May 14, 2025

PM Modi Barking after false flag operation in Pakistan's reply

 انڈین پرائم منسٹر نریندر مودی نے بہار میں الیکشن جیتنے کے لئے پہلگام میں  حملہ کروایا اور اس کا الزام سیدھا پاکستان پر لگا دیا۔ پاکستانی حکام نے  جوائنٹ انوسٹیگیشن کی آفر کی جو بھارت نے مسترد کر دی، اور پاکستان نے کہا کہ اس حملے کی غیر جانبدارانہ تحقیق کروائی جائے۔ مگر بھارتی حکومت طاقت کے زعم میں پاکستان کا موقف مسترد کردیا۔ اور پاکستان نے کئی علاقوں میں میزائل فائر کیے۔ اور بے تحاشہ ڈرونز  فائر کئے۔

اس کا جواب دینے سے پہلے پاکستان نے تمام دُنیا کو انڈیا کے خطرناک ارادوں سے آگاہ کیا۔ اور کوشش کی کہ یہ مسئلہ بات چیت سے حل ہو جائے مگر بھارت کی ہٹ دھرمی  آڑے آ گئی۔ اور پاکستان کو کچلنے کے در پے ہو گئے۔ پاکستان نے انڈیا کی مسلسل  دھمکیوں اور بارڈر پر فائرنگ سے باز نہ آنے کے بعد  عالمی دُنیا کو  اپنا بدلہ لینے سے آگاہ کر دیا۔ امریکہ انڈیا کو ایشیاء کا بڑا مدمعاش بنانا چاہتا ہے۔ وہ بھی یہ کہہ کر پیچھے ہٹ گیا کہ انڈیا پاکستان کا ہزار سالہ پرانی لڑائی ہے یہ دونوں خود ذمہ دار ہیں۔ اور انڈیا کو شہہ دی کہ پاکستان کو سبق سکھائے۔

 لیکن پاکستان نے انڈیا کو سبق سکھا دیا۔ بھارت کا فخر  رافیل جنگی جہاز مار  گرائے۔ اور بھارت کے چھبیس شہروں کی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔

جب امریکہ کو سمجھ آ گئی کہ میرا بدمعاش کو مار کھا رہا ہے تو فوراً  سیز فائر کروانے آ گیا۔  

اپنی ہٹ دھرمی اور پاکستانی دشمنی میں انڈیا اس خطے کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔ دونوں ملک نیو کلئیر پاور ہیں۔ ذمہ داری کا مظاہر ہ کرنا بنتا ہے۔ 

بھارتی پرائم منسٹر کی مضحکہ خیز حرکتوں اور بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت مزید کو پنگا لے سکتا ہے۔ پاکستانی قوم اور فوج  اسے تیار ملیں گے۔ 

 

 


آدم پور (جالندھر) [بھارت]، 13 مئی (اے این آئی): وزیر اعظم نریندر مودی نے منگل کو کہا کہ ہندوستانی مسلح افواج نے آپریشن سندھ کے تحت پاکستان اور پاکستان کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے پر اپنے درست حملوں سے تاریخ رقم کی ہے اور اسلام آباد کی "ایٹمی بلیک میلنگ" کو منہدم کر دیا ہے۔

 

ائیر فورس اسٹیشن آدم پور میں فضائی جنگجوؤں اور سپاہیوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے پی ایم مودی نے کہا کہ جب ہندوستان کے میزائل ہدف تک پہنچتے ہیں تو دشمن 'بھارت ماتا کی جے' سنتا ہے۔

 

پی ایم مودی کا آدم پور ایئربیس کا دورہ قوم سے ان کے خطاب کے ایک دن بعد آیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہندوستان "کسی بھی جوہری بلیک میلنگ کو برداشت نہیں کرے گا" اور "جوہری بلیک میلنگ کی آڑ میں تیار ہونے والے دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر ٹھیک اور فیصلہ کن حملہ کرے گا"۔

 

ہفتہ کو پاکستانی ڈی جی ایم او کی طرف سے اپنے ہندوستانی ہم منصب کو کی گئی کال کے بعد ہندوستان اور پاکستان نے فائرنگ اور فوجی کارروائی کو روکنے پر اتفاق کیا ہے۔

 

پہلگام دہشت گردانہ حملے کے جواب میں آپریشن سندھور کے تحت ہندوستان کے درست حملوں کے بعد جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھے، پاکستانی افواج نے فوجی جارحیت کا سہارا لیا جسے ہندوستانی مسلح افواج نے مؤثر طریقے سے پسپا کیا جس نے پاکستان کے فضائی اڈوں کو بھی نشانہ بنایا۔

پہلگام دہشت گردانہ حملے کے جواب میں آپریشن سندھور کے تحت ہندوستان کے درست حملوں کے بعد جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھے، پاکستانی افواج نے فوجی جارحیت کا سہارا لیا جسے ہندوستانی مسلح افواج نے مؤثر طریقے سے پسپا کیا جس نے پاکستان کے فضائی اڈوں کو بھی نشانہ بنایا۔

 

"جب ہمارے ڈرون دشمن کے قلعے کی دیواروں کو تباہ کرتے ہیں، جب ہمارے میزائل گھن گرج کے ساتھ ہدف تک پہنچتے ہیں تو دشمن کو 'بھارت ماتا کی جئے' سنائی دیتی ہے۔ جب ہم رات کو بھی سورج روشن کرتے ہیں تو دشمن 'بھارت ماتا کی جئے' دیکھتا ہے۔ جب ہماری فوجیں جوہری بلیک میلنگ کے خطرے کو اڑا دیتی ہیں، تب صرف ایک ہی بات کی آواز آتی ہے کہ 'متا کی جئے'۔ انہوں نے لاکھوں ہندوستانیوں کو فخر کیا ہے، ہر ہندوستانی کی ماں کو فخر کیا ہے، آپ نے تاریخ رقم کی ہے، اور میں آج صبح آپ کو دیکھنے آیا ہوں،‘‘ انہوں نے کہا۔

 

پی ایم مودی نے کہا کہ ’’بھارت ماتا کی جئے‘‘ ہر اس شہری کی آواز ہے جو ملک کے لیے جینا اور ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے۔

"'بھارت ماتا کی جئے' میدان میں بھی گونجتی ہے اور مشن میں بھی۔ جب بھارت کے سینک ماں ہندوستانی بولتے ہیں تو دشمن کے کلیجے کانپ جاتے ہیں..." وہ کہتے ہیں "بھارت ماتا کی جئے ہر اس سپاہی کا عزم ہے جو اس کی آواز کو ملک کے لیے قربان کرنے کے لیے تیار ہے۔ ملک اور ملک کے لیے کچھ کریں،‘‘ انہوں نے کہا۔

 

وزیراعظم نے آپریشن سندھ کے بعد پاکستانی جارحیت کا حوالہ دیا اور کہا کہ انہوں نے آدم پور ایئربیس پر حملہ کرنے کی کوشش کی۔

 

انہوں نے کہا کہ "آپریشن سندھور سے پریشان، دشمن نے اس ائیر بیس اور ہمارے کئی دیگر ائیر بیسوں پر متعدد بار حملہ کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے ہمیں بار بار نشانہ بنایا لیکن پاکستان کے مذموم عزائم ہر بار ناکام ہوئے۔"

 

انہوں نے مزید کہا کہ "میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ سب نے کمال کے ساتھ اپنے ہدف تک پہنچ گئے۔ پاکستان میں صرف دہشت گردوں کے کیمپوں اور ان کے فضائی اڈوں کو ہی تباہ نہیں کیا گیا بلکہ ان کے مذموم عزائم اور جرات کو بھی شکست دی گئی۔" (اے این آئی)

 

فراہم کردہ بذریعہ SyndiGate Media Inc.

  


Adampur (Jalandhar) [India], May 13 (ANI): Prime Minister Narendra Modi on Tuesday said that Indian Armed Forces have created history by their precision strikes on terror infrastructure in Pakistan and Pakistan Occupied Jammu and Kashmir under Operation Sindoor and had demolished Islamabad's "nuclear blackmail".

Interacting with air warriors and soldiers at Air Force Station Adampur, PM Modi said when India's missiles reach the target, the enemy hears 'Bharat Mata Ki Jai'.

PM Modi's visit to Adampur airbase came a day after his address to the nation in which he had said that India "will not tolerate any nuclear blackmail" and "will strike precisely and decisively at the terrorist hideouts developing under the cover of nuclear blackmail".

India and Pakistan have reached an understanding on stopping firing and military action following a call made by the Pakistani DGMO to his Indian counterpart on Saturday.

After India's precision strikes under Operation Sindoor in response to Pahalgam terror attack in which 26 people were killed, Pakistan forces resorted to military aggression which was effectively repelled by the Indian Armed Forces who also pounded Pakistan airbases.

"When our drones destroy the walls of the enemy's fort, when our missiles reach the target with a whizzing sound, the enemy hears 'Bharat Mata Ki Jai'. When we light up the sun even at night, the enemy sees 'Bharat Mata Ki Jai'. When our armies blow away the threat of nuclear blackmail, then only one thing resonates from the sky- 'Bharat Mata Ki Jai'. All of you have made millions of Indians proud, have made every Indian's mother proud, you have created history, and I have come among you this morning to see you," he said.

PM Modi said that "Bharat Mata ki Jai" is the voice of every citizen who wants to live for the country and do something for the country

"'Bharat Mata ki Jai' maidaan mein bhi goonjti hai aur mission mein bhi. Jab Bharat ke sainik Maa Bharati bolte hai toh dushman ke kaleje kaanp jaate hai..." He says "Bharat Mata ki Jai is the resolve of every soldier who is ready to sacrifice their lives for the country. It is the voice of every citizen who wants to live for the country and do something for the country," he said.

The Prime Minister referred to Pakistani aggression after Operation Sindoor and said they tried to attack Adampur airbase.

"Rattled with Operation Sindoor, the enemy tried to attack this air base and several of our other air bases multiple times. They targeted us again and again but the nefarious designs of Pakistan failed each time," he said.

"I can proudly say that all of you reached your target with perfection. In Pakistan, it was not just the terrorist camps and their air bases that were destroyed, but their nefarious designs and audacity were also defeated," he added. (ANI)

Provided by SyndiGate Media Inc. (

Syndigate.info

 

 


May 10, 2025

PAKISTAN & INDIA AIR FORCE FIGHT MAY-2025 EXPOSED

 


  پاکستان کی فضائی برتری 08-مئی-2025

کل ‏صبح 4 بجے ایک غیر معمولی واقعہ پیش آیا—میدانِ جنگ میں نہیں، بلکہ سفارتی پس منظر میں۔ چین کے سفیر کو راولپنڈی سے ایک ہنگامی کال کی گئی، اور چند گھنٹوں میں ایک طویل عرصے سے تیار کردہ منصوبہ فعال ہوگیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ محض ایک فضائی جھڑپ نہیں تھی—بلکہ بھارت کی فضائی برتری کے تاثر کا مکمل خاتمہ تھا۔

‏بھارتی فضائیہ نے مغربی محاذ پر تقریباً 180 طیارے اکٹھے کیے تھے، ارادہ تھا: بالاکوٹ کی طرز پر حملہ کر کے پاکستان کا دفاع توڑنا اور اپنی برتری ثابت کرنا۔

‏لیکن فضائیں اب پہلے جیسی نہیں رہیں۔

‏بھارت 300 کلومیٹر دور کیوں چلا گیا؟
‏دوبارہ بھارتی طیارے سرحد پار نہ کر سکے، کیونکہ انہیں اندازہ تھا کہ آگے کیا منتظر ہے:

‏چینی J-10C لڑاکا طیارے

‏PL-15 میزائل جن کی رفتار Mach 5 اور رینج 300 کلومیٹر سے زیادہ

‏ایر آئی ریڈار، جو ہر طیارے کو ایک جُڑے ہوئے سسٹم کا حصہ بناتے ہیں

‏یہ صرف پاکستانی پائلٹ نہیں تھے، یہ چین کا مکمل فضائی جنگی نظام تھا جو اس وقت پاکستانی فضاؤں میں متحرک تھا۔

‏رافیل گرا دیا گیا
‏ایک رافیل طیارہ—جس کی مالیت 250 ملین ڈالر تھی—فضا میں مار گرایا گیا۔ دوسرا بمشکل واپس آیا۔ Spectra الیکٹرانک وارفیئر سسٹم ناکام ہوا۔ PL-15 میزائل بغیر کسی فعال ریڈار کے، خاموشی سے ہدف پر جا لگا—مصنوعی ذہانت کی مدد سے۔

‏یہ لڑائی نہیں، گھات تھی۔

‏چینی سیٹلائٹ اور پاکستانی AWACS کی مدد سے پاکستانی فضائیہ نے سینسر-فیوزن کا استعمال کرتے ہوئے ہدف کو نشانہ بنایا۔ بھارتی طیارے کو نہ ہدف کا پتا چلا، نہ میزائل کا۔

‏بھارتی تذلیل اور دباؤ
‏رافیل، جسے بھارت نے برتری کی علامت کے طور پر خریدا، چین کے بنے میزائل سے مارا گیا۔ یہ صرف تکنیکی ناکامی نہیں بلکہ جغرافیائی پیغام بھی تھا۔

‏یہ واقعہ مغرب کے دفاعی حلقوں میں ہلچل مچا گیا۔ فرانس کے دفاعی سودے پر سوالات اٹھنے لگے۔ چین خاموشی سے سب کچھ دیکھ رہا تھا—اور شاید مسکرا رہا تھا۔

‏نیا فضائی دور
‏یہ 2019 نہیں ہے۔ یہ بالاکوٹ نہیں ہے۔ اب بھارت کو اندازہ ہو گیا ہے کہ پاکستانی فضاؤں میں داخلہ خودکشی ہے۔

‏رافیل کیوں ناکام ہوا؟

‏ایری آئی سب کچھ دیکھتا ہے، بھارتی ریڈار کچھ نہیں، خاموشی سے گشت کرتے J-10C طیارے، PL-15E میزائل—جنہیں لاک آن ہونے کے بعد فائر کیا گیا

‏رافیل کو جب احساس ہوا، میزائل صرف 50 کلومیٹر دور تھا۔
‏رفتار: Mach 5
‏وقت: صرف 9 سیکنڈ
‏نتیجہ: بچاؤ ممکن نہیں تھا۔
‏ 250 ملین ڈالر لاگت کا رافیل، ایک سے زائد نشانہ بن گئے-
‏بھارتی فضائیہ اب اپنی ہی سرحد سے 300 کلومیٹر پیچھے جا چکی ہے۔ بالاکوٹ 2.0؟ اب ممکن نہیں۔

‏ہندوستانی ڈاکٹرائن کی شکست
‏بھارت نے پلیٹ فارم خریدے۔ مگر پاکستان نے ایک مکمل "کلنگ چین" بنائی۔
‏اسپکٹرا ای ڈبلیو غیر موثر، فرانسیسی انجینئرنگ بے اثر، بھارتی پائلٹ ناکام، ان کے خلاف جنگ مشینیں لڑ رہی تھیں، جنہیں وہ دیکھ بھی نہیں سکتے تھے-

‏نتیجہ: خاموش فضائی غلبہ
‏یہ صرف ایک لڑائی نہیں تھی، ایک نیا دور تھا۔
‏C4ISR—یعنی کمانڈ، کنٹرول، کمیونیکیشن، کمپیوٹرز، انٹیلیجنس، سرویلنس، اور ریکی—نے جنگ جیتی۔
‏بھارت کی فضائی برتری کا خواب، جو رافیل پر منحصر تھا، کشمیر کے آسمانوں میں اٹھتے ہی خاک میں مل گیا۔

میمفس بارکر
 ٹیلی گراف

May 09, 2025

Pakistan Wins 59 Minutes Air Space War between JF-17 Thundre & indian Rafale, Mig, Su 30 Air Crafts

 


پاکستان، 9 مئی -- 7 مئی، 2025 کو ہونے والے واقعات میں ایک ڈرامائی موڑ آنے کے بعد، جنوبی ایشیا کے اوپر کے آسمان نے جدید فوجی تاریخ کی سب سے بڑی فضائی لڑائی کا منظر پیش کیا۔ یہ لڑائی تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہی، جس میں 100 سے زائد لڑاکا طیارے شامل تھے اور اس کا اختتام پاکستان کی بھارت پر فیصلہ کن فتح کے ساتھ ہوا۔ فضائی ذرائع نے تصدیق کی کہ 59 منٹ کی فضائی جنگ میں پاکستان کی فضائیہ (پی اے ایف) کی بے مثال مہارت اور حکمت عملی کی برتری کا مظاہرہ کیا گیا۔

بھارت نے اپنے ایلیٹ "اسٹریٹجک سکواڈرن" کو تعینات کر کے اس جھڑپ کا آغاز کیا، جس میں جدید رافیل جیٹ، سو-30s اور میگ طیارے شامل تھے۔ ان کا مشن پاکستانی فضائی حدود میں داخل ہونا اور تسلط ظاہر کرنا تھا۔ تاہم، پاک فضائیہ نے فوراً عملی تیاری کر لی اور JF-17 تھنڈر بلاک 3s، F-16 فالکنز، اور زمینی میزائل دفاعی نظاموں کا استعمال کرتے ہوئے طاقتور جوابی کارروائی کی۔ ان افواج نے مل کر بھارتی طیاروں کو ایک Beyond Visual Range (BVR) ہلاکت کے علاقے میں پھنسایا۔جب فضائی لڑائی شروع ہوئی تو پاکستان نے پانچ بھارتی طیارے گرا دیے - جن میں تین رافیل، ایک سو-30MKI، اور ایک میگ-29 شامل تھے۔ یہ پہلا موقع تھا جب رافیل، جو بھارت کی فضائی طاقت میں تبدیلی لانے والے سمجھا جاتا تھا، جنگ میں تباہ ہوئے۔ پاکستان کا فضائی دفاع جدید ریڈار لاکنگ اور میزائل نظاموں پر منحصر تھا جو آنے والے خطرے کو پاکستانی سرحد میں داخل ہونے سے پہلے بے اثر کر دیتے تھے۔

جس چیز نے اس تصادم کو الگ کیا وہ اس میں شامل پیمانے اور ٹکنالوجی تھی۔ پاکستان نے بھارت کے ہائی ٹیک سسٹم کو اندھا کرنے کے لیے ریڈار جیمنگ اور جوابی اقدامات جیسے جدید الیکٹرانک جنگی حربے استعمال کیے۔ دنیا بھر کے تجزیہ کار پہلے ہی اس مقابلے کو "مشرق کی ٹیکٹیکل ماسٹر کلاس" قرار دے چکے ہیں اور اس کا موازنہ سرد جنگ کے دور کی بڑی فضائی لڑائیوں سے کر رہے ہیں۔ بھارت کی حکمت عملی کوئی زمین یا کنٹرول حاصل کرنے میں ناکام رہی جس کی وجہ سے نئی دہلی کے دفاعی حلقوں میں صدمے اور خاموشی چھا گئی۔

عالمی منڈیوں نے اس بحران پر ردعمل کا اظہار کیا کیونکہ رافیل کی فرانسیسی مینوفیکچرر کمپنی کے حصص میں مبینہ طور پر 18 فیصد کمی واقع ہوئی۔ پاکستان کی کامیابی نے نہ صرف بھارت کے فضائی غلبے کے دعووں کو دھچکا پہنچایا بلکہ جے ایف 17 تھنڈر جیسے کم قیمت دیسی طیاروں کی تاثیر کو بھی ظاہر کیا۔ فوجی ماہرین کا خیال ہے کہ اس جنگ سے دنیا بھر میں مستقبل کے فضائی تنازعات سے نمٹنے کا طریقہ بدل جائے گا۔

مجموعی طور پر، یہ ایک دفاعی فتح سے کہیں زیادہ تھا - یہ قومی فخر کا لمحہ تھا اور ان لوگوں کے لئے ایک انتباہ تھا جو پاکستان کی فضائی صلاحیتوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔ ...

مجموعی طور پر، یہ صرف ایک دفاعی فتح نہیں تھی - یہ قومی فخر کا ایک لمحہ اور ان لوگوں کے لیے ایک انتباہ تھا جو پاکستان کی فضائی صلاحیتوں کو کم تر سمجھتے ہیں۔ بے مثال ہم آہنگی اور حوصلے کے ساتھ، PAF نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ مہارت اور حکمت عملی سب سے جدید ٹیکنالوجی کو بھی شکست دے سکتی ہیں۔

    

April 25, 2025

بانسری کی عجیب و غریب داستان بانسری والے نے 180 بچے غائب کر دیئے۔

 



 


عجیب و غریب تاریخ

 "آپ نے Peek Freans Gluco Biscuits

 کا وہ مشہور اشتہار تو ضرور دیکھا ہوگا، جس میں ایک رنگین لباس پہنے بانسری بجانے والا شخص بچوں کو اپنے پیچھے لگائے لے جا رہا ہوتا ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ منظر صرف ایک تخیلی اشتہار نہیں بلکہ ایک صدیوں پرانے، حیران کن اور پراسرار سچے واقعے سے متاثر ہے؟"

1284 کے موسم گرما میں جرمنی کے چھوٹے سے قصبے ہیملن میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے نہ صرف اس زمانے کے لوگوں کو حیران کر دیا بلکہ صدیوں بعد تک محققین، مورخین اور ادیبوں کے لیے ایک پراسرار پہیلی بنا رہا۔ یہ کہانی ایک انوکھے کردار "پیڈ پایپر" کے گرد گھومتی ہے - ایک رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس پراسرار بانسری نواز جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے پہلے تو شہر کو چوہوں کے عذاب سے نجات دلائی، مگر جب اسے اس کا معاوضہ نہ ملا تو اس نے انتقاماً شہر کے 130 بچوں کو اپنی جادوئی بانسری کے ساتھ لے کر غائب ہو گیا۔  

شہر ہیملن کی تباہی اور چوہوں کا عذاب
تیرہویں صدی کے آخر میں ہیملن شہر چوہوں کی ایک بہت بڑی آبادی کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر تھا۔ یہ چوہے نہ صرف فصلوں اور گوداموں کو تباہ کر رہے تھے بلکہ طاعون جیسی مہلک بیماریاں بھی پھیلا رہے تھے۔ شہر کے باشندے بے بسی کا شکار تھے اور کسی معجزے کے منتظر تھے۔  

پراسرار شخصیت کا ظہور  
ایک دن شہر میں ایک عجیب و غریب شخص داخل ہوا۔ وہ "پیڈ" یعنی رنگ برنگے کپڑے پہنے ہوئے تھا اور اس کے ہاتھ میں ایک چمکدار چاندی کی بانسری تھی۔ اس نے دعویٰ کیا کہ وہ چوہوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کر سکتا ہے۔ میئر اور شہر کے معززین نے اسے 1,000 گِلڈر (اس زمانے کی ایک بڑی رقم) کا لالچ دیا اگر وہ شہر کو اس آفت سے نجات دلا دے۔  

جادوئی بانسری کا کمال  
پیڈ پایپر نے اپنی بانسری بجانا شروع کی۔ ایک عجیب سی دھن تھی جو سنتے ہی تمام چوہے اپنے بلوں سے نکل آئے اور اس کے پیچھے ہو لیے۔ وہ انہیں شہر کی گلیوں سے گزارتا ہوا دریائے ویسر کے کنارے لے گیا جہاں تمام چوہے دریا میں چھلانگ لگا کر ڈوب گئے۔ شہر والے خوشی سے نہال ہو گئے۔  

وعدہ خلافی اور پیڈ پایپر کا غصہ  
لیکن جب معاوضہ دینے کا وقت آیا تو میئر اور شہر کے معززین نے رقم دینے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے نہ صرف 1,000 گِلڈر دینے سے انکار کیا بلکہ اسے صرف 50 گِلڈر دیے اور یہاں تک کہا کہ شاید یہی شخص چوہے لایا تھا تاکہ رقم بٹورے۔ پیڈ پایپر خاموشی سے چلا گیا، لیکن اس کی آنکھوں میں انتقام کی آگ تھی۔  

بچوں کا پراسرار غائب ہونا
26 جون 1284 کو، جب تمام بڑے گرجا گھر میں سنت جان اور پال کے دن کی عبادت میں مصروف تھے، پیڈ پایپر واپس آیا۔ اس بار اس کا لباس شکار کے جیسا سبز تھا۔ اس نے اپنی بانسری کی وہی پراسرار دھن بجائی، لیکن اس بار اس کی تان بچوں کے لیے تھی۔  

شہر کے 130 بچے، جو کھیل رہے تھے یا گھروں میں تھے، اچانک اس کے پیچھے ہو لیے۔ وہ ناچتے گاتے شہر کے مشرقی دروازے سے نکل گئے اور کاپنبرگ پہاڑی کی طرف چل دیے۔ وہاں ایک غار کے منہ پر پہنچ کر وہ سب غائب ہو گئے۔ صرف تین بچے پیچھے رہ گئے:  
- ایک لنگڑا بچہ جو تیز نہیں چل سکتا تھا  
- ایک بہرا بچہ جس نے بانسری نہیں سنی تھی  
- ایک اندھا بچہ جو راستہ نہیں دیکھ سکتا تھا  

یہی تینوں بچے بعد میں بڑے ہو کر اس واقعے کے چشم دید گواہ بنے۔  

تاریخی شواہد اور دستاویزات  
یہ صرف ایک افسانہ نہیں بلکہ ہیملن شہر کے تاریخی ریکارڈز میں درج ہے:  
- 1300 کے قریب ہیملن کے گرجا میں ایک کھڑکی بنائی گئی تھی جس پر یہ واقعہ نقش تھا۔ بدقسمتی سے یہ 1660 میں تباہ ہو گئی۔  
- 1370 میں راہب ہائنرک آف ہیرفورڈ نے اپنی لاطینی کتاب "کیٹینا آوریا" میں اس واقعے کا ذکر کیا۔  
- ہیملن کے "ریٹنفینگر ہاؤس" پر لگی تختی پر یہ واقعہ درج ہے۔  
- 1556 میں بنائے گئے شہر کے دروازے پر بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔  

مختلف نظریات  
1. ہجرت کا نظریہ: کئی مورخین کا خیال ہے کہ یہ دراصل نوجوانوں کے ایک گروہ کی مشرقی یورپ کی طرف ہجرت تھی۔ لسانیات کے ماہر یورگن اڈولف نے پایا کہ ہیملن کے کئی خاندانی نام آج پولینڈ کے علاقوں میں ملتے ہیں۔  
2. بچوں کی صلیبی جنگیں: کچھ کا خیال ہے کہ یہ بچے کسی مذہبی مہم کا حصہ بن گئے ہوں گے۔  
3. طبیعیاتی وجوہات: ممکن ہے کہ یہ بچے کسی بیماری یا قدرتی آفت کا شکار ہوئے ہوں۔  
4. نفسیاتی نظریہ: بعض محققین کا کہنا ہے کہ یہ اجتماعی نفسیاتی کیفیت (جیسے ڈانسنگ مینیا) کا واقعہ ہو سکتا ہے۔  

ثقافتی اثرات  
یہ کہانی گوئٹے، گریم برادرز، اور رابرٹ براؤننگ جیسے عظیم ادیبوں کی تحریروں میں زندہ ہے۔ براؤننگ کی نظم "دی پیڈ پایپر آف ہیملن" خاصی مشہور ہوئی۔ آج بھی ہیملن شہر میں "بنگیلوسن اسٹراسے" (بغیر ڈھول کی گلی) نامی جگہ پر موسیقی یا رقص پر پابندی ہے، کیونکہ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے بچے آخری بار دکھائی دیے تھے۔  

آخری بات
چاہے یہ ایک سچا واقعہ تھا یا علامتی داستان، پیڈ پایپر آف ہیملن کی کہانی صدیوں سے انسانی تخیل کو مسحور کرتی آ رہی ہے۔ کیا واقعی کوئی جادوئی بانسری نواز تھا؟ یا پھر یہ تاریخ کا کوئی اور ہی راز ہے؟ شاید ہم کبھی پورے یقین سے نہیں جان پائیں گے، لیکن یہ پراسرار کہانی ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گی۔


April 12, 2025

Change the Education System of Pakistan


  نظام کو بدلو تا کہ اپاہج نہیں ہنر مند پیدا ہوں 

میٹرک تک  سلیبس اس طرح ہونا چاہیے کہ بچے کے پاس کوئی نہ کوئی ہنر آ  جائے اور بچے کو پتہ چل جائے کہ اس نے میٹرک کے بعد کون سے فیلڈ اختیار کرنی ہے یعنی اس کی  کس فیلڈ میں دلچسپی ہے ۔
میرا خیال ہے اب رٹا سسٹم ختم ہونا چاہیے بچوں کو دسویں تک زیادہ سے زیادہ ٹیکنیکل تعلیم دینی چاہیے ۔۔
جمعہ اور ہفتہ دو دن ایسے ہوں جس میں نصابی کتابیں بالکل بند کر دی جائیں اور بچوں کو ہنر سکھائے جائیں
ایسے کون سے ہنر ہیں جو بچے دسویں کلاس تک سیکھ سکتے ہیں ۔۔

1- آٹو مکینک
خصوصی طور پر موٹر سائیکل کے بارے میں بچوں کو تربیت دی جائے اس کے انجن کے بارے میں پرزے تبدیل کرنے کے بارے میں انہیں چھٹی کلاس سے لے کر دسویں کلاس تک مرحلہ وائز موٹرسائیکل کا کام سکھایا جائے وہ اس قدر ماہر بن جائیں کہ دسویں کلاس کے بعد پرزے خرید کر پورا موٹر سائیکل اسمبل کر سکیں ۔۔

2- بجلی کا کام الیکٹریشن

بچوں کو عملی طور پر بجلی کا کام سکھایا جائے انڈر گراؤنڈ وائرنگ کیسے کی جاتی ہے اوپن گراؤنڈ وائرنگ کیسے کی جاتی ہے موٹر وائنڈ کیسے کی جاتی ہے مکمل طور پر بچوں کو کام سکھایا جائے اور یہ شعبہ اور یہ ہنر خود میں پوری ایک سائنس ہے فزکس میں اس کے چیپٹر تو ہیں تھیوری کے طور پر میں کہنے سے چاہتا ہوں کہ بچوں کو پریکٹیکلی کام سکھایا جائے صحیح معنوں میں

3- گھر کا ڈاکٹر

چھٹی کلاس سے لے کے دسویں کلاس تک کے تمام بچوں کو گھر ڈاکٹر بنا دیا جائے جو کہ وقت کی اشد ضرورت ہے
بچے کو بلڈ پریشر مانیٹر کرنا آنا چاہیے ۔۔
وین میں انجیکشن لگانا سکھائیں گوشت میں انجیکشن لگانا سکھائیں بوقت ضرورت ڈرپ کیسے لگائی جاتی ہے ۔
ایمرجنسی کی صورت میں بینڈج کرنا سکھائیں ۔۔
ضروری نہیں یہ کام اس نے لوگوں کے لیے کرنے ہیں یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جو بچے کی ساری زندگی اس کے کام آنے والی ہیں۔۔۔

4- موبائل ریپیئرنگ اور سافٹ ویئر

بچوں کو موبائل ریپیئرنگ کے بارے میں تربیت دی جائے ان کو موبائل ریپیئر کرنا سکھایا جائے موبائل میں سوفٹ ویئر کیسے اپڈیٹ کیا جاتا ہے سافٹ ویئر انسٹال کیسے کیا جاتا ہے ۔۔

5- خود سے پیسے کمانا

گرمی کی چھٹیوں میں بچوں کو ٹاسک دیا جائے کہ پانچ پانچ بچے مل کر تھوڑے تھوڑے پیسے ڈال کر کوئی کاروبار کریں کوئی چیز لے کر فروخت کریں تاکہ وہ عملی زندگی میں اس طرح کی صورتحال میں پریشان نہ ہو مطلب ان کو کمانا سکھائیں ( ہمارے پڑوسی ملک انڈیا میں یہ پریکٹیکل کئی سالوں سے ہو رہا ہے )

6- فری لانسنگ

ویڈیو گیم کھیلنے کے علاوہ کمپیوٹر اور بھی بہت سے مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے یہ بچوں کو عملی طور پر باور کروایا جا سکتا ہے انہیں بتائیں کہ انٹرنیٹ کا دور ہے اپ اپنی چیزیں انٹرنیٹ پر کس قدر اسانی کے ساتھ فروخت کر سکتے ہیں ۔۔
اپنی خدمات کو انٹرنیٹ پر فروخت کرنا سکھائیں ۔۔

مثال کے طور پر اگر کوئی بچہ دیہاتی ہے اور اس کے گھر میں دیسی گھی ہے تو اس کا استاد بتائے کہ وہ دیسی گھی کا پیج بنا کر انٹرنیٹ پر ایمانداری کے ساتھ کس قدر کامیاب کاروبار  کر سکتا ہے ایلسی کی پنیا فروخت کر سکتا ہے مکئی کا اٹا فروخت کر سکتا ہے سردیوں میں ساگ بنا کر فروخت کر سکتا ہے مکھن فروخت کر سکتا ہے اور بھی بہت کچھ یہ اسے سکھایا جائے  ۔۔!!

7- نرسری اگانا

بچوں کو بیج لگانے کی تربیت دی جائے پھولوں کے بیج  سبزیوں کے بیج  درختوں کے بیج  اور یہ کام سکول میں بہت اسانی کے ساتھ ہو سکتے ہیں کہ اگر مستقبل میں اس کا رجحان نیچر کی طرف بڑھ جائے تو وہ نرسری کا اپنا کاروبار کر سکتا ہے اسے یہ ہنر ضرور سکھانے چاہیے ۔۔

8- چھوٹے پیمانے پر صابن سازی

9- بیچنا آنا چاہیے بچوں کو مارکیٹنگ

بچوں کے اندر اس قدر اعتماد پیدا کیا جائے کہ وہ بہترین مارکیٹر بن سکے ان کو اپنی چیزیں بیچنا آنا چاہیے اور اساتذہ سے بڑھ کر کوئی ایسی ہستی نہیں جو بچوں میں اس قدر اعتماد پیدا کر سکے والدین سے بھی زیادہ اعتماد بچوں کو سکول میں ماحول سے ملتا ہے اساتذہ سے ملتا ہے

اب وقت ہے کہ سلیبس میں موجود فضول کہانیوں کو یکثر مسترد کر کے ہمارے انے والے بچوں کو دسویں تک مکمل پریکٹیکل تعلیم دی جائے تاکہ وہ اپنا باعزت روزگار کما سکے اور وطن عزیز کے باعزت شہری بن سکیں ۔۔
تحریر
عاطف سہیل آرائیں ۔۔!!!

...کاپیڈ...
#k4kasim

April 07, 2025

MARRIED LIFE : HOW TREATS WIFE



 ازدواجیات!

مرد بہت ساری بری عادتیں والدین سے کاپی کرتا ہے باقی بیوی اس میں کوٹ کوٹ کر بھرتی ہے،پہلے وہ بس بڑے جھوٹ بولتا تھا اب بات بات پر بولتا ہے.

 ماں اور بہن بھائیوں سے بھی بات کر کے یوں چھپاتا ہے جیسے گرل فرینڈ سے کر لی ہو، بیوی جب چھوٹی چھوٹی باتوں پر Attitude  دکھانا شروع کر دیتی ہے تو وہ چھوٹی چھوٹی چیز پر بھی جھوٹ بول کر گھر کے ماحول کو نارمل رکھنے کی کوشش کرتا ہے، یہانتک کہ خریدے گئے سودے سلف کی قیمت بھی کم بتاتا ہے تا کہ بیوی ڈسٹرب نہ کرے. چیزوں پر سے قیمت کے اسٹکر پھاڑ کر گھر آتا ہے مگر بیوی نے بھی قسم کھائی ھوتی ہے کہ کوئی بھی ایشیو کھڑا کر کے اس کی کلاس لینی ہے.

بیوی کے لئے 80 درھم کا سوٹ لائے گا اور بیوی کو 60 کا بتائے گا اور بیوی کہے گی یہ تو میری سہیلی 40 کا لائی ہے.

 ایک پاکستانی نژاد امریکی جوڑا ٹی وی پر انٹرویو دے رہا تھا دونوں امریکہ میں کنسلٹنٹ ڈاکٹر تھے.  شوھر نے بیوی سے ڈر کی مثال دی کہ میں سیب لایا 50 روپے درجن وائف کی چخ چخ کے ڈر سے اس کو بتایا کہ 36 روپے درجن لایا ہوں  . اس نے پڑوسن کو بتایا اور پڑوسن کا شوھر سارا دن بازار میں دھکے کھاتا رھا اس ریٹ پر  کہیں نہ ملے، میری وائف نے اپنے سیب پڑوسن کو دے کر 36 روپے لے لئے کہ میرے میاں اور لے آئیں گے پھر مجھے اپنا بھرم رکھنے کے لئے مزید لانے پڑے. ایک دفعہ وائف کا سوٹ لایا جو اس کو آدھی قیمت کا بتایا اور اس نے وہ سوٹ اٹھا کر اسی قیمت میں سہیلی کو پکڑا دیا کہ مجھے اس کا پرنٹ پسند نہیں دوسرا منگوا لونگی. اب تنگ آ کر میں نے اس کو اصل قیمت بتا دی اور پھر اگلی دو راتیں یہ سوئی نہیں اور اس سہیلی سے بولنا بھی چھوڑ دیا - شوہر فطرتا کمپرومائزنگ ہوتا ہے کیونکہ اس کو سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے جبکہ وائف پرسنل ہوتی ہے صرف ذاتی سوچ سوچتی ہے. اپنے گھر کی حد تک.  

بیوی پوری کوشش کرتی ہے کہ وہ شوھر کی تعریف نہ کرے یہانتک کہ شوہر کے جاننے والوں تک کے سامنے بھی نہیں کرتی کہ وہ اس تک پہنچا نہ دیں. وہ کبھی یہ نہیں کہتی کہ میری خوش قسمتی ہے کہ آپ مجھے مل گئے ورنہ تو بڑے بڑے کمینے شوھر آج کل مارکیٹ میں آئے ہیں. البتہ وہ یہ جملہ شوھر سے ضرور سننا چاہتی ہے کہ تم نے میری زندگی جنت بنا دی ہے  (جہاں بندہ مرضی سے مر بھی نہیں سکتا ) شوھر اللہ کی ایک نعمت ہے اور اللہ کے رسول کا حکم ہے کہ نعمت کو شکر کے ذریعے محفوظ کرو کیونکہ اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ تم شکر کرو گے تو ہم نعمت میں اضافہ کریں گے.  گھر کی بربادی میں ناشکری کا بہت بڑا ہاتھ ہے.

 عرض کیا تھا کہ شوھر اپنی فطرت میں پالتو جاندار ہے. پہلے اس pet کو ماں پالتی ہے پھر بیوی کے حوالے کر دیتی ہے، بیوی اس کو لدو جانور سمجھ کر بس دھونس اور دھاندلی سے قابو  میں رکھنے کی کوشش کرتی ہے جیسے کرائے کی بےبی سیٹر بچوں کو پٹاخ پٹاخ کر چپ کرانے کی کوشش کرتی ہیں.  ایسی بیوی کے ہاتھ لگنے والا شوھر بس ایک مسکراہٹ کی مار ہوتا ہے اور یہی اکثر ھوتا ہے کہ کالی پٹا کر لے جاتی ہے اور گوری زیور سجائے بیٹھی رہ جاتی ہے  ' بقول استاد قمر جلالوی _

چرچے سنے جو راہزن روز آشکار کے -
تو لیلئ شب نے رکھ دئیے زیور اتار کے -

آخری بات یہ کہ شوھر کو یہ بات زہر لگتی ہے کہ بیوی اس کو تو جوتی کی نوک پہ رکھے. مگر اس کے والدین پر اپنی مظلومیت کی دھاک جما کر ان کے ذریعے اس کے گھٹنے ٹکوانے کی سیاست کرے. بجائے اس کے کہ شوھر پر واضح کرے کہ اس کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے وہ اس کے سامنے تو کے- ٹو کی طرح تن کر کھڑی ہو اور دوسروں کو بیچ میں ڈال کر اپنا مکو ٹھپ لے.  یہ اصل میں شرک فی المحبت ہے.

March 22, 2025

What should be fed to the person coming home .

 
گھر آنے والے کو کیا کھلایا جائے..؟؟؟

ایک عمومی معاشرتی رویہ جس کی وجہ سے تکلفات میں اضافہ اور دلوں میں فاصلے بڑھ گئے۔۔۔
یعنی پہلے ایک وقت تھا جب ملنا ملانا اہم ہوا کرتا تھا۔ کسی کے گھر آنے جانے کے لئے تکلفات کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ نہ ہی گھر کے مکینوں کو بطور میزبان یہ فکر ہوتی تھی کہ آنے والے کو کیا کھلایا پلایا جائے جو اس کے شایانِ شان ہو۔ مطلب جو گھر میں پکا ہوتا وہی آگے رکھ دیا جاتا۔ اور مہمان نے کبھی یہ فکر نہیں کی کہ کسی کے گھر جانے سے پہلے کیا ایسا تحفہ دیا جائے جو سب سے بہترین اور مہنگا ہو۔ یا وہ اس بات پر کبھی بیزار نہیں ہوا کہ اس کو کیا کھلایا گیا اور کہاں بٹھایا گیا۔ ۔ یعنی دو طرفہ تعلقات میں مادی چیزیں زیادہ آڑے نہیں آتی تھیں۔۔۔۔ لہٰذا ملنے والے کو جب یاد ستائی، وہ چلا آیا اور میزبان پر چونکہ پروٹوکول کا علیحدہ سے بوجھ نہیں پڑتا تھا سو وہ خوشی خوشی ملتا تھا۔
آج کے جدید دور میں جہاں بہت ساری اچھی باتیں اور ترقیاں ہوئی ہیں،،، وہاں کچھ ایسے معاملات بھی ہوتے ہیں جو بحیثیت افراد ہمیں اپنوں سے دور کر گئے ۔۔۔ مثلاً ایک خاص طرز پر ہی ملنا جلنا، جو کہ زیادہ تر انویٹیشن کی بنیاد پر ہی ہوتا ہے چاہے وہ کھانے کی دعوت ہو یا چائے کی۔ پھر اس کے لئے خصوصی اہتمام ۔۔ جس پر فی زمانہ اچھا خاصہ خرچا آتا ہے۔ اور مہمان کو یہ فکر کہ آج یہ سب کھا کے آئیں ہیں تو اب اسی معیار کا کھلانا بھی ہو گا۔ اپنی چادر سے بڑھ کر پاؤں پھیلانے پر جو پریشانی بعد میں آئے گی۔ اس کے پیشِ نظر وہ دعوت قبول کرنے سے بھی ہچکچانے لگتا ہے۔
اچھا مزید برآں ۔۔۔ کچھ رشتہ دار خود 10طرح کی ڈشیز بنا کے آگے رکھ کر اپنی امارت کا رعب تو ڈالتے ہی ہیں۔۔۔ پھر اس بات پر شکوہ کناں بھی ہوتے ہیں کہ ہم نے تو اتنی خاطر مدارت کی۔۔ جبکہ ہمارے آنے پر بس وہی 2 ڈشیز ہمارے آگے رکھی گئیں۔
سو لوگ ہر بار ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ۔۔۔
اس پوری کھینچا تانی میں وہ قہقہے اور بے فکریاں کہیں گم ہوگئے۔۔ جو سادگی اور بے دھڑک ہو کر ملنے جلنے میں تھے۔
آج اگر کوئی کسی کو اس سے بڑھ چڑھ کر کھلا نہ سکے تو وہ خود کہیں آنے جانے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہے۔ کہ کھائیں گے تو کھلانا بھی پڑے گا۔ وہ بھی جوابی طور پر پہلے سے بڑھ کر۔۔۔۔۔۔
سو دوستو۔
بات کل ملا کے یہ ہے کہ وہ بہن بھائیوں ، یاروں دوستوں اور دوسرے خونی رشتوں میں جہاں یہ تکلفات آڑے آنا ہمیں اکیلا اور تنہا کر گیا،،، وہاں یہ ہماری معصومیت بھی لے گیا۔ آج کے دور میں ہم جتنا رکھ رکھاؤ اور سلیقے کے ساتھ پھونک پھونک کر ایک دوسرے سے ملتے ہیں
کیا کبھی بچپن میں ایسے ملا کرتے تھے؟؟؟؟
بچپن کے دوست آج بھی ملیں تو خوشی کا احساس ، سرور کی کیفیت اور قہقہوں کا شور ہی اور ہوتا ہے۔ اب جو دوست بنائے جائیں ان کے سامنے بھی ہمیں رکھ رکھاؤ اور سلیقے سے پیش آنا ہوتا ہے
ہمیں ڈر ہوتا ہے کہ لوگ ہمارے بارے میں ججمنٹل نہ ہو جائیں۔ وہ سب کچھ نہ جان لیں جو ہم نے بڑی محنت سے چھپایا ہے۔ کیونکہ اس سے ہماری عزت ، رتبے، معیارات میں کمی آئے گی تو دوستی پر بھی فرق پڑے گا۔۔۔۔
کبھی وہ وقت تھا کہ ظاہری حلیہ اور مادی چیزیں رشتوں سے پیچھے تھیں اور بھروسہ آگے تھا۔۔۔انسان خوش تھا۔
اب یہ وقت ہے کہ ظاہری طور و اطوار رشتوں، دوستیوں اور محبتوں سے آگے بڑھ گئے ۔ انسان اندر سے خالی ہوتا چلا گیا
اور آج وہ ہجوم اور بھیڑ میں بھی تنہا ہے۔۔۔ کیونکہ اس کے پاس ایک بھی ایسا رشتہ اور تعلق نہیں،،،، جس کے سامنے وہ اپنے اندر کی کمیاں خامیاں عیاں کر سکے، اپنی ذات کی ناکامیاں رکھ سکے اور اپنی غلطیوں کا اعتراف دھڑلے سے کر سکے ۔ اسے یہ خوف نہ ہو کہ وہ اس کے بارے کیا سوچے گا یا جج کرے گا۔۔۔۔۔۔
سو اگر آپ کے پاس ایسا کوئی رشتہ ہو۔۔۔۔ بہن بھائیوں ، دوستوں میں۔۔۔۔ تو اسے ظاہریت کی بھینٹ کبھی نہ چڑھنے دیں۔ اسے کھانے کھلانے کی ٹینشن ، پہناوے، آن بان شان کی پہنچ سے دور رکھیں۔۔۔۔
بچوں کے جیسے معصوم ، بے فکر تعلقات انسان کو اندر سے زندہ رکھتے ہیں۔ ورنہ وہ جی نہیں رہا ہوتا۔۔۔ صرف سانس لے رہا ہوتا ہے۔۔۔

Teen age Mothers, Sex Education, Moral Graounds, & Double Face Judgements

مغربیت، دیسی لبرلزم اور حقیقت! - بلال شوکت آزاد
دنیا میں کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں جو خالصتاً عقل و منطق سے حل کیے جا سکتے ہیں، مگر کچھ معاملات میں منافقت، دوغلے معیار اور مخصوص ایجنڈے اتنے گہرے ہوتے ہیں کہ سچائی آنکھوں کے سامنے ہونے کے باوجود بھی لوگ اسے قبول نہیں کرتے۔ ایک ایسا ہی مسئلہ "مغربیت" اور ہمارے ہاں کی "دیسی لبرلیت" کا ہے، جو ہمیشہ اپنے مخصوص ایجنڈے کے تحت کام کرتی ہے۔
آج کی دنیا میں اگر کسی مغربی ملک میں 13 سال کی بچی زنا کے نتیجے میں ماں بن جائے، تو اسے "معاشرتی حقیقت" اور "آزادیِ انتخاب" کہہ کر قبول کر لیا جاتا ہے۔ میڈیا اس پر رپورٹنگ کرے گا، نفسیاتی تجزیے پیش ہوں گے، اور اس کے "سپورٹ سسٹم" کو سراہا جائے گا کہ کیسے سوسائٹی نے اسے قبول کیا، کیسے سوشل ویلفیئر نے اسے سہارا دیا، اور کیسے اس کے ساتھ "ججمنٹل" رویہ نہیں اپنایا گیا۔ یہاں تک کہ شاید کوئی بڑا میگزین اس پر ایک تفصیلی مضمون لکھ دے گا کہ "نوجوان ماؤں کی زندگی پر اس حمل کے اثرات" اور ان کا "سماجی مستقبل" کیا ہوگا۔
لیکن اگر یہی تیرہ سال کی بچی کسی مسلمان ملک میں نکاح کے بعد رشتہ ازدواج میں بندھ جائے، تو مغربی میڈیا اور اس کے پاکستانی چمچے چیخ و پکار شروع کر دیں گے:
"یہ ظلم ہے!"
"یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے!"
"یہ بچی کا بچپن چھیننے کے مترادف ہے!"
"یہ پدرشاہی کی جیت اور خواتین کے حقوق کی شکست ہے!"
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر 13 سال کی بچی شادی نہیں کر سکتی، تو وہ ماں کیسے بن سکتی ہے؟ اگر وہ شادی کے لیے "کم عمر" ہے، تو پھر زنا کے لیے عمر کی کوئی حد کیوں نہیں؟ اگر وہ شادی کے بعد کسی ذمہ دار شوہر کے سہارے زندگی گزارنے کے قابل نہیں، تو بغیر باپ کے ناجائز بچے کو پالنے کے قابل کیسے ہے؟
یہ وہ منافقت ہے جو ہمارے معاشروں میں رائج کی جا رہی ہے، اور حیرت انگیز طور پر ہمارے کچھ دیسی لبرل بھی اسے آنکھیں بند کرکے قبول کر رہے ہیں۔
مغرب میں "آزادی" کا تصور درحقیقت محض ایک فریب ہے۔ یہاں ہر قسم کی جنسی بے راہ روی کو "پرسنل چوائس" کہہ کر قبول کر لیا جاتا ہے، مگر جب کوئی مذہبی اصول کے تحت کوئی کام کرے، تو اسے ظلم اور جبر کہہ دیا جاتا ہے۔
مثلاً، اگر ایک 15 سالہ لڑکی اپنے "بوائے فرینڈ" کے ساتھ رہنا شروع کر دے، تو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ لیکن اگر وہ کسی اسلامی نکاح کے بندھن میں بندھ جائے، تو فوراً "چائلڈ میریج" کے خلاف قانون سازی کی باتیں شروع ہو جائیں گی۔ اگر کوئی نوجوان جوڑا بغیر شادی کے ساتھ رہے، تو مغربی معاشرہ اسے "کپل گولز" قرار دیتا ہے، مگر اگر کوئی مسلمان لڑکی اپنے والدین کی مرضی سے شادی کر لے، تو کہا جاتا ہے کہ "یہ ظلم ہے، اسے خود فیصلہ کرنے کا اختیار ہونا چاہیے تھا!"
یعنی، لڑکی کو "فیصلہ" صرف اسی صورت میں کرنے کی اجازت ہے جب وہ مغربی نظریات کے مطابق فیصلہ کرے۔ اگر وہ اسلام کے مطابق کوئی قدم اٹھائے، تو یہ "دماغی کنڈیشننگ" اور "دباؤ" کہلائے گا۔
ہمارے دیسی لبرلز کی مثال ان غلاموں کی سی ہے جو اپنے آقاؤں کی ہر بات پر سر جھکاتے ہیں۔ ان کے نزدیک ہر وہ چیز جو مغرب میں ہوتی ہے، وہ ترقی ہے، اور ہر وہ چیز جو اسلام میں ہے، وہ دقیانوسیت۔
یہ وہی لوگ ہیں جو حقوقِ نسواں کے نام پر "فریڈم آف چوائس" کے گیت گاتے ہیں، مگر جب کوئی لڑکی اپنی مرضی سے اسلامی لباس پہننے کا فیصلہ کرے، تو فوراً کہتے ہیں کہ "یہ دقیانوسی سوچ ہے!" یعنی، "آزادی" صرف وہی ہے جو مغرب میں دی جا رہی ہو، باقی سب غلامی ہے۔
یہی دیسی لبرلز آج مغرب کے سیکس ایجوکیشن نصاب کی حمایت کرتے ہیں، جس میں چھوٹے بچوں کو LGBTQ اور "آزاد جنسی زندگی" کی تعلیم دی جاتی ہے، مگر جب کوئی مدرسہ یا دینی ادارہ بچوں کو اسلامی تعلیم دے، تو یہ فوراً اسے "انتہا پسندی" قرار دیتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کب تک ہم مغرب کی اس منافقت کو دیکھ کر خاموش رہیں گے؟ کب تک ہم ان دوہرے معیارات کو نظر انداز کریں گے؟ کب تک ہمارے دیسی لبرلز مغرب کی غلامی کرتے رہیں گے؟
اگر 13 سال کی بچی کی شادی قابلِ اعتراض ہے، تو 13 سال کی بچی کا زنا بھی قابل اعتراض ہونا چاہیے۔
اگر خواتین کے حقوق کے نام پر انہیں اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کا حق دیا جاتا ہے، تو انہیں اسلامی نکاح کرنے کا بھی پورا حق ہونا چاہیے۔
اگر ہم "آزادی" کے حامی ہیں، تو یہ آزادی صرف بے راہ روی تک محدود نہیں ہونی چاہیے، بلکہ ہر انسان کو اپنے مذہب، عقیدے، اور روایات کے مطابق زندگی گزارنے کا بھی پورا اختیار ہونا چاہیے۔
یہ وقت ہے کہ ہم اس منافقت کو بے نقاب کریں۔ مغربی معاشرے کے دوغلے معیار صرف ان کے لیے نہیں، بلکہ ہمارے معاشروں کے لیے بھی خطرناک ہیں۔ ہمیں اپنے اسلامی اصولوں اور روایات پر فخر کرنا چاہیے، نہ کہ مغرب کی اندھی تقلید میں اپنے ہی مذہب، تہذیب اور ثقافت کو کمتر ثابت کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
دیسی لبرلز کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اگر آج وہ مغربی غلامی کے نشے میں مست ہو کر اپنی روایات کا مذاق اڑا رہے ہیں، تو کل یہی مغرب ان کے لیے نئے قوانین بنائے گا، جہاں ان کے پاس نہ اپنی شناخت ہوگی، نہ آزادی۔
اور پھر یہ وہی دیسی لبرلز ہوں گے جو آنسو بہا کر کہیں گے: "ہم کہاں کھڑے ہیں؟"

Terminalia Arjuna Combretaceae (Arjun Tree) ارجن

ارجن: دل کا محافظ درخت*

تریفل(ترپھلہ) کے جزو ہریڑ اور بہیڑہ کے خاندان کمبری ٹیسی سے تعلق رکھنے والے اس درخت کا نباتاتی نام ٹرمینالیا ارجونا ہے
ارجن (Arjun)ایک قد آور درخت ہے۔ جو ہندوستان، پاکستان، سری لنکا، میانمار اور کچھ دوسرے ایشیائی ممالک میں بکثرت پایا جاتا ہے۔ پتے امرود کے پتوں جیسے قریبا چار پانچ انچ لمبے اور ایک سے دو انچ چوڑے ہوتے ہیں اور دس پتوں سے لے کر پندرہ پتے ایک شاخ میں لگتے ہیں۔اسکے پھول لمبے اور گچھے نما ہوتے ہیں اور اسکے بیج لکڑی کی طرح اور پانچ کونوں والے ہوتے ہیں۔اس کے پھل لمبے اورسبز رنگ کے ہوتے ہیں۔ ماہ جولائی میں اس کو پھل کثرت سے لگتے ہیں۔اسکو بیج اور قلم دونوں طریقوں سے لگایا جا سکتا ہے۔
لاہور کے لارنس باغ میں بھی ارجن کے کئی درخت ہیں۔آج سے چالیس پچاس سال پہلے یہ درخت شہروں میں سڑک کنارے اکثر لگائے جاتے تھے لیکن بعد میں کسی دور میں ہزاروں کی تعداد میں ان پرانے درختوں کو کاٹ دیا گیا۔ لیکن اب گذشتہ دس پندرہ سال میں محکمہ جنگلات پنجاب اور خصوصا موٹر وے اتھارٹی والوں نے اسکے سینکڑوں درخت لاہور۔اسلام آباد موٹر وے کے اطراف میں لگائے ہیں۔
اسکی لکڑی کافی ٹھوس قسم کی ہوتی ہے اوریہ ان درختوں میں شامل ہے جن کی لکڑی فی کیوبک میٹر ایک ٹن کے قریب ہوتی ہے۔یہ درخت سینکڑوں سال تک قائم رہتا ہے اور بظاہر اسے کوئی بیماری بھی نہیں لگتی۔
ایک اعلیٰ قسم کا ریشم کا کیڑاجسے Tussar silk کہا جاتا ہے، اس ریشم کے کیڑے اس درخت کے پتوں پر پالے جاتے ہیں۔
اس درخت کو طب میں بہت اہمیت حاصل ہے اور ہزاروں سال سے اس درخت کے مرکبات مختلف ادویات اور بیماریوں سے بچاؤ کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔خاص طور پر دل سے متعلقہ بیماریوں اور ہائی بلڈ پریشر کیلئے اسکی چھال کو ابال کر پیتے ہیں۔ اسی وجہ سے اس درخت کو ''دل کا محافظ'' درخت بھی کہا جاتا ہے۔
ارجن کو ہندی میں ارجنا،سنسکرت میں ارجن پرکھش، تامل میں مردتنے، بنگالی میں ارجن، گجراتی میں ساجد ان اور انگریزی میں بھی Arjun Tree ہی کہتے ہیں، اسکا نباتاتی نام Terminalia arjuna ہے۔
ارجن میں پائے جانے والے کیمیائی اجزا: ارجن کی چھال میں پندرہ فیصد ٹے نین، تیس فیصد کیلشِیم کاربونیٹ، سوڈیم اور گلوکوسائیڈ پایا جاتا ہے۔انکے علاوہ بیٹا سائیٹو سیٹرول،ٹرائی ٹرپی نائیڈسیونین،ارجونین،ارجونیٹین،ارجو نولک ایسڈ،فراری تیل،شکر،کے ساتھ تھوڑی مقدار میں میگنیشیم اور ایلومینیم کے نمکیات بھی ملتے ہیں۔
ارجنا کے پتوں سے ہومیوپیتھک میں مدر ٹنکچر (Q) تیار کی جاتی ہے۔ جو کہ دل کو طاقت دیتا ہے۔اس کی دھڑکن کو کم کرتا ہے۔ ارجن زہریلے اثرات سے پاک ہے۔
ارجن کے طبی فوائد:
دل کے امراض: ارجن کو دل کا محافظ درخت کہا جاتا ہے۔ اس کی چھال میں پایا جانے والا گلوکو سائیڈ انگریزی دواڈیجی ٹیلس (Digitalis)کی طرح دل کی دھڑکن کو ختم کرتا ہے اور دل کو طاقت دیتا ہے۔ تاہم ڈیجی ٹینس میں زہریلے ا ثرات ہوتے ہیں اور ارجن کی چھال کا گلو کو سائڈ بالکل بے ضرر ہوتاہے۔
اس کو دل کے فعلی اور عضویاتی امراض میں جیسے کہ درددل، انجائینا،خفقان،ورم بطانہ قلب،ورم غلاف القلب میں استعمال کیا جاتا ہے،اس کی سب سے اچھی خوبی اس کا بے ضرر ہونا ہے۔ اس کے دل پر کوئی زہریلے اثرات نہیں ہوتے۔ یہ ہائیپرٹینشن میں خاص طور پر مفید ہے۔
ارجن میں پائے جانے والے اجزاء دل کے نازک پٹھوں خون کی نالیوں کو مظبوط کرنے کے ساتھ خون میں چکنائی کو ہضم کرنے والے نظام کی اصلاح کر کے اسے فعال بناتے ہیں۔اینٹی اوکسیڈنٹ بطور دوا ایسے جزو کا نام ہے جو دوسرے اجزاء کو اکسیجن سے مل کر ٹھوس ہونے سے روکے جیسے کہ خون کی نالیوں میں چکنائی کا جمنا،ارجن کی چھال سے بننے والا قہوہ اپنی اینٹی اوکسیڈنٹ صلاحیت کی وجہ سے دل کے امراض میں انتہائی مفید ہے۔
ڈی این اے تحفظ: ارجن میں ایسے مرکبات ہیں جو ڈی این اے کو مختلف وجوہات سے پہنچنے والے نقصان سے بچانے میں معاون ہیں۔
قلبی صحت: یہ دل کے پٹھوں کو طاقت فراہم کرتا ہے اور خون کو پمپ کرنے کی دل کی صلاحیت کو بہتر بناتا ہے۔ اس میں کارڈیو حفاظتی اقدامات ہیں، جو دل کے زیادہ سے زیادہ افعال کو محفوظ رکھنے میں مدد کرتا ہے اور کارڈیک چوٹ کی بحالی کے عمل کو تیز کرتا ہے۔ یہ سب سے زیادہ عام طور پر مایوکارڈیل انفکشن (ہارٹ اٹیک) سے بچاؤ کے لئے استعمال ہوتا ہے کیونکہ اس میں اینٹی ایٹروجینک پراپرٹی ہے، جو کورونری شریانوں میں پیدا ہونے والی سختی کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے اور دل کے ٹشووں میں خون کے بہاؤ کو بہتر بناتا ہے۔
ہائی بلڈ پریشر کا علاج: ہائی بلڈ پریشر کیلئے ارجن ایک بہترین گھریلو علاج ہے۔ ہائی بلڈ پریشر ایک انتہائی سنگین طبی حالت ہے جو دل کی ناکامی، فالج، دل کا دورہ، گردے کی خرابی اور دیگر سنگین پریشانیوں کا سبب بن سکتا ہے۔ ہائی بلڈ پریشر کی عام علامات میں شدید سردرد، متلی، الٹی، الجھن، ناک سے خون بہنا وغیرہ شامل ہیں۔ لہذا قدرتی طور پر ہائی بلڈ پریشر کا علاج کرنے کے لئے ارجن سے بہتر کوئی قدرتی دوا نہیں ہے۔
بواسیر اور خون بہہنے والی امراض: ارجن میں پائے جانے والے قدرتی مادے میں اینٹی ہیمرجک پراپرٹی ہے، جس سے بہتے خون کو روکا جا سکتا ہے۔ یہ یونانی طب میں عام طور پر دیگر جڑی بوٹیوں کے ساتھ خون بہہ جانے والی عوارض کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
ارجن کے دیگر استعمال: ارجن قدرت کا ایک بیش بہا تحفہ ہے۔ارجن کی چھال کا جوشاندہ دست، پیچش، جریان خون اور جریان منی میں مفید ہے۔ اگر اس کی چھال کے جوشاندہ سے زخموں کو دھویا جائے تو جلدی مندمل ہو جاتے ہیں۔ اس کی چھال کے سفوف کو کیل مہاسے اور چھائیوں میں استعمال کرنا مفید ہے۔ معمولی چوٹ میں چھال کو پانی میں پیس کر لیپ کر لینا کافی ہے۔ اس کی چھال سے بہترین کھاد بنائی جاتی ہے۔ بنگال (مدنا پور) میں اس کی چھال خاکی کپڑہ رنگنے میں کام آتی ہے۔ ارجن کی چھال کا سفوف دودھ یا پانی کے ہمراہ چو ٹ لگنے اور ہڈی ٹوٹنے میں کھلاتے ہیں۔ جب کے خون جمنے سے جلد پر سرخ یا نیلے رنگ کے داغ پڑ گئے ہوں۔ پتے تیل میں جلا کر کان میں ڈالنا کان درد کے لئے مفید ہے۔ پھل کا سفوف چار گرام ہمراہ پانی قبض کو کھولتا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون عام معلومات کے لیے ہے۔ قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ لیں۔

 copy paste from facebook


Total Pageviews