میرا نام شایان ہے۔ اور میں اپنے خاندان کا اکلو تاوارث ہوں ۔ جس کی پیدائش پر گھی کے چراغ جلانے گئے ۔ کیوں کہ میری پیدائش پانچ سال بعد ہوئی تھی میرے ماں باپ میری پیدائش پر بہت ہی زیادہ خوش تھے ۔ میرے خاندان کو وارث مل گیا تھا۔ اس لیے سب مجھے بہت پیار کرتے تھے . میرے لاڈ پیار میں کوئی کمی نہ چھوڑی گئی تھی۔ میں نے جس چیز کی خواہش کی وہ مجھے مل کر رہی۔ میں پانچ سال کا تھا۔ جب ماں نے میری تنہائی دور کرنے کے لیے خالہ کی بیٹی گود لے لی۔ میں اپنی بہن سے بہت پیار کرتا تھا۔ اس کی بھی ایہاں اور اہا میں جان بستی تھی۔ کوئی دیکھ کر کہہ نہیں سکتا تھا کہ وہ اماں لہا کی سکی اولاد نہیں ۔ اس کا نام سکینہ تھا ۔ سکینہ پڑھائی میں بہت اچھی تھی۔ اسی وجہ سے میں نے ضد کر کے اسے کالج بھیجا۔ کیونکہ ہمارے خاندان میں لڑکیوں کو پڑھانے کی اجازت نہ تھی۔ میں پڑھائی میں اچھا نہیں تھا۔ اس لیے سکینہ میرے برابر میری کلاس میں آگئی۔ ہم دونوں بہن بھائی
اکٹھے کالج جاتے تھے۔ انٹر کرنے کے بعد اماں اور ابا نے اسے گھر بیٹھالیا۔
کہ اب گھر بیٹھ کر پڑھو میرے کچھ دوستوں کو سکالر شپ پر باہر جا کر پڑھنے کا موقع ملا تو میں نے اپنے باپ کو راضی کیا۔ کہ چاہے جتنی بھی نہیں ہو مجھے بھی باہر کے ملک جا کر پڑھنا ہے۔ میرے بابا جان اور ماں مجھے اتنی دور تو نہیں بھیجنا چاہتے تھے ۔ مگر پھر بھی میری ضد کے آگے ہار گئے ۔ یوں اٹھارہ سال کی عمر میں میں نے امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا تھا۔ مجھے وہاں پڑھتے ہوئے ابھی کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ ایک حادثے میں ابا کا انتقال ہو گیا۔ مجھے ابا کے آخری دیدار کا موقع نہ مل سکا، کیونکہ فلائٹ نہ مل سکی۔ میں تیسرے دن پہنچا تھا۔ سارے رشتے دار جائیداد کے بٹوارے کی بات کر رہے تھے۔ جب میری ماں نے اندر سے سب کو یہ کہہ کر چپ کروا دیا۔ کہ شایان اب اس ساری جائیداد کا مالک ہو گا۔ میں حصہ بھی اپنے بیٹے کے نام کر دوں گی ۔ ہمارے ہاں بیٹیوں کو جائیداد میں حصہ نہیں دیا جاتا تھا۔ بلکہ ان کے اونچے خاندان میں شادی کر کے بہت بھر بھر کے جویز دے دیا جاتا تھا۔ مجھے دولت سے کوئی مطلب نہیں تھا۔ دولت باپ کا نم البدل تو نہیں ہو سکتی نا میں تھوڑے دن رہ کر واپس چلا آیا تھا۔ پڑھائی میں پہلے دن نہیں لگتا تھا۔
اور بابا کے انتقال کی وجہ سے میں پڑھ ہی نہ سکا اور فیل ہو گیا اور میرا غم بہت بڑا تھا۔ میں سارا دن آوارہ گردی کرتا رہتا۔ مستقبل کے جیسی کوئی فکر ہی نہ تھی۔ میں نے وہاں کچھ سال گزار لیئے۔ جب اماں جان نے مجھے فون کر کے حکم سنایا تھا۔ کہ جلد از جلد پاکستان آنے کی تیاری کرو۔ کیونکہ بہن کی شادی طے کرنی ہے۔ اپنی بہن کی شادی کی خبر سن کر ہی میں بہت خوش ہو گیا تھا۔ فورا واپسی کی فلائٹ پکڑی اور حویلی پہنچ گیا سکینہ کا رشتہ خاندان میں ہی طے ہو گیا تھا۔ اور ماں نے اس کے لیے ایسا شاندار جیز بنایا تھا۔ کہ سب کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی تھی۔ سکینہ بھی بہت خوش لگ رہی تھی۔ مہندی کی رات میں بھاگ بھاگ کر سارے کام کر رہا تھا۔ جب سکینہ کے ساتھ بیٹھی خوبصورت لڑکی پر میری نظر پڑی وہ بہت حسین تھی۔ اتنی خوبصورت کہ ہر لڑکا اس کو دیکھے جارہا تھا۔ میری نظر بار بار اسے بٹنے کا ہم ہی نہیں لے رہی تھی۔ مجھے پہلی نظر میں وہ اچھی لگی اور محبت ہو گئی ۔ پھر باقی سارا وقت میں اسے دیکھتا ہی رہا۔ وہ میری بہن کی سہیلی تھی ۔ مہندی کے بعد جب سب لوگ گھروں کو چلے گئے۔ تو میں نے بہن سے پوچھا۔ وہ پہلے غرارے اور لال دوپٹے والی لڑکی تمہاری سکی ہے۔
بہن کے کچھ کہنے سے پہلے ہی ماں نے منہ بنا کر کہا تو بہ توبہ وہ کیوں سکینہ کی سہیلی ہو گی بھلا، تماری بہن ایسی لڑکیوں سے دوستی نہیں کرتی۔ وہ تو پڑوسن ہے ہماری . میں یہ سن کر حیران ہو گیا کہ ایسی لڑکی سے کیا مراد . اماں سے بات کی تو کہنے لگی اس کی تین شادیاں ہو چکی ہیں اور تینوں ہی شادیوں میں شادی کی رات ہی اسے طلاق ہو جاتی رہی ہے ۔ اتنی طلاقیں لے چکی ہے۔ میں نے حیرانگی سے پوچھا اسے طلاق کیوں ہوئی کہاں ؟ اماں بتانے لگی کہ وہ لڑکی شادی کی رات ہی لڑکے پر ایسی شرط رکھتی تھی کہ وہ مجبور ہو کر طلاق دے دیتا. کیونکہ وہ اس کی شرط پوری نہیں کر سکتا تھا. مجھے یہ ساری بات سن کر بہت حیرانگی ہوئی۔ کیونکہ چہرے سے وہ بالکل ایسی نہیں لگتی تھی کہ اس کے تین شادیاں ہو چکی ہیں۔ یہ سوچ بھی مجھے الجھن میں ڈال رہی تھی۔ کہ آخر وہ لڑ کی ایسی کیا خاص شرط رکھتی ہو گی جو کسی بھی مرد کے لیے اتنی ناقابل قبول ہو گی کہ وہ اسے طلاق ہی دے دیے۔ ساری رات میں اس کے بارے میں سوچتا رہا. وہ لڑکی میرے دماغ سے کل ہی نہیں رہی تھی۔
میں اس پر دل و جان سے فدا ہو چکا تھا۔ اگلے دن ہارات تھی اور وہ کل سے بھی بڑھ کر حسین اور پیاری لگ رہی تھی۔ میری تو نظریں ہی اس پر سے ہٹنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ اس نے بھی شاید یہ محسوس کر لیا تھا۔ اس لیے کچھ ہی دیر بعد ہی وہ میری نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ ویسے والے دن میں سارا وقت اس کے پیچھے یچھے گتا رہا۔ آخر کچھ دنوں بعد میں نے اس سے اپنی محبت کا اظہار کر ہی دیا۔ اور کہا کہ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں . وہ بولی میرا نام سونیا ہے۔ اور میری چار تین ہو چکی ہیں۔ میں اپنے شوہر کے سامنے ایک شرط رکھتی تھی۔ اگر وہ اس شرط کو پورا کر پائے گا۔ جب بھی مجھے ہاتھ لگا سکے گا۔ ورنہ اسے مجھے طلاق دینی ہوگی۔ مگر کوئی بھی میری شرط پوری نہ کر سکا۔ اور شادی کی رات ہی مجھے طلاق لے کر آنا پڑا۔ میں نے بے صبری سے کہا میں تم سے محبت کرتا ہوں اور تمہاری ہر شرط کو پورا کرنے کو تیار ہوں . تم بس ہاں کرو کہنے لگی ٹھیک ہے تم اپنی ماں اور بہن کو لے کر رشتہ لینے آجاؤ میں تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔ بہن کی شادی کے کچھ مہینوں بعد ہی، میں نے اپنی شادی کا بھی ذکر چھیٹر دیا۔ اماں کو جب معلوم ہوا کہ میں سونیا سے شادی کرنے کا خواہش مند ہو
تو انہوں نے خوب ہنگامہ مچایا اور خوب باتیں بھی سنائی مگر میرے سر پر تو عشق کا بھوت سوار ہو چکا تھا۔ مجبورا اماں کو مانا پڑا. اور ہماری شادی طے ہو گئی ۔ شادی سے ایک دن پہلے طرح طرح کے خیال میرے ذہن میں آرہے تھے۔ کہ وہ مجھ سے کیا مانگے گی۔ کیا شرط رکھے گی۔ شاید وہ میری جائیداد کا مطالبہ کرے۔ میں نے سوچاوہ جس چیز کا بھی مطالبہ کرے گی میں اسے دوں گا۔ آخر مجھے اس سے بہت عشق ہے ۔ شادی کا دن آپہنچا مجھ سمیت سب کی سانس سوکھے ہوئے تھی پورا محلہ سرگوشیاں کر رہا تھا۔ سونیا آج کی رات اس دولہے پر کیا شرط رکھے گی۔ اس ساری صورتحال میں صرف میری اماں کو تسلی تھی۔ کہ سونیا آج رات پانچویں طلاق لے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان کے گھر سے چلی جائے گی ۔ مگر میں نے عزم کیا تھا کہ اگر وہ میری جان بھی مانگے گی تو میں دے دوں گا۔ مگر خود سے وعدہ کیا تھا کہ کسی صورت طلاق نہیں دوں گا ۔ شادی ہوئی اور وہ میرے گھر میں میرے کمرے میں آگئی۔ میں بہت خوش تھا۔ میں اسکا گھونگھٹ اٹھانے ہی
لگا تھا کہ وہ پہلے ہی کہنے لگی پہلے میری شرط سن لو اگر پوری کرنے کا وعدہ کرو گے
تب ہی گھونگھٹ اٹھاؤں گی۔ میں نے کہا تم اپنی شرط بتاؤ میں ہر شرط پوری کرنے کو تیار ہوں کہنے لگی سوچ لو ایسی شرط شاید تم پوری نہ کر سکو میں نے کہا جو بھی شرط ہے میں پوری کروں گا اور ہر حال میں کروں گا تم بس شرط بتاؤ میرے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے جو شرط بتائی وہ سن کر میرے قدموں تلے سے زمین نکل گئی۔ مجھے یوں لگا جیسے میرے سر پر قیامت ٹوٹ گئی ہو . میں ایسا کرنے کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ اپنی بہن سکینہ کو طلاق دلواؤ گے. تب ہی میں تمہارے ساتھ رہ پاؤں کی ورنہ مجھے ابھی طلاق دو۔ میں نے اس کے پیر پکڑ لیے اور کہا یہ شرط واپس لے لو کچھ اور شرط رکھ لو۔ اتنی کڑی شرط میں پوری نہیں کر سکتا. ایک بھائی اپنی بہن کا گھر کیسے برباد کر سکتا ہے۔ وہ گھو گھٹ اٹھا کر کہنے لگی اگر میری شرط قبول نہیں تو میں اس شرط میں تھوڑی سی نرمی کر سکتی ہوں . وہ اس طرح کہ تم تھوڑا وقت لے لو سوچ سمجھ کر سمجھداری فیصلہ کر لو میں اپنی شرط بدل نہیں سکتی۔ وہ آخر ایسی شرط کیوں رکھ رہی تھی ؟ میں سمجھنے سے قاصر تھا۔ میری جان مانگ لیتی, دولت مانگ لیتی ۔ مگر وہ تو میری بہن کے گھر کی تباہی مانگ
رہی تھی۔
کہیں اس کی میری بہن سے کوئی پرانی دشمنی تو نہیں جس کا بدلہ وہ اس طرح لینا چاہتی ہو . میں نے کچھ سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا کہ مجھے اس بات کی تہہ میں جانا چاہیے کہ آخر اسے میری بہن سے مسئلہ کیا ہے ؟ میں نے کہا مجھے دو ہفتے دو مگر میری بھی ایک شرط ہے کہ دو ہفتے تک میری بہن اور بہنوئی یہاں ہمارے گھر ہی رہیں گے ۔ میری شرط سن کر وہ تھوڑا پریشان ہوئی مگر پھر کہنے لگی ٹھیک ہے ۔ مگر صرف دو ہفتے ۔ اس کے بعد تم اپنی بہن کو طلاق دلواؤ گے. میرے دل میں شک پید اہو گیا تھا کہ آخر میری بیوی کا کیا فائدہ ہوتا۔ اگر میری بہن کو طلاق ہو جاتی تو صرف یہی معلوم کرنے کے لیے میں نے دو ہفتے مانگے۔ ورنہ اس کی شرط واقعی ایسی تھی کہ میں اس سے پورا نہیں کر سکتا تھا۔ میں صوفے پر جا کر لیٹ گیا۔ اگلی صبح میرا ولیمہ تھا۔ میں نے بہن اور بہنوئی کو کہا کہ کچھ دن نہیں رہ لو پھر چلے جانا میری بہن تور کئے پر آمادہ نہیں تھی۔ مگر بہنوئی مان گیا میں دیکھ رہا تھا کہ میری بیوی مسلسل میری بہن اور بہنوئی کو گھورے جارہی ہے۔ اس کے بر عکس میری بہن اس کے ناز اٹھاتے نہیں تھک رہی تھی۔ میں بہت مجبور ہو گیا تھا۔ ایک طرف میری محبت تھی۔
تو دوسری طرف میری بہن میری بیوی آج رات بھی اپنی شرط پر قائم رہی تھی۔ میں صوفے پر جا کر سو گیا۔ اچانک آدھی رات کو میری آنکھ کھلی تو ایسا محسوس ہوا جیسے میری بیوی باہر سے آئی ہے۔ دروازہ کھلنے کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ مجھے اٹھتے دیکھ کر کہنے لگی میں پانی پینے گئی تھی۔ کوئی اور موقع ہو تا تو اس وقت اسے باہر سے آتے دیکھ کر میں اس کی وضاحت پر یقین کر لیتا مگر جب اب تو شک ہی کیا جاسکتا تھا۔ میں فورا اپنی بہن کے کمرے کی طرف بھاگا۔ کہیں اس نے غصے میں میری بہن کو کوئی نقصان نہ پہنچا دیا ہو۔ بہنوئی مجھے دروازے پر ہی ٹہلتا ہوا نظر آیا۔ تو میں حیران ہوا رات کے دو بیچ رہے تھے۔ میرے پوچھنے پر کہنے لگا نیند نہیں آرہی ہے ۔ میں واپس کمرے میں آگیا. میری بیوی جب تک سو چکی تھی۔ میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا. وہ بہت معصوم نظر آرہی تھی۔ اس کو دیکھ کر لگتا نہیں تھا کہ وہ اتنی سفاک ہو سکتی ہے۔ کہ اپنے جیسی کسی عورت کا گھر اجاڑ دے۔ ایک پل کے لیے مجھے لگا کہ کہیں کوئی اور بات تو نہیں مگر اور کیا بات ہو سکتی ہے۔ اگلے دو دن معمول کے مطابق گزرے۔ وہ کمرے میں ہی رہی تھی۔ میری بہن البتہ حیران ضرور تھی کہ میں نے اسے کیوں روکا ہوا ہے یہاں پوچھ رہی تھی مگر میں کیا بتاتا کہ میں کرنا کیا چاہ رہا ہوں . میں نے کہا ویسے ہی بس کچھ دن میرے پاس رہو بہن کے سوال کا جواب دیتے دیتے میں چونکا.
مجھے اس کے سر پر چوٹ کا نشان نظر آیا۔ میرا ذہن فورا میری بیوی کی طرف چلا گیا۔ کہیں اس نے تو اپنی نفرت میں کچھ کیا تو نہیں تھا۔ میں نے پوچھا سکینہ یہ چوٹ کیسے لگی تمہیں ؟ کسی نے ملا ہے۔ نہیں ایسا ایسا تو کچھ نہیں ہے ؟ سکینہ نے جواب دیا اور بولی رات اندھیرے میں اٹھی تھی تو سر الماری سے ٹکرا گیا۔ اور مجھے بھلا کون مارے گا؟ میں چپ ہو گیا. اسی شام میں باہر سے گھر آیا تو لون میں سونیا اور سکینہ بہت ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھی۔ ایسے جیسے کی دوستیں ہوں. میں اندر ہی اندر بہت خوش ہوا کہ چلو میری بیوی کی سکینہ سے دوستی ہو گئی ہے۔ اب وہ اپنی شرط سے باز آجائے گی مگر وہ اپنی شرط پر قائم تھی۔ کہنے لگی سکینہ کی طلاق تو ہر صورت ہو کے رہے گی۔ مجھے بہت غصہ آیا۔ میں نے غصے میں گلدان نیچے زمین پر پھینکا اور خود باہر چلا گیا۔ رات کے دس بجے میری واپسی ہوئی ۔ تو سکینہ کے کمرے کی طرف پہلے چلا گیا۔ تاکہ اس کی خیریت دریافت کر لو کمرے سے بہنوئی کے بولنے کی آواز آرہی تھی۔ وہ میری بہن پر خصہ ہو رہا تھا۔ اور چیزیں پھینک رہا تھا. مجھے سمجھ آگیا کہ ضرور میری بیوی نہیں کچھ الٹا سیدھا کیا ہو گا۔ میرے بہنوئی کو بتایا ہو گا۔ کیونکہ اس کی آج کل میری بہنوئی کے ساتھ بہت بات چیت چل رہی تھی۔ ایک ہفتہ گزر چکا تھا۔ اور ابھی تک میں کچھ بھی معلوم نہیں کر پایا تھا۔
اس کی سکینہ سے کوئی دشمنی مجھے نظر نہیں آئی تھی۔ میری ماں تو میری طلاق سے مایوس ہو کر اپنے کمرے کی ہو کر رہ گئی تھی۔ اس دن میں کام سے تھوڑا جلدی کسی کو بھی بتائے بغیر گھر آگیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ میری بیوی میرے بہنوئی کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنس رہی ہے۔ مجھے بہت غصہ آیا. کیونکہ ہمارے خاندان میں رواج نہیں تھا۔ کہ اس طرح فری ہو کر مردوں سے بات کی جائے. مجھے دیکھ کر بہنوئی تو گھبرا گیا. اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔ مگر وہ پر سکون انداز میں بیٹھی رہی ۔ تمہارا بہنوئی خود یہاں میرے پاس آیا تھا. میں نے نہیں بلایا تھا۔ اس لیے کچھ بھی کہنے سے پہلے اپنی شرط یا دور کھو چھ دن رہ گئے ہیں ۔ یا تو اپنی بہن کے طلاق کے پیپر بنواؤ ۔ اس سے پہلے میں اسے کچھ کہتا۔ سکینہ کی آواز سے پورا گھر لرز اٹھا، مجھ سے پہلے سونیا بھاگ کر اندر کئی سکینہ سیڑھیوں سے گر گئی تھی اور اس کا بہت خون بہہ گیا تھا۔ ڈاکٹر نے فوری طور پر بلڈ گروپ کا انتظام کرنے کو کہا. تو میری بیوی نے آگے بڑھ کر کہا۔ ڈاکٹر صاحب جو بلڈ گروپ میری نند کا ہے وہی میرا بھی ہے۔ آپ میرا خون لے لیں. جتنا چاہے اسے ڈاکٹر اپنے ساتھ لے گئے۔ میں تو پکا بکا ہی رہ گیا تھا۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے وہ سکینہ کی طلاق کروانے پر بند تھی۔ اور ابھی اسے اپنا خون دے رہی تھی۔ یہ سب ماجرا میری سمجھ سے باہر تھا. کہ کیا ہو رہا ہے۔ میں تو اپنی ہی بیوی کو ابھی تک سمجھ نہیں پایا تھا۔
اور اس ایک دن میں میری بیوی نے میری بہن کا سگی بہنوں سے بھی بڑھ کر خیال رکھا تھا ۔ مجھے لگا کہ اب وہ اپنی شرط سے دیکھو ہٹ گئی ہو گی۔ اس کا دل نرم ہو گیا ہو گا ۔ مگر جب گھر گئے تو اس کی پھر وہی رٹ تھی۔ سکینہ کو طلاق دلواؤ۔ میں جب وجہ پوچھتا تو کہتی خود معلوم کرو۔ اور کبھی کہتی کوئی وجہ نہیں ہے۔ وہ عجیب تھی مجھے اس کی باتوں کی اور حرکتوں کی سمجھ نہیں آتی تھی۔ ایک طرف بہن کا اتنا خیال اور دوسری طرف اس کے گھر توڑنے کی بات جب کہ میری بہن اپنی شادی شدہ زندگی میں بہت خوش تھی۔ بس اس کی میرے بہنوئی کے ساتھ بڑھتی ملاقاتیں مجھے اچھی نہیں لگتی تھی۔ یوں ہی تیرہ دن گزر گئے۔ روز میری بیوی اپنی شرط مجھے یاد دلا دیتی ۔ اور میں سن کر چپ رہتا۔ آخری رات آگئی۔ میں ابھی تک فیصلہ نہیں کر پایا تھا کہ مجھے کیا کرتا ہے۔ یہ بچی تھا کہ کسی بھی صورت سکینہ کا گھر برباد نہیں کر سکتا تھا۔ مگر سونیا کو بھی کھونے کا ڈر تھا۔ ماہی نے کئی بار مجھ سے میری پریشانی کی وجہ پوچھی تھی ۔ مگر میں ٹال دیتا تھا۔ آخر جب کوئی فیصلہ نہ ہو پایا۔ تو میں صوفے سے اٹھ گیا۔ تاکہ سارا کچھ اپنی ماں کو بتا کر مشورہ لے سکوں. جیسے ہی میں صوفے سے اٹھ کر کھڑا ہوا تو دنگ رہ گیا۔ کیونکہ میری بیوی تو کمرے میں تھی ہی نہیں کہیں وہ رات کے اس پہر بہنوئی سے ملنے تو نہیں چلی گئی تھی۔ اس خیال کے آتے ہی میں کمرے سے باہر بھاگا۔ بہن کے کمرے سے شور کی آواز آئی. تو میں نے بغیر سوچے سمجھے دروازہ کھول دیا
اندر کا منظر دیکھ کر میرے قدموں تلے سے زمین نکل گئی۔ میرا بہنوئی ہاتھ میں پیٹ پکڑے سکینہ کو بری طرح سے پیٹ رہا تھا۔ اور سونیا بھی وہیں موجود تھی ۔ اور شاید اس کے کہنے پر یہ سب ہو رہا تھا۔ میں نے آگے بڑھ کر بہنوئی کو دھکا دے کر پیچھے کیا۔ اپنی بہن کو گلے سے لگایا جو رو رہی تھی۔ اتنی دیر میں اماں بھی آگئی۔ اماں نے پوچھا یہاں کیا ہو رہا ہے؟ میں نے کہا ایں آپ کو بہت شوق تھا نا میری طلاق کا آپ خوش ہو جائیں۔ کل آپ کے دونوں بچوں کی طلاق ہو جانے گی سکینہ کہنے لگی یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں بھائی؟ میں نے کہا تمہارا شوہر تم پر سونیا کی وجہ سے ہاتھ اٹھا رہا تھا۔ میری بیوی اور تمہارا شوہر آپس میں ملے ہوئے ہیں ۔ یہ دونوں ان کو میں کتنے دنوں سے دیکھ رہا تھا گپ شپ کرتے ہیں۔ اور راتوں کو ملتے ہیں ۔ مگر میں نظر انداز کر چار ہا مگر آج نہیں یہ تمہارے شوہر کو پھنسار ہی ہے۔ اور اس سے پہلے میں بات مکمل کر پاتا۔ سکینہ کہنے لگی سونیا نے شادی کی رات جو بھی کیا آپ سے وہ سب میرے لیے کہا تھا۔ میں نے اسے بہت منع کیا تھا مگر وہ نہیں مانی میری اور سکینہ کی دوستی بہت پرانی تھی مگر اماں کے ڈر کی وجہ سے میں نے کبھی انہیں بتایا نہیں سونیا کی شادی ہوئی تو پتہ چلا کہ لڑکے نے اسے بدلہ لینے کے لیے شادی کی ہے ۔ اس نے پہلی ہی رات سونیا کو طلاق دے دی۔ کیونکہ ایک وقت سونیا نے اس لڑکے کو شادی سے انکار کیا تھا۔ اس لڑکے نے بھر پور کوشش کی کہ سونیا کی زندگی ہمیشہ کے لیے برباد ہو جائے .
اس لیے دوسری تیسری اور چوتھی شادی پر اسے دو لے کو شادی کی رات ہی جان بوجھ کر بھڑکا دیا، اور بیماری طلاقیں لے کر گھر بیٹھ گئی۔ لوگوں کی نظروں میں اپنی بیٹی کا تاثر اچھا بنانے کے لیے اس کی امی نے مشہور کر دیا کہ میری بیٹی شادی کی رات شرط رکھتی ہے جو دولہا پوری نہیں کر پاتے۔ پھر میری شادی پر تم نے سونیا کو پسند کیا میں نے اسے بتایا تو اس نے منع کر دیا کیونکہ وہ کسی اور تجربے کی بھینٹ نہیں چڑھنا چاہتی تھی میری شادی ہو گئی۔ مگر اماں نے بہت غلط انسان سے میری شادی کروادی تھی۔ اس شخص نے میرا جینا مشکل کر دیا تھا۔ بات بات پر طعنے کہ تم جائیداد میں حصہ نہیں لائی۔ مجھے پر ہاتھ اٹھاتا تھا۔ میں یہ بات کسی کو بھی نہیں بتا سکتی تھی ایک دن سونیا گھر آئی تو اس نے مجھے مار کھاتے دیکھ لیا۔ اس نے کہا طلاق لے لو مگر میں اپنی روایتوں، رسم و رواج کو جانتی تھی کہ بیٹی کا اب سرال سے جنازہ ہی اٹھے ۔ اس لیے میں نے اپنی قسمت کو قبول کر لیا۔ مگر سونیا نے کہا میں تمہیں اس وحشی انسان سے طلاق دلوا کر رہوں گی۔ اس نے شادی کی رات تم سے میری طلاق والی شرط اس لیے رکھی تھی ۔ تاکہ تم اپنی بہن کے حوالے سے تھوڑا محتاط ہو جاؤ.
اس نے جان بوجھ کر ایسے حالات پیدا کیے تاکہ میں اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رک جاؤں ۔ تاکہ تم اپنی آنکھوں سے اپنے بہنوئی کی حرکتیں دیکھ سکو، میرا شوہر عیاش فطرت کا ہے۔ خوبصورت لڑکیوں کے آگے پیچھے پھیرنا اس کا پسندیدہ کام ہے۔ سونیا کو دیکھ کر بھی اس کی رال ٹپک گئی۔ اس دن میں نے اس سے کہا کہ میری بھائی کو تو چھوڑ دو مگر اس نے غصے میں سیڑھیوں سے نیچے مجھے دھکا دے دیا۔ ابھی بھی یہ مجھے کیوں مار رہا ہے ؟ میں سمجھ نہیں پارہی تھی کہ سونیا مجھے بچانے آگئی۔ اور اسے روکنے کی کوشش کر رہی تھی جب ہی تم آگئے۔ سونیا معصوم ہے اس نے جو کیا میرے لیے کیا۔ تاکہ تم دیکھ سکو کہ میری زندگی کیسے جاری ہے۔ میں یہ کہانی سن کر شرمندہ سا نظریں جھکا کر رہ گیا۔ بھائیوں کو اتنا بھی لاپر واہ نہیں ہونا چاہیے کہ بہنوں کے ساتھ جو مرضی ہو تا ہے۔ انہیں پو بھی نہ چلے۔ سونیا کہنے لگی میں بس سکینہ کی وجہ سے اسے ہنس کر بات کر لیتی تھی۔ اگر ایسا نہ کرتی تو وہ میری وجہ سے سکینہ کو طعنے دیتا اور مارتا. میں نے اپنے ذاتی فائدے کے لیے وہ شرط نہیں رکھی تھی۔ صرف یہ چاہتی تھی کہ تم اس بہانے اپنی بہن کے حال پر ہی تھوڑا دھیان دیتے۔ میرا بہنوئی غصے سے بولا سارا قصور تمہارا ہے ساری دولت اور جائیداد اپنے نام لگوا کر اپنی بہن کو خالی ہاتھ بھیج دیا۔ ایسی صورت کی کون عزت کرے کا ہم نے اپنے بہنوئی کو اس وقت اسے دھکے دے کر نکال دیا۔
No comments:
Post a Comment