January 25, 2023
Our Media Content & Cruelty on Womens : مارا میڈیا کانٹینٹ اور عورت پر ظلم
January 22, 2023
HAMOODUR REHMAN COMMISSION REPORT , حمود الرحمن کمیشن رپورٹ
باتيں کتابوں کی ۔Copy From Facebook
January 13, 2023
Muscular Dystrophy (A Silent Killer) مسکولر ڈسٹرافی (ایک خاموش قاتل)
مسکولر ڈسٹرافی (ایک خاموش قاتل)
اے۔ ڈوشین مسکولر ڈسٹرافی
بی۔ بیکر مسکولر ڈسٹرافی
سی۔ لمب گرڈل مسکولر ڈسٹرافی
ڈی۔ فیشیو سکیپولو ہیومرل ڈسٹرافی
ایف۔ اکولو فرینجئیل مسکولر ڈسٹرافی
January 12, 2023
میں نے بیوی کے کہنے پر اپنی بہن کو طلاق دلوا دی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میرا نام شایان ہے۔ اور میں اپنے خاندان کا اکلو تاوارث ہوں ۔ جس کی پیدائش پر گھی کے چراغ جلانے گئے ۔ کیوں کہ میری پیدائش پانچ سال بعد ہوئی تھی میرے ماں باپ میری پیدائش پر بہت ہی زیادہ خوش تھے ۔ میرے خاندان کو وارث مل گیا تھا۔ اس لیے سب مجھے بہت پیار کرتے تھے . میرے لاڈ پیار میں کوئی کمی نہ چھوڑی گئی تھی۔ میں نے جس چیز کی خواہش کی وہ مجھے مل کر رہی۔ میں پانچ سال کا تھا۔ جب ماں نے میری تنہائی دور کرنے کے لیے خالہ کی بیٹی گود لے لی۔ میں اپنی بہن سے بہت پیار کرتا تھا۔ اس کی بھی ایہاں اور اہا میں جان بستی تھی۔ کوئی دیکھ کر کہہ نہیں سکتا تھا کہ وہ اماں لہا کی سکی اولاد نہیں ۔ اس کا نام سکینہ تھا ۔ سکینہ پڑھائی میں بہت اچھی تھی۔ اسی وجہ سے میں نے ضد کر کے اسے کالج بھیجا۔ کیونکہ ہمارے خاندان میں لڑکیوں کو پڑھانے کی اجازت نہ تھی۔ میں پڑھائی میں اچھا نہیں تھا۔ اس لیے سکینہ میرے برابر میری کلاس میں آگئی۔ ہم دونوں بہن بھائی
اکٹھے کالج جاتے تھے۔ انٹر کرنے کے بعد اماں اور ابا نے اسے گھر بیٹھالیا۔
کہ اب گھر بیٹھ کر پڑھو میرے کچھ دوستوں کو سکالر شپ پر باہر جا کر پڑھنے کا موقع ملا تو میں نے اپنے باپ کو راضی کیا۔ کہ چاہے جتنی بھی نہیں ہو مجھے بھی باہر کے ملک جا کر پڑھنا ہے۔ میرے بابا جان اور ماں مجھے اتنی دور تو نہیں بھیجنا چاہتے تھے ۔ مگر پھر بھی میری ضد کے آگے ہار گئے ۔ یوں اٹھارہ سال کی عمر میں میں نے امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا تھا۔ مجھے وہاں پڑھتے ہوئے ابھی کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ ایک حادثے میں ابا کا انتقال ہو گیا۔ مجھے ابا کے آخری دیدار کا موقع نہ مل سکا، کیونکہ فلائٹ نہ مل سکی۔ میں تیسرے دن پہنچا تھا۔ سارے رشتے دار جائیداد کے بٹوارے کی بات کر رہے تھے۔ جب میری ماں نے اندر سے سب کو یہ کہہ کر چپ کروا دیا۔ کہ شایان اب اس ساری جائیداد کا مالک ہو گا۔ میں حصہ بھی اپنے بیٹے کے نام کر دوں گی ۔ ہمارے ہاں بیٹیوں کو جائیداد میں حصہ نہیں دیا جاتا تھا۔ بلکہ ان کے اونچے خاندان میں شادی کر کے بہت بھر بھر کے جویز دے دیا جاتا تھا۔ مجھے دولت سے کوئی مطلب نہیں تھا۔ دولت باپ کا نم البدل تو نہیں ہو سکتی نا میں تھوڑے دن رہ کر واپس چلا آیا تھا۔ پڑھائی میں پہلے دن نہیں لگتا تھا۔
اور بابا کے انتقال کی وجہ سے میں پڑھ ہی نہ سکا اور فیل ہو گیا اور میرا غم بہت بڑا تھا۔ میں سارا دن آوارہ گردی کرتا رہتا۔ مستقبل کے جیسی کوئی فکر ہی نہ تھی۔ میں نے وہاں کچھ سال گزار لیئے۔ جب اماں جان نے مجھے فون کر کے حکم سنایا تھا۔ کہ جلد از جلد پاکستان آنے کی تیاری کرو۔ کیونکہ بہن کی شادی طے کرنی ہے۔ اپنی بہن کی شادی کی خبر سن کر ہی میں بہت خوش ہو گیا تھا۔ فورا واپسی کی فلائٹ پکڑی اور حویلی پہنچ گیا سکینہ کا رشتہ خاندان میں ہی طے ہو گیا تھا۔ اور ماں نے اس کے لیے ایسا شاندار جیز بنایا تھا۔ کہ سب کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی تھی۔ سکینہ بھی بہت خوش لگ رہی تھی۔ مہندی کی رات میں بھاگ بھاگ کر سارے کام کر رہا تھا۔ جب سکینہ کے ساتھ بیٹھی خوبصورت لڑکی پر میری نظر پڑی وہ بہت حسین تھی۔ اتنی خوبصورت کہ ہر لڑکا اس کو دیکھے جارہا تھا۔ میری نظر بار بار اسے بٹنے کا ہم ہی نہیں لے رہی تھی۔ مجھے پہلی نظر میں وہ اچھی لگی اور محبت ہو گئی ۔ پھر باقی سارا وقت میں اسے دیکھتا ہی رہا۔ وہ میری بہن کی سہیلی تھی ۔ مہندی کے بعد جب سب لوگ گھروں کو چلے گئے۔ تو میں نے بہن سے پوچھا۔ وہ پہلے غرارے اور لال دوپٹے والی لڑکی تمہاری سکی ہے۔
بہن کے کچھ کہنے سے پہلے ہی ماں نے منہ بنا کر کہا تو بہ توبہ وہ کیوں سکینہ کی سہیلی ہو گی بھلا، تماری بہن ایسی لڑکیوں سے دوستی نہیں کرتی۔ وہ تو پڑوسن ہے ہماری . میں یہ سن کر حیران ہو گیا کہ ایسی لڑکی سے کیا مراد . اماں سے بات کی تو کہنے لگی اس کی تین شادیاں ہو چکی ہیں اور تینوں ہی شادیوں میں شادی کی رات ہی اسے طلاق ہو جاتی رہی ہے ۔ اتنی طلاقیں لے چکی ہے۔ میں نے حیرانگی سے پوچھا اسے طلاق کیوں ہوئی کہاں ؟ اماں بتانے لگی کہ وہ لڑکی شادی کی رات ہی لڑکے پر ایسی شرط رکھتی تھی کہ وہ مجبور ہو کر طلاق دے دیتا. کیونکہ وہ اس کی شرط پوری نہیں کر سکتا تھا. مجھے یہ ساری بات سن کر بہت حیرانگی ہوئی۔ کیونکہ چہرے سے وہ بالکل ایسی نہیں لگتی تھی کہ اس کے تین شادیاں ہو چکی ہیں۔ یہ سوچ بھی مجھے الجھن میں ڈال رہی تھی۔ کہ آخر وہ لڑ کی ایسی کیا خاص شرط رکھتی ہو گی جو کسی بھی مرد کے لیے اتنی ناقابل قبول ہو گی کہ وہ اسے طلاق ہی دے دیے۔ ساری رات میں اس کے بارے میں سوچتا رہا. وہ لڑکی میرے دماغ سے کل ہی نہیں رہی تھی۔
میں اس پر دل و جان سے فدا ہو چکا تھا۔ اگلے دن ہارات تھی اور وہ کل سے بھی بڑھ کر حسین اور پیاری لگ رہی تھی۔ میری تو نظریں ہی اس پر سے ہٹنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ اس نے بھی شاید یہ محسوس کر لیا تھا۔ اس لیے کچھ ہی دیر بعد ہی وہ میری نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ ویسے والے دن میں سارا وقت اس کے پیچھے یچھے گتا رہا۔ آخر کچھ دنوں بعد میں نے اس سے اپنی محبت کا اظہار کر ہی دیا۔ اور کہا کہ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں . وہ بولی میرا نام سونیا ہے۔ اور میری چار تین ہو چکی ہیں۔ میں اپنے شوہر کے سامنے ایک شرط رکھتی تھی۔ اگر وہ اس شرط کو پورا کر پائے گا۔ جب بھی مجھے ہاتھ لگا سکے گا۔ ورنہ اسے مجھے طلاق دینی ہوگی۔ مگر کوئی بھی میری شرط پوری نہ کر سکا۔ اور شادی کی رات ہی مجھے طلاق لے کر آنا پڑا۔ میں نے بے صبری سے کہا میں تم سے محبت کرتا ہوں اور تمہاری ہر شرط کو پورا کرنے کو تیار ہوں . تم بس ہاں کرو کہنے لگی ٹھیک ہے تم اپنی ماں اور بہن کو لے کر رشتہ لینے آجاؤ میں تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔ بہن کی شادی کے کچھ مہینوں بعد ہی، میں نے اپنی شادی کا بھی ذکر چھیٹر دیا۔ اماں کو جب معلوم ہوا کہ میں سونیا سے شادی کرنے کا خواہش مند ہو
تو انہوں نے خوب ہنگامہ مچایا اور خوب باتیں بھی سنائی مگر میرے سر پر تو عشق کا بھوت سوار ہو چکا تھا۔ مجبورا اماں کو مانا پڑا. اور ہماری شادی طے ہو گئی ۔ شادی سے ایک دن پہلے طرح طرح کے خیال میرے ذہن میں آرہے تھے۔ کہ وہ مجھ سے کیا مانگے گی۔ کیا شرط رکھے گی۔ شاید وہ میری جائیداد کا مطالبہ کرے۔ میں نے سوچاوہ جس چیز کا بھی مطالبہ کرے گی میں اسے دوں گا۔ آخر مجھے اس سے بہت عشق ہے ۔ شادی کا دن آپہنچا مجھ سمیت سب کی سانس سوکھے ہوئے تھی پورا محلہ سرگوشیاں کر رہا تھا۔ سونیا آج کی رات اس دولہے پر کیا شرط رکھے گی۔ اس ساری صورتحال میں صرف میری اماں کو تسلی تھی۔ کہ سونیا آج رات پانچویں طلاق لے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان کے گھر سے چلی جائے گی ۔ مگر میں نے عزم کیا تھا کہ اگر وہ میری جان بھی مانگے گی تو میں دے دوں گا۔ مگر خود سے وعدہ کیا تھا کہ کسی صورت طلاق نہیں دوں گا ۔ شادی ہوئی اور وہ میرے گھر میں میرے کمرے میں آگئی۔ میں بہت خوش تھا۔ میں اسکا گھونگھٹ اٹھانے ہی
لگا تھا کہ وہ پہلے ہی کہنے لگی پہلے میری شرط سن لو اگر پوری کرنے کا وعدہ کرو گے
تب ہی گھونگھٹ اٹھاؤں گی۔ میں نے کہا تم اپنی شرط بتاؤ میں ہر شرط پوری کرنے کو تیار ہوں کہنے لگی سوچ لو ایسی شرط شاید تم پوری نہ کر سکو میں نے کہا جو بھی شرط ہے میں پوری کروں گا اور ہر حال میں کروں گا تم بس شرط بتاؤ میرے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے جو شرط بتائی وہ سن کر میرے قدموں تلے سے زمین نکل گئی۔ مجھے یوں لگا جیسے میرے سر پر قیامت ٹوٹ گئی ہو . میں ایسا کرنے کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ اپنی بہن سکینہ کو طلاق دلواؤ گے. تب ہی میں تمہارے ساتھ رہ پاؤں کی ورنہ مجھے ابھی طلاق دو۔ میں نے اس کے پیر پکڑ لیے اور کہا یہ شرط واپس لے لو کچھ اور شرط رکھ لو۔ اتنی کڑی شرط میں پوری نہیں کر سکتا. ایک بھائی اپنی بہن کا گھر کیسے برباد کر سکتا ہے۔ وہ گھو گھٹ اٹھا کر کہنے لگی اگر میری شرط قبول نہیں تو میں اس شرط میں تھوڑی سی نرمی کر سکتی ہوں . وہ اس طرح کہ تم تھوڑا وقت لے لو سوچ سمجھ کر سمجھداری فیصلہ کر لو میں اپنی شرط بدل نہیں سکتی۔ وہ آخر ایسی شرط کیوں رکھ رہی تھی ؟ میں سمجھنے سے قاصر تھا۔ میری جان مانگ لیتی, دولت مانگ لیتی ۔ مگر وہ تو میری بہن کے گھر کی تباہی مانگ
رہی تھی۔
کہیں اس کی میری بہن سے کوئی پرانی دشمنی تو نہیں جس کا بدلہ وہ اس طرح لینا چاہتی ہو . میں نے کچھ سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا کہ مجھے اس بات کی تہہ میں جانا چاہیے کہ آخر اسے میری بہن سے مسئلہ کیا ہے ؟ میں نے کہا مجھے دو ہفتے دو مگر میری بھی ایک شرط ہے کہ دو ہفتے تک میری بہن اور بہنوئی یہاں ہمارے گھر ہی رہیں گے ۔ میری شرط سن کر وہ تھوڑا پریشان ہوئی مگر پھر کہنے لگی ٹھیک ہے ۔ مگر صرف دو ہفتے ۔ اس کے بعد تم اپنی بہن کو طلاق دلواؤ گے. میرے دل میں شک پید اہو گیا تھا کہ آخر میری بیوی کا کیا فائدہ ہوتا۔ اگر میری بہن کو طلاق ہو جاتی تو صرف یہی معلوم کرنے کے لیے میں نے دو ہفتے مانگے۔ ورنہ اس کی شرط واقعی ایسی تھی کہ میں اس سے پورا نہیں کر سکتا تھا۔ میں صوفے پر جا کر لیٹ گیا۔ اگلی صبح میرا ولیمہ تھا۔ میں نے بہن اور بہنوئی کو کہا کہ کچھ دن نہیں رہ لو پھر چلے جانا میری بہن تور کئے پر آمادہ نہیں تھی۔ مگر بہنوئی مان گیا میں دیکھ رہا تھا کہ میری بیوی مسلسل میری بہن اور بہنوئی کو گھورے جارہی ہے۔ اس کے بر عکس میری بہن اس کے ناز اٹھاتے نہیں تھک رہی تھی۔ میں بہت مجبور ہو گیا تھا۔ ایک طرف میری محبت تھی۔
تو دوسری طرف میری بہن میری بیوی آج رات بھی اپنی شرط پر قائم رہی تھی۔ میں صوفے پر جا کر سو گیا۔ اچانک آدھی رات کو میری آنکھ کھلی تو ایسا محسوس ہوا جیسے میری بیوی باہر سے آئی ہے۔ دروازہ کھلنے کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ مجھے اٹھتے دیکھ کر کہنے لگی میں پانی پینے گئی تھی۔ کوئی اور موقع ہو تا تو اس وقت اسے باہر سے آتے دیکھ کر میں اس کی وضاحت پر یقین کر لیتا مگر جب اب تو شک ہی کیا جاسکتا تھا۔ میں فورا اپنی بہن کے کمرے کی طرف بھاگا۔ کہیں اس نے غصے میں میری بہن کو کوئی نقصان نہ پہنچا دیا ہو۔ بہنوئی مجھے دروازے پر ہی ٹہلتا ہوا نظر آیا۔ تو میں حیران ہوا رات کے دو بیچ رہے تھے۔ میرے پوچھنے پر کہنے لگا نیند نہیں آرہی ہے ۔ میں واپس کمرے میں آگیا. میری بیوی جب تک سو چکی تھی۔ میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا. وہ بہت معصوم نظر آرہی تھی۔ اس کو دیکھ کر لگتا نہیں تھا کہ وہ اتنی سفاک ہو سکتی ہے۔ کہ اپنے جیسی کسی عورت کا گھر اجاڑ دے۔ ایک پل کے لیے مجھے لگا کہ کہیں کوئی اور بات تو نہیں مگر اور کیا بات ہو سکتی ہے۔ اگلے دو دن معمول کے مطابق گزرے۔ وہ کمرے میں ہی رہی تھی۔ میری بہن البتہ حیران ضرور تھی کہ میں نے اسے کیوں روکا ہوا ہے یہاں پوچھ رہی تھی مگر میں کیا بتاتا کہ میں کرنا کیا چاہ رہا ہوں . میں نے کہا ویسے ہی بس کچھ دن میرے پاس رہو بہن کے سوال کا جواب دیتے دیتے میں چونکا.
مجھے اس کے سر پر چوٹ کا نشان نظر آیا۔ میرا ذہن فورا میری بیوی کی طرف چلا گیا۔ کہیں اس نے تو اپنی نفرت میں کچھ کیا تو نہیں تھا۔ میں نے پوچھا سکینہ یہ چوٹ کیسے لگی تمہیں ؟ کسی نے ملا ہے۔ نہیں ایسا ایسا تو کچھ نہیں ہے ؟ سکینہ نے جواب دیا اور بولی رات اندھیرے میں اٹھی تھی تو سر الماری سے ٹکرا گیا۔ اور مجھے بھلا کون مارے گا؟ میں چپ ہو گیا. اسی شام میں باہر سے گھر آیا تو لون میں سونیا اور سکینہ بہت ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھی۔ ایسے جیسے کی دوستیں ہوں. میں اندر ہی اندر بہت خوش ہوا کہ چلو میری بیوی کی سکینہ سے دوستی ہو گئی ہے۔ اب وہ اپنی شرط سے باز آجائے گی مگر وہ اپنی شرط پر قائم تھی۔ کہنے لگی سکینہ کی طلاق تو ہر صورت ہو کے رہے گی۔ مجھے بہت غصہ آیا۔ میں نے غصے میں گلدان نیچے زمین پر پھینکا اور خود باہر چلا گیا۔ رات کے دس بجے میری واپسی ہوئی ۔ تو سکینہ کے کمرے کی طرف پہلے چلا گیا۔ تاکہ اس کی خیریت دریافت کر لو کمرے سے بہنوئی کے بولنے کی آواز آرہی تھی۔ وہ میری بہن پر خصہ ہو رہا تھا۔ اور چیزیں پھینک رہا تھا. مجھے سمجھ آگیا کہ ضرور میری بیوی نہیں کچھ الٹا سیدھا کیا ہو گا۔ میرے بہنوئی کو بتایا ہو گا۔ کیونکہ اس کی آج کل میری بہنوئی کے ساتھ بہت بات چیت چل رہی تھی۔ ایک ہفتہ گزر چکا تھا۔ اور ابھی تک میں کچھ بھی معلوم نہیں کر پایا تھا۔
اس کی سکینہ سے کوئی دشمنی مجھے نظر نہیں آئی تھی۔ میری ماں تو میری طلاق سے مایوس ہو کر اپنے کمرے کی ہو کر رہ گئی تھی۔ اس دن میں کام سے تھوڑا جلدی کسی کو بھی بتائے بغیر گھر آگیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ میری بیوی میرے بہنوئی کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنس رہی ہے۔ مجھے بہت غصہ آیا. کیونکہ ہمارے خاندان میں رواج نہیں تھا۔ کہ اس طرح فری ہو کر مردوں سے بات کی جائے. مجھے دیکھ کر بہنوئی تو گھبرا گیا. اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔ مگر وہ پر سکون انداز میں بیٹھی رہی ۔ تمہارا بہنوئی خود یہاں میرے پاس آیا تھا. میں نے نہیں بلایا تھا۔ اس لیے کچھ بھی کہنے سے پہلے اپنی شرط یا دور کھو چھ دن رہ گئے ہیں ۔ یا تو اپنی بہن کے طلاق کے پیپر بنواؤ ۔ اس سے پہلے میں اسے کچھ کہتا۔ سکینہ کی آواز سے پورا گھر لرز اٹھا، مجھ سے پہلے سونیا بھاگ کر اندر کئی سکینہ سیڑھیوں سے گر گئی تھی اور اس کا بہت خون بہہ گیا تھا۔ ڈاکٹر نے فوری طور پر بلڈ گروپ کا انتظام کرنے کو کہا. تو میری بیوی نے آگے بڑھ کر کہا۔ ڈاکٹر صاحب جو بلڈ گروپ میری نند کا ہے وہی میرا بھی ہے۔ آپ میرا خون لے لیں. جتنا چاہے اسے ڈاکٹر اپنے ساتھ لے گئے۔ میں تو پکا بکا ہی رہ گیا تھا۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے وہ سکینہ کی طلاق کروانے پر بند تھی۔ اور ابھی اسے اپنا خون دے رہی تھی۔ یہ سب ماجرا میری سمجھ سے باہر تھا. کہ کیا ہو رہا ہے۔ میں تو اپنی ہی بیوی کو ابھی تک سمجھ نہیں پایا تھا۔
اور اس ایک دن میں میری بیوی نے میری بہن کا سگی بہنوں سے بھی بڑھ کر خیال رکھا تھا ۔ مجھے لگا کہ اب وہ اپنی شرط سے دیکھو ہٹ گئی ہو گی۔ اس کا دل نرم ہو گیا ہو گا ۔ مگر جب گھر گئے تو اس کی پھر وہی رٹ تھی۔ سکینہ کو طلاق دلواؤ۔ میں جب وجہ پوچھتا تو کہتی خود معلوم کرو۔ اور کبھی کہتی کوئی وجہ نہیں ہے۔ وہ عجیب تھی مجھے اس کی باتوں کی اور حرکتوں کی سمجھ نہیں آتی تھی۔ ایک طرف بہن کا اتنا خیال اور دوسری طرف اس کے گھر توڑنے کی بات جب کہ میری بہن اپنی شادی شدہ زندگی میں بہت خوش تھی۔ بس اس کی میرے بہنوئی کے ساتھ بڑھتی ملاقاتیں مجھے اچھی نہیں لگتی تھی۔ یوں ہی تیرہ دن گزر گئے۔ روز میری بیوی اپنی شرط مجھے یاد دلا دیتی ۔ اور میں سن کر چپ رہتا۔ آخری رات آگئی۔ میں ابھی تک فیصلہ نہیں کر پایا تھا کہ مجھے کیا کرتا ہے۔ یہ بچی تھا کہ کسی بھی صورت سکینہ کا گھر برباد نہیں کر سکتا تھا۔ مگر سونیا کو بھی کھونے کا ڈر تھا۔ ماہی نے کئی بار مجھ سے میری پریشانی کی وجہ پوچھی تھی ۔ مگر میں ٹال دیتا تھا۔ آخر جب کوئی فیصلہ نہ ہو پایا۔ تو میں صوفے سے اٹھ گیا۔ تاکہ سارا کچھ اپنی ماں کو بتا کر مشورہ لے سکوں. جیسے ہی میں صوفے سے اٹھ کر کھڑا ہوا تو دنگ رہ گیا۔ کیونکہ میری بیوی تو کمرے میں تھی ہی نہیں کہیں وہ رات کے اس پہر بہنوئی سے ملنے تو نہیں چلی گئی تھی۔ اس خیال کے آتے ہی میں کمرے سے باہر بھاگا۔ بہن کے کمرے سے شور کی آواز آئی. تو میں نے بغیر سوچے سمجھے دروازہ کھول دیا
اندر کا منظر دیکھ کر میرے قدموں تلے سے زمین نکل گئی۔ میرا بہنوئی ہاتھ میں پیٹ پکڑے سکینہ کو بری طرح سے پیٹ رہا تھا۔ اور سونیا بھی وہیں موجود تھی ۔ اور شاید اس کے کہنے پر یہ سب ہو رہا تھا۔ میں نے آگے بڑھ کر بہنوئی کو دھکا دے کر پیچھے کیا۔ اپنی بہن کو گلے سے لگایا جو رو رہی تھی۔ اتنی دیر میں اماں بھی آگئی۔ اماں نے پوچھا یہاں کیا ہو رہا ہے؟ میں نے کہا ایں آپ کو بہت شوق تھا نا میری طلاق کا آپ خوش ہو جائیں۔ کل آپ کے دونوں بچوں کی طلاق ہو جانے گی سکینہ کہنے لگی یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں بھائی؟ میں نے کہا تمہارا شوہر تم پر سونیا کی وجہ سے ہاتھ اٹھا رہا تھا۔ میری بیوی اور تمہارا شوہر آپس میں ملے ہوئے ہیں ۔ یہ دونوں ان کو میں کتنے دنوں سے دیکھ رہا تھا گپ شپ کرتے ہیں۔ اور راتوں کو ملتے ہیں ۔ مگر میں نظر انداز کر چار ہا مگر آج نہیں یہ تمہارے شوہر کو پھنسار ہی ہے۔ اور اس سے پہلے میں بات مکمل کر پاتا۔ سکینہ کہنے لگی سونیا نے شادی کی رات جو بھی کیا آپ سے وہ سب میرے لیے کہا تھا۔ میں نے اسے بہت منع کیا تھا مگر وہ نہیں مانی میری اور سکینہ کی دوستی بہت پرانی تھی مگر اماں کے ڈر کی وجہ سے میں نے کبھی انہیں بتایا نہیں سونیا کی شادی ہوئی تو پتہ چلا کہ لڑکے نے اسے بدلہ لینے کے لیے شادی کی ہے ۔ اس نے پہلی ہی رات سونیا کو طلاق دے دی۔ کیونکہ ایک وقت سونیا نے اس لڑکے کو شادی سے انکار کیا تھا۔ اس لڑکے نے بھر پور کوشش کی کہ سونیا کی زندگی ہمیشہ کے لیے برباد ہو جائے .
اس لیے دوسری تیسری اور چوتھی شادی پر اسے دو لے کو شادی کی رات ہی جان بوجھ کر بھڑکا دیا، اور بیماری طلاقیں لے کر گھر بیٹھ گئی۔ لوگوں کی نظروں میں اپنی بیٹی کا تاثر اچھا بنانے کے لیے اس کی امی نے مشہور کر دیا کہ میری بیٹی شادی کی رات شرط رکھتی ہے جو دولہا پوری نہیں کر پاتے۔ پھر میری شادی پر تم نے سونیا کو پسند کیا میں نے اسے بتایا تو اس نے منع کر دیا کیونکہ وہ کسی اور تجربے کی بھینٹ نہیں چڑھنا چاہتی تھی میری شادی ہو گئی۔ مگر اماں نے بہت غلط انسان سے میری شادی کروادی تھی۔ اس شخص نے میرا جینا مشکل کر دیا تھا۔ بات بات پر طعنے کہ تم جائیداد میں حصہ نہیں لائی۔ مجھے پر ہاتھ اٹھاتا تھا۔ میں یہ بات کسی کو بھی نہیں بتا سکتی تھی ایک دن سونیا گھر آئی تو اس نے مجھے مار کھاتے دیکھ لیا۔ اس نے کہا طلاق لے لو مگر میں اپنی روایتوں، رسم و رواج کو جانتی تھی کہ بیٹی کا اب سرال سے جنازہ ہی اٹھے ۔ اس لیے میں نے اپنی قسمت کو قبول کر لیا۔ مگر سونیا نے کہا میں تمہیں اس وحشی انسان سے طلاق دلوا کر رہوں گی۔ اس نے شادی کی رات تم سے میری طلاق والی شرط اس لیے رکھی تھی ۔ تاکہ تم اپنی بہن کے حوالے سے تھوڑا محتاط ہو جاؤ.
اس نے جان بوجھ کر ایسے حالات پیدا کیے تاکہ میں اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رک جاؤں ۔ تاکہ تم اپنی آنکھوں سے اپنے بہنوئی کی حرکتیں دیکھ سکو، میرا شوہر عیاش فطرت کا ہے۔ خوبصورت لڑکیوں کے آگے پیچھے پھیرنا اس کا پسندیدہ کام ہے۔ سونیا کو دیکھ کر بھی اس کی رال ٹپک گئی۔ اس دن میں نے اس سے کہا کہ میری بھائی کو تو چھوڑ دو مگر اس نے غصے میں سیڑھیوں سے نیچے مجھے دھکا دے دیا۔ ابھی بھی یہ مجھے کیوں مار رہا ہے ؟ میں سمجھ نہیں پارہی تھی کہ سونیا مجھے بچانے آگئی۔ اور اسے روکنے کی کوشش کر رہی تھی جب ہی تم آگئے۔ سونیا معصوم ہے اس نے جو کیا میرے لیے کیا۔ تاکہ تم دیکھ سکو کہ میری زندگی کیسے جاری ہے۔ میں یہ کہانی سن کر شرمندہ سا نظریں جھکا کر رہ گیا۔ بھائیوں کو اتنا بھی لاپر واہ نہیں ہونا چاہیے کہ بہنوں کے ساتھ جو مرضی ہو تا ہے۔ انہیں پو بھی نہ چلے۔ سونیا کہنے لگی میں بس سکینہ کی وجہ سے اسے ہنس کر بات کر لیتی تھی۔ اگر ایسا نہ کرتی تو وہ میری وجہ سے سکینہ کو طعنے دیتا اور مارتا. میں نے اپنے ذاتی فائدے کے لیے وہ شرط نہیں رکھی تھی۔ صرف یہ چاہتی تھی کہ تم اس بہانے اپنی بہن کے حال پر ہی تھوڑا دھیان دیتے۔ میرا بہنوئی غصے سے بولا سارا قصور تمہارا ہے ساری دولت اور جائیداد اپنے نام لگوا کر اپنی بہن کو خالی ہاتھ بھیج دیا۔ ایسی صورت کی کون عزت کرے کا ہم نے اپنے بہنوئی کو اس وقت اسے دھکے دے کر نکال دیا۔
January 06, 2023
میں ڈاکٹر تھی جب بھائی اور بھابھی نے الزام لگا کر گھر سے نکال دیا
وہ اب کس کے سہارے جیے۔ کسی کو اس کی خوشی یا غم سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ وہ روتے ہوئے گزارا ہوا وقت یاد کرنے لگی۔ جب اس کے والدین زندہ تھے۔ ایک ماہ پہلے ہی اُس کے ڈیڈ اس کی برتھ ڈے کی تیاریاں شروع کر دیتے۔ اس کی اپنی پورے خاندان کو ایک گرینڈ پارٹی دی۔ جو عرصے تک لوگوں کو یاد رہی۔ جوں جوں وہ بڑی ہوتی گئی۔ دادا اور باپ کا لاڈ پیار انتہا کو چھونے لگا۔ مریم کی دادی پوتے پر جان چھڑکتی۔ مریم کو زیادہ نہ پوچھتی کہ یہ تو پر ایا مال ہے دوسروں کے گھر چلی جائے گی۔ مریم کی ماں بہت اچھی رحم دل عورت تھی وہ غریبوں کی بہت ہمدرد تھی۔ ملازموں سے بھی نرمی سے پیش آتی اور گاہے بگاہے ان کی مدد امداد کرتی رہتی۔ وہ مریم کو بھی ایسی ہی تعلیم دیتی۔ جبکہ باپ دادا اس کے برعکس تھے۔ وہ تو گھر کے ملازموں سے فالتو بات کرنا بھی اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے۔
ایسے ہی وہ پوتے کو سکھا رہے تھے۔ جبکہ مریم اپنی ماں کی طرح دل میں رحم کا جزبہ اور خوف خدا رکھتی تھی۔ مریم کی ماں بیٹے پر تو نہ چلتی تھی کیونکہ وہ اپنی دادی کا بہت لاڈلا تھا۔ وہ اس کے بگڑے پن پر بھی فخر کرتی تھیں کہ امیروں کے بچے اور غریبوں کے بچوں میں یہی تو فرق ہے دادی کا کہنا تھا کہ جب اللہ تعالی نے اتنی دولت دی ہے تو اس سے زیادہ فائدہ کیوں نہ اٹھا ئیں بچے کو غریبوں کے بچوں کی طرح پیسے کے لیے ترساتے رہیں۔ وہ اپنے پاس سے اسے کھلی پاکٹ منی دے دیتی تھیں۔ مریم کی ماں اگر ٹوکتی تو اسے جھڑک کر کہتیں کہ بہو تم حالا نکہ سونے کا پیچ لے کر پیدا ہوئی ہو پر تمہارے اندر امیروں والی کوئی بات نظر نہیں آتی۔ تم بچپن سے نہ جانتی ہوتی تو مجھتی کہ شاید تم نئی نئی امیر ہوئی ہو تو تمہیں امیروں والے طور طریقے نہیں آتے۔ مگر حیرت ہوتی ہے تمہاری تربیت پر ۔ ایسے کی گئی ہے جیسے کسی غریب لڑکی کو بچت کے طریقے سکھائے جاتے
ہیں۔
مریم کی دادی کہتی، میں اتنی بوڑھی ہو کر بھی ابھی تک زیور کپڑے کی شوقین ہوں اور ایک تم ہو کہ کسی چیز کا شوق ہی نہیں رکھتی تھی۔ ارے اللہ تعالی نے جب اتنا دیا ہے تو عیش کر و مریم کی ماں جواب دیتی، ماما اپنی ضروریات سے بڑھ کر سامان جمع کریں گے تو اس کی پوچھ ہو گی اور وہ سارا فالتو سامان سر پر اٹھا کر کھڑا ہونا پڑے گا۔ مریم ماں کی نصیحت سنتی تو اس کو اپنی آخرت کی فکر لگ جاتی، مگر پھر دادا، باپ اسے انا پر وٹوکول دیتے کہ وہ مجبور ہو جاتی۔ مریم کو اسکول کالج صبح اس کے ڈیڈ خود چھوڑ کر آئے کہ میں بیٹی کا رسک نہیں لے سکتا۔ واپسی پر اس کی موم کے ساتھ بوڑھا خاندانی ڈرائیور ساتھ جاتا۔ مریم کے ڈیڈ اسے ڈرائیونگ نہیں سیکھنے دیتے تھے۔ مارکیٹ اکیلے کبھی نہ جانے دیتے۔ اس کی موم کو سختی سے ہدایت تھی کہ ساتھ جاتا ہے۔ مریم اپنی ماں کی طرح سادہ لڑکی تھی۔
وہ پارلر اپنی ماں کی طرح جانے کی شوقین نہ تھی مگر دادی ہفتے میں دو بار جاتی اور اسے بھی زبر دستی ساتھ لے کر جاتی۔ مریم کو زبر دستی دادی مجبور کرتی تو اسے بھی مجبوراً کچھ نہ کچھ کروانا پڑتا۔ مریم کی ماں بھی ایک خوشحال گھرانے سے تھی. مریم کی نانی بہت نیک اور پر ہیز گار تھی۔ مریم کی ماں کی شادی جب مریم کے باپ سے ہوئی تو ساس بہت ماڈرن خیالات کی تھی۔ اس کی ساس کے آگے نہ چلتی۔ ویسے اسے ساس تنگ نہ کرتی، مگر اس کی سادگی سے اسے مسئلہ رہتا۔ ساس اسے پینڈو کہہ کر مزاق اڑاتی۔ مریم کی ماں ایک کان سے سنتی دوسرے سے اڑا دیتی۔ اس نے اپنی ڈگر نہیں بدلی۔ مریم کی ماں نے شوہر کو صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ آپ کی ماما جو مرضی کریں مگر مجھے ان فضول فیشن کے لیے مجبور نہ کریں۔ شوہر نے کہا کہ مجھے تم سے یا تمہارے طور اطوار سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
تمہاری سادگی ہی مجھے پسند آئی تھی۔ مریم کی ماں کی بیک سٹر ونگ تھی۔ اس لیے اس پر ساس زور زبردستی نہیں کر سکتی تھی۔ دادی نے پہلے پوتے پر جان چھڑکتی تھی اور ہوتی کو اتنی لفٹ نہیں کراتی تھی۔ جوں جوں مریم بڑی ہوتی گئی وہ بہت خوبصورت کی بچی لگتی۔ ہر کوئی اسے پیار کرتا۔ وہ باتیں بھی بہت پیاری اور سمجھداری کی کرتی۔ دادی کا بھی دل پگھل گیا اور دادی نے اس سے دوستی بنالی۔ اب وہ ہر جگہ اسے ساتھ لے جائیں۔ مریم کو ماں سادگی اپنانے کا کہتی۔ اور دادی ماڈرن بنے کا۔ آخر دادی بزرگی کی اہمیت کی وجہ سے جیت جاتی۔ بہو ان کے ساس کے رتبے کی وجہ سے ہار مان لیتی۔ لیکن خفیہ خفیہ اس کے کانوں میں اچھی باتیں ڈالتی رہتی۔ مریم پڑھائی میں بہت اچھی پوزیشن لیتی۔ بھائی بھی
زہن تھا۔
مریم کے باپ کو جب بھی فرصت ملتی وہ بچوں کی پڑھائی کی جانچ پڑتال ضرور کرتا۔ اچھے سے اچھا ٹیوٹر گھر میں بچوں کو پڑھانے کے لیے لگاتا۔ پھر ان پر نظر بھی رکھتا۔ اس کی زندگی بہت مصروف تھی۔ مگر اپنی فیملی کے لیے خاص طور پر بچوں کے لیے وقت ضرور نکالتا۔ وہ کہتا کہ اتنی دولت کمانے میں مگن رہو اور اپنی فیملی کے ساتھ لائف انجوائے نہ کرو۔ ان کو اپنے سامنے بڑا ہوتے نہ دیکھو تو کیا فائدہ۔ وہ اکثر سکول میں بھی چکر لگاتے رہتے اور اپنی بیوی کو بھی سکول بر ویک بھیجتے تاکہ بچوں کی سرگرمیوں کی خبر رہے۔ وہ کہئے کہ جو والدین ٹیچر ز کے پاس زیادہ جا کر ان کے بارے میں پوچھتے ہیں تو ٹیچر ز بھی پھر ان بچوں پر خاص توجہ دیتے ہیں۔ مریم کی ماں اتنا جانتی تھی کہ سب ٹیچرز اسے پہچاننے لگی تھیں کہ یہ مریم کی ماں ہیں۔
مریم کی ماں کی گفتار بھی اچھی اور بہت گریس فل پر سنیلٹی کی مالک تھی۔ ٹیچرز اس سے ملکر خوش ہو تیں۔ مریم کی ماں کو ساس پینڈو کہتی ۔ اپنے جیسی ماڈرن ایج فیلوز بوڑھیوں سے اسے ملواتے ہوئے شرم آتی۔ کیونکہ ان کی بیویں بہت ماڈرن لباس میں ملبوس ہوتیں مگر مریم کی ماں کی سارے خاندان میں عزت تھی سب اس کی تعریف کرتے۔ مریم کی دادی کبھی حیرت سے سوچتی کہ ان کی اپنی سہیلیاں بھی مریم کی ماں کی تعریف کرتیں تھیں کہ تم بہت لکی ہو جو ایسی بہو ملی ہے۔ مریم نے ڈاکٹر بنے کی خواہش ظاہر کی۔ ماں نے بہت تعریف کی اور حوصلہ بڑھایا۔ دادی نے قیامت مچادی کہ ہمیں کس چیز کی کمی ہے کہ بچی کو ایسے شعبے سے منسلک کر دیں جس میں دن رات لوگوں کی ایک آیا کی طرح خدمت کرنی پڑے۔ ہر وقت چیر پھاڑ کرتی رہے۔ ڈاکٹر میں اور قصائی میں مجھے کوئی فرق نہیں لگتا۔
مریم کے باپ نے بھی بہت احتجاج کیا مگر اس بار مریم کی ماں سب کے آگے ڈٹ گئی کہ وہ بیٹی کی خواہش ضرور پوری کرے گی۔ وہ ایک مقدس پیشے کو اپنانا چاہتی ہے۔ دکھی انسانوں کی خدمت کرنا چاہتی ہے۔ جب مریم کے باپ نے دیکھا کہ دونوں ماں بیٹی اب پیچھے نہیں ہٹ رہی ہیں تو انہوں نے کچھ شرائط رکھ دیں کہ مانو تو تب تمہیں میڈیکل کالج میں داخلہ دلوادوں گا۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا شرائط ہیں؟ مریم کے باپ نے کہا کہ ڈاکٹری کرنے کے بعد کوئی نوکری نہیں کرے گی۔ اس کو اگر بہت شوق ہوا تو میں اس کے لیے ایک شاندار ہاسپٹل بنوادوں گا۔ جہاں یہ صرف چکر وغیرہ لگائے جایا کرے گی وہاں خود کوئی کام نہیں کرے گی۔ مریم اور اس کی ماں نے ساری شرطیں مان لیں۔ باپ مریم کو چھوڑ نے خود جاتا کبھی اسے ملک سے باہر بزنس ٹور پر جانا ہو تو ہمیشہ بیوی اور بیٹی کو ساتھ لے کر جاتا۔ اگر کبھی مریم کی شادی کی بات آتی تو مریم کا باپ تڑپ کر بیوی سے کہتا، اوپر خدا ہے نیچے میری بیٹی ، دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے تو بھی اپنی بیٹی کو اپنے سے جدا نہیں کرو گا۔
اس کی شادی نہیں کروں گا۔ یہ میرے اپنے جگر کا ٹکڑا دوسروں کو کیسے دے دوں، نہ جانے وہ اس کے ساتھ کیا سلوک کریں۔ میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مریم کی ماں غصے سے کہتی، کیسے اس کی شادی نہیں کریں گے۔ آپ بھی تو کسی کی بیٹی لے کر آئے ہیں نا۔ میں بھی تو کسی کی بیٹی تھی۔ وہ تب بھی یہی کہتا۔ میں تو اپنی زندگی میں اس کی شادی کرنے والا نہیں ہوں۔ چاہے دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے۔ مریم ان کی بحث بڑے شوق سے سنتی اور اپنے باپ کے گلے میں بائیں ڈال کر کہتی ، ڈیڈ میں کبھی شادی نہیں کروں گیا اور کبھی آپ کو چھوڑ کر نہیں جاوں گی۔ میں خود بھی بھلا آپ کے بغیر کیسے رہ سکتی ہوں۔ ماں غصے سے چل پڑتی۔ مریم کے دادا کی طبیعت کافی دنوں سے خراب تھی۔ وہ ہاسپٹل نہیں جانا چاہتے تھے۔ مریم کے والد گھر میں ہی ڈاکٹر کو بلا کر دکھا رہے تھے۔ مگر ان کی طبیعت سنبھلنے کی بجائے اور بگڑتی جارہی تھی۔
ایک دن ان کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی۔ ملازم نے آکر بتایا کہ وہ بے ہوش ہو گئے ہیں فورا مریم کے باپ نے ایمبولینس کو فون کر دیا۔ مریم رونے لگی۔ باپ مریم کو گلے لگا کر تسلی دینے لگا۔ جب انہیں ہاسپٹل لے جایا گیا تو کافی دیر ڈاکٹر زان کی جانچ پڑتال کرتے رہے مگر وہ مرچکے تھے۔ مریم کی زندگی کا یہ پہلا المیہ تھا۔ مریم کی بری حالت تھی۔ باپ نے اسے بہت زیادہ وقت دیا۔ اپنے ہاتھوں سے زبر دستی کھلاتا پلاتا ۔ مریم کی ماں نے مریم کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ تم اپنے ناز نخرے باپ سے اٹھوار ہی ہے۔ کیا تم نے سوچا ہے کہ انہوں نے بھی اپنا سگا باپ کھویا ہے۔ تمہیں ان کی دلجوئی کرنی چاہیے ، ان کو زبر دستی کھلانا پلانا چاہیے۔ ان کا خیال رکھنا چاہیے ان کی دیکھ بھال کرنی چاہیے میں زبر دستی ان کو تھوڑا بہت کھلائی پلائی ہوں مگر انہیں اپنے سے زیادہ تمہاری فکر لگی رہتی ہے۔
مریم کا باپ اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ بیٹی کی دلجوئی کے لیے انہیں ورلڈ ٹور پر گھمانے پھرانے لے گیا۔ مریم نے خوب شائنگ کی ماں کے احساس دلانے پر مریم کو احساس ہو چکا تھا کہ باپ کا خیال بھی رکھنا چاہیے ۔ مریم نے نوٹ کیا کہ اس کے ڈیڈ کمزور ہو کئے ہیں اس نے تو کبھی دھیان ہی نہ دیا۔ مریم نے دل میں سوچا کہ وہ ڈاکٹر انکل کو جا کر بتائے گی کہ ڈیڈ کے مکمل ٹیسٹ کریں۔ وہ کھاپی بھی کم کر رہے تھے۔ چلنے میں بھی سستی کر رہے تھے ۔ مریم کی ڈاکٹری کی ڈگری مکمل ہو چکی تھی۔ ہاوس جاب بھی ہو چکا تھا۔ اس کے پیٹ نے کہا تھا کہ وہ اسے بڑے پیمانے پر سیلیبریٹ کریں گے مگر دادا کی فوتگی کی وجہ سے سب کچھ مانند پر گیا۔ مریم کا بھائی دادی کا پھٹو بنا رہتا تھا۔ وہ بھی تعلیم مکمل کرنے کے بعد باپ کا بزنس سنبھالنے لگا تھا۔ گھر میں اس کی شادی کے چرچے ہونے لگے تھے ۔
دادی اسے ہمیشہ کہتی۔ کہ میں تیری شادی کسی ہائی سوسائٹی کی کسی ماڈرن فیملی سے کراؤں گی۔ ماں نے اپنے جیسی پینڈو سے کروا دینی ہے پھر ساری زندگی کسی سے ملواتے ہوئے بھی شرمندگی اور بچے بھی پینڈو۔ اگر میں نہ ہوتی تو تم لوگ بھی پینڈو بنے ہوتے۔ دادی نے مریم کے بھائی کی علیک سلیک اپنی ماڈرن دوست کی ماڈرن پوتی سے کروادی۔ اور ان کا خفیہ نکاح بھی کروا کر وہ گھر لے آیا۔ باپ کو مریم واپس آکر مکمل ٹیسٹ کر وار ہی تھی۔ جب بیٹا بیوی کو گھر لے آیا تو باپ کے ساتھ ماں بھی شاک رہ گئی ، مگر دادی نے ان کو اچھی طرح و یلکم کیا کہ اب وہ اس گھر کی عزت ہے۔ دادی نے لڑکی والوں کو بلایا، انہوں نے ناراض ہونے کا ڈرامہ کیا لیکن اصل میں وہ ساتھ دادی کے اس شادی کرانے میں ملے ہوئے تھے۔ دادی نے حکم دے دیا کہ اب جو ہونا تھا ہو چکا اب اس کا بھی اس گھر پر اتنا ہی حق ہے۔
۔ دادی نے ولیمہ اناؤنس کر دیا۔ تین دن بعد ہوٹل میں ولیمہ کر دیا گیا اور سارے خاندان کو بلایا گیا سب دولہن کے بے ہودہ فیشن پر باتیں بنا رہے تھے۔ مریم بھی بجھی بجھی سی تھی۔ اس نے بھائی کی شادی کے کئی خواب دیکھ رکھے تھے۔ ہر وقت لڑکیاں نوٹ کرتی رہتی اور اپنی ماں سے مشورہ کرتی رہتی۔ مگر خاندان بھر میں ان کو کوئی لڑکی پسند نہ آئی مریم کی ماں کو مبارک باد دینے کے ساتھ بہو پر تنقید بھی کر رہے تھے اور وہ اداسی سے مسکرا دیتی۔ مریم کا بھائی ولیمے کے اگلے دن دادی کے کہنے پر ہنی مون پر باہر ملک جارہے تھے . مریم نے بھائی سے کہا کہ کل ڈیڈ کی رپورٹس آنی ہیں تم کچھ دن رک جاؤ۔ ڈیڈ بیمار ہیں۔ اس کی بیوی گرج کر بولی، کیا ہو گیا ہے ہلکی پھلکی طبیعت خراب ہے۔ ہم ڈاکٹر تھوڑی ہیں جو ان کا علاج کریں گے وہ ٹھیک تو ڈاکٹر سے ہوں گے۔ ہم کو نسا ہمیشہ کے لیے جارہے ہیں مریم کا بھائی بیوی کے ڈانٹنے پر کہ چلو فلائیٹ مس ہو جائے گی دیر ہو رہی ہے۔
خاموشی سے بیوی کے پیچھے چل پڑا۔ باپ کی جب رپورٹ آئی تو کینسر کی لاسٹ اسٹیج تھی۔ مریم رپورٹ پڑھ کر بے ہوش ہو گئی۔ مریم کے باپ کو ڈاکٹر دوست نے تسلی دیتے ہوئے بتا دیا تھا کہ یہ مسئلہ ہو سکتا ہے۔ سنکر وہ جھٹ سے بولا تھا کہ میری بیٹی کا کیا ہو گا۔ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ یہ تو اللہ تعالی ہی جانتے ہیں کہ کیا ہو گا تم فکر نہ کرو اللہ تعالی بہتر کریں گے ۔ ماں نے بڑی مشکل سے اسے ہوش میں لایا۔ خود ماں کی حالت بھی دیدنی تھی ۔ مگر وہ اسے سمجھارہی تھی کہ تم اپنے ڈیڈ کو حوصلہ دو وہ اپنے باپ کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رودی۔ ماں اور دادی بھی ر و ر ہی تھیں۔ بیٹے کا اس وقت اتفاق سے فون آگیا جب اس نے سنا تو بولا، ہم آج ہی نکل رہے ہیں۔ ان کے آنے میں ابھی دو دن باقی تھے۔ بیوی وہ دو دن بھی ادھر رہنا چاہتی تھی پھر دادی کے بلانے پر اسے آنا پڑا۔
ڈیڈ میں آپ کو کچھ نہیں ہونے دوں گی۔ میں آپ کو علاج کے لیے باہر ملک لے کر جاؤں گی۔ کافی دن مریم بوکھلای بوکھلائی پھرتی رہی۔ اپنے ڈیڈ کو وقت پر دوائی دیتی۔ ان کو پر ہیزی کھانے اپنے ہاتھوں سے کھلاتی۔ ان کے ساتھ لان میں کھیلتی۔ ہر طرح سے وہ باپ کا دل بہلائی۔ بھائی نے باپ کی ہدایات پر آفس کے سارے اسرار ورموز سمجھ لیے تھے کہ کس کو کب پے منٹ کرنی ہے کس کو کب دینی ہے۔ اس کام میں اس کی بیوی بھی اس کی ہیلپ کر رہی تھی۔ وہ بھی ساتھ آفس جاتی اور اس سے زیادہ اس کی بیوی نے معاملات سنبھال لیے تھے۔ مریم کو کچھ ہوش نہ تھا۔ اس کے ڈیڈا سے تسلی دیتے کہ میری شہزادی تم اپنا خیال بھی خود رکھنے کی آپ عادت ڈال لو۔ پھر دونوں رونے لگے۔ باپ کی صحت دن بدن گرتی جارہی تھی وہ ہاسپٹل ایڈمٹ نہیں ہونا چاہتے تھے۔
کہتے تھے کہ میں آخری وقت اپنے گھر گزارنا چاہتا ہوں۔ مریم کی دادی بھی اداس تھی مگر پھر بھی وہ اپنے وقت پر کھاتی پیتیں۔ سارے کام اسی روٹین میں کرتی۔ دینے کا آکر کھڑے کھڑے حال احوال پوچھتی اور اپنے کمرے میں جا کر اپنی روٹین کے مطابق ٹی وی دیکھئے لگ جائیں ملازم باتیں بناتے کہ کیسی ماں ہیں بیٹے کی فکر ہی نہیں ہے۔ مریم بھی دادی کے رویے پر حیران ہوتی۔ مریم کی ماں شوہر کے صدقے خیرات دینے میں مصروف رہتی۔ دعائیں پڑھ کر پانی دم کرتی اور ان کو ہر وقت پلاتی رہتی۔ رورو کر نماز میں شوہر کے لیے دعائیں کرتی۔ جب تبھی پاس بیٹھتی اس کے آنسو نہ تھمتے۔ کبھی بیٹی کو نصیحتیں کرتی کہ میرے بعد ایسے کرنا ویسے کرنا۔ حوصلے میں رہنا۔ اپنے آپ کو خود ہی سہارا دینا ۔ اب تم نے اپنا آپ خود سنبھالنا ہے اور اپنا سارا خود بنتا ہے۔ اللہ تعالی کے سوا اب تمہارا کوئی سہارا نہیں مشکل وقت میں گھبرانا نہیں
بھائی بھی اب شادی شدہ ہو گیا ہے۔ دادی بھی اب بوڑھی ہیں۔ ان کی بھی دیکھ بھال اب تم نے کرنی ہے۔ وہ اکتائے ہوئے لہجے میں کہتی موم آپ پر وقت کیوں ایسی باتیں کرتی رہتی ہیں۔ آپ ہیں نامیرے ساتھ پھر مجھے کسی کی کیا ضرورت ہے بھلا۔ وہ نظریں جھکا کر بولی، میں بھی کیا پتا تمہارے ساتھ نہ رہوں۔ مریم نے گھور کر انہیں دیکھا اور گلے لگا کر چومتے ہوئے کہا کہ اللہ نہ کرے۔ سارا خاندان مریم کے باپ کو دیکھنے آرہا تھا۔ مریم کا باپ سب کو شکایت لگاتا کہ میری بیوی پاگل ہو رہی ہے۔ اس کو کوئی سمجھائے کہ یہ بیمار پڑ گئی تو ہم سب کا کیا ہو گا۔ اپنا خیال بھی رکھا کرے کچھ آرام بھی کر لیا کرے۔ وہ کہتی آرام کا وقت نہیں ہے۔ مریم کی ماں نے ایک پیکٹ اس کو دکھاتے ہوئے کہا کہ اسے میں تمہارے تکیے میں ڈال رہی ہوں کسی کو بتانا مت۔ وہ لا پروائی سے بولی، او کے موم رات کو ماں سوئی صبح ہو گئی وہ اٹھی ہی نہیں۔
ملازمہ نے بتایا کہ بیگم صاحبہ بے ہوش لگ رہی ہیں۔ بیٹے نے ڈاکٹر کو فون کیا اور ساتھ ہی ایمبولینس منگوالی۔ مریم رو رو کر ماں کو جھنجھوڑ رہی تھی، افرا تفری مچ گئی تھی۔ ڈاکٹر نے کنفرم کر دیا کہ یہ دو گھنٹے پہلے فوت ہو چکی ہیں۔ پھر بھی آپ انہیں ہاسپتال لے جا کر کنفرم کر لیں۔ جب ہاسپٹل لے جایا گیا تو ڈاکٹروں نے اچھی طرح چیک کرنے کے بعد ان کو مردہ قرار دے دیا۔ مریم بار بار بے ہوش ہو رہی تھی رشتے دار عورتیں اس کو ہوش میں لانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ مریم کے باپ کی حالت خراب ہو رہی تھی اسے ہاسپٹل لے کئے ابھی بیوی کا جنازہ پڑا ہوا تھا کہ وہ بھی اس دنیا کو چھوڑ کے ایک ساتھ دو جنازے پڑے ہوئے تھے۔ مریم رو رو کر کبھی باپ کی چار پائی پر جا کر روتی کبھی ماں کی ۔ وہ بھائی کے گلے لگی وہ بھی رو رہا تھا۔ دادی کرسی ڈالے بین کر رہی تھی۔ ہر آنکھ اشکبار تھی۔
جب ان دونوں کے جنازے ایک ساتھ اٹھائے گئے تو مریم نے رورو کر فریاد کی کہ ان کو میں جانے نہ دوں گی۔ چار پائی پکڑ لیتی۔ بڑی مشکل سے اسے ہٹایا گیا۔ تو وہ بے ہوش ہو گئی۔ رشتے دار اسے ہاسپٹل لے کئے۔ ادھر اس کو ڈرپ لگادی گئی اور جب ہوش میں آئی پھر روتی چیخی ڈاکٹر انکل نے اس کی بہت دیکھ بھال کی۔ نرس ایک دیکھ بھال کے لیے مقرر کر دی۔ دو تین دن وہ ہاسپٹل میں رہی۔ دوسرے دن بہو نے قُل کروا کر سب رشتے داروں کو کہہ دیا کہ آپ لوگ بھی مصروف ہیں اور ہم لوگ بھی اس لیے چالیسواں آج ہی ہو گا۔ رشتے دار بھی سب چلے گئے۔ بھائی ڈاکٹر سے فون کر کے بہن کا حال پوچھ لیتا۔ ادھر وہ بہت مصروف تھا۔ کبھی روتا تو دادی تسلی دیتی۔ بیوی تو اسے کاموں میں لگائی رکھتی۔ ڈاکٹر انکل اسے اپنے گھر لے کئے کہ ابھی تم گھر نہ جاو تمہارا غم کا زخم ابھی تازہ ہے۔
گھر میں جاؤ گی والدین نظر نہیں آئیں گے تو پھر طبیعت بگڑ جائے گی۔ ڈاکٹر انکل اس کے ڈیڈ کے دوست تھے۔ ان کی بیوی اور وہ اکیلے رہتے تھے۔ ان کے بچے باہر ملکوں میں شادیاں کر کے رہتے تھے۔ ڈاکٹر انکل کی بیوی نے مریم کو بہت سہارا دیا۔ اس کو کافی حد تک بہلا لیا۔ وہ جب گھر گئی تو دادی سے ملکر بہت روئی بھائی نے پیار سے تسلی دی اور چپ کرایا۔ اس کی بیوی نے منہ بنا کر کہا کہ یہ کیا مصیبت ہے کیا گھر میں ہر وقت ماتم والا ماحول رہے گا۔ اسے نہیں روتا ہو تو اکیلے کمرے میں جا کر رولے، گھر کا ماحول خراب نہ کرے۔ میری طبیعت پہلے ہی خراب ہے پر پریسینی ہے۔ دادی ایک دن مریم سے بولی بیٹی تو کسی ہوسپٹل چلی جا۔ ادھر یہ تیری بھا بھی تجھے کھل کر سانس بھی نہیں لینے دے میں کوستی ہوں اس وقت کو جب اس منحوس کو بیاہ کر لائی۔ بھابھی نے اتفاق سے سن لیا اور بھائی نے بھی چند آخری الفاظ سن لیے کہ دونوں کی بھابھی نے وہ بے عزتی کی ساتھ مریم کا بھائی بھی بولنے لگا اور ناراض ہو کر چلا گیا۔
مریم کے ساتھ بھا بھی اور بھائی بر اسلوک کرنے لگے۔ دادی بیمار رہنے لگی۔ مریم نے ڈاکٹر انکل کو فون کر کے بتایا کہ دادی بیمار ہیں۔ وہ انہیں ایمبولینس بلا کر ہاسپٹل لے کئے۔ بھا بھی نے مریم کو بہت زلیل کیا کہ ہمیں سب کے سامنے ذلیل کروانا چاہتی ہو کہ لوگوں کو بلاتی پھرتی ہو ۔ مریم نے دبے لفظوں میں کہا کہ بھائی کو بتایا تو تھا۔ یہ سنتے ہی بھا بھی نے رکھ کر اس کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ مارا کہ وہ دور جا گری۔ مریم بمشکل اٹھ کر غمزدہ قدموں سے چلتی اپنے کمرے میں گئی اور جا کر نڈھال سی ہو رونے لگی۔ اپنے ڈیڈ کو یاد کر کے فریاد کرنے لگی کہ آپ کی لاڈلی کو کبھی پھول بھی نہیں مارا تھا آج دنیا اسے کس طرح مار رہی ہے۔ بھا بھی کمرے میں آکر چلانے لگی یہ مظلومیت کا ڈرامہ کب تک کرتی رہو گی۔ جینا حرام کیا ہوا ہے۔ رورو کر منحوست پھیلا رکھی ہے۔ نہ خود خوش رہتی ہو نہ ہمیں رہنے دیتی ہو۔
سب کے والدین مرتے ہیں کیا وہ اسی طرح ہر وقت گھر میں سوگ پھلائی رکھتے ہیں۔ نارمل ہو جاو اور نہ مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا پہلے ہی میری طبیعت سخت خراب ہے۔ اس کو بالوں سے پکڑ کر اٹھاتے ہوئے بولی۔ خبر دار جو بھائی یا کسی اور کو بتانے کی کوشش کی۔ وہ درد سے چلائی کیونکہ بھابھی نے اس کے بالوں کو زور سے کھینچا ہوا تھا۔ وہ تڑپتے ہوئے بولی، نہیں بتاوں گی۔ تھوڑی دیر بعد دادی کے مرنے کی خبر آگئی سارے رشتے دار جمع ہونا شروع ہو گئے ۔ مریم بے آواز رو رہی تھی۔ سب نے مریم کو تسلی دینا شروع کی اور بہت افسوس کرنے لگے کہ باپ کی لاڈلی آج دادی کو بھی کھو بیٹھی ہے ۔ جب جنازہ اٹھانے لگے تو مریم نے چار پائی پکڑ کر دہائی دی کہ میں اپنی دادی کو نہیں جانے دوں گی۔ بھا بھی قریب آی اور اسے پکڑ کر بناوٹی پیار سے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی، میری جان یہ سب تو ابھی واپس چلے جائیں گے تو ہم ہیں نا تمہارے اپنے ۔ میں بھائی تمہارے بغیر کھانا
نہیں کھاتے
بس مت رو صبر کر آمیں تجھے کمرے میں لٹا دوں تو آرام کر ۔ پھر ملازمہ سے بولی۔ دودھ کا گلاس گرم کر کے لاو۔ ساتھ کچھ بسکٹ وغیرہ بھی لے آو۔ سب کے سامنے اسے بسکٹ اور دودھ کا گلاس پلا کر نیند کی گولی کھلا دی کہ ویسے ہی رات بھر رورو کر تنگ کرے گی یہ نہ ہو کہ بھائی بھی پگھل جائے ۔ ڈاکٹر انکل کی بیوی نے اسے کہا کہ چلو آج ہمارے گھر چلو. بھا بھی جھٹ بولی، انکل ہم ہیں نا اس کا خیال رکھنے کے لیے۔ مریم نے بھی ڈر کر جانے سے انکار کر دیا۔ مگر انکل نہ مانے اور بولے، پہلے بھی رہی تھی تو کافی بہل گئی تھی۔ زبردستی وہ لوگ لے کئے اور مریم نیند کی گولی کھا کر نڈھال سی تھی جاتے ہی سو گی۔ ڈاکٹر انکل نے روتے ہوئے بیوی سے کہا، یہ میرے دوست کی بہت لاڈلی تھی۔ آج اس کے لاڈ اٹھائے والا کوئی بھی نہیں رہا۔ چند دن وہ ادھر رہی تو بہتر ہو گئی۔ ڈاکٹر انکل نے کہا کہ تم جاب کر لو تا کہ تمہارا دل بہلا رہے بھائی اسے بیوی کے کہنے
پر لینے آگیا۔
ڈاکٹر انکل نے کہا کہ جب بھی جاب کی ویکینسی آئی میں اس کو بتادوں گا بہتر ہے جاب کر لے تاکہ دل بہلا رہے۔ جب تک کوئی اچھار شتہ نہیں ملتا۔ گھر میں سب کی یادیں اس کو رلاتی رہیں گی۔ بھائی اسے دیکھ کر اسے گلے لگا کر بولا چلو اپنے گھر تمہاری بھا بھی شدت سے تمہاری راہ تک رہی ہیں۔ وہ کچھ خوفزدہ سی ہو گئی پھر سوچا، ایسے ڈر ڈر کر کب تک جیے گی۔ وہ بھائی کے ساتھ جب گھر پہنچی تو بھا بھی بڑے جوش سے گلے لگا کر ملی۔ مگر وہ نارمل رہی۔ بھائی سامنے ہوتا تو بھابھی مریم کو کھانے پینے کا خوب پوچھتی۔ ویسے اس کو کھانے کا نہ پوچھتی۔ وہ بریڈ وغیرہ ہی کھا کر نمکو چیپس پر گزارہ کرتی۔ بھا بھی نے اس کو پاکٹ منی کبھی نہ دیا وہی رقم تھی جو اس کے پاس پڑی تھی۔ اس نے دیکھا بھا بھی نے اس کے کمرے میں خفیہ کیمرہ لگا دیا ہے۔ وہ محتاط ہو گی۔ ماں کے دیے ہوئے تھیلے کا خیال آتا مگر وہ کیسے کھولتی۔ اس نے ڈاکٹر انکل کو میسج کر کے تکیے کے بارے میں اور بھا بھی کے بارے میں سب بتادیا۔
بھا بھی اس کے کمرے میں آئی اور موبائل چیک کر کے کہنے لگی۔ مریم نے سب میسنجر ڈیلیٹ کر کر دیے تھے۔ بھا بھی موبائل پکڑا کر مطمئن ہو گئی۔ پھر تسلی سے بیٹھ کر پوچھنے لگی کہ تمہاری ماں کے زیورات وغیرہ کدھر ہیں۔ میں ہر جگہ ڈھونڈ چکی ہوں۔ مگر نہیں ملے۔ اس نے جواب دیا، مجھے کیا پتا، مجھے تو ویسے بھی ان چیزوں میں انٹرسٹ نہیں تھا۔ وہ بولی، چلو وہ بعد کا معاملہ ہے۔ تمہیں بتانا تھا کہ میں نے اپنے بھائی کے ساتھ تمہارا رشتہ طے کر دیا ہے۔ وہ ہکا بکا دیکھنے لگی۔ بھا بھی بولی۔ کوئی احتجاج مت کرنا، فائدہ کچھ نہ ہو گا۔ وہ یکدم بولی، میں کیوں احتجاج کروں گی آپ کا بھائی مجھے ویسے بھی پسند تھا مگر شرم سے بتا نہیں سکی۔ آپ نے تو میرے دل کی مراد پوری کر دی۔ وہ حیرت سے بولی، سچ کہہ رہی ہو۔ مریم جھٹ بولی، شادی کا سوٹ میں ریڈ پہنوں گی کیونکہ دولہن ریڈ کلر میں ہی اچھی لگتی ہے۔ وہ خوش ہو کر بولی ٹھیک ہے میری جان۔
دوسرے دن اس کے گھر والے آئے اور اسے انگوٹھی پہنا کئے۔ لڑکا ابھی باہر سے آنا تھا۔ اس نے ڈاکٹر انکل کو سب بتادیا اور وہاں سے نکلنے کا کہا۔ وہ آگے دن بیوی کے ساتھ مٹھائی وغیرہ لے کر آئے کہ مریم کی منگنی کی ہے۔ ہمیں نہیں پوچھا۔ اب شادی میں کوئی بھی ہیلپ کی ضرورت ہو تو بلا جھجک کہنا۔ مریم سے بولے، بیٹا چلو ایک دن ہمارے ساتھ چلو ہم تمہیں بازار سے تمہاری پسند کا گفٹ لے کر دینا چاہتے ہیں۔ وہ بولی، انکل اس کی کیا ضرورت ہے۔ وہ رندھی ہوئی آواز میں بولے، تم ہماری بہت لاڈلی ہو جیسے باپ کی تھی۔ اب انکار مت کرنا۔ وہ آہ بھر کر بولی، ٹھیک ہے۔ ان کی بیوی بولی، ایک تجویز ہے اگر اسے ہم اپنے گھر سے رخصت کریں تو کیسا ہے۔ بھابھی نے منع کیا تو ڈاکٹر صاحب کی بیوی مریم کے بھائی سے بولی، ادھر رہے گی تو شادی ہونے تک اسے سب کی یاد ستاتی رہے گی۔ آپ نے شاپنگ پر لے جاتا ہو تو ادھر سے ہی لے جائیں اور ادھر ہی چھوڑ دیا کرتا۔
بھا بھی بولی نہیں ایک دن کے لیے ہی کافی ہے۔ مریم بولی ، ڈاکٹر انکل پلیز مجھے ادھر ہی رہنے دیں۔ میں بس ایک دن کے لیے آپ کے ساتھ چلوں گی۔ وہ بولے ٹھیک ہے بیٹا جیسی تمہاری رضی بھا بھی چائے کے لیے کچن میں گئی تو مریم نے جلدی سے بیگ میں چند کپڑے اور اپنے ضروی کاغذات ڈالے اور تکیہ بھی اٹھا کر بولی چلیں انکل۔ وہ بولے بیٹا یہ تکیہ کس لیے۔ وہ بولی، جاتی ہے کل واپس لے آوں گی۔ وہ ہنس کر بولے ٹھیک ہے گاڑی میں سامان رکھواد و۔ بھا بھی ملازمہ کے ساتھ چائے لے آئی مریم نے سامان رکھوا کر گاڑی لاک کر کے چابی انکل کو دے دی۔ چائے پی کر وہ لوگ گھر پہنچے تو اگلے دن ہی اسے نوکری مل گئی۔ اور اسی دن ڈاکٹر صاحب کی بیوی کو باہر ملک جانا پڑ گیا ان کی بیٹی کی پریگنینسی شروع تھی۔ اس کی طبیعت خراب تھی۔ مریم نے تکیہ کھول کر تھیلا نکالا تو اس میں اس کی ماں کے زیورات تھے۔
اس نے ڈاکٹر انکل کی مدد سے وہ بینک میں رکھوا دیے۔ بھائی اگلے دن لینے آیا تو مریم نے بھابھی کے ظلم کی داستان سنائی اور شادی سے انکار کر دیا۔ بھائی بہت حیران ہوا۔ مریم نے کہا کہ اس نے ادھر نوکری کر لی ہے۔ بھائی جب گھر پہنچا تو بیوی کو غصے سے سب بات بتائی وہ دھاڑیں مار مار کر مکاری سے رونے لگی کہ اگر وہ شادی نہیں کرنی تھی تو ایسے بد نام تو نہ کرتی جھوٹے الزامات تو نہ لگائی۔ وہ اپنے والدین کی جھوٹی قسمیں کھانے لگ پڑی۔ پھر اس نے مریم پر الزام لگا دیا کہ اس کا ڈاکٹر انکل سے چکر چل رہا ہے۔ ان کی بیوی بھی موجود نہیں پھر بھی وہ ادھر رو رہی ہے۔ بھائی نے اس سے مرنا جینا ختم کر لیا۔ مریم نے تنگ آکر اپنی ٹرانسفر پہاڑی علاقے میں کروالی۔ وہاں گاوں کے لوگوں سے سنا کہ اس ہاسپٹل میں رات کی ڈیوٹی کوئی نہیں دیتا کیونکہ وہاں جنات کا بسیرا ہے۔ مریم نے کہا۔ انسانوں سے بڑھ کر تنگ کرنے والے نہیں ہوں گے۔ اس نے بغیر ڈرے ادھر ڈیوٹی دینی شروع کر دی کچھ بھی ایسا نہ ہوا۔ وہاں کا بڑا ڈاکٹر اسے پسند کرنے لگا۔
اس نے اسے پر پوز کیا تو مریم نے سوچا کہ وہ ویسے بھی اچھے انسان ہیں اس کا بہت خیال رکھتے ہیں اگر میں ان سے شادی کروں گی تو ڈاکٹر انکل کا الزام مجھ سے اتر جائے گا۔ اس نے اقرار کیا تو ڈاکٹر صاحب نے بہت خوشی میں کہا کہ میری فیملی چند دنوں تک آے گی انہوں نے بھی آپ کو بہت پسند کیا ہے اور میرے والدین اور بہن بھائی سب اس رشتے سے بہت خوش ہیں۔ مریم نے ڈاکٹر انکل کو اس رشتے کا بتایا تو وہ بہت خوش ہوئے اور مبارک باد دی۔ مریم آپریشن تھیٹر گئی تو اندر سے کچھ عجیب سی آوازیں آرہی تھیں جب وہ اندر پہنچی تو اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گی وہاں تو اس کا بھائی کھڑا تھا. وہ مریم سے معافی مانگنے لگا کہ مجھے ڈاکٹر انکل سے اس رشتے کا پتا چلا ہے. مجھے معاف کر دو۔ میں نے تمہیں بیوی کی باتوں میں آکر غلط سمجھا۔ مریم نے بھا بھی کا پوچھا تو وہ نفرت سے بولا ، وہ لالچی عورت تھی میر اسب کچھ ہتھیانا چاہتی تھی۔
جب میں نے دینے سے انکار کیا تو طلاق مانگنے لگی اور میں نے بھی دے دی۔ وہ گھر کی تو والدین کے ایکسیڈنٹ کا سنادونوں فوت ہو کئے اب بھائی بھا بھی کی آیا بنی ہے۔ اور بچہ پہلے ہی اس نے ابارشن کروالیا تھا۔ مجھے وہ بھی غصہ تھا۔ پھر میں نے ایک غریب اور شریف لڑکی سے نکاح کر لیا ہے جو میرے آفس میں کام کرتی تھی۔ اب تم گھر چلو وہ بہت اچھی ہے تمہارا انتظار کر رہی ہے۔ میں تمہیں اپنے گھر سے عزت سے دھوم دھام سے رخصت کروں گا اور جتنا جائیداد میں حصہ بنتا ہے وہ بھی دوں ۔ گا۔ مریم بھاگ کر بھائی کے گلے لگ گئی دونوں رونے لگے۔ ڈاکٹر سہیل نے دونوں کو تسلی دی۔ مریم گھر واپس آئی تو دیکھا جو لڑکی اس کی بھا بھی تھی وہ اس کی کلاس فیلو تھی۔ ان کی دوستی تو نہ تھی مگر وہ اسے جانتی تھی کہ وہ اچھی لڑکی تھی۔ مریم اسے ملکر بہت خوش ہوئی۔ اس نے بتایا کہ اس کے فادر کا بزنس فلاپ ہو گیا تھا جس کی وجہ سے وہ آگے نہ بڑھ سکی۔
بھا بھی اس کا بہت خیال رکھتی۔
مریم اپنے روم میں آکر شدت سے روئی۔ موم ڈیٹ کو سارے گھر میں آوازیں دیتی اور روتی رہی۔ دادی کے کمرے میں جا کر بھی روتی رہی بھا بھی اس کا دل بہلانے کی کوشش کرتی۔ اس کے کھانے پینے کا خیال رکھتی۔ مریم کی شادی کی بھائی نے تیاریاں زور و شور سے کر رکھی تھیں۔ جائیداد میں سے شرعی حصہ بھی بہن کے نام کر دیا تھا۔ ڈاکٹر انکل کی بیوی بھی آچکی تھی اور مریم کے پاس ماں بن کر رہ رہی تھی۔ ڈاکٹر انکل مریم کے بھائی کی شادی میں پوری مدد کر رہے تھے۔ مریم کے سسرال والے اسے منگنی کی انگوٹھی پہنا گے تھے۔ وہ سب بھی بہت اچھے تھے۔ ان کو بھی مریم بہت پسند آئی تھی۔ کیونکہ ان کا بیٹا کسی سے بھی شادی پر راضی نہ تھا، گھر والوں نے شکر کیا تھا کہ ایک تو وہ شادی پر راضی ہوا دوسرا مریم اچھی لڑکی ڈھونڈی۔ شادی والے دن مریم بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ سب اس کے دولہے کی بھی تعریف کر رہے
تھے
January 04, 2023
تھوک: Saliva or Spit