آسیہ عمران
میرے ابو جی اور رزق بے بہا۔۔
ابو جی پاکستان نیوی میں تھے۔ایک دفعہ ان کی ڈیوٹی ٹرانسپورٹ آفیسر کی لگی ۔وہ پہلے سے بھی لیٹ گھر آنے لگے۔ہمارا ابو سے الگ ہی تعلق تھا۔ہمیں پوچھنے میں جھجھک نہ ہوتی اور انکےجواب تفصیلی ہوتے۔میں نے پوچھا آپ اتنا لیٹ کیوں آنے لگے ہیں۔تو انھو ں نے بتایا۔کئ گاڑیاں خراب کھڑی تھیں۔فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے بے کار تھیں۔ اندازہ لگوایا تو ان پر لاکھوں کا خرچ آرہا تھا۔
سوچاکباڑ مارکیٹ سے پتہ کروں۔وہاں چند ہزار میں پرزے مل گۓ۔گاڑیاں خود کھڑے ہو کر ٹھیک کروا رہا ہوں۔کہ ساتھ ہوتا ہوں تو کاریگر دل لگا کر کام کرتے ہیں۔کیا باقی آفیسر بھی ایسا کرتے ہیں؟میرا سوال تھا۔بیٹا مجھے اپنی قبر میں جاناہے۔انکاانداز سجھا نے والا تھا۔
میں نے کہا جب وہ پہلے سے کھڑی تھیں تو آپ بھی رہنے دیتے کیا ضرورت تھی۔مشقت کی۔ نرم مزاج اباجان کے تیور بدل گئے۔جیسے انھیں بات پسند نہ آئی ہو۔کہنے لگے میں ذمہ دارہوں ۔ گورنمنٹ سے تنخواہ لیتا ہوں۔کیا غیر ذمہ داری سے اپنی تنخواہ حرام کر لوں؟؟؟نہیں بیٹا مجھے حرام کی پائی بھی گھر نہیں لانی۔نہ ہی اپنے لیے جہنم تیار کرنی ہے۔
اسی طرح ایک دفعہ نیول اسٹور پر ڈیوٹی تھی۔اکثر راتوں کو دیر سے گھر آتے۔ہمارے پوچھنے پر کہنے لگے۔اسٹور میں چیزوں کی بھرمار ہے ۔مگر ضرورت پر کوئی چیز نہیں ملتی۔پورے اسٹاف کو لگا کر چیزیں رینیو کروا کر ترتیب دے رہا ہوں۔تاکہ کچھ بھی باہر سے نہ منگوانا پڑے۔لاکھوں کے پرزے بےکار ہو رہے ہیں۔ایک دن آئے تو بہت خوش تھے۔کہنے لگے جہاز کے لئے ایک قیمتی پرزہ درکار تھا جسے باہر سے منگوایا جانا تھا۔میں نے کمانڈ سے کہا ۔میرے اسٹور میں ایسا پرزہ موجود ہے۔وہ حیران ہوۓ۔اور اس سے زیادہ حیران اسٹور کی ترتیب و تنظیم سے ہوئے۔پھر مسکراتے ہوئے بولے۔۔تو یہ وجہ ہے فنڈز کی ڈیمانڈ نہ آنے کی۔۔۔
ابا جی مستجاب الدعوات تھے۔جو دعا کرتے قبول ہوتی۔ میں اس وقت چھ سال کی تھی ۔دادی دادا سفر حج پر روانہ ہوئے۔امی سے کہنے لگے میری دعا آدھی قبول ہوئی ہے۔میں نے دعا کی تھی کہ والدین کو حج کرواؤں ۔یہ پوری ہوئی۔لیکن یہ بھی دعا تھی دونوں کا ہاتھ پکڑ کر تیرے گھر کا طواف کروں ۔یہ قبول نہیں ہوئی۔وہ ان دنوں دو ماہ کی چھٹی پر سرگودھا آئے ہوئے تھے۔یہ 1988 کی بات ہے۔کہ اچانک ٹیلی گرام آیا ڈیوٹی پر پہنچیں ۔ ابو جی کراچی پہنچے ۔اس وقت ڈھاکہ جہاز پر ڈیوٹی تھی۔جیسے ہی جہاز پر پہنچے جہاز روانگی کے لئے تیار تھا۔لیکن اس کا رسہ نہیں کھل پا رہا تھا۔جیسے ہی ابو سوار ہوئے۔رسہ کھل گیا۔کمانڈنگ آفیسر نے آگےرپورٹ کی۔ان کا نام جانے والوں کی لسٹ میں نہ تھا۔ وہاں سے جواب آیا جسے اللہ کا بلاوا ہو اسے روکنے والا میں کون ہوتا ہوں۔وہ جہاز آئل لینے سعودیہ جا رہا تھا۔اور دونوں کا ہاتھ پکڑ کر طواف کرواتے ہوئے ابو جی رو رہے تھے۔
حج پر گئے تو دعا کی۔یارب توفیق دے اپنے بچوں کے ساتھ تیرے گھر کی زیارت کروں۔اللہ نے اگلے سال ہم سب ساتھ حاضر ی دے رہے تھے۔
دعا کرتے میرے بچوں کو نیک بنانا اور ان کے گھروں میں سکینت۔آج سب کو ہنستے بستے دیکھ کر سکینت کی گھڑیوں میں سوچتی ہوں۔ابا جی کی دعا کا اثر ہے۔
اللہ نے کمائی میں برکت اتنی دی کہ سب کے لئے ہمیشہ آسانی کا باعث بنے رہے۔ابو کے دوست کہتے تھے۔کہ وہ مٹی میں ہاتھ ڈالتے ہیں۔تو سونا ہو جاتی ہے۔
یہ بات میں نے بارہا محسوس کی ۔وہ دن بھر کام کرنے کے بعد بھی تروتازہ ہوتے۔آتے دس منٹ لیٹتے لمحوں میں گہری نیند میں چلے جاتے۔ان کے اٹھتے ہی گھر بشاشت سے مہک اٹھتا۔ گھر کا سودا سلف واپسی پر ہی لیتے آتے۔اس کے بعد سوائے نماز کے وہ ہمارے ساتھ ہی ہوتے۔ان کے ہونے سے رونق ہوتی۔ اداسی کا ماحول ہمارے گھر کبھی نہیں رہا۔امی ہمیں ڈانٹتی تو بات مذاق میں بدل دیتے۔ گھر کا بھرم اور سکون اتنا تھا کہ میری سہیلیاں پریشانی میں میرے گھر کا رستہ لیتیں ۔کہ یہاں سکون ملتا ہے۔ان کے لئے ہمارا گھر آئیڈیل تھا ۔میں ان کی بات پر حیران ہوتی۔اور سوچتی۔ایسا کیا ہے ہمارے گھر میں کہ تمام محلے والے گھریلو جھگڑوں کا حل بھی یہاں پاتے ہیں۔کئ طرح کا رزق برستا اور بٹتا تھا ہمارے گھر میں،سکینت کا ،محبتوں کا،کشادہ دلی اور اپنائیت کا،خوش دلی ،اطمینان،
اور یقین محکم کا،اعتبار اور احساس کا ،نیک نامی اور حیا کا،مروت اور مان کا، بے غرضی اور خلوص کا،عزت اور سیرگی کا،صبر وشکر کا ،صدق وسچا ئ اوروفاکا ۔یہ رزق کی مختلف شکلیں تھیں ۔ان سب کا رزق ہونا بھی ابو نے ہمیں بتایا۔رزق صرف مال نہیں ۔اچھی سوچ، اچھا عمل ، نیک ارادہ، بانٹنے کی توفیق ،صحت، عزت ،علم،نیکی، دردمندی ، احساس،احسان ،دل کی کشادگی،توبہ کی رغبت، نیک کام کی کشش ،اتفاق و اتحاد اچھے دوست، نیک ساتھی ،پرخلوص رفاقت یہ سب رزق کی شکلیں ہیں اور صلاحیتیں او مہارتیں بھی اعلی درجے کا رزق ہیں۔ بہت قیمتی مال سے کہیں زیادہ ضروری۔مال تو رزق کی شکلوں میں ایک ادنیٰ شکل ہے ۔ امی اس رزق کو سنبھالتے اور بانٹتے نہ تھکتیں۔ذرہ جو ضائع جانے دیتی ہوں ۔
مجھے وہ رازسمجھ آیا ہے۔جس کے سبب رزق کے دریا بہتے رہے اور ہم سیر ہوتے رہے۔آپ کو راز بتاتی لیکن تھوڑے انتظار کے بعد۔۔۔
تین سال پہلے کی بات ہے۔کتب میلے کا دوسرا دن تھا ۔آج خاص طور پر آمد جامعہ المحصنات کی لائیبریری کتب کے لیۓ تھی۔ایک اسٹال پر کافی کتب مل گئیں۔پانچ ہزار کی کتب تھیں ۔رسید بناتے بک اسٹال والے نے سوال کیا۔باجی رسید پرکتنے لکھوں؟میں سمجھی مزید کم کرنے لگا ہے۔ساتھی بھی میرے جیسی تھی کہنے لگی۔جتنا کم کر سکتے ہیں کر دیں ۔صدقہ جاریہ ہوگا آپ کے لئے۔وہ حیران ہوا۔ باجی رسید کی بات کر رہا ہوں۔ کیوں کہ لوگ جب کسی ادارے کے لئے بکس لیتے ہیں تو زیادہ لکھواتے ہیں۔اب حیران ہونے کی باری ہماری تھی۔ دل چاہا سب وہیں چھوڑ چھاڑکر بھاگ لیں۔
کچھ دنوں پہلے ایک پڑوسن سے ملاقات ہوئی کہنے لگی ۔بیٹا جعل میں ہے۔لاکھوں کا کاروبار تباہ ہو گیا۔بہو بچا کھچا سمیٹ کر بچوں کو لیۓ میکے چلی گئی۔ کوئی وظیفہ بتا دیں۔ میں نے سوال کیا کہیں رزق میں حرام کی آمیزش تو نہیں ہو ئ ۔کہنے لگی ۔مسئلہ یہی سے شروع ہوا ۔مزید کی ہوس میں جب سے حلال حرام کا فرق چھوٹا۔سب کچھ جاتا رہا ۔رحمت ، برکت ، عزت ،غیرت سب کچھ ۔میرا جواب تھا ۔سچی توبہ کریں۔یہی وظیفہ ہے۔
ہاسپٹل میں ایک محترمہ سے ملاقات ہوئی۔انتہائ پریشان تھیں۔حوصلہ دیا تو کہنے لگیں۔صبر کہاں کہاں کروں ۔لڑکے تینوں نشہ کرتے ہیں۔شوہر پاگل ہےاسے اپنا بھی ہوش نہیں۔سب کچھ بک چکا ۔گھر میں تنکا نہیں ۔وہ تو شکرہے بھائی نے گھر دیا ہوا ہے۔
یہ سب ہوا کیسے ؟ اس کا بوجھ کم کرنے کو پوچھا ۔کہنے لگی ۔سچ بولوں گی۔میری نندوں کی آہ کھا گئی۔۔۔ہوا دراصل یہ تھا۔کہ ان کے شوہر اپنے والد کا کاروبار سنبھالتے تھے۔ان کی رحلت کے بعد دھوکے سے سب اپنے نام کر لیا۔بہنوں کے تقاضہ پر بھی کچھ نہ دیا۔بلکہ انھیں دھکے دے کر باہر نکال دیا ۔اولاد بری صحبت میں پڑ گئی ۔خبر تب ہوئی جب معاملہ بگڑ چکا تھا ۔پھر کیا ہوا سوچا جا سکتا ہے۔ا ن حالات میں شوہر ہوش وخرد سے بے گانہ ہو گئے۔میں نے کہا اماں اللہ معاف کر نے والا ہے۔کہنے لگیں ہاۓ اب کچھ نہیں ہوسکتا۔ کچھ ممکن نہیں۔
اللہ رب العزت کے حلال و حرام کے نظام میں کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ اس تفریق کا اثر صرف آخرت میں ہی نہیں دنیا میں بھی ہوتا ہے۔بلکہ نسلوں تک میں اتر جاتا ہے۔رزق حلال کھانےسےدل کشادہ ہوتاہے۔ذہن وفکر میں تازگی آتی ہے۔اتمنان قلب نصیب ہوتا ہے۔اچھائ اور بھلائی کی طرف رغبت پیدا ہوتی ہے۔اللہ کا قرب اور دعاؤں کو قبولیت ملتی ہے۔انسان دو اور دو چار کی گنتی میں سمجھتا ہے نقصان میں ہے ۔لیکن یہ وہ بیج ہے جس سے تناور درخت بنتا ہے ۔اور نسلوں کو پھل اور سایہ ملتا ہے۔قرآن کریم کی ذہنی انقلاب بپا کر دینے والی آیت
"عین ممکن ہے تم جسے ناپسند کرتے ہو وہ تمھارے حق میں بہتر ہو" خبر دیتی ہے۔کہ ما لک کو پتہ ہے کیا اچھا ہے۔اور کونسا وقت مناسب ہے۔
بے بہا سکینت دنیاوی اثر ہی کی ایک شکل ہے۔ ۔۔۔
جبکہ لقمہ حرام فکری اور ذہنی لحاظ سے قیامت بپا کرتا ہے ۔ امیدیں مرتی اور مایوسی پنجے گاڑھتی ہے۔نۓ راستے نئ منازل کے سرے نہیں ملتے ۔ذہن محدود ہو جاتاہے۔نفسیاتی بیماریاں جڑیں بنانے لگتی ہیں۔آپ ہزار جسٹی فیکیشن دیں ۔لیکن ضمیر چین نہیں لینے دیتا۔اللہ سے تعلق ختم ہوتا ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ لقمہ حرام کھانے والے کی چالیس دن دعا قبول نہیں ہوتی ۔دعا ہی ہے جو خالق اور مخلوق میں تعلق کی سب سے بڑی صورت ہے ۔اول تو رزق حرام سے اسکی توفیق ہی چھن جاتی ہے۔ اگر مانگنا مل جائے تو حلق سے نیچے نہیں اترتی ۔لقمہ حرام کا پھل گلٹ کی صورت آپ کے ساتھ چمٹ کر آپ کے حواس کو مفلوج کر دیتاہے۔اور اگر آپ توبہ نہ کریں تو آپ کو اندر سے کھا جاتا ہے۔جب یہ بوجھ حد سے بڑھ جاۓ۔تو پاگل پن کا مرض بن جاتاہے۔
بقول شاعر
جہان تازہ کی افکار تازہ سے ہے بمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
یہی وجہ ہے۔کہ اللہ رب العزت نے صرف حرام سے ہی نہیں ۔مشتبہات سے بھی بچنے کا حکم دیا ۔حدیث مبارک میں ہے "۔جو چیز تمھیں شک میں ڈالے اسے چھوڑ دو۔"
حلال حرام کے نظام میں انسان ہر مقام پر اللہ کی مرضی جاننے کو اولیت دیتا ہے۔یہ رکنا اور پھر اللہ کی چاہت کو اختیار کرنا ۔اسے اعتماد اور یقین کے آسمان پر پہنچا دیتا ہے۔اگلی منزل کی طرف وہ اس حال میں بڑھتا ہے۔کہ کائنات کی سپر پاور اس کے ساتھ ساتھ ہوتی ہے۔
بقول جاوید اقبال حرام سے فکری عمل منفی ہو جاتا ہے۔بانو قدسیہ نے اپنے ناول راجہ گدھ میں حلال و حرام کے اس فلسفے کو مؤثر انداز میں بیان کیا ہے۔
اسلام میں مادے کامحدود مقام ہے۔صرف استعمال کی ایک چیز ۔یہ قدر نہیں ہے۔ فتنوں میں مال کے فتنے کا بار بار تذکرہ ہے۔ اور بچنے کی تاکید اور طریقےبھی بتائے گئے ہیں ۔
مال کی محبت میں اندھا ہوکر انسان انسانیت کے سبق بھول جا تاہے۔حدیث مبارکہ میں ہے۔
"بندہ مومن اس وقت تک متقی نہیں ہو سکتا جب تک کہ کھٹکا پیدا کرنے والی چیز کو بھی ترک نہیں کرتا۔"
میرے ابو جی کی فکر ہمیشہ مال حرام کے ذرےسے بھی بچنے کی رہی۔مجھے ابھی تک یاد ہے ۔میں تین سال کی تھی ۔گلی میں کھیلتے ہوئے۔ایک پیسہ اٹھا لائ۔ابو جی میرے ساتھ گۓ ۔اور اسے جہاں سے اٹھایا تھا وہاں پھنکوایا ۔اور کہا ۔بچے یہ آگ تھی۔جسے آپ نے پھینکا ہے۔اس کے بعد کتنا ہی عرصہ پیسوں کو میں آگ کہتی رہی۔
انھیں یقین تھا۔ان کے حصہ کا کچھ بھی کہیں نہیں جا سکتا۔ ان کے ساتھیوں کی پیجارو کے درمیان انکی بائیک ایک شان بے نیازی سے کھڑی ہوتی۔ایک اور بات جو ان کی نمایاں تھی۔بچپن میں دادی کی خدمت کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ابو جی اسکول سے سیدھا اپنی دادی کے پاس جاتے۔بستہ رکھتے صابن سے ہاتھ دھوتے پاؤں دھوتے کنگھی کرتے ۔انھیں کھانا کھلاتے۔وہ ضعیف تھیں ۔ان کا سر اور ٹانگیں دباتے۔یہ سب اپنے دل کی لگن سے کرتے ۔روزانہ ان کے پیار اور دعاؤں کی دولت سے لدے پھدے گھر جا تے۔والدین کی خدمت اور دعائیں بھی انھوں نے بے حد سمیٹیں۔ دادی جان کی جان تھے وہ۔ابا جان جب کراچی آگئے۔وہ شاعری میں اپنے جذبات لکھوا کر بھیجتیں ۔یہ بھی شاعری میں جواب دیتے۔ماں بیٹے کے شاعرانہ جذبات خاندان بھر کو ازبر تھے ۔کئ اشعار مجھے بھی یاد ہیں ۔ یہ دو باتیں وہ راز ہیں ۔جنھوں نے انکی زندگی سکینت سے بھرے رکھی.انھوں نے لوگوں کی باتوں کی کبھی پرواہ نہیں کی۔کہتے رب راضی تے سبھ راضی۔ جہاں اللہ کا حکم آتا کہتے بس اب اس پر کوئی بات ہو ہی نہیں سکتی۔اور وہ اس حال میں رخصت ہوئے کہ دنیا کے سارے معاملات کلئیر کر چکے تھے۔معافی تلافی سب معاملے صاف تھے۔اور وہ رب سے ملاقات کے لئے تیار اور بہت سے خزانے سمیٹ لے گئے۔جن پر بات کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔