. خوشحالی کی دستک
فیس بک کی ایک پوسٹ کا آپ کے لئے انتخاب
فیس بک کی ایک پوسٹ کا آپ کے لئے انتخاب
ڈرائی فروٹ یا خشک میوہ جات سے تو سب واقف ہیں. یہ ایسے پھل ہیں جن کو خشک حالت کے سوا کھایا ہی نہیں جا سکتا، جیسے بادام، اخروٹ، کاجو، پستہ اور مونگ پھلی وغیرہ. مگر ڈرائیڈ فروٹ یا خشک پھل انہیں کہا جاتا ہے جو خشک کیے بغیر بھی کھائے جاتے ہیں اور خشک کرنے کے بعد بھی. جیسے آلوبخارا، خوبانی، انجیر اور انار دانہ.
ہمارے ہاں چونکہ رواج نہیں، آسودہ حال ملکوں میں تقریباً سبھی پھل جیسے آم، کیلا، انناس، کیوی پھل، ایوکاڈو، چیری اور امرود وغیرہ خشک شکل میں دستیاب ہوتے ہیں اور بالخصوص ناشتہ میں استعمال کیے جاتے ہیں. دنیا بھر میں یہ کروڑوں ڈالر کا کاروبار ہے اور ہم اس سے بالکل ناآشنا ہیں.
آج کل آم کا موسم ہے. اور پاکستان میں جس عمدہ معیار کے آم جس بڑی مقدار میں پیدا ہوتے ہیں، ہم تھوڑی سی توجہ محنت اور سرمایہ کاری سے بہت ہی اچھی قسم کا خشک آم بنا کر نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ ساری دنیا میں فروخت کرسکتے ہیں اور لاکھوں بلکہ کروڑوں ڈالر کا زرمبادلہ کماسکتے ہیں.
آم کو خشک کرنا انتہائی آسان ہے. دوسہری، انور لٹور، چونسا اور سندھڑی وغیرہ کی تو ویسے بہت مانگ ہے، مگر آم کی جو قسمیں جیسے لنگڑا، فجری اور دیسی وغیرہ کی بلاواسطہ مانگ کم ہے لہذا یہ نسبتاً سستے بھی ہیں. ان کو باآسانی خشک کرکے مہنگے داموں فروخت کیا جاسکتا ہے.
آم خشک کرنے کا عمل انتہائی آسان ہے. اور اگر آم کے پیداوار کے علاقہ کی خواتین کو اس کے چھوٹے چھوٹے کورس کروادیے جائیں تو یہ گھروں میں باآسانی دس بیس کلو خشک آم روزانہ گھر میں بناسکتی ہیں. اس طرح اس کی باقاعدہ صنعت بھی لگائی جاسکتی ہے.
پکے ہوئے آموں کو اچھی طرح دھو کر چھیل لیا جاتا ہے.دھونے کیلیے استعمال ہونے والے پانی میں سوڈیم ہائپوکلورائٹ جسے ہم عام زبان میں رنگ کاٹ کہتے ملایا جاتا ہے تاکہ جراثیم سے بچا جاسکے. پھر ان کی قاشیں بنا کر ایک کڑاہی میں ڈال کر اس میں آم کے آدھے وزن کے برابر چینی ڈالی جاتی ہے. جب چینی حل ہوجائے تو اس آچینی اور آم کے آمیزے کو ہلکی آنچ پر بیس سے تیس منٹ پکایا جاتا ہے. حتی کہ یہ کچھ شفاف سے ہوجائیں.
پھر ٹھنڈا ہونے پر سوڈیم میٹا بائی سلفائٹ (جو بازار میں باآسانی دستیاب ہے) ملا کر کچھ دیر بعد دھو دیا جاتا ہے. اس کے بعد صاف کپڑے پر بچھا کے ڈی ہائڈریٹر یا اوون میں پہلے پچاس اور پھر اسی ڈگری سینٹی گریڈ تک گرم کیا جاتا ہے. اس عمل میں قریب بیس گھنٹے میں ان میں نمی کی مقدار کم ہوکر بیس سے پچیس فیصد رہ جاتی ہے. اب انکو مومی لفافوں میں ہوا کے بغیر پیک کردیا جاتا ہے.
اس طرح پیک کئے گئے خشک آم چھ ماہ سے ایک سال صحیح رہتے ہیں. اس عمل سے ایک کلو آم کی قاشوں سے آدھ کلو خشک آم حاصل ہوتے ہیں. آپ بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس عمل سے تیار کیے گئے خشک آموں کی قیمت زیادہ سے دو سوا دوسو روپے فی کلو گرام پڑے گی. لیکن آپ حیران ہوں گے کہ عالمی منڈی میں اس کی قیمت دس ڈالر فی کلو تک ہے. یعنی سولہ سو روپے فی کلو. ابھی پچھلے ماہ ہم نے ملائشیا سے پاکستانی بائیس سوروپے فی کلو کے حساب سے خریدے.
اس وقت فلپائن دنیا بھر میں خشک آم درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے. جو ساری دنیا کو سالانہ کروڑوں ڈالر کے خشک آم درآمد کرتا ہے. بجز اس حقیقت کے کہ انکے آم ہمارے آموں کے مقابلہ میں انتہائی بےذائقہ اور پھسپھسے ہیں. ان کی وزارت نے اس کا باقاعدہ ایک کورس ڈیزائن کررکھا ہے. جس کی ویڈیو یو ٹیوب پر بھی دستیاب ہے. کوئی بھی سمجھدار انسان تین چار دفعہ یہ ویڈیو دیکھ کر خشک آم تیار کر سکتا ہے. فلپائن کی سرکاری کی ویب سائٹ پر خشک آم بنانے اور برآمد کرنے والی بڑی کمپنیوں کے رابطہ نمبر تک دیے گئے ہیں. حالانکہ فلپائن کوئی ترقی یافتہ ملک نہیں. مگر افسوس کہ ہم ان سے بھی گئے گذرے ہیں.
اگر ہم اپنے گاؤں میں ووڈ پیلٹ یا بائیو ماس سے چلنے والے چولہے عام کردیں تو اس عمل کو اور بھی آسان اور سستا کیا جاسکتا ہے. اسی طرح خشک کرنے کیلئے ڈی ہائڈریٹر بھی سورج کی گرمی میں بغیر کسی ایندھن یا بجلی کے چلتا ہے. اس کا ڈیزائن بھی انتہائی سادہ ہے. یہ بچوں کی سلائیڈ کی طرح کا ایک ڈبہ ہے. جس میں کچھ ایلومینیم سے بنے پائپ لگے ہوتے ہیں. جن پر جب سورج کی روشنی پڑتی ہے تو ان کے اندر موجود ہوا کو گرم کردیتی ہے جو اوپر کو اٹھتی ہے اور اس ڈبے میں جہاں خشک کرنے کے لیے پھل رکھے ہوتے ہیں گذرتی ہے. یہ گرم ہوا پھلوں کی نمی کو اپنے ساتھ لے کر اوپر کے راستی سے باہر نکل جاتی ہے.
ڈی ہائڈریٹر چند ہزار روپے میں کھڑکیاں دروازے بنانے والا کاریگر بناسکتا ہے. جس کی تصویر بھی آسانی کیلیے یہاں لگادیں گئی ہے. اور یہ آم کے علاوہ ہر قسم کے پھل اور سبزیاں خشک کرنے کے لیے استعمال ہوسکتا ہے.
میری دلی خواہش ہے کہ ہر پاکستانی کام کرے، اسے اس کی محنت کا بھر پور معاوضہ ملے اور ہرسو خوشحالی ہو. لیک اس کیلیے ضروری ہے کہ ہم مایوسی سے نکلیں اپنے ماحول میں دستیاب وسائل کے متعلق غور کریں اور ان کو مفید اور کارآمد بنانے کا ہنر سیکھیں.
No comments:
Post a Comment