March 29, 2023

Molana Fazal ur Rehman and his family enjoying

 
واہ مولانا واہ!!!!!!
10/08/2018 آصف محمود
فضل الرحمن صاحب نے قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کے لیے اپنے ہی صاحبزادے اسد محمود کو نامزد کر دیا تو حیرت کیسی؟راہ حق میں استقامت کی یہ کہانی بہت طویل ہے۔ متحدہ مجلس عمل کا دور اقتدار تو آپ کو یاد ہی ہو گا جب یہ سب اکابرین بقلم خود کے پی کے میں نفاذ اسلام کی جدوجہد میں مصروف تھے۔یہ انہی مبارک دنوں کی بات ہے۔
مولانا کے چھوٹے بھائی ضیاء الرحمن ان دنوں پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ انجینئر تھے۔مارچ 2005ء میں اچانک وزیر اعلیٰ کے حکم پر انہیں افغان ریفیوجیز کمیشن میں پراجیکٹ ڈائریکٹر لگا دیا گیا۔یہ سب اتنی عجلت میں کیا گیا کہ پہلے سے موجود پراجیکٹ ڈائریکٹر فیاض درانی کو ان کے منصب سے الگ کیے بغیر مولانا کے بھائی کو یہاں تعینات کر دیا گیا۔
فیاض درانی پوچھتا ہی رہ گیا کہ جو سیٹ خالی ہی نہیں اس پر کسی کو کیسے تعینات کر دیا گیا۔لیکن تعینات ہونے والا مولانا کا بھائی تھا اس لیے فیاض درانی دیواروں سے ٹکریں ہی مارتا رہ گیا۔ دو سال مزید گزرے۔
مولانا کے بھائی کو شاید یہ محکمہ کچھ زیادہ ہی پسند آ گیا۔چنانچہ وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی نے ایک خصوصی سمری تیار کی ،اکتوبر 2007 ء میںگورنر علی محمد جان اورکزئی نے اس سمری کو منظور کر لیا اور یوں ایک اسسٹنٹ انجینئر کو سپیشل کیس کے طور پر صوبائی سول سروس کا حصہ بنا دیا گیا اور انہیں اسی افغان ریفیوجیز کمیشن میں ایڈیشنل کمشنر لگا دیا گیا۔
2013ء میں مرکز میں مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو جے یو آئی اس حکومت کا حصہ بن گئی۔درانی صاحب نے وزیر کا حلف اٹھا لیا۔ 25 فروری 2014ء کو ایک نیا نوٹیفیکیشن جاری ہوا اور مولانا کے بھائی کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے سپرد کر دی گئیں۔اور انہیں ڈی سی او خوشاب بنا دیا گیا۔
ایک اسسٹنٹ انجینئر مقابلے کا امتحان دیے بغیر سول سروس کا حصہ بھی بن گیا اور ڈی سی او بھی لگ گیا۔ اپریل 2016ء میں اسسٹنٹ انجینئر ، معاف کیجیے ڈی سی او صاحب ، کی خدمات سیفران کے حوالے کر دی گئیں اور سیفران نے انہیں کمشنر افغان ریفیوجیز کے عہدے پر تعینات کر دیا۔ یہ گریڈ 20 کی پوسٹ تھی جو مولانا کے بھائی کی خدمت میں پیش کر دی گئی۔
محمد عباس خان چیختا رہ گیا کہ یہ اس کی حق تلفی ہے۔ اس نے سی ایس ایس کر رکھا ہے، 19ویں گریڈ کا افسر ہے ، اٹلی سے ریفیوجی لاء کورس کر رکھا ہے ، آ کسفورڈ یونیورسٹی سے ’ فورسڈ مائیگریشن‘ کا سمر سکول اٹینڈ کیا ہوا ہے ۔اس منصب پر ایک ایسا شخص کیسے تعینات ہو سکتا ہے جس نے نہ سی ایس ایس کیا ہے ، نہ وہ اس گریڈ کا استحقاق رکھتا ہے ، نہ ریفیوجیز کے حوالے سے اس کے پاس کوئی مہارت ہے۔لیکن مولانا کے بھائی جان اس منصب پر تعینات فرما دیے گئے۔
مولانا کے ایک اور بھائی مولانا عطاء الرحمن ہیں۔پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں جب مولانا فضل الرحمن آصف زرداری کے ساتھ مل کر اسلامی انقلاب لانے کی کوششیں کرتے رہے تو ان دنوں مولانا عطا ء الرحمن وفاقی وزیر بنا دیے گئے۔2008ء سے 2010ء تک وہ وزیر سیاحت رہے۔ 1988ء میں پارٹی کے انتخابات ہوئے تو انہی کو الیکشن کمشنر بنا دیا گیا۔
جے یو آئی کے پی کے ، کے جوائنٹ سیکرٹری بھی انہی کو بنا دیا گیا۔ 2002ء میں یہ پارٹی کے ڈپٹی الیکشن کمشنر بنے ، اس کے بعد انہیں کے پی کے جماعت کا نائب امیر بھی بنا دیا گیا۔ 2003 ء اور 2008ء میں جب اسلامی انقلاب لانے کے لیے الیکشن لڑ کر اسمبلی میں جانے کا وقت آیا تو علمائے اسلام کی جمعیت میں کوئی اس قابل نظر نہ آ یا چنانچہ اس بھاری ذمہ داری کے لیے ایک بار پھر انہی کو چنا گیا۔
2013ء کے انتخابات میں مولانا فضل الرحمن نے ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان اور لکی مروت سے قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ضمنی الیکشن کا مرحلہ آیا تو ایک بار پھر نظر انتخاب اپنے ہی بھائی پر پڑی اور انہیں لکی مروت این اے 27 سے ٹکٹ جاری فرما دیا گیا۔یہ الگ بات کہ صاحب ہار گئے۔ سینیٹ کے انتخابات کا مر حلہ آیا تو مولانا نے ان کو ایک بار پھر اقتدار کے ایوانوں تک لا پہنچایا اور سینیٹر بنوا دیا۔
اس وقت مولانا صاحب سینیٹر ہیں۔ ایک مولانا اور بھی ہیں۔ یہ مولانا لطف الرحمن ہیں۔ کے پی میں تحریک انصاف کی حکومت بنی تو قائد حزب اختلاف کے لیے بھی علمائے اسلام کی جمعیت میں مولانا فضل الرحمن کے بھائی جان کے علاوہ کوئی بندہ نہ ملا چنانچہ مولانا لطف الرحمن اپوزیشن لیڈر قرار پائے۔
ایک اور مثال حاجی غلام علی صاحب کی ہے جو مولانا کے سمدھی ہیں اور سینیٹر بھی رہ چکے ہیں۔ ہمارے دوست ذبیح اللہ بلگن نے خبر دی ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے اپنے صاحبزادے کو ڈپٹی سپیکر کے عہدے کے لیے نامزد کرنے پر مجلس عمل میں تنائو ہے اور سراج الحق سمیت کچھ رہنما اس سے خفا ہیں۔
یہ ہمارے دوست کی خواہش تو ہو سکتی ہے ، اسے خبر ماننا بہت مشکل ہے۔سراج الحق کیسے خفا ہو سکتے ہیں؟ ان کی قومی اسمبلی میں نمائندگی ہی کتنی ہے؟شاید صرف ایک ایم این اے؟ اپنی لایعنی اور بے سمت پالیسیوں سے انہوں نے جماعت اسلامی کا آملیٹ بنا دیا ہے اور ابھی تک استعفی نہیں دیا۔
وہ اگر اعتراض کریں اور آ گے سے مولانا پوچھ لیں کہ قاضی حسین احمد کے دور میں ان کی صاحبزادی کو آپ نے ایم این اے کیوں بنا یا تھاتو سراج الحق کے پاس کیا جواب ہو گا؟ صوبائی اور قومی اسمبلی تو اب ان کے لیے ایک خواب سا بن کر رہ گیا ہے حالت یہ ہے کہ کونسلر کا انتخاب ہوتا ہے اور لیاقت بلوچ اور فرید پراچہ کے صاحبزادے شیر اور بلے کے نشان پر الیکشن لڑتے ہیں۔
تو کیا شاہ اویس نورانی مولانا فضل الرحمن سے سوال کریں گے؟ اگر مولانا نے آگے پوچھ لیا کہ بیٹے کیا شاہ احمد نورانی مر حوم کے بعد پاکستان کے علماء کی جمعیت میں کوئی ایسا رجل رشید باقی نہ تھا جو آپ کو یہ ذمہ داری اپنے نازک کندھوں پر اٹھانا پڑی تو اویس نورانی کیا جواب دیں گے؟ یا اگر مولانا نے اویس نورانی اور سراج الحق کو اکٹھے بٹھا کر پوچھ لیا کہ حضرت آپ دونوں بتا دیں آپ میں سے یا آپ کی جماعتوں میں سے کس کو ڈپٹی سپیکر کے لیے نامزد کروں تو ان دونوں شخصیات کا متفقہ جواب کیا ہو گا؟
اب آپ بتائیے مولانا نے اپنے صاحبزادے اسد محمودکو ڈپٹی سپیکر کے لیے نامزد کر دیا ہے تو اس میں حیرت کیسی؟سیاست یہاں ایک کاروبار بن چکا ہے۔ کارکن مدرسے کا ہو یا سکول کا ، اس کا کام صرف نعرے لگانا اور اپنے اپنے قائدین کی مہم جوئی کا ایندھن بننا ہے۔
قائد محترم ایک طویل عرصے سے کشمیر کمیٹی کے چیئر مین تھے۔ سوال یہ ہے کہ کشمیر کاز سے آپ کی جو وابستگی ہے وہ تو سارے جہاں کو معلوم ہے اس کے باوجود کشمیر کمیٹی ہی آپ کا انتخاب کیوں ٹھہری؟ اور بھی تو بہت ساری کمیٹیاں تھیں ، مزاج اور ذوق کے مطابق کسی اور کو چن لیا ہوتا، مسلسل کشمیر کمیٹی ہی پر نظر کرم کیوں فرمائی جاتی رہی؟اس کا شاید سب سے آسان جواب یہ ہے کہ یہ صرف کشمیر کمیٹی ہے جس کے چیئر مین کا مرتبہ وزیر نہ ہوتے ہوئے بھی وفاقی وزیر کا ہوتا ہے۔
یہ واحد کمیٹی ہے جس کا سربراہ وفاقی وزراء کے لیے مختص کالونی میں قیام پزیر ہوتا ہے۔گاڑی ملتی ہے اور پٹرول بھی۔اب اگر صاحبزادے ڈپٹی سپیکر بن جاتے ہیں تو سرکاری مراعات اور نوازشات کا ایک جہان ہے جو پھر سے آباد ہو سکتا ہے۔
کیا آپ نے حمزہ شہباز صاحب کی گفتگو کبھی سنی؟یہ صاحب ابھی کل تک پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے امیدوار تھے۔ کبھی آپ نے سوچا موصوف شریف خاندان میں پیدا نہ ہوتے تو کیا کر رہے ہوتے؟یہی سوال ان صاحب کے لیے بھی ہے جو ڈپٹی سپیکر کے امیدوار ہیں۔
سیاست شاید ان خاندانوں کا کاروبار ہے جو وراثت میں نسل در نسل منتقل ہو رہا ہے۔اس وراثت میں اپنے حصے کے بے وقوف بھی تقسیم کیے جاتے ہیں ۔معلوم نہیں، یہ سیاست ہے یا کاروبار ۔۔۔۔۔۔
کاپی پیسٹ ۔۔

 

March 27, 2023

Namaz e Traveih نما ز تراویح کیسے پڑھی جائے

 

 

عرب اور پاکستان کی تراویح میں فرق :

*تراویح میں کویتی عربی حافظ نے پاکستانی حافظ کو کیا کہا...*
اگر یہ تحریر نہیں پڑھی تو کچھ نہیں پڑھا.....
غور فرمائیے
املاء کی غلطی پر پیشگی معذرت خواہ ہوں۔
کویت میں کچھ رہائشی مکانات کی تعمیر کا سلسلہ جاری تھا...
پاکستان کی ایک تعمیراتی کمپنی NC کو بھی چند سو مکانات کا ٹھیکہ دیا گیا۔
وہاں کام کرنے والے پاکستانی ملازمین نے اپنے رہائشی کیمپ میں اپنے لیے ایک عارضی مسجد بنا لی اور باجماعت نماز کا اہتمام کیا....
چار پانچ ماہ بعد رمضان المبارک آگیا اور وہاں تراویح پڑھانے کی ضرورت محسوس ہوئی...
وہاں ان پاکستانیوں کے ساتھ ایک پاکستانی حافظ قرآن بھی موجود تھا مگر وہاں قانون کے مطابق تراویح پڑھانے والے حافظ صاحب حکومت سے طلب کئے جاتے ہیں...
حکومت کے بھیجے ہوئے حافظ صاحب کو کسی وجہ سے تین چار روز کی تاخیر ہو گئی تو پاکستانی حافظ نے تراویح پڑھانا شروع کر دیں....
حکومت کی طرف سے بھیجا گیا حافظ بھی وہاں پہنچ گیا اور اتفاق سے عین اس وقت پہنچا جب پاکستانی حافظ تراویح پڑھا رہا تھا....
تراویح ختم ہوئی تو عربی حافظ صاحب نے پاکستانی حافظ کو قریب بلایا اور کہا.....
*’’من اعطاک صلاحیۃ تلعب مع کتابنا قران الکریم‘‘؟*
یعنی تمہیں کس نے یہ اختیار دیا کہ تم ہماری کتاب قرآن سے کھیل کھیلو؟؟؟
*"ھل ترید تخلص المصحف فی لیلۃ الواحدہ؟؟؟"*
کیا تم اسے ایک ہی رات میں ختم کرنا چاہتے تھے؟؟؟
پاکستانی حافظ صاحب حیران و پریشان ہو کر ادھر ادھر تکنے لگا...
ایک پاکستانی جو تھوڑی بہت عربی جانتا تھا، پاس آیا اور اس نے ترجمہ کر کے پاکستانی حافظ کو بتایا کہ عربی حافظ کیا پوچھ رہا ہے؟
پاکستانی حافظ نے جواب دیا میں نے کونسی غلطی کر دی....؟
عربی حافظ جواب میں بولا....
*’’ھل تقرون القران بھٰذا شکل مثل دراجہ الناریہ فت فت فت فت فت۔؟؟؟‘‘*
کیا تم لوگ قرآن کو اس طرح پڑھتے ہو جیسے موٹر سائیکل کی پھٹ پھٹ پھٹ پھٹ۔‘‘؟؟؟
اور مجھے ذرا یہ تو بتاؤ کہ تم کو تو میری زبان سمجھ آ نہیں رہی اور تم نے قرآن کیسے یاد کر لیا.....؟
بولو...........؟
کیا تم نے قرآن میں قرآن پڑھنے کے اصول نہیں دیکھے کہ قرآن کیسے پڑھا جاتا ہے.......؟
کیا تم نے یہ آیت نہیں پڑھی کہ:
*وَقُرْآناً فَرَقْنَاہُ لِتَقْرَأَہُ عَلَی النَّاسِ عَلَی مُکْثٍ وَنَزَّلْنَاہُ تَنزِیْلا* (سورہ الاسرا۔آیت106) :
اور ہم نے قرآن کو وقتاً فوقتاً اس لیے اتارا کہ تم مہلت کے ساتھ اسے لوگوں کو پڑھ کر سناؤ اور اس کا مطالب انہیں ذہن نشین کراؤ .....
اور پھر ایک اور آیت نہیں دیکھی تم نے؟
*’’ورتل القراٰن ترتیلاً‘‘* (سورہ المزمل۔آیت 4)
اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔
پھر تم کیسے اس طرح بھاگم بھاگ چلے جارہے ہو...؟
تم نے قرآن کو مقتدیوں کو ذہن نشین تو کرایا ہی نہیں۔ تم تو اسے ایک ہی رات میں ختم کرنے پر تلے ہوئے نظر آئے..
پاکستانی حافظ صاحب نے ٹوٹی پھوٹی عربی میں کہا کہ
*’’واللہ یا شیخ انا ما عرف ایش تقول‘‘*
قسم ہے یا شیخ میں کچھ نہیں سمجھا کہ آپ کیا کہہ رہے ہو۔..؟؟
عربی حافظ نے جواب دیا کہ جب تم کچھ سمجھتے ہی نہیں تو پھر لوگوں کے آگے کیوں کھڑے ہوتے ہو؟
*(لماذا واقف امام الناس؟‘‘)*
*انت تقراء بالسرعۃ۔...*
تم بہت تیزرفتاری سے قرآن پڑھتے ہو۔
*ھدو لاک مساکین لوراک یمکن یسمعون ولاکن لا یفھمون ‘‘*
یہ جو لوگ تیرے پیچھے کھڑے ہیں یہ سنتے ہونگے، مگر سمجھ کچھ نہیں رہے ہونگے...
عربی حافظ نے کہا اگر آئندہ تم نے قرآن پاک کے ساتھ یہ کھیل کھیلا تو میں تمہیں پولیس کے حوالے کر دوں گا....
ساتھیو...!!!!
یہ تو صرف ایک واقعہ ہے... مگر دیکھا جائے تو یہ پاکستان میں گھر گھر کی کہانی ہے...
عہد رسالت میں جب قرآن پڑھا جاتا تھا تو سننے والوں کی کیا کیفیت ہوتی تھی....
اللہ فرماتا ہے : (سورہ المائدہ۔آیت 83)
اور جب یہ لوگ وہ کتاب سنتے ہیں جو ہم نے نازل کی اپنے پیغمبر پر تو ان کی آنکھوں کی طرف دیکھو کہ کیسے آنسو رواں دواں ہیں... اس لیے کہ انہوں نے حق بات پہچان لی ہے....
اور یہاں ہمارے ہاں جب قرآن پڑھا جاتا ہے تو سننے والوں پر غنودگی طاری ہورہی ہوتی ہے... اور دل ہی دل میں دعا کر رہے ہوتے ہیں کہ جلدی جان چُھوٹے تو گھروں کو پہنچیں....
کیونکہ ہم سمجھتے ہی نہیں کہ کیا پڑھا جارہا ہے اور کیا کہا جارہا ہے۔
اللہ قرآن میں فرماتا ہے کہ :
*لَوْ أَنزَلْنَا ہَذَا الْقُرْآنَ عَلَی جَبَلٍ لَّرَأَیْْتَہُ خَاشِعاً مُّتَصَدِّعاً مِّنْ خَشْیَۃِ اللَّہِ وَتِلْکَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُونَ ہ*
(سورہ الحشر... آیت 21)
اور (اس قرآن کی اثر انگیزی کا یہ عالم ہے کہ ) اگر ہم (مثال کے طور پر) اسے کسی پہاڑ پر نازل کر دیتے تو تم دیکھتے کہ اس کی خلاف ورزی کے احساس سے اس پر لرزہ طاری ہوجاتا اور ذمہ داری کے خیال سے وہ ریزہ ریزہ ہوجاتا.....
اس قسم کی مثالیں اس لیے دی گئی ہیں کہ لوگ سمجھیں...
عقل و فکر سے کام لیں اور سوچیں کہ قرآن کن کن عظمتوں کا مالک ہے....
اس میں کونسا عظیم انسانی فلاحی نظام پیش کیا گیا ہے....
اس پر عمل کرنے میں کون کونسی کامیابیاں بیان کی گئی ہیں...
اور اس کی خلاف ورزی سے کیا نتائج برآمد ہونگے....
..
اس سبق آموز تحریر کو اساتذہ کرام ، قراء حضرات، حفاظ کرام، علماء حق و باعمل مشائخ کے علاوہ نئی نسل کے نوجوانوں، با شعور شہریوں اور مساجد کی انتظامیہ و عہدیداران تک ضرور پہنچائیں ۔
منقول

 

March 15, 2023

BLESSINGS OF AMIGHTY ALLAH, Business with Allah

 

میں لاہور میں سعودی عرب کے تعلیمی اتاشی کے سامنے بیٹھا تھا، میرے کاغذات اور جدہ یونیورسٹی کا ویزا اسکے ہاتھ میں تھا- وہ کافی دیر تک کاغذات کو دیکھتا رہا پھر بولا لیکن میں اس ویزے کو نہیں مانتا- میں نے پوچھا وجہ؟ اس نے کہا تعلیم تو ٹھیک ہے مگر تمھارا تجربہ انڈسٹری کا ہے تدریس کا تجربہ تو صفر ہے، جسکو پڑھانے کا کوئی تجربہ ہی نہ ہو وہ کیا پڑھائے گا-

میں نے کہا سر لیکن جدہ میں رئیس القسم نے میرا ٹیسٹ اور پڑھائی کا طریقہ دیکھ کر میری سفارش کی ، پھر میرا ڈین سے انٹرویو ہوا اسکے بعد یہ ویزا دیا گیا ہے- اسکےہونٹوں پر ایک مسکراہٹ پھیل گئی بولا ضروری نہیں کہ اگر انھوں نے غلطی کی ہو تو میں بھی غلطی کروں- میں نے کہا سر یہ ویزا وائس چانسلر نے جاری کیا ہے جسکی پوسٹ وزیر کے برابر ہوتی ہے، وہ پھر مسکرایا اور بولا اور مجھکو ایسے 15 وزیروں کے کاموں کو چیک کرنے کے لیئے بٹھایا گیا ہے اگرآپ چاہیں تو میں آپ کے کاغذات پر لکھ کر دے سکتا ہوں کہ آپ کو ویزا نہیں دیا جاسکتا۔ میں نے اس سے مزید حجت کی تو اس نے کہا جب تک میں اس سیٹ پر ہوں دیکھتا ہوں تم کو ویزا کون دیتا ہے – میرے ذہن میں اپنی پرانی کمپنی کے

مسٹر فریڈرک کیسے کے الفاظ گونجے ” مسٹر رضوان ۔۔ تم نوکری چھوڑ کر بڑی غلطی کررہے ہو، میں نے ان لوگوں کے ساتھ 20 سال کام کیا ہے، انکا ہر وعدہ غلط ہوتا ہے” اور میں نے غصہ میں جواب دیا تھا ” یہ لوگ ہمارے لئیے بڑے مقدس ہیں تم انکی توہین کررہے ہو، اس نے کاغذات پر دستخط کرتے ہوئے کہا تھا ایک وقت آئے گا تم میرے الفاظ کو یاد کروگے- شاید وہ وقت آگیا تھا- پھر اس کے بعد میں نے دو اور چکر لگائے ہوائی جہاز سے اور ہر بار اتاشی کا وہی جواب تھا ” کہ جب تک میں اس سیٹ پر ہوں دیکھتا ہوں تم کو ویزا کون دیتا ہے” میرے لئیے یہ بڑا سخت وقت تھا نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔۔ دو مہینے بےروزگاری کے ہوچکے تھےمیں سخت ٹینشن میں بیٹھا تھا کہ بیل بجی دروازے پر ٹین ڈبےوالا تھا، کوئی ستر سال کا ہوگا بالکل ہڈیوں کا ڈھانچا، میلا کچیلا پیوند لگے کپڑے، پسینے میں نہایا ہوا- کہنے لگا صاحب دس سال ہوگئے ہیں ان گلیوں میں چکر لگاتے آج پہلی بار کسی کے گھر کی بیل بجائی ہے میں نے حیرت سے کہا ہاں ۔۔ بولو، کہنے لگا یہاں نہیں وہاں نیم کے پیڑ کے نیچے چبوترے پر بیٹھ کر آرام سے بات کرنی ہے- میں تذبذب کے عالم میں اس کے ساتھ چل پڑا-

کہنے لگا صاحب میری اکلوتی بچی کی شادی ہونے والی ہے شادی میں صرف ایک ہفتہ باقی رہ گیا ہے مگر میرے پاس ایک پیسہ نہیں ہے آج کل کام بھی بہت مندا ہےکئی لوگوں سے ادھار مانگا سب نے منع کردیا، کل رات بہت دیر تک مسجد میں رویااور دعا مانگی تو رات میں خواب میں آپ کی گلی اور گھر نظر آیا اور آواز آئی ان سے جا کر مانگ لے اس لئیے صرف آپکا دروازہ کھٹکھایا ہے- مجھے اس کی کہانی پر یقین نہیں آیا اور ہنسی بھی آئی کہ لوگ کیسی کیسی چار سو بیسی کرنے لگے ہیں- میں نےازراہ مذاق پوچھا کتنے پیسے کی ضرورت ہے بولا صاحب سادگی سے رخصتی کرنی ہے، زیور تو میں اپنے بیوی کا چڑھا دوں گا، مگر پانچ چھ جوڑے اور شادی کا کھانا تو کرنا ہوگا، کوئی تیس ہزار کا خرچہ ہوگا-

میں نے سوچا 50000 تو آج کل صرف دلہن کے بیوٹی پارلرمیں ہی خرچ ہوجاتے ہیں- یہ رقم میرے لئیے بہت معمولی تھی اگر میں باہر کام کررہا ہوتا، مگر اب اس بے روزگاری میں یہ میرے لئیے بہت بڑی رقم تھی- میں خاموش سا ہوگیا وہ بولا صاحب آپ میرے ساتھ میرے گھر چلیں اور میرے محلے والوں سے پوچھ لیں یہ جھوٹی کہانی نہیں ہے، میں غریب ضرور ہوں مگر ایماندار ہوں قسطوں میں آپ کی رقم لوٹا دوں گا۔ اسکی آنکھوں میں آنسو تھے اور چہرے پر بےچارگی اور لجاجت- وہ پھر بولا میں کبھی بیل نہ بجاتا اگر یہ خواب نہ دیکھتا۔ میں عجیب شش و پنج میں تھا پھر مجھے یاد آیا کہیں پڑھا تھا کہ جب تنگی ہو تو خدا سے تجارت کیا کرو وہ کبھی نا امید نہیں کرتا۔۔۔ تیس ہزار دینے کا مطلب یہ تھا کہ اب واپسی کی کوئی امید نہیں – خیر میں گیا اور تیس ہزار اس کے ہاتھ میں رکھ دئیے- اس نے میرے ہاتھ چوم لئیے اور رونے لگا۔۔۔

کوئی پندرہ دن بعد پھر اس نے دروازہ کھٹکھٹایا میں نے غصہ سے پوچھا اب کیا مسئلہ ہے کیا پھر کوئی خواب دیکھا ہے بولا ہاں مگر آپ کو کیسے پتہ چلا ؟ میں نے جنجھلا کر کہا ظاہر ہےپہلے خواب دیکھا تھا تو بیل بجائی اب پھر خواب دیکھا ہوگا جو بیل بجائی ہے- جلدی بتاؤ مجھے بہت کام ہیں-

کہنےلگا صاحب کل عشاء کی نماز پڑھ کر بڑی دعا کی کہ مولا قرض تو دلا دیا ہے اب ادائیگی میں بھی مدد کردے اور سوگیا تو پھر آپ کا گھر نظر آیا آواز آئی کہ تیرا قرض ادا کردیا گیا ہے جاکر بتادے کہ اسکا بھی کام کردیا گیا ہے- میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آیا- میں نے کہا ٹھیک ہے جاؤ میں نے تم سے کون سا قرض وصول کرنا تھا- لیکن کمرہ میں آکر میں کافی دیر تک سوچتا رہا پھر والدہ سےمشورہ کیا تو وہ بولی تم کل ہی لاہور جاؤ ہوسکتا ہے قدرت کوئی راستہ نکالے میں نے تنک کر کہا تین بار تو جا چکا ہوں وہ تو بس ایک ہی بات کہتا ہے” جب تک میں اس سیٹ پر ہوں دیکھتا ہوں تم کو ویزا کون دیتا ہے” اب تو اس کو میرا چہرا بھی زبانی یاد ہوگیا ہوگا- والدہ نے کہا میں پیسے دیتی ہوں تم اللہ کا نام لے کر جاؤ تو سہی، کچھ لوگ خدا کےبہت قریب ہوتے ہیں یہ بات عام آدمی نہیں سمجھ سکتا۔

خیر میں اگلےدن لاہور پہنچا موسلا دھار بارش ہورہی تھی، ڈرتے ڈرتے اتاشی کے کمرہ میں داخل ہوا دیکھا کرسی پر ایک نوجوان لڑکا بیٹھا ہے، میں نے کہا یہاں تو ایک اور صاحب ہوتے تھے بولا ہاں انکو ایک ہفتہ ہوا واپس وزارت خارجہ میں بلا لیا گیا ہے اور میں نے چارج سنبھال لیا ہے- میں نے کاغذات اسکو دیئے بولا آپ بہت لیٹ آئے اب تو یونیورسٹی کھلنے میں چند دن رہ گئےہیں- پھر اس نے سکریٹری کو بلایا کہا کہ پرسوں سےیونیورسٹی شروع ہورہی ہے یہ پہلے ہی لیٹ ہوچکے ہیں فورا ٹکٹ بناؤ پاسپورٹ پر ویزا لگاؤ اورسالانہ ھاؤس رینٹ، ایک ماہ کی سلیری کا چیک بنا کر لے آؤ، اور سنو چائے بھجوادینا-

میں ایک لمحہ کے لئیے گم سم سا ہوگیا، قدرت اس طرح بھی مہرباں ہوسکتی ہے ؟، پرانے اتاشی کے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہےتھے- اوپر والے نے اس مغرور شخص کی کرسی چھین لی تھی کیا صرف میرا کام کروانے کے لئیے؟ پھر موسم پر میں نے گفتگو شروع کی بتایا کہ بہت موسلادھار بارش ہورہی تھی بڑی مشکل ہوئی آنے میں تو اس نے بڑی شائستہ اردو میں جواب دیا کہ آپ لوگ بڑے خوش قسمت ہیں ہم تو ایسے موسم کو ترستے ہیں، مجھ پر تو حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ گئے اس کی اردو سن کر- میرا حیران چہرہ دیکھ کر وہ ہنسا بولا میں نے یہیں سے تعلیم حاصل کی ہے پاکستانی ایک ذہین ، محنتی اور بڑی مہمان نوازقوم ہے میں ان سے محبت کرتا ہوں خاص طور پر استادوں سے۔۔۔ چائے ختم ہوگئی تھی، پاسپورٹ، ٹکٹ اور چیک میرے ہاتھ میں تھا۔۔۔ مجھے ٹین ڈبے والے کے خواب کےالفاظ یاد آئے کہ تمھارا قرض ادا کردیا گیا ہے- لیکن ایسی ادائیگی کا تو میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا

 

Mother Breast Feeding to Her Child

 

ایک ایسی شکائیت جوآجکل بہت زیادہ سننے میں آتی ہے۔
وہ یہ کہ ماں کا دودھ بچے کیلئے ناکافی ہے ۔ بچہ ماں کا دودھ پی کر بھی روتا رہتا ہے۔
بچہ ماں کا دودھ نہیں پیتا۔
ماں کا دودھ خراب ہے۔
کیا واقعی ایسی کوئی بات ہے؟
ماں کا دودھ پورا نہ ہونے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ کچھ ٹیکنیکل مسائل کو چھوڑ کر جوکہ بہت ہی کم ہوتے ہیں۔ زیادہ تروہ غلطیاں ہوتی ہیں جو مائیں ابتدائی دنوں سے کرنا شروع کر دیتی ہیں۔
:پہلے یہ بات کلیئر کر لیں
ماں کے دودھ کی غذائیت اور مقدار ہمیشہ بچے کی عمر اور ضرورت کے مطابق ہوتی ہے۔اور اس بات میں کوئی حقیقت نہیں ہے کہ ماں کا دودھ کم ہے اور بچے کیلئے ناکافی ہے۔ورنہ جتنا دودھ بچہ پیئے گا اتنا دودھ پیدا ہوگا۔ اگر ایک بچہ ماں کا دودھ پی رھا ہے ، ایک اور بچے کو بھی ساتھ پلانا شروع کردیا جائے تو قدرت کی طرف سے جسم میں ایسی صلاحیت ہوتی ہے کہ دودھ اتنا بڑھ جائے گا کہ دوسرا بچہ بھی پیٹ بڑھ کر دودھ پینا شروع کردے گا۔۔
ماں کے دودھ کے ساتھ فیڈر کا ستعمال ماں کا دودھ کم ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
ہمارے ہاں ایک غلط فہمی یہ بھی پائی جاتی ہے کہ ماں کا دودھ تیسرے دن اترے گا۔ اور ابتدائی دودھ جو کچھ گہرا زردی مائل پانی کی صورت میں ہوتا ہے۔جسے کلوسٹرم کہا جاتا ہے، غذائیت اور توانائی سے بھرپور ہوتا ہے ۔بلکہ اس دودھ کو بچے کا پہلا حفاظتی ٹیکہ بھی کہا جاتا ہے۔پلانے سے گریز کیا جاتا ہے۔۔ اور پہلے تین دن فیڈر پر رکھا جاتا ہے۔
بچے کے ابتدائی دس سے بارہ دن خوارک کی بہت زیادہ ضرورت نہیں ہوتی۔بلکہ کچھ وجوہات کی بنا پر پہلے ہفتے بچے کا وزن لگ بھگ دس فیصد کم ہوجاتا ہے۔ جو کہ دوسرے ہفتے کے اختتام تک دوبارہ بحال ہوجاتا ہے لیکن بہت زیادہ متفکر مائیں بچے کی پیدائش کے بعداس کمزوری کو دودھ کی کمی سمجھ کر فیڈر کا استعمال شروع کروادیتی ہیں۔
ماں کا دودھ شروع کرنے کے ابتدائی دنوں میں بچہ بار بار پخانہ کر سکتا ہے لیکن ماں کے دودھ میں خرابی قرار دے کر یا تو دودھ روک دیا جاتا ہے یا پھر فیڈر کا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔
جب بچے کو فیڈر کا استعمال شروع کیا جاتاہے تو ماں کا دودھ کم پینے کی وجہ سے دودھ خود بخود کم ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اوردوسرا ماں کا دودھ نکالنے میں بچے کو کافی مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ فیڈر کا دود ھ باآسانی حاصل ہوجاتا ہے۔جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچہ رو کر اور ماں کا دودھ نہ پینے کی ضد کرکے فیڈر کے دودھ کی مقداربڑھاتا جاتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ اگر آپ باڑے جا کر دودھ لانے کے عادی ہوں۔ لیکن کوئی گوالا وہی دودھ آپ کے دروازے تک پہنچانا شروع کردے تو کس کا دل کرے گا کہ روز باڑے جا کر دودھ لانے کی تکلیف اٹھائے۔
اور یوں فیڈر کے استعمال کے بعد بچہ ماں کا دودھ کم پیتاہے تو دودھ بھی خودبخود کم ہونا شروع ہوجاتا ہے
تو کیا کرنا چاہیئے؟
۔۔۔بچے کی پیدائش کے بعد بچے کے منہ میں پہلی خواراک ماں کا دودھ ہی ہونا چاہیئے۔ حتی کے آپریشن سے پیدا ہونے والے بچے کو بھی جونہی ماں سنبھلے، بچے کو اپنا دودھ پلانا شروع کردے۔
۔۔۔بچے کو دودھ پلاتے وقت مناسب وقت دیں۔ پیٹ بڑھ کر دودھ پینے کیلئے بچہ پندرہ منٹ سے پونا گھنٹہ تک وقت لے سکتا ہے۔
۔۔۔بچے کے زیادہ رونے یا تنگ کرنے پر فیڈر کا استعمال شروع نہ کروایا جائے بلکہ اپنے قریبی بچوں کے ڈاکٹر سے رہنمائی حاصل کریں۔
۔۔۔ بچے کو ہمیشہ دودھ اس وقت پلانا چاہیئے جب وہ بھوکا ہو اور صحت میں ٹھیک ہے تو اسے اچھی طرح رو لینے دیا جائے۔ تاکہ جب بھی دودھ پیئے تو اتنا دودھ پی لے کہ بار بار دودھ نہ مانگے ۔
۔۔بچے کو صحت مند بنانے کیلئے غیر ضروری ٹوٹکوں سے بچائیں ۔روایتی غیر تصدیق شدہ نسخے بچے کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
منقول
بچوں کی صحت سے متعلق مواد اور رہنماٸ کے لیے !!!!
ڈاکٹرارشدمحمود
کنسلٹنٹ چاٸلڈ اسپیشلسٹ

 

March 14, 2023

How do you prevent getting kidney stones again

 

آپ گردے کی پتھری کو دوبارہ کیسے روک سکتے ہیں؟

گردے کی پتھری کی مختلف اقسام ہیں۔

کیلشیم آکسالیٹ سب سے زیادہ عام ہیں۔

پانی بہترین حل ہے۔ اگر باہر گرمی ہے تو آپ کو کافی پانی پینا 
ہوگا۔ آپ کا پیشاب ہلکے رنگ کے بھوسے کی طرح نظر آنا چاہیے۔

ایسی غذائیں بھی ہیں جن میں OXALATE زیادہ ہوتی ہے۔ یہ گوگل
 پر آسانی سے سرچ کر سکتے ہیں۔

آکسیلیٹ گردے کی پتھری کے سلسلے میں میگنیشیم اور وٹامن 
بی 6 کو چیک کریں۔


 

March 12, 2023

Education & Business

 

 

میں جب تین سال کا تھا۔تو ٹھٹھرتی سردی میں ایک دن دادا نے سکول میں داخل کروا کر عمر پانچ سال لکھوا دی۔کہ سرکاری سکول میں اس وقت پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کا داخلہ ممنوع ہوتا تھا۔ جب کہ میرا یار جمعہ گُل اپنی اماں کی گرم گود میں بیٹھ کر چائے پراٹھے ٹھونستا رہا۔

میں ٹاٹ پر بیٹھ کر صبح سے دُوپہر تک الف سے اللہ اور ب سے بکری کے راگ الاپتا رہا۔اور جُمعہ گُل گلے میں غلیل ڈال کر گاؤں کے درختوں میں پرندے مارتا رہا۔ ہم سارا سارا دن اُستاد رحیم گل کی سوٹیاں اپنی پشت پر کھاتے رہے، تاکہ کل کو مُعاشرے میں ایک مقام بنا سکیں۔اور جُمعہ گُل اپنے باپ کے کندھے پر بیٹھ کر گاؤں کے میلے لُوٹتا رہا۔
ہم سکول سے چُھٹی ہونے کے بعد گندم کی کٹائیوں میں اماں کا ہاتھ بٹاتے رہے۔اور جُمعہ گُل کھیت کی مُنڈیر پر بیٹھ کر جوانی کے گیت گاتا رہا۔
ہم جب آنسو بھری آنکھوں سے جُمعہ گل کی طرف دیکھتے۔تو دل کا حال جان کر اماں بولتیں۔بیٹا تم ایک دن بڑا افسر بنے گا اور جُمعہ گل جیسے لوگ تیرے نوکر بنیں گے۔
سکول سے کالج،کالج سے یونیورسٹی ہماری قسمت میں صرف کتابوں کا ڈھیر چاٹنا رہ گیا۔جب کہ جُمعہ گُل گاؤں کا لُچا لفنگا بن کر جوانی کے مزے لُوٹتا رہا۔ اِدھر ہم نے پی ایچ ڈی تھیسز جمع کروا کر گویا علامہ بننے کی ٹھان لی۔ تو اُدھر گاؤں میں جُمعہ گُل نے بغل سے پستول کا ہولسٹر ہٹا کر کندھے پر کلاشنکوف رکھنی شروع کردی۔ پھر ہم نے پیچھے کبھی مُڑ کر نہیں دیکھا۔ کہاں کا جُمعہ گُل اور کہاں میں۔
ہم بقول اماں کے واقعی افسر بن گئے۔اور گاؤں سے اپنا ناطہ ٹوٹ گیا۔ اپنی افسری، شہری بیوی اور بچوں میں ایسا کھو گئے۔کہ یاد بھی نہیں رہتا تھا، کہ جُمعہ گُل کیا کررہا ہوگا۔ اماں کی باقی ساری باتیں بالکل سچ ثابت ہوچُکی تھی۔بس کبھی کبھار اُن کی یہ بات دل کے دروازے پر دستک دے کر بےچین کر دیتی۔کہ جُمعہ گُل تمہارا نوکر بنے گا۔ شائد اماں کی بات سے زیادہ یہ خود کی ایک خواہش تھی۔جو شعور سے لاشعور تک کا فاصلہ پاٹتے ہوئے تحت الشعور میں پنجے جا گاڑ بیٹھی تھی۔اور پھر میں کیمبرج میں پڑھتے اپنے بچوں کو ہر وقت یہی راگ سُنانے لگتا۔کہ بیٹا میری طرح بنو،جُمعہ گُل مت بنو۔میرے بچے مجھ سے پوچھتے کہ پاپا ہُو اِز جمعہ گل؟
اور میرا جواب ہمیشہ یہی ہوتا،کہ میرا نوکر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سالوں بعد گاؤں جانا ہوا۔ بیوی بچے ساتھ تھے۔ گاؤں بھی پھیل کر جیسے چھوٹا سا شہر بن گیا ہو۔ کافی لوگ اب اجنبی تھے میرے لئے۔ ایک دن پیغام آیا کہ جُمعہ گُل نامی بندے نے اہلِ خانہ سمیت دعوت پر بُلایا ہے۔ میرے اندر ایک کمینی سی خوشی در آئی۔کہ جُمعہ گُل کو دکھاؤں گا کہ پڑھائی لکھائی اور اُستاد رحیم داد کی سوٹیوں نے مُجھے کہاں سے کہاں تک پُہنچا دیا ۔اور وہ سدا کا لُچا لفنگا آج بھی دو وقت کی روٹی کے لئے مر رہا ہے۔ بیگم کو تاکید کی کہ پانچ ہزار اس کی بیوی کو تھما دینا۔رات کو اپنی 4000 سی سی گاڑی میں بیٹھ کر جُمعہ گُل کے گھر پُہنچا۔تو سناٹے میں آگیا۔شہر میں تین سو گز بنگلے والا افسر چار ہزار گز وسیع بنگلے کو دیکھ کر حیرت سے دانتوں میں اُنگلی دبائے رہ گیا۔جس پر "جُمعہ گُل پیلس" کا نیم پلیٹ اُس کا مُنہ چڑھا رہا تھا۔ بنگلے کے اندر چار وی ایٹ لینڈ کروزرز ایک شان سے کھڑی تھیں۔ واسکٹ پہنے جُمعہ گُل گرمجوشی سے آگے بڑھ کر میرے گلے لگ گیا۔کہ ڈاکٹر صاب بڑے آدمی بن گئے۔بُھول گئے ہم جیسے غریب اور ان پڑھوں کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری بیوی اور بچے مُنہ کھولے حیرانگی سے بنگلے کو دیکھ رہے تھے۔ اور جُمعہ گُل بتا رہا تھا،کہ اماں کی دعاؤں سے وہ آج پاکستان کا سب سے بڑا ٹرانسپورٹر بن گیا ہے۔ اچانک میرے بیٹے نے انگریزی میں مُجھ سے پُوچھا کہ بابا یہ وہی جُمعہ گُل ہے جو آپ کا نوکر بن رہا تھا؟میری خاموشی پر چھوٹے والے بیٹے نے انگریزی میں کہا
۔پاپا میں بھی جُمعہ گُل بنوں گا۔ ۔“😀
منقول

 

March 06, 2023

BRAIN INVESTMENT , دماغ پر سرمایہ کاری کرنا۔

 

ہ آئیڈیل شخص ڈاکٹر فاروق القاسم, عراقی نژاد نارویجن ماہر ارضیات (پٹرولیم) ہیں۔ انہوں نے ناروے کو پٹرولیم مصنوعات میں دنیا کی چھٹی بڑی طاقت بنانے میں کلیدی کردار کیا تھا۔
انہوں ایک مضمون لکھا جس کا عنوان ہے:
"دماغ پر سرمایہ کاری کرنا"
وہ لکھتے ہیں کہ مجھ سے جو شخص بھی بات کرتا ہے میں اسے کہتا ہوں کہ مجھ سے کسی بھی ایسے ملک اور اسکے قدرتی ذخائر جیسی قدرتی دولت کے متعلق سوال نہ کریں جہاں کے لوگ نفرت، نسل پرستی، قبائلی تقسیم، جہالت اور جنگوں کے دلدادہ ہیں ۔
نائیجیریا دولت اور دیگر معدنیات کے لحاظ سے امیر ترین ممالک میں سے ایک ہے۔
یہ دنیا کے سب سے بڑے تیل برآمد کرنے والے ممالک میں سے بھی ایک ہے۔ لیکن اس کی عوام کی حالت اور ملکی صورت حال پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ نہایت ہی مایوس کن ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ نائیجیریا کے لوگ نسلی گروہ بندی اور مذہبی تنازعات میں گھرے ہوئے ہیں۔
جبکہ سنگاپور وہ ملک ہے جس کے صدر ایک دن رو پڑے، کیونکہ وہ اس ملک کے صدر ہیں جہاں پینے کے صاف پانی کی دستیابی نہ ہونے کے برابر تھی، مگر پھر آج ان کا ملک فی کس آمدنی کے لحاظ سے جاپان سے بھی آگے ہے۔
آج کل صرف پسماندہ لوگ ہی رہ گئے ہیں جو کسی بھی قسم کی ترقی کرنے یا دنیا کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کی بجائے اب بھی زمین اور اس کی معدنیات پر نظریں جمائے ہوئے ہیں.
میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ اس میں سے اب ایسا کیا نکالنا چاہتے ہیں جس کے سہارے وہ محض زندہ رہنے کا خواب دیکھ رہے ہیں؟
یہ ایک ایسا وقت ہے جس کے ادراک سے وہ غافل ہیں، اس وقت سب سے کامیاب اور منافع بخش سرمایہ کاری کا درجہ خود انسان اختیار کرچکا ہے۔ اگر کوئی اپنے اوپر سرمایہ کاری نہیں کرے گا تو اس کا مستقبل غیر یقینی ہے۔
کیا آپ نے گلیکسی فون یا آئی فون خریدتے وقت سوچا ہے کہ اس فون کو کتنے قدرتی وسائل کی ضرورت ہے؟
آپ دیکھیں گے کہ اس میں قدرتی دولت کے چند ڈالر بھی خرچ نہیں ہوتے ۔
سادہ سا چند گرام لوہا, ایلومینیم اور تانبہ، شیشے کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا اور تھوڑا سا پلاسٹک وغیرہ، لیکن آپ اسے سینکڑوں ڈالر میں خریدتے ہیں، ایک موبائل فون کی قیمت تیل اور گیس کے درجنوں بیرل سے بھی زیادہ ہے۔
وجہ یہ ہے کہ اس میں انسانی ذہنوں کی تخلیق کردہ تکنیکی فکری دولت ہے. اور یہی مستقبل کی سب سے بڑی دولت ہوگی۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس جیسا شخص 226 ڈالر فی سیکنڈ کماتا ہے؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا کے امیر ترین لوگ اب قدرتی دولت کے مالک نہیں رہے؟
لیکن وہ اب آپ کے موبائل پر سادہ سی چند ایپلی کیشنز کے مالکان ہیں۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ سام سنگ جیسی کمپنی کا ایک سال میں منافع 327 ارب ڈالر ہے؟
جی ڈی پی کی اتنی رقم جمع کرنے کے لیے ہمیں سو سال درکار ہیں.
آپ کو محض یہ وہم ہے کہ آپ کے پاس قدرتی وسائل سے حاصل کردہ دولت ہے جو آپ کو آپ کے دماغ کا استعمال کے بغیر امیر بناتی رہے گی۔
اپنا وہم ترک کردو، بیل جیسی کند ذہنیت کے ساتھ دولت کو استحکام نہیں دیا جاسکتا۔
دوسری جنگ عظیم میں جاپان کو شکست ہوئی اور پچاس سال سے بھی کم عرصے میں اس نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے دنیا سے اپنی تباہی کا بدلہ لے لیا اور آپ ابھی تک اس جہالت سے نکلنے کے لیے تیار نہیں جہاں آپ کی شناخت اور آپ کا سب سے اہم مسئلہ آپ کا مسلک، ذات یا آپ کا قبیلہ ہے۔
عربی زبان سے اردو ترجمہ: مترجم توقیر بُھملہ

 

March 03, 2023

اللہ پاک نے ناف کیوں بنائی اس کے کیا کیا فائدے ہیں جو ہم نہیں جانتے

 

ناف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک خاص تحفہ ہے۔ سائنس کے مطابق سب سے پہلے اللّٰه کی تخلیق انسان میں ناف بنتی ہے۔ جو پھر ایک کارڈ کے ذریعے ماں سے جڑ جاتی ہے۔ اور اس ہی خاص تحفہ سےجو بظاہر ایک چھوٹی سی چیز ہے مکمل انسان بن جاتا ہے۔سبحان اللّٰه۔ناف کا سوراخ ایک حیران کن چیز ہے۔سائنس کے مطابق ایک انسان کے م.رنے کے بعد تین گھنٹے تک ناف کا یہ حصہ گرم رہتا ہے۔

اسکی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ یہاں سے بچے کو ماں کے ذریعے خوراک ملتی ہے۔ بچہ پوری طرح سے دوسو ستر دنوں میں فام ہوجاتا ہے یعنی نوماہ میں۔یہی وجہ ہے کہ ہماری تمام رگیں اسی مقام سے جڑی ہوتی ہیں۔اسکی اپنی خود کی ایک زندگی رگیں موجود ہوتی ہیں۔ ہمارے جسم میں موجود رگیں اگر پھیلائی جائیں تو زمین کے گرد دو بار گھمائی جاسکتی ہیں۔یہ درج ذیل بیماریوں کے علاج کے لئیے استعمال کی جاسکتی ہے۔مثلاً آنکھ اگر سوکھ جائے صحیح سے نظر نہ آتا ہو، پتہ صحیح کام نہ کررہا ہو، پاؤں یا ہونٹ پھٹ جاتے ہوں، چہرے کو چمکدار بنانے کے لئیے، بال چمکانے کے لئیے، گھنٹوں کے درد کے لئیے، سستی، جوڑوں کے درد اور سکن کا سوکھ جانا وغيره ۔اب اسکا طریقہ علاج بھی ملاحظہ فرمالیجئےآنکھوں کے سوج جانے یا صحیح نظر نہ آنے کی صورت

میں روز رات کو سونے سے پہلے 3 قطرے خالص دیسی گھی یا ناریل کے تیل کے ناف کے سوراخ میں ٹپکائیں اور تقریباً ڈیڑھ انچ سوراخ کے ارد گرد لگائیں۔ گھٹنوں کی تکلیف دور کرنے کیلئے ارنڈی کے تیل کے 3 قطرے سوراخ میں ٹپکائیں اور اردگرد لگائیں۔ کپکپی اور سستی دور کرنے کیلئے اور اسکے ساتھ ساتھ جوڑوں کے درد میں افاقے کیلئے، جلد کے سوکھ جانے کو دور کرنے کیلئے سرسوں کے تیل کے 3 قطرے ناف میں استعمال کریں۔اب اکثر لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال آرہا ہوگا کہ ناف کے سوراخ میں تیل کیوں ڈالا جائے۔ ناف کے سوراخ میں اللّٰه نے یہ خاصیت رکھی ہے کہ جو رگیں جسم میں اگر کہیں سوکھ گئیں ہیں ۔تو ناف کے ذریعے ان تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ جس سے وہ دوبارہ کھل جاتی ہیں۔بچے کے پیٹ میں اگر درد ہو تو ہنگ اور تیل مکس کرکے

اسکی ناف کے گرد لگائیں چند منٹوں میں اللّٰه کے کرم سے آرام آجائے گا۔اسکے ساتھ ساتھ تناؤ کی کمی کیلئے تیل ناف میں استعمال کیا جاتا ہے۔ کان میں سائیں سائیں کی آوازیں آتی ہوں تو سرسوں کے تیل پچاس گرام میں تخم ہرمل دو عدد پیس کر ناف میں پندرہ دن لگائیں تو سائیں سائیں کی آواز آنا ختم ہو جاتی ہے۔جبکہ قوت سماعت کی کمی دور کرنے کیلئے سرسوں کے پچاس گرام تیل میں بیس گرام دارچینی پسی ہوئیملا کر جلا کر تیل ناف میں لگانے سے قوت سماعت میں بہتری آتی ہے۔ پچاس گرام سرسوں کے تیل میں بیس گرام کلونجی کا تیل ہلکا گرم کر کے ٹھنڈا کرکے لگانے سے دو ماہ میں پیٹ کنٹرول ہوجاتا ہے۔ اگر نہانے کے بعد زیتون کا تیل ناف میں لگادیں تو الرجی اور زکام نہیں ہوتا اور یہ

 

Total Pageviews