March 21, 2022

خوارزم شاہ کا شیر۔۔۔سلطان جلال الدین خوارزم شاہ


 ضلع اٹک میں دریائے سند ھ کے کنارے ایک علاقہ ہے جسے ’’باغ نیلاب ‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے۔ نیلاب کے ایک طرف تو دریائے سندھ کا ساحل ہے اور دوسری طرف پہاڑی سلسلہ۔ قریب ہی دریائے کابل اور دریائے سندھ کا سنگم ہوتا ہے۔ پہاڑی سلسلے اور ساحل کے درمیان وسیع وعریض میدان ہے ۔نیلاب اسی میدان کا تاریخی نام ہے ۔
24نومبر 1221 ؁ء بروز بدھ، دن کا آخری پہر ہے، نیلاب کا میدان لاشوں سے اٹا پڑا ہے ،ہر سمت انسانی اعضاء ڈھیریوں کی صورت میں نظر آرہے ہیں ، زخمیوں کی آہ و بکا سے کان پڑی آوازیں سننا دشوار ہے۔آسمان پر منڈلاتے گدِھوں کے غول جگہ جگہ گھومتے بغیر سواروں کے گھوڑے کہ جن کے سوار قتل ہوچکے ہیں، بکھری ہوئی شمشیریں اور ڈھالیں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ تاریخ اسلام کا ایک عظیم الشان معرکہ آج اس میدان میں پیش آیا ہے۔
مگر یہ معرکہ ابھی ختم نہیں ہوا ،ساحل کے ساتھ جہاں پہاڑی سلسلہ ختم ہوتا ہے وہاں اب بھی شمشیریں میان سے باہر ہیں ،گھوڑے پر سوار ایک آہن پوش جواں مرد اب بھی دشمن سے مدمقابل ہے۔شمشیرزنی کا مقابلہ جاری ہے۔ سوار اگرچہ مکمل طور پر جنگی لباس میں ہے مگر اس کی وجاہت،دلیری اور اس کے گرد موجود حفاظتی دستہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ سوار اپنے لشکر کا سالار ہے۔ دفعتاًقریب موجود خیموں میں سے ایک عورت نکل کر چلاتی ہے ’’جلال! جلال! تجھے اللہ کا واسطہ ہمیں قتل کردے جلال ہمیں تاتاریوں کی قید سے بچا لے ! ‘‘


یہ سالار سلطان جلال الدین خوارزم شاہ ہے! صدیوں پرانی سلطنت خوارزم کا سلطان جو کئی سال سے تاتاریوں سے نبرد آزما ہے ۔جلال الدین نے کئی دفعہ تاتاریوں کے لشکر کو شکست سے دوچار کیا ۔مگر اس دفعہ تاتاریوں کا سالار چنگیز خان بذات خود اس کا مدمقابل ہے ۔چنگیز خان صحرائے گوبی سے یلغار کرتا اور سلطان جلال الدین کا تعاقب کرتا دریائے سندھ کے کنارے اس وقت سلطان سے برسرِ پیکارہے۔
شاہی خیمہ سے پھر اس عورت کی صدا آتی ہے ،یہ خاتون سلطان کی والدہ ہیں اور خیمہ میں سلطان کی ازواج اور شاہی خاندان کی دیگر عورتیں اور بچے ہیں ۔انہیں نظر آرہا ہے کہ سلطان جلال الدین کو شکست ہوچکی ہے اور وہ مٹھی بھر سپاہیوں کے ساتھ تاتاریوں سے زیادہ دیر تک نہیں لڑسکتا ۔شاہی خواتین چنگیز خان کی قید میں جانے سے مرجانا زیادہ بہتر سمجھتی ہیں ۔سلطان شش و پنج میں مبتلا ہے کہ خونی رشتہ داروں کو اپنے ہاتھ سے وہ کس طرح موت سے ہمکنار کرے۔ سلطان کے محافظ سپاہیوں کی تعداد گھٹتی جارہی ہے اور تاتاریوں کا گھیرا تنگ سے تنگ ہوتا جارہا ہے، سامنے ہی ظلم اورو ستم کا نشان بنا چنگیز خان موجود ہے اور وہ اس آخری معرکہ آرائی کو دلچسپی سے دیکھ رہا ہے۔ اس کا حکم ہے کہ سلطان کو زندہ گرفتار کیا جائے اسی لئے تاتاری سپاہی سلطان کو تھکا کر گرفتار کرنا چاہتے ہیں ۔
شاہی خیمہ سے سلطان کی والدہ کی صدا ایک دفعہ پھر بلند ہوتی ہے۔ اس دفعہ سلطان جلال الدین فیصلہ کرلیتا ہے۔ وہ شاہی خیموں کی طرف بڑھتا ہے اور پھر تاریخ ایک عجیب منظر دیکھتی ہے۔ سلطان شاہی خواتین کوجس میں اس کی والدہ اور بیویاں شامل ہیں یکے بعد دیگرے دریائے سندھ کی موجوں کے سپرد کر دیتا ہے ۔
اہل و عیال سے بے پرواہ ہو کر سلطان ایک بار پھر تاتاریوں کی افواج سے نبرد آزما ہوجاتا ہے ۔اس کے ساتھیوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے ۔تاتاری سپاہ کا گھیرا تنگ ہوچکا ہے۔سلطان کے پیچھے دریائے سند ھ کی موجیں اپنی جولانی دکھارہی ہیں ۔سامنے کی طرف سے تاتاریوں کا لشکر سیلاب کے مانند بڑھتا چلا آرہا ہے ۔ سلطان لبِ دریاچٹانوں کی بلندی پر چڑھ جاتا ہے ۔(چنگیز خان کا منشی عطاء الملک الجوینی لکھتا ہے کہ اس مقام پر دریا کی گہرائی بہت زیادہ تھی) چٹان پر موجود جلال الدین اپنا تھکا ماندہ گھوڑا تبدیل کرتا ہے ،تیر اندازوں سے محفوظ رہنے کیلئے ڈھال کمر پر لٹکا لیتا ہے ،نیزہ، ترکش اور کمان ساتھ لیتا ہے ایک مسکراتی نگاہ چنگیز خان کی طرف ڈالتا ہے جو سلطان کو زندہ گرفتار کرنے کی فکر میں ہے۔ اس سے پہلے کہ چنگیز خان سلطان کا ارادہ بھانپ لے سلطان گھوڑے کو چابک رسید کرتے ہوئے خطرناک بلندی سے دریا سندھ کی سرکش اور تیز و تند موجوں میں چھلانگ لگا دیتا ہے !
موجوں میں گرجدار آواز پیدا ہوتی ہے ،پانی کئی فٹ اوپر اچھلتا ہے ،چند ثانیوں کیلئے سلطان پانی میں غائب ہو جاتا ہے مگر اگلے ہی لمحے سلطان جلال الدین گھوڑے کی پشت سے چمٹا نظر آتا ہے ۔نومبر کا مہینہ ہے، دریا کا پانی یخ بستہ ہے، اوپر سے سلطان کا جسم زخموں سے چور ہے مگر سلطان کمال ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے گھوڑے کی پشت سے چمٹا رہتا ہے ۔وفادار گھوڑا اپنے سوار کو لے کر تیرتے ہوئے کنارے کی طرف بڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔پانی کی لہریں کبھی اسے ساحل کے قریب کردیتی ہیں تو کبھی دور۔ لہروں سے لڑتے ہوئے آخر کار سلطان کا گھوڑا دوسرے کنارے پر پہنچنے میں کامیاب ہوجاتا ہے ۔
کنارے پر پہنچ کر سلطان اپنا نیزہ زمین میں گاڑ دیتا ہے اور ایک نگاہ دوسرے کنارے پر موجود فاتح مگر بے بس چنگیز خان کے چہرہ پر ڈالتے ہوئے ایک قہقہہ بلند کرتا ہے۔ وہ چنگیز خان جس کا نام ظلم اوستم کی علامت ہے ،جس کے کا ن چیخیں اور آہیں سننے کے عادی ہیں ۔ وہ جس سلطا ن کی موت کی تمنا لئے دریائے سندھ تک کا سفر طے کرکے آیا ہے وہ سلطان اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے قہقہہ لگا رہا ہے۔ عجیب منظر ہے، انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنانے کا شوقین چنگیز خان شاید اس سے پہلے اتنا بے بس کبھی نہ ہوا ہو۔ جنگ جیت کر بھی وہ سلطان پر قابو پانے میں ناکام رہا ہے اور سلطان دریا کے دوسرے کنارے پر بیٹھا قہقہہ لگا رہا ہے ۔
چنگیز خان کے منہ سے بے ساختہ نکلتا ہے ’’بیٹا ہو تو ایسا ہو ، وہ باپ بڑا خوش قسمت ہے کہ جس کا بیٹا اتنا بہادر ہے۔‘‘
(چنگیز خان کے یہ جملے اس کے منشی الجوینی اور علامہ ابن خلدون نے اپنی تصنیف میں قلم بند کئے ہیں)
چند جوشیلے سردار چنگیز خان سے تیر کر دریا عبور کرنے کی اجازت طلب کرتے ہیں مگر دریا کی تیزی دیکھتے ہوئے چنگیز خان انہیں منع کردیتا ہے ۔
اوپر تحریر کردہ منظر1221 ؁ ء میں دریا ئے سندھ کے کنارے پیش آنے والے اس جنگی معرکے کو پیش کرتا ہے کہ جس میں سلطان جلال الدین خوارزم شاہ نے دلیری اور جوانمردی کی وہ اعلیٰ مثال قائم کی کہ جس کی نظیر آج تک تاریخ انسانی پیش کرنے سے قاصر ہے ۔بیسیوں فٹ بلندی سے گہرے اور تیز رفتار دریا میں زخمی حالت میں چھلانگ لگانا اور پھر بخیر و عافیت دوسرے کنارے تک زندہ سلامت پہنچ جانا انسانی عقل و شعور سے باہر ہے ۔
سلطان جلال الدین وہ جوان مرد ہے کہ جس نے منگولیا سے اٹھنے والے تاتاری سیلاب کے آگے بند باندھنے کی کوشش کی ، چنگیز خان کی قیادت میں منظم ہونے والی تاتاری وحشی قبائل اس وقت کی آباد دنیا کے تقریباً آدھے حصے کو متاثر کرگئے۔
سلطنت خوارزم :
وسط ایشیاء میں دو بڑے تاریخی اور مشہور دریا بہتے ہیں ’دریائے جیحوں‘ جسے اب’ دریائے آمو‘ کہا جاتا ہے اور دوسرا دریائے’ سیحوں‘ جسے اب ’سیردریا‘ بھی کہتے ہیں۔ ان دونوں دریا ؤں کے درمیانی علاقہ’ ’ماوورا النہر ‘‘کہلاتا ہے ۔ سمر قند، قوقند، بخارا اور ترمذ جیسے مشہورتاریخی شہر اسی علاقے میں واقع ہیں۔اسی دریائے آمو کے کنارے موجودہ ازبکستان میں’ اورگنج‘ نام کا شہر بھی آباد ہے ۔یہی اور گنج سلطنت خوارزم کا درالحکومت تھا۔
سلطنت خوارزم کی تاریخ سکندر اعظم سے بھی تقریباً ہزار سال پرانی ہے۔یعنی خوارزم شاہ کا لقب سکندر اعظم سے بھی قریباً ہزار برس قدیم ہے ۔
زمانہ اسلام میں اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے سپہ سالار فاتح ترکستان ‘قتیبہ بن مسلم باہلیؒ کے ہاتھوں سلطنت خوارزم اسلامی مملکت میں شامل ہوئی ۔خوارزم کے حکمران خلافت اسلامیہ کے صوبے دار یا گورنر کی حیثیت رکھتے تھے۔ امویوں کے بعد سلطنت خوارزم عباسیوں کے ماتحت آگئی ۔عباسیوں کے دور زوال میں جب بغداد کا خلیفہ کمزور ہوگیا اور مملکت اسلامیہ کے علاقے یکے بعد دیگرے خود مختاری کا اعلان کرنے لگے تو خوارزم شاہ نے بھی اپنی خودمختار حیثیت کا اعلان کردیا۔ بغداد کی مرکزیت سے الگ ہوجانے کے بعد خوارزم کے حکمرانوں نے آس پاس کے علاقے فتح کرنا شروع کردیئے ۔ خلافت عباسیہ کے علاقے جو مرکز کمزور ہونے کے سبب آزاد ہوگئے تھے وہ رفتہ رفتہ سلطنت خوارزم میں شامل ہوتے گئے ۔خوارزم کی سرحدیں وسیع ہوتی چلی گئی اور آخر کار1200 ؁ء میں سلطان علاؤالدین محمد شاہ کے خوارزم شاہ بن جانے کے بعد سلطنت خوارزم کی سرحدیں تیزی سے وسیع ہونے لگی ۔ماورا النہر کے اکثر علاقے جن میں سمر قند، بخارا، قوقند، ترمذ، بلخ، تاشقند اور فرغانہ وغیرہ شامل تھے اورگنج کی سلطنت کے اندر آگئے۔ علاؤ الدین محمدخوارزم شاہ نے ترکان خطاء کے خلاف عظیم کامیابی حاصل کی ۔اسی طرح سلجوقی ترکوں کی مقبوضات بھی خوارزم شاہ کے پاس آگئیں۔ ادھر افغانستان کی غوری سلطنت کاسلطا ن ’شہاب الدین غوری‘ اسمعیلی باطنی فرقہ حسن بن صباح کے فدائیوں کے ہاتھوں شہید ہوگیا ،اس طرح غوری سلطنت انتشار کا شکار ہوگئی اور پھر خوارزم شاہ نے افغانستان پر حملہ کرکے غوری سلطنت پر بھی قبضہ کرلیا۔ پاکستان کے سرحدی علاقوں تک خوازم شاہ کی مملکت پہنچ گئی۔ اسی طرح موجودہ سرحدی اعتبار سے سلطنت خوارزم اپنے زمانہ عروج میں موجودہ ازبکستان، ترکمانستان، تاجکستان، افغانستان، ایران، پاکستان کا صوبہ خیبر پختونخواہ اور صوبہ بلوچستان کے کچھ حصہ پر محیط تھی۔
علاؤ الدین خوارزم شاہ اور خلیفہ بغداد میں چپقلش:
اب سلطان علاؤ الدین خوارزم شاہ نے خلافت عباسیہ کو بھی اپنی سلطنت کا باجگزار بناناچاہا ۔اس نے خلیفہ بغداد کو پیغام بھیجا کہ خوارزم شاہ کا نام جمعہ کے خطبہ میں خلیفہ کے ساتھ شامل کیا جائے اور خلیفہ بغدادسلطنت خوارزم کا مطیع ہوجائے۔
علاؤ الدین خوارزم شاہ کے والد کے زمانے میں بھی خوارزم اور بغداد میں لڑائیاں ہوچکی تھیں مگر اب خوارزم شاہ بغداد کو اپنا مطیع کرنا چاہتا تھا ،اس طرح خلیفہ بغداد اور خوارزم شاہ میں شدید نوعیت کے اختلافات پیدا ہوگئے اور تاریخ نے دیکھا کہ ان اختلافات کے نتیجہ میں مملکت اسلامیہ کے بڑے بڑے شہر تاتاریوں کے ہاتھوں برباد ہوگئے ،لاکھوں مسلمانوں کا خون بہا ،ان کے سروں سے کھوپڑیوں کے مینار بنائے گئے ۔آخر کار نہ خوارزم شاہ بچا اور نہ ہی خلیفہ بغداد ۔ دونوں ہی تاتاریوں کے ہاتھوں نیست و نابود ہوگئے ۔
تاتاری قبائل کی چنگیز خان کی سربرادہی میں یلغار:
کمزور اور ناتواں خلیفہ بغداد کو اپنا رقیب اور دشمن سمجھنے والا علاؤالدین خوارزم شاہ احمق تھا۔ اس کا اصل دشمن تو صحرائے گوبی میں مسلمانوں کا خون پینے کی تیاریوں میں مصروف تھا اور موقع کی تلاش میں تھا۔
چین کے شمالی علاقے میں ایک وسیع و عریض صحرا واقع ہے۔ جسے صحرا گوبی کہا جاتا ہے ۔ اس کا کچھ حصہ منگولیا میں بھی شامل ہے۔ زمانہ قدیم میں اس صحرا میں وحشی اورجنگجو قبائل آباد تھے۔ صحرا کی سختی سے یہ قبائل بہت سخت مزاج ہوگئے تھے۔ آس پاس کے علاقوں میں لوٹ مار اور قتل و غارت گری کرنا انہیں مرغوب تھا۔ چین کی تاریخی خطائی سلطنت کے حکمرانوں نے دیوار چین قائم کرکے انہیں صحرا تک محدود کردیا تھا۔
قبائلی طرز زندگی میں مرکزیت نہیں ہوتی بلکہ طاقت ہی اصل سر چشمہ ہوتی ہے۔ صحرا گوبی میں مغل قبیلہ سب سے طاقتور تھا۔ 1154 ؁ء میں اس قبیلے کے سردار کے گھر ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام تموجن رکھا گیا۔ جوان ہو کر تموجن نے مغل قبیلے کے تمام دشمنوں کو شکست دے دی اور ایک طویل اور صبر آزما جدو جہد کے بعد گوبی اور منگولیا کے آوارہ قبائل کو ایک جھنڈے تلے منظم کرتے ہوئے ان سب کا سردار بن گیا۔ صحرائے گوبی میں واحد علاقہ جو کچھ سر سبز اور شہری بود باش لئے ہوئے تھا وہ قرا قرم کے نام سے مشہور تھا۔ تموجن نے تمام قبائل جن میں مغل، ایغور وغیرہ شامل تھے ان کی سربراہی اور مرکزیت کا اعلان کرتے ہوئے قراقرم کو اپنا دارالحکومت قرار دیا اور چنگیز خان کا لقب اختیار کیا۔
چنگیز خان کا چین پر حملہ اور خطائی سلطنت کا خاتمہ:
چنگیز خان کو علم تھا کہ سرکش منگول صرف اسی صورت میں قابو میں آسکتے ہیں جب انہیں جنگ و جدل میں مصروف رکھا جائے ۔ اسے معلوم تھا کہ اگر انہیں فارغ چھوڑدیا گیا تو وہ آپس میں لڑنے لگیں گے۔ کچھ اس وجہ سے اور کچھ ہوسِ مال و زرکے تحت چنگیز خان نے منگولیا کی حدود سے نکلنے کا فیصلہ کیا۔اس کا پہلا شکار پڑوس میں واقع چین کی خطائی سلطنت بنی۔ کئی سال کی خونریزی کے بعد چین کا شہنشاہ ’’دائی دانگ‘‘ دارالحکومت بیجنگ چھوڑ کر فرار ہوگیا اور چین کا وسیع و عریض ملک چنگیز خان کی مملکت میں شامل ہوگیا۔
چنگیز خان کی سلطنت خوارزم پر نگاہیں:
چین کی فتح کے بعد سلطنتِ قراقرم کی سرحدیں خوارزم کے مسلمان علاقوں کو چھونے لگی تھیں۔ ملک گیری کی ہوس چنگیز خان کو سکون سے بیٹھنے نہیں دے رہی تھی۔ دوسری طرف وہ تاتاری قبائل کو مسلسل جنگ و جدل میں بھی مصروف رکھنا چاہتا تھا۔ چنانچہ اب اس کی نگاہیں سلطنت خوارزم کے علاقوں کی طرف مرکوز ہوگئیں۔ خوارزم کے شہر سمر قند، بخارا، تاشقند اور گنج وغیرہ اس وقت عالم اسلام کی تہذیب اور تمدن کا مرکز تھے۔ علم وہنر میں یکتا افراد دنیا بھر سے ان علاقوں میں اپنے فن کی داد حاصل کرنے آتے تھے۔ تجارت کا مرکز ہونے کے سبب ماورا النہر کے یہ شہر مال و دولت کی فراوانی رکھتے تھے۔ چنگیز خان نے اسی مال و دولت اور ہوس اقتدار کے تحت ان سرسبز و شاداب شہروں کو برباد کردیا۔
1218ء ؁ میں سلطنت قراقرم اور سلطنت خوارزم کے درمیان آزادانہ تجارت اور آمدو رفت کا معاہدہ طے پایا۔ چنگیز خان مسلم علاقوں پر حملہ آور ہونے سے پہلے ان شہروں کے محل وقوع اور جغرافیائی حالات سے مکمل آگاہی چاہتا تھا۔ چنگیز خان کا طریقہ کار یہی تھا کہ جاسوسوں کے ذریعے ان علاقوں سے متعلق مکمل آگاہی حاصل کرلی جائے، جن پر حملہ آور ہونا مقصود ہو۔ تجارت کے معاہدے کے تحت تاجروں کے روپ میں تاتاری جاسوس سلطنت خوارزم میں پھیل گئے اور سلطنت کے جغرافیائی حالات کے بارے میں معلومات قراقرم پہچانے لگا۔
خلیفہ بغداد ناصر الدین کی چنگیز خان کو عالم اسلام
پر حملہ آور ہونے کی دعوت:
اس ساری داستان میں سب سے المناک پہلو خلیفہ بغداد ناصر الدین کا شرمناک کردار ہے۔ اس کی دعوت پر چنگیز خان عالم اسلام پر فوری حملہ آور ہوگیا ورنہ شاید عالم اسلام کو چند عشرے اس بربادی سے بچنے کیلئے مل جاتے۔
تفصیل اس حادثے کی کچھ یوں ہے کہ خوارزم شاہ سلطان علاؤالدین کا خلیفہ ناصر کو اپنی اطاعت کا پیغام دینا اس بات کا غماز تھا کہ وہ خلیفہ ناصر کی اطاعت سے آزاد ہوچکا ہے۔(اس واقعے کی تفصیل پہلے آچکی ہے) اب خلیفہ بغداد کو براہ راست خوارزم شاہ سے خطرہ لاحق تھا۔ چنگیز خان کا خوارزم شاہ سے معاہدہ دوستی بھی خلیفہ ناصر الدین کیلئے باعث پریشانی تھا۔ دوسری طرف خلیفہ کا زبردست جاسوسی نظام اسے بتارہا تھا کہ حقیقت میں چنگیز خان کا معاہدہ دوستی اور تجارت ایک فریب ہے اور اصل میں چنگیز خان کی نظریں سلطنت خوارزم کے شہر پر ہیں۔ خلیفہ ناصر الدین کے جاسوسوں نے اسے یقین دلایا کہ اگر چنگیز خان کو یہ پیغام پہنچادیاجائے کہ خوارزم پر حملہ کرنے کی صورت میں خلافت بغداد غیر جانبدار رہے گی تو وہ خوارزم پر فوراًحملہ کردے گا۔ اور حقیقت بھی یہی تھی کہ چنگیز خان کو مسلمان علاقوں پر حملہ آور ہونے کی صورت میں عالم اسلام کی طرف سے مشترکہ مزاحمت کا شدید خوف لاحق تھا۔
اس پس منظر میں خلیفہ بغداد ناصر الدین نے وہ اقدام اٹھایا جو اس کے منصب کے شایان شان ہر گز نہ تھا۔ خوارزم کے سلطان سے لاکھ خطرہ سہی مگر وہ بہر حال مسلمان حکمران تھا اور اس سے معاملات گفت و شنید سے حل کرنا بہتر تھا۔مگر خلیفہ بغداد نے قراقرم ایک سفارتی وفد روانہ کیا اور ایک خفیہ پیغام چنگیز خان کو بھجوایا کہ اگر وہ خوارزم پر حملہ آور ہوگا تو بغداد کی خلافت اس ضمن میں غیر جانبدار رہے گی۔ یعنی خلیفہ نے چنگیز خان کو عالم اسلام پر حملہ آور ہونے کی دعوت دی اور اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ بغداد کی خلافت جو عالم اسلام کا سیاسی مرکز ہے اس سلسلے میں خاموش رہے گی۔
یہ سفارت کاری بڑے ڈرامائی انداز میں کی گئی۔ چونکہ بغداد کے ایلچی کو قراقرم کیلئے خوارزم کے علاقے سے گزرنا تھا۔ اس لیے خلیفہ کا خفیہ خط جو سلطنت خوارزم کیلئے موت کا پیغام تھا اسے چھپانا ممکن نہ تھا۔ خوارزم کے حکام ویسے ہی بغداد والوں سے مشکوک تھے ۔ اس خفیہ پیغام کو پوشیدہ رکھنے کیلئے عجیب و غریب طریقہ اختیار کیا گیا۔ قاصد کے سر کو مونڈھ دیا گیا اور گنجے سر پر سوئی کو گرم کرکے خلیفہ کا پیغام لکھوایا گیا۔ پیغام کے ساتھ خلیفہ کی مہر کو بھی انگارہ کرکے ثبت کردیا گیا ۔ اس تحریر کو کسی خاص تیل سے چھپا دیا گیا ۔ جب قاصد کے بال اچھی طرح بڑھ گئے تو اسے قراقرم روانہ کردیا گیا۔ اس طرح تاریخ کا یہ خفیہ ترین پیغام چنگیز خان کو پہنچ گیا۔
(اس پورے واقعہ کی منظر کشی قاسم جلالی کے ڈرامے آخری چٹان میں بہت خوبصورتی سے کی گئی ہے۔)
خوارزم شاہ کے ہاتھوں چنگیزی قاصد کا قتل:
ادھر خلیفہ بغداد سازشوں میں مصروف عمل تھا ادھر خوارزم شاہ کی حماقت نے اس سے وہ کام کروادیا جس نے عالم اسلام کے وسیع رقبے پر تباہی و بربادی کی داستانیں رقم کردیں۔تفصیل اس کی کچھ اس طرح ہے کہ تجارتی معاہدے کے تحت قراقرم اور خوارزم کے درمیان تجارتی فاصلوں کی آمد و رفت جاری تھی۔ ادھر اور گنج کے دربار میں خوارزم شاہ کو متواتر خبریں مل رہی تھیں کہ تجارتی قافلوں کی آڑ میں تاتاری جاسوس بھی مملکت خوارزم میں اپنا نیٹ ورک چلا رہے ہیں۔ اسی دوران خوارزم کے سرحدی علاقے اترار کے حاکم ینال خان نے قراقرم سے آنے والے ایک تجارتی قافلے کو جاسوسی کے الزام میں روک لیا۔ اس قافلے میں اکثریت بخارا کے تاجروں کی تھی یعنی یہ قافلہ خوارزم کے رہائشی افراد کا تھا اور قراقرم سے واپس آرہا تھا۔ حاکم اترار نے اورگنج میں خوارزم شاہ کو اطلاع دی۔ خوارزم شاہ نے حکم دیا کہ قافلہ کو گرفتار کرلیا جائے اور جاسوسی کے الزام کی تحقیقات کی جائیں ۔ حاکم اترار ینال خان خوارزم شاہ کا رشتہ دار تھا کچھ اس وجہ سے اور کچھ قافلے میں موجود مال و متاع کے لالچ میں ینال خان نے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے قافلے والوں کو قتل کردیا اور مال و متاع پر قبضہ کرلیا۔
چنگیز خان کو اس واقعے کی اطلاع ہوئی تو اس نے اپنا سفارتی وفد خوارزم شاہ کے دربار میں بھیجا۔ اپنے خط میں چنگیز خان نے سخت احتجاج کرتے ہوئے حاکم اترار ینال خان کی حوالگی کا مطالبہ کردیا۔ مطالبہ نہ ماننے کی صورت میں جنگ کی کھلی دھمکی دی۔ یہ دھمکی سن کر خوارزم شاہ آپے سے باہر ہوگیا۔اس نے کہا کہ مقتول تاجروں کی اکثریت خوارزم کے باشندوں پر مشتمل تھی۔ چنگیز خان کا احتجاج اس بات کا ثبوت ہے کہ ان پر جاسوسی کا الزام غلط نہیں تھا ۔ علاؤالدین خوارزم شاہ نے فہم و فراست سے معاملہ نمٹانے کے بجائے غصے میں آکر چنگیز خان کے قاصد کو قتل کروادیا اور قاصد کے ساتھیوں کی داڑھیاں مونڈھ کر انہیں واپس بھیج دیا۔ قاصد کا قتل بین الاقوامی اصولوں کے تحت حالت جنگ میں بھی جائز نہیں ہوتا۔ قراقرم اور خوارزم اسی وقت حالت امن میں تھے۔ ایسے میں قاصد کو قتل کرکے خوارزم شاہ نے وہ بھیانک غلطی کی جس کا خمیازہ عالم اسلام کو ایک کروڑ مسلمانوں کی قربانی دے کر بھگتنا پڑا۔اس کے نتیجے میں خوارزم کی سلطنت ہی برباد ہوگئی اور تاریخ میں قصہ پارینہ بن گئی۔
چنگیز خان کی یلغار:
قراقرم کے دربار میں چنگیزی وفد شکستہ حالت میں واپس پہنچا اور جب اس نے قاصد کے قتل کی اطلاع چنگیز خان کو دی تو چنگیز خان غصے سے کانپ اٹھا۔ تاریخ جہاں کشائی کا مصنف عطاء الملک الجوینی لکھتا ہے ’’چنگیز خان آگ بگولہ ہوگیا اور پھر تاتاری عقائد کے حساب سے مقدس پہاڑی پر چڑھ گیا اور اپنے فرضی معبور کے سامنے سجدہ ریز ہوگیا۔ اس نے تین دن اور رات اسی طرح گزارے اور پھر نیچے آکر اعلان کیا کہ’’ جس طرح آسمان پر دو سورج نہیں چمک سکتے اسی طرح زمین پر بھی دو شہنشاہ نہیں ہوسکتے!‘‘
چنگیز خان نے خوارزم شاہ کو فوراًپیغام بھیجا، ’’تم نے جنگ کو پسند کیا ہے، اب جو ہوگا سو ہوگا،اور کیا ہوگا؟ یہ خدا کو معلوم ہے۔‘‘
اس طرح عالم اسلام پر تاتاریوں کی یلغار کا آغاز ہوگیا اور ایک قاصد کے قتل کا بدلہ چنگیز خان نے ایک کروڑ مسلمانوں کو قتل کرکے لیا۔
تاتاریوں کی عالم اسلام پر کی جانے والی یہ یلغارتقریباً بارہ سالوں پر محیط ہے۔ چند ایک کے سوا عالم اسلام کے تقریباًتمام بڑے شہر اس کی لپیٹ میں آئے۔مسلمانوں کی لاشوں کے انبار لگائے گئے ۔ ایک کروڑ سے زائد مسلمان کام میں آئے،بڑے بڑے عالم دین ، مجدد، محدث اور مختلف فنون کے ماہر اسی سیلاب بلا خیز کی رو میں بہہ گئے۔ عالم اسلام کا آدھے سے زیادہ رقبہ اس سے متاثر ہوا۔ اتنی بڑی تباہی روئے زمین پر اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔ اتنی بڑی یلغار کا ذکر چند صفحات کے مضمون میں سمونا بہت مشکل ہے۔ اس ذکر کیلئے مستقل کتاب درکار ہے۔ پھر بھی کوشش کرتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ بات سمجھ آجائے۔
تاتاریوں اور علاؤالدین خوارزم شاہ کا ٹکراؤ:
1219 ؁ء میں چنگیز خان نے اپنی سپاہ کو منظم کرنے کا حکم دیا اور ایک لشکر جرار کے ساتھ خوارزم کی سرحدوں کی طرف پیش قدمی شروع کردی۔ مورخین نے چنگیزی لشکر کی تعداد سات سے آٹھ لاکھ تک بیان کی ہے۔ طبقاتِ ناصری میں سات لاکھ جبکہ حافظ ابن کثیر نے آٹھ لاکھ لکھی ہے۔ خوارزم کی سرحدوں کے قریب پہنچ کر چنگیز خان نے ایک لشکر اپنے بیٹے جوجی خان کی سربراہی میں خوارزم کے روایتی راستے سے بھیج دیا اور خود اس عظیم لشکر کو لے کر غیر روایتی اور دشوار گزار راستہ اختیار کیا۔
خوارزم شاہ کا جاسوسی کا نظام ناقص نکلا اور وہ جوجی خان کے لشکر کو چنگیز خان کا لشکر سمجھ کر چنگیز خان کی عسکری چال کا شکار ہوگیا۔ دریائے سیحوں کے پار سطع مرتفع پامیر جو آج کل چین کا مسلم اکثریتی صوبہ سنکیانگ یا کاشغر کہلاتا ہے ‘خوارزم شاہ اور جوجی کا ٹکراؤ ہوگیا۔ خوارزم شاہ کا لشکر چار لاکھ سپاہیوں پر مشتمل تھا اور جوجی خان کے پاس اصل لشکر کا صرف ہر اول دستہ تھا۔ راستے میں جوجی خان کے ساتھ چنگیز خان کا مشہور سالار جبی نویان بھی شامل ہوگیا تھا مگر پھر بھی تعداد کے حساب سے تاتاری اب بھی خوارزمیوں سے بہت کم تھے۔ دوسری طرف چنگیز خان اپنا اصل لشکر لے کر دشوار گزار پہاڑی راستوں سے خوارزم کے وسط کی طرف محو سفر تھا۔ چنگیز خان کا منصوبہ خوارزم شاہ کو سرحدی علاقوں میں الجھا کر کمزور کرنا اور پھر اچانک آندھی طوفان کی طرح خوارزم کے وسطی شہر بخارا پر قبضہ کرنا تھا۔ بخارا کی فتح کے بعد اس نے اپنی مہم کو آگے بڑھانا تھا۔
کاشغر کے میدان میں جوجی خان اور خوارزم شاہ میں معرکہ لڑا گیا۔ اس معرکے سے پہلے جلال الدین خوارزم شاہ جو اسی وقت شہزادہ تھا اس کی سربراہی میں تاتاریوں سے خوارزمیوں کی جھڑپ ہوچکی تھی جس میں خوارزمیوں کا اچھا خاصا نقصان ہوا تھا ۔ بہر حال یہ معرکہ خوارزم شاہ کے حق میں بہت بُرا ثابت ہوا۔ تاتاری اس لڑائی میں بڑی بے جگری سے لڑے اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ تاتاری حملہ آور خوارزم شاہ سے صرف سوگز فاصلے پر رہ گئے مگر جلال الدین ہمت اور بہادری کے ساتھ اپنے والد کو بچا کر پیچھے لے آیا۔ کاشغر کی لڑائی تین دن جاری رہی اور پھر جوجی خان چنگیز خان کی منصوبہ بندی کے تحت پیچھے ہٹ گیا۔ خوارزم شاہ نے اسے تاتاریوں کی شکست سے تعبیر کیا اور اعلان فتح کردیا۔ مگر اس تین روزہ جنگ میں خوارزم شاہ کے دل د دماغ میں تاتاریوں کی ہیبت طاری ہوگئی تھی۔ تاتاری کے خوفناک انداز اور لڑنے کے بے خوف اور نڈر طریقہ کار نے خوارزمیوں کو مبہوت کرکے رکھ دیا تھا۔ وہ انہیں کوئی ماورائی مخلوق سمجھ رہے تھے۔
سقوط سمر قندو بخارا:
کاشغر سے پیچھے ہٹتے ہی چنگیز خان کا ایک تازہ دم لشکر جوجی خان کے پاس پہنچ گیا اور چنگیز خان نے جوجی کو سرحدی علاقے فتح کرنے کا حکم دے دیا۔ جوجی خان سرحدی قلعے فتح کرتا اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کرتا ہوا قوقند پر حملہ آور ہوگیا ۔ قوقند خوارزم کا عظیم الشان شہر تھا۔ اس کا حاکم تیمور ملک تھا جس نے بڑی بے جگری اور دلیری سے قوقند کا دفاع کیا مگر تقدیر کے لکھے کو بھلا کون مٹا سکتا ہے۔
دوسری طرف چنگیزی سالار جبی نویان لشکر سے علیحدہ ہوکر سمر قندکے تاریخی شہر کی طرف حملہ آور ہوگیا۔ ادھر چنگیز خان مرکزی لشکر کے ساتھ بخارا کے عظیم الشان شہر کی طرف بڑھا۔
بخارا، سمر قند، قوقند اترار غرض ہر طرف سے تاتاری یلغار کی خبریں خوارزم شاہ تک پہنچنے لگیں ۔ تاتاریوں سے مرعوب خوارزم شاہ گھبرا گیا اور ایک کے بعد دوسرے شہر سے فرار ہونے لگا۔ اس نے بجائے ایک جگہ رُک کر تاتاریوں کا مقابلہ کرنے کے اپنے لشکر کو سلطنت کے مرکزی شہروں کے دفاع کیلئے پھیلا دیا۔ خوارزم شاہ کا یہ اقدام تباہ کن ثابت ہوا اور خوارزمی ہر محاذ پر شکست کھانے لگے۔ اب خوارزم شاہ کی تلاش میں تاتاری لشکر اس کا پیچھا کرنے لگا مگر خوارزم شاہ نے براہ راست مقابلے سے گریز کیا۔
چنگیز خان کی برق رفتاری کے سبب سال بھر میں خوارزم کی سلطنت کے اکثر علاقے تاتاریوں کے زیر تسلط ہوگئے۔ سمر قند اور بخارا میں تاتاریوں نے مسلمانوں کی لاشوں کے انبار لگا دئیے ۔ کھوپڑیوں کے مینار قائم کئے گئے۔ قوقند اور اترار کا حال بھی یہی ہوا۔ حاکم اترار ینال خان جس نے چنگیزی قافلے کو قتل کیا تھا اسے زندہ گرفتار کرکے چنگیز خان کے حوالے کردیا گیا ‘ جسے بعد میں عبرت ناک انداز میں قتل کردیا گیا۔ خوارزم شاہ کا تمام خزانہ تاتاریوں کے قبضے میں آگیا۔ سب سے بڑھ کر حرم سرا کی خواتین بھی تاتاریوں کے قبضے میں چلی گئیں۔ سب سے برا حشر دارالحکومت اور گنج کا ہوا۔ تاتاریوں نے دریا کا رُخ موڑ کر پورا شہر غرق کردیا۔
تاتاری خوارزم شاہ کی بو سونگھتے پھر رہے تھے خوارزم شاہ نے بھیس بدل کر بحیرہ خزر کے ویران جزیرے آب سکون میں روپوشی اختیار کرلی۔ اسی حالت میں چند ہی دنوں میں وہ انتقال کرگیا اور مرنے سے تین دن پہلے جلال الدین کو اپنا جانشین مقرر کرگیا۔
شہزادہ جلال الدین بطور خوارزم شاہ:
سلطان جلال الدین نے جس وقت حکومت سنبھالی وہ وقت نہایت نازک تھا۔ حکومت سنبھالتے ہی اسے دارالحکومت سے فرار ہونا پڑا۔ اور گنج کے قتل عام میں بارہ لاکھ مسلمان شہید کئے گئے۔ اسی ہنگامے میں جلال الدین کے دو بھائی بھی ہلاک ہوگئے۔ اب جلال الدین خوارزم شاہ نے خراسان کے علاقے کا رُخ کیا۔ بچی کچی سپاہ کو منظم کرنے کے خیال سے خراسان کا علاقہ بہترین تھا کہ یہ علاقے ابھی تاتاری یورش سے محفوظ تھے۔ جلال الدین کو سپاہ منظم کرتا دیکھ کر چنگیز خان نے ان کا پیچھا کرنے کا حکم دیا۔ دوسری طرف تاتاری وحشیوں نے نسا، نیشا پور، مرو جیسے علم و فن کے مراکز برباد کردئے۔ جلال الدین خوارزم شاہ کے تعاقب میں چنگیز خان بذات خود خراسان پہنچ گیا۔ اسی دوران ہرات کا علاقہ بھی تاتاری قبضے میں چلا گیا۔ غرض یہ کہ عجب افرا تفری کے حالات میں جلال الدین خوارزم شاہ نے اپنے والد کے برعکس تاتاریوں کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
افغانستان میں تاتاریوں کو مزاحمت کا سامنا:
اب تاتاریوں کی یورش افغانستان تک پھیل چکی تھی۔ افغانستان کے علاقے میں تاتاریوں کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا‘ کئی قلعے مہینوں کی جنگ کے بعد فتح ہوئے اور کئی ایک پر تاتاریوں کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ اسی دوران قندھار کا معرکہ پیش آگیا۔ جلال الدین کو اطلاع ملی کہ قندھار کے قلعے کا نہایت سخت محاصرہ کیا گیا ہے۔ اہل قندھار کی مدد کرنے کیلئے جلال الدین اپنی سپاہ کو لے کر پہنچ گیا۔ اہل قندھار کے ساتھ مل کر تاتاریوں کو شکست فاش دی اور یہ پہلا موقع تھا کہ حملہ آور تاتاریوں میں سے ایک بھی زندہ واپس نہ جا سکا۔
غزنی بطور مراکز:
قندھارکے معرکے نے مسلمانوں کے حوصلے بلند کردئے۔ اب جلال الدین نے غزنی کے علاقے کو اپنا مرکز بنالیا اور غزنی میں اپنی قوت مجتمع کرنے لگا۔ دوسری طرف طالقان کے شہر پر چنگیز خان بذات خود حملہ آور تھا۔ غزنی کے حالات سن کر اور قندھار کے پسپائی نے اسے برانگلیختہ کردیا۔ اس نے فوراًغزنی کی طرف ایک لشکر جرار روانہ کیا ۔ اس دفعہ جلال الدین نے قلعہ بند ہوکر لڑنے کے بجائے باہر نکل کر تاتاریوں کا مقابلہ کیا۔ تین دن کی گھمسان کی لڑائی کے بعد مسلمانوں کو فتح نصیب ہوگئی اور تاتاری پسپا ہوکر پلٹ گئے۔ جلال الدین کی اس فتح نے اہل افغانستان میں روح پھونک دی ایک طرف تو وہ جوق درجوق غزنی کا رخ کرنے لگے اور دوسری طرف افغانستان کے مفتوح علاقوں میں تاتاریوں کے خلاف بغاوت برپا ہونا شروع ہوگئی۔
پروان کا معرکہ:
غزنی کے معرکے کے بعد خراسان کے علاقے میں پھیلنے والی بغاوت کے نتیجے میں تاتاریوں نے مفتوحہ علاقوں میں قتل عام کرنا شروع کردیا۔ اس قتل عام میں لاکھوں مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔ اسی دوران طالقان میں مقیم چنگیز خان کو جلال الدین خوارزم شاہ نے پیغام بھیجا کہ عام مسلمانوں کو قتل کرنے کے بجائے میرے لشکر کا مقابلہ کرے اور اس کیلئے میدان وہ خود منتخب کرے۔ یہ پیغام چنگیز خان کو آگ بگولہ کرنے کیلئے کافی تھا ۔ اس نے اپنی تمام قوت کو خراسان میں جمع ہونے کا حکم دیا اور پھر اپنے بیٹے تولی خان کو ایک لشکر جرار دے کر غزنی کی طرف روانہ کیا۔
پروان کے میدان میں تولی خان اور جلال الدین کا معرکہ پیش آیا اور آخر کار گھمسان کی لڑائی کے بعد تولی خان قتل ہوا اور تاتاریوں کی بڑی تعداد جلال الدین کی قید میں چلی گئی۔ چنگیزی یلغار کے دوران یہ پہلا موقع تھا کہ مسلمانوں کے ہاتھوں تاتاری گرفتار ہوئے تھے۔
سلطان کے امراء میں پھوٹ:
پروان کی فتح نے مسلمانوں کے حوصلے بلند کردیے تھے۔ تاتاری کے قابل شکست رہنے کا تصور پاش پاش ہوگیا تھا۔ قریب تھا کہ جلال الدین آگے بڑھ کر خود چنگیز خان پر حملہ کردیتا اور اسے خراسان سے دھکیلتا ہوا ماورالنہر کے علاقوں میں لے جاتا مگر قسمت کو یہ منظور نہ تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں مسلمانوں کو اپنوں ہی نے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ اس دفعہ بھی ایسا ہی کچھ ہوا ۔ پروان کے مال غنیمت میں ایک بیش قیمت گھوڑے پر سلطان جلال الدین کے دو نہایت اہم امراء امین الملک اور سیف الدین میں جھگڑا ہوگیا ۔ بات قتل و غارت گری تک پہنچ گئی۔ امین الملک سلطان کا رشتہ دار تھا۔ سیف الدین نے جلال الدین پر اقرباء پروری کا الزام لگاتے ہوئے لشکر اسلام سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ اس نازک موقع پر سلطان جلال الدین گھبرایا اور سیف الدین کو روکنے کی بہت کوشش کی۔ مگر سیف الدین نہ مانا اور اپنی حامی امراء کے ساتھ فوج کا ایک بڑا حصہ لے کر جلال الدین سے الگ ہوگیا۔
جلال الدین خوارزم شاہ کی کمر ٹوٹ گئی۔ اس کی فوج میں پھوٹ پڑ گئی تھی۔ چنگیز خان کو اس کا علم ہوا تو اس نے موقع غنیمت جان کر سلطان پر حملہ کرنے کا حکم دے دیا۔ اس دفعہ چنگیز خان بذات خود اپنا لشکر لے کر نکلا ۔
ساحل سندھ کا تاریخی معرکہ:
قلیل فوج کے ساتھ چنگیز خان کا مقابلہ مشکل تھا۔ جلال الدین نے اس وقت فیصلہ کیا کہ بچی کچی سپاہ لے کر فرار اختیار کیا جائے تاکہ تیاری کا مناسب موقع مل سکے۔ جلال الدین خوارزم شاہ نے باغی امراء کی طرف راہ فرار اختیار کی تاکہ راستے میں ان کو سمجھا بجھا کر واپس ملانے کی کوشش کرے۔ مگر چنگیز خان کی طوفانی رفتار کے باعث اسے ہندوستان کا رُخ کرنا پڑا ۔ چنگیز خان کسی صورت نہیں چاہتا تھا کہ جلال الدین باغی امراء کو ساتھ ملانے میں کامیاب ہو، نہ ہی وہ جلال الدین کو دریائے سندھ پار کرکے ہندوستان میں داخلے کا موقع دینا چاہتا تھا کہ وہ سلطان التمش کے پاس پناہ حاصل کرلے۔ یہی وجہ تھی کہ چنگیز خان برق رفتاری سے جلال الدین کا تعاقب کر رہا تھا۔ دوسری طرف جلال الدین خوارزم شاہ اپنی بچی کچی سپاہ کو بچا کر ہندوستان میں سلطان التمش کے پاس پناہ لینا چاہتا تھا۔
ضلع اٹک کے علاقے میں باغ نیلا ب کے ساتھ دریائے سندھ کے ساحل پر چنگیز خان نے جلال الدین خوارزم شاہ کو جالیا۔ تاتاریوں اور خوارزمیوں میں خوفناک لڑائی لڑی گئی۔ جلال الدین کو اندازہ تھا کہ یہ جنگ اس کی فنا اور بقا کی جنگ ہے ۔ تاتاریوں کے ہاتھوں جلال الدین کا لشکر برباد ہوگیا۔ اس معرکے کی تفصیل شروع میں درج کی گئی تھی۔ 24نومبر1221 ؁ء کو یہ معرکہ پیش آیا جس میں خوارزم شاہ نے جوان مردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دریائے سندھ کو عبور کرلیا باقی تمام سپاہ سوائے چند ایک کے تاتاریوں کے ہاتھوں شہید ہوگئی۔
جلال الدین خوارزم شاہ کا افسوس ناک انجام:
دریائے سندھ عبور کرکے جلال الدین کے چند ساتھی اپنے سلطان کے پاس پہنچ گئے۔ لٹا پٹا یہ شاہی قافلہ دہلی کے سلطان التمش کی طرف چلا۔ ادھر چنگیز خان نے تاتاری لشکر جلال الدین کے پیچھے روانہ کئے مگر وہ ان کی پہنچ سے دور نکل گیا۔ تاتاری لشکر نے ملتان ، لاہور اور پنجاب کے دیگر پر حملہ کردیا۔ تاتاریوں کا ایک اور لشکر بلوچستان کی سمت خضدار کی طرف تباہی پھیلاتا چلا گیا۔ مگر موسم گرما شروع ہوگیا تھا اور ہندوستان کی گرمی منگولیا کے سرد علاقے کے باشندوں کو راس نہیں آئی اور وہ بیمار پڑنے لگے۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے چنگیز خان نے واپسی کا سفر اختیار کیا۔


دوسری طرف التمش نے کھل کر جلال الدین کی حمایت کرنے سے انکار کردیا۔ مجبوراً جلال الدین نے ہندوستان کی چھوٹی چھوٹی ہندو ریاستوں کو فتح کرکے اپنا لشکر منظم کرنا شروع کیا۔ ہندوستان میں چھوٹی سی مملکت بنانے کے بعد جلال الدین نے عراق کا رُخ کرلیا۔ تاتاریوں کے خلاف جلال الدین کی جدو جہد دس سال تک جاری رہی۔ چنگیز خان کا اسی دوران انتقال ہوگیا۔ مگر اس کے جانشین نے مسلمانوں کے خلاف بربادی کا سلسلہ جاری رکھا جو بڑھتے بڑھتے ایران کے شہر قم تک پہنچ گیا۔ عالم اسلام کے خلاف تاتاریوں کی دست درازیاں جاری رہیں اور جلال الدین تنہا اس سیلاب بلا خیزکے آگے بند باندھتا رہا۔ اس نے کئی دفعہ تاتاریوں کیخلاف اتحاد بنانے کیلئے خطے کے دیگر مسلم حکمرانوں کی منت سماجت کی۔ بغداد کے خلیفہ ناصر کو ساتھ ملانے کیلئے وہ خود بغداد جا پہنچا۔ مگر بجائے مدد کرنے خلیفہ بغداد نے جلال الدین کے لشکر پر حملہ کردیا۔ درباری سازشوں اور اپنوں کی غداریوں سے جلال الدین کمزور ہوتا چلا گیا۔ آخر کار 1231 ؁ء میں تاتاریوں کے خلاف دس سال جدو جہد کرکے یہ عظیم مجاہد خاموشی سے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ویرانوں میں بھیس بدل کر روپوش ہوگیا۔ کئی سال تک یہ افواہ پھیلی رہی کہ وہ کسی نا معلوم جگہ پر تاتاریوں کے خلاف منظم ہورہا ہے اور تاتاری اس کی بو سونگھتے رہے مگر جلال الدین پھر دوبارہ کسی کو نظر نہیں آیا۔ بعد میں چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے بغداد پہ حملہ کرکے خلافت عباسیہ کا خاتمہ کردیا اور بغداد کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی نئی داستان رقم کی۔ اس طرح خلیفہ بغداد کی سازش اپنے انجام کو پہنچی

 

March 18, 2022

ہوس کی پجارن ، Mad for Pious Person

 وہ عورت روز اس نوجوان کو دیکھتی لیکن وہ بغیر اس کی طرف دیکھے سر جھکا کر اسکی گلی سے گزر جاتا ، دیکھنے میں وہ کسی مدرسے کا طالب علم لگتا تھا ، لیکن اتنا خوبصورت تھا کہ وہ دیکھتے ہی اسے اپنا دل دے بیٹھی اور اب چاہتی تھی کہ وہ کسی طرح اس پر نظرِ التفات ڈالے ۔ لیکن وہ اپنی مستی میں مگن سر جھکائے زیر لب کچھ پڑھتا ہوا روزانہ ایک مخصوص وقت پر وہاں سے گزرتا اور

کبھی آنکھ آٹھا کر بھی نہ دیکھتا اس عورت کو اب ضد سی ہوگئی تھی وہ حیران تھی کہ کوئی ایسا نوجوان بھی ہوسکتا ہے جو اس کی طرف نہ دیکھے ، اور اسے ایسا سوچنے کا حق بھی تھا وہ اپنے علاقے کی سب سے امیر اور خوبصورت عورت تھی خوبصورت اتنی کہ جب وہ باہر نکلتی تو لوگ اسے بے اختیار دیکھنے پر مجبور ہو جاتے ۔ اسے حیرت تھی کہ جس کی خوبصورتی کو دیکھنے کے لیے لوگ ترستے ہیں وہ خود کسی کو پسند کرے اور وہ مائل نہ ہو، اسکی طرف دیکھنا گوارہ نہ کرے اپنی انا کی شکست اور خوبصورتی کی توہین پر وہ پاگل ہوگئی اور کوئی ایسا منصوبہ سوچنے لگی جس سے وہ اس نوجوان کو حاصل کرسکے اور اسکا غرور توڑ سکے آخر کار شیطان نے اسے ایک ایسا طریقہ سجھا دیا جس میں پھنس کر وہ نوجوان اس کی بات مانے بنا رہ ہی نہیں سکتا تھا

اگلے دن جب وہ نوجوان اس گلی سے گزر رہا تھا تو ایک عورت اسکے قریب آئی اور کہنے لگی بیٹا میری مالکن تمہیں بلا رہی ہے ۔نوجوان نے کہا اماں جی آپ کی مالکن کو مجھ سے کیا کام ہے ، اس عورت نے کہا بیٹا اس نے تم سے کوئی مسلئہ پوچھنا ہے وہ مجبور ہے خود باہر نہیں آسکتی ۔ نوجوان اس عورت کے ساتھ چلا گیا اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ جو عورت اسے بلا رہی ہے اسکا منصوبہ کیا ہے وہ کیا چاہتی ہے وہ تو اپنی فطرتی سادہ دلی کی وجہ سے اسکی مدد کرنے کے لیے اس کے گھر آگیااسکے ذہن میں تھا کہ شاید کوئی بوڑھی عورت ہے جو اپنی کسی معذوری کی وجہ سے باہر آنے سے قاصر ہے نوکرانی نے اسے ایک کمرے میں بٹھایا اور انتظار کرنے کا کہہ کر چلی گئی ، تھوڑی دیر بعد کمرے میں وہی عورت داخل ہوئی نوجوان نے بے اختیار اپنی نظریں جھکا لی کیونکہ اندر آنے والی عورت بہت خوبصورت تھی ، نوجوان نے پوچھا جی بی بی آپ نے کونسا مسلئہ پوچھنا ہے ۔

عورت کے چہرے پر ایک شیطانی مسکراہٹ آگئی اس نے اپنے دل کا حال کھول کر رکھ دیا اور کہا کہ میری سب سے بڑی خواہش ہے کہ میں ایک دفعہ تمہیں حاصل کرلوں نوجوان یہ بات سن کر کانپ گیا اور کہنے لگا اللہ کی بندی اللہ سے ڈرو کیوں گناہ کی طرف مائل ہو رہی ہو ۔اس نے عورت کو بہت سمجھایا لیکن عورت پر تو شیطان سوار تھا اس نے کہا کہ یا تو تم میری خواہش پوری کرو گے یا پھر میں شور مچاؤں گی کہ تم زبردستی میرے گھر میں داخل ہوئے اور میری عزت پر حملہ کیا نوجوان یہ بات سن کر بہت پریشان ہوا ، اسے اپنی عزت کسی بھی طرح محفوظ نظر نہیں آرہی تھی ، اسکی بات مانتا تو گناہ گار ہوتا نہ مانتا تو لوگوں کی نظر میں برا بنتا ۔ وہ علاقہ جہاں لوگ اسکی شرافت کی مثالیں دیا کرتے تھے

وہاں پر اس پر اس قسم کا الزام لگ جائے یہ اسے گوارہ نہیں تھا وہ عجیب مصیبت میں پھنس گیا تھا دل ہی دل میں وہ اپنے اللہ کی طرف متوجہ ہوا اور اللہ سے مدد چاہی تو اس کے ذہن میں ایک ترکیب آگئی اس نے عورت سے کہا کہ ٹھیک ہے میں تمہاری خواہش پوری کرنے کے لیے تیار ہوں لیکن پہلے مجھے بیت الخلاء جانے کی حاجت ہےعورت نے اسے بیت الخلاء کا بتا دیا اس نوجوان نے اندر جاکر ڈھیر ساری غلاظت اپنے جسم پر مل لی اور باہر آگیا ، عورت اسے دیکھتے ہیں چلا اٹھی یہ تم نے کیا کیا ظالم ۔ مجھ جیسی نفیس طبعیت والی کے سامنے اتنی گندی حالت میں آگئے ، دفع ہو جاؤ ، نکل جاؤ میرے گھر سے ۔ نوجوان فورا” اس کے گھر سے نکل گیا اور قریب ہی ایک نہر پر اپنے آپ کو اور اپنے کپڑوں کو اچھی طرح پاک کیا اور

اللہ کا شکر ادا کرتا ہوا واپس مدرسے چلا گیا نماز کے بعد جب وہ سبق میں بیٹھا تو تھوڑی دیر بعد استاد نے کہا کہ آج تو بہت پیاری خوشبو آرہی ہے کس طالب علم نے خوشبو لگائی ہے وہ نوجوان سمجھ گیا کہ اس کے جسم سے ابھی بدبو گئی نہیں اور استاد جی طنز کر رہے ہیں وہ اپنے آپ میں سمٹ گیا اور اسکی آنکھوں میں آنسو آگئے تھوڑی دیر بعد استاد جی نے پھر پوچھا کہ یہ خوشبو کس نے لگائی ہے لیکن وہ خاموش رہا آخر کار استاد نے سب کو ایک ایک کرکے بلایا اور خوشبو سونگھنے لگے ۔اس نوجوان کی باری آئی تو وہ بھی سر جھکا کر استاد کے سامنے کھڑا ہوگیا ، استاد نے اس کے کپڑوں کو سونگھا تو

وہ خوشبو اسکے کپڑوں سے آرہی تھی استاد نے کہا کہ تم بتا کیوں نہیں رہے تھے کہ یہ خوشبو تم نے لگائی ہے نوجوان رو پڑا اور کہنے لگا استاد جی اب اور شرمندہ نہ کریں مجھے پتا ہے کہ میرے کپڑوں سے بدبو آرہی ہے لیکن میں مجبور تھا اور اس نے سارا واقعہ استاد کو سنایا استاد نے کہا کہ میں تمہارا مذاق نہیں اڑا رہا خدا کی قسم تمہارے کپڑوں سے واقعی ہی ایسی خوشبو آرہی ہے جو میں نے آج سے پہلے کبھی نہیں سونگھی اور یقینا” یہ اللہ کی طرف سے ہے کہ تم نے اپنے آپ کو گناہ سے بچانے کے لیے اپنے آپ کو گندگی لگانا پسند کرلیا لیکن اللہ نے اسی گندگی کو ایک ایسی خوشبو میں بدل دیا جو کہ اس دنیا کی نہیں لگتی کہتے ہیں کہ اس نوجوان کے ان کپڑوں سے ہمیشہ ہی وہ خوشبو آتی رہی

 

March 11, 2022

There is not any thing useless دُنیا میں کوئی چیز نکمی نہیں ہے۔

 

اسلام آباد(نیوز ڈیسک) ایک آدمی کا بڑا بیٹا بہت لا ئق اور ہونہار طالب علم تھا لیکن چھوٹا بیٹا اتنا ہی نا لائق تھا۔ جب رزلٹ کا دن آیا تو باپ چھوٹے بیٹے کے پاس گیا اور بولا کہ آپ ابھی تک تیار کیوں نہیں ہوئے آپ کو پتہ نہیں ہے کہ ہم نے آج آپ کا رزلٹ لینے کے لیے آپ کے سکول جانا ہے۔

لڑکا بولا کہ ابو پلیز آپ مت جائیں میں اکیلے چلا جاتا ہوں۔میں بھائی احسن کی طرح لائق فائق تھوڑی ہوں کہ آپ فخر سے میرے ساتھ سکول جا سکیں ۔ آپ کی بھی بے عزتی ہوگی۔باپ مسکرا کر بولا کہ بیٹا مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کا رزلٹ برا ہوتا ہے، میں آپ کا باپ ہوں اور ہر حالات میں ہمیشہ آپ کے ساتھ کھڑا رہوں گا اور آپ مایوس کیوں ہوتے ہو آپ کا اور احسن کا بھلا کیا مقابلہ اور سچ تو یہ ہے کہ دنیا میں کسی بھی دو انسانوں کا آپس میں کبھی کسی قسم کا مقابلہ نہیں بنتا۔جب اللہ نے اس دنیا میں گھاس کا بیج بویا تھا تو وہ اگلے گھنٹے پوری دنیا میں ہری بھری نظر آنے لگی تھی لیکن کیا اللہ نے بانس کا بیج بے وجہ بنایا تھا؟ جب گھاس کا بیج لگایا تو اگلے گھنٹے پوری دنیا ہری بھری نظر آنے لگی اور جب بانس کا لگایا تو پہلے ایک سال کچھ نظر نہیں آیا، پھر دوسرا سال اسی طرح گزر گیا اور کوئی بیل بوٹا نہیں اگا۔ لیکن کیا.اللہ نے بانس کو بے مقصد بنایا تھا یا اس کے بیج بنانا بند کر دیے تھے۔ جب دو سال بعد بانس کا پودہ اگا تو بالکل چھوٹا سا تھا، کمزور۔ لیکن جب بانس کا پودہ بڑا ہوتا ہے تو کتنا خوبصورت لگتا ہے۔ اتنا لمبا اونچا اور مضبوط، پھر اس کے آگے گھاس کی پتیاں کیسی لگتی ہیں۔

تو کسی کا کسی کے ساتھ موازنہ بے مقصد کی باتیں ہیں اور وقت کا ضیاع ہے۔ اس نے اپنے بیٹے کو بہت کم عمری میں ایک بہت قیمتی سبق سکھا دیا تھا کہ دنیا کے کارخانے میں کوئی بھی شے بے مقصد نہیں ہوتی اور کسی کا دوسرے انسان سے کوئی مقابلہ نہیں۔ سب الگ ہیں اور ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوتے ہیں ایسے میں ہر ایک اس دنیا میں ایک انمول رنگ بھرتا ہے اور جو لوگ اپنے بچوں میں اس طرح کے مقابلے بوتے ہیں،اس کا کڑوا پھل ان کی ذہنی بیماریوں کی صورت ساری عمر برداشت بھی کرتے رہتے ہیں۔ اللہ سب کو عقل دے۔

سٹیو جابز کو کون نہیں جانتا؟ ایپل کا فاؤنڈر ۔ ایپل وہ کمپنی جس کے آئی فون ہاتھ میں لے کر ہم اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے ہیں ۔ دنیا کا سب سے زیادہ بکنے والا فون آئی فون ہی ہے۔ سٹیوو جابز نے ایپل کی بنیاد ۱۹۷۶ میں رکھی تھی۔ ایپل دنیا بھر میں بہت مشہور اور معروف تھی اور اس کے فون اور لیپ ٹاپ ہر آرٹسٹ کی پہلی ترجیح ہوا کرتے تھے۔ ایسے میں سٹیوو سے ایک غلطی ہو گئی اور اس نے ایک ایسا پراڈکٹ بنایا جو مارکٹ میں بالکل نہ چل پایا۔ یہ۱۹۸۵ کی بات ہے، اس کی اپنی کمپنی نے اسے ٹیم سے خارج کر دیا۔ پوری دنیا اس بات سے واقف تھی، بجائے اس کے کہ سٹیوو جابز بیٹھ کر اپنے اوپر ترس کھاتا یا اپنی قسمت اور رسوائی کے رونے روتا اس نے ایک نئی کمپنی کی بنیاد ڈال دی۔

اس نے اپنی نئی کمپنی ’نیکسٹ‘ کا آغاز کیا اور اس پر بے انتہا محنت کی۔ اس نے مڑ کر کبھی ایپل کی طرف نہیں دیکھا اور اس کی محنت رنگ لائی، ایپل جب 1997 میں ناکامیوں پر ناکامیوں کا سامنا کر رہی تھی تو انہوں نے سٹیوو جابز کی نئی کمپنی نیکسٹ کو کال کیا اور اس کے ساتھ مرجر کر لیا۔ سٹیوو جابز کو اس کی پرانی جاب واپس دے دی اور اس کے بعد سٹیوو نے آئی فون،آئی پیڈ اور آئی پاڈ جیسے پراڈکٹ بنائے اور مارکٹ میں لانچ کیے۔ آج بچے بچے کے ہاتھ میں آئی پیڈ ہوتا ہے اور ہر آدمی آئی فون لے کر پھرنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔یہ سب سٹیوو جابز کی انتھک محنت اور مستقل مزاجی کے باعث ممکن ہوا ہے۔ سٹیوو کے مزاج کے بارے میں بھی یہ پتہ چلتا ہے کہ اس نے اپنی کمپنی کی بات کو دل پر نہیں لیا تھا اور اس نے اپنے فیل پراڈکٹ کی پوری پوری ذمہ داری قبول کر کے اپنی غلطی کا اعتراف کیا تھا۔ جب اس کی کمپنی نے اس کو دوبارہ جاب آفر کی تو اس نے ناک منہ چڑھاکر ان کو کو انکار نہیں کیا بلکہ یہ سوچا کہ اس کا ذاتی فائدہ اور پوری کمپنی کا فائدہ کس چیز میں ہے۔ انسان جب صرف اپنے بارے میں نہیں بلکہ پوری ٹیم کا سوچ کر چلتا ہے تو کامیابی اس کے قدم ضرور چومتی ہے۔ کوشش کریں کہ سب کو ہمیشہ ساتھ لے کر چلیں۔

اپنے بچوں کو اعتماد دیں۔ اُن کو اُن کے بُرے رزلٹ  کی وجہ سے تعن و تشنیع کرنے کی بجائے  خود اعتمادی جیسی نعمت دیں تا کہ وہ دُنیا میں کامیاب ہو سکیں۔ ہر کسی کی صلاحیتں دوسروں سے مختلف ہوتی ہیں۔ کوئی اچھا استاد بن سکتا ہے۔ کوئی فوجی، پولیس مین۔ سول انجنئیر غرض سب علیحدہ علیحدہ صلاحیت رکھتے ہیں۔ 

March 10, 2022

Unlawful Sexual intercourse, زنا کی اتنی سزا کیوں ہے ؟

 
زنا کی اتنی سخت سزا کیوں؟

کئی بار ذہنوں میں سوال اٹھتا ہے کہ شریعت میں صرف زنا کی سزا ہی اتنی سخت کیوں رکھی گئی.
یہاں جب قرآن کی طرف رجوع کیا تو معلوم ہوا کہ جہاں صرف اللہ کے حق کا معاملہ ہوتا ہے تو اللہ نرمی کا رویہ اپناتے ہیں اور جہاں بندے کا حق اللہ کے حق سے مل جائے تو اللہ پاک سختی اختیار کرتے ہیں.
دو افراد کے زنا کے متاثرین دو فرد ، دو خاندان، دو قومیں، دو گروہ یا دو قبیلے نہیں بلکہ پوری امت ہے.
زنا کی سزا یوں بھی اپنی شدت میں بڑھ کر ہے کہ یہ چھپ کر نہیں بلکہ سرِعام مجمع میں دینی ہے.
اور ہر پتھر جسم پر ایک زخم بنائے گا جب تک جان نہ نکل جائے اس میں حکمت یہ ہے کہ جیسے اس گناہ کے عمل میں اس کے جسم کے ہر ٹشو tissue نے لطف اٹھایا تو اب موت بھی لمحہ لمحہ اور پل پل کی اذیت کے بعد آئے یعنی زانی جب تک اپنے خون میں غسل نہ کرے، اس کی توبہ قبول نہ ہوگی
مگر کیا اللہ پاک اتنے بے انصاف ہیں کہ ایک گناہ کی اتنی بڑی سزا رکھ دی مگر اس سے بچنے کی کوئی ترکیب یا طریقہ نہ سکھایا؟ ایسا نہیں ہے...
اللہ تعالٰی نے اس امت کو اپنے نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے واسطے سے قرآن و حدیث کے ذریعے اس گناہ سے بچنے کے لیے پورا پلان پیش کیا ہے. احکامات کی پوری لسٹ ہے. Do’s اور Dont’s کی مکمل فہرست ہے.
آئیں ان سب کا جائزہ لیں
پہلا حکم:
استیذان یعنی اجازت طلب کرنا
کسی کے گھر یا کمرے میں بلا اجازت مت جاؤ.
بھائی بہن کے ، باپ بیٹی کے ، ماں بیٹے کے کمرے میں جانے سے پہلے اجازت طلب کریں.
شریعت اس طرح ہمیں سکھا رہی ہے.
اور آج اس حکم پر عمل نہ کرنے سے محرم رشتوں میں بھی خرابی آ رہی ہے
گھر میں دو حصے رکھیں
1 پرائیویٹ رومز یعنی ذاتی
2 کامن رومز یعنی عام
پرائیویٹ کمروں میں محرم اجازت لیکر جائیں اور اجنبی بالکل مت جائیں.
تاکہ ایک دوسرے کو نامناسب حالت میں نہ دیکھ لیں. Segregated Rooms یعنی ڈرائنگ روم وغیرہ میں مرد ہی مردوں کو Attend کریں.
عورتیں بالکل مت سرو کریں چاہے کزنز ہوں یا سسرالی رشتہ دار.
مگر المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کزنز کھلم کھلا فی میل کزنز کے کمروں میں جاتے ہیں ، چھیڑ خانی ہو رہی ہوتی ہے ، ہنسی مذاق اور آؤٹنگ چل رہی ہوتی ہے
اور اسی دوران شیطان اپنا وار کر دیتا ہے .
عورتیں یاد رکھیں مرد زبردست اور عورت زیردست ہوتی ہے کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی عورت پاک رہنا چاہے اور مرد اس کو پاک نہ رہنے دے؟
دوسرا حکم
نظر کی حفاظت نظروں کو نیچا رکھیں اور اپنی حیا کی حفاظت کریں.
یہ حکم مرد عورت دونوں کے لئے ہے.
عورتوں کی شادی بیاہ اور مردوں کی بازاروں میں اکثر نظر بہکتی ہے. کوئی مہمان آئے تو عورتیں جھانکتی تاکتی ہیں. باپ، بھائیوں کے دوستوں سے ہنس ہنس کر ملنا اور Serving ہو رہی ہوتی ہے.
جبکہ شریعت تو دیکھنے سے بھی منع کر رہی ہے.
مردوں، عورتوں کی یہ عادت شادی بیاہ میں کھل کر سامنے آتی ہے جب بے حیائی اپنے عروج پر ہوتی ہے.
دو اندھے اگر آمنے سامنے بیٹھے ہیں تو انکو نہیں معلوم کہ سامنے والا کیسا ہے ، کتنی عمر کا ہے.؟
مگر شریعت ایک بینا اور اندھے کو بھی آمنے سامنے بیٹھنےسے منع کرتی ہے جیسا کہ عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ والی حدیث سے ثابت ہے.
عورتوں اور مردوں کو کئی بار مجبوری میں بات بھی کرنی پڑتی ہے جیسے بازار وغیرہ میں.
تب شریعت چہرے پر نظر ڈالنے سے منع کرتی ہے. صرف پردہ کرنا مسئلے کا حل نہیں بلکہ نظر بھی جھکانی ہے.
امام غزالی فرماتے ہیں،
“نظر سوچ کے اندر تصویر لے جاتی ہے، یہ تصویر خواہش میں بدل جاتی ہے اور پھر یہی خواہش بے حیائی کا راستہ دکھاتی ہے. “
اگلا حکم: زینت کو چھپانا
پردہ اور چیز ہے اور زینت اور چیز.
عورت کے اعضائے زینت نماز میں چھپانے والے اعضاء ہیں.
کوشش کریں کہ اس فتنہ کے دور میں محرم مردوں سے بھی زینت والے اعضاء چھپائے جائیں.
اپنے سینے اور گریبان کو خصوصاً ڈھانپیے.
مرنے کے بعد اللہ تعالٰی چار کپڑوں میں عورت کو ڈھانک کر قبر میں بھیجنے کا کہتا ہے.
ہم عورتوں نے زندگی میں دو کپڑوں کا لباس معمول بنا لیا ہے کہ اب تو بوتیکس بھی دوپٹے آرڈر پہ تیار کرتی ہیں.
کیونکہ آج عورتیں تین کپڑے بھی پہننے پر راضی نہیں.
مسلمان عورت کا غیر محرم عورت اور غیر مسلم عورت سے بھی نماز والا پردہ ہے.
یعنی سوائے چہرے، دونوں ہاتھ اور پاؤں کے باقی جسم چھپانا ہے.
مگر یہاں تو ویکس بھی کروائی جاتی ہے اور فیشلز بھی.
مرد حضرات پبلک یا گھر میں شارٹس نہیں پہن سکتے.
گھر کے مرد حیا دار ہوں گے تو گھر کی عورتیں بھی اپنی حیا کو مقدم رکھیں گی.
ورنہ سب سے پہلے بگاڑ گھروں کے ماحول سے شروع ہوتا ہے.
ماؤں اور بہنوں کے نامناسب لباس گھر کے مردوں میں حیا کی کمی کی وجہ بنتے ہیں.
یاد رکھیں
“جب عورت نے اپنے ستر کا خیال نہ رکھا تو محرم محرم کا دشمن بن گیا.
جب اللہ کی مقرر کردہ حدود و قیود کا خیال نہیں رکھا جائے گا تو باپ بیٹیوں کو خود پہ حلال کر لیں گے اور بھائی بہنوں کو خود پر حلال کر لیں گے اور بہنوئی سالیوں کو اور سالیاں بہنویوں کو حلال کر لیں گے
” خدارا اپنے گھروں سے فسق کا ماحول ختم کریں.
اگلا حکم:
بیوہ اور مطلقہ کا نکاح
ان کے نکاح کا مقصد معاشرے کو پاک رکھنا ہے.
کیونکہ بیوہ یا مطلقہ ازدواجی زندگی کے دور سے گزر چکی ہوتی ہے اور ان کے نکاح میں تاخیر یا انکار معاشرے کے بگاڑ کا سبب بن سکتا ہے.
یہ حکم اس مرد کے لیے بھی ہے جس کی بیوی مر جائے یا وہ طلاق دے دے.
یاد رکھیں
شادی پر اصرار وہی مرد کرتا ہے جو پاک رہ کر صرف بیوی سے سکون حاصل کرنا چاہے.
ورنہ معاشرہ بھرا ہوا ہے ایسے غلیظ لوگوں سے جو شادی کو بوجھ سمجھتے ہیں کیونکہ انہیں اس بوجھ کو گلے میں ڈالے بنا بھی سب کچھ مل رہا ہوتا ہے.
اللہ تعالٰی نے اجازت دی ہے کہ ایک سے خواہش پوری نہیں ہوتی تو دو شادیاں کرلو. تین کرلو ، چار کرلو
اور اس میں بیوی کی اجازت بھی شرط نہیں ہاں بیوی کے حقوق پورے کرنا فرض ہے مگر کیا کریں آج کے اخلاقی طور پر دیوالیہ معاشرے کا
کہ جو گرل فرینڈز تو دس دس برداشت کر لیتا ہے مگر بیوی ایک سے دو نہیں.
اسی طرح بیوہ یا مطلقہ کی شادی پہ ایسے ایسے بےشرم تبصرے اور اعتراضات کیے جاتے ہیں کہ خدا کی پناہ.
نکاح میں تاخیر نہ کی جائے
ہم گھروں میں کیبل لگوا کر ، کھلی آزادی دے کر ،
کو ایجوکیشن میں پڑھا کر پھر اپنے بچوں سے رابعہ بصری اور جنید بغدادی بننے کی توقع کریں تو ہم احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں.
دو جوان لڑکا لڑکی جب سکول کالج یونیورسٹی کے آزاد اور “روشن خیال” ماحول میں پڑھیں گے تو انکو تعلق بنانے سے کون روکے گا؟
جب گھروں میں دینی تربیت نہ ہو ، مائیں سٹار پلس کے ڈراموں اور واٹس ایپ اور فیس بک اور کپڑوں کی ڈیزائننگ فیشن میں مگن رہتی ہوں،
اولاد کی سرگرمیوں اور ان کی صحبت سے ناواقف ہوں تو جیسی خبریں آئے دن اخبارات کی زینت بنتی ہیں وہ بعید نہیں.
مگر ہمیں تو یہ سکھایا جاتا ہے کہ جب نظروں میں حیا ہو تو پردے کی ضرورت نہیں.
اس کا تو یہ مطلب بھی بنتا ہے کہ جب نظروں میں حیا ہو تو پھر کپڑوں کی بھی ضرورت نہیں.
یہ اللہ کا اپنے محبوب کی امت پہ خاص احسان ہے کہ اس نے ہم میں پچھلی قوموں کے تمام گناہ دیکھ کر بھی ہمیں غرق نہیں کیا.
ورنہ بنی اسرائیل کے لوگ تو بندر بھی بنائے گئے اور خنزیر بھی.
توبہ کے دروازے بند نہیں اور نہ ہی رب کی رحمت مدھم ہو گئی ہے.
جب اللہ کی محبت اور ایمان کی روشنی دل میں آجاتی ہے تو یہ “ نورٌ علی نورٌ ” ہے
اب ایسے دل میں بےحیائی داخل نہیں ہو سکتی.
ایمان کا نور لینا ہے؟
تو سٹڈی کریں کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی اجمعین کو ایمان کیسے ملا
قرآن مجید اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرت صحابہ کو پڑھیں سمجھیں اور اس پر عمل کریں
اور دین دار نیک صالح لوگوں کی صحبت اختیار کریں
سچی توبہ کریں اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اختیار کریں تو ان شاء اللہ تعالیٰ دلوں کی بے چینی سجدوں کے سرور میں بدل جائے گی .
اور آج میڈیا اور معاشرہ ہمارے ایمان دین اور آخرت کی کامیابی کو بڑی تیزی سے نگلتا جا رہا ہے
آج ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم اس رب العزت کے غلام ہیں یا اپنے نفس کے۔
اگر آخرت کی فلاح چاہیے تو اللہ تعالیٰ کی غلامی میں پناہ لے لیں
اللہ تعالیٰ
ہم سب کو دین کو سمجھنے کی اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین ثم آمین

 

Why The Kids are Disobedient بچے نافرمان کیوں ہوتے ہیں۔

 
محترم والدین!ایک گزارش !!!
ہمارا یہ معاشرہ جس تیزی سے اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو رہا ہے۔ وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ لیکن اس اخلاقی گراوٹ کے ذمہ دار کسی حد تک والدین اکرام بھی ہیں۔جو اپنے بچوں کو دنیا کی ایسی درسگاہوں میں داخل کرتے ہیں جو مکمل طور پر مغربی ماحول اور تعلیم سے رنگے ہوئے ہوتے ہیں۔ نتیجتاً ہمارے معصوم بچوں کے ذہن اس کا شکار ہو جاتے ہیں
ٹارزن آدھا ننگا رھتا ھے،
سنڈریلا آدھی رات کو گھر آتی ہے،
پنوکیو ہر وقت جھوٹ بولتا ہے،
الہ دین چوروں کا بادشاہ ہے،
بیٹ مین 200 میل پر گھنٹہ ڈرائیو کرتا ہے،
رومیو اور جولیٹ محبت میں خود کشی کر لیتے ہیں،
ہیری پوٹر جادو کا استعمال کرتا ہے،
مکی اور منی محض دوستی سے بہت آگے ہیں،
(سلیپنگ بیوٹی )افسانوی کہانی جس میں شہزادی جادو کے اثر سے سوئی رہتی ہے ایک شہزادے کی kiss ہی اسے جگا سکتی ہے۔
ڈمبو شراب پیتا ہے، اور تصورات میں کھو جاتا ہے،
سکوبی ڈو ڈراؤنے خواب دیتا ہے،
اور سنو وائٹ 7 اشخاص کے ساتھ رہتی ہے،
تو ہمیں حیران نہیں ہونا چاہئے کہ بچے بدتمیزی کرتے ہیں، وہ یہ سب کہانیوں اور کارٹونز سے حاصل کرتے ہیں جو ہم انہیں مہیا کرتے ہیں،
اس کی بجائے ہمیں انہیں اس طرح کی کہانیاں پڑھانی چاھئیں،
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نہ ختم ہونے والی خدمت اور وفاداری،
عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بردباری اور عدل وانصاف سے پیار،
عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا شرم و حیا کا معیار،
علی رضی اللہ عنہ کی ہمت اور حوصلہ دکھائیں،
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی برائی سے لڑنے کی خواہش،
فاطمہ رضی اللہ عنہا کا اپنے والد کے لئے پیار اور ادب،
صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کی وعدہ کی ہوئی جگہ کے لئے فتح،
اور سب سے زیادہ ہمیں اللہ، قرآن کریم اور سنت سے پیار، محبت سے پڑھانا چاہئے، سب سے اہم پہلو یہی ہے،
اور پھر دیکھیں تبدیلی کیسے شروع ہوتی ہے! ان شاء اللہ
ہم اپنے دینی تقاضوں کو سمجھتے بھی ہیں لیکن دوسری طرف دنیاوی ترقی کے لئے ان باتوں کو ناگزیر بھی سمجھتے ہیں۔بدقسمتی سے ہم اس راہ پر گامزن ہیں جو مکمل تباہی کی طرف جاتا ہے۔
محترم والدین! اپنے بچوں کو بڑا آدمی بننے سے پہلے بڑا انسان بننے کی تعلیم دیجئے۔
آج آپ ان کی پرورش ٹھیک کریں گے تو کل کو نئی نسل آپ کو شرمندہ نہیں کرے گی۔ انشاء اللہ
اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے اور جب اس نے ہمیں مسلمان بنایا ہے تو ہمیں واقعی مسلمان رہنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)

March 08, 2022

غلطیوں کوتاہیوں پر در گزر کرنا بہت اعلیٰ کام ہے۔


 

ایک بار میں گھر میں داخل ہوا تو دیکھا کہ بیگم کے چہرے کا رنگ خوف سے اڑا ہوا ہے۔ پوچھنے پر ڈرتے ڈرتے بتایا کہ “کپڑوں کے ساتھ میرا پاسپورٹ بھی واشنگ مشین میں دھل گیا ہے۔۔!، یہ خبر میرے اوپر بجلی بن کر گِری، مجھے چند روز میں ایک ضروری سفر کرنا تھا۔ میں اپنے سخت ردعمل کو ظاہر کرنے ہی والا تھا کہ اللہ کی رحمت سے مجھے ایک بات یاد آ گئی، اور میری زبان سے نکلا “کوئی بات نہیں۔۔۔!”اور اس جملے کے ساتھ ہی گھر کی فضا نہایت خوشگوار ہو گئی۔

پاسپورٹ تو دھل چکا تھا، اور اب ہر حال میں اُس کو دوبارہ بنوانا ہی تھا، خواه میں بیگم پر غصے کی چنگاریاں برسا کر اور بچوں کے سامنے ایک بدنما تماشہ پیش کر کے بنواتا، یا بیگم کو دلاسہ دے کر بنواتا، جو چشم بد دور ہر وقت میری راحت کے لئے بے چین رہتی ہیں۔

سچ بات یہ ہے کہ مجھے اس جملے سے بے حد پیار ہے، میں نے اس کی برکتوں کو بہت قریب سے اور ہزار بار دیکھا ہے۔ جب بھی کسی دوست یا قریبی رشتہ دار کی طرف سے کوئی دل دکھانے والی بات سامنے آتی ہے، میں درد کشا اسپرے کی جگہ اس جملے کا دم کرتا ہوں، اور زخم مندمل ہونے لگتا ہے۔

اپنوں سے سر زد ہونے والی کوتاہیوں کو اگر غبار خاطر بنایا جائے تو زندگی عذاب بن جاتی ہے، اور تعلقات خراب ہوتے چلے جاتے ہیں، لیکن “کوئی بات نہیں” کے وائپر سے دل کے شیشے پر چھائی گرد کو لمحہ بھر میں صاف کیا جاسکتا ہے، اور دل جتنا صاف رہے اتنا ہی توانا اور صحت مند رہتا ہے۔

بچوں کی اخلاقی غلطیوں پر تو فوری توجہ بہت ضروری ہے، لیکن ان کی چھوٹی موٹی معمولی غلطیوں پر “کوئی بات نہیں” کہہ دینے سے وه آپ کے دوست بن جاتے ہیں، اور باہمی اعتماد مضبوط ہوتا ہے۔ بچہ امتحان کی مارک شیٹ لے کر سر جھکائے آپ کے سامنے کھڑا آپ کی پھٹکار سننے کا منتظر ہو، اور آپ مسکراتے ہوئے سر پر ہاتھ پھیر کر فرمائیں “کوئی بات نہیں، اگلی بار اور محنت کرنا، چلو آج کہیں گھومنے چلتے ہیں” تو آپ اندازه نہیں کر سکتے کہ بچے کے سر سے کتنا بھاری بوجھ اتر جاتا ہے، اور ایک نیا حوصلہ کس طرح اس کے اندر جنم لیتا ہے۔

میں نے اپنے بچوں کو کچھ دعائیں بھی یاد کروائی ہیں، ساتھ ہی اس جملے کو بار بار سننے اور روانی کے ساتھ ادا کرنے کی مشق بھی کرائی ہے۔ میرا بار بار کا تلخ تجربہ یہ بھی ہے کہ کبھی یہ جملہ بروقت زبان پر نہیں آتا، اور اس ایک لمحے کی غفلت کا خمیازه بہت عرصے تک بھگتنا پڑتا ہے، طبیعت بدمزہ ہو جاتی ہے، اور ایک مدت تک کڑواہٹ باقی رہتی ہے۔ تعلقات میں دڑار آجاتی ہے، اور برسوں تک خرابی باقی رہتی ہے، اس لئے ضروری ہے کہ یہ جملہ یاد داشت کا حصہ بننے کے بجائے شخصیت کا حصہ بن جائے۔ ان شاءالله
وقفے وقفے سے پیش آنے والے معاشی نقصانات ہوں، یا ہاتھ سے نکل جانے والے ترقی اور منفعت کے مواقع ہوں، یہ جملہ ہرحال میں اکسیر سا اثر دکھاتا ہے، ایک دانا کا قول ہے کہ “نقصان ہو جانا اور نقصان کو دل کا بوجھ بنانا یہ مل کر دو نقصان بنتے ہیں، جو ایک خساره ہو چکا وه تو ہو چکا، تاہم دوسرے خسارے سے آدمی خود کو بچا سکتا ہے، اس کے لئے صرف ایک گہری سانس لے کر اتنا کہنا کافی ہے کہ “کوئی بات نہیں۔۔!”
یاد رہے کہ یہ دوا جس طرح کسی چھوٹے نقصان کے لئے مفید ہے، اسی طرح بڑے سے بڑے نقصان کے لئے بھی کار آمد ہے۔ ایک مومن جب “کوئی بات نہیں” کو الہٰی رنگ میں ادا کرتا ہے، تو اُسے “انا اللہ وانا الیہ راجعون” کہا جاتا ہے۔

بسا اوقات ایک ہی بات ایک جگہ صحیح تو دوسری جگہ غلط ہوتی ہے۔ “کوئی بات نہیں” کہنا بھی کبھی آدمی کی شخصیت کے لئے سم قاتل بن جاتا ہے، جیسے کوئی شخص غلطی کا ارتکاب کرے تو چاہئے کہ اپنی غلطی کے اسباب تلاش کر کے ان سے نجات حاصل کرے، نہ کہ “کوئی بات نہیں” کہہ کر غلطی کی پرورش کرے۔
خود کو تکلیف پہنچے تو آدمی “کوئی بات نہیں” کہے تو اچھا ہے، لیکن انسان کسی دوسرے کو تکلیف دے اور اپنی زیادتی کو “کوئی بات نہیں” کہہ کر معمولی اور قابلِ نظر انداز ٹھہرا لے، تو یہ ایک گِری ہوئی حرکت شمار ہوگی۔

اسی طرح جب کوئی ملک یا اداره مفاد پرستوں کے استحصال اور نااہلوں کی نااہلی کا شکار ہو رہا ہو اور “کوئی بات نہیں” کہہ کر اصلاح حال کی ذمہ داری سے چشم پوشی اختیار کر لی جائے، تو یہ ایک عیب قرار پائے گا۔
معاشره میں کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی ہو رہی ہو اور لوگ اس جملے سے اپنے ضمیر کی آواز کو دبانے کی کوشش کریں، تو یہ انسانیت کے مقام سے گرجانا تصور ہوگا۔

آخر میں صرف اتنا کہونگا کہ، “یہ جملہ دل کی دیوار پر آویزاں کرنے کے لائق ہوتا ہے، اگر یہ دل کی کشادگی برقرار رکھے، تعلقات کی حفاظت کرے اور دنیاوی نقصان ہونے پر بھی انسان کی تسلی کا سامان بنے۔
اور یہی جملہ مکروه اور قابل نفرت ہو جاتا ہے اگر یہ عزم بندگی، احساس ذمہ داری، احترامِ انسانیت اور جذبہ خود احتسابی سے غافل ہونے کا سبب بن جائے۔۔

 

Women's Day Special

ایسی تحریروں کی جتنی ضرورت آج ہے پہلے کبھی نہ تھی۔
ایک ورکنگ وومن نے اپنی جاب اور خاندان میں سے ترجیحات کا درست انتخاب کر کے بروقت درست فیصلے ، جن کی بنا پر ان کو پچھتانا نہیں پڑا۔ ان کی داستان ان کی زبانی:
۔۔۔۔۔۔
تحریر: جویریہ ساجد
Woman's day Special:
میں نے جس سال اکنامکس میں ماسٹرز کیا اسی سال میری جاب ھو گئی جس کالج سے میں نے بی کام کیا تھا وہ اس وقت ھمارے شہر کا واحد اور بڑا پرائیویٹ کالج تھا انہی نے مجھے لیکچرر شپ آفر کی اور میں نے فوری جوائن کر لیا سب سے پہلی کلاس جو مجھے پڑھانے کو ملی وہ بی کام پارٹ ٹو یعنی فورتھ ائیر کی لڑکے لڑکیوں کی کمبائن کلاس تھی جن کو میں نے میکرو اکنامکس اور انکم ٹیکس لاء پڑھانا تھا۔ جبکہ تھرڈ ائیر کو مائیکرو اکنامکس پڑھانے کو ملی۔
 وہ بہت محنت کا سال تھا میرے اپنے اساتذہ جو اب میرے کولیگ تھے انہوں نے میری بہت راہنمائی کی۔ پہلے ھی سال پڑھانے کے ڈنکے بجنے لگے مجھے میرے کالج نے ایم بی اے ایگزیکٹو کلاس کے بھی لیکچر دے دیے جہاں مجھے پروفیشنلز کو ہائی لیول پہ اکنامکس پڑھانی تھی۔
رات رات بھر لیکچرز تیار کرنا، سارا سارا دن ٹاپک سے ریلیٹڈ مختلف کتابیں پڑھنا، اخبارات کھنگالنا، مدعا مختصر محنت رنگ لائی نام بنا شہر میں تیزی سے کھلتے بڑے پرائیویٹ کالجز سے جاب آفر آنی شروع ھوئیں شہر کے تقریباً تمام بڑے کالجز میں وزیٹنگ لیکچرر کے طور پہ انوائیٹ کیا جانے لگا۔ شہر میں یونیورسٹی کا کیمپس بنا تو وہاں بھی لیکچر دینے شروع کیے یونیورسٹی میں جاب کے دوران کئی سیمینار ارینج کیے ورکشاپس کروائیں۔
 جب میری شادی ھوئی اس وقت میں کمائی اور نام کی وجہ سے اپنے کیرئیر کے عروج پہ تھی ایک بڑے ادارے میں ھیڈ آف ڈپارٹمنٹ تھی بہت اچھا کماتی تھی ایک لمبے عرصے سے کمائی اور اخراجات میں خود کفیل تھی وہ میں کیرئیر کا عروج تھا شہر کے ھر چھوٹے بڑے ادارے میں میرے سٹوڈنٹ موجود ھوتے تھے بنک ھو یا نادرہ، پاسپورٹ آفس ھو یا چیمبر آف کامرس۔
شادی ھوئی تو شہر چھوڑنا تھا اپنے شہر کے اداروں کو بھی خیر آباد کہنا تھا سرکاری نوکری کی طرف  میرا رجحان کبھی بھی نہیں رھا۔
جب شادی ھوئی تو میرے آگے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان تھا کہ جاب جاری رکھنی ھے یا نہیں۔ یہ میرے لیے ایک مشکل فیصلہ تھا مگر میں نے فوری جاب نہیں کی ایک سال بعد محمد بن کبیر ھماری زندگی میں آئے مجھے کالجز سے آفر آنا شروع ھوئیں میرے میاں نے
مجھ پہ کوئی پابندی نہیں لگائی وہ ایک کوآپریٹیو اور روشن خیال انسان ھیں ان کے نزدیک یہ فیصلہ میرا اپنا تھا وہ ہر دو صورتوں میں تعاون کریں گے۔ ایک طرف میرا کیرئیر تھا میری اپنی ھینڈ سم کمائی، میری شناخت، میرا وقار میرا زعم کہ میں خود کماتی ھوں۔
دوسری طرف میرا گھر میرا شوہر اور بچہ۔
جوائنٹ فیملی میں تھی گھر تو چل ھی رھا تھا میاں کوآپریٹیو، اصل بات بچے کی تھی کہ میں چھ گھنٹے کے لیے اپنا دو ماہ کا بچہ گھر چھوڑ کے جاؤں تو کیوں جاؤں۔ میں نے سوچا میری زندگی میں کیا کمی ھے مجھے جاب کر کے کیا اچیوو ھوگا اس سوال کا جواب سوچا تو جانا کہ سب کے سب فائدے میری ذات تک تھے مجھے کھلی ھوا میں سانس آئے گا میری شخصیت بہتر ھوگی، میرا وقت اچھا گزرے گا، میرا کیرئیر مضبوط ھوگا۔ میری شخصیت کا اعتماد بحال ھوگا کہ میں اب بھی خود کما رھی ھوں چار برانڈڈ سوٹ مذید بناؤں گی، مہنگے جوتے، بیگز، پرفیومز کی تعداد بڑھ جائے گی۔
مگر مجھے اسکی قیمت کیا ادا کرنی پڑے گی میرا چھوٹا معصوم بچہ چھ گھنٹے مجھ سے الگ رھے گا۔ ایک ماں کے لیے یہ بہت بڑی قربانی ھے۔
 میں نے اپنے بچے کو سینے سے لگایا اور اپنی شخصیت کو ایک اچھی ماں کے طور پہ گروم کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس کے بعد دو اور بچے میری جھولی میں آئے اور میری زندگی کا اوڑھنا بچھونا یہی بن گیا تیسرے بیٹے کی پیدائش کے بعد میں نے یونیورسٹی دوبارہ جوائن کی اور ویکلی تین چار لیکچر لینے لگی۔ اب جب تینوں بچے سکول جاتے ھیں میں تینوں بچوں کو خود پڑھاتی ھوں۔
 آج جب میں پیچھے مڑ کے دیکھتی ھوں اور اپنے اس وقت کے فیصلے پہ نظر دوڑاتی ھوں تو مجھے احساس ھوتا ھے کہ میرا اس وقت کا فیصلہ ایک بہترین فیصلہ تھا۔
 میں نے دو کشتیوں کا سوار بننے کا راستہ نہیں چنا۔
 میں نے خود کو کیرئیر اور گھر داری میں کنفیوز نہیں کیا۔
میرا مقصد واضح تھا میں نے اپنے بچوں کے لیے بہت کچھ سیکھا۔
سب سے پہلے میں نے اپنے بچوں کے لیے محمد کے پیدا ھوتے ھی قرآن پاک کو مکمل تجوید کے ساتھ دوبارہ سے سیکھا تاکہ میں اپنے بچوں کو صحیح طریقے سے قرآن پاک خود پڑھا سکوں۔
 میں نے ترجمہ تفسیر، سیرت پڑھنی شروع کی۔
میں نے پیرنٹنگ کے کورسز کیے۔
 سب سے بڑھ کے جب میں فوکسڈ تھی تو میں نے یہ سیکھا کہ میرا مثبت قدم اور مثبت شخصیت میرے بچوں کے لیے کس قدر فائدہ مند ثابت ھوگی۔ اس لیے خود کو مزید مثبت بنانے پہ توجہ دی۔
میں اپنی شخصیت کی تراش خراش کرتی گئی۔
میں نے انگلش کرائمر پہ دھیان دینا شروع کیا۔
اب ملٹی لینگویجز سیکھنا شروع کر رھی ھوں۔
آج جب میں پیچھے مڑ کے دیکھتی ھوں تو میں ایک کامیاب کیرئیر وومن کی نسبت اپنے آپ کو ذیادہ مثبت، ذیادہ مضبوط، ذیادہ گرومڈ پاتی ھوں ذیادہ فوکسڈ، ڈٹرمنڈ، کلئیر
Focused, determined, clear in thinking
جس کا فائدہ میرے بچوں کو بھی ھوا میں نے اپنی ذات سے نکل کے ذیادہ وسیع کینوس پہ محنت شروع کی۔
 میں نے خود کو اندھا دھن بھاگنے میں نہیں تھکایا۔
میری تعلیم نے مجھے یہ سیکھایا کہ زندگی میں ترجیحات بدلنے کے ساتھ خود کو بدلنا ھی بہترین فیصلہ ھے۔
 میری تربیت نے مجھے یہ سیکھایا کہ کسی بڑے مقصد کے لیے قناعت پسندی کے ساتھ جینا، کسی وقت میں اپنے لائف سٹائل پہ کمپرومائز کر لینا، کچھ کم اشیا پہ گزارا کر لینا کوئی بہت بڑی قربانی نہیں ھے میں نے ایک جگہ طنزیہ فقرہ پڑھا کہ پڑھی لکھی بیوی کے شوہر تندور سے روٹیاں ھی لگواتے پائے جاتے ھیں۔ جبکہ میں سمجھتی ھوں کہ ان پڑھ لڑکیوں کے شوہر بچوں کی ٹیوشن کے چکر لگاتے عمر گزارتے ھیں۔ فیصلہ ھمارا اپنا ھے۔
ایک شادی شدہ عورت کے لیے جاب کرنا کسی بھی طرح آسان نہیں ھے جس کی قیمت وہ کسی نا کسی صورت ادا ضرور کرتی ھے جس سے شخصیت الجھ جاتی ھے میں نے اپنے بچوں کو اپنا بیسٹ دیا جو میری بساط تھی۔ جاب کرتی ھوئی عورت کچھ بھی کر لے اس گلٹ میں رھتی ھے کہ میں بیسٹ نہیں دے پائی۔ اپنی شخصیت سنوارتے کرئیر بناتے اپنا وقار بڑھاتے جب بچے چپڑ چپڑ کرکے کھانا کھاتے ھیں، گھگیا گھگیا کے بولتے ھیں، تھرل کے نام پہ لڑکیوں سے پڑس چھیننا، ہنگامے کرنا، کلاس میں نسوار جسکا ماڈرن نام مجھے نہیں پتہ رکھتے ھوئے پائے جاتے ھیں تب جو ٹینشن کے اٹیک ھم ماؤں کو ھوتے ھیں وہ اس تمام میڈلوں اور انعامات سے کہیں ذیادہ خوفناک ھیں جو کیرئیر وومن کو ملتے ھیں۔
اس کے علاوہ میں ان تمام خواتین کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتی ھوں جو ضرورت اور مجبوری کے تحت شادی کے بعد جاب کرتی ھیں اور چاھتے ھوئے بھی اپنے بچوں کو ٹائم نہیں دے سکتیں۔ بچے تو بچے ان کی اپنی صحت بھی توجہ طلب ھو جاتی ھے اور وہ ٹائم نہیں نکال سکتیں۔
اس کے ساتھ ھی میں ان تمام خواتین کو بھی پسند نہیں کرتی جو جاب تو نہیں کرتیں مگر بچے سکول بھیج کے آدھا دن سوتی ھیں،
 بچے ٹیوشن بھیج کے ڈرامے دیکھتی ھیں، صبح شام میکوں کے چکر لگاتی ھیں،
 بازاروں میں ونڈو شاپنگ کرتی ھیں،
فون کالز پہ پورے خاندان کو تگنی کا ناچ نچاتی ھیں۔
میں آپ سب خواتین سے یہ کہنا چاھتی ھوں آپ جاب کرتی ھیں یا نہیں اپنی زندگی کو با مقصد، معیاری اور مثبت کاموں میں صرف کریں۔
اپنی ترجیحات کا درست تعین درست وقت پہ کریں۔
جاب کریں یا گھر پہ رھیں اپنی شخصیت سنوارنے پہ بھرپور توجہ دیں۔ وقت اور صحت کی شدید قدر کریں۔
شخصیت گھر پہ رہ کے بھی نکھر سکتی ھے۔
اپنے بچوں کی تربیت کو ترجیحات میں سب سے اوپر رکھیں۔
صرف مردوں کو نیچا دیکھانے کے لیے جاب مت کریں۔
صرف اپنے آپ کو ثابت کرنے کے لیے خود کو خوار مت کریں۔
گزارا اچھا ھو رھا ھے ٹھیک ھے۔ لائف سٹائل کوئی چیز نہیں ھے جس کے لیے بچوں کو نسوار کا عادی کر دیا جائے۔
مردوں سے برابری کرنے کے لیے بیٹوں کو اپنی بے توجہی سے مت بگاڑیں۔
مخصوص قسم کے لبرل بیانیے بہت مضحکہ خیز ھیں ان کو پہچانیں۔ یہ ایک طرف لڑکیوں کو آزادی دینے کی بات کرتے ھیں دوسری طرف لڑکوں کی تربیت کی ان سے پوچھیں عورت کو تو آپ نے گھر کی ذمہ داریوں سے آزاد کر دیا تربیت کون کرئے گا۔
یہ آپ کو آئیں بائیں شائیں کریں گے
ہر چمکتی ھوئی چیز سونا نہیں ھوتی انگارہ بھی ھو سکتی ھے۔

تحریر: جویریہ ساجد

March 01, 2022

MUSLIMS Who Left there Religion مسلمان جنہوں نے قرآن کو چھوڑ دیا۔ کیا وہ قیامت کے دن

🍀 * اک یہودی کی باتیں * 🍀   
جن کے سر پر ڈوپٹہ ہونا چاہئے وہ ننگے سر کھڑی ہیں۔
میں یہودی هوں اور اپنے یہودی ھونے پر فخر کرتا ہوں جبکہ تم اب مسلمان کہلاتے ھوئے شرماتے ھو....جبکہ آج دنیا میں هماری حکومت هے۔
تم نے دیکها که هم نے تمهارے ساتھ کیا کیا؟
هم تمهاری سڑکوں په پهرے تو همیں تمهارا حال پسند نہیں آیا...
تو پته هے هم نے کیا کیا؟
بہت آسانی سے تمهاری لڑکیوں💇👧🙋 کے سروں سے حجاب اتروادیا...
دوسرے طریقوں سے قرآن📖 بهی بهلوادیا..
 تم لوگوں کے پاس اپنا لباس🎽👚👗 بهیجا 😨😰😱 اپنے بازاروں کو دیکهو سارے عریاں لباس کی نمائش گاه هیں...اور تمہاری تہذیب کا لباس تمہارے بازاروں میں ڈھونڈے نہیں ملتا۔
اور مزے کی بات یہ هے کہ تم نے سب قبول کرلیا...👍
 کیا تم کو نہیں معلوم که یہی حال قوم لوط کا تها...
کتنے بےوقوف هو تم...که کہتے رهتے هو:
یہودیوں نے هماری زمین چهین لی..قرآن📖 اور سنت کو ختم کروادیا...
تم کہاں مر گئے هو..؟کچھ کیوں نہیں کرتے؟
سڑکوں پر تمہاری لڑکیاں👧🙋ایسے لباس میں گهوم رهی هیں کہ نام کو لباس ھے پہلے ہم نے تمھاری عورتوں کا حجاب اتارا پھر چادریں🧕🏻 پھر ڈوپٹہ🙎🏻 پھر لباس چست کیا🤷‍♀ شلواریں أنچی کیں اب شلوار کی جگہ ٹائیٹس 🚶🏻‍♀پہنادیا ہم نے انھیں بازاروں راستوں میں برہینہ کردیا اب وہ ہمارا بنایا ھوا لباس فخر سے پہنتی ہیں اور تمھارا لباس پہنتے ھوۓ انھیں شرم آتی ھے ...کیا مضحکه خیز بات هے...
 تمہارا حال بہت برا هوگیا👎
همیں تم لوگوں کی تعلیم📔📒📚 میں ترقی پسند نه آئی تو هم نے تمہارا نصاب بدلوادیا...
اور تمہارے ٹیلی ویژن📺 کو ذلت آمیز پروگراموں اور شرم ناک ڈراموں میں بدل دیا...
تمہیں اور تمھارے علماء کو کچھ بولنے کی ضرورت نہیں..تمہارا چپ رهنا هی بہتر هے...😷
هم نے تمہارے نوجوانوں کو بهٹکا دیا...😐
ایک دور تها که تم ایک پاکیزہ اور غالب امت تهے...آج تم ذلت کی پستیوں میں اترگئے هو...بےچارے!😫😫
 هم نے محسوس کیا که تم لوگوں کی زبان عربی بہت خوب صورت هے جس سے تم قرآن📖 پڑهتے هو...اور اهل جنت کی بهی یہی زبان هوگی.......تو هم نے تمہاری زبان کو بے فائدہ اور فضول قراردیا...اور تم لوگوں نے فورا"یقین کرلیا...پهر تم دوسری زبانوں پر فخر کرنے لگے
(ہائے..بائے..هیلو..مرسی..برستیج.....وغیرہ وغیرہ)
اور تم نے اپنے دعائیه خوب صورت کلمات(السلام عليكم) کو چهوڑ کر انهی کا استعمال شروع کردیا اور هم تمہیں اسی طرح پسند کرتے هیں
 اور همیں یه بهی پسند نہیں آیا که تم لوگوں کو متحد دیکهیں... تو هم نےتمہاری مسجدوں🕌🕌 کو اڑادیا اور الزام بهی تم پر هی لگایا...
اس سے تمہارے درمیان باهمی لڑائیاں🔫🔪🗡🛡💣☠شروع هو گئیں..
 هم نے تمہارے دین کا گہرائى سے مطالعہ کیا اور جهوٹے فتووں کے ذریعے تمہیں تمہاری راه سے هٹا دیا....
هم نے تمہارے درمیان نفرت اور فساد کی آگ بهڑکائى جو تب تک نہیں بجهے گی جب تک که تم سب😫😫 کو جلا کر راکھ نہ کردے ...
 تمہارے گهر👨‍👩‍👧‍👧👨‍👩‍👦‍👦 والے اب جدید مشینی ایجادات 🖥💻📲📱💾💿💽📼کے زیر سایہ پرورش پاتے ہیں...
 هم نے طرح طرح کی کمپیوٹر گیمز🎲🎯🎮👾🎼🎧🎻🎤 ایجاد کیں، جن میں کهو کر تم قرآن📖 کو بهول گئے...اپنے علماء👳 کو بهول گئے...مسلمان سائنس دانوں🕵👮👲 اور ان کے کارناموں کو بهول گئے...تمہاری نئى نسل ایسی نسل هے جو حق بات کہتے هوئے ڈرتی هے...
😐😖😫😣
ھم یہودی قوم... اس بات پر فخر کرتے ہیں  که تعداد میں اس قدر تهوڑے ھونے کے باوجود ھم نے تمہیں بہت آسانی سے🐏🐑🐏🐏🐑🐑🐂 گوشت کے ٹکڑوں کی مانند خرید لیا...
اور تمہیں اس کا کوئی ملال نہیں...تم خوش 😃اور مست🙃 ھو................#⃣#⃣

نوٹ: جہاں تک ممکن ھو مسلمانوں کی بڑی تعداد کو بهیجیں .....
تلخ سہی لیکن ھے حقیقت .....
امتی
مہربانی کر کے اسے آگے بھیجو مسلمانوں کی آنکھیں کهولو

Total Pageviews