دوسری شادی کے وہ فائدے جس کے بارے میں آپ نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا !!!
اسلام نے مرد کے طبعی و فطری تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے چار شادیوں تک کی اجازت دے رکھی ہے جس کہ تہہ میں کئ حکمتیں پوشیدہ ہیں. بادی النظر میں اگر اس سہولت کا جائزہ لیا جائے تو ہم اللہ تعالٰی کی حکمتوں پہ حیران ہوئے بنا نہیں رہ سکتے کہ کس طرح ایک جائز عمل کی بدولت مسلم معاشرہ بہت سی مثبت تبدیلیوں سے روشناس ہوتا ہے. ستم ظریفی یہ ہے کہ آج کے دور میں دوسری شادی کو ایک شجر ممنوعہ کی حیثیت دے دی گئی ہے آج کی عورت اگر مرد کی شادی کو شرک کا درجہ دیتی ہے تو اس نے نعوذ باللہ خود کو خدا کے رتبے پر فائز کر رکھا ہے .....میرا گھر، میرا شوہر، میری راج دھانی ، میری سلطنت ، میری کائنات . یہی وجہ ہے جس سے مسلم معاشروں میں بے راہ روی و بے حیائی کو فروع مل رہا ہے. آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کا عمل کس طرح معاشرے پہ مثبت اثرات ڈال کر کن رحمتوں اور برکتوں کا موجب بنتا ہے مگر مجھے امید ہے جو لوگ اپنے ذہن سے ہندووانہ معاشرتی رسوم و رواج کے زہریلے اثرات جھٹک کر یہ تحریر پڑھیں گے ان ہی کے دل میں یہ دلائل گھر کریں گے.
1: اس عمل کی بدولت مسلم معاشرے کی بےشمار بن بیاہی لڑکیاں اپنے والدین کے گھروں میں اپنے بالوں میں چاندی کے تار نہیں اترتے دیکھتیں ،نہ ہی والدین راتوں کو اپنی بچیوں کے مستقبل کے بارے میں فکر مند رہ کر جاگتے ہے. ذات باری تعالٰی کی دی گئی اس چھوٹ سے لڑکیوں اور ان کے ولی کے سامنے رشتوں کی کثرت کے باعث انہیں اپنی سماجی اور معاشرتی سطح کے مطابق اپنی مرضی کے انتخاب میں بھی آسانی رہتی ہے
2: رزق کی ذمہ داری خدا تعالی نے اپنے ذمے لے رکھی ہے. لہذا اس معاملے میں پریشان ہوئے بنا جب ازواج فیملی پلاننگ کے عفریت سے بچتے ہوئے اپنے کنبے میں اضافہ کرتے ہیں تو مسلمانوں کو معاشی ، عسکری اور جہادی لحاظ سے مزید افرادی قوت میسر آتی ہے . دوسری شادی سے شوھر کی آمدنی تقسیم ہونے کا ڈر رکھنے والیاں پھر بچے بھی پیدا نہ کریں . صحابہ کرام تو عسرت اور تنگی کی حالت میں بھی دوسری ، تیسری اور چوتھی شادی کرکے مطلقہ اور بیواؤں کا سہارا بنتے تھے. اور آج کے دور میں تو اوسط درجے کے ایک غریب کے گھر بھی ہفتے میں کئی بار تازہ سالن اور مرغی بن جاتی ہے. یہاں پھر یہی مثال صادق آتی ہے کہ عورت ہی عورت کی سب سے بڑی دشمن ہوتی ہے. دوسری شادی کی مخالف بہنیں خود غرض بن کر دوسری بہنوں کا دکھ سمجھتے ہوئے بھی جان بوجھ کر انجان بنتی ہیں
3: اسلام بیک وقت دو، تین یا چار بیویوں کی کفالت کا بوجھ مرد پہ ڈال کر گویا عورت کو وہ احساس تحفظ فراہم کرتا ہے جو وہ اپنی ضروریات کی تکمیل کے لئے نوکری یا کاروبار کرتے ہوئے بھی حاصل نہیں کر سکتی.
4: تمام دنیا میں عورتوں کی تعداد کا تناسب مردوں سے زیادہ ہے. اگر عورتوں کی پیدائش کا تناسب کم ہو تب بھی مرد حضرات مختلف حادثات جیسے.... ایکسیڈنٹس، بم دھماکوں، جنگوں اور ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہو کر زیادہ تعداد میں ہلاک ہوتے ہیں. بچ جانے والے مردوں میں سے کچھ فیصد مختلف وجوہات کی بنا پر ہیروئن، شراب، چرس جیسے نشوں کے عادی ہونے کے باعث عورت کی کفالت کرنے کے قابل نہیں رہتے. کیونکہ نشہ اور دیگر بری عادات میں مبتلا مرد عورت کے نان نفقہ کی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر ہوتے ہیں. بفرض محال اگر انکی شادی ہو بھی جائے تب بھی اپنی لاپرواہی، آوارگی اور غیر ذمہ دارانہ رویے کی بدولت ایسی شادیوں کا انجام اکثر و بیشتر طلاق ہی نکلتا ہے. جس کا مطلب عورت کا پھر سے بے گھر و بے سہارا ہو جانا ہے .
جو مرد حضرات ان بری عادات سے بچ جائیں تو انکی ایک معقول تعداد تعلیم یافتہ نہ ہونے کے باعث بر سر روزگار نہیں ہو پاتی یا اتنے ذرائع آمدن پیدا نہیں کر سکتی کہ اپنے کنبے کا بوجھ اٹھا سکیں. فی زمانہ کوالیفائیڈ اور روزگار کے قابل جوان ڈگریاں ہاتھ میں پکڑے روزگار کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں. بےروزگاری اور عدم قناعت کے باعث کی جانے والی ایسی شادیاں اکثر طلاق پہ منتج ہوتی ہیں. اور آج کے دور میں خواتین کی تعلیمی میدان میں مردوں پر برتری اور ملازمتوں پہ قبضے کے باعث مردوں میں بےروزگاری کی شرح میں تیزی سے مزید اضافہ ہو رہا ہے
5: مسلمان مردوں کی ایک کثیر تعداد اپنے ممالک میں ملازمتوں کی کمی کے باعث بیرون ملک سکونت اختیار کیے ہوئے ہیں جن میں سے کچھ مردوں کو بعض ترجیحات و وجوہات غیر مسلم لڑکیوں سے شادی پہ مجبور کردیتی ہیں جس کا خمیازہ مسلمان لڑکیوں کو بن بیاہی رہ جانے کی صورت میں اٹھانا پڑتا ہے
6: ایک تحقیق کے مطابق نومولود بچیوں میں بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت کا تناسب لڑکوں سے زیادہ ہے. اس لئے کچھ لڑکے کم عمری میں ہی بیماریوں کا شکار ہو کر یا تو معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں یا پھر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں . مردوں عورتوں کی آبادی میں تناسب کے فرق کی ایک وجہ یہ بھی ہے
7: بہت سے برسرروزگار مرد اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کی خاطر مناسب عمر میں نکاح پہ آمادہ نہیں ہوتے یا ایک طویل عرصے تک شادی کرنے سے اجتناب کرتے ہیں جس کا نقصان انکی ہم عمر بچیاں اٹھاتی ہیں
8: مردوں میں مردانہ کمزوری کا مرض اس بےحیائی اور فحاشی کے دور میں تیزی سے بڑھ رہا ہے کیونکہ نشے یا بے راہ روی کا شکار اکثر مرد جنسی قوت سے عاری ہو جاتے ہیں. یہ بات موجودہ دور میں طلاق کے واقعات میں اضافے کا ایک بڑا سبب ہے. جس کی وجہ سے ایسی مسلمان لڑکیاں دوبارہ اپنے والدین کی دہلیز پہ آ بیٹھتی ہیں
9 : ہر مرد فطرتا عاشق مزاج ہوتا ہے عورت کے معاملے میں الله نے مرد کو ورائٹی پسند رکھا ہے تبھی اس کی فطرت کے حساب سے الله نے اسے جنت میں 70 حوروں کا ترغیب دی ہے جبکہ عورت کو بناؤ سنگھار سے فطری رغبت کی بنا پر زیور ، کپڑوں وغیرہ کا. یہ ایک بیوی رکھنے کا ہی نقصان ہے کہ بسا اوقات اکتاہٹ کی بنا پر دونوں بڑھاپے میں ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنے کے روادار نہیں ہوتے.
ان سب حقائق کو سامنے رکھ کر یہ تجزیہ کرنا مشکل نہیں کہ مسلم معاشروں میں مسلم بچیوں کی ایک کثیر تعداد مناسب رشتوں کی عدم دستیابی کے باعث سخت پریشانی کا شکار ہے. "گرل فرینڈ کلچر" نے مرد کے لئے ناجائز راستوں پر چلنے کے مواقع آسان کر دئیے ہیں کیونکہ اس صورت میں مرد کو نان نفقے جیسا بوجھ گلے میں نہیں ڈالنا پڑتا. دوسری شادی کے معاملے میں ہمارا رویہ ہندووانہ معاشرے کی پیداوار ہے . باقی رہی انصاف کی بات تو بے انصاف مرد ایک شادی کرکے بھی بے انصاف ہی رہے گا اور انصاف پسند مرد چار رکھ کر بھی بخوبی نبھا سکتا ہے.
اس پرفتن دور میں امت کا درد رکھنے والے علماء کو مردوں کو دوسری شادی کی بھرپور ترغیب دینی چاہیے تاکہ مسلمان عورتیں اور بچیاں اپنی عفت و پاکدامنی کو بچاتے ہوئے ایک بھرپور مسلم معاشرے کی تشکیل و تکمیل میں اپنا بنیادی کردار ادا کر سکیں. اسی صورت میں غیر مسلموں کے فنڈز سے چلنے والی این جی اوز اور مشنری اداروں کو ہماری مسلمان بچیوں کی عزتوں سے کھیلنے کا موقع بھی نہیں مل سکے گا. سعودی عرب کے ایک ممتاز عالم دین عبداللہ بن عبدالرحمن بن جبرین نے مردوں کی ایک سے زیادہ شادیوں کو واجب قرار دے دیا ہے.
مختصراً یہ کہ عورت کنواری ہو، یا مطلقہ ، بیوہ ہو اپنی رہائش، لباس و خوراک کیلئے مرد پہ انحصار کرتی ہیں. لہٰذا بہتری اسی میں ہے کہ صالح مردوں سے انکے پہلے، دوسرے، تیسرے یا چوتھے نکاح کر دئیے جائیں تاکہ وہ کسی فحاشی میں مبتلا نہ ہو کر معاشرے اور مردوں کو پاک رکھ سکیں اور یہ امید بھی رکھی جائے کہ اس نکاح کی برکت سے اللہ تعالٰی نیک اور صالح اولاد بھی عنایت فرمائیں گے. لہٰذا آج کے فتنہ و فساد کے دور میں مرد و زن کو مزید نکاح سے روکنا یا نکاح ہو جانے کے بعد طلاق دینے پہ اصرار کرنا یا بیوہ و مطلقہ کی دوسری شادی کو معیوب سمجھنا اللہ تعالٰی کی مقرر کردہ حدود کی خلاف ورزی اور معاشرے میں فتنہ پھیلانے کا موجب ہے
اسلام نے مرد کے طبعی و فطری تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے چار شادیوں تک کی اجازت دے رکھی ہے جس کہ تہہ میں کئ حکمتیں پوشیدہ ہیں. بادی النظر میں اگر اس سہولت کا جائزہ لیا جائے تو ہم اللہ تعالٰی کی حکمتوں پہ حیران ہوئے بنا نہیں رہ سکتے کہ کس طرح ایک جائز عمل کی بدولت مسلم معاشرہ بہت سی مثبت تبدیلیوں سے روشناس ہوتا ہے. ستم ظریفی یہ ہے کہ آج کے دور میں دوسری شادی کو ایک شجر ممنوعہ کی حیثیت دے دی گئی ہے آج کی عورت اگر مرد کی شادی کو شرک کا درجہ دیتی ہے تو اس نے نعوذ باللہ خود کو خدا کے رتبے پر فائز کر رکھا ہے .....میرا گھر، میرا شوہر، میری راج دھانی ، میری سلطنت ، میری کائنات . یہی وجہ ہے جس سے مسلم معاشروں میں بے راہ روی و بے حیائی کو فروع مل رہا ہے. آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کا عمل کس طرح معاشرے پہ مثبت اثرات ڈال کر کن رحمتوں اور برکتوں کا موجب بنتا ہے مگر مجھے امید ہے جو لوگ اپنے ذہن سے ہندووانہ معاشرتی رسوم و رواج کے زہریلے اثرات جھٹک کر یہ تحریر پڑھیں گے ان ہی کے دل میں یہ دلائل گھر کریں گے.
1: اس عمل کی بدولت مسلم معاشرے کی بےشمار بن بیاہی لڑکیاں اپنے والدین کے گھروں میں اپنے بالوں میں چاندی کے تار نہیں اترتے دیکھتیں ،نہ ہی والدین راتوں کو اپنی بچیوں کے مستقبل کے بارے میں فکر مند رہ کر جاگتے ہے. ذات باری تعالٰی کی دی گئی اس چھوٹ سے لڑکیوں اور ان کے ولی کے سامنے رشتوں کی کثرت کے باعث انہیں اپنی سماجی اور معاشرتی سطح کے مطابق اپنی مرضی کے انتخاب میں بھی آسانی رہتی ہے
2: رزق کی ذمہ داری خدا تعالی نے اپنے ذمے لے رکھی ہے. لہذا اس معاملے میں پریشان ہوئے بنا جب ازواج فیملی پلاننگ کے عفریت سے بچتے ہوئے اپنے کنبے میں اضافہ کرتے ہیں تو مسلمانوں کو معاشی ، عسکری اور جہادی لحاظ سے مزید افرادی قوت میسر آتی ہے . دوسری شادی سے شوھر کی آمدنی تقسیم ہونے کا ڈر رکھنے والیاں پھر بچے بھی پیدا نہ کریں . صحابہ کرام تو عسرت اور تنگی کی حالت میں بھی دوسری ، تیسری اور چوتھی شادی کرکے مطلقہ اور بیواؤں کا سہارا بنتے تھے. اور آج کے دور میں تو اوسط درجے کے ایک غریب کے گھر بھی ہفتے میں کئی بار تازہ سالن اور مرغی بن جاتی ہے. یہاں پھر یہی مثال صادق آتی ہے کہ عورت ہی عورت کی سب سے بڑی دشمن ہوتی ہے. دوسری شادی کی مخالف بہنیں خود غرض بن کر دوسری بہنوں کا دکھ سمجھتے ہوئے بھی جان بوجھ کر انجان بنتی ہیں
3: اسلام بیک وقت دو، تین یا چار بیویوں کی کفالت کا بوجھ مرد پہ ڈال کر گویا عورت کو وہ احساس تحفظ فراہم کرتا ہے جو وہ اپنی ضروریات کی تکمیل کے لئے نوکری یا کاروبار کرتے ہوئے بھی حاصل نہیں کر سکتی.
4: تمام دنیا میں عورتوں کی تعداد کا تناسب مردوں سے زیادہ ہے. اگر عورتوں کی پیدائش کا تناسب کم ہو تب بھی مرد حضرات مختلف حادثات جیسے.... ایکسیڈنٹس، بم دھماکوں، جنگوں اور ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہو کر زیادہ تعداد میں ہلاک ہوتے ہیں. بچ جانے والے مردوں میں سے کچھ فیصد مختلف وجوہات کی بنا پر ہیروئن، شراب، چرس جیسے نشوں کے عادی ہونے کے باعث عورت کی کفالت کرنے کے قابل نہیں رہتے. کیونکہ نشہ اور دیگر بری عادات میں مبتلا مرد عورت کے نان نفقہ کی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر ہوتے ہیں. بفرض محال اگر انکی شادی ہو بھی جائے تب بھی اپنی لاپرواہی، آوارگی اور غیر ذمہ دارانہ رویے کی بدولت ایسی شادیوں کا انجام اکثر و بیشتر طلاق ہی نکلتا ہے. جس کا مطلب عورت کا پھر سے بے گھر و بے سہارا ہو جانا ہے .
جو مرد حضرات ان بری عادات سے بچ جائیں تو انکی ایک معقول تعداد تعلیم یافتہ نہ ہونے کے باعث بر سر روزگار نہیں ہو پاتی یا اتنے ذرائع آمدن پیدا نہیں کر سکتی کہ اپنے کنبے کا بوجھ اٹھا سکیں. فی زمانہ کوالیفائیڈ اور روزگار کے قابل جوان ڈگریاں ہاتھ میں پکڑے روزگار کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں. بےروزگاری اور عدم قناعت کے باعث کی جانے والی ایسی شادیاں اکثر طلاق پہ منتج ہوتی ہیں. اور آج کے دور میں خواتین کی تعلیمی میدان میں مردوں پر برتری اور ملازمتوں پہ قبضے کے باعث مردوں میں بےروزگاری کی شرح میں تیزی سے مزید اضافہ ہو رہا ہے
5: مسلمان مردوں کی ایک کثیر تعداد اپنے ممالک میں ملازمتوں کی کمی کے باعث بیرون ملک سکونت اختیار کیے ہوئے ہیں جن میں سے کچھ مردوں کو بعض ترجیحات و وجوہات غیر مسلم لڑکیوں سے شادی پہ مجبور کردیتی ہیں جس کا خمیازہ مسلمان لڑکیوں کو بن بیاہی رہ جانے کی صورت میں اٹھانا پڑتا ہے
6: ایک تحقیق کے مطابق نومولود بچیوں میں بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت کا تناسب لڑکوں سے زیادہ ہے. اس لئے کچھ لڑکے کم عمری میں ہی بیماریوں کا شکار ہو کر یا تو معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں یا پھر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں . مردوں عورتوں کی آبادی میں تناسب کے فرق کی ایک وجہ یہ بھی ہے
7: بہت سے برسرروزگار مرد اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کی خاطر مناسب عمر میں نکاح پہ آمادہ نہیں ہوتے یا ایک طویل عرصے تک شادی کرنے سے اجتناب کرتے ہیں جس کا نقصان انکی ہم عمر بچیاں اٹھاتی ہیں
8: مردوں میں مردانہ کمزوری کا مرض اس بےحیائی اور فحاشی کے دور میں تیزی سے بڑھ رہا ہے کیونکہ نشے یا بے راہ روی کا شکار اکثر مرد جنسی قوت سے عاری ہو جاتے ہیں. یہ بات موجودہ دور میں طلاق کے واقعات میں اضافے کا ایک بڑا سبب ہے. جس کی وجہ سے ایسی مسلمان لڑکیاں دوبارہ اپنے والدین کی دہلیز پہ آ بیٹھتی ہیں
9 : ہر مرد فطرتا عاشق مزاج ہوتا ہے عورت کے معاملے میں الله نے مرد کو ورائٹی پسند رکھا ہے تبھی اس کی فطرت کے حساب سے الله نے اسے جنت میں 70 حوروں کا ترغیب دی ہے جبکہ عورت کو بناؤ سنگھار سے فطری رغبت کی بنا پر زیور ، کپڑوں وغیرہ کا. یہ ایک بیوی رکھنے کا ہی نقصان ہے کہ بسا اوقات اکتاہٹ کی بنا پر دونوں بڑھاپے میں ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنے کے روادار نہیں ہوتے.
ان سب حقائق کو سامنے رکھ کر یہ تجزیہ کرنا مشکل نہیں کہ مسلم معاشروں میں مسلم بچیوں کی ایک کثیر تعداد مناسب رشتوں کی عدم دستیابی کے باعث سخت پریشانی کا شکار ہے. "گرل فرینڈ کلچر" نے مرد کے لئے ناجائز راستوں پر چلنے کے مواقع آسان کر دئیے ہیں کیونکہ اس صورت میں مرد کو نان نفقے جیسا بوجھ گلے میں نہیں ڈالنا پڑتا. دوسری شادی کے معاملے میں ہمارا رویہ ہندووانہ معاشرے کی پیداوار ہے . باقی رہی انصاف کی بات تو بے انصاف مرد ایک شادی کرکے بھی بے انصاف ہی رہے گا اور انصاف پسند مرد چار رکھ کر بھی بخوبی نبھا سکتا ہے.
اس پرفتن دور میں امت کا درد رکھنے والے علماء کو مردوں کو دوسری شادی کی بھرپور ترغیب دینی چاہیے تاکہ مسلمان عورتیں اور بچیاں اپنی عفت و پاکدامنی کو بچاتے ہوئے ایک بھرپور مسلم معاشرے کی تشکیل و تکمیل میں اپنا بنیادی کردار ادا کر سکیں. اسی صورت میں غیر مسلموں کے فنڈز سے چلنے والی این جی اوز اور مشنری اداروں کو ہماری مسلمان بچیوں کی عزتوں سے کھیلنے کا موقع بھی نہیں مل سکے گا. سعودی عرب کے ایک ممتاز عالم دین عبداللہ بن عبدالرحمن بن جبرین نے مردوں کی ایک سے زیادہ شادیوں کو واجب قرار دے دیا ہے.
مختصراً یہ کہ عورت کنواری ہو، یا مطلقہ ، بیوہ ہو اپنی رہائش، لباس و خوراک کیلئے مرد پہ انحصار کرتی ہیں. لہٰذا بہتری اسی میں ہے کہ صالح مردوں سے انکے پہلے، دوسرے، تیسرے یا چوتھے نکاح کر دئیے جائیں تاکہ وہ کسی فحاشی میں مبتلا نہ ہو کر معاشرے اور مردوں کو پاک رکھ سکیں اور یہ امید بھی رکھی جائے کہ اس نکاح کی برکت سے اللہ تعالٰی نیک اور صالح اولاد بھی عنایت فرمائیں گے. لہٰذا آج کے فتنہ و فساد کے دور میں مرد و زن کو مزید نکاح سے روکنا یا نکاح ہو جانے کے بعد طلاق دینے پہ اصرار کرنا یا بیوہ و مطلقہ کی دوسری شادی کو معیوب سمجھنا اللہ تعالٰی کی مقرر کردہ حدود کی خلاف ورزی اور معاشرے میں فتنہ پھیلانے کا موجب ہے
No comments:
Post a Comment