August 30, 2016
August 27, 2016
August 26, 2016
Medicines Prices going high day to day Drap CEO Aslam Afghani Involved in all Price Rising
DRAP official behind hike in drug prices
Aug 04, 2016 pharmanewsupdates All News, Drap News, Health News, medicine prices, News, Pharma Industry, Recent News, World News 0
The recent price increase of medicines from 1.43 percent to 2.86 percent announced by Drug Regulatory Authority of Pakistan (DRAP) is a mere deception as some of the pharmaceutical companies have increased the prices up to 100 percent.
“The main reason behind frequent and out of proportion price increase of medicines is the man sitting right at the top as Chief Executive Officer of DRAP, who is manoeuvring the prices in favour of pharmaceutical companies in complete disregard to poor people of this country,” alleged the representatives of Young Pharmacists Association (YPA), including Vice-President Dr Muhammad Ahmed, General Secretary Dr Haroon Yousaf and Joint Secretary Dr Hina Shoukat while addressing a press conference here at Lahore Press Club on Monday.
Besides, Pakistan Tehreek-e-Insaf provincial leader Prof Dr Yasmeen Rashid, senior drug lawyer Dr Noor Mehar, Major Dr Anjum Saleem from Pakistan Academy of Family Physicians, Consumer Protection Society (COPS) Secretary Legal Affairs Advocate Hafiz Ahsan Naseer Aslam and Pakistan Pharmaceuticals Association President Azhar Iqbal Butt were also present.
They alleged that the incumbent CEO DRAP, who is also owner of a company, has managed and matured medicine price increase on 22 July, 2016 through SRO No.628(I)2016. This is the 4th medicine price increase within three years. They mentioned that Standing Committee of Senate in its recent meeting on 28th of July 2016 declared DRAP most corrupt department of Pakistan. “The corruption done in three years by Health Ministry is much higher than total corruption in 66 years in Health Ministry,” they quoted.
They alleged that the CEO DRAP had played a key role in all the price increases and served as a bridge between high-ups of Federal Ministry of Health and the undeclared ‘club of 50 pharmaceutical companies’. They claimed that all the price increase pushed medicine away from poor Pakistanis and thousands of Pakistanis died due to un-affordability and unavailability of medicine. “Hundreds of life-saving medicines are short in the market and this modus operandi of artificial shortage of drugs pushes people to readily accept price increase,” they added. This artificial shortage was first highlighted by Dr Zaka-ur-Rehman, Chief Drug Inspector Punjab in an official letter early this year.
They alleged that the SRO No.628(I)2016 shows that price increase is between 1.43 percent to 2.86 percent, which is deception to the courts of law, parliament and poor people of Pakistan as actual price increase is much higher. “It’s a price bomb as few companies have increased prices more than 100 percent. “This SRO has also validated all the previous price increases,” they claimed and rebutted the top officials of Federal Ministry of Health and DRAP, who had always claimed no price increase in parliament and on media.
They alleged that the incumbent CEO DRAP had been convicted by Drug Court, Peshawar in 2002 on price increase of medicine. Under section 28 of DRAP Act, they informed, a convicted person cannot be appointed in DRAP. They alleged that Federal Ministry of Health was protecting him; therefore, prime minister, president, NAB, IB, ISI and FIA have not initiated any criminal case against him.
They urged the Chief Justice of Pakistan, Prime Minister, NAB, ISI to take action against the illegal acts of unjustified increase in prices of medicines DRAP and Federal Ministry of Health. “The prices must be brought to the level of 2012 with immediate effect, as lives of 200 million Pakistanis are at risk,” they pleaded.
August 21, 2016
August 20, 2016
ٹھاکر کی جے ہو ۔ (رعایت اللہ فاروقی)
ٹھاکر کی جے ہو !
::::::::::::::::::::::
سی پیک کے حوالے سے میں 2014ء اور 2015ء کے دوران اپنی پوسٹوں میں صاف صاف بتا چکا ہوں کہ یہ پروجیکٹ اتنی آسانی سے پورا نہیں ہونے دیا جائے گا۔ میں نے بتایا تھا کہ اسے امریکہ، بھارت اور ایران سے شدید خطرات لاحق رہیں گے۔ ایک خطرہ متحدہ عرب امارات بھی تھا لیکن اسے ڈنڈا چڑھا کر سیدھا کر لیا گیا ہے۔ جب "پاکستان کی خارجہ پالیسی" والے طویل سلسلے میں پہلی بار آپ حضرات کو آگاہ کیا تھا کہ ایران پاکستان کا دوست نہیں بلکہ دشمن ہے اور اسے ہماری سرکاری پالیسی میں بھی ایک خطرناک دشمن کے طور پر ہی دیکھا جاتا ہے تو تب کچھ لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آئی تھی لیکن بعد میں کلبوشن یادیو کی گرفتاری نے ایران کا حجت الاسلامی چوغا تار تار کرکے رکھ دیا اور وہ ایک دشمن کے طور پر ہی سب کی سمجھ میں آگیا۔ سی پیک کی سیکیورٹی کے لئے ایک میجر جنرل کی کمان میں پورا ڈویژن ویسے ہی قائم نہیں کیا گیا۔ کوئی سنگین خطرہ ہے جس کے تدارک کے لئے یہ قدم اٹھایا گیا تھا اور وہ خطرہ یہی ممالک ہیں۔ ایران اس وقت بظاہر بیک فٹ پر چلا گیا ہے لیکن یہ اس وقت بھی اس چار رکنی خاموش اتحاد کا حصہ ہے جو بھارت، ایران، افغانستان اور بنگلہ دیش پر مشتمل ہے اور جس کا مقصد فی الحال پاکستان کے خلاف سفارتی جارحیت ہے۔
سوال یہ ہے کہ سفارتی جارحیت ہی کیوں ؟ وجہ صاف ہے کہ کلبوشن والے معاملے اور بلوچستان میں عسکریت پسندوں کے بڑی تعداد میں ہتھیار ڈالنے کے سبب بھارت اور ایران بہت کمزور پوزیشن پر چلے گئے ہیں۔ جب تک یہ نئی صف بندیاں نہیں کر لیتے تب تک ان کے پاس سفارتی جارحیت کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس سفارتی جارحیت کا پاکستان گزشتہ دنوں بنگلہ دیش کو بڑا ٹیکنیکل جواب دے چکا ہے جس کے بعد سے چٹگامی ڈائن حسینہ واجد کے ہوش اڑے اڑے نظر آتے ہیں۔ پاکستان اگر خود بنگلہ دیش کو سخت جواب دیتا تو اس کی اتنی اہمیت نہ ہوتی کیونکہ پاکستان تو ایک براہ راست فریق ہے اور فریق سے لوگ ردعمل ہی کی توقع کرتے ہیں۔ چنانچہ پاکستان کی درخواست پر ترکی نے سٹینڈ لیا جو اس معاملے میں ایک غیرجانبدار ملک تھا۔ اگر حسینہ واجد ترکی کے اقدام کو سنجیدگی سے نہ لیتی تو سعودی عرب بھی تیار کھڑا تھا جو بنگالیوں کا اپنے ملک سے جلوس نکال کر ردعمل دیتا۔ طیب اردگان نواز شریف کا کوئی کلاس فیلو یا بچپن کا یار نہیں کہ انہیں اپنی بیٹی کی شادی کا گواہ بنائے۔ یہ پاکستان ترکی اور سعودی عرب کی بڑھتی سٹریٹیجک پارٹنر شپ کے ہی مظاہر ہیں جو ذاتی دوستی کی شکل میں بھی اپنے اثرات دکھا رہے ہیں۔ سفارتکاری کا حسن ہی یہ ہے کہ اس میں اپنوں کی گالیاں بھی آپ کے کام آتی ہیں۔ چنانچہ سوشل میڈیا پر حکومت پاکستان کو اپنے ہی شہریوں سے پڑنے والی گالیاں بھی پاکستان کے حق میں گئیں اور وار پاکستان نے خاموشی سے براستہ ترکی کرکے حسینہ واجد کے ہوش گم کر دیئے۔
پاکستان کو بھارت سے اس موجودہ وقت میں کوئی سنگین خطرہ درپیش نہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ بھارت گلگت میں کوئی اثر نفوذ حاصل کر گیا ہے۔ گلگت میں اثر نفوذ ایران کا ہے اور نریندر مودی نے بڑھک اپنے اسی پارٹنر کے اثر نفوذ پر اعتماد کرکے ماری ہے۔ لیکن ایرانی کلبوشن کے معاملے کے سبب اسقدر کمزور پوزیشن پر کھڑے ہیں کہ جب مودی نے لال قلعے سے بڑھک ماری کہ گلگت میں گویا میرے ہی کہنے پر ہڑتال ہو رہی ہے تو یہ ہڑتال پاکستانی اداروں نے ایک ہی رات میں لپیٹ کر رکھدی۔ الٹا مودی کی بڑھک کا ہمیں یہ فائدہ ہوگیا ہے کہ خود مودی نے مجلس وحدۃ المسلمین پر غداری کا ایسا ٹھپہ لگا دیا ہے جسے دھونے کے لئے اب ایران کے صرف، صابن اور شیمپو بھی ناکام ثابت ہونگے۔ مودی نے ہمیں نہیں ایران اور پاکستان میں ان کے ایجنٹوں کو نقصان پہنچا دیا ہے اور یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ تہران کا ہر حجت الاسلام اس وقت محرم نہ ہونے کے باوجود ماتم کر رہا ہوگا۔ اس موقع کو پاکستان اب ضائع نہیں کرے گا اور امید رکھنی چاہئے کہ ضرب عضب کا رخ اب ان دہشت گردوں کی جانب بھی موڑ دیا جائے گا جو سالہا سال سے زائرین کی آڑ میں ٹریننگ کے لئے ایران جاتے رہے ہیں۔
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ مودی نے یوم آزادی والی حماقت کر کیسے دی ؟ جواب یہ ہے کہ اس وقت بھارت کو شدید بیرونی و اندرونی دباؤ کا سامنا ہے۔ اور وہ دباؤ یہ ہے کہ عالمی طاقتوں کے سٹیٹلائٹ لائن آف کنٹرول پر نظریں جما کر گردش کر رہے ہیں جہاں کوئی ہلجل نہیں ہو رہی۔ لیکن اس کے باوجود لائن آف کنٹرول کے اس پارکشمیر 43 دن سے پوری قوم سڑکوں پر ہے۔ اس صورتحال میں کچھ اہم ممالک مودی سے یہ کہہ رہے ہیں کہ بھارت کا یہ موقف تو غلط ثابت ہو گیا کہ کشمیر ایک پر امن مقام ہے وہاں پاکستان نے دہشت گردی سے ماحول خراب کر رکھا ہے۔۔ پاکستان سے عسکریت پسندوں کا آنا ایک عرصہ دراز سے بند ہو چکا پھر ہر کشمیری سڑکوں پر کیوں ہے ؟ اور ان پر بہیمانہ تشدد کیوں ہو رہا ہے ؟ دباؤ صرف بیرونی دنیا سے نہیں بلکہ کانگریس، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا اور پورے بھارت کی طلبہ یونینیں بھی مودی پر زبردست دباؤ ڈال رہی ہیں جبکہ میڈیا اور دانشور الگ درد سر بنے ہوئے ہیں۔ نریندر مودی اس وقت ایک بدترین قسم کے دباؤ میں ہے اور یہ اسی دباؤ کا نتیجہ ہے کہ وہ لال قلعے پر کھڑا ہو کر وہ اول فول بک گیا جس کا سب سے منہ توڑ جواب اپنے ہی چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر نے کھڑے کھلوتے دے ڈالا۔ اس وقت پورے بھارت میں مودی کی بڑھک کا مذاق اڑ رہا ہے جبکہ ہر شخص کہہ رہا ہے "ٹھاکر کی جے ہو !"
August 16, 2016
Subscribe to:
Posts (Atom)