March 29, 2017

Face Book, Internet Friendship Just Fake, Fraud



خاص لڑکیوں کے لیے*
*ایک بہن کی عبرت انگیز کہانی 
*خواتین ہوشیار رہا کریں 
 میں کالج کے امتحانات سے فارغ ہوئی تو بوریت کا شکار تھی ، گھر کا ماحول بھی تھوڑا سخت تھا ، آزادانہ گھومنے پھرنے کی پابندی تھی تو سوچا کیوں نہ وقت گزاری کیلئے فیس بک جوائن کر لوں ، پھر کیا بتاؤں بس یوں سمجھو کہ امی سے کئی بار ڈانٹ بھی کھائی مگر فیس بک تو جیسے میرا اوڑھنا بچھونا ہی بن گئی۔ ہے تو غلط بات مگر وقتی طور پر مجھے اچھا لگا۔
لڑکوں کی توجہ پانا اور تعریفی کلمات سننا لیکن چونکہ میں ایسے ماحول کی عادی نہیں تھی تو مجھے جلد ہی اپنی غلطی کا احساس ہونا شروع ہو گیا۔
جب میں نے دیکھا کہ میری ہر پوسٹ پر بیشمار کمنٹس آتے تھے ،کبھی کوئی محبت بھری شاعری میں ٹیگ کر رہا ہوتا تو کبھی کوئی ان باکس میں چاہت کا اظہار کر رہا ہوتا ، ڈیٹس کی آفر کر رہا ہوتا کئی ٹھرکی حضرات نے تو بنا دیکھے شادی کی پیشکش بھی کر دی مگر مجھے امی کی وارننگ یاد تھی کہ میں نے تمہاری تربیت میں کوئی کمی نہیں کی ہے ،اچھے اور برے کی پہچان سکھا دی ہے۔
اب میں 24 گھنٹے تمہاری چوکیداری نہیں کر سکتی ،بس ہمارا اعتبار کبھی نہ توڑنا !
 امی کی باتیں سمجھہ تو آتی تھیں مگر فیس بک کا چارم ساری نصیحتیں بھلا دیتا تھا ، سوچتی تھی کہ وقت گزاری ہی تو ہے بس ،میں کونسا کسی سے زیادہ فری ہوتی ہوں جو پریشانی ہوں۔
مگر پھر یوں ہوا کہ ایک لڑکا جو بظاہر بہت مہذب تھا مجھے سچ مچ اچھا لگنے لگا ، بقول اس کے اسکی ساری توجہ کا مرکز صرف میں تھی ، میں اسکی خوبصورت باتوں کے جال میں آگئی اور اس پر بھروسہ کرنے لگی ، میں اس سے ابھی تک ملی نہیں تھی مگر مجھے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے میں اسے ہمیشہ سے جانتی ہوں اور وہ جیون ساتھی بننے کیلئے بہت موزوں ہے ،
موقع دیکھ کر امی سے بات کروں گی اسکے بارے میں !
لیکن آھستہ آھستہ اسکی بے تکلفیاں بڑھنے لگیں ،اسکی ذومعنی باتیں مجھے پریشان کرنے لگی تھی ، ایک چبھن سی تھی جو اندر کو چوبتی رہتی تھی ، 
 میں اب اس سے ناطہ ختم کرنا چاہتی تھی مگر وہ خود کو جان سے مارنے کی دھمکی دے کر مجھے روک لیتا تھا ۔۔!!
پھر اچانک ایک دن شام کے وقت اس نے مجھ سے ملنے کی فرمائش کی ، میں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ایک تو رات کو ملنا ہی غلط دوسرا کسی رشتے کے بغیر ہمارا ہی نہیں بلکہ ہر لڑکے اور لڑکی کا تنہا ملنا ٹھیک نہیں ،
میرا انکار سن کر وہ تھوڑا اکھڑ سا گیا کہ کیا یار ؟ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں ، 
کوئی کھا تھوڑی جاؤں گا ، 
تم بھی نا ، بس حد کرتی ہو میں نے نرمی سے کہا کیونکہ یہ غلط ہے ، 
 جب دو لڑکا لڑکی اکیلے ہوں تیسرا شیطان ہمیشہ بیچ میں رہتا ہے وہ بولا غلط ہے تو فیس بک جوائن کیوں کی تھی ؟؟
بیٹھتی نا پردے میں ، 
 یہاں تو یہی کچھ ہوتا ہے !
میں نے بھی غصے میں جواب دیا کہ فیس بک پر اگر غلط لڑکیاں آتی ہیں تو آپ بھی تو آتے ہیں ، اسکا مطلب آپ بھی برے ہیں ؟
بکواس بند کرو ، میرا طنزیہ جواب سن کر وہ تڑپ کر بولا ، مجھے پتا ہوتا تم ایسی ہو تو کبھی تم کو منہ نہ لگاتا ، سالی نے ''ہوٹل کے کمرے کی بکنگ'' پر اتنے پیسے ضائع کروا دئیے میرے ، اب واپس بھی نہیں ہوں گے اسکی اس بات پر میں جیسے پتھر کی ہو گئی ،نجانے کب میری آنکھوں سے دو آنسو گرے ، شائد شکرانے کے کہ میرے رب نے مجھے کسی غلیظ گھڑے میں گرنے سے پہلے ہی بچا لیا...
*میری بہنو !*
میں نے تو اپنا سبق سیکھ لیا کیونکہ میری سوچ کو بنانے والی میری ماں تھی ، 
وقتی طور پر میرے قدم لڑکھڑائے ضرور مگر الحمدلله میرے الله نے مجھے بر وقت بچا 
 لیا اب آپ سب لوگوں سے درخواست ہے کہ فیس بک یا نیٹ کا غلط استعمال نہ کریں پلیز !
*نیٹ پر ملنے والا ہر شخص شریف نہیں ہوتا ،*
*تنہائی میں کبھی کسی مرد کو نہ ملیں ،*
*خود کو برباد ہونے سے بچائیں۔*
*آپ لوگ یہاں محبت کا کھیل نہ کھیلیں*

​​اگر ملن ممکن ہوسکتا ہے تو نکاح کا حلال رشتہ جوڑیں ، حرام کاری جیسے گناہ سے بچیں !
جو لڑکا آپ کی صحیح معنوں میں عزت کرتا ہوگا وہ باعزت طریقہ سے آپ سے رشتہ جوڑے گا۔
اپنے فارغ وقت کو کچھ اچھا سیکھنے میں صرف کیجئے !
انٹرنیٹ پر پیار محبت یہ سب دقیانوسی باتیں ہیں ، ویسے بھی ہر مرد کو لڑکیاں اچھی لگتی ہیں۔ ماسوائے چند  اچھے لوگوں کے جن کا  پتہ نہیں  چلتا  کیونکہ جھوٹ زیادہ کام کرتا ہے ۔ نیٹ  اور فیس بُک پر تو صرف جھوٹ ہی ہے۔ اصلی پیار حاصل کرنے کے لئے کبھی بھی اپنی زندگی خراب نہ کریں۔
نہ تو پیار ایسے ہوتا ہے نہ ہی دوستی !!
 یہ سب خیالی دنیا ہے اور حقیقت بہت مختلف ہوتی ہے۔
​​۔!
احتیاط کرلو اس سے پہلے کے پچھتانا پڑۓ
جو لڑکا آپ سے سچی محبت کرتا ھوگا
وہ عزت کے ساتھ آپ کو اسلامی شریعت کے مطابق آپ کو نکاح
 کرکے عزت کے ساتھ اپنے گھر لے جا
ۓ گا
ناکہ ھوٹلوں پارکوں میں گھما کے چند گفٹ دے کہ 
 آپکی عزت سے کھیلے...


شکر قندی ایک عام پھل جو سردی کے موسم میں پایا جاتا ہے انتہائی مفید




March 28, 2017

میں وقت پر کیسے آتا۔ تم نے کبھی مجھے وقت پر یاد کیا ہے۔ ہمیشہ ہی لیٹ ہوتے ہو ؟





*حجاب پر یونیورسٹی طالبہ اور اسکالر میں دلچسپ مکالمہ: HIJAB & ISLAM


*حجاب پر یونیورسٹی طالبہ اور اسکالر میں دلچسپ مکالمہ*
زیر نظر مضمون دراصل کویت کی ایک یونیورسٹی طالبہ اور کویت کے ہی ایک سکالر جناب ڈاکٹر جاسم مطوع کے درمیان ہونے والی گفتگو ہے، دلیل کے لیے اس کا ترجمہ چائنا میں مقیم محمد سلیم صاحب نے کیا، جو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے.
طالبہ: کیا قرآن پاک میں کوئی ایک بھی ایسی آیت ہے جو عورت پر حجاب کی فرضیت یا پابندی ثابت کرتی ہو؟
ڈاکٹر جاسم: پہلے اپنا تعارف تو کروائیے.
 طالبہ: میں یونیورسٹی میں آخری سال کی طالبہ ہوں، اور میرے بہترین علم کے مطابق اللہ تبارک و تعالیٰ نے عورت کو حجاب کا ہرگز حکم نہیں دیا، اس لیے میں بے پردہ رہتی ہوں، تاہم میں اپنی اصل سے بالکل جڑی ہوئی ہوں اور اس بات پر اللہ پاک کا بہت بہت شکر ادا کرتی ہوں۔
ڈاکٹر جاسم: اچھا تو مجھے چند ایک سوال پوچھنے دو.
طالبہ: جی بالکل
 ڈاکٹر جاسم: اگر تمھارے سامنے ایک ہی مطلب والا لفظ تین مختلف طریقوں سے پیش کیا جائے تو تم کیا مطلب اخذ کرو گی؟
طالبہ: میں کچھ سمجھی نہیں۔
ڈاکٹر جاسم: اگر میں تمہیں کہوں کہ مجھے اپنی یونیورسٹی گریجوایشن کی ڈگری دکھاؤ۔
یا یوں کہوں کہ اپنی یونیورسٹی گریجوایشن کا رزلٹ کارڈ دکھاؤ۔
یا پھر یوں کہوں کہ اپنی یونیورسٹی گریجوایشن کی فائنل رپورٹ دکھاؤ، تو تم کیا نتیجہ اخذ کرو گی؟
 طالبہ: میں ان تینوں باتوں سے یہی سمجوں گی کہ آپ میرا رزلٹ دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور ان تینوں باتوں میں کوئی بھی تو ایسی بات پوشیدہ نہیں ہے جو مجھے کسی شک میں ڈالے کیونکہ ڈگری، رزلٹ کارڈ یا فائنل تعلیمی رپورٹ، سب ایک ہی بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ آپ میرا رزلٹ دیکھنا چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر جاسم: بس، میرا یہی مطلب تھا جو تم نے سمجھ لیا ہے۔
طالبہ: لیکن آپ کی اس منطق کا میرے حجاب کے سوال سے کیا تعلق ہے؟
 ڈاکٹر جاسم: اللہ تبارک و تعالیٰ نے بھی قرآن مجید میں تین ایسے استعارے استعمال کیے ہیں جو عورت کے حجاب پر دلالت کرتے ہیں۔
طالبہ: (حیرت سے) وہ کیا ہیں اور کس طرح؟
 ڈاکٹر جاسم: اللہ تبارک و تعالی نے پردہ دار عورت کی جو صفات بیان کی ہیں انہیں تین تشبیہات یا استعاروں (الحجاب، الجلباب، الخمار) سے بیان فرمایا ہے جن کا مطلب بس ایک ہی بنتا ہے۔ تم ان تین تشبیہات سے کیا سمجھوگی پھر؟
طالبہ: خاموش
 ڈاکٹر جاسم: یہ ایسا موضوع ہے جس پر اختلاف رائے تو بنتا ہی نہیں، بالکل ایسے ہی جیسے تم ڈگری، رزلٹ کارڈ یا فائنل تعلیمی رپورٹ سے ایک ہی بات سمجھی ہو۔
طالبہ: مجھے آپ کا سمجھانے کا انداز بہت بھلا لگ رہا ہے مگر بات مزید وضاحت طلب ہے۔
 ڈاکٹر جاسم: پردہ دار عورتوں کی پہلی صفت (اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں، وليضربن بخمرھن على جيوبھن). باری تعالیٰ نے پردہ دار عورتوں کی جو دوسری صفت بیان فرمائی ہے، وہ یہ ہے کہ (اے نبیؐ، اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں – یايھا النبي قل لازواجك وبناتك ونساء المؤمنين يدنين عليھن من جلابيبھن)
 اللہ تبارک و تعالیٰ نے پردہ دار عورتوں کی جو تیسری صفت بیان فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ (گر تمہیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو – واذا سالتموھن متاعا فاسالوھن من وراء حجاب}
 ڈاکٹر جاسم: کیا ابھی بھی تمہارے خیال میں یہ تین تشبیہات عورت کے پردہ کی طرف اشارہ نہیں کر رہیں؟
طالبہ: مجھے آپ کی باتوں سے صدمہ پہنچ رہا ہے۔
ڈاکٹر جاسم: ٹھہرو، مجھے ان تین تشبیہات کی عربی گرائمر سے وضاحت کرنے دو۔
 عربی گرائمر میں ’’الخمار‘‘ اس اوڑھنی کو کہتے ہیں جس سے عورت اپنا سر ڈھانپتی ہے، تاہم یہ اتنا بڑا ہو جو سینے کو ڈھانپتا ہوا گھٹنوں تک جاتا ہو۔ اور ’’الجلباب‘‘ ایسی کھلی قمیص کو کہتے ہیں جس پر سر ڈھاپنے والا حصہ مُڑھا ہوا اور اس کے بازو بھی بنے ہوئے ہوں۔ فی زمانہ اس کی بہترین مثال مراکشی عورتوں کی قمیص ہے جس پر ھُڈ بھی بنا ہوا ہوتا ہے۔ تاہم ’’حجاب‘‘ کا مطلب تو ویسے ہی پردہ ہی بنتا ہے۔
طالبہ: جی میں سمجھ رہی ہوں کہ مجھے پردہ کرنا ہی پڑے گا۔
 ڈاکٹر جاسم: ہاں، اگر تمھارے دل میں اللہ اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہے تو۔ اور ایک اور بات جان لو کہ: لباس دو قسم کے ہوتے ہیں: پہلا جو جسم کو ڈھانپتا ہے۔ یہ والا تو فرض ہے اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے۔ دوسرا وہ جو روح اور دل کو بھی ڈھانپتا ہے۔ یہ دوسرے والا لباس پہلے سے زیادہ بہتر ہے، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد مبارک ہے کہ: (اور بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے، ولباس التقوى ذلك خير)۔ ہو سکتا ہے کہ ایک عورت نے ایسا لباس تو پہن رکھا ہو، جس سے اس کا جسم ڈھکا ہوا ہو لیکن اس نے تقویٰ کا لباس نہ اوڑھ رکھا ہو۔ تو ٹھیک طریقہ یہی ہے کہ وہ دونوں لباس زیب تن کرے.


مغرب میں آج بھی عورت کی خرید وفروخت ہو تی ہے. یورپ اور امریکہ میں سالانہ ایک لاکھ پچپن ہزار عورتیں سیکس سنٹرز کو فروخت کی جاتی ہیں۔



مغرب میں آج بھی عورت کی خرید وفروخت ہو تی ہے:
مغرب میں عورت کی باقاعدہ تجارت ہو تی ہے 1997 میں مغربی محقق"کریس ڈی اسٹوب" نے یورپ میں عورتوں کی تجارت پر تحقیق کی اورانکشاف کیا کہ" مغرب میں عورت کی زندگی جہنم ہے، صرف اسپین مین 5 لاکھ خواتین جسم فروشی پر مجبور ہیں، ڈنمارک جس کو ملحدین کا گڑھ کہا جاتا ہے اب اس کو بے غیر نکاح کے شادی کی جنت کہا جا رہا ہے، سوٹزرلینڈ کو اب کلب کی لڑکیوں کا ملک کہا جاتا ہے"۔
مصدر: کریس ڈی اسٹوب/ یورپ میں عورت کی تجارت
دوسری طرف امریکی نیوز چینل CNN نے ایک اخباری رپورٹ نشر کی کہ جس میں Maryland (امریکہ) میں johns Hopkins یونیورسٹی کے اہم تحقیقات پراعتماد کیا گیا ہے جس کے مطابق امریکہ میں ہر سال 2 لاکھ بچوں اورعورتوں کی باقاعدہ غلام کے طور پرخرید و فروخت ہو تی ہے اور ایک لاکھ 20 ہزارعورتیں مشرقی یورپ(روس اور اس کے آس پاس غریب ممالک) سے جسم فروشی کے لیے مغربی یورپ سمگل کی جاتی ہیں ۔
 
  
جن سے اکثریت ڈیڑھ لاکھعورتوں کو جسم فروشی کے لیے امریکہ بھیج دیا جاتا ہے۔ ان کا تعلق میکسیو سے ہو تا ہے۔ مشرقی ایشاء سے لائی جانے والی عورت کو امریکہ میں 16 ہزار ڈالر میں بیچا جاتا ہے جن کو بے حیائی کے اڈوں کے سپرد کیا جاتا ہے۔
 آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس سے بھی بڑی مصیبت ہو سکتی ہے جواب یہ ہے کہ جی اس سے بھی بڑی مصیبت یہ ہے کہ یورپ اور امریکہ میں ان عورتوں کو بیچتے وقت نمبر اور اسٹمپ لگا یا جاتا ہے۔ برطانوی اخبار" انڈیپنڈنٹ" نے 30 ستمبر 2014 کو ایک رپورٹ شائع کی جس کا عنوان تھا"Human Traffickers Victims branded like cattle " جسم فروشی کی غرض سے برطانیہ سے غلاموں کو ٹرکوں میں بھر دیا جاتا ہے پھران کو 200 سے 6000 پاونڈ کے درمیان فروخت کیا جاتا ہے۔
 اخبار نے اس کو عورت کی غلامی کہا ہے جس کو جانوروں کی طرح امریکہ اور یورپ میں فروخت کیا جاتا ہے باقاعدہ کمشن والے دلال ہیں جو اس میں ہزاروں ڈالرز کماتے ہیں۔
 مگر میڈیا کو مغرب کی برائی نظر نہیں آتی صرف اسلامی دنیا میں تیزاب پھینکنے کے واقعات اور شوہر کی طرف سے تشدد کے واقعات ہی توجہ کا مرکز ہیں کیونکہ مغرب کے ایمج کو خراب نہیں کرنا ہے اسلام کا ایمج خرب بھی ہو جائے کونسی بڑی بات ہے!!

Imran Khan Reveals to go Supreme Court on LNG Contract of Qatar and 200 Billion Contract to Qatri Shehzada





March 27, 2017

الیکشن سے ایک سال قبل 2008 اور 2013 والی ڈرامہ بازیاں شروع : ن لیگ اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کے خلاف توپوں کے منہ کھل گئے۔



  الیکشن2008 میں زرداری این آر او اور نوازشریف سعودی عرب کے ساتھ معاہدوں کی بیڑیوں میں جکڑے تھے۔ ڈیل اتنی واضح تھی کہ نوازشریف نے اپنے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کی اپیل تک نہ کی اور جلسوں میں اپنی پارٹی کے حق میں کیمپین چلانا شروع ہوگیا۔ نوازشریف کی کیمپین کا بنیادی ہدف مشرف اور چوہدری برادران تھے جبکہ زرداری کی کیمپین کا مرکزی نقطہ بینظیر کی شہادت اور بھٹو خاندان کی قربانیاں تھیں۔
 چونکہ عمران خان نے الیکشن کا بائیکاٹ کررکھا تھا، اس لئے سب کو نظر آرہا تھا کہ پی پی وہ الیکشن جیت کر حکومت بنالے گی۔
 الیکشن2013 میں صورتحال مختلف ہوچکی تھی۔ 30 اکتوبر 2011 کے تاریخی جلسے کے بعد عمران خان کی پارٹی پوری آب و تاب سے ملکی منظرنامے پر اپنا وجود ثابت کرچکی تھی۔ چنانچہ الیکشن سے ٹھیک 10 ماہ قبل کچھ اس قسم کے واقعات ہونا شروع ہوئے:
۔ نمبر 1 سب سے پہلے فضل الرحمان بہانہ بنا کر اپنے وزرا کو استعفے دلوا کر حکومت سے الگ ہوگیا اور اس نے اسلامی نظام کے نفاذ کا چورن دوبارہ بیچنا شروع کردیا۔
نمبر 2  نوازشریف زرداری کے خلاف میموگیٹ سکینڈل میں فریق بن کر سپریم کورٹ میں اپنے وکالت نامے کے ساتھ پہنچ گیا اور سیاسی درجہ حرارت بلند ہو گیا۔
نمبر 3   زرداری نے نوازشریف کے خلاف نیب کے پرانے کیسز کھلوا دیئے اور ایسا لگا کہ ملک 90 کی دہائی میں واپس جانا شروع ہوگیا۔
نمبر 4  شہبازشریف نے زرداری کو جلسوں میں لٹیرا کہہ کر پکارنا شروع کردیا اور اسے سڑکوں پر گھسیٹنے کا وعدہ کیا۔
نمبر5    الطاف حسین کے وزرا حکومت سے لڑ کر علیحدہ ہوگئے۔
نمبر6    رحمان ملک نے نوازشریف کے خلاف پرانے سکینڈلز کھولنے کا اعلان کردیا۔
ان سب اقدامات کا مقصد کیا تھا؟ مقصد یہ تھا کہ عوام کو لگے کہ اصل مقابلہ نوازشریف اور زرداری کے درمیان ہے اور عمران خان کی حیثیت محض 12 ویں کھلاڑی کی سی ہے۔ یہ تاثر دینے میں کافی حد تک کامیاب تو رہے لیکن الیکشن کی رات تمام تر دھاندلی کے باوجود عمران خان کے پی کے میں فاتح بن کر نکلا اور پنجاب میں بھی دوسری بڑی پارٹی بن گیا۔ زرداری لیگ کا دور دور تک نام و نشان نظر نہ آیا۔
حکومت میں آنے کے بعد زرداری کو گھسیٹنا تو دور، دھرنے کے دنوں میں میاں برادران اس کے آگے دم ہلاتے نظر آئے۔
آج کی تاریخ میں ہم جب الیکشنز سے 1 سال کے فاصلے پر ہیں تو آپ کے سامنے ایک دفعہ پھر 5 سال پرانی فلم شرطیہ نئے پرنٹوں سے دوبارہ چلنا شروع ہوگئی ہے۔
نمبر 1  ایک مرتبہ پھر زرداری اور نوازشریف کے درمیان لفظی جنگ کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔
نمبر 2  نوازشریف سندھ کے دورے کر رہا ہے اور زرداری لاہور میں کیمپ لگا کر بیٹھ گیا ہے۔
نمبر 3  دسترخوانی کالم نویسوں نے ان دونوں کی اس نورا کشتی پر اخبارات کے صفحے سیاہ کرنا شروع کردیئے ہیں۔
مقصد اس دفعہ بھی وہی ہے کہ عوام کو تاثر دیا جاسکے کہ اگلے الیکشن میں اصل مقابلہ نوازشریف اور زرداری میں ہی ہوگا۔
لیکن جس طرح پچھلے الیکشنز مین زرداری کا صفایا ہوگیا تھا، اسی طرح اگلے الیکشن میں پنجاب سے ن لیگ کا بھی صفایا ہونے جارہا ہے۔
لاہور، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، فیصل آباد، پنڈی، ملتان، اٹک، چکوال، گجرات اور جنوبی پنجاب کے تمام بڑے شہروں سے عمران خان کلین سویپ کرکے دکھائے گا۔
جس پنجاب کو نوازشریف نے اپنے سیاسی مفاد کیلئے چھوٹے صوبوں میں تقسیم نہیں کیا، اس بڑے صوبے کے بوجھ تلے اب خود نوازشریف آنے جارہا ہے۔ کے پی کے اور پنجاب سے عمران خان 120 سے زائد سیٹیں بآسانی نکالے گا اور باقی کمی چھوٹی جماعتیں اور آزاد امیدوار پوری کردیں گے۔
اسی لئے عمران خان بڑے اطمینان سے نوازشریف اور زرداری کو اگلے دس ماہ تک ایک دوسرے کی ماں بہن ایک کرتا دیکھے گا اور انجوائے کرے گا!!! بقلم خود باباکوڈا


Daily Tomato Juice Amazing Benefits Of Drinking


March 22, 2017

ہمارے ابا و اجداد نے کفار کی نشانیاں ختم نہ کیں مگر ہم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپریل چھ سو سینتیس عیسوی کے ایک دن ابو عبیدہ بن جراح کے طویل محاصرے سے تنگ آ کر بازنطینی یروشلم کے عمائدین نے شہر کے دروازے اس شرط پے کھولنا منظور کیا کہ خلیفہ عمرؓ بن خطاب کے سامنے ہتھیار ڈالیں گے۔
چنانچہ خلیفہِ راشد مدینہ سے یروشلم پہنچے اور شہر میں یوں داخل ہوئے کہ اونٹ کے کجاوے پر خادم تھا اور خلیفہِ ثانی مہار پکڑے چل رہے تھے۔ ظہر کا وقت ہوا تو پادری سوفرونیئس نے خلیفہ سے کہا کہ نو تعمیرشدہ گرجے میں نماز ادا کر لیجیے۔ خلیفہ نے کہا اگر میں نے ایسا کیا تو ڈر ہے کہ اسے نظیر بنا کر میرے بعد آنے والے اسے مسجد نہ بنا لیں۔ اور پھر گرجے کی سیڑھیوں پر نماز ادا کی۔
بعد ازاں سوفرونیئس اور یہودی کاہنوں کے ہمراہ ہیکلِ سلمانی کی طرف گئے جہاں جھاڑ جھنکار اور اینٹوں پتھروں کے انبار دیکھ کے خلیفہ کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ انھوں نے اپنے ہاتھوں سے پتھر اٹھا کر ایک طرف رکھنے شروع کر دیے۔
جب دسویں روز خلیفہ شہر سے رخصت ہوئے تو ہیکل کا علاقہ شیشے کی طرح چمک رہا تھا کیونکہ پانچ سو برس بعد یہودیوں کو یروشلم میں دوبارہ بسنا اور عبادت کرنا نصیب ہوا۔ مدینہ روانگی سے قبل خلیفہ نے حکم دیا کہ شہر کا نظم و نسق عمائدین کے مشورے سے چلایا جائے اور سرکاری خط و کتابت کے لیے حسبِ سابق لاطینی زبان ہی رکھی جائے ( اگلے پچاس برس تک اسی حکم پر عمل ہوتا رہا)۔
چھ سو سینتیس میں ہی جنگِ جلولہ کے بعد موجودہ عراق کے شہر تکریت اور موصل کو عرب افواج نے ساسانیوں سے چھین لیا۔ مگر کسی معبد یا بت کو ہاتھ نہیں لگایا۔ نہ ہی تب سے جون دو ہزار چودہ عیسوی تک موصل کے عین پچھواڑے میں تین ہزار برس سے منہ تکتے نینوا، نمرود اور ہترا کے آشوری کفر کے کھنڈرات کسی کی نگاہوں میں کھٹکے۔
جنگِ یرموک کے نتیجے میں بلادِ شام (اردن، سیریا، لبنان، فلسطین) کا پورا علاقہ بازنطینی سلطنت سے چھن گیا اور کچھ عرصے بعد دمشق پہلی اموی عرب بادشاہت کا صدر مقام ہو گیا۔ اور پھر اناطولیہ کا علاقہ بھی ہاتھ آ گیا۔ مگر امیرِ معاویہ سے آخری عثمانی سلطان عبدالحمید تک کسی کو خیال نہ آیا کہ پیٹرا سے بعلبک، طائر اور ٹرائے تک پھیلی یونانی و رومن و بازنطینی تہذیب کے محلات، قلعے، کھنڈرات اور مجسمے مسلمانوں کی مسلمانی کو آلودہِ شرک بھی کر سکتے ہیں۔
خلافتِ راشدہ سے اب تک جانے کتنے لشکر نجد و حجاز سے اٹھ کے براستہ اردن نئی دنیائیں فتح کرنے روانہ ہوئے مگر ان میں شامل کسی ایک کو بھی خیال کیوں نہ آیا کہ راستے میں پڑنے والی عذاب یافتہ قومِ ثمود کے پہاڑ کاٹ کے بنائے جانے والے قطار در قطار سلامت سنگی گھروں اور خانقاہوں کی اینٹ سے اینٹ بجاتا ثواب کی دولت سے مالا مال ہوتا چلا جائے۔
سن چھ سو اکتالیس میں سعد بن ابی وقاص کا لشکر بازنطینی صوبے مصر میں داخل ہوا تو قبطی عیسائیوں کو اپنا روزمرہ نظم و نسق حسبِ سابق چلانے کی اجازت برقرار رہی۔ تھیبس کے دورِ فرعونی کے شاندار قبرستان کی ایک اینٹ کو بھی کسی نے ہاتھ نہیں لگایا نہ لگانے دیا۔ صحرائے سینا میں سینٹ کھیترین کی اونچی پہاڑی خانقاہ میں ایک دن بھی عبادت نہ رکی نہ روکی گئی۔
فرعونوں کے اہرام کے سنگی محافظ ابو الہول کی ناک بھی برقرار رہی۔ مورخ المقریزی لکھتا ہے کہ تیرہ سو اٹھتر میں ایک مقامی عالم محمد صائم الظاہر کے کہنے پر ابوالہول کی ناک توڑ دی گئی کیونکہ اردگرد کے دہقان اچھی فصل کے لیے ابو الہول کے سائے میں سالانہ میلہ کرتے تھے۔ مملوک حاکم نے محمد صائم کو ریاستی املاک کو نقصان پہنچانے کے جرم میں موت کی سزا سنا دی۔
خسرو نے جب رسول اللہ کا دعوتی خط پھاڑ ڈالا تو رسولؐ نے بس اتنا کہا ’’ تیری سلطنت بھی ایسے ہی ٹکڑے ٹکڑے ہو گی‘‘۔ چھ سو پچپن عیسوی تک جب پوری ساسانی سلطنت عربوں کے زیرِ نگین آ گئی اور خسرو کا مفرور بیٹا قتل ہو گیا تو دوسرے خلیفہِ راشد کے حکم کے مطابق فارسی کو روزمرہ زبان کے طور پر برقرار رکھا گیا۔
آتش پرست بادشاہوں کے دارلحکومت تختِ جمشید کے مرمریں ستون ہوں، کہ داراِ اعظم کا مقبرہ، کہ کرمان شاہ کے کوہِ بے ستون پر کُھدی دو ہزار برس پرانی شاہی شبیہیں۔ حضرت عمر ابنِ خطاب سے لے کر علی خامنہ ای کی حکومت تک کسی نے نہیں سوچا کہ شرک کی ان نشانیوں سے زمین کو پاک کر دیا جائے۔
چھ سو اکیاون میں احنف بن قیس کے دستوں نے موجودہ افغانستان سمیت ولائتِ خراسان کو دریائے آکسس تک روند ڈالا۔ پھر قتیبہ بن مسلم کی افواج وسطی ایشیا تک پہنچ گئیں۔ بارہ سو اکیس میں چنگیز خان کے دستوں نے افغانستان کو الٹ پلٹ دیا۔ سلطان محمود کو غزنی میں بیٹھ کے ہزاروں میل دور سومناتھ نظر آ گیا مگر بامیان کے پہاڑ میں ایستادہ ڈیڑھ ڈیڑھ سو فٹ سے زائد اونچے بدھا کے مجسموں پر اگر تیرہ سو برس میں کسی کی ایمانی نگاہ پڑی تو طالبان کی پڑی۔
مجھے تو اورنگ زیب کی مسلمانیت پر بھی شک ہو چلا ہے جس نے ٹیکسلا، اجنتا و ایلورا کے غاروں اور ان کے اندر کی دس ہزار برس پرانی انسانی تصاویر، کھجراؤ کے پچاسی فحش مورتیوں والے ایمان شکن مندروں، بودھ گیا کے مہا بودھی مندر جیسی کفر و شرک کی لاتعداد نشانیوں کو بخش دیا۔ اشوک کی لاٹیں تک اسے کابل تا دکن اور بنگال تا سندھ اپنی شرعی سلطنت میں دکھائی نہ پڑیں۔ دلی سات بار اجڑی مگر قطب مینار یونہی کھڑا ہے اور تاج محل زمین کے سینے پر اب بھی مونگ دل رہا ہے۔ (حالانکہ اس محل کے خالق شاہ جہاں کو اورنگ زیب نے نہیں بخشا)۔
مگر اب کہیں جا کے کچھ امید بندھی ہے جب سے داعش نے ارضِ خدا کے کعبے سے سب بت اٹھوانے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ ( اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ اس کارِ خیر میں طالبان اور ان سے بھی بہت پہلے آلِ سعود کا حصہ نظرانداز کیا جا رہا ہے)۔
جوں جوں خلافتِ داعش وسیع تر ہوتی چلی جائے گی توں توں زمین ہمارے گمراہ پرکھوں کی جملہ نشانیوں سے صاف ہوتی چلی جائے گی۔ جب میرے جیسے چھٹ بھئیے ایسے سوالات اٹھاتے ہیں کہ جن نشاناتِ کفر و شرک کو چودہ سو برس سے بخشا جا رہا ہے انھیں اب بخشنے میں کیا قباحت؟ تو ان شرپسندانہ سوالات کا تشفی بخش جواب بھی اب مل گیا ہے۔ کویت کے ایک سرکردہ عالمِ دین اعلی حضرت ابراہیم الکنداری مدظلہ فرماتے ہیں کہ ’’ اہرامِ مصر سمیت تمام مشرک نشانیوں کو ڈھا دیا جائے۔ اگر فتحِ مصر کے بعد صحابہِ کرام سے لے کے اب تک کسی نے ایسا نہیں کیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم بھی ایسا کرنے سے باز رہیں‘‘۔
آپ اعلی حضرت ابراہیم الکنداری کے فرمودے سے جو مطلب بھی نکالیں میرے پر تو آگے بات کرتے جلتے ہیں۔ کاش محض یہ کہنے سے ہی ہماری بات بن جائے کہ یہ مٹھی بھر لوگ ہیں جو ایسا سوچتے ہیں۔ ان سے ہمارا بھلا کیا لینا دینا؟
جانے ہم تب کیوں روتے ہیں جب متعصب ہندو بابری مسجد ڈھاتے ہیں اور اس کی جگہ مندر کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ جانے ہماری مٹھیاں آج بھی یہ سوچ سوچ کر کیوں بھنچ جاتی ہیں کہ رنجیت سنگھ کے دور میں بادشاہی مسجد لاہور میں گھوڑے باندھے جاتے رہے۔ جانے کیوں خون کھولتا ہے پڑھ پڑھ کے کہ ریاست گجرات میں دو ہزار دو کے فسادات میں ہندو بلوائیوں نے احمد آباد میں ولی گجراتی کے تین سو برس پرانے مزار کو توڑ پھوڑ کے اس میں ہنومان کی مورتیاں رکھ دیں اور قریب ہی موجود چار سو برس پرانی دو مساجد بھی بلڈوز ہو گئیں۔
لیکن عراق میں اگر کسی امام کا مزار اڑ جائے یا موصل میں ہزار برس پرانا کلدینی کیتھولک چرچ یا ڈیڑھ سو سال پرانی عثمانی دور کی مسجدِ عبداللہ چلابی ڈائنامائٹ ہونے کی خبر آ جائے تو ہمارے دل و دماغ و یاداشت اور جسم پر اس خبر کے اثرات کتنی دیر کے لیے قیام کرتے ہیں؟
مسجدِ اقصی میں انیس سو انہتر میں ایک یہودی مائیکل روحان نے آگ لگوا کے اسلامی کانفرنس کی تنظیم او آئی سی بنوا دی۔ کتنا دل جلتا ہے نا جب کبھی یہ خبر آئے کہ آثارِ قدیمہ کی کھدائی کے پردے میں مسجدِ اقصی کی بنیادیں کمزور کی جا رہی ہیں۔ مگر اب او آئی سی سوائے ’’اوہ آئی سی‘‘ کے اور کیا ہے؟
دورِ حاضر میں اس سے بڑا کارنامہ کیا ہو گا کہ حال کے ساتھ ساتھ ماضی سے بھی اپنا عقیدہ منوا لیا جائے تا کہ مستقبل خودبخود صالح ہو جائے۔ یہ کام کرنے والوں کی جزا سزا وہ جانیں کہ خدا جانے۔ ہمارا کام تو بس اتنا ہے کہ گردن ادھر ادھر گھمانے کے بعد سرگوشی کرتے رہیں۔ ’’بہت غلط ہو رہا ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ چائے منگواؤں کیا۔ ‘‘

Total Pageviews