April 25, 2025

بانسری کی عجیب و غریب داستان بانسری والے نے 180 بچے غائب کر دیئے۔

 



 


عجیب و غریب تاریخ

 "آپ نے Peek Freans Gluco Biscuits

 کا وہ مشہور اشتہار تو ضرور دیکھا ہوگا، جس میں ایک رنگین لباس پہنے بانسری بجانے والا شخص بچوں کو اپنے پیچھے لگائے لے جا رہا ہوتا ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ منظر صرف ایک تخیلی اشتہار نہیں بلکہ ایک صدیوں پرانے، حیران کن اور پراسرار سچے واقعے سے متاثر ہے؟"

1284 کے موسم گرما میں جرمنی کے چھوٹے سے قصبے ہیملن میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے نہ صرف اس زمانے کے لوگوں کو حیران کر دیا بلکہ صدیوں بعد تک محققین، مورخین اور ادیبوں کے لیے ایک پراسرار پہیلی بنا رہا۔ یہ کہانی ایک انوکھے کردار "پیڈ پایپر" کے گرد گھومتی ہے - ایک رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس پراسرار بانسری نواز جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے پہلے تو شہر کو چوہوں کے عذاب سے نجات دلائی، مگر جب اسے اس کا معاوضہ نہ ملا تو اس نے انتقاماً شہر کے 130 بچوں کو اپنی جادوئی بانسری کے ساتھ لے کر غائب ہو گیا۔  

شہر ہیملن کی تباہی اور چوہوں کا عذاب
تیرہویں صدی کے آخر میں ہیملن شہر چوہوں کی ایک بہت بڑی آبادی کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر تھا۔ یہ چوہے نہ صرف فصلوں اور گوداموں کو تباہ کر رہے تھے بلکہ طاعون جیسی مہلک بیماریاں بھی پھیلا رہے تھے۔ شہر کے باشندے بے بسی کا شکار تھے اور کسی معجزے کے منتظر تھے۔  

پراسرار شخصیت کا ظہور  
ایک دن شہر میں ایک عجیب و غریب شخص داخل ہوا۔ وہ "پیڈ" یعنی رنگ برنگے کپڑے پہنے ہوئے تھا اور اس کے ہاتھ میں ایک چمکدار چاندی کی بانسری تھی۔ اس نے دعویٰ کیا کہ وہ چوہوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کر سکتا ہے۔ میئر اور شہر کے معززین نے اسے 1,000 گِلڈر (اس زمانے کی ایک بڑی رقم) کا لالچ دیا اگر وہ شہر کو اس آفت سے نجات دلا دے۔  

جادوئی بانسری کا کمال  
پیڈ پایپر نے اپنی بانسری بجانا شروع کی۔ ایک عجیب سی دھن تھی جو سنتے ہی تمام چوہے اپنے بلوں سے نکل آئے اور اس کے پیچھے ہو لیے۔ وہ انہیں شہر کی گلیوں سے گزارتا ہوا دریائے ویسر کے کنارے لے گیا جہاں تمام چوہے دریا میں چھلانگ لگا کر ڈوب گئے۔ شہر والے خوشی سے نہال ہو گئے۔  

وعدہ خلافی اور پیڈ پایپر کا غصہ  
لیکن جب معاوضہ دینے کا وقت آیا تو میئر اور شہر کے معززین نے رقم دینے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے نہ صرف 1,000 گِلڈر دینے سے انکار کیا بلکہ اسے صرف 50 گِلڈر دیے اور یہاں تک کہا کہ شاید یہی شخص چوہے لایا تھا تاکہ رقم بٹورے۔ پیڈ پایپر خاموشی سے چلا گیا، لیکن اس کی آنکھوں میں انتقام کی آگ تھی۔  

بچوں کا پراسرار غائب ہونا
26 جون 1284 کو، جب تمام بڑے گرجا گھر میں سنت جان اور پال کے دن کی عبادت میں مصروف تھے، پیڈ پایپر واپس آیا۔ اس بار اس کا لباس شکار کے جیسا سبز تھا۔ اس نے اپنی بانسری کی وہی پراسرار دھن بجائی، لیکن اس بار اس کی تان بچوں کے لیے تھی۔  

شہر کے 130 بچے، جو کھیل رہے تھے یا گھروں میں تھے، اچانک اس کے پیچھے ہو لیے۔ وہ ناچتے گاتے شہر کے مشرقی دروازے سے نکل گئے اور کاپنبرگ پہاڑی کی طرف چل دیے۔ وہاں ایک غار کے منہ پر پہنچ کر وہ سب غائب ہو گئے۔ صرف تین بچے پیچھے رہ گئے:  
- ایک لنگڑا بچہ جو تیز نہیں چل سکتا تھا  
- ایک بہرا بچہ جس نے بانسری نہیں سنی تھی  
- ایک اندھا بچہ جو راستہ نہیں دیکھ سکتا تھا  

یہی تینوں بچے بعد میں بڑے ہو کر اس واقعے کے چشم دید گواہ بنے۔  

تاریخی شواہد اور دستاویزات  
یہ صرف ایک افسانہ نہیں بلکہ ہیملن شہر کے تاریخی ریکارڈز میں درج ہے:  
- 1300 کے قریب ہیملن کے گرجا میں ایک کھڑکی بنائی گئی تھی جس پر یہ واقعہ نقش تھا۔ بدقسمتی سے یہ 1660 میں تباہ ہو گئی۔  
- 1370 میں راہب ہائنرک آف ہیرفورڈ نے اپنی لاطینی کتاب "کیٹینا آوریا" میں اس واقعے کا ذکر کیا۔  
- ہیملن کے "ریٹنفینگر ہاؤس" پر لگی تختی پر یہ واقعہ درج ہے۔  
- 1556 میں بنائے گئے شہر کے دروازے پر بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔  

مختلف نظریات  
1. ہجرت کا نظریہ: کئی مورخین کا خیال ہے کہ یہ دراصل نوجوانوں کے ایک گروہ کی مشرقی یورپ کی طرف ہجرت تھی۔ لسانیات کے ماہر یورگن اڈولف نے پایا کہ ہیملن کے کئی خاندانی نام آج پولینڈ کے علاقوں میں ملتے ہیں۔  
2. بچوں کی صلیبی جنگیں: کچھ کا خیال ہے کہ یہ بچے کسی مذہبی مہم کا حصہ بن گئے ہوں گے۔  
3. طبیعیاتی وجوہات: ممکن ہے کہ یہ بچے کسی بیماری یا قدرتی آفت کا شکار ہوئے ہوں۔  
4. نفسیاتی نظریہ: بعض محققین کا کہنا ہے کہ یہ اجتماعی نفسیاتی کیفیت (جیسے ڈانسنگ مینیا) کا واقعہ ہو سکتا ہے۔  

ثقافتی اثرات  
یہ کہانی گوئٹے، گریم برادرز، اور رابرٹ براؤننگ جیسے عظیم ادیبوں کی تحریروں میں زندہ ہے۔ براؤننگ کی نظم "دی پیڈ پایپر آف ہیملن" خاصی مشہور ہوئی۔ آج بھی ہیملن شہر میں "بنگیلوسن اسٹراسے" (بغیر ڈھول کی گلی) نامی جگہ پر موسیقی یا رقص پر پابندی ہے، کیونکہ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے بچے آخری بار دکھائی دیے تھے۔  

آخری بات
چاہے یہ ایک سچا واقعہ تھا یا علامتی داستان، پیڈ پایپر آف ہیملن کی کہانی صدیوں سے انسانی تخیل کو مسحور کرتی آ رہی ہے۔ کیا واقعی کوئی جادوئی بانسری نواز تھا؟ یا پھر یہ تاریخ کا کوئی اور ہی راز ہے؟ شاید ہم کبھی پورے یقین سے نہیں جان پائیں گے، لیکن یہ پراسرار کہانی ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گی۔


April 12, 2025

Change the Education System of Pakistan


  نظام کو بدلو تا کہ اپاہج نہیں ہنر مند پیدا ہوں 

میٹرک تک  سلیبس اس طرح ہونا چاہیے کہ بچے کے پاس کوئی نہ کوئی ہنر آ  جائے اور بچے کو پتہ چل جائے کہ اس نے میٹرک کے بعد کون سے فیلڈ اختیار کرنی ہے یعنی اس کی  کس فیلڈ میں دلچسپی ہے ۔
میرا خیال ہے اب رٹا سسٹم ختم ہونا چاہیے بچوں کو دسویں تک زیادہ سے زیادہ ٹیکنیکل تعلیم دینی چاہیے ۔۔
جمعہ اور ہفتہ دو دن ایسے ہوں جس میں نصابی کتابیں بالکل بند کر دی جائیں اور بچوں کو ہنر سکھائے جائیں
ایسے کون سے ہنر ہیں جو بچے دسویں کلاس تک سیکھ سکتے ہیں ۔۔

1- آٹو مکینک
خصوصی طور پر موٹر سائیکل کے بارے میں بچوں کو تربیت دی جائے اس کے انجن کے بارے میں پرزے تبدیل کرنے کے بارے میں انہیں چھٹی کلاس سے لے کر دسویں کلاس تک مرحلہ وائز موٹرسائیکل کا کام سکھایا جائے وہ اس قدر ماہر بن جائیں کہ دسویں کلاس کے بعد پرزے خرید کر پورا موٹر سائیکل اسمبل کر سکیں ۔۔

2- بجلی کا کام الیکٹریشن

بچوں کو عملی طور پر بجلی کا کام سکھایا جائے انڈر گراؤنڈ وائرنگ کیسے کی جاتی ہے اوپن گراؤنڈ وائرنگ کیسے کی جاتی ہے موٹر وائنڈ کیسے کی جاتی ہے مکمل طور پر بچوں کو کام سکھایا جائے اور یہ شعبہ اور یہ ہنر خود میں پوری ایک سائنس ہے فزکس میں اس کے چیپٹر تو ہیں تھیوری کے طور پر میں کہنے سے چاہتا ہوں کہ بچوں کو پریکٹیکلی کام سکھایا جائے صحیح معنوں میں

3- گھر کا ڈاکٹر

چھٹی کلاس سے لے کے دسویں کلاس تک کے تمام بچوں کو گھر ڈاکٹر بنا دیا جائے جو کہ وقت کی اشد ضرورت ہے
بچے کو بلڈ پریشر مانیٹر کرنا آنا چاہیے ۔۔
وین میں انجیکشن لگانا سکھائیں گوشت میں انجیکشن لگانا سکھائیں بوقت ضرورت ڈرپ کیسے لگائی جاتی ہے ۔
ایمرجنسی کی صورت میں بینڈج کرنا سکھائیں ۔۔
ضروری نہیں یہ کام اس نے لوگوں کے لیے کرنے ہیں یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جو بچے کی ساری زندگی اس کے کام آنے والی ہیں۔۔۔

4- موبائل ریپیئرنگ اور سافٹ ویئر

بچوں کو موبائل ریپیئرنگ کے بارے میں تربیت دی جائے ان کو موبائل ریپیئر کرنا سکھایا جائے موبائل میں سوفٹ ویئر کیسے اپڈیٹ کیا جاتا ہے سافٹ ویئر انسٹال کیسے کیا جاتا ہے ۔۔

5- خود سے پیسے کمانا

گرمی کی چھٹیوں میں بچوں کو ٹاسک دیا جائے کہ پانچ پانچ بچے مل کر تھوڑے تھوڑے پیسے ڈال کر کوئی کاروبار کریں کوئی چیز لے کر فروخت کریں تاکہ وہ عملی زندگی میں اس طرح کی صورتحال میں پریشان نہ ہو مطلب ان کو کمانا سکھائیں ( ہمارے پڑوسی ملک انڈیا میں یہ پریکٹیکل کئی سالوں سے ہو رہا ہے )

6- فری لانسنگ

ویڈیو گیم کھیلنے کے علاوہ کمپیوٹر اور بھی بہت سے مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے یہ بچوں کو عملی طور پر باور کروایا جا سکتا ہے انہیں بتائیں کہ انٹرنیٹ کا دور ہے اپ اپنی چیزیں انٹرنیٹ پر کس قدر اسانی کے ساتھ فروخت کر سکتے ہیں ۔۔
اپنی خدمات کو انٹرنیٹ پر فروخت کرنا سکھائیں ۔۔

مثال کے طور پر اگر کوئی بچہ دیہاتی ہے اور اس کے گھر میں دیسی گھی ہے تو اس کا استاد بتائے کہ وہ دیسی گھی کا پیج بنا کر انٹرنیٹ پر ایمانداری کے ساتھ کس قدر کامیاب کاروبار  کر سکتا ہے ایلسی کی پنیا فروخت کر سکتا ہے مکئی کا اٹا فروخت کر سکتا ہے سردیوں میں ساگ بنا کر فروخت کر سکتا ہے مکھن فروخت کر سکتا ہے اور بھی بہت کچھ یہ اسے سکھایا جائے  ۔۔!!

7- نرسری اگانا

بچوں کو بیج لگانے کی تربیت دی جائے پھولوں کے بیج  سبزیوں کے بیج  درختوں کے بیج  اور یہ کام سکول میں بہت اسانی کے ساتھ ہو سکتے ہیں کہ اگر مستقبل میں اس کا رجحان نیچر کی طرف بڑھ جائے تو وہ نرسری کا اپنا کاروبار کر سکتا ہے اسے یہ ہنر ضرور سکھانے چاہیے ۔۔

8- چھوٹے پیمانے پر صابن سازی

9- بیچنا آنا چاہیے بچوں کو مارکیٹنگ

بچوں کے اندر اس قدر اعتماد پیدا کیا جائے کہ وہ بہترین مارکیٹر بن سکے ان کو اپنی چیزیں بیچنا آنا چاہیے اور اساتذہ سے بڑھ کر کوئی ایسی ہستی نہیں جو بچوں میں اس قدر اعتماد پیدا کر سکے والدین سے بھی زیادہ اعتماد بچوں کو سکول میں ماحول سے ملتا ہے اساتذہ سے ملتا ہے

اب وقت ہے کہ سلیبس میں موجود فضول کہانیوں کو یکثر مسترد کر کے ہمارے انے والے بچوں کو دسویں تک مکمل پریکٹیکل تعلیم دی جائے تاکہ وہ اپنا باعزت روزگار کما سکے اور وطن عزیز کے باعزت شہری بن سکیں ۔۔
تحریر
عاطف سہیل آرائیں ۔۔!!!

...کاپیڈ...
#k4kasim

April 07, 2025

MARRIED LIFE : HOW TREATS WIFE



 ازدواجیات!

مرد بہت ساری بری عادتیں والدین سے کاپی کرتا ہے باقی بیوی اس میں کوٹ کوٹ کر بھرتی ہے،پہلے وہ بس بڑے جھوٹ بولتا تھا اب بات بات پر بولتا ہے.

 ماں اور بہن بھائیوں سے بھی بات کر کے یوں چھپاتا ہے جیسے گرل فرینڈ سے کر لی ہو، بیوی جب چھوٹی چھوٹی باتوں پر Attitude  دکھانا شروع کر دیتی ہے تو وہ چھوٹی چھوٹی چیز پر بھی جھوٹ بول کر گھر کے ماحول کو نارمل رکھنے کی کوشش کرتا ہے، یہانتک کہ خریدے گئے سودے سلف کی قیمت بھی کم بتاتا ہے تا کہ بیوی ڈسٹرب نہ کرے. چیزوں پر سے قیمت کے اسٹکر پھاڑ کر گھر آتا ہے مگر بیوی نے بھی قسم کھائی ھوتی ہے کہ کوئی بھی ایشیو کھڑا کر کے اس کی کلاس لینی ہے.

بیوی کے لئے 80 درھم کا سوٹ لائے گا اور بیوی کو 60 کا بتائے گا اور بیوی کہے گی یہ تو میری سہیلی 40 کا لائی ہے.

 ایک پاکستانی نژاد امریکی جوڑا ٹی وی پر انٹرویو دے رہا تھا دونوں امریکہ میں کنسلٹنٹ ڈاکٹر تھے.  شوھر نے بیوی سے ڈر کی مثال دی کہ میں سیب لایا 50 روپے درجن وائف کی چخ چخ کے ڈر سے اس کو بتایا کہ 36 روپے درجن لایا ہوں  . اس نے پڑوسن کو بتایا اور پڑوسن کا شوھر سارا دن بازار میں دھکے کھاتا رھا اس ریٹ پر  کہیں نہ ملے، میری وائف نے اپنے سیب پڑوسن کو دے کر 36 روپے لے لئے کہ میرے میاں اور لے آئیں گے پھر مجھے اپنا بھرم رکھنے کے لئے مزید لانے پڑے. ایک دفعہ وائف کا سوٹ لایا جو اس کو آدھی قیمت کا بتایا اور اس نے وہ سوٹ اٹھا کر اسی قیمت میں سہیلی کو پکڑا دیا کہ مجھے اس کا پرنٹ پسند نہیں دوسرا منگوا لونگی. اب تنگ آ کر میں نے اس کو اصل قیمت بتا دی اور پھر اگلی دو راتیں یہ سوئی نہیں اور اس سہیلی سے بولنا بھی چھوڑ دیا - شوہر فطرتا کمپرومائزنگ ہوتا ہے کیونکہ اس کو سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے جبکہ وائف پرسنل ہوتی ہے صرف ذاتی سوچ سوچتی ہے. اپنے گھر کی حد تک.  

بیوی پوری کوشش کرتی ہے کہ وہ شوھر کی تعریف نہ کرے یہانتک کہ شوہر کے جاننے والوں تک کے سامنے بھی نہیں کرتی کہ وہ اس تک پہنچا نہ دیں. وہ کبھی یہ نہیں کہتی کہ میری خوش قسمتی ہے کہ آپ مجھے مل گئے ورنہ تو بڑے بڑے کمینے شوھر آج کل مارکیٹ میں آئے ہیں. البتہ وہ یہ جملہ شوھر سے ضرور سننا چاہتی ہے کہ تم نے میری زندگی جنت بنا دی ہے  (جہاں بندہ مرضی سے مر بھی نہیں سکتا ) شوھر اللہ کی ایک نعمت ہے اور اللہ کے رسول کا حکم ہے کہ نعمت کو شکر کے ذریعے محفوظ کرو کیونکہ اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ تم شکر کرو گے تو ہم نعمت میں اضافہ کریں گے.  گھر کی بربادی میں ناشکری کا بہت بڑا ہاتھ ہے.

 عرض کیا تھا کہ شوھر اپنی فطرت میں پالتو جاندار ہے. پہلے اس pet کو ماں پالتی ہے پھر بیوی کے حوالے کر دیتی ہے، بیوی اس کو لدو جانور سمجھ کر بس دھونس اور دھاندلی سے قابو  میں رکھنے کی کوشش کرتی ہے جیسے کرائے کی بےبی سیٹر بچوں کو پٹاخ پٹاخ کر چپ کرانے کی کوشش کرتی ہیں.  ایسی بیوی کے ہاتھ لگنے والا شوھر بس ایک مسکراہٹ کی مار ہوتا ہے اور یہی اکثر ھوتا ہے کہ کالی پٹا کر لے جاتی ہے اور گوری زیور سجائے بیٹھی رہ جاتی ہے  ' بقول استاد قمر جلالوی _

چرچے سنے جو راہزن روز آشکار کے -
تو لیلئ شب نے رکھ دئیے زیور اتار کے -

آخری بات یہ کہ شوھر کو یہ بات زہر لگتی ہے کہ بیوی اس کو تو جوتی کی نوک پہ رکھے. مگر اس کے والدین پر اپنی مظلومیت کی دھاک جما کر ان کے ذریعے اس کے گھٹنے ٹکوانے کی سیاست کرے. بجائے اس کے کہ شوھر پر واضح کرے کہ اس کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے وہ اس کے سامنے تو کے- ٹو کی طرح تن کر کھڑی ہو اور دوسروں کو بیچ میں ڈال کر اپنا مکو ٹھپ لے.  یہ اصل میں شرک فی المحبت ہے.

Total Pageviews