"آخری جوان ،آخری گولی"
گذشتہ دنوں ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے ملک کے لئے "آخری جوان آخری گولی" تک لڑنے کی بات کی آپ میں سے بہت کم لوگ اس فقرے کی تاریخ سے واقف ہیں۔اس کو سمجھنے کے لئے آپ کو 1965کی پاک بھارت جنگ کے پہلے مارکے کے بارے میں جاننا ہوگا ذیل میں دی گئی تحریرکو پڑھنے کے بعد آپ کو معلوم ہوگا کہ میجر جنرل آصف غفور نے آخر "آخری جوان ،آخری گولی" تک لڑنے کی بات کیوں کی۔۔۔
پاک بھارت جنگ 1965: بھارتی فوج کو صرف 2 گھنٹے روک لو ، ساری قوم آپ کا یہ احسان یاد رکھے گی
6سمتبر 1965 کو ہمارے ازلی دشمن بھارت نے بغیر کسی پیشگی اطلا ع کے پاکستان پر حملہ کر دیا تھا لیکن پاکستانی سپوتوں نے وطن کی حفاظت کے لئے وہ کارنامے انجام دئیے کہ دشمن کو اُلٹے پاؤں دم دبا کر بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ اسی لئے ہم ہر سال6 ستمبر کو یوم دفاع پاکستان مناتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے مابین 1965 میں لڑی گئی جنگ بارے نامور کالم نگار اسلم لودھی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ 5اور 6ستمبر کی درمیانی رات میجر شفقت بلوچ کی قیادت میں 17پنجاب کی ڈی کمپنی ٹرکوں کے ذریعے بی آربی نہر کے پاس پہنچی اس وقت ۔ہر طرف رات کاسناٹا تھا ۔ 17 پنجاب کی ڈی کمپنی جب ہڈیارہ گاؤں کے قریب پہنچی تو آدھی رات گزر چکی تھی ۔میجر شفقت بلوچ نے چند جوانوں کو نگہبانی کی ڈیوٹی سونپ کر باقی جوانوں کو آرام کرنے کا حکم دیا۔ ابھی مورچے بھی نہیں کھودے تھے ۔ رات کا آخری پہر چل رہا تھا کہ میجر شفقت بلوچ کی آنکھ اچانک کھل گئی وہ نماز کی تیاری کرنے لگے کہ فائرنگ کی آواز سنائی دی یہ مشن گن اور ماٹر کا فائر تھا۔ میجر شفقت بلوچ نے رینجر سے رابطہ کیا تو وہاں سے جواب ملا کہ بھارتی فوج ٹینکوں اور توپوں سمیت لاہور کی جانب پیش قدمی کرتی ہوئی چلی آرہی ہے یہ اطلاع ملتے ہی میجر شفقت نے بریگیڈ کمانڈر کو بھارتی حملے کی اطلاع دی تو کرنل ابراہیم قریشی نے کہا کہ بھارتی فوج کو آپ صرف دوگھنٹے روک لو ‘پوری قوم آپ کی احسان مند ہو گی۔
بھارتی فوج پاکستان کے سرحدی ہڈیارہ گاؤں پر قابض ہوچکی تھی ہڈیارہ گاؤں کے لوگ چیخ و پکار کرتے آرہے تھے ۔ اس لمحے میجر شفقت بلوچ نے اپنے جوانوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ بھارتی فوج نے حملہ کردیا ہے ‘ یہ امتحان کی گھڑی ہے ‘ ہندووں کے سامنے مجھے شرمسار مت کرنا‘اگر ہم ایک سو دس جوان اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے 33لاکھ آبادی کے شہر لاہورکو بچا لیتے ہیں تو یہ سود ا مہنگا نہیں ہے۔ میجر شفقت بلوچ نے اپنے جوانوں کو دور دور پھیلا دیا۔ دور دور پھیلانے کا مقصد یہ تھا کہ دشمن کسی بھی جگہ سے نالہ عبور نہ کرسکے۔ یہ کم نفری سے بہت بڑی سپاہ کو روکنے کا وہ حربہ تھا جو میجر شفقت کے ذہن میں آیا۔ میجر شفقت بلوچ جب ہڈیارہ ڈرین کے کنارے کھڑے ہوکر دن کے اجالے میں دشمن کو اپنی جانب آتا ہوا دیکھ رہے تھے تو ایک گولی ان کے بائیں بازو کو چھو کر گزر گئی ۔انہوں نے اپنے ساتھیوں کو بازو کا زخم دکھاکر کہا کافر کی گولی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ۔اسی اثناء میں حولدار رحمت چلایا سر وہ دیکھیں دشمن کے ٹینک۔ واقعی دشمن کے ٹینک صف بندی کیے ادھر ہی چلے آرہے تھے۔ میجر شفقت نے حکم دیا ڈرین کے پل کو بارود لگا کر تباہ کردو۔
اسی دوران ایک زور دار دھماکہ ہوا لیکن پل تباہ نہ ہوا کچھ اس طرح بیٹھ گیا کہ گاڑیاں آسانی سے گزر سکتی تھیں۔ میجر بلوچ نے ایس او ایس کا فائر مانگا ۔ساتھ ہی اپنی جیپوں سے آر آر پر فائر بھی کھول دیا۔نائیک منصف کو حکم ملا وہ دشمن کے پہلے ٹینک کا نشانہ لے کر فائر کرے۔ فائر کھلتا ہے دشمن کے پہلے ٹینک کے پرخچے اڑ جاتے ہیں بھارت دشمن کی پیش قدمی رک جاتی ہے۔ دشمن کو پہلی بار احساس ہوا کہ پاک فوج کے جوان بھی ڈرین کے اس پار موجود ہیں۔ اب دونوں جانب سے تابڑ توڑ جنگ شروع ہوچکی تھی لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ ہمارے فائر نشانے پر لگتے لیکن بھارتی فوج کے فائر بیکار جاتے ۔ جب بریگیڈئر اصغر قریشی نے وائر لیس پر میجر شفقت سے رابطہ کیا تو اس وقت دشمن کو ہڈیارہ ڈرین کے اس پار رکے ہوئے دو گھنٹے سے زائد وقت ہوچکاتھا۔ بریگیڈ کمانڈر نے کہا‘ میجر شفقت مجھے تم پر فخر ہے تم نے وہ معجزہ کردکھایا ہے جس کی قوم کو ضرورت تھی۔ میجر شفقت نے کہا سر میں آخر ی جوان اور آخری گولی تک دشمن کو ادھر سے پیش قدمی نہیں کرنے دوں گا۔ یہ میرا آپ سے وعدہ ہے ۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ایک کمپنی کے خلاف دشمن کی اٹھارہ کمپنیاں برسرپیکار تھیں۔
دشمن کے پاس بھاری ٹینک اور بھاری توپ خانہ بھی تھا جبکہ پاکستانی کمپنی موثر ہتھیاروں سے محروم تھی۔اسی اثناء میں میجر شفقت بلوچ نے دیکھا کہ جنوب مشرق کی جانب سے دشمن کے ٹینک نالے کو عبور کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔آرٹلری کا فائر مانگا تو جواب ملا میجر ہمارے پاس اتنے گولے نہیں ہیں۔معاملے کی نزاکت بتائی تو گولے برسے آگ اور دھوئیں کے بادل بلند ہوئے اور ایک بار پھر دشمن کے بڑھتے ہوئے قدم رک گئے۔ ساڑھے دس بج رہے تھے ۔دشمن کی بکتر بند گاڑیاں پہلی دفاعی لائن سے ٹکرا کر سر پھوڑ رہی تھیں۔ لاہور بہت دور تھا۔ انہی لمحات میں صدر پاکستان جنرل محمد ایوب خان کے ولولہ انگیز خطاب نے پوری قوم کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا دیا اور پاک فوج کے جوانوں کے حوصلے آسمان کو چھونے لگے۔امریکی ہفت روزہ میگزین “ٹائم”کے جنگی وقائع نگار لوئیس کرار نے 23ستمبر 1965ء کے شمارے میں لکھا ۔میں شاید اس جنگ کو بھول جاؤں لیکن میں اس پاکستانی افسر ( میجر شفقت ) کی مسکراہٹ کونہیں بھول سکتا جو مجھے اپنے ساتھ محاذ جنگ پر لے گیا۔
ان کی مسکراہٹ مجھے بتارہی تھی کہ پاکستانی جوان کس قدر دلیر اور نڈر ہیں۔جوان سے جرنیل تک کو میں نے اس طرح آگ سے کھیلتے دیکھا جس طرح گلی کوچوں میں چھوٹے بچے کانچ کی گولیوں سے کھیلتے ہیں۔جب میجر عزیز بھٹی نے بی آر بی پر دفاعی پوزیشن سنبھال لی تو میجر شفقت کو ڈی کمپنی کے ہمراہ واپس آنے کا حکم ملا۔ میجر شفقت ‘ بٹالین ہیڈ کوارٹر پہنچے تو کرنل قریشی نے پوچھا کتنے جوان شہید ہوئے ۔میجر شفقت نے بتایا صرف دو جوان وہ بھی واپس آتے ہوئے اپنی ہی بارودی سرنگوں سے ٹکرا کر شہید ہوئے ۔بھارتی فوج ہمارا ایک بھی جوان شہید نہیں کرسکی۔جبکہ اسی علاقے سے بھارتی فوج تین دن تک اپنے فوجیوں کی نعشیں اٹھاتی رہی ۔میجر شفقت کو محافظ لاہور کے خطاب کے علاوہ جنرل محمدایوب خان نے ستارہ جرات سے بھی نوازا ۔ یہ ہیں پاکستان کے وہ بہادر سپوت
جو نہ گولیوں سے ڈرتے ہیں نہ بارود سے جن کا مقصد صرف وطن کے چپے چپے کی حفاظت کرنا ہے زندہ قومیں اپنے ان بہادر ہیروز کو کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتیں یہ ہیرو ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ان کا نام تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا ۔ اے راہ ھق کے شہیدو وفا کی تصویرو تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں۔
جو نہ گولیوں سے ڈرتے ہیں نہ بارود سے جن کا مقصد صرف وطن کے چپے چپے کی حفاظت کرنا ہے زندہ قومیں اپنے ان بہادر ہیروز کو کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتیں یہ ہیرو ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ان کا نام تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا ۔ اے راہ ھق کے شہیدو وفا کی تصویرو تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں۔
No comments:
Post a Comment