کاروبار، کامیابی کا سب سے بڑا راز ہے
میرا ایک چائنیز کولیگ تھا، جو مجھ سے کئی سال چھوٹا تھا، مگر اس کا ذہن بہت کاروباری تھا۔ میرے ساتھ اکثر بزنس آئیڈیاز پر ہی بات کرتا تھا۔ مجھے ہمیشہ کہتا: ’’مسٹر خان اپنا پیسہ ایسی چیزوں میں کبھی نہ لگانا جن پر آپ خرچہ کریں۔ مثلاً ’’اگر آپ رہنے کے لیے گھر بناتے ہیں، تو آپ کا سرمایہ آپ کو کبھی فائدہ نہیں دے گا۔ الٹا آپ اس پر لگائیں گے۔ اگر آپ گاڑی لیتے ہیں، تو تیل خرچہ، مرمتی خرچہ اور ڈیپریشن سے آپ کا نقصان ہوگا۔ سرمایہ ان چیزوں میں لگانا جن سے آپ کو ریونیو ملے۔‘‘ میرا ایک اَن پڑھ رشتہ دار تھا، اس کا ذہن بھی چائنیز کی طرح تھا۔ وہ بھی اکثر یہی باتیں کرتا۔ اس رشتے دار کو تو میں جانتا تھا کہ اس نے ناخواندگی کے باجود اچھا خاصا سرمایہ اکھٹا کیا تھا، البتہ چائنیز کے بارے میں اس کے چائنیز دوستوں سے پوچھا، تو معلوم ہوا کہ چائنیز شہر “Nanjing” میں اس کے دو ذاتی گھر ہیں۔ بیجنگ اور شنگھائی کے بعد اقتصادی لحاظ سے یہ تیسرا بڑا شہر ہے۔ یہاں دو ذاتی گھر معمولی بات نہیں۔
قارئین، چند روز قبل مائیکرو اکانومی پر میں نے لکھا تھا۔ زندگی میں کامیابی کا اصل راز ’’استقامت‘‘ ہے۔ کاروبار میں سرمایہ نہیں دیکھا جاتا۔ ایک مشہور و معروف کتاب لکھی گئی ہے “Seven Habbits of Most Successful people” اس میں کامیاب لوگوں کی سات صفات بیان کی گئی ہیں۔ ان سات عادات میں سب سے زیادہ جو مجھے پسند آئی، وہ یہ ہے کہ ’’کامیابی کا اصل زینہ اپنے جذبات کو منیج کرنا ہے۔ کوئی بھی کام شروع کیا جائے، تو اس میں ذہانت و سرمایے سے زیادہ جذبات کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے۔ مثلاً ’’آپ کے پاس بیس ہزار روپے ہیں۔ آپ نے عمران خان وِژن یا بل گیٹ وِژن کے عین مطابق مرغیوں اور انڈوں سے اپنے بزنس کی ابتدا کی۔ آپ تعلیم یافتہ ہیں۔ اس کام پر بہت سارے لوگ آپ کا مذاق اڑائیں گے۔ رشتہ دار، محلے دار اور کزنز آپ کی تحقیر کریں گے۔ اب یہاں جذبات کو منیج کرنے سے ہی آپ آگے بڑھ سکیں گے۔ جذبات کو منیج نہ کیا گیا تو شدید مایوسی اور فرسٹریشن ہوگی۔ اور نتیجہ ناکامی کی صورت میں نکلے گا۔ اگر صبر، برداشت اور استقامت سے کام لیا گیا، تو کاروبار میں وسعت ہوگی، کامیابی ہوگی۔
پوری دنیا میں نے نہیں دیکھی، البتہ پاکستانی اور عرب معاشرت کو کنگالا ہے۔ پاکستان ہو یا عربستان، دونوں خطوں میں سرکاری بابو کی اہمیت کاروباری شخصیت سے زیادہ ہوتی ہے۔ عرب دوست مجھے بتاتے کہ یہاں کوئی ریالوں میں ارب پتی کیوں نہ ہو، لڑکیاں اس کو اتنا توجہ نہیں دیتیں جتنا ڈیمانڈ رشتوں میں ایک سرکاری بابو کا ہوتا ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ عربوں میں بے پناہ دولت کے باجود معاشی عدم مساوات ہے۔ بے پناہ دولت کے ہوتے ہوئے بھی وہاں کے معاشرے غربت سے نہ نکل سکے۔ پاکستان میں بھی یہی حال ہے۔ 2004ء میں ہماری یونیورسٹی کے وائس چانسلر امتیاز گیلانی کا ایک انٹرویو ایک قومی اخبار میں شائع ہوا۔ گیلانی صاحب کا کہنا تھا کہ ’’دنیا کے بڑے شہروں میں تعلیم یافتہ لوگ کاروبار کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جب کہ پاکستان میں بالخصوص پختونخوا میں کروڑ پتی بزنس مین کو چھوڑ کر لوگ ایک سرکاری بابو کو رشتے میں ترجیح دیں گے۔‘‘ شائد یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت تعلیم یافتہ نوجوان شدید بے روزگاری کا شکار ہیں۔ یعنی تعلیم یافتہ نوجوان اس وقت معاشرے کے لیے “Asset” کی بجائے ایک “Liability” بنے ہیں۔
قارئین، مَیں نے یونیورسٹی میں پڑھنے والوں پر ایک چھوٹی سی تحقیق کی ہے۔ میں جس کسی سے بھی ملتا ہوں، ایک سوال پوچھتا ہوں کہ سچ سچ بتائیں، فارغ ہونے کے بعد آپ کے دماغ میں کیا آتا ہے؟ تقریبا ’’سو فیصد‘‘ سٹوڈنٹس کا ایک ہی ملتا جلتا جواب سننے کو ملتا ہے۔ ’’فارغ ہوتے ہی جاب ملے، اے سی والے آفس میں میرے دستخط سے کام ہوتا ہو۔ بڑی گاڑی ہو۔ اچھا گھر ہو۔ ساتھ میں کسی بڑے گھر کی حسینہ ہو۔ گپیں ہوں۔ مزے ہوں۔ آئس کریم اور کافی ہو، اور بس!‘‘
اس سوچ نے ہمارے نوجوانوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ صرف ہمارے معاشرے کا نہیں تمام دنیا کے مسلمان شدید تنزلی کا شکار ہیں۔ تن آسانی اتنی کہ الفاظ نہیں۔ اکتوبر 2011ء کی بات ہے، میں اپنے جاب سائڈ جا رہا تھا۔ منی بس میں بیٹھا تھا۔ پلانٹ بڑا تھا۔ اپنے آفس پہنچنے کے لیے پلانٹ کے اندر کمپنی کی منی بس میں جانا ہوتا۔ ڈرائیور نے ایک سٹاپ پر گاڑی روکی، مگر ایک سعودی اس کی منتیں کرنے لگ گیا۔ میں نے سوچا کوئی بڑا مسئلہ ہوا، مگر جب توجہ دی تو وہ ڈرائیور سے ریکوسٹ پر ریکوسٹ کر رہا تھا کہ اسے آفس تک گاڑی میں لے جائیں۔ وہ بالکل صحت مند اور ہٹا کٹا تھا، مگر اسے گرمی لگ رہی تھی۔ اس کا آفس سٹاپ سے صرف دس میٹر کے فاصلے پر تھا۔ مَیں اس وقت کوئی مبالغہ آرائی نہیں کر رہا۔ بحیثیت اُمہ ہم گدھ بن چکے ہیں۔ تن آسانی نے ہمیں مفلوج کر رکھا ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے حالات نہیں بدل رہے بلکہ روزافزوں تنزلی کی طرف جا رہے ہیں۔
برسبیلِ تذکرہ، کل ایک آرٹیکل پڑھ رہا تھا کہ پوری دنیا کی معیشت اس وقت یہودیوں کے ہاتھ میں ہے۔ اسرائیل کی آبادی 60 لاکھ ہے اور بہت ہی کم رقبہ، مگر وہ دنیا پر راج کر رہے ہیں۔ یہودی پیدائش کے ساتھ ہی بچوں کا ذہن کاروباری بناتے ہیں۔ سکولوں کالجوں میں یہی سکھاتے ہیں جب کہ مسلم معاشرے میں ’’سرکاری گدھ‘‘ بنانے کی تربیت دی جاتی ہے۔ وائٹ کالر جاب سے کبھی معاشرے یا ریاستیں اوپر نہیں اٹھتے۔ کبھی ’’سرکاری گدھ گری‘‘ سے خاندان یا ریاستیں خود کفیل نہیں ہوتیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے کاروبار کی اہمیت کو کس قدر خوبصورتی سے اجاگر کیا ہے کہ ’’رزق کے دس میں سے نو حصے کاروبار میں ہیں۔‘‘ کاروبار کی اس سے زیادہ خوبصورتی کیا ہوگی، کہ اس میں بندے کا ہاتھ اوپر ہوتا ہے، نیچے نہیں۔
پشاور میں یونیورسٹی روڈ پر ایک مشہور و معروف ریسٹورنٹ ہے جسے ہم ’’چیف برگرز‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ اس کا مالک اس وقت ارب پتی ہے اور اس کے ارب پتی ہونے کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے ’’چیف برگرز۔‘‘ دو تین عشرے پہلے چیف برگرز کا مالک یہاں ایک تھال میں برگرز بیچتا تھا، مگر جس طرح شروع میں بات کی کہ کامیاب لوگ وہ ہیں جو اپنے جذبات کو منیج کریں اور اپنے شروع کردہ کام میں، پراجیکٹ میں صبر و برداشت اور استقامت سے کام لیں۔ کتنے لوگوں نے اس کا مذاق اڑایا ہوگا۔ شائد کسی نے رشتہ دینے سے بھی اس وجہ سے انکار کیا ہو کہ وہ تھال میں یا ریڑھی میں سامان بیچتا ہے۔
ہمارا ایک عزیز تھا۔ اس کی بنوں سٹی میں مارکیٹ تھی۔ ایک روز اس کے پاس ایک سادہ بندہ آیا۔ پوچھا کہ مارکیٹ خریدنی ہے۔ کتنے میں بیچوگے؟ اس نے ویسے ہی ٹرخانے کے لیے قیمت تھوڑی زیادہ بتائی۔ بندے نے جواباً کہا کہ ’’اُو کے‘‘ میں مشورہ کرتا ہوں، مجھے قبول ہے۔ اس نے خریدنے والے سے پوچھا کہ کیا کرتے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ لکی گیٹ میں ’’بنوں والا میٹ‘‘ بیچتا ہوں۔ بنوں شہر میں جو پلاو بیچنے والے ہیں ان کی بڑے بڑے ٹینکرز اور بسیں چلتی ہیں۔ بنوں ٹاؤن شپ اور حیات آباد میں ان کے بنگلے ہیں جب کہ پی ایچ ڈی سکالرز سکوٹرز پر گھوم رہے ہیں اور ساری زندگی گزار کے ایک گھر نہیں بنا سکتے۔
پرسوں انجینئرنگ یونیورسٹی پشاور میں ایک ورکشاپ تھی، اس میں لیکچر دینے والے پروفیسر نے بتایا کہ وہ 21 گریڈ میں یو ای ٹی سے ریٹائر ہوئے۔ ساری زندگی کی جمع پونجی اور چارسدہ میں اپنی ساری جائیداد بیچ کر حیات آباد کے ایک کونے کھدرے میں ایک پرانا گھر بمشکل خریدا۔ اب کوئی کہے گا کہ حیات آباد میں تو زیادہ تر گھر پٹواریوں، سی اینڈ ڈبلیو یا ایگریشن میں کام کرنے والے معمولی ملازمین یا ڈپلومہ ہولڈرز کے ہیں، یا ایس ایچ اوز کے ہیں، تو جناب! یہی المیہ ہے۔ ان سے پوچھنا چاہیے کہ معولی تنخواہوں کے ہوتے ہوئے تم لوگ کیسے کروڑوں کے گھر کے مالک بنے؟ ضرور فرائضِ منصبی کا غلط فائدہ اٹھایا ہوگا، اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کیا ہوگا۔
نشست کا حاصل یہ ہے کہ افراد، خاندان اور قومیں کاروباری سرگرمیوں سے ترقی پاتی ہیں۔ نسل درنسل ترقی دیکھنی ہو، تو معاشی گدھ بننے کی بجائے معاشی شاہین پیدا کرنا ہوں گے۔ معاشرے کو اسلام کے احکامات کی روشنی میں کاروبار کی طرف لانا ہوگا۔ اس سے سود سمیت معاشی بگاڑ کے کئی پہلوؤں کو سیدھا کیا جا سکتا ہے۔ اللہ ہمیں توفیق دے،
آمین یا رب العالمین
تحریر:انجینئر انتظار خان
میرا ایک چائنیز کولیگ تھا، جو مجھ سے کئی سال چھوٹا تھا، مگر اس کا ذہن بہت کاروباری تھا۔ میرے ساتھ اکثر بزنس آئیڈیاز پر ہی بات کرتا تھا۔ مجھے ہمیشہ کہتا: ’’مسٹر خان اپنا پیسہ ایسی چیزوں میں کبھی نہ لگانا جن پر آپ خرچہ کریں۔ مثلاً ’’اگر آپ رہنے کے لیے گھر بناتے ہیں، تو آپ کا سرمایہ آپ کو کبھی فائدہ نہیں دے گا۔ الٹا آپ اس پر لگائیں گے۔ اگر آپ گاڑی لیتے ہیں، تو تیل خرچہ، مرمتی خرچہ اور ڈیپریشن سے آپ کا نقصان ہوگا۔ سرمایہ ان چیزوں میں لگانا جن سے آپ کو ریونیو ملے۔‘‘ میرا ایک اَن پڑھ رشتہ دار تھا، اس کا ذہن بھی چائنیز کی طرح تھا۔ وہ بھی اکثر یہی باتیں کرتا۔ اس رشتے دار کو تو میں جانتا تھا کہ اس نے ناخواندگی کے باجود اچھا خاصا سرمایہ اکھٹا کیا تھا، البتہ چائنیز کے بارے میں اس کے چائنیز دوستوں سے پوچھا، تو معلوم ہوا کہ چائنیز شہر “Nanjing” میں اس کے دو ذاتی گھر ہیں۔ بیجنگ اور شنگھائی کے بعد اقتصادی لحاظ سے یہ تیسرا بڑا شہر ہے۔ یہاں دو ذاتی گھر معمولی بات نہیں۔
قارئین، چند روز قبل مائیکرو اکانومی پر میں نے لکھا تھا۔ زندگی میں کامیابی کا اصل راز ’’استقامت‘‘ ہے۔ کاروبار میں سرمایہ نہیں دیکھا جاتا۔ ایک مشہور و معروف کتاب لکھی گئی ہے “Seven Habbits of Most Successful people” اس میں کامیاب لوگوں کی سات صفات بیان کی گئی ہیں۔ ان سات عادات میں سب سے زیادہ جو مجھے پسند آئی، وہ یہ ہے کہ ’’کامیابی کا اصل زینہ اپنے جذبات کو منیج کرنا ہے۔ کوئی بھی کام شروع کیا جائے، تو اس میں ذہانت و سرمایے سے زیادہ جذبات کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے۔ مثلاً ’’آپ کے پاس بیس ہزار روپے ہیں۔ آپ نے عمران خان وِژن یا بل گیٹ وِژن کے عین مطابق مرغیوں اور انڈوں سے اپنے بزنس کی ابتدا کی۔ آپ تعلیم یافتہ ہیں۔ اس کام پر بہت سارے لوگ آپ کا مذاق اڑائیں گے۔ رشتہ دار، محلے دار اور کزنز آپ کی تحقیر کریں گے۔ اب یہاں جذبات کو منیج کرنے سے ہی آپ آگے بڑھ سکیں گے۔ جذبات کو منیج نہ کیا گیا تو شدید مایوسی اور فرسٹریشن ہوگی۔ اور نتیجہ ناکامی کی صورت میں نکلے گا۔ اگر صبر، برداشت اور استقامت سے کام لیا گیا، تو کاروبار میں وسعت ہوگی، کامیابی ہوگی۔
پوری دنیا میں نے نہیں دیکھی، البتہ پاکستانی اور عرب معاشرت کو کنگالا ہے۔ پاکستان ہو یا عربستان، دونوں خطوں میں سرکاری بابو کی اہمیت کاروباری شخصیت سے زیادہ ہوتی ہے۔ عرب دوست مجھے بتاتے کہ یہاں کوئی ریالوں میں ارب پتی کیوں نہ ہو، لڑکیاں اس کو اتنا توجہ نہیں دیتیں جتنا ڈیمانڈ رشتوں میں ایک سرکاری بابو کا ہوتا ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ عربوں میں بے پناہ دولت کے باجود معاشی عدم مساوات ہے۔ بے پناہ دولت کے ہوتے ہوئے بھی وہاں کے معاشرے غربت سے نہ نکل سکے۔ پاکستان میں بھی یہی حال ہے۔ 2004ء میں ہماری یونیورسٹی کے وائس چانسلر امتیاز گیلانی کا ایک انٹرویو ایک قومی اخبار میں شائع ہوا۔ گیلانی صاحب کا کہنا تھا کہ ’’دنیا کے بڑے شہروں میں تعلیم یافتہ لوگ کاروبار کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جب کہ پاکستان میں بالخصوص پختونخوا میں کروڑ پتی بزنس مین کو چھوڑ کر لوگ ایک سرکاری بابو کو رشتے میں ترجیح دیں گے۔‘‘ شائد یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت تعلیم یافتہ نوجوان شدید بے روزگاری کا شکار ہیں۔ یعنی تعلیم یافتہ نوجوان اس وقت معاشرے کے لیے “Asset” کی بجائے ایک “Liability” بنے ہیں۔
قارئین، مَیں نے یونیورسٹی میں پڑھنے والوں پر ایک چھوٹی سی تحقیق کی ہے۔ میں جس کسی سے بھی ملتا ہوں، ایک سوال پوچھتا ہوں کہ سچ سچ بتائیں، فارغ ہونے کے بعد آپ کے دماغ میں کیا آتا ہے؟ تقریبا ’’سو فیصد‘‘ سٹوڈنٹس کا ایک ہی ملتا جلتا جواب سننے کو ملتا ہے۔ ’’فارغ ہوتے ہی جاب ملے، اے سی والے آفس میں میرے دستخط سے کام ہوتا ہو۔ بڑی گاڑی ہو۔ اچھا گھر ہو۔ ساتھ میں کسی بڑے گھر کی حسینہ ہو۔ گپیں ہوں۔ مزے ہوں۔ آئس کریم اور کافی ہو، اور بس!‘‘
اس سوچ نے ہمارے نوجوانوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ صرف ہمارے معاشرے کا نہیں تمام دنیا کے مسلمان شدید تنزلی کا شکار ہیں۔ تن آسانی اتنی کہ الفاظ نہیں۔ اکتوبر 2011ء کی بات ہے، میں اپنے جاب سائڈ جا رہا تھا۔ منی بس میں بیٹھا تھا۔ پلانٹ بڑا تھا۔ اپنے آفس پہنچنے کے لیے پلانٹ کے اندر کمپنی کی منی بس میں جانا ہوتا۔ ڈرائیور نے ایک سٹاپ پر گاڑی روکی، مگر ایک سعودی اس کی منتیں کرنے لگ گیا۔ میں نے سوچا کوئی بڑا مسئلہ ہوا، مگر جب توجہ دی تو وہ ڈرائیور سے ریکوسٹ پر ریکوسٹ کر رہا تھا کہ اسے آفس تک گاڑی میں لے جائیں۔ وہ بالکل صحت مند اور ہٹا کٹا تھا، مگر اسے گرمی لگ رہی تھی۔ اس کا آفس سٹاپ سے صرف دس میٹر کے فاصلے پر تھا۔ مَیں اس وقت کوئی مبالغہ آرائی نہیں کر رہا۔ بحیثیت اُمہ ہم گدھ بن چکے ہیں۔ تن آسانی نے ہمیں مفلوج کر رکھا ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے حالات نہیں بدل رہے بلکہ روزافزوں تنزلی کی طرف جا رہے ہیں۔
برسبیلِ تذکرہ، کل ایک آرٹیکل پڑھ رہا تھا کہ پوری دنیا کی معیشت اس وقت یہودیوں کے ہاتھ میں ہے۔ اسرائیل کی آبادی 60 لاکھ ہے اور بہت ہی کم رقبہ، مگر وہ دنیا پر راج کر رہے ہیں۔ یہودی پیدائش کے ساتھ ہی بچوں کا ذہن کاروباری بناتے ہیں۔ سکولوں کالجوں میں یہی سکھاتے ہیں جب کہ مسلم معاشرے میں ’’سرکاری گدھ‘‘ بنانے کی تربیت دی جاتی ہے۔ وائٹ کالر جاب سے کبھی معاشرے یا ریاستیں اوپر نہیں اٹھتے۔ کبھی ’’سرکاری گدھ گری‘‘ سے خاندان یا ریاستیں خود کفیل نہیں ہوتیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے کاروبار کی اہمیت کو کس قدر خوبصورتی سے اجاگر کیا ہے کہ ’’رزق کے دس میں سے نو حصے کاروبار میں ہیں۔‘‘ کاروبار کی اس سے زیادہ خوبصورتی کیا ہوگی، کہ اس میں بندے کا ہاتھ اوپر ہوتا ہے، نیچے نہیں۔
پشاور میں یونیورسٹی روڈ پر ایک مشہور و معروف ریسٹورنٹ ہے جسے ہم ’’چیف برگرز‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ اس کا مالک اس وقت ارب پتی ہے اور اس کے ارب پتی ہونے کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے ’’چیف برگرز۔‘‘ دو تین عشرے پہلے چیف برگرز کا مالک یہاں ایک تھال میں برگرز بیچتا تھا، مگر جس طرح شروع میں بات کی کہ کامیاب لوگ وہ ہیں جو اپنے جذبات کو منیج کریں اور اپنے شروع کردہ کام میں، پراجیکٹ میں صبر و برداشت اور استقامت سے کام لیں۔ کتنے لوگوں نے اس کا مذاق اڑایا ہوگا۔ شائد کسی نے رشتہ دینے سے بھی اس وجہ سے انکار کیا ہو کہ وہ تھال میں یا ریڑھی میں سامان بیچتا ہے۔
ہمارا ایک عزیز تھا۔ اس کی بنوں سٹی میں مارکیٹ تھی۔ ایک روز اس کے پاس ایک سادہ بندہ آیا۔ پوچھا کہ مارکیٹ خریدنی ہے۔ کتنے میں بیچوگے؟ اس نے ویسے ہی ٹرخانے کے لیے قیمت تھوڑی زیادہ بتائی۔ بندے نے جواباً کہا کہ ’’اُو کے‘‘ میں مشورہ کرتا ہوں، مجھے قبول ہے۔ اس نے خریدنے والے سے پوچھا کہ کیا کرتے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ لکی گیٹ میں ’’بنوں والا میٹ‘‘ بیچتا ہوں۔ بنوں شہر میں جو پلاو بیچنے والے ہیں ان کی بڑے بڑے ٹینکرز اور بسیں چلتی ہیں۔ بنوں ٹاؤن شپ اور حیات آباد میں ان کے بنگلے ہیں جب کہ پی ایچ ڈی سکالرز سکوٹرز پر گھوم رہے ہیں اور ساری زندگی گزار کے ایک گھر نہیں بنا سکتے۔
پرسوں انجینئرنگ یونیورسٹی پشاور میں ایک ورکشاپ تھی، اس میں لیکچر دینے والے پروفیسر نے بتایا کہ وہ 21 گریڈ میں یو ای ٹی سے ریٹائر ہوئے۔ ساری زندگی کی جمع پونجی اور چارسدہ میں اپنی ساری جائیداد بیچ کر حیات آباد کے ایک کونے کھدرے میں ایک پرانا گھر بمشکل خریدا۔ اب کوئی کہے گا کہ حیات آباد میں تو زیادہ تر گھر پٹواریوں، سی اینڈ ڈبلیو یا ایگریشن میں کام کرنے والے معمولی ملازمین یا ڈپلومہ ہولڈرز کے ہیں، یا ایس ایچ اوز کے ہیں، تو جناب! یہی المیہ ہے۔ ان سے پوچھنا چاہیے کہ معولی تنخواہوں کے ہوتے ہوئے تم لوگ کیسے کروڑوں کے گھر کے مالک بنے؟ ضرور فرائضِ منصبی کا غلط فائدہ اٹھایا ہوگا، اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کیا ہوگا۔
نشست کا حاصل یہ ہے کہ افراد، خاندان اور قومیں کاروباری سرگرمیوں سے ترقی پاتی ہیں۔ نسل درنسل ترقی دیکھنی ہو، تو معاشی گدھ بننے کی بجائے معاشی شاہین پیدا کرنا ہوں گے۔ معاشرے کو اسلام کے احکامات کی روشنی میں کاروبار کی طرف لانا ہوگا۔ اس سے سود سمیت معاشی بگاڑ کے کئی پہلوؤں کو سیدھا کیا جا سکتا ہے۔ اللہ ہمیں توفیق دے،
آمین یا رب العالمین
تحریر:انجینئر انتظار خان
No comments:
Post a Comment