وه عمران خان جس کو میں جانتا هوں
میرے پاس کوئی ایسی کہانی نہیں هے کہ آپ کو چونکا دے...کچھ باتیں هیں...کچھ یادیں...کچھ احساسات هیں..
غالباً 98 کی بات هے کہ عمران خان همارے ایک دوست کے بلاوے پر بلوچستان کے ایک دور دراز قصبے میں آئے..
جلسے کے نام پر سو دو سو لوگ تماشائی تهے..اور کارکنوں کے نام پر هم چار کالج کے بچے تهے جو سیاست کے ابجد سے بهی واقف نہیں تهے لیکن بس عمران خان کی شخصیت کے اسیر تهے...عمران خان تقریر کے لیے کهڑے هوئے تو یہی باتیں کر رهے تهے جو آج کر رهے هیں..
یہ اسٹیٹس کو کی سیاست کا رونا..یہی تعلیم اور صحت کی ناکامی..یہی سیاستدانوں کے کرپشن کی باتیں...جو سو دو سو تماشائی جمع تهے وه اس بات پر لوٹ پوٹ هو رهے تهے کہ یہ آدمی کیا کہہ رها هے..کہ میں انقلاب لاوں گا...نظام بدلوں گا..
تعلیمی ایمرجنسی لگاوں گا..
انہوں نے کہا یہ پاگل خان هے...
جلسے کے بعد جب هم عمران کے ساتھ اپنے دوست کے گهر کهانے کی دعوت پر گئے تو پٹهانوں کی روایت کے مطابق همارے دوست نے علاقے کے کچھ سرکرده بزرگوں کو بهی مدعو کیا تها تاکہ مہمان کی عزت افزائی هو...کهانے کے دوران بهی یہی بحث چلتی رهی...چونکہ اس علاقے میں سیاسی اکثریت محمود خان اچکزئی کی تهی تو ایک صاحب نے عمران خان کو کہا..
خان صاحب آپ کو محمود خان اچکزئی کی پارٹی میں آنا چاهیے..یہ بہت بڑی جماعت هے..آپ کے پاس تو پورے پاکستان میں سو لوگ بهی نہیں هیں..
عمران خان نے کہا...حاجی صاحب...آپ دیکھنا کہ ایک دن جب میں سٹیج پر کهڑا هوں گا تو نیچے لاکهوں کا مجمع هو گا..
اس پر پورے مجلس نے ایک زوردار قہقہہ لگایا....
ایک دوست نے بعد میں بتایا کہ اس حاجی صاحب نے یہ بات محمود خان کو بتائی تو اس نے بهی بہت زوردار قہقہہ لگایا...
لاهور کے جلسے کے ایک دن بعد اتفاق سے پختونخوا ملی عوامی پارٹی والوں نے خود احتسابی پر ایک پروگرام میں شرکت کی دعوت دی..جب دفتر پہنچا تو ٹی وی پر عمران خان کے جلسے کے مناظر چل رهے تهے..پروگرام شروع هوا تو میں نے سٹیج پر چڑهتے ساتھ هی ایک زوردار قہقہ لگایا...اور پهر اس مجلس کو یہ بات بتائی تو سب کو سانپ سونگھ گیا.....عرض کیا کہ یہی خود احتسابی هوتی هے..کہ قہقہے نہ لگائیں جائیں...
عمران خان نے جو کہا تها وه کر دکهایا..
اس کے پاس بلا کی خود اعتمادی هے اور پهر جہد مسلسل...جو ٹهان لیتا هے وه کر کے رهتا هے...
18 سال کی عمر میں جب کرکٹ کے میدان میں اترا تو ایک معمولی درجے کا میڈیم پیسر تها..مگر اسے فاسٹ بولر بننا تها...بہت سے لوگوں نے کہا کہ یہ ممکن نہیں هے..جس کوچ سے ملا..جس فزیو سے ملا اس نے یہی کہا کہ یہ ممکن نہیں هے..کیونکہ اس ایکشن کے ساتھ آپ فاسٹ بولر نہیں بن سکتے...اور آپ ایکشن چینچ کرو گے تو جو ابهی هو وه بهی نہیں رهو گے....لیکن اس نے کہا کہ میں نے بننا هے..6 سال کرکٹ کے میدان سے باهر جدوجہد کرتا رها...اس زمانے کے برطانوی اخبار جب عمران خان کا نام لکهتے تهے تو " عمران کانٹ" لکهتے تهے..کہ عمران نہیں کر سکتا..
لیکن جب واپس آیا تو دنیا کا ایک عظیم فاسٹ بولر تها...یہ هے وه خود اعتمادی...
ایک بیمار ٹیم کے ساتھ ورلڈ کپ کهیلنے گیا...اور کہا کہ جیت کر آوں گا...پوری دنیائے کرکٹ کے پنڈتوں نے کہا کہ عمران احمقوں کی جنت میں ره رها هے....
ورلڈ کپ فائنل کا ٹاس نکال کر دیکھ لیجیے کہ کپتان وردی میں نہیں بلکہ جاگنگ کٹ میں ٹاس کر رها هے اور ٹاس کے هوتے هی کہہ رها هے کہ جیت کے جا رها هوں.....جیت کے آیا.....
ماں کینسر سے فوت هوئی تو کہا کینسر هسپتال بناوں گا..دنیا کے مختلف ملکوں سے 20 ڈاکٹر بلوائے..انہوں نے کیس سٹڈی کیا...19 نے کہا ناممکن هے..16 نے کہا کہ ایسا تو پورپ میں بهی ممکن نہیں هے...1 نے کہا شاید ممکن هے....ٹکٹ لے کے اس کے پاس پہنچا..بولا کیسے ممکن هے؟؟ اس نے کہا ممکن تو نہیں هے..میں تو صرف آپ کے خود اعتمادی کی بنیاد پر کہا کہ ممکن هے..تو کہنے لگا پهر میں تو بنا کے رهوں گا....اس نے کہا کہ اربوں کا بجٹ هو گا..کہا اللہ مالک هے....اس نے کہا انیشل بجٹ کتنا هے؟ تو کہا اکاونٹ میں ایک کروڑ روپے هے...ڈاکٹر نے سر پیٹ لیا...لیکن اسپتال بن گیا...چل رها هے...پورے هسپتال میں صرف دو لوگوں کو علم هوتا هے کہ کون پیسے دے کر علاج کروا رها هے اور کون مفت کروا رها هے..نہ علاج کرنے والے ڈاکٹر کو پتا هوتا هے اور نہ کمرے میں موجود مریضوں کو پتہ هوتا هے کہ ساتھ والا مفت علاج کروا رها هے یا پیسے دے کر..ایک بار خبر نکلی کہ فلاں صاحب کا علاج مفت هو رها هے..کہا پتہ چلاو کس نے خبر لیک کی هے..تین نام سامنے آئے..تینوں نکال دیے گئے...
یہ هے وه چیز جس سے لوگ محبت کرتے هیں...کہتے هیں کہ عمران خان متکبر هے...کیا متکبر ایسے هوتے هیں؟؟
الیکشن سے پہلےکراچی کے ریجینٹ پلازه میں رمضان میں لابی میں عارف علوی بیٹهے هوئے تهے..ساتھ میں کوئی اور صاحب بهی تهے جو همارے دوست فرنود عالم صاحب کے دوست تهے..ملنے گئے...تو اتنے میں عمران خان بهی آگئے...سلام دعا کی نشست هوئی ..
تهوڑی دیر بعد عمران عارف علوی سے بولے ایک گڈ نیوز هے..عارف علوی نے کہا کیا؟
کہنے لگے ایک برطانوی اخبار کافی عرصے پیچهے پڑا هوا تها کہ آپ همارے لیے ایک آرٹیکل ماهانہ لکها کریں..ابهی سبهی بات طے هوئی ان کے ساتھ...میں حساب لگایا یہ تو پچاس هزار روپے بنتے هیں....
عارف علوی کو پچاس هزار ماهانہ کی رقم شاید عمران کے لیے کم لگی..تو کہنے لگے اس میں کیا گڈ نیوز هے؟؟
عمران نے کہا کہ وه ثناء اللہ دو مہینے سے پیچهے پڑا تها کہ تنخواہ بڑهاو...تو اس میں سے بیس هزار تو ثناءاللہ کے هو گئے..اب جب ثناءاللہ کے بڑها رها هوں تو بیس اس دوسرے کو بهی دیتے هیں..اور دس اس تیسرے کو...ثناءاللہ عمران خان کے گهر بنی گالہ میں کام کرتا تها......اسی وقت اپنے موبائل سے بنی گالہ فون کیا اور کہا کہ هاں تمہاری تنخواه میں بیس هزار کا اضافہ هو گیا..اور ثناءاللہ کو بتا دو کہ اس کی تنخواہ میں بهی بیس هزار کا اضافہ هو گیا......
الیکشن سے کافی پہلے اسلام آباد سینٹرل سیکریٹریٹ جانا هوا..رفیق خان کے ساتھ کاونٹر پر کافی پی رها تها کہ عمران داخل هوا...رفیق نے بتایا کہ بی بی سی کا ایک آدمی اپنی ٹیم کے ساتھ دفتر میں انتظار کر رها هے..تو عمران نے کہا کہ ثناءاللہ کہاں هے؟؟ اور چلتے چلتے کچن میں داخل هوا..میں اور رفیق بهی ساتھ داخل هوئے..ثناءاللہ اور ایک اور لڑکا کچن میں فرش پر بیٹهے کهانا کها رهے تهے..دونوں میں سے کوئی اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں. .عمران بهی آلتی پالتی مار کے بیٹها...کیا پکایا هے بهئی...گوبهی خان صاحب...گوبهی سے خان صاحب نے دو چار نوالے لیے..اور کہا یار کیا بہت اچها پکایا هے...سالن ایک داغ قمیض کے کف پر لگا...آستین فولڈ کیا..اور انہی کپڑوں میں بی بی سی والوں کو انٹرویو دینے بیٹھ گیا...
کمرے میں اے سی بند..بہت سخت گرمی...میں بهی پسینے سے شرابور تها وه بی بی سی والے تو پهر بهی ٹهنڈے ملک سے آئے تهے...لیکن مجال هے جو اے سی چلنے دیا..اتنے میں عصر کی نماز کا وقت هو گیا..انکو کہا میں نماز پڑتا هوں..آپ لوگ چائے پیں...میں اور خان صاحب باهر ٹیرس پر آئے...میں نے کہا خان صاحب ان کو بہت گرمی لگ رهی تهی..تو کہنے لگے اچها هے ناں...ان کو غریب ملک دیکهنے کا شوق هے تو دکهنے دو...
چلو نماز پڑھ لیں..جاءنماز ایک تهی اور هم دو..میں نے کہا پہلے آپ پڑھ لیں...تو کہنے لگے کیا مطلب؟؟ جماعت پڑهیں گے اکیلے اکیلے کیوں پڑهنے لگے...میں نے کہا چلیں آپ پڑها دیں..کہتا هے نہیں سوال هی پیدا نہیں هوتا. .جاءنماز اپنے هاتهوں بچا کر دی...اور خود فرش پر کهڑے هو گئے. .
کیا متکبر لوگ ایسے هوتے هیں؟؟؟ یا وه هوتے هیں
جو ایک مور کی خاطر ملازموں اور سرکاری پولیس کے فوج کے فوج برطرف کرتے هیں؟؟؟؟ ملازموں کے ساتھ کهانا تو دور کی بات ان سے ہاتھ ملانا بهی اپنی شان کے خلاف سمجھتے هیں..