January 11, 2025

WATER & ITS USE IS MOST IMPORTANT IN OUR LIFE

 

 جس کو زیادہ پانی پینے کی عادت ہو وہ ہر بیماری سے دور ہے

اگر کوئی پانی زیاده پینے کی عادت بنا لے تو اس کو کبھی بخار نہ ہوگا کبھی السر نہ ہوگا کبھی کینسر نہ ہوگا کبھی چہرے اور جسم پر جھریاں نہ پڑیں گی, کبھی بلڈ پریشر لو یا ہائی نہ ہوگا
،اگر کسی کو جھریاں ہوں ، السر ہو,قبض , کینسر ہو،
وه پانی پینے کا استعمال زیاده کردے تو سب ٹھیک ہونا شروع ہو جاۓ گا
ڈاکٹروں نے علامتیں بنا کر پھیلا رکھی ہیں فلاں علامت ہے تو فلاں بیماری فلاں علامت ہے تو فلاں بیماری ہے
اور لوگ علامتوں کو پکڑ کر وہم کی طاقت سے بیمار بنے پھرتے ہیں
اگر کسی کو سر درد ، پیٹ درد، الٹیاں، پیچس، قبض ہوں یا بلڈ پریشر لو یا ہائی ہو تو ایک پاؤ دہی بغیر چینی کے کھا لے ،دس منٹ میں ٹھیک ہوجائے ہوگا۔
شوگر کوئی بیماری نہیں صرف وہم ہے لقمان حکیم کا کہنا ہے ہر بیماری کا علاج ہے وہم کا علاج نہیں شوگر کوئی بیماری نہیں اور شوگر کے نام سے ڈاکٹر جو دوا دیتے ہیں وہ زہر کا کام کرتی ہے اور ہر قسم کی کمزوری پیدا کرتی ہے
شوگر کی کوئی دوا نہیں ڈاکٹر کہتے ہیں شوگر ٹھیک کرنے کی کوئی دوا نہیں جس کو شوگر ہو اس میں چربی بڑھ جاتی ہے جس سے ہاٹ اٹیک کا خطرہ ہوتا ہے ڈاکٹر ہاٹ اٹیک سے بچانے کے لئے چربی پگھلانے کی دوا دیتے ہیں تاکہ ہارٹ اٹیک نہ ہو جسم کے حصوں کا سوکھنا زخموں کا ٹھیک نہ ہونا انسولین نہ بننا شوگر سے نہیں بلکہ چربی پگلانے والی دوائی کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن اگر کوئی دوا استعمال نہ کریں نہ کوئی پرہیز کریں اور ہلکی پھلکی ورزش پی ٹی کریں تو شوگر کی علامت بھی ختم ہو جائیں گی ہر میٹھی چیز جسم میں قرار پکڑتی ہے صرف میٹھا چھوڑنے سے ہی جسم میں کمزوری ہونا شروع ہوجاتی ہے اور شوگر کی دوائی کھانے والے تیزی سے موت کی طرف بڑھتے ہیں یہ دوائی سلو پوائزن کا کام کرتی ہے اس سے چربی پگھلتی ہے انسان تو خود چربی کا بنا ہوا ہے شوگر ہر ایک کو ہوتی ہے کیوں کہ یہ بیماری ہی نہیں ہے۔۔۔
بیماری کی وجه کیا ہے
جب پانی کم پیا جاتا ہے تو نسیں تنگ ہو جاتی ہیں، خون گاڑھا ہو جاتا ہے
جس سے جسم میں گرمی پیدا ہوتی ہے
اور بخار ہوتا ہے، السر ہوتا ہے جسم اور چہرے پر جھریاں پڑنے لگتی ہیں جسم میں سوجن پیدا ہوتی ہے
خون کی گردش میں رکاؤٹ پیدا ہوتی ہے جس سے بلڈ پریشر لو اور ہائی ہوتا ہے
خون کی گردش میں رکاؤٹ کی وجه سے مرگی، فالج، هارٹ اٹیک ہوتا ہے قبض رہتی ہے
خون کی گردش میں رکاؤٹ کی وجه خون کا قطره کسی جگہ گردش سے رک جاتا ہے اور کینسر بن جاتا ہے۔
یه سب اور بھی بیماریاں پانی کم پینے سے ہوتی ہیں اور پانی زیاده پینے کی عادت ڈال کر ان بیماریوں کو ختم کر سکتے ہیں زیادہ پانی پینے کی عادت ﮈال لیں تو کوئی بیماری نہ لگے گی
جو بیمار ہیں وہ ٹھیک ہونے لگیں گے
زیادہ پانی اس طرح پیئیں جب پانی پیئیں تھوڑا زیادہ پیئیں بہت دیر ہوگئی پیاس بھی نہ ہو تو دو گھونٹ پانی پی لیں ہر 30 سے 40 منٹ کے بعد
اگر کسی کو جوڑوں کا درد یا مہروں کا درد ہو یا پولیو یا گھاٹیا ہو یا فالج کا اثر ہو تو ایسا نسخہ ہے جو نہ کوئی ڈاکٹر دے گا نہ حکیم
بہت سستا اور آسان نسخہ ہے .
ھوالشافی!
2 لونگ ۔
4 لہسن کی تورئاں ،
3چمچ چینی۔
2 کپ پانی میں ڈال کر پکائیں جب ایک آدھا کپ رہ جائے تو اتار لیں اور پی لیں جو پکا ہوا لونگ لہسن ہو اس کو کھالیں۔
10 دن ضرور کریں۔
لیکن پہلے ہی ٹھیک ہوجائیں گے ۔ان شاءاللہ
 
 Copied from Face Book Wall Madni Matab

SINDH DELTA & MENGROZ FORSTS

 


دریائے سندھ کا ڈیلٹا اور تیمر، مینگروز کے جنگلات
اکثر کہا جاتا ہے کہ دریا کا خاطر خواہ پانی سمندر میں کیوں ضایع کر دیا جاتا ہے؟ یا پھر یہ پانی سمندر میں چھوڑنا کیوں ضروری ہے؟
اس کا جواب سمجھنے کے لیئے پہلے ڈیلٹا کو سمجھنا ضروری ہے اس کے بعد تیمر، مینگروز کے جنگلات کو۔۔
ڈیلٹا وہ تکونی جگہ ہے جو دریا کے سمندر میں گرنے والے دہانے کے پاس دریا کی سست رفتاری کے باعث بن جاتی ہے وہ زمین جو کہ دریا درمیان میں چھوڑ کر چھوٹی چھوٹی شاخوں میں بہتا ہوا سمندر میں جا گرتا ہے اس کو یونانی حرف ’’دیلتا‘‘ کی مناسبت سے ڈیلٹا کہا جاتا ہے۔ ہر دریا ڈیلٹا نہیں بناتا جو جھیل سے ہو کر آئیں وہ اپنی لائی ہوئی مٹی اور ریت وہیں ڈال آتے ہیں۔ اس طرح جن دریاؤں کے دہانوں پر آئے دن مدوجزر پیدا ہوتے رہتے ہیں وہ بھی ڈیلٹا نہیں بناتے۔ سست رو دریا جو میدانوں سے اپنے ساتھ مٹی لاتے ہیں وہی ڈیلٹا بناتے ہیں۔ ڈیلٹا کی زمین بڑی زرخیز ہوتی ہے جس پر تیمر اور چمرنگ (مینگروز Mangroves) کے قدرتی جنگلات اگتے ہیں۔ یہ مٹی کے بہاؤ کو روکتے ہیں اس کے علاوہ ان میں سونامی لہروں تک کی مسابقت کرنے کی طاقت ہوتی ہے۔ اگر صرف تیمر، مینگروز اور اس سے متعلق ماحولیاتی نظام کا جائزہ لیا جائے، تو دنیا بھر میں ان جنگلات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اور جنہیں ان کی اہمیت کا پتا ہے وہ ان جنگلات کو پھپھڑوں سے تشبیہ دیتے ہیں اور بھلا اپنے پھیپھڑے کون کھونا چاہتا ہے۔
دریائے سندھ، دریائے نیل، اوری نیکو، دریائے ڈینیوب، دریائے والگا، دریائے فرات اور دریائے گنگا ڈیلٹا بناتے ہیں۔
دریائے سندھ کے ڈیلٹا پر ان قدرتی جنگلات کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ بہت سی آبی حیات اپنی زندگی کا خاصا حصہ ان ہی علاقوں میں گزارتی ہیں۔ ان میں مچھلیاں، کیکڑے اور خول دار جانور ( جھینگا) وغیرہ شامل ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق دریائے سندھ کے ڈیلٹا کے علاقے میں موجود تیمر کے جنگلات سے جو مختلف قسم کی مچھلیاں حاصل کی جاتی ہیں، ان کی مالیت قریباً بیس ملین یا دو کروڑ ڈالر سالانہ ہے۔
انہی علاقوں سے چھوٹا جھینگا بھی خاصی مقدار میں حاصل کیا جاتا ہے اور اس کی مالیت کا تخمینہ ستر ملین یا سات کروڑ ڈالر ہے جبکہ اس کی برآمدی قیمت اس سے بھی ڈیڑھ گنا بڑھ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ کیکڑے کی برآمد سے بھی کوئی تیس لاکھ ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے اور یہ سب علاقائی اقتصادیات کے لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ جنگلات یہاں کی بیشتر دیہی آبادی کے لیے گھریلو ایندھن کا بھی کام دیتے ہیں اور اندازہ ہے کہ ان سے اٹھارہ ہزار ٹن ایندھن جلانے کی لکڑی حاصل ہوتا ہے ،جس کی مالیت کا اندازہ چار لاکھ ساٹھ ہزار ڈالر سالانہ ہے ۔ تیمر کی لکڑی کے علاوہ اس کے پتے اور ٹہنیاں بھی گائے بھینسوں او بھیڑ بکریوں کے لیے چارے کے طور پر استعمال ہوتی ہیں ،اس طرح اگر تیمر سے علاقائی ماحول اور معاشیات کو ہونے والے فوائد کو دیکھا جائے، تو کہا جاسکتا ہے کہ کوئی 67000 ٹن پتیاں اور بیس ہزار ٹن گھاس ( چاول جو گھاس کی شکل میں اگتے ہیں) وغیرہ ہر سال مویشیوں کے چارے کے طور پر حاصل ہوتا ہے اور اس کی مالیت کا اندازہ ساڑھے تیرہ لاکھ ڈالر ہے۔
پاکستان کے ساحلی علاقوں میں جہاں یہ قدرتی جنگلا ت موجود ہیں قریباً بارہ لاکھ افراد آباد ہیں، ان میں سے نوے ہزار افراد صرف دریائے سندھ کے ڈیلٹا کے علاقے میں بستے ہیں۔ اس دیہی آبادی میں سے ایک لاکھ پینتیس ہزار سے زیادہ افراد اپنی ضروریات زندگی تیمر اور ان سے متعلق ذرائع سے حاصل کرتے ہیں۔
جب دریا میں پانی نہیں چھوڑا جائے گا تو اس کا سیدھا نقصان ڈیلٹا کے سوکھنے اور تیمر اور مینگروز کے جنگلات کے خاتمے کی صورت میں ہو گا۔ پاکستان کے ارباب اختیار نے طویل عرصے سے اس مسئلے پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔
حال ہی میں ہوئے ایک مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ ان علاقوں میں تیمر کو پہنچنے والے نقصانات سے کوئی ایک لاکھ پینتیس ہزارنفوس کا روزگار متاثر ہوا ہے اور یوں ایندھن، چارہ اور ساحلی اور آبی حیات کے نقصانات کا سالانہ انداز اٹھارہ لاکھ ڈالر کے قریب ہے۔ ان علاقوں سے صرف مچھلی کی برآمدی مالیت ساڑھے بارہ کروڑ ایک سو پچیس ملین ڈالر ہے، جو موجودہ حالات میں ایک بڑا نقصان تصور کیا جاتا ہے۔ انڈس ڈیلٹا میں لاکھوں ایکڑ رقبے پر تیمر کے جنگلات واقع تھے، تا ہم میٹھے پانی کے اخراج میں کمی کا اثر ان پر پڑا ہے اور اندازہ کیا جاتا ہے کہ ان جنگلات کی تعداد میں 50 فی صد سے زائد کمی ہوئی ہے۔
1978ء میں ڈیلٹا کا کل مجموعی رقبہ جو تیمر کے درختوں سے ڈھکا ہوا تھا، وہ دو لاکھ 63 ہزار ہیکٹر تھا، جو 90 کی دہائی کے اختتام تک سمٹ کر صرف ایک لاکھ 58 ہزار 300 مربع ہیکٹرز تک رہ گیا تھا اور اب تک یہ باقی ماندہ رقبہ بھی مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔
1998ء میں سٹیلائٹ کی مدد سے کیے گئے ایک مشاہدے کے نتیجے میں یہ معلوم ہوا تھا کہ ڈیلٹا کے علاقے میں تیمر کے جنگلات کم ہو کر 4لاکھ ایکڑ رہے گئے ہیں۔ ان میں سے بھی صرف ایک لاکھ 25 ہزار ایکڑ پر واقع درخت بہتر حالت میں تھے جبکہ مزید ایک لاکھ 25ہزار ایکڑ پر مشتمل جنگلات زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا تھے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ 1999ء میں زیر یں سندھ میں آنے والا خوفناک سمندری طوفان صرف تیمر اور مینگروز کے جنگلات کی وجہ سے کراچی تک نہیں پہنچ پایا تھا۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق تیمر کے یہ جنگلات ڈیلٹا میں رہائش پذیر ایک لاکھ 20 ہزار نفوس کی ضروریات پوری کرنے کے لیے لکڑی اور اینڈھن فراہم کرتے ہیں۔
آبی حیات کی مختلف انواع کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ تیمر کے یہ جنگلات 44 اقسام کی تجارتی سمندری غذا کے لیے نرسری کا کام بھی انجام دیتے ہیں۔ اس علاقے میں ٹائیگر، شرمپ، پلہ مچھلی، ڈانگری، اور بڑا منڈی سمیت مختلف انواع، جو پہلے نہایت وافر مقدار میں پائی جاتی تھیں، اب ان کی تعداد دن بد دن کم ہو رہی ہے۔
یہ ہمارا اولین فرض ہے کہ دریا کو خاطر خواہ بہنے دیا جائے اور تیزی سے معدوم ہوتے ہوئے ان قدرتی جنگلات اور انواع و اقسام کے حامل خزانوں کو مزید دست برد ہونے سے بچایا جا سکے تا آنکہ ہم یہ ورثہ اور اثاثہ بلاشبہ آئندہ آنے والی نسلوں کو منتقل کر سکیں

 COPIED FROM FACEBOOK PAGE

Rising Pakistan

THE FOOD BASKET UNDER GREAT HAMILIYAN'S ARE POLLOUTED AREAS OF THE WORLD WHY ?

 


 

 

ہمالیہ کے نیچے اور سطح مرتفع دکن کے شمال میں زرخیز سبز زمین کی پٹی جو کہ ایک ارب سے زیادہ لوگوں کا گھر ہے دنیا کی بدترین ہوا سے بھرچُکی ہے۔ اسے کبھی دُنیا کی فُوڈ باسکٹ کہاجاتا تھا جو اب دُنیا کے لئے بھٹے کی چمنی بن چُکی ہے۔
سال 2024 کی فضائی درجہ بندی کے مطابق دُنیا کے 100 سب سے زیادہ فضائی آلودگی والے شہروں میں سے 84 صرف انڈیا میں ہیں۔
دُنیا کا سب سے زیادہ آلودہ فضا بھارت کی ریاست بہار کے صنعتی شہرBegusarai کی ہے جس کی AQI کی سالانہ اوسط بھی 118.9(مائیکروگرام فی کیوبک میٹر) ہے اور اس شہر میں 30 لاکھ لوگ رہتے ہیں۔
دُنیا میں سب سے صاف سُتھری فضا والا شہر فِن لینڈ کے دارلحکومت ہیلسنکی سے 500 کلومیٹر شمال میں واقع Kuusamo سٹی ہے جہاں کا AQI صرف 0.3 ہے۔
یہ سروے ایک سوئس ایئر کوالٹی کمپنی IQ Air نے کیا ہے جو دُنیا کے 134ممالک کے 7812 شہروں سے ایئر کوالٹی رپورٹ کرتی ہے۔
دُنیا کے دس سب سے زیادہ آلودہ فضا والے شہروں میں بھارت کا دارالحکومت نئی دہلی کا 92.7 مائیکرو گرام، پٹنہ 88.2، گوالیار 68.9، اور میرٹھ 78.9 انڈیکس کے ساتھ شامل ہیں جب کہ مزید چھ بنگلہ دیشی اور پاکستانی قصبے ہیں۔
لاہور پانچویں نمبر پر ہے، نئی دہلی سے بالکل اوپر، اور ڈھاکہ 24 ویں نمبر پر ہے -
عام طور پر ابھرتی ہوئی معیشتوں میں شہر وں کی ہوا صنعتی دھویں کی وجہ سے اعلیٰ ترین امیر ممالک کے مقابلے میں زیادہ دھواں دار ہوتی ہے، لیکن پاکستان-شمالی بھارت-بنگلہ دیش بیلٹ منفرد ہے جو زرعی علاقہ ہونے کے باوجود صنعتی معیشتوں سے زیادہ آلودہ ہے۔
ملاحظہ کیجئے کہ لاگوس اپنی ایئر کوالٹی کو 21.8 مائیکروگرام فی کیوبک میٹر ہوا پر رکھتا ہے، جو دہلی کی سطح کا پانچواں حصہ ہے۔ میکسیکو سٹی کا 22.3 مائیکروگرام اور استنبول کا 18.7 ہے۔ دیگر میں بنکاک 21.7، قاہرہ ایک گھنے 42.7، شنگھائی 28.7، اور ساؤ پالو 14.3 شامل ہیں۔یہ سب صنعتی معیشتیں ہیں لیکن اپنی فضا کو ہماری زرعی معیشت والے شہروں بھی صاف رکھتے ہیں۔
امریکی شہروں اور قصبوں کی قومی سطح پر ائیر کوالٹی اوسط 9.1 مائیکروگرام، جرمنی کے 9.0 مائیکروگرام اور ارجنٹائن کے 9.2 کے درمیان اور امیر ممالک کی درمیانی رینج میں رہی۔
بڑے امریکی شہر شکاگو کے نسبتاً دھواں دار 13.0 مائیکروگرام والی ہواسے لے کر صحرائی ٹکسن کی 3.8 تک، پورٹو ریکو کے سان جوآن نے 2.7 مائیکروگرام ریڈنگ کے ساتھ اس سال دنیا کے صاف ترین فضائی دارالحکومت کے طور پر IQ Air کا اعزاز حاصل کیا ہے۔
پنسلوانیا میں کوراپولس نے 19.3 مائیکرو گرام پر بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا، لیکن بنیادی طور پر بد قسمتی سے کوراپولس براہ راست جون کے کینیڈا کے جنگل کی آگ کے دھویں کے راستے میں تھا، جب کہ اس کی 2022 کی درجہ بندی صرف 7.2 مائیکروگرام تھی۔
یورپ میں، براعظمی فضائی آلودگی کی سب سے زیادہ درجہ بندی مونٹی نیگرو میں پلیولجا کو 40.7 مائیکروگرام فی کیوبک میٹر پر ہے۔ (یہ کوئلے کی کان اور یوگوسلاو دور کے پاور پلانٹ کے قریب ہے۔)۔
مغربی نصف کرہ کی سب سے اوپر ریڈنگ چلی کے پہاڑی قصبے Coyhaique میں 33.2 مائیکرو گرام ہے۔ اگرچہ یہ امریکی اور "ترقی یافتہ-عالمی شہر" کے معیار کے مطابق پھر بھی دھواں دار ہیں۔



#zafariqbalwattoo

Total Pageviews