڈبو دینا اور امریکہ میں پرتشدد تصادم کو ہوا دینا بھی ہوسکتا تھا۔ لیکن قتل ہوجانے والے امریکی صدر جان کینڈی نے اسکی اجازت نہ دی۔

*فالس فلیگ :(فریبی جھوٹا یا کالا پرچم)False Flag:* یہ اس خفیہ فوجی یا نیم فوجی کارروائی کو کہتے ہیں جن کا مقصد اس طرح فریب دینا ہوتا ہے کہ یہ معلوم ہو کہ یہ کارروائی انجام دینے والوں کی بجائے کسی اور ہستی، گروہ یا ملک نے کیے ہیں۔ زمانہ امن میں شہری تنظیموں اور سرکاری اداروں کی کارروائی بھی فریبی پرچم کہلائے گی، اگر اس کارروائی میں ملوث اداروں کو چھپانا مقصود ہو۔ فریبی پرچم تاریخاً بحری جنگ میں شروع ہوا جب کسی دوسرے ملک کا جھنڈا اڑائے ایک بحری جہاز حملہ آور ہوتا تاکہ دشمن کو دھوکا دیا جا سکے۔ انگریز قانون میں اسے جائز سمجھا جاتا تھا۔ موجودہ دور میں دہشت گردی کے واقعات پرچم دورغ false flag کے تحت کرنے کی شکایات عام ہیں۔
*وِسل بلوئر (سیٹی مار Whistleblower):* کھیل کے دوران ریفری جب کسی غلط فعل کو دیکھتا ہے تو سیٹی بجا کر کھیل روک کر غلطی کی سزا دیتا ہے۔ عام زندگی میں سٹی بلوئر ایسے شخص کو کہتے ہیں جو کسی محکمہ یاتنظیم کا رکن ہوتے ہوئے اس میں بدعنوانی کی نشان دہی کرے اور ذمہ دار افراد کو ان کرتوتوں کے بارے میں مطلع کرے۔ اکثر حکومتیں وِسل بلوئر سے خوفزدہ رہتی ہیں اور اس کی بیخ کنی 
  کی تدابیر کرتی رہتی ہیں۔
ویڈیو ملاحظ فرمائیں۔

<iframe src="https://www.facebook.com/plugins/video.php?href=https%3A%2F%2Fwww.facebook.com%2FArifSiddiquiPk%2Fvideos%2F812100049289792%2F&show_text=0&width=560" width="560" height="308" style="border:none;overflow:hidden" scrolling="no" frameborder="0" allowTransparency="true" allowFullScreen="true"></iframe>

GENERAL QASIM SULEMANI , & AND GENERAL AZIZ EFECTS AFTER DEATH





ہم جب کوئی نیا موبائل لینے جاتے ہیں تو کیمرے پہ بڑا فوکس کرتے ہیں کہ اس کی امیج کوالئی اچھی ہونی چاہیے، تصویر کافی کلئیر آنی چاہیے، زوم پہ بھی کوالٹی اچھی آنی چاہیے، لینز وائڈ اینگل کا حامل ہونا چاہیے تو انسان کی سوچ کا اینگل بھی وائڈ ہونا چاہیے، انسان کو خود بھی اردگرد ہوتے واقعات کو زوم کرکے دیکھنا چاہیے بےشک جلد بازی میں رائے قائم کرکے سب سے پہلے میں کی روایت سے کہیں بہتر ہے کہ دیر میں درست کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.
چلیں اب آتے ہیں بات کی طرف کل جب امریکی حملے میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی موت ہوگئی.
پوری دنیا کو ایک نیا مدعا مل گیا خاص کر پاکستانیوں کو تو جیسےایران یا سعودی شہری بننے کا موقع مل گیا ہو. کوئی سعودی بن چاہیے، تصویر کافی کلئیر آنی چاہیے، زوم پہ بھی کوالٹی اچھی آنی چاہیے، لینز وائڈ اینگل کا حامل ہونا چاہیے تو انسان کی سوچ کا اینگل بھی وائڈ ہونا چاہیے، انسان کو خود بھی اردگرد ہوتے واقعات کو زوم کرکے دیکھنا چاہیے بےشک جلد بازی میں رائے قائم کرکے سب سے پہلے میں کی روایت سے کہیں بہتر ہے کہ دیر میں درست کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.
چلیں اب آتے ہ گیا کوئی ایرانی بن گیا اور ایک دوجے پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیے جبکہ ان پاکستانیوں کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے تھا کہ آپ جب بھی مصیبت میں ہوئے ہیں تو آپکے لیے نہ کوئی ایرانی آپس میں لڑتے ہیں اور نہ ہی سعودی. تو بہتر ہے آپس میں نہ ہی لڑیں.
تین ماہ میں دو اہم ترین قتل ہوئے جن میں کچھ چیزیں مشترک تھیں. یعنی چند ماہ پہلے اہم ترین سعودی جنرل عبدالعزیز اور کل ایرانی جنرل قاسم.
یہ دونوں ہی افراد اپنی اپنی افواج کے اہم ترین اور منجھے ہوئے جنرلز تھے وہ دونوں افواج جنہیں امریکہ آمنے سامنے لانے کی تگ دو میں ہے.
یہ دونوں جنرلز اپنے ملک کی حکومتوں میں اہم ترین کردار ادا کر رہے تھے یعنی حکومت میں کافی اثرورسوخ رکھتے تھے. دونوں جنرلز ملکی سلامتی میں اہم ترین کردار ادا کر رہے تھے یعنی اندرونی و بیرونی سیاست و سلامتی کے معاملات پر گہری نظر رکھتے تھے.
دونوں جنرلز اپنے اپنے ملک کے سربراہان کے انتہائی قریب ترین سمجھے جاتے تھے عبدالعزیز سعودی شاہوں کے لیے انکے گھر کے فرد جیسی قربت رکھتے تھے جبکہ قاسم سلیمانی بھی ایرانی سربراہان کے نزدیک ایسا ہی مقام رکھتے تھے.
ان دونوں جنرلز میں سے ایک کی موت تب ہوئی جب سعودی حکومت نے امریکا کو سعودی عرب میں سیکیورٹی کی ذمہ داری سونپی اس کے کچھ وقت میں جنرل عزیز پراسرار طور پر قتل ہوگئے جس کے بارے کہا گیا کہ "ذاتی رنجش" کی بنیاد پہ لیکن دنیا اتنی بیوقوف نہیں کہ یہ نہ جان پائے کہ ایک میجر جنرل اتنا کمزور نہیں ہوتا کہ کوئی بھی راہ چلتے اسے قتل کر ڈالے وہ بھی ذاتی رنجش پر تو کچھ تو اہم تھا.
جبکہ دوسرے یعنی ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کا قتل امریکا کے ہی ہاتھوں ہوا ہے اس وقت جبکہ ایک طرف ایران میں گزشتہ دنوں سینکڑوں لوگ ایرانی حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے قتل ہوئے ہیں اور ایران سعودیہ بھی امریکا کی ہی وجہ سے جنگ کے دھانے پر پہنچ چکے تھے اور دوسری جانب ایران اور امریکہ تعلق خراب ہونے کے ڈارمے بھی جاری ہیں.
یہ میری اپنی ذاتی رائے ہے آپ بے شک فی الحال متفق نہ ہوں لیکن مجھے پختہ یقین ہے کہ سعودی جنرل اور ایرانی جنرل کے قتل کے پیچھے انکی اپنی حکومتیں موجود ہیں اور سعودی جنرل کو کہ شاہی خاندان کا وفادار تھے اس کے قتل کے پیچھے بھی امریکا ہی ہے ذرا چیزیں کو زوم کرکے دیکھیں معلوم ہو جائے گا..
جیسا کہ میں نے اوپر کہا کہ یہ اپنے ملک کے سربراہان کے نزدیک ترین سمجھے جاتے تھے تو ایسی صورتحال میں کچھ اہم باتیں بھی سامنے رکھیے.
اتنی قربت کے بعد چند ایک چیزیں ہوسکتی ہیں جن کی بناء پر یہ بات واضح طور پر کہی جاسکتی ہے کہ انکے قتل کے پیچھے انکی حکومتیں ہیں.
یہ جنرل جب اپنی حکومت کے قریب کے تو ہوسکتا ہے انہیں حکومت کی کسی بات سے یا حکومت کو انکی کسی بات سے اختلاف ہو کیونکہ سعودی حکومت کی پچھلے کچھ عرصے کے متنازعہ عوامل جیسا کہ یمن میں ٹانگ اڑانا، فحاشی اور بےحیائی کا فروغ، مسلم ممالک کے مفادات کے خلاف چلنا اور سب سے بڑھ کر امریکا سے قربت اور امریکہ کو سعودی سیکیورٹی کے لیے منتخب کرنا،اسرائیل کی جانب بڑھتے قدم، جنرل عزیز شاہی خاندان کے وفادار تھا جبکہ اسی شاہی خاندان کے ایک بڑے حصے کو سعودی فرماروا سلیمامن سے کئی باتوں پر اختلاف بھی ہے تو دیکھیں کئی پہلو سامنے آئیں گے.
یہ ایسے عوامل جن میں ہوسکتا ہے کہ سعودیہ کی اہم ترین شخصیات میں سے کسی کو تکلیف ہو اور یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جس جنرل نے ہمیشہ سے سعودی شاہی خاندان سے قربت رکھی وہ شاید کے اس پہ خطرناک ثابت ہوسکتا تھا.
اس کے علاوہ ایران حکومت کو بھی جنرل سے اختلاف ہوسکتا تھا اور جنرل کو ایرانی حکومت سے بھی ایران کا کبھی بھارت کی طرف جھکاؤ، کبھی یمن میں ٹانگ اڑائی تو کبھی شام میں، تو کبھی سعودیہ سے اختلافات، کبھی اپنے ملک میں فسادات یہ وجوہات ہوسکتی ہیں اس میں یا تو حکومت جنرل کے ساتھ نہیں تھی یا پھر جنرل خودمختار جو کہ حکومت کے ہاتھ میں نہیں تھا خیر یہ تو اب وقت بتائے گا.
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایران اپنے جنرل کے قتل میں شامل تھا تو اسے امریکہ کے ہاتھوں کیوں مروایا تو یاد رکھیے ایرانی جنرل کا ایران میں مارا جانا اتنا آسان نہ تھا اور اسکے نتیجے میں جو صورتحال پیدا ہوتی شاید اسکا اندازہ کرنا مشکل نہیں. جنرل عزیز کے قتل کے بعد سعودیہ میں خاموشی اور جنرل قاسم کے قتل کے بعد ایران حکومت کا ٹھنڈا پڑتا غصہ ہم بدلہ لیں گے، ہم بدلہ لیں گے سے ہم قانون کاروائی کریں گے تک سفر کسی خدشے سے خالی نہیں.
افغانستان سے نکلتے امریکہ کو ایشیاء میں اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے اب نئی جگہ کی تلاش ہے وہ جگہ یقیناً ایران نہیں ہے لیکن ایران ایک بہانہ ضرور ہے ایک یہاں دجال کے انتظار میں آباد یہودی جن کی بدولت امریکہ کی رسی اسرائیل نے کھینچ رکھی ہے، دوسری وجہ پاکستان جسے کبھی امریکہ ایران جنگ میں کھینچنے کی کوشش کرتا ہے تو کبھی سعودی جنگ میں کبھی بھارت سے لڑوانے کی کوشش میں.
پومپیو کی کل جنرل باجوہ کو کال کا مقصد بھی یہی تھا کہ شاید امریکا کے اقدام پر حمایت میں کچھ نکل جائے یا چند تسلی بخش الفاظ ہی مل جائیں لیکن انکی کال کا خلاصہ وہی ٹھنڈا اور پرسکون سا جواب کہ کشیدگی کم ختم کرنے کی کوشش کریں. (میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ امریکہ اپنے اس اقدام کو سعودیہ عرب اور ایران کشیدگی میں اضافے کے لیے استعمال کرے گا کیسے کرے گا وہ آپ دیکھ لیجئے گا امریکہ کہیں ناں کہیں سے اپنے اس اقدام میں سعودیہ کو کھینچ لائے گا)
ایران میں بیٹھے ہیں یہودی اور امریکہ حملہ کرے ایسا ممکن ہی نہیں بس ایران کے بہانے اپنے بیڑے، جہاز اور اردگرد فوجی اڈے قائم کرنے ہیں تاکہ پاکستان پہ نظر رکھی جائے اور کسی طرح پاکستان کو نقصان پہنچایا جائے.
میں نے برسوں سے ایک ہی بات دہرائی ہے کہ 2020 کا سال نیو ورلڈ آرڈر نافذ کرنے کا سال ہوگا اور دجالی طاقتیں پوری طاقت لگا دیں گی اس سال نیو ورلڈ آڈر کے نفاذ کے لیے لیکن یہ سال پاکستان کا بھی ہے ان شاءاللہ اور اسی نیو ورلڈ آرڈر کے نفاذ کی راہ میں ایک ہی رکاوٹ بچی ہے وہ ہے پاکستان اور پاک فوج.
خیر کچھ بھی ہو پاکستان کہہ چکا ہے کہ ہم اب کسی کی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے نہ ہم کسی کے لیے مزید کچھ کریں گے اب جو کریںنگے پاکستان کے مفاد کو سامنے رکھ کر کریں گے تو میری آپ سب پاکستانیوں سے بھی گزارش ہے کہ خدارا ایرانی اور سعودی بننے کی بجائے پاکستان بنیں اور شعیہ سنی کی لڑائی میں نہ پڑیں یہ سب اندر سے ایک ہیں کوشش کریں اپنے ملک کا سوچیں کیونکہ ان میں سے کوئی نہ آپکو ایرانی شہریت سے دے گا نہ ہی سعودی تو بہتر ہے اپنے ملک کا سوچیں.

DAUGHTER MARRIAGE, DOWERY,




 بیٹی کی شادی  بے ہنگم اخراجات دولہے والوں کی طرف سے  جہیز کی فرمائشیں

دس لاکھ کا جہیز۔۔۔
پانچ لاکھ کا کھانا۔۔۔
گھڑی پہنائی۔۔۔
انگھوٹھی پہنائی۔۔۔
ولیمے والے دن ناشتہ۔۔۔
مکلاوہ کھانا دیگیں۔۔۔
بچہ پیدا ہونا پر خرچہ۔۔۔
بیٹی ہے یا سزا ہے کوئی۔۔۔؟
مرد ہو ناں۔۔۔آگے بڑھو۔۔۔کرو یہ سب خرچہ خود۔۔۔اور کرو چار شادیاں۔۔۔!!
سنت کیا صرف چار شادیوں پر ہی یاد ہے۔۔؟
باقی سنتوں پر عقل کام کرنا چھوڑ دیتی ہے کیا۔۔؟
وہ اکثر اس لیے باپ سے فرمائشیں نہیں کرتی تھی کہ پہلے ہی اسکی شادی کا خرچ اور جہیز بناتے بناتے اسکا باپ مقروض ہونے والا تھا۔۔۔!!
منگنی کے بعد اکثر لڑکے والے آتے رہتے تھے اور مہمان نوازی کرتے کرتے اس کی ماں تھک چُکی تھی۔۔۔مگر پھر بھی خالی جیب کے ساتھ مسکراہٹ چہرے پر سجائے ہر آنے والے کو اعلیٰ سے اعلیٰ کھانے کھلاتی اور خوش کر کے بھیجتی تھی
کبھی نند ، کبھی جیٹھانی ، کبھی چاچی ساس تو کبھی مامی ساس۔۔۔ہر رشتے کو یکساں احترام دلانے کے لیے وہ الگ الگ ٹولیوں میں آتے رہتے۔۔۔!!
ایسے میں شام کو اسکے بابا جب گھر آتے تو انکے پاس خاموش بیٹھ کر انکا سر دبانے لگتی ، مانو جیسے باپ کو ہمت دلا رہی ہو یا یہ کہنا چاہ رہی ہو کہ سوری بابا میری وجہ سے آپ قرض لینے پر مجبور ہیں۔۔۔!!
شادی کی تاریخ فکس کرنا ایک تہوار بن چکا ہے، لڑکی والوں کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ کتنے لوگ آئیں گے، انکے کھانے پینے کے علاوہ سب کیلیئے کپڑے خرید کر رکھنے ہوتے ہیں چاہے 5 لوگ ہوں یا 50۔۔۔!!
پھر بارات پر لڑکی کے باپ کو 10 بندے گھیر کر پوچھتے ہیں، جی کتنے بندے آ جائیں۔۔۔؟؟؟ کیا بولے گا وہ۔۔۔؟؟؟
اگر 100 کہے تو جواب ملتا ہے 200 تو ہمارے اپنے رشتہ دار ہیں پھر محلے دار لڑکے کے دوست....!!کچھ نہیں تو 400 افراد تو مجبوراً لانے پڑیں گے ساتھ........!!
اب لڑکی کا باپ کیا کہے۔۔؟ مت لانا۔۔؟ میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔۔۔؟؟؟
پھر فرسودہ نظام میں بارات والے دن لڑکی کے ساتھ 2 دیگیں کھانا بھی بھیجنا ہے، جہیز بھی خود بنا کر چھوڑ کر آنا ہے اور ہو سکے تو بیڈ، صوفہ وغیرہ سجانے کیلیئے لڑکی کے بھائیوں کو بھیج دیجئے گا.....!!
لو مسلمان پاکستانیوں....!! یوں ہوتی ہے ایک بیٹی گھر سے رُخصت...!! اب اس کا آگے سسرال میں کیا مول ہوگا، یہ اکثر ہم سنتے ہی رہتے ہیں۔۔۔!!
ہاتھ جوڑ کر التجا ہے 🙏 مت کریں ایسا، توڑ دیں یہ رسمیں جن سے ایک باپ توبہ کرے کہ اسکو بیٹی نہ پیدا ہو....😥
چھوڑ دیں یہ ہندوانہ رسمیں کہ بیٹیاں ماں باپ کی غربت دیکھ کر اپنی شادی کا خیال ہی دل سے نکال دیں....!!
اپنے بیٹے کیلیئے سادگی سے نکاح کر کے بہو لا کر دیکھیں، اپنی بیٹی بھی یونہی سادگی سے رخصت کرکے دیکھیں، سکون ملے گا...!!
اور آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ بیٹیاں حضرت فاطمہ (رض) جتنی لاڈلی نہیں ہیں، نا یہ بیٹے حضرت علی(رض) جتنے محترم....!!
آنے والی نسل کہ زندگی آسان بنا دو یارو۔۔۔!! 🙏
لڑکوں سے کہتاہوں 🙏 جہیز مت لینا۔۔۔!!
اپنی ہونے والی بیٹی پر ترس کھانا جو کل کو تمہارے خراب حالات سے اتنی ہی پریشان ہوسکتی ہے جتنی آج تمہاری ہونے والی بیوی پریشان ہے....!!
اللہ نے تمہیں مرد پیدا کیا ہے،
کما کر اپنی بیوی کو خوشیاں خرید کر دینا......!!
آپ کا ایک سیکنڈ اس تحریر کو دوسرے گروپوں تک پہنچانے کا زریعہ ہے
میری آپ سے عاجزانہ اپیل ہے کہ لاحاصل اور بے مقصد پوسٹس ہم سب شیئر کرتے ہیں۔۔۔!!
آج اپنے معاشرے کا یہ تلخ پہلو کیوں نہ شیئر کریں۔۔۔؟
آئیں ایک ایک شیئر کرکہ اپنا حصہ ڈالیں۔۔۔!!
کیا پتہ کسی کے دل میں اتر جائے یہ بات۔۔۔
شکریہ🙏#


January 02, 2020

EDUCATION, ETHICS TRAINING , MORAL HONOR IN THE WORLD




اس وقت تعلیمی درجہ بندی کے اعتبار سے فن لینڈ پہلے نمبر پر ہے جبکہ ” سپر پاور ” امریکا 20ویں نمبر پر ہے۔2020ء تک فن لینڈ دنیا کا واحد ملک ہوگا جہاں مضمون ( سبجیکٹ ) نام کی کوئی چیز اسکولوں میں نہیں پائی جاتی، فن لینڈ کا کوئی بھی اسکول زیادہ سے زیادہ 195 بچوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ 19 بچوں پر ایک ٹیچر۔
دنیا میں سب سے لمبی بریک بھی فن لینڈ میں ہی ہوتی ہے، بچے اپنے اسکول ٹائم کا 75 منٹ بریک میں گزارتے ہیں، دوسرے نمبر پر 57 منٹ کی بریک نیو یارک کے اسکولوں میں ہوتی ہے جبکہ ہمارے یہاں اگر والدین کو پتہ چل جائے کہ کوئی اسکول بچوں کو ” پڑھانے” کے بجائے اتنی لمبی بریک دیتا ہے تو وہ اگلے دن ہی بچے اسکول سے نکلوالیں۔خیر، آپ دلچسپ بات ملاحظہ کریں کہ پورے ہفتے میں اسکولوں میں محض 20 گھنٹے ” پڑھائی ” ہوتی ہے۔ جبکہ اساتذہ کے 2 گھنٹے روز اپنی ” اسکلز ” بڑھانے پر صرف ہوتے ہیں۔
سات سال سے پہلے بچوں کے لیےپورے ملک میں کوئی اسکول نہیں ہے اور پندرہ سال سے پہلے کسی بھی قسم کا کوئی باقاعدہ امتحان بھی نہیں ہے۔ ریاضی کے ایک استاد سے پوچھا گیا کہ آپ بچوں کو کیا سکھاتے ہیں تو وہ مسکراتے ہوئے بولے ” میں بچوں کو خوش رہنا اور دوسروں کو خوش رکھنا سکھاتا ہوں، کیونکہ اس طرح وہ زندگی کہ ہر سوال کو با آسانی حل کرسکتے ہیں “۔
آپ جاپان کی مثال لے لیں تیسری جماعت تک بچوں کو ایک ہی مضمون سکھا یا جاتا ہے اور وہ ” اخلاقیات ” اور ” آداب ” ہیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا “جس میں ادب نہیں اس میں دین نہیں “۔ مجھے نہیں معلوم کہ جاپان والے حضرت علیؓ کو کیسے جانتے ہیں اور ہمیں ابھی تک ان کی یہ بات معلوم کیوں نہ ہو سکی۔ بہر حال، اس پر عمل کی ذمہ داری فی الحال جاپان والوں نے لی ہوئی ہے۔
ہمارے ایک دوست جاپان گئے اور ایئر پورٹ پر پہنچ کر انہوں نے اپنا تعارف کروایا کہ وہ ایک استاد ہیں اور پھر ان کو لگا کہ شاید وہ جاپان کے وزیر اعظم ہیں۔اشفاق احمد صاحب مرحوم کو ایک دفعہ اٹلی میں عدالت جانا پڑا اور انہوں نے بھی اپنا تعارف کروایا کہ میں استاد ہوں وہ لکھتے ہیں کہ جج سمیت کورٹ میں موجود تمام لوگ اپنی نشستوں سے کھڑے ہوگئے اس دن مجھے معلوم ہوا کہ قوموں کی عزت کا راز استادوں کی عزت میں ہے ۔ یہ ہے قوموں کی ترقی اور عروج و زوال کا راز۔
جاپان میں معاشرتی علوم ” پڑھائی” نہیں جاتی ہے کیونکہ یہ سکھانے کی چیز ہےپڑھانے کی نہیں اور وہ اپنی نسلوں کو بہت خوبی کے ساتھ معاشرت سکھا رہے ہیں۔ جاپان کے اسکولوں میں صفائی ستھرائی کے لیے بچے اور اساتذہ خود ہی اہتمام کرتے ہیں، صبح آٹھ بجے اسکول آنے کے بعد سے 10 بجے تک پورا اسکول بچوں اور اساتذہ سمیت صفائی میں مشغول رہتا ہے۔
دوسری طرف آپ ہمارا تعلیمی نظام ملاحظہ کریں
جو صرف نقل اور چھپائی پر مشتمل ہے، ہمارے بچے ” پبلشرز ” بن چکے ہیں۔ آپ تماشہ دیکھیں جو کتاب میں لکھا ہوتا ہے اساتذہ اسی کو بورڈ پر نقل کرتے ہیں، بچے دوبارہ اسی کو کاپی پر چھاپ دیتے ہیں، اساتذہ اسی نقل شدہ اور چھپے ہوئے مواد کو امتحان میں دیتے ہیں، خود ہی اہم سوالوں پر نشانات لگواتے ہیںاور خود ہی پیپر بناتے ہیں اور خود ہی اس کو چیک کر کے خود نمبر بھی دے دیتے ہیں،
بچے کے پاس یا فیل ہونے کا فیصلہ بھی خود ہی صادر کردیتے ہیں اور ماں باپ اس نتیجے پر تالیاں بجا بجا کر بچوں کے ذہین اور قابل ہونے کے گن گاتے رہتے ہیں، جن کے بچے فیل ہوجاتے ہیں وہ اس نتیجے پر افسوس کرتے رہتے ہیں اور اپنے بچے کو ” کوڑھ مغز ” اور ” کند ذہن ” کا طعنہ دیتے رہتے ہیں۔ ہم 13، 14 سال تک بچوں کو قطار میں کھڑا کر کر کے اسمبلی کرواتے ہیں اور وہ اسکول سے فارغ ہوتے ہی قطار کو توڑ کر اپنا کام کرواتے ہیں، جو جتنے بڑے اسکول سے پڑھا ہوتا ہے قطار کو روندتے ہوئے سب سے پہلے اپنا کام کروانے کا ہنر جانتا ہے ۔
طالبعلموں کا اسکول میں سارا وقت سائنس ” رٹتے ” گزرتا ہے اور آپ کو پورے ملک میں کوئی ” سائنس دان ” نامی چیز نظر نہیں آئے گی کیونکہ بدقسمتی سے سائنس ” سیکھنے ” کی اور خود تجربہ کرنے کی چیز ہے اور ہم اسے بھی ” رٹّا” لگواتے ہیں۔آپ حیران ہوں گے میٹرک کلاس کا پہلا امتحان 1858ء میں ہوا اور برطانوی حکومت نے یہ طے کیا کہ بر صغیر کے لوگ ہماری عقل سے آدھے ہوتے ہیں اس لیے ہمارے پاس ” پاسنگ مارکس ” 65 ہیں تو بر صغیر والوں کے لیے 32 اعشاریہ 5 ہونے چاہئیں۔ دو سال بعد 1860ء میں اساتذہ کی آسانی کے لیے پاسنگ مارکس 33 کردیے گئے اور ہم میں بھی ان ہی 33 نمبروں سے اپنے بچوں کی ذہانت کو تلاش کرنے میں مصروف ہیں
۔  علامہ اقبال ؒ کے شعر کا یہ مصرعہ اس تمام صورتحال کی صیح طریقے سے ترجمانی کرتا نظر آتا ہے کہ
۔۔شاخ نازک پر بنے گا جو آشیانہ ، ناپائیدار ہو گا۔
منقول

Total Pageviews