عجیب و غریب تاریخ
"آپ نے Peek Freans Gluco Biscuits
کا وہ مشہور اشتہار تو ضرور دیکھا ہوگا، جس میں ایک رنگین لباس پہنے بانسری بجانے والا شخص بچوں کو اپنے پیچھے لگائے لے جا رہا ہوتا ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ منظر صرف ایک تخیلی اشتہار نہیں بلکہ ایک صدیوں پرانے، حیران کن اور پراسرار سچے واقعے سے متاثر ہے؟"
1284 کے موسم گرما میں جرمنی کے چھوٹے سے قصبے ہیملن میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے نہ صرف اس زمانے کے لوگوں کو حیران کر دیا بلکہ صدیوں بعد تک محققین، مورخین اور ادیبوں کے لیے ایک پراسرار پہیلی بنا رہا۔ یہ کہانی ایک انوکھے کردار "پیڈ پایپر" کے گرد گھومتی ہے - ایک رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس پراسرار بانسری نواز جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے پہلے تو شہر کو چوہوں کے عذاب سے نجات دلائی، مگر جب اسے اس کا معاوضہ نہ ملا تو اس نے انتقاماً شہر کے 130 بچوں کو اپنی جادوئی بانسری کے ساتھ لے کر غائب ہو گیا۔
شہر ہیملن کی تباہی اور چوہوں کا عذاب
تیرہویں صدی کے آخر میں ہیملن شہر چوہوں کی ایک بہت بڑی آبادی کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر تھا۔ یہ چوہے نہ صرف فصلوں اور گوداموں کو تباہ کر رہے تھے بلکہ طاعون جیسی مہلک بیماریاں بھی پھیلا رہے تھے۔ شہر کے باشندے بے بسی کا شکار تھے اور کسی معجزے کے منتظر تھے۔
پراسرار شخصیت کا ظہور
ایک دن شہر میں ایک عجیب و غریب شخص داخل ہوا۔ وہ "پیڈ" یعنی رنگ برنگے کپڑے پہنے ہوئے تھا اور اس کے ہاتھ میں ایک چمکدار چاندی کی بانسری تھی۔ اس نے دعویٰ کیا کہ وہ چوہوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کر سکتا ہے۔ میئر اور شہر کے معززین نے اسے 1,000 گِلڈر (اس زمانے کی ایک بڑی رقم) کا لالچ دیا اگر وہ شہر کو اس آفت سے نجات دلا دے۔
جادوئی بانسری کا کمال
پیڈ پایپر نے اپنی بانسری بجانا شروع کی۔ ایک عجیب سی دھن تھی جو سنتے ہی تمام چوہے اپنے بلوں سے نکل آئے اور اس کے پیچھے ہو لیے۔ وہ انہیں شہر کی گلیوں سے گزارتا ہوا دریائے ویسر کے کنارے لے گیا جہاں تمام چوہے دریا میں چھلانگ لگا کر ڈوب گئے۔ شہر والے خوشی سے نہال ہو گئے۔
وعدہ خلافی اور پیڈ پایپر کا غصہ
لیکن جب معاوضہ دینے کا وقت آیا تو میئر اور شہر کے معززین نے رقم دینے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے نہ صرف 1,000 گِلڈر دینے سے انکار کیا بلکہ اسے صرف 50 گِلڈر دیے اور یہاں تک کہا کہ شاید یہی شخص چوہے لایا تھا تاکہ رقم بٹورے۔ پیڈ پایپر خاموشی سے چلا گیا، لیکن اس کی آنکھوں میں انتقام کی آگ تھی۔
بچوں کا پراسرار غائب ہونا
26 جون 1284 کو، جب تمام بڑے گرجا گھر میں سنت جان اور پال کے دن کی عبادت میں مصروف تھے، پیڈ پایپر واپس آیا۔ اس بار اس کا لباس شکار کے جیسا سبز تھا۔ اس نے اپنی بانسری کی وہی پراسرار دھن بجائی، لیکن اس بار اس کی تان بچوں کے لیے تھی۔
شہر کے 130 بچے، جو کھیل رہے تھے یا گھروں میں تھے، اچانک اس کے پیچھے ہو لیے۔ وہ ناچتے گاتے شہر کے مشرقی دروازے سے نکل گئے اور کاپنبرگ پہاڑی کی طرف چل دیے۔ وہاں ایک غار کے منہ پر پہنچ کر وہ سب غائب ہو گئے۔ صرف تین بچے پیچھے رہ گئے:
- ایک لنگڑا بچہ جو تیز نہیں چل سکتا تھا
- ایک بہرا بچہ جس نے بانسری نہیں سنی تھی
- ایک اندھا بچہ جو راستہ نہیں دیکھ سکتا تھا
یہی تینوں بچے بعد میں بڑے ہو کر اس واقعے کے چشم دید گواہ بنے۔
تاریخی شواہد اور دستاویزات
یہ صرف ایک افسانہ نہیں بلکہ ہیملن شہر کے تاریخی ریکارڈز میں درج ہے:
- 1300 کے قریب ہیملن کے گرجا میں ایک کھڑکی بنائی گئی تھی جس پر یہ واقعہ نقش تھا۔ بدقسمتی سے یہ 1660 میں تباہ ہو گئی۔
- 1370 میں راہب ہائنرک آف ہیرفورڈ نے اپنی لاطینی کتاب "کیٹینا آوریا" میں اس واقعے کا ذکر کیا۔
- ہیملن کے "ریٹنفینگر ہاؤس" پر لگی تختی پر یہ واقعہ درج ہے۔
- 1556 میں بنائے گئے شہر کے دروازے پر بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔
مختلف نظریات
1. ہجرت کا نظریہ: کئی مورخین کا خیال ہے کہ یہ دراصل نوجوانوں کے ایک گروہ کی مشرقی یورپ کی طرف ہجرت تھی۔ لسانیات کے ماہر یورگن اڈولف نے پایا کہ ہیملن کے کئی خاندانی نام آج پولینڈ کے علاقوں میں ملتے ہیں۔
2. بچوں کی صلیبی جنگیں: کچھ کا خیال ہے کہ یہ بچے کسی مذہبی مہم کا حصہ بن گئے ہوں گے۔
3. طبیعیاتی وجوہات: ممکن ہے کہ یہ بچے کسی بیماری یا قدرتی آفت کا شکار ہوئے ہوں۔
4. نفسیاتی نظریہ: بعض محققین کا کہنا ہے کہ یہ اجتماعی نفسیاتی کیفیت (جیسے ڈانسنگ مینیا) کا واقعہ ہو سکتا ہے۔
ثقافتی اثرات
یہ کہانی گوئٹے، گریم برادرز، اور رابرٹ براؤننگ جیسے عظیم ادیبوں کی تحریروں میں زندہ ہے۔ براؤننگ کی نظم "دی پیڈ پایپر آف ہیملن" خاصی مشہور ہوئی۔ آج بھی ہیملن شہر میں "بنگیلوسن اسٹراسے" (بغیر ڈھول کی گلی) نامی جگہ پر موسیقی یا رقص پر پابندی ہے، کیونکہ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے بچے آخری بار دکھائی دیے تھے۔
آخری بات
چاہے یہ ایک سچا واقعہ تھا یا علامتی داستان، پیڈ پایپر آف ہیملن کی کہانی صدیوں سے انسانی تخیل کو مسحور کرتی آ رہی ہے۔ کیا واقعی کوئی جادوئی بانسری نواز تھا؟ یا پھر یہ تاریخ کا کوئی اور ہی راز ہے؟ شاید ہم کبھی پورے یقین سے نہیں جان پائیں گے، لیکن یہ پراسرار کہانی ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گی۔