June 26, 2022

رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کا حکم اللہ پاک کی طرف سے ہے ۔ خلاف ورزی پر


میرے ایک  کولیگ ایک سرکاری ادارے میں اچھی پوسٹ پر ہیں۔ تنخواہ لاکھوں میں ہے۔ ایک بڑے شہر میں ایک گھر اور تین دکانیں کرائے پر دے رکھی ہیں۔ اپنے ایک بچے اور بیوی کے ساتھ ایک اچھی کالونی میں اپنے ذاتی گھر میں  رہائش ہے۔ بیوی شوقیہ کسی کالج میں پڑھاتی تھی، پچیس ہزار کے قریب اس کی تنخواہ بھی تھی۔ سب کچھ بہترین چل رہا تھا۔
ہمارا وہ کولیگ ایک خدا ترس آدمی ہے اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا رہتا ہے۔ اس کی بیوی کو کسی طرح معلوم ہو گیا کہ وہ کئی سالوں سے اپنے رشتہ داروں میں دو بیوہ بوڑھی خواتین اور ان کے یتیم بچوں کی کفالت کر رہا ہے۔ اس بات پر اس کی بیوی نے لڑائی شروع کر دی کہ مجھے بتائے بغیر تم اتنے پیسے ان پر کیوں لٹا رہے ہو۔
شوہر نے اسے سمجھایا کہ اللہ کا دیا سب کچھ ہے ہمارے پاس۔ آپ لوگوں کی تمام جائز ضرورتوں کو پورا کرنے کے بعد بھی کافی بچ جاتا ہے۔ اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اور پھر اپنے ہی رشتہ داروں پر خرچ کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ لیکن بیوی اسی بات پر اڑی رہی کہ اپنا پیسہ رشتہ داروں پر لٹانا بند کرو۔ بات اتنی بڑھی کہ بیوی نے اسی بات پر خلع کا دعویٰ دائر کر دیا۔ اس کی بیوی کے ایک بھائی سے میری کافی اچھی سلام دعا ہے۔ اس نے مجھے اس معاملے کو سلجھانے کے لیے کہا۔ میں نے ایک اور دوست کو ساتھ لیا اور اس کے بھائی سے ملے۔ اس نے کہا کہ میں خود بھی سمجھا چکا ہوں۔ میری بات کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ اب یہ کرتا ہوں کہ  امی ابو کی موجودگی میں بہن سے  ہم سب مل کر بات کر لیتے ہیں۔ اللہ کرے کے یہ گھر اجڑنے سے بچ جائے۔ ہم سب ان کے گھر ملے۔ ان کا چھوٹا سا گھر تھا جس میں تین بھائی اپنے درجن بھر بچوں اور والدین کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ لڑکی سے ہم نے پوچھا کہ شوہر سے کیا شکایت ہے اور اس کے ازالے کی کوئی صورت ممکن ہے؟
کہنے لگی کہ وہ اپنی ساری آمدن اپنے رشتہ داروں پر لٹا دیتا ہے۔ یہی شکایت ہے مجھے۔
میں نے پوچھا کہ کیا آپ کی ضروریات کا خیال نہیں رکھتا ہے؟
کہنے لگی کہ رکھتا ہے۔
ہمارے بزرگ دوست نے پوچھا کہ کیا آپ کو پیسے کی تنگی دیتا ہے کہ آپ کسی چیز کے لیے کہو یا پیسوں کا کہو اور وہ منع کر دے؟
کہنے لگی کہ نہیں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ میرے کہے بغیر ہی میرے اکاؤنٹ میں اتنے پیسے بھیج دیتا ہے کہ مجھے کبھی کہنا ہی نہیں پڑا۔ شاپنگ بھی ساری کرواتا ہے۔
ہم نے کہا کہ پھر جو بچ جائے اس پر آپ کو اعتراض کیوں ہے۔ وہ اپنی مرضی سے جہاں بھی خرچ کرے۔
کہنے لگی کہ ایسے کیسے میں اسے رشتہ داروں پر لٹانے دوں۔
میں نے پوچھا کہ اچھا جو آپ کی تنخواہ ہے کیا آپ اسے دے دیتی ہویا اس کی مرضی سے خرچ کرتی ہو؟
ایک دم اونچی آواز میں بولی کہ وہ میری کمائی ہے تو اپنی کمائی اسے کیوں دونگی؟ وہ میری ہے تو اپنی مرضی سے ہی خرچ کروں گی۔
اس کے بعد ہم نے اسے کافی سمجھایا کہ آپ کی جائز ضروریات پوری کرنا شوہر کا فرض ہے لیکن اس کی ساری کمائی پر آپ کا حق نہیں ہے۔ اس کو پورا استحقاق ہے کہ وہ اس میں سے اللہ کی راہ میں اور اپنے دوسرے رشتہ داروں پر، غریبوں رشتہ داروں پر جیسے چاہے خرچ کرے۔ لیکن اس کا تھا کہ مجھے ایسے شخص کے ساتھ نہیں رہنا جسے اپنی تنخواہ دوسرے رشتہ داروں پر لٹانے کا شوق ہو۔ اس میں اس کی والدہ اس کا ساتھ دے رہی تھیں۔
جب کسی بھی طرح بات نہ بنی تو ہم نے اسے اٹھتے ہوئے کہا کہ خلع لینے کی صورت میں ان ساری مراعات سے محروم ہو جاؤ گی جو ابھی تمہیں حاصل ہیں۔ والدین کا گھر بھی چھوٹا ہے تمہارے لیے یہاں رہنا بہت مشکل ہوگا۔ علیحدگی کے بعد اپنے قریبی بھی آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ لیکن اس کا یہی تھا کہ میں خود کماتی ہوں، میں اپنا خیال خود رکھ سکتی ہوں۔
ہم نے اپنے کولیگ کو بھی کہا کہ فی الحال ان کا کوئی اور انتظام کر لو۔ ہم ان کی کفالت کا ذمہ لے لیتے ہیں۔ آپ گھر بچا لو۔ لیکن اس کا یہی تھا کہ اصل بات تو یہ ہے کہ میں اپنی آمدن پر بھی اپنا حق نہیں رکھتا ، یہ تو ایسے سمجھتی ہے کہ میں شوہر نہیں اس کا غلام ہوں کہ جو کماؤں اس کے ہاتھ پر لا کر رکھ دوں اور پھر جیسے وہ کہے ویسے خرچ کروں۔ وہ اپنی کٹی پارٹیز پر لاکھوں اڑا دے تو کوئی مسئلہ نہیں لیکن میں اپنے غریب رشتہ داروں کی کفالت کروں تو طوفان آجائے۔ میری کوئی بھی غلطی ہے تو بتائیں لیکن غلط بات نہیں مان سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اور بھی کئی لوگوں نے کوشش کی۔ عدالت نے بھی مصالحت کی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوئی۔ بالآخر خلع کی صورت میں ہی انجام ہوا۔ بچے کا خرچ باپ دیتا رہا۔ کچھ دن والدین کے گھر رہی۔ وہاں بھابیوں نے نوکرانیوں جیسا سلوک کیا تو قریب ہی ایک گھر کرائے پر لیا۔ لاکھوں والے ٹھاٹھ پچیس ہزار میں کہاں پورے ہونے تھے۔ ہمارے کولیگ نے کچھ عرصے بعد دوسری شادی کر لی۔ اس کا گھر پھر سے بس گیا جب کہ اس عورت کی حالت دیکھتا ہوں تو ترس آتا ہے۔ خود بھی رل گئی اور اپنے بچے کو بھی رول دیا۔ کچھ عرصے بعد باپ بچے کو اپنے پاس لے بھی آئے تب بھی ویسے حالات تو نہیں ہو سکتے جیسے اس کی اپنی ماں کے اس گھر میں ہونے سے اس کو ملنے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔
چند سال قبل تک ہمارے معاشرے میں طلاق کو انتہائی معیوب چیز سمجھا جاتا تھا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر پچھلے کچھ عرصے میں اس میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ تعلیم و روزگار کی وجہ سے عورتوں میں خود اعتمادی کے نام پر پیدا ہونے والا غرور بھی ہے۔ عدالتوں میں خلع کے کیس دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ اتنی چھوٹی چھوٹی  باتوں پر کیس کیے ہوئے ہیں۔ اس میں زیادہ تر انا اور غرور کا دخل ہے۔ رہی سہی کسر میڈیا پر چلنے والے ڈراموں نے پوری کر دی ہے۔ اس معاشرے میں اکیلے مرد کے لیے رہنا ایک عذاب ہے ، عورت تو پھر عورت ہے۔ خدارا اپنے گھروں کو خراب نہ کیجیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

June 14, 2022

لاوا پک رہا ہے. احمد جمال نظامی

 
لاوا پک رہا ہے.....؟

احمد جمال نظامی
لاوا پک رہا ہے اور کب پھٹ پڑے، کچھ کہا نہیں جاسکتا لیکن اسکی ہولناکی معمولی نہ ہوگی، یہ بات اظہر من الشمس ہے! آخر ایک دو دن کی بات نہیں، پون صدی پر محیط مظالم ہیں، قوم کو ایک سوچی سمجھی ذہنیت کیساتھ آگے بڑھنے سے روکا گیا، 2015 میں سندھ کے شہر نوشہرو فیروز کے علاقہ ٹھارو شاہ میں چند روز قیام کرنے کا اتفاق ہوا، علاقہ مکینوں میں سے بہت کم لوگوں کو اردو میں بات کرنا آتی تھی، حتیٰ کے اردو میں بات سمجھنے والے بھی خاصے کم تھے، ٹھارو شاہ کی ایک مسجد میں حیدر آباد سے ریٹائر ماسٹر صاحب نماز پڑھنے آیا کرتے، ان سے علاقہ کی سیاسی صورتحال کے بارے میں بات چیت ہوتی رہی، وہ پیپلز پارٹی کو دل سے انتہائی ناپسند کرتے تھے مگر پیپلز پارٹی کے پکے ووٹر تھے، 
ان سے ہمت کر کے دریافت کیا: جناب اس امر میں کیا راز پنہاں ہے کہ آپ جس جماعت کے خلاف ہیں، ووٹ بھی اسی کو دیتے ہیں؟ ماسٹر صاحب نے سر تا پاؤں غصے سے مجھے گھورنے کے بعد جواب دیا کہ اندرون سندھ میں عوام کا ذریعہ معاش دوسرے شعبوں کی نسبت زراعت سے براہ راست منسلک ہے اور یہاں زرعی زمینوں کے مالکان کی اکثریت ان وڈیروں اور جاگیر داروں کی ہے جو پیپلز پارٹی کے ٹکٹ ہولڈرز ہیں، ان کے علاؤہ عوام کے پاس کوئی متبادل نہیں کیونکہ عوام تعلیم یافتہ نہیں اور نہ ہی نسل نو کو تعلیم کے ذرائع دستیاب ہیں، لہذا یہ وڈیرے عوام کو سالانہ راشن، عید و دیگر تہواروں پر کپڑے، زندہ رہنے کیلئے ضروری خرچہ، خدانخواستہ بیمار ہونے پر ادویات وغیرہ لے دیتے ہیں، 
سر ڈھانپنے کیلئے چھت بھی زرعی زمینوں میں مہیا کر دیتے ہیں، کیا حکومت یہ وسائل سندھ کے عوام کو فراہم کرسکتی ہے یا کوئی دوسری جماعت؟ ماسٹر صاحب کے اس سوال نے مجھے لاجواب کردیا، میں ٹھارو شاہ کے تاحد نگاہ پھیلے خوبصورت کیلے کے باغات اور ان میں سے پنجاب کی نسبت انتہائی کشادہ نہری کھالہ جات کو دیکھتا رہ گیا، جب اس علاقے میں داخل ہوا تو دیہات سے تھوڈا دور چھوٹے سے مگر گنجان آباد شہر کے گھروں اور قطار در قطار انکی چھتوں پر نصب ڈش انٹیناز کے بعد ماسڑ صاحب کی گفتگو نے لاجواب اور ورد حیرت میں ڈبو دیا تھا، سارا دن ٹھارو شاہ میں کوئی لوکل یا قومی اردو اخبار تلاش کر کر بھی حاصل نہ ہوسکا، آخر ایک اخبار فروش سے ملاقات ہوئی، جس نے بتایا کہ پورے قصبہ میں صرف ایک انگریزی اور تین اردو اخبارات آتے ہیں،
 ٹھارو شاہ کے دیہی علاقوں کی سڑکیں کارپیٹ روڈز تھیں، شہر کے بازار اور سیون شریف تک ایک آدھی ٹوٹی پھوٹی سڑک کے علاؤہ سب کشادہ اور بہتریں لیکن سرکاری سکولوں اور ہسپتالوں کا سراغ نہ مل سکا، اتنا معلوم ہوا کہ چھوٹی موٹی ڈسپنسریاں موجود ہیں، البتہ ایمرجنسی کی صورت میں نوشہرو فیروز جانا پڑتا ہے، دیہی ٹھارو شاہ میں عوام کو ایک سوچی سمجھی ذہنیت کیساتھ آگے بڑھنے سے روکا گیا تھا، یہ واضح طور پر عوام کے رہن سہن، سوچ، فکر اور محدود وسائل سے جھلک رہا تھا، اس علاقہ میں بیتے دنوں کی جب بھی یاد آتی ہے تو ایک مخصوص ذہنیت سے گھن آنے لگتی ہے.
 جو اتنے سادہ، خالض اور کشادہ دل لوگوں کو آگے بڑھنے سے نہ صرف دور رکھتی ہے بلکہ مواقعے حاصل کرنے کے شعور سے بھی کوسوں دور رکھے ہوئے ہے، ہم ان حالات کا وسطی پنجاب، سندھ، کے پی کے کے بڑے شہروں سے موازنہ کریں تو اندورنی کہانی زیادہ مختلف نہیں نظر آئے گی، علامتی طور پر حکمرانوں نے ہر صوبے کے بڑے شہروں میں چند ایک بڑی یونیورسٹیوں کو قائم کر رکھا ہے، نئی یونیورسٹیوں کا دائرہ کار دیگر شہروں تک وسیع نہیں کیا جارہا، آبادی کے پھیلاؤ کے تناسب سے نئے سرکاری سکول قائم نہیں کیے گئے اور نہ ہی قائم کیے جارہے ہیں، اگر شہروں کے مضافاتی علاقوں میں نئی ہاؤسنگ سوسائٹیاں تعمیر ہورہی ہیں تو متوسط اور پہلے سے وہاں موجود غریب عوام کو تعلیمی اور صحت کی سہولیات فراہم کرنا بھی تو حکومت کا کام ہے، 
یہ سوچنا تو درکنار نئے شہر خاموشاں تک قائم نہیں کیے جارہے، سرکاری ہسپتالوں کا عالم یہ ہے کہ ضلعی ہیڈ کوارٹرز بڑی دور کی بات ہیں، 200 سے 300 کلومیٹر دور سے مسافت کر کے عوام بڑے شہروں کے ہسپتالوں کا رخ کرنے پر مجبور ہیں اور وہاں سہولیات کا کیا معاملہ ہے، کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں، شاید اسی لیے ہمارے حکمران گھانسی آنے پر بھی اپنی ذات گراں قدر کیلئے بیرون ممالک کا رخ کر لیتے ہیں جبکہ دوسری طرف اشرافیہ کے پروردہ یا خود اشرافیہ تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کو اپنے کاروباری نیٹ ورک میں لاتے چلے جارہے ہیں 
لیکن یہ غریب اور متوسط کی دسترس سے دور ہیں، اسے سوچی سمجھی حکمت عملی کا نام نا دیا جائے تو کیا کہا جائے، حقیقی طور پر نظر آتا ہے کہ عام پاکستانی کو ان بنیادی ضروریات میں اتنا الجھایا جارہا ہے کہ وہ ذہنی ترقی اور سوچ و فکر کے اس معیار تک نہ پہنچ پائے، جہاں سے قوموں، معاشروں اور مملکتوں کی ترقی کا ارتکا ہوتا ہے، ہم میں سے بیشتر احباب جانتے ہیں کہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نہیں چاہتے کہ ترقی پذیر ممالک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوسکیں، لہذا طے شدہ حکمت عملی کے تحت ایسی شرائطِ ایسے حکمرانوں سے طے کی جاتی ہیں جو رعایا کو کبھی عوام نہ بننے دیں، ان دنوں بھی وطن عزیز مہنگائی کی اس نہیج پر کھڑا ہے جہاں غریب، متوسط طبقہ کسی بھی عملی کاوش سے محروم ہے، اس کو اتنا زیر عتاب رکھا گیا ہے کہ وہ اپنے غم و غصہ کا اظہار کرنے سے بھی عاری ہے،
 سیاسی گفتگو چند لوگوں کیلئے فیشن ہے، عام پاکستانی کو ایک مخصوص سیاسی تربیت کے زیر سایہ معاشرے میں پرورش دیکر اس غلط اصطلاح پر قائل کر دیا گیا ہے کہ اپنی جماعت کو تبدیل نہیں کیا جاتا، لہذا وہ کارکردگی کو بنیاد بنانے کی بجائے جہالت کو اکثر نظریہ مان کر اس کی گردان کرتا ہے،
 تاہم اس تناظر میں موجودہ وقت میں عوام کا مزاج بدلا ہوا ہے، عوامی جذبات ابل رہے ہیں اور وہ معاشرتی انصاف کے خواہاں ہیں، مہنگائی اور اشرافیہ کے ظلم نے اسے آخری حد تک بیزار کر دیا ہے، گویا موجودہ حالات قیامت خیز ہیں، کسی خطرناک طوفان کا عندیہ دے رہے ہیں، پالیسی ساز، سول و ملٹری بیوروکریسی نوشتہ دیوار پڑھیں، معاشرے میں عدم برداشت بڑھ رہی ہے، نفرتوں کے بازار پہلے ہی گرم ہیں، لاوا پک رہا ہے اور کب پھٹ پڑے، کچھ کہا نہیں جاسکتا.

 

June 13, 2022

Electrice Vehicles VS Petrol, Diesel Vehicles

 
*ڈاکٹر عطاء الرحمن کا انقلاب کو دستک دیتا کالم*

*اگلے 8 سال میں دنیا میں کہیں بھی کوئی نئی پٹرول یا ڈیزل کی موٹر گاڑیاں، بسیں، یا ٹرک فروخت نہیں کئے جائیں گے۔*
*پورے خطے کا نظام نقل وحمل برقی گاڑیوں پر منتقل ہو جائیگا نتیجتاً تیل کی قیمتوں میں شدید کمی پیٹرولیم کی صنعت کی تبا ہی کا باعث بنے گی۔*
*ساتھ ہی موٹر گاڑیاں اوربسیں بنانے کی وہ صنعتیں تباہ ہو جائیں گی جنہوں نے اس جدید صنعتی انقلاب کو اختیار کرنے میں دیر کی خام تیل کی قیمت 25 ڈالر فی بیرل سے بھی کم ہوجائے گی. پٹرول اسٹیشنوں کو تلاش کرنا مشکل ہو جائے گا اور لوگ اپنی گاڑیوں کے مقابلے میں کرائے کی گاڑیوں پرسفر کرنے کو ترجیح دیں گے۔*
*موٹرگاڑیاں بنیادی طور پر "بھاگتےہوئے کمپیوٹر" بن جائیں گی*
*اسقدر تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیا ں موٹر گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کی بقا کیلئے خطرہ بن رہی ہیں کیونکہ انہیں اب اس کمپنی کے مقابلے میں برقی گاڑیاں تیار کرنے پر توجہ دینی پڑےگی۔*
پروفیسر شبا کی رپورٹ نے بین الاقوامی موٹر گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں اور تیل پیداواری ممالک میں شدید بے چینی کو جنم دیا ہے۔
اس طرح تیل پیدا کرنے والے *عرب ممالک دوبارہ غربت کے اندھیروں میں ڈوب جائیں گے جیسےوہ 1950 تک گھرے ہوئے تھے* افسوس کہ وہ تاریخ سے سبق لینے میں بالکل ناکام ہیں۔ بجائے اس کے کہ کوریا، فن لینڈ اور د یگر ممالک کی طرح مضبوط علم پر مبنی معیشت قائم کرتے ، انہوں نےاپنی تمام دولت آرام و آسائش یا مغر ب سےحاصل شدہ ہتھیاروں کوخریدنے میں لٹا دی ہے۔
*اسی دوڑ کی اہم ترین پیش رفت نئی قسم کی بیٹری ٹیکنالوجی ہے جس کی بدولت گاڑیاں طویل فاصلے طے کر سکتی ہیں اور بیٹری کو بار بار چارج نہیں کرنا پڑتا۔*
*گزشتہ ہفتے ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ اب بیٹریوں کو دو منٹ میں چارج کیاجاسکتا ہے۔* یہ بیٹری کے اندر کا الیکٹرو لائٹ فوری طور پر تبدیل کرکے کیا جاتا ہے۔یعنی آئندہ پیٹرول اسٹیشن کی جگہ ایسے بیٹری اسٹیشن قائم ہو جائینگے جہاں پیٹرول ڈلوانے کے بجائے آپ بیٹری کے پانی کو تبدیل کیا کریں گے ان کو ’فلو بیٹریز‘ کا نام دیا گیا ہے اور یہ طریقہ جامعہ پرڈیوکے پروفیسر نے ایجاد کیا ہے ۔ برقی موٹر گاڑیوں کی قیمت کا تقریبا 40 فیصد بیٹریوں پر مشتمل ہے لہٰذا اب کم قیمت اور زیادہ طاقتور بیٹریاں بنانے پر زور دیا جا رہاہے
۔بین الاقوامی اطلاعات کے مطابق ان بیٹر یو ں سےبجلی کی پیداوار فی کلو واٹ گھنٹے کی قیمت 2012 میں 542 ڈالرسے کم ہوکر اب صرف 139 ڈالر ہو گئی ہے اور 2020تک 100ڈالر فی کلو واٹ گھنٹہ تک پہنچنےکی امید ہے۔
*برقی موٹرگاڑیاںj پیٹرول سے چلنے والی گاڑیوں کے مقابلے میں شاندار کارکردگی کی حامل ہوتی ہیں جو سینکڑوں کلومیٹر کا فاصلہ منٹوں میں طے کرسکتی ہیں* اور بیٹری ایک ہی چارج میں تقریبا 650 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرسکتی ہے ۔ برقی موٹر گاڑیوں کی قیمتیں کافی تیزی سے کم ہو رہی ہیں --
2022 تک سب سے کم قیمت برقی موٹر گاڑی کی قیمت 20,00امریکی ڈالر تک ہو جائیگی ۔اس کے بعد پیٹرول کی گاڑیا ں جلد ہی نا پید ہو جائیں گی۔
پروفیسر شبا کی ایک اور پیشں گو ئی کے مطا بق 2025 تک تمام نئی چار پہیوں پر چلتی گاڑیاں عالمی سطح پر بجلی سے چلیں گی چین اور بھارت جدت کی اس نئی لہر کی دوڑ میں شامل ہو گئے ہیں۔
بھارت کا منصوبہ ہے کہ 2032 تک تمام پیٹرول اور ڈیزل کی گاڑیاں ختم کر دی جائیں۔ بھارت میں فوسل تیل سےچلنے والی گاڑیو ں اور تمام پٹرول اور ڈیزل کاروں پر مرحلہ وار پابندی عائد کرنے کا عمل تیز کیا جارہا ہے۔
چین2025 تک 70 لاکھ برقی گاڑیوں کی سالانہ پیدا وارکا ارادہ رکھتا ہے ۔ اس وقت ہم تاریخ کے اس باب کا مشاہدہ کر رہے ہیں جو جدت طرازی کی بہت بڑی تاریخی مثال ثابت ہوگاکہ کس طرح جدت طرازی کے ذریعے موٹر گاڑیوں کی صنعت اور پیٹرولیم صنعتوں پر زوال آیا او ر کس طرح بہت سی قومی معیشتیں تباہ ہوئیں۔
ڈاکٹر عطاء الرحمٰن

 

June 12, 2022

احسان فراموش

احسان فراموشی

 کسی زمانے میں ایک بادشاہ تھا جس نے دس جنگلی کتے پالے ہوئے تھے۔ اس کے وزیروں میں سے جب بھی کوئی وزیر غلطی کرتا بادشاہ اسے ان کتوں کے آگے پھنکوا دیتا کتے اس کی بوٹیاں نوچ نوچ کر مار دیتے۔ ایک بار بادشاہ کے ایک خاص وزیر نے بادشاہ کو غلط مشورہ دے دیا جو بادشاہ کو پسند نہیں آیا اس نے فیصلہ سنایا کہ وزیر کو کتوں کے آگے پھینک دیا جائے۔

وزیر نے بادشاہ سے التجا کی کہ حضور میں نے دس سال آپ کی خدمت میں دن رات ایک کئے ہیں اور آپ ایک غلطی پر مجھے اتنی بڑی سزا دے رہے ہیں۔ آپ کا حکم سر آنکھوں پر لیکن میری بے لوث خدمت کے عوض مجھے آپ صرف دس دنوں کی مہلت دیں پھر بلاشبہ مجھے کتوں میں پھنکوا دیں۔ بادشاہ یہ سن کر دس دن کی مہلت دینے پر راضی ہو گیا۔

وزیر وہاں سے سیدھا رکھوالے کے پاس گیا جو ان کتوں کی حفاظت پر مامور تھا اور جا کر اس سے کہا کہ مجھے دس دن ان کتوں کے ساتھ گزارنے ہیں اور ان کی مکمل رکھوالی میں کرونگا۔ رکھوالا وزیر کے اس فیصلے کو سن کر چونکا لیکن پھر اجازت دے دی۔ ان دس دنوں میں وزیر نے کتوں کے کھانے پینے اوڑھنے بچھونے نہلانے تک کے سارے کام اپنے ذمے لیکر نہایت ہی تندہی کے ساتھ سر انجام دیئے۔ دس دن مکمل ہوئے بادشاہ نے اپنے پیادوں سے وزیر کو کتوں میں پھنکوایا لیکن وہاں کھڑا ہر شخص اس منظر کو دیکھ کر حیران ہوا کہ آج تک نجانے کتنے ہی وزیر ان کتوں کے نوچنے سے اپنی جان گنوا بیٹھے تھے اور آج یہی کتے اس وزیر کے پیروں کو چاٹ رہے ہیں۔

بادشاہ یہ سب دیکھ کر حیران ہوا اور پوچھا کیا ہوا آج ان کتوں کو۔۔۔؟ وزیر نے جواب دیا بادشاہ سلامت میں آپ کو یہی دکھانا چاہتا تھا میں نے صرف دس دن ان کتوں کی خدمت کی اور یہ میرے ان دس دنوں میں کئے گئے احسانات بھول نہیں پا رہے اور یہاں اپنی زندگی کے دس سال آپ کی خدمت کرنے میں دن رات ایک کر دیئے لیکن آپ نے میری ایک غلطی پر میری ساری زندگی کی خدمت گزاری کو پس پشت ڈال دیا۔


بادشاہ کو شدت سے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔۔۔

سبق:- اکثر دیکھا گیا ہے کہ انسان اپنے خدمت گزاروں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا کرتا ہے. مگر جا نوروں میں اسکے برعکس ہے کہ جب کوئی انسان کسی جانور کی خدمت کرتا ہے تو جانور اسے فراموش نہیں کر پاتا جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کسی چھوٹے سے بچے کے احسان کو بھی آخری دم تک یاد رکھیں ۔۔ کیا یہ ممکن ہے۔۔۔؟؟

 

 

June 04, 2022

Struggle, Aim for do Something Makes Life Easier


امریکا کے ایک اولڈ پیپلزہوم میں خوفناک بیماریوں کے شکار بوڑھے رہتے تھے


*انسان، عمر کے کسی بھی حصے میں ہو، اگر زندگی کا مقصد واضح ہو تو زندگی کتنی آسان اور خوبصورت ہوتی ہے۔ یہ تجربہ امریکا کے ایک اولڈ پیپلزہوم* *میں ہوا اور اس نے پوری دنیا کی *نفسیاتی شکل تبدیل کر دی، ہم میں سے زیادہ تر لوگ اس تجربے اور اس کے نتائج سے واقف نہیں ہیں چناں چہ ہماری زندگی میں امن، کامیابی اور خوشی نہیں، ہم اگر آج بے مقصدیت کے اس المیے کو سمجھ جائیں تو ہماری لائف کی شکل تبدیل ہو جائے۔*

*امریکا کے ایک اولڈ پیپلزہوم میں خوفناک بیماریوں کے شکار بوڑھے رہتے تھے، یہ چند مہینوں کے مہمان بوڑھے تھے، اس اولڈ پیپلزہوم میں آنے والے تمام مہمان جانتے تھے یہ اب زیادہ عرصے تک دنیا کی رونقیں نہیں دیکھ سکیں گے، اولڈ ہوم کا سٹاف بھی ان مہمانوں کی منزل سے واقف تھا، یہ بھی ان مریضوں کی دل و جان سے کیئرکرتا تھا لیکن پھر یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے ان مہمانوں پر ایک نفسیاتی تجربہ کیا، یہ پودوں کے چند گملے لے کر ہوم میں پہنچا، اس نے بوڑھے مریضوں کے دو گروپ بنائے اوریہ پودے دونوں گروپوں میں تقسیم کر دئیے۔*

*پروفیسر نے ایک گروپ کو بتایا یہ پودے آپ کی ذمہ داری ہیں، ان کو پانی دینا، دھوپ میں رکھنا، ان کو کھاد دینا، ان کی گوڈی کرنا، ان کو سردی اور گرمی سے بچانا اور ان کو کیڑوں، مکھیوں اور پرندوں سے محفوظ رکھنا آپ لوگوں کی ڈیوٹی ہے جب کہ دوسرے گروپ سے کہاگیا ہم نے یہ پودے محض آپ کے کمرے میں رکھ دیے ہیں، آپ چاہیں تو ان کی ذمہ داری اٹھا لیں، نہ چاہیں تونہ اٹھائیں۔*

*پروفیسر نے پودے حوالے کیے اور دونوں گروپوں کی سرگرمیوں کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ گروپ ون کے بوڑھوں نے پودوں کی “ٹیک کیئر” شروع کر دی، ان میں سے کچھ بابوں اور مائیوں نے گملوں کو پانی دینا شروع کر دیا، کچھ ان کی گوڈی کرتے تھے، کچھ ان میں کھاد ڈالتے تھے، کچھ انہیں موسموں سے بچاتے تھے اور کچھ انہیں مکھیوں، مچھروں اور پرندوں سے محفوظ رکھتے تھے۔-*

*پروفیسر نے مریض بوڑھوں کی جسمانی صورت حال کو بھی تبدیل ہوتے دیکھا، اس نے دیکھا پودے ملنے سے قبل یہ لوگ سارا دن بستر پر گزارتے تھے، یہ چڑچڑے اور بدمزاج بھی تھے اور یہ معمولی معمولی باتوں پر غصے سے بھی بھڑک اٹھتے تھے لیکن پودے ملنے کے بعد ان کا مزاج تبدیل ہونے لگا، ان کا مزاج خوش گوار ہو گیا، یہ ایک دوسرے کے ساتھ اور طبی عملے کے ساتھ شائستگی سے گفتگو کرنے لگے، انہیں پہلے کے مقابلے میں بھوک بھی زیادہ لگنے لگی، یہ بستر سے اتر کر چہل قدمی بھی کرنے لگے اور ان کا دوائوں پربھی انحصار کم ہونے لگا۔

*ان کے دردوں میں بھی کمی آگئی اور یہ جسمانی لحاظ سے بھی فٹ ہو گئے جب کہ ان کے مقابلے میں دوسرے گروپ کے لائف سٹائل میں کوئی فرق نہیں آیا، یہ لوگ اسی طرح سارا سارا دن بستر پر پڑے رہتے تھے اور طبی عملے اور ساتھی مریضوں کے ساتھ جھگڑتے بھی تھے، یہ سلسلہ ایک سال تک چلتا رہا، پروفیسر نے سال کے بعدجب دونوں گروپوں کی شیٹ بنائی تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا گروپ ون کے لوگ گروپ ٹو کے مریضوں سےجسمانی اور طبی لحاظ سے بھی اچھے تھے اور ان کے مرنے کی شرح بھی کم تھی۔*

*پروفیسر نے دیکھا گروپ ٹو کے 30 فیصد مریض گروپ ون کے مریضوں اور بوڑھوں کے مقابلے میں جلد فوت ہو گئے۔ یہ ایک حیران کن سٹڈی تھی جس کے آخر میں پروفیسر نے نتیجہ نکالا گروپ ون کے بوڑھوں کو زندگی کا مقصد مل گیا تھا جب کہ گروپ ٹو کے مریضوں کے پاس زندگی کا کوئی مقصد نہیں تھاچناں چہ ان کی طبی اور نفسیاتی صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔*

*پروفیسر کا کہنا تھا زندگی جب کسی دوسری زندگی کا بوجھ اٹھا لیتی ہے تو اس کی قوت، برداشت اور ہمت میں اضافہ ہو جاتا ہے، پہلی زندگی خوشگوار بھی ہو جاتی ہے اور مضبوط بھی۔ آپ اگر اپنی زندگی کو اس سٹڈی میں رکھ کر دیکھیں توآپ کو اپنی تمام کوتاہیوں، خرابیوں، کمیوں اور ڈپریشن کا جواب مل جائے گا۔*

*ہماری زندگی میں جب کوئی مقصد، کوئی گول آجاتا ہے تو ہماری قوت مدافعت میں اضافہ ہو جاتا ہے، ہمارے جسم میں طاقت بھی آجاتی ہے اور ہمارا مزاج بھی خوش گوار ہو جاتا ہے اور ہم اگر بے مقصدیت کا شکار ہو جائیں، ہم یہ محسوس کرنے لگیں ہم نے جو کچھ کرنا تھا ہم نے کر لیا تو اس کے بعد ہم خود کو زمین کا بوجھ سمجھنے لگتے ہیں اور یہ سوچ ہمیں بستر مرگ تک پہنچا دیتی ہے۔ مقصد یا گول کی کمی ہمارے جسم، ہمارے دل اور ہمارے دماغ میں خلاء پیدا کر دیتی ہے، یہ خلاء ہمیں آہستہ آہستہ اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے اور یہ کھوکھلا پن بعدازاں مختلف بیماریوں اور مختلف عارضوں کا گھر بن جاتا ہے۔*

*آپ نے اکثر سرکاری ملازموں، فوجی جرنیلوں اور پولیس کے اعلیٰ عہدے داروں کو ریٹائرمنٹ کے بعد تیزی سے بوڑھا ہوتے دیکھا ہوگا، یہ لوگ سروس کے آخری دن تک ہشاش بشاش اور سمارٹ ہوتے ہیں، یہ قہقہے بھی لگاتے ہیں اور روز جاگنگ بھی کرتے ہیں لیکن آپ انہیں ریٹائرمنٹ کے ایک سال بعد دیکھیں توآپ کے لیے انہیں پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے۔*

*ان کی کمر جھکی ہوتی ہے، ان کی نظر خراب ہو چکی ہوتی ہے، یہ دل کے دو دو آپریشن کرا چکے ہوتے ہیں، یہ صبح، دوپہر اور شام پانچ پانچ گولیاں کھا تے ہیں اور یہ آیات کا حوالہ دے دے کر نوجوانوں کو ڈرا رہے ہوتے ہیں، قرآن مجید پڑھنا، نمازیں ادا کرنا، عمرے کرنا، داڑھی رکھنا اور شلوار قمیض پہننا انتہائی شان دار سرگرمی ہے لیکن اس شان دار سرگرمی کے لیے ریٹائرمنٹ کاانتظار کرنا ضروری نہیں ہوتا۔*

*آپ کو یہ تمام کام پندرہ سولہ سال کی عمر میں شروع کر دینے چاہییں لیکن ہمارے نوے فیصد بیوروکریٹس، فوجی افسر اور سول محکموں کے اعلیٰ عہدے داروں کو اس کا احساس ریٹائرمنٹ کے بعد ہوتا ہے، کیوں؟ اس کی وجہ فراریت ہے، یہ لوگ ریٹائرمنٹ تک ایکٹو ہوتے ہیں لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں اپنا آپ فضول اور بے مقصد محسوس ہونے لگتا ہے چناں چہ یہ موت سے بچنے کے لیے ہسپتالوں اور مسجدوں کا چکر لگانا شروع کر دیتے ہیں، یہ ڈاکٹروں اور مولویوں کے قابو میں آ جاتے ہیں، عمر کے اس حصے میں اگر انہیں جید عالم دین مل جائیں تو ان کی آخرت سنور جاتی ہے اور اگر یہ اس عمر میں کسی نیم پختہ عالم کے قابو آ جائیں تو انہیں وظائف اور عبادات میں بھی سکون نہیں ملتا۔*

*یہ زندگی میں مزید تنگ ہوجاتے ہیں لیکن آپ کو اس نوعیت کا ڈپریشن بل گیٹس اور مولانا بشیر احمد فاروقی جیسے لوگوں میں نہیں ملے گا، یہ لوگ بھی بوڑھے ہوتے ہیں لیکن یہ جوں جوں بوڑھے ہوتے ہیں، یہ پہلے سے زیادہ جوان، صحت مند اور ایکٹو ہو جاتے ہیں، کیوں؟ کیوں کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کا مقصد جوان ہو جاتا ہے اور یہ مقصد ان لوگوں کو اس قدر توانائی دیتا ہے جوان پر بڑھاپے کو نرم کردیتا ہے، یہ مزید سے مزید ایکٹو ہوتے جاتے ہیں۔*


*ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ بے مقصدیت ہے، ہم چھوٹے ہوتے ہیں تو ہماری زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہوتا، ہم بڑے ہو جاتے ہیں، ہم جوان ہو جاتے ہیں اور ہم بوڑھے ہو جاتے ہیں لیکن ہماری زندگی میں کوئی مقصد، کوئی گول نہیں آتا، ہم بچپن اور جوانی تعلیم میں صرف کر دیتے ہیں، یہ تعلیم ہمیں ڈگری دے دیتی ہے اور ہم اس ڈگری کی بنیاد پر نوکری بھی حاصل کر لیتے ہیں لیکن یہ نوکری، یہ ڈگری اور یہ تعلیم بھی ہماری زندگی کو با مقصد نہیں بناتی، یہ ہمارے جسم، ہمارے ذہن اور ہماری روح میں جذبے نہیں جگاتی چناں چہ ہم اس بے مقصدیت کی وجہ سے زندگی میں بور ہوتے رہتے ہیں۔*

*ہم پریشان اور چڑچڑے ہوتے جاتے ہیں، آپ نے اس ملک کے اکثر لوگوں کے چہرے پر ایک خاص قسم کی بے زاری دیکھی ہو گی، یہ بے زاری دراصل مقصد کی کمی ہے، ہم سب لوگ اندر سے خالی ہیں اس خلاء نے ہمیں ڈپریشن کا مریض بنا رکھا ہے، ہم ایک دوسرے سے الجھ بھی رہے ہیں، گولیوں اور ڈاکٹروں کے سہارے پر بھی چلے گئے ہیں۔*


*پاکستان میں دنیا میں سب سے زیادہ ادویات استعمال ہوتی ہیں، ہم میں سے ہر دوسرا شخص کوئی نہ کوئی گولی، کوئی نہ کوئی پڑیا اور کوئی نہ کوئی شربت پی رہا ہے اور ہم میں سے زیادہ تر لوگ عمر سے پہلے بوڑھے ہو رہے ہیں اور اس کی واحد وجہ مقصد کی کمی ہے۔*

*ہم نے آج تک اپنی ذاتی اور اپنی قومی زندگی کا کوئی مقصد طے نہیں کیا، مجھے یقین ہے ہم اگرآج اپنی زندگی کا کوئی مقصد طے کر لیں، یہ مقصد خواہ پھول اگانا اور اپنے ماحول کو صاف کرنا ہی کیوں نہ ہو یا روتے ہوئے بچوں کو ہنسانا ہی کیوں نہ ہوتو کل ہماری زندگی کی شکل تبدیل ہو جائے گی اورہم ڈاکٹروں سے بھی بچ جائیں گے،* *بڑھاپے سے بھی اور چڑچڑے پن سے بھی۔ ہماری زندگی عذاب نہیں رہے گی، زندگی ہو جائے گی

Total Pageviews