August 30, 2019

نبی پاک حضرت محمد ﷺ کا سفر معراج اور کفار مکہ کا تمسخر




         🌹🌺🌷💚💚"اصحاب محمدﷺ   ہیں حق کے ولی"
وہ قہقہے لگاتا ہوا اور ہاتھ پہ ہاتھ مارتا وہ مکے کی گلی میں نکلا ...آج ہنسی اس سے رک نہیں رہی تھی -
کچھ ہی دیر میں اسے عتبہ مل گیا ، ذرا آگے ولید جا رہا تھا ...جس نے بات سنی قہقہے لگانے لگا - وہ بات ہی کچھ اس انداز سے سنا رہے تھے کہ رنگ آمیزی حد سے بڑھی ہوئی - ٹھٹہ ، تمسخر ، تضحیک کا ہر ہر رنگ ان کے ہر ہر لفظ سے ٹپک ٹپک پڑتا تھا ....
" آؤ نا یار ، ابوبکر کو ڈھونڈتے ہیں اسے بتاتے ہیں ، آج تو مزہ آ جائے گا اسے شرمندہ کرنے کا "
"ہاں یار یہ خوب کہی ، بہت ہم سے بحث کرتا ہے ، آج مگر اس کے لیے شرمندگی کا دن ہو گا ... حد ہے کہ بندہ ایک رات میں ہزاروں میل دور بیت المقدس سے ہو آئے اور یہ ہی نہیں پھر وہاں سے آسمانوں کو نکل جائے....آسمان نہ ہوئے طائف کی پہاڑیاں ہو گئیں .... چلو آؤ آج تماشا ہو ہی جائے "
وہ دیکھو ابو بکر .....
"ہاں بھئی ابوبکر ، سنا ہے کہ کسی نے کہا ہے کہ وہ رات رات میں القدس سے ہو آیا ، یہی نہیں پھر اس کے بعد آسمان سے بھی "
" کیا کہتے ہو ..ایسا بھی ہو سکتا ہیں ...نہیں نہیں ایسا نہیں ہوتا " ابوبکر بے ساختہ بول اٹھے ..
"ہاں یار ایسا ہی کہتا ہے وہ بندہ " .... ابوجہل آج فل "شغل " کے ارادے سے کھکھلا رہا تھا ...
"کہتا کون ہے ، ذرا یہ بھی تو خبر ملے " کچھ مسکراتے ابوبکر نے پوچھا -
"ہاں ہاں بتا دو نا اسے "
ولید نے شرارتی مسکراہٹ سے ابوجہل کو انگیخت کیا -
"جی ہاں ابوبکر جی آپ کے صاحب اپنے دوستوں میں جنہیں تم لوگ صحابی کہتے ہو ، بیٹھے یہ دعوی کر رہے ہیں "
ابوبکر کو گمان ہوا کہ یہ ان کے مذاق کا کوئی رنگ ہے بولے :
ﺍﻧﺘﻢ ﺗﮑﺬﺑﻮﻥ ﻋﻠﯿﮧ۔
’’ تم اُن پر جھوٹ بولتے ہو اُنھوں نے یہ نہیں کہا ہو گا۔ ‘‘ ۔
" ﯾﺎﺍﺑﺎﺑﮑﺮﮬﺎ ﮬﻮ ﺟﺎﻟﺲ ﻓﯽ ﺍﻟﻤﺴﺠﺪ ﻭﯾﺤﺪﺙ ﺍﺻﺤﺎﺑﮧ۔"
’’ جاؤ اور جا کے سُن لو وہ حرم  میں بیٹھے ابھی بھی اپنے اصحاب کو بتا رہے ہیں۔ ‘‘
اب کے ابوبکر چونک گئے

زمین کا رنگ بدل گیا ، آسمان کی چادر اب نیلی نہ رہی ، ابو بکر کا چہرہ ہی اور ہو گیا ...بشرے پر اب محبت ہی محبت تھی ...احترام ایسا احترام کہ جیسے کوئی صحیفہ اٹھا لایا ہو -
ﺳﯿﺪﻧﺎ ابوبکر ﻧﮯ ﮐﮩﺎ :
"ﮬﻮ ﯾﺤﺪﺙ ﺍﺻﺤﺎﺑﮧ ﺍﻵﻥ ؟
وہ اپنے ساتھیوں کو اس وقت بھی بتا رہے ہیں۔ ‘‘
" ﻧﻌﻢ ﮬﻮ ﯾﺤﺪﺙ "
’’ﮨﺎﮞ ہاں یار ابھی بھی وہ یہی کہہ رہے ہیں" .. ساتھ ہی ساتھ میں ابوجہل کا قہقہ بلند ہوا - اسے گمان تھا کہ آج ابوبکر شرمندہ ہوے ہی ہوے ..لیکن حیرتیں ان کی منتظر تھیں ، انھیں کیا خبر پیار کیا ہوتا ہے اور محبت کس کو کہتے ہیں ، ایمان کی حلاوت کس شے کا نام ہے اور عقیدہ کیا -
ﺳﯿﺪﻧﺎ ﺻﺪﯾﻖ ﺍﮐﺒﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :
"ﻭﺍﻟﻠﮧ ﻟﻮ ﮐﺎﻥ ﮬﺬﺍ ﺻَﺪَﻕَ ’’
"لو سنو ، اللہ کی قسم ﺍﮔﺮ میرے محبوب ﻧﮯ ﯾﮧ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺳﭻ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ "
"کیا مطلب ، کیا کہتے ہو ، کیونکر ایسی بات کرتے ہو؟ ..تمسخر اب شرمندگی میں بدل رہا تھا :
" ﯾﺎ ﺍﺑﺎﺑﮑﺮ ﮬﻞ ﺍﻧﺖ ﺗﺼﺪﻗﮧ ﺑﻐﯿﺮ ﺍﻥ ﺗﺴﻤﻊ ﻋﻨﮧ ؟’’
" ابوبکر ﮐﯿﺎ ﺁﭖ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺳﻨﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﺗﺼﺪﯾﻖ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ؟ ہاں سن تو لیا ہوتا ، یہیں بیٹھے تصدیق کیے جا رہے ہو "
لیکن ابوبکر اب بول رہے تھے اور بولے جا رہے تھے :
" واللہ ﯾﮧ ﺗﻮ ﻣﻌﺮﺍﺝ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻋﺠﯿﺐ ﺗﺮ ﺑﺎﺕ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺗﺼﺪﯾﻖ ﮐﺮ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ ، ﯾﮧ ﺗﻮآپ ﮐﺎ آسمانوں ﺗﮏ ﺟﺎﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﻧﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺼﺪﯾﻖ ﭘﺮ الجھ رہے ہو ، ﮨﻢ ﻧﮯ ﺗﻮ ﺑﻐﯿﺮ ﺩﯾﮑﮭﮯ, ان کے کہنے پر ﻣﺎﻥ ﻟﯿﺎ ﮨﮯ, کہ اللہ موجود ہے ، ایک ہے ، یکتا ہے ، حاجت روائی اس کے سوا کوئی نہیں کرتا ، ہاں یہ معراج تو اس سے کمتر بات ہے -"
سیدنا ابوبکر کی تصدیق نے ان کو صدیق کر دیا ، کفار کی تکذیب نے ان کو قیامت تک کے لیے تمام تر مسلمانوں کا صدیق بنا دیا -
رسول کریم صلی اللہ علیه وسلم کی بارگاہ میں پہنچے - آپ سے تمام تر واقعہ سنا - راستے کا قصہ سنایا ، ابوجہل کے سوال اپنے جواب سب حضور کے گوش گذار کیے اور پوچھا کہ " آقا ہمیں بھی تو سنائیے نا اس سیر دل پذیر کا قصہ -"
دنیا کے سب سے سچے خبر دینے والے نبی اپنے دوست کو اپنے سفر کی روداد سنا رہے تھے اور محبت کی ایک نئی دنیا دریافت ہو رہی تھی ....
نبی کریم ایک ایک بات سنا رہے تھے اور صدیق اکبر فرما رہے تھے :
صدقت یا رسول اللہ
صدقت یا رسول اللہ
صدقت یا رسول اللہ
اس روز پھر آپ صدیق ہو گئے جب ہادی عالم نے کہا :
"یا ابا بکر انت صدیق "
ہاں ابوبکر آپ صدیق ھیں

August 25, 2019

CHARITY, HUMANITY MEANS SUCCESS IN HEAVEN

صدقہ کی برکت سے مغفرت

ابو نصر الصیاد نامی ایک شخص، اپنی بیوی اور ایک بچے کے ساتھ غربت و افلاس کی زندگی بسر کر رہا تھا۔ ایک دن وہ اپنی بیوی اور بچے کو بھوک سے نڈھال اور بلکتا روتا گھر میں چھوڑ کر خود غموں سے چور کہیں جا رہا تھا کہ راہ چلتے اس کا سامنا ایک عالم دین احمد بن مسکین سے ہوا، جسے دیکھتے ہی ابو نصر نے کہا؛ اے شیخ میں دکھوں کا مارا ہوں اور غموں سے تھک گیا ہوں۔
شیخ نے کہا میرے پیچھے چلے آؤ، ہم دونوں سمندر پر چلتے ہیں۔
سمندر پر پہنچ کر شیخ صاحب نے اُسے دو رکعت نفل نماز پڑھنے کو کہا، نماز پڑھ چکا تو اُسے ایک جال دیتے ہوئے کہا اسے بسم اللہ پڑھ کر سمندر میں پھینکو۔
جال میں پہلی بار ہی ایک بڑی ساری عظیم الشان مچھلی پھنس کر باہر آ گئی۔ شیخ صاحب نے ابو نصر سے کہا، اس مچھلی کو جا کر فروخت کرو اور حاصل ہونے والے پیسوں سے اپنے اہل خانہ کیلئے کچھ کھانے پینے کا سامان خرید لینا۔
ابو نصر نے شہر جا کر مچھلی فروخت کی، حاصل ہونے والے پیسوں سے ایک قیمے والا اور ایک میٹھا پراٹھا خریدا اور سیدھا شیخ احمد بن مسکین کے پاس گیا اور اسے کہا کہ حضرت ان پراٹھوں میں سے کچھ لینا قبول کیجئے۔ شیخ صاحب نے کہا اگر تم نے اپنے کھانے کیلئے جال پھینکا ہوتا تو کسی مچھلی نے نہیں پھنسنا تھا، میں نے تمہارے ساتھ نیکی گویا اپنی بھلائی کیلئے کی تھی نا کہ کسی اجرت کیلئے۔ تم یہ پراٹھے لے کر جاؤ اور اپنے اہل خانہ کو کھلاؤ۔
ابو نصر پراٹھے لئے خوشی خوشی اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا کہ اُس نے راستے میں بھوکوں ماری ایک عورت کو روتے دیکھا جس کے پاس ہی اُس کا بیحال بیٹا بھی بیٹھا تھا۔ ابو نصر نے اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے پراٹھوں کو دیکھا اور اپنے آپ سے کہا کہ اس عورت اور اس کے بچے اور اُس کے اپنے بچے اور بیوی میں کیا فرق ہے، معاملہ تو ایک جیسا ہی ہے، وہ بھی بھوکے ہیں اور یہ بھی بھوکے ہیں۔ پراٹھے کن کو دے؟ عورت کی آنکھوں کی طرف دیکھا تو اس کے بہتے آنسو نا دیکھ سکا اور اپنا سر جھکا لیا۔ پراٹھے عوررت کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا یہ لو؛ خود بھی کھاؤ اور اپنے بیٹے کو بھی بھی کھلاؤ۔ عورت کے چہرے پر خوشی اور اُس کے بیٹے کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
ابو نصر غمگین دل لئے واپس اپنے گھر کی طرف یہ سوچتے ہوئے چل دیا کہ اپنے بھوکے بیوی بیٹے کا کیسے سامنا کرے گا؟
گھر جاتے ہوئے راستے میں اُس نے ایک منادی والا دیکھا جو کہہ رہا تھا؛ ہے کوئی جو اُسے ابو نصر سے ملا دے۔ لوگوں نے منادی والے سے کہا یہ دیکھو تو، یہی تو ہے ابو نصر۔ اُس نے ابو نصر سے کہا؛ تیرے باپ نے میرے پاس آج سے بیس سال پہلے تیس ہزار درہم امانت رکھے تھے مگر یہ نہیں بتایا تھا کہ ان پیسوں کا کرنا کیا ہے۔ جب سے تیرا والد فوت ہوا ہے میں ڈھونڈتا پھر رہا ہوں کہ کوئی میری ملاقات تجھ سے کرا دے۔ آج میں نے تمہیں پا ہی لیا ہے تو یہ لو تیس ہزار درہم، یہ تیرے باپ کا مال ہے۔
ابو نصر کہتا ہے؛ میں بیٹھے بٹھائے امیر ہو گیا۔ میرے کئی کئی گھر بنے اور میری تجارت پھیلتی چلی گئی۔ میں نے کبھی بھی اللہ کے نام پر دینے میں کنجوسی نا کی، ایک ہی بار میں شکرانے کے طور پر ہزار ہزار درہم صدقہ دے دیا کرتا تھا۔ مجھے اپنے آپ پر رشک آتا تھا کہ کیسے فراخدلی سے صدقہ خیرات کرنے والا بن گیا ہوں۔
ایک بار میں نے خواب دیکھا کہ حساب کتاب کا دن آن پہنچا ہے اور میدان میں ترازو نصب کر دیا گیاہے۔ منادی کرنے والے نے آواز دی ابو نصر کو لایا جائے اور اُس کے گناہ و ثواب تولے جائیں۔
کہتا ہے؛ پلڑے میں ایک طرف میری نیکیاں اور دوسری طرف میرے گناہ رکھے گئے تو گناہوں کا پلڑا بھاری تھا۔
میں نے پوچھا آخر کہاں گئے ہیں میرے صدقات جو میں اللہ کی راہ میں دیتا رہا تھا؟
تولنے والوں نے میرے صدقات نیکیوں کے پلڑے میں رکھ دیئے۔ ہر ہزار ہزار درہم کے صدقہ کے نیچے نفس کی شہوت، میری خود نمائی کی خواہش اور ریا کاری کا ملمع چڑھا ہوا تھا جس نے ان صدقات کو روئی سے بھی زیادہ ہلکا بنا دیا تھا۔ میرے گناہوں کا پلڑا ابھی بھی بھاری تھا۔ میں رو پڑا اور کہا، ہائے رے میری نجات کیسے ہوگی؟
منادی والے نے میری بات کو سُنا تو پھر پوچھا؛ ہے کوئی باقی اس کا عمل تو لے آؤ۔
میں نے سُنا ایک فرشہ کہہ رہا تھا ہاں اس کے دیئے ہوئے دو پُراٹھے ہیں جو ابھی تک میزان میں نہیں رکھے گئے۔ وہ دو پُراٹھے ترازو پر رکھے گئے تو نیکیوں کا پلڑا اُٹھا ضرور مگر ابھی نا تو برابر تھا اور نا ہی زیادہ۔
مُنادی کرنے والے نے پھر پوچھا؛ ہے کچھ اس کا اور کوئی عمل؟ فرشتے نے جواب دیا ہاں اس کیلئے ابھی کچھ باقی ہے۔ منادی نے پوچھا وہ کیا؟ کہا اُس عورت کے آنسو جسے اس نے اپنے دو پراٹھے دیئے تھے۔
عورت کے آنسو نیکیوں کے پلڑے میں ڈالے گئے جن کے پہاڑ جیسے وزن نے ترازو کے نیکیوں والے پلڑے کو گناہوں کے پلڑے کے برابر لا کر کھڑا کر دیا۔ ابو نصر کہتا ہے میرا دل خوش ہوا کہ اب نجات ہو جائے گی۔
منادی نے پوچھا ہے کوئی کچھ اور باقی عمل اس کا؟
فرشتے نے کہا؛ ہاں، ابھی اس بچے کی مُسکراہٹ کو پلڑے میں رکھنا باقی ہے جو پراٹھے لیتے ہوئے اس کے چہرے پر آئی تھی۔ مسکراہٹ کیا پلڑے میں رکھی گئی نیکیوں والا پلڑا بھاری سے بھاری ہوتا چلا گیا۔ منادی کرنے ولا بول اُٹھا یہ شخص نجات پا گیا ہے۔
ابو نصر کہتا ہے؛ میری نیند سے آنکھ کھل گئی۔ میں نے اپنے آپ سے کہا؛ اگر میں نے اپنے کھانے کیلئے جال پھینکا ہوتا تو کسی مچھلی نے نہیں پھنسنا تھا اور اپنے کھانے کیلئے پراٹھے خریدے ہوتے تو آج نجات بھی نہیں ہونی تھی
خود بھی پڑھیں اور دوسروں سے بھی ضرور شئر کریں

August 24, 2019

DRY FRUITS , PROFITABLE BUSINESS


. خوشحالی کی دستک
فیس بک کی ایک پوسٹ کا آپ کے لئے انتخاب
ڈرائی فروٹ یا خشک میوہ جات سے تو سب واقف ہیں. یہ ایسے پھل ہیں جن کو خشک حالت کے سوا کھایا ہی نہیں جا سکتا، جیسے بادام، اخروٹ، کاجو، پستہ اور مونگ پھلی وغیرہ. مگر ڈرائیڈ فروٹ یا خشک پھل انہیں کہا جاتا ہے جو خشک کیے بغیر بھی کھائے جاتے ہیں اور خشک کرنے کے بعد بھی. جیسے آلوبخارا، خوبانی، انجیر اور انار دانہ.
ہمارے ہاں چونکہ رواج نہیں، آسودہ حال ملکوں میں تقریباً سبھی پھل جیسے آم، کیلا، انناس، کیوی پھل، ایوکاڈو، چیری اور امرود وغیرہ خشک شکل میں دستیاب ہوتے ہیں اور بالخصوص ناشتہ میں استعمال کیے جاتے ہیں. دنیا بھر میں یہ کروڑوں ڈالر کا کاروبار ہے اور ہم اس سے بالکل ناآشنا ہیں.
آج کل آم کا موسم ہے. اور پاکستان میں جس عمدہ معیار کے آم جس بڑی مقدار میں پیدا ہوتے ہیں، ہم تھوڑی سی توجہ محنت اور سرمایہ کاری سے بہت ہی اچھی قسم کا خشک آم بنا کر نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ ساری دنیا میں فروخت کرسکتے ہیں اور لاکھوں بلکہ کروڑوں ڈالر کا زرمبادلہ کماسکتے ہیں.
آم کو خشک کرنا انتہائی آسان ہے. دوسہری، انور لٹور، چونسا اور سندھڑی وغیرہ کی تو ویسے بہت مانگ ہے، مگر آم کی جو قسمیں جیسے لنگڑا، فجری اور دیسی وغیرہ کی بلاواسطہ مانگ کم ہے لہذا یہ نسبتاً سستے بھی ہیں. ان کو باآسانی خشک کرکے مہنگے داموں فروخت کیا جاسکتا ہے.
آم خشک کرنے کا عمل انتہائی آسان ہے. اور اگر آم کے پیداوار کے علاقہ کی خواتین کو اس کے چھوٹے چھوٹے کورس کروادیے جائیں تو یہ گھروں میں باآسانی دس بیس کلو خشک آم روزانہ گھر میں بناسکتی ہیں. اس طرح اس کی باقاعدہ صنعت بھی لگائی جاسکتی ہے.
پکے ہوئے آموں کو اچھی طرح دھو کر چھیل لیا جاتا ہے.دھونے کیلیے استعمال ہونے والے پانی میں سوڈیم ہائپوکلورائٹ جسے ہم عام زبان میں رنگ کاٹ کہتے ملایا جاتا ہے تاکہ جراثیم سے بچا جاسکے. پھر ان کی قاشیں بنا کر ایک کڑاہی میں ڈال کر اس میں آم کے آدھے وزن کے برابر چینی ڈالی جاتی ہے. جب چینی حل ہوجائے تو اس آچینی اور آم کے آمیزے کو ہلکی آنچ پر بیس سے تیس منٹ پکایا جاتا ہے. حتی کہ یہ کچھ شفاف سے ہوجائیں.
پھر ٹھنڈا ہونے پر سوڈیم میٹا بائی سلفائٹ (جو بازار میں باآسانی دستیاب ہے) ملا کر کچھ دیر بعد دھو دیا جاتا ہے. اس کے بعد صاف کپڑے پر بچھا کے ڈی ہائڈریٹر یا اوون میں پہلے پچاس اور پھر اسی ڈگری سینٹی گریڈ تک گرم کیا جاتا ہے. اس عمل میں قریب بیس گھنٹے میں ان میں نمی کی مقدار کم ہوکر بیس سے پچیس فیصد رہ جاتی ہے. اب انکو مومی لفافوں میں ہوا کے بغیر پیک کردیا جاتا ہے.
اس طرح پیک کئے گئے خشک آم چھ ماہ سے ایک سال صحیح رہتے ہیں. اس عمل سے ایک کلو آم کی قاشوں سے آدھ کلو خشک آم حاصل ہوتے ہیں. آپ بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس عمل سے تیار کیے گئے خشک آموں کی قیمت زیادہ سے دو سوا دوسو روپے فی کلو گرام پڑے گی. لیکن آپ حیران ہوں گے کہ عالمی منڈی میں اس کی قیمت دس ڈالر فی کلو تک ہے. یعنی سولہ سو روپے فی کلو. ابھی پچھلے ماہ ہم نے ملائشیا سے پاکستانی بائیس سوروپے فی کلو کے حساب سے خریدے.
اس وقت فلپائن دنیا بھر میں خشک آم درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے. جو ساری دنیا کو سالانہ کروڑوں ڈالر کے خشک آم درآمد کرتا ہے. بجز اس حقیقت کے کہ انکے آم ہمارے آموں کے مقابلہ میں انتہائی بےذائقہ اور پھسپھسے ہیں. ان کی وزارت نے اس کا باقاعدہ ایک کورس ڈیزائن کررکھا ہے. جس کی ویڈیو یو ٹیوب پر بھی دستیاب ہے. کوئی بھی سمجھدار انسان تین چار دفعہ یہ ویڈیو دیکھ کر خشک آم تیار کر سکتا ہے. فلپائن کی سرکاری کی ویب سائٹ پر خشک آم بنانے اور برآمد کرنے والی بڑی کمپنیوں کے رابطہ نمبر تک دیے گئے ہیں. حالانکہ فلپائن کوئی ترقی یافتہ ملک نہیں. مگر افسوس کہ ہم ان سے بھی گئے گذرے ہیں.
اگر ہم اپنے گاؤں میں ووڈ پیلٹ یا بائیو ماس سے چلنے والے چولہے عام کردیں تو اس عمل کو اور بھی آسان اور سستا کیا جاسکتا ہے. اسی طرح خشک کرنے کیلئے ڈی ہائڈریٹر بھی سورج کی گرمی میں بغیر کسی ایندھن یا بجلی کے چلتا ہے. اس کا ڈیزائن بھی انتہائی سادہ ہے. یہ بچوں کی سلائیڈ کی طرح کا ایک ڈبہ ہے. جس میں کچھ ایلومینیم سے بنے پائپ لگے ہوتے ہیں. جن پر جب سورج کی روشنی پڑتی ہے تو ان کے اندر موجود ہوا کو گرم کردیتی ہے جو اوپر کو اٹھتی ہے اور اس ڈبے میں جہاں خشک کرنے کے لیے پھل رکھے ہوتے ہیں گذرتی ہے. یہ گرم ہوا پھلوں کی نمی کو اپنے ساتھ لے کر اوپر کے راستی سے باہر نکل جاتی ہے.
ڈی ہائڈریٹر چند ہزار روپے میں کھڑکیاں دروازے بنانے والا کاریگر بناسکتا ہے. جس کی تصویر بھی آسانی کیلیے یہاں لگادیں گئی ہے. اور یہ آم کے علاوہ ہر قسم کے پھل اور سبزیاں خشک کرنے کے لیے استعمال ہوسکتا ہے.
میری دلی خواہش ہے کہ ہر پاکستانی کام کرے، اسے اس کی محنت کا بھر پور معاوضہ ملے اور ہرسو خوشحالی ہو. لیک اس کیلیے ضروری ہے کہ ہم مایوسی سے نکلیں اپنے ماحول میں دستیاب وسائل کے متعلق غور کریں اور ان کو مفید اور کارآمد بنانے کا ہنر سیکھیں.


(ابن فاضل)

August 16, 2019

RAPIEST MAKE VIDEOS OF INNOCENTS HUSBAND WIFE SALE PORN VIDEOS TO PORN WEBSITES


  تعلیمی اداروں و گلی محلوں سے نوجوان طالبات و کم عمر لڑکیوں کو بہلا پھسلا کے اغواء بعد ریپ اور  اس شیطانی کھیل کی ویڈیوز بین الاقوامی     پورن ویب سائٹس کو بھاری معاوضے عوض فروخت کرنے والا جوڑا  بلاآخر پولیس کے ہتھے چڑھ گیا لڑکیوں کو ریپ کے بعد ویڈیوز بنا کر پورن ویب سائٹ کو فروخت کرنے والا جوڑا پکڑا گیا۔ 127 کم عمر لڑکیوں کو اغوا کے بعد ریپ کا دل ہلا دینے والا واقعہ منظر عام پر آ گیا۔
خاوند گلستان کالونی میں واقع کوٹھی میں لڑکیوں ساتھ زبردستی جنسی فعل کرتا جبکہ بیوی موبائل فون میں اس مکروہ عملی کی ویڈیوز بناتی تھی
متاثرین میں آٹھ سے بارہ سال کی عمر تک کی معصوم لڑکیاں کی شامل
سات ماہ کے دوران ملزم نے 127 سے زائد لڑکیوں ساتھ ریپ کیا اور اسکی بیوی نے ویڈیوز بنا کر بیرون ملک فروخت کیں
تفتیش کاروں نے ملزمان کے موبائل فونز سے تمام ویڈیوز برآمد
تفصیلات کے مطابق تھانہ سٹی کے اہلکاروں نے ایک کاروائی کے دوران گجر خان سے تعلق رکھنے والے ایک جوڑے کو “بھائی بہن” بن کر گورنمنٹ گورڈن کالج باہر سے شادی شدہ نوجوان طالبہ کو بہلا پھسلا کر اغواہ کرتے رہے
جوڑے کی شناخت قاسم جہانگیر ولد سعید جہانگیر کے نام سے ہوا ہے
یہ جوڑا بنکر  کالجز، یونیورسٹیوں اور گلی و محلہ سے نوجوان طالبات و کم عمر لڑکیوں کو اغواہ کے بعد ریپ کرکے اس شیطانی کھیل کی موبائل فونز میں ویڈیوز بنا کر بین الاقوامی پورنو ویب سائیٹ کے ہاتھوں بھاری معاوضے کے عوض فروخت کرنے کے جرم میں دھر لیے گٸے ہیں
پولیس نے اغواہ اور زناء کے دفعات کے تحت ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا جبکہ ملزمان کی شناخت قاسم جہانگیر ولدجہانگیر سعید اور کرن زوجہ قاسم سعید سکنہ متوا ، ڈھوک حبیب کینال ، مندرہ تحصیل گجر خان سے ہوئی ہے۔
زرائع کے مطابق تھانہ سٹی کو سنبل جمیل زوجہ یاسر مصطفی سکنہ وقار النساء کالج، جہانگیر روڈ نے درخواست دی کہ میں گورنمنٹ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں MSc Economics (Semester II) کی طالبہ ہوں مورخہ 3 اگست میں گورڈن کالج میں ورکشاپ میں شرکت کے بعد شام چھ بجے گھر جانے کے لیے جب میں گیٹ پر آئی تو نقاب پہنے ایک لڑکی میرے قریب آئی اور خود کو سٹوڈنٹ ظاہر کرتے ہوئے مجھ سے بات چیت کرنے لگی اور پوچھا کہاں جانا ہے جس پر میں نے اسے بتایا ٹیپو روڈ تو وہ بولی میں نے بھی ادھر ہی جانا ہے اور میرا بھائی اپنی گاڑی میں آرہا ہے تم بھی میرے ساتھ بیٹھ جانا۔ مدعیہ کے مطابق اتنی دیر میں ان کے پاس گرے رنگ کی گاڑی VW-789 رکی اور ایک مرد باہر آیا۔ مدعیہ کے مطابق وہ گاڑی پاس کھڑی تھی کہ لڑکی نے اسے دبوچ لیااور گاڑی کی پچھلی سیٹ پر دھکیل دیا اور خود بھی ساتھ بیٹھ گئی جبکہ مرد نے فٹا فٹ گاڑی سٹارٹ کی۔ مدعیہ کے مطابق لڑکی نے گاڑی کے شیشوں پر کالے رنگ کے پردے گرائے اور خنجر نکال کر اسے دھمکی دی کہ شور مت مچانا ورنہ جان سے مار دوں گی۔ مدعیہ کے مطابق گلستان کالونی لین نمبر 3 غفار سٹریٹ میلاد چوک میں واقع ایک گھر میں لے جایا گیا جہاں مرد نے اس کے ساتھ زبردستی جنسی زیادتی کی جبکہ لڑکی نے موبائل فون میں اس کی ویڈیو اور تصویر بنائیں اور اسے دھمکی دی کہ اپنا منہ بند رکھنا ورنہ تمھارے پورے خاندان کو ختم کر دیں گے۔ مدعیہ کے مطابق اسے مرد نے رات کے نو بجے اپنی گاڑی میں ٹیپو روڈ چھوڑ کر فرار ہو گیا۔ پولیس نے ملزمان کے خلاف زیر دفعات 376/365 ت پ مقدمہ درج کیا اور تفتیش شروع کر دی۔
مقدمہ کے تفتیشی افسر ٹرینی ایس آئی عقیل راٹھور نے مدعیہ کی نشاندھی پر مزکورہ مکان پر چھاپہ مار کر جوڑے کو گرفتار کر لیا اور تھانے منتقل کر دیا۔ زرائع کے مطابق ابتدائی طور پر تھانہ کے مہتمم نے اس کیس کو “جعلی ریپ کیس” کے طور پر لیا
اور جوڑے کو علاقہ مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کر کے قاسم جہانگیر کا چار روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کیا جبکہ اسکی بیوی کرن کو چودہ روزہ جیوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
زرائع کے مطابق تھانہ سٹی میں تعینات فرنٹ ڈیسک انچارج نے ملزمان کے موبائل فونز کو جب ڈی کوڈ کر کے ڈیٹا چیک کیا تو اس کو خفیہ فائلز میں سٹور لاتعداد ریپ کی ویڈیوز اور قابل اعتراض تصاویر ملیں جو فوری طور پر مہتمم اور تفتیشی افسر راٹھور کے نوٹس میں لائی گئیں۔
سی پی او فیصل رانا نے اس پہ موقف دیتے ہوئے کہا کہ
وقوعہ کا مقدمہ تھانہ سٹی میں اغواء اور زیادتی کی دفعہ کے تحت درج تھا ملزم قاسم عدالت سے جسمانی ریمانڈ پر ہے جبکہ اس کی اہلیہ ملزمہ کرن محمود جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوائی جا چکی ہے
ملزم میاں بیوی اب تک 45 لڑکیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا چکے ہیں
ملزمان زیادتی کا نشانہ بنانے والی بچیوں کی برہنہ ویڈیوز بھی بناتے تھے،ملزمان سے 10 واقعات کی برہنہ ویڈیوز اورہزاروں برہنہ تصاویر بر آمد کر لی گئی ہیں
ایم ایس سی کی طالبہ شادی شدہ لڑکی سے زیادتی کے مقدمہ میں بیڈ شیٹ اور ٹشو پیپرز ڈی این اے ٹیسٹ کے لئے بجھوائے گئے ہیں،
ایس پی راول کوملزم کی ہوس کا نشانہ بننے والی تمام بچیوں کے والدین سے رابطہ کرنے کی ہدایت جاری کی گئی ہیں
ہر وقوعہ کی الگ الگ ایف آئی آر درج کر کے ملزمان کو الگ الگ چالان کیا جائے گا
،،سی پی او نے ہدایت جاری کرتے ہوۓ کہا کہ ان معاشرتی ناسوروں کو قانون کے مطابق عبرتناک سزا دلوائی جائے تاکہ کسی کو حوا کی بیٹی سے زیادتی اور بلیک میل کرنے کی سوچ تصور میں بھی نہ آئے ۔۔۔۔
یہ پوسٹ شئیر کرے تاکہ اِن بلیک میلر جوڑے سے بچیوں کے والدین تمام پاکستانی ادارے باخبر ہوجاٸے کہ پاکستان میں ایسے گھناونے اوربھیانک جراٸم میں ایسے ہی بلیک میلر میں بیوی کا گینگ بھی شامل ہوتا ہے اورشائد ان کے اس گھناونے کاروبار میں کچھ بااثر لوگ بھی شامل ہونگے جنکو بے نقاب کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔۔۔

Total Pageviews