محترم والدین!ایک گزارش !!!
ہمارا یہ معاشرہ جس تیزی سے اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو رہا ہے۔ وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ لیکن اس اخلاقی گراوٹ کے ذمہ دار کسی حد تک والدین اکرام بھی ہیں۔جو اپنے بچوں کو دنیا کی ایسی درسگاہوں میں داخل کرتے ہیں جو مکمل طور پر مغربی ماحول اور تعلیم سے رنگے ہوئے ہوتے ہیں۔ نتیجتاً ہمارے معصوم بچوں کے ذہن اس کا شکار ہو جاتے ہیں
ٹارزن آدھا ننگا رھتا ھے،
سنڈریلا آدھی رات کو گھر آتی ہے،
پنوکیو ہر وقت جھوٹ بولتا ہے،
الہ دین چوروں کا بادشاہ ہے،
بیٹ مین 200 میل پر گھنٹہ ڈرائیو کرتا ہے،
رومیو اور جولیٹ محبت میں خود کشی کر لیتے ہیں،
ہیری پوٹر جادو کا استعمال کرتا ہے،
مکی اور منی محض دوستی سے بہت آگے ہیں،
(سلیپنگ بیوٹی )افسانوی کہانی جس میں شہزادی جادو کے اثر سے سوئی رہتی ہے ایک شہزادے کی kiss ہی اسے جگا سکتی ہے۔
ڈمبو شراب پیتا ہے، اور تصورات میں کھو جاتا ہے،
سکوبی ڈو ڈراؤنے خواب دیتا ہے،
اور سنو وائٹ 7 اشخاص کے ساتھ رہتی ہے،
تو ہمیں حیران نہیں ہونا چاہئے کہ بچے بدتمیزی کرتے ہیں، وہ یہ سب کہانیوں اور کارٹونز سے حاصل کرتے ہیں جو ہم انہیں مہیا کرتے ہیں،
اس کی بجائے ہمیں انہیں اس طرح کی کہانیاں پڑھانی چاھئیں،
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نہ ختم ہونے والی خدمت اور وفاداری،
عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بردباری اور عدل وانصاف سے پیار،
عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا شرم و حیا کا معیار،
علی رضی اللہ عنہ کی ہمت اور حوصلہ دکھائیں،
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی برائی سے لڑنے کی خواہش،
فاطمہ رضی اللہ عنہا کا اپنے والد کے لئے پیار اور ادب،
صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کی وعدہ کی ہوئی جگہ کے لئے فتح،
اور سب سے زیادہ ہمیں اللہ، قرآن کریم اور سنت سے پیار، محبت سے پڑھانا چاہئے، سب سے اہم پہلو یہی ہے،
اور پھر دیکھیں تبدیلی کیسے شروع ہوتی ہے! ان شاء اللہ
ہم اپنے دینی تقاضوں کو سمجھتے بھی ہیں لیکن دوسری طرف دنیاوی ترقی کے لئے ان باتوں کو ناگزیر بھی سمجھتے ہیں۔بدقسمتی سے ہم اس راہ پر گامزن ہیں جو مکمل تباہی کی طرف جاتا ہے۔
محترم والدین! اپنے بچوں کو بڑا آدمی بننے سے پہلے بڑا انسان بننے کی تعلیم دیجئے۔
آج آپ ان کی پرورش ٹھیک کریں گے تو کل کو نئی نسل آپ کو شرمندہ نہیں کرے گی۔ انشاء اللہ
اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے اور جب اس نے ہمیں مسلمان بنایا ہے تو ہمیں واقعی مسلمان رہنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
No comments:
Post a Comment